ایمان کی تکمیل مکمل اطاعت میں مضمر ہے ایمان والوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ ایمان میں پورے پورے داخل ہو جائیں تمام احکام کو کل شریعت کو ایمان کی تمام جزئیات کو مان لیں ، یہ خیال نہ ہو کہ اس میں تحصیل حاصل ہے نہیں بلکہ تکمیل کامل ہے ۔ ایمان لائے ہو تو اب اسی پر قائم رہو اللہ جل شانہ کو مانا ہے تو جس طرح وہ منوائے مانتے چلے جاؤ ۔ یہی مطلب ہر مسلمان کی اس دعا کا ہے کہ ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت کر ، یعنی ہماری ہدایت کو ثابت رکھ مدام رکھ اس میں ہمیں مضبوط کر اور دن بدن بڑھاتا رہ ، اسی طرح یہاں بھی مومنوں کو اپنی ذات پر اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کو فرمایا ہے اور آیت میں ایمانداروں سے خطاب کر کے فرمایا اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ ۔ پہلی کتاب سے مراد قرآن ہے اور اس سے پہلے کی کتاب سے مراد تمام نبیوں پر جو جو کتابیں نازل ہوئیں سب ہیں ۔ قرآن کے لئے لفظ نزل بولا گیا اور دیگر کتابوں کے لئے انزل اس لئے کہ قرآن بتدریج وقتاً فوقتاً تھوڑا تھوڑا کر کے اترا اور باقی کتابیں پوری پوری ایک ساتھ نازل ہوئیں ، پھر فرمایا جو شخص اللہ جل شانہ کے ساتھ اس کے فرشتوں کے ساتھ اس کی کتابوں کے ساتھ اس کے رسولوں کے ساتھ آخرت کے دن کے ساتھ کفر کرے وہ راہ ہدایت سے بہک گیا اور بہت دور غلط راہ پڑ گیا گمراہی میں راہ حق سے ہٹ کر راہ باطل پہ چلا گیا ۔
(1) ایمان والوں کو ایمان لانے کی تاکید، تحصیل حاصل والی بات نہیں بلکہ کمال ایمان اور اس پر استقرار و اثبات کا حکم ہے۔ جیسے (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ ) 001:005 کا مفہوم ہے۔
[١٨١] ایمان کے درجات :۔ اس آیت میں ایمان کا لفظ دو معنوں میں یا ایمان کے دو مختلف درجوں میں استعمال ہوا ہے۔ اٰمنوا کا مطلب یہ ہے، لوگو جو تم مومنوں کی جماعت میں شامل ہوچکے ہو۔ اور اٰمنوا کا مطلب یہ ہے کہ خلوص نیت سچے دل اور پختہ عزم اور سنجیدگی کے ساتھ ایمان لاؤ اور اپنی سوچ، اپنے عمل، اپنے رویہ، اپنے نظریات، اپنے مذاق، اپنے کردار، اپنی دوستی اور دشمنی، اپنی اغراض، اپنی جدوجہد غرض ہر چیز کو اس عقیدے کے مطابق بناؤ جس پر تم ایمان لائے ہو۔ تب ہی تم میں انصاف پر قائم رہنے کی صفت پیدا ہو سکے گی۔- [١٨٢] قرآن سے پہلے کی نازل شدہ کتاب یا کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ فی الواقع وہ کتاب بھی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ جو کچھ مواد ان میں آج کل پایا جاتا ہے وہ سب کچھ منزل من اللہ ہے اس آیت میں اور اسی طرح دیگر متعدد آیات میں ایمان بالغیب کے پانچ اجزا کا ذکر آیا ہے جو یہ ہیں اللہ پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، اس کے فرشتوں پر اور آخرت کے دن پر بن دیکھے ایمان لایا جائے۔ یعنی ان پر پختہ یقین رکھا جائے۔ ایمان بالغیب کا چھٹا جزو تقدیر پر ایمان ہے یعنی ہر طرح کی بھلائی اور برائی اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے اور یہ عقیدہ بھی قرآن ہی کی متعدد آیات سے مستنبط ہے۔ اگرچہ اس آیت میں مذکور نہیں۔- [١٨٣] کفر کے درجے :۔ جس طرح پہلی آیت میں ایمان کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوا ہے اسی طرح اس آیت میں کفر کا لفظ بھی دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک یہ کہ سرے سے مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہی نہ ہو اور ان سب امور مذکورہ کا انکار کر دے۔ دوسرے یہ کہ ایمان کا زبانی دعویٰ کر کے مسلمانوں میں شامل تو ہوجائے لیکن جو اثرات اس عقیدہ کے اس کی طبیعت پر مترتب ہونا چاہیے تھے وہ نہ ہوں۔ نہ ہی وہ اپنے طریق زندگی کو شرعی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔ ایسا ایمان بھی کچھ فائدہ نہ دے گا اور یہ سراسر گمراہی ہے۔
اٰمِنُوْا باللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۔۔ : یہاں ایمان والوں کو ایمان لانے کا حکم دیا جا رہا ہے، یعنی ایمان پر ثابت قدم رہو، یا اپنے ایمان میں اخلاص پیدا کرو، اس کے مخاطب تمام مومنین ہیں۔ بعض نے لکھا ہے کہ اس کے مخاطب اہل کتاب کے مومن ہیں، لیکن پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔ (فتح القدیر) قرطبی لکھتے ہیں، بعض کا خیال ہے کہ یہ خطاب منافقین سے ہے، ان کے بظاہر مسلمان ہونے کی وجہ سے ایمان والے فرما دیا اور معنی یہ ہے کہ جب تک دل میں کامل یقین پیدا نہیں کرو گے اور خالص اللہ کو نہیں مانو گے تو اللہ کے ہاں مسلمان نہیں ہوسکتے۔ - 2 پہلی کتابوں پر ایمان رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ بھی قرآن کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھیں۔ باقی رہا عمل تو وہ ان پر نہیں بلکہ قرآن مجید اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت پر کیا جائے گا۔ ان کتابوں میں جو چیز کتاب و سنت کے مطابق ہوگی اس کی تصدیق کی جائے گی اور جو ان کے خلاف ہوگی اسے رد کردیا جائے گا۔ - وَمَنْ يَّكْفُرْ باللّٰهِ ۔۔ : یعنی اگر ان میں سے کسی ایک چیز کا بھی انکار کیا تو گویا تمام چیزوں کا انکار کردیا۔
ربط آیات - اوپر زیادہ حصہ احکام فرعیہ کا مذکور اور ایمان و کفر کے مباحث کہیں کہیں معاملات مع المخالفین کے ضمن میں آگئے ہیں، آگے یہ مباحث قدرے تفصیل سے مذکور ہیں اور ختم سورت کے بالکل قریب تک چلے گئے ہیں، ترتیب بیان میں اول اس کا بیان ہے کہ شریعت میں ایمان معتبر کیا ہے، پھر کفار کے مختلف فرقوں کی مذمت عقائد میں بھی اور بعض اعمال میں بھی - خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو (یعنی جو مجملاً ایمان لا کر مومنین کے زمرہ میں داخل ہوچکے ہیں) تم (عقائد ضروریہ کی تفصیل سن لو کہ) اعتقاد رکھو اللہ کی (ذات وصفات کے) ساتھ اور اس کے رسول (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت) کے ساتھ اور اس کتاب (کے حق ہونے) کے ساتھ جو اس نے (یعنی اللہ تعالیٰ نے) اپنے رسول (یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نزل فرمائی اور ان کتابوں (کے حق ہونے) کے ساتھ (بھی) جو کہ (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے) پہلے (اور نبیوں پر) نازل ہوچکی ہیں (اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کتاب سابقہ پر ایمان لانے میں ملائکہ اور باقی انبیاء (علیہم السلام) اور یوم قیامت پر ایمان رکھنا بھی داخل ہوگیا) اور جو شخص اللہ (کی ذات یا صفات) کا انکار کرے اور اسی طرح جو) اس کے فرشتوں کا (انکار کرے) اور (اسی طرح جو) اس کی کتابوں کا (جس میں قرآن بھی آ گیا انکار کرے) اور (اسی طرح جو) اس کے رسولوں کا (جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی داخل ہیں انکار کرے) اور (اسی طرح جو) روز قیامت کا (انکار کرے) تو وہ شخص گمراہی میں بڑی دور جا پڑا، بلاشبہ جو لوگ (پہلے تو) مسلمان ہوئے پھر کافر ہوگئے پھر مسلمان ہوئے ( اور اس بار بھی اسلام پر قائم نہ رہے ورنہ پہلا ارتداد معاف ہوجاتا بلکہ) پھر کافر ہوگئے، پھر (مسلمان ہی نہ ہوئے ورنہ پھر بھی ایمان مقبول ہوجاتا بلکہ) کفر میں بڑھتے چلے گئے (یعنی کفر پر دم مرگ تک ثابت اور دائم رہے) اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہرگز نہ بخشیں گے اور نہ ان کو (منزل مقصود (یعنی بہشت کا) راستہ دکھائیں گے، (کیونکہ مغفرت اور جنت کے لئے موت تک مومن رہنا شرط ہے)
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰي رَسُوْلِہٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ٠ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِاللہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَكُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا ١٣٦- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی - صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔ - بعد - البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء 167] - ( ب ع د ) البعد - کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔
مومنوں کو ایمان لانے کا حکم دیا گیا - قول باری ہے یایھا الذین امنوا امنوباللہ و رسولہ۔ اے ایمان لانے والو ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر) اس کی تفسیر میں ایک قول ہے ” اے وہ لوگو جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے رسولوں پر ایمان لائے ہو اللہ پر اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لائو اور اس شریعت پر بھی جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی طرف سے لے کر آئے ہیں “۔ اس لئے کہ جب یہ لوگ انبیاء سابقین پر ان نشانیوں کی بنا پر ایمان لائے تھے جو ان انبیاء کے ساتھ آئی تھیں تو اسی علت کی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لانا ان پر لازم ہوگیا ہے۔ ایک اور جہت سے بھی ان کے لئے یہ لازم ہے کہ انبیاء سابقین کی کتابوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت موجود ہے اب جبکہ یہ لوگ ان انبیاء پر ایمان لے آئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان انبیاء نے جو خبریں دیں ان کی بھی انہوں نے تصدیق کی تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لائیں کیونکہ ان انبیائے کرام نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی خبریں دی تھیں۔ اس طرح آیت کے ذریعے ان لوگوں پر حجت قائم کردی گئی اور ان پر تمام حجت ہوگیا آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اس میں ان لوگوں سے خطاب ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھتے ہیں انہیں اس ایمان پر مداومت کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ واللہ اعلم۔- مرتد سے توبہ کا مطالبہ کرنا - ارشاد باری ہے ان الذین امنواثم کفرواثم امنو ثم کفرواثم ازدادوکفراً ۔ رہے وہ لوگ جو ایمان لائے پھر کفر کیا پھر ایمان لائے پھر کیا کیا پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے) ۔ قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں، یہود تو رات پر ایمان لے آئے پھر اس کی مخالفت کر کے کفر کا ارتکاب کرلیا اسی طرح یہ لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے اور ان کی مخالفت کر کے کفر میں مبتلا ہوگئے۔ یہی حالت نصاریٰ کی تھی کہ وہ انجیل پر ایمان لے آئے اور پھر اس کی مخالفت کر کے کفر کا ارتکاب کرلیا۔ سی طرح یہ لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کے بعد ان کی مخالفت کر کے کفر میں پھنس گئے پھر ان دونوں گروہوں نے قرآن مجید اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کر کے اپنے کفر میں اور اضافہ کرلیا۔ مجاہد کا قول ہے کہ آیت منافقین کے بارے میں ہے، پہلے یہ لوگ ایمان لے آئے پھر مرتد ہوگئے پھر ایمان لے آئے اور پھر مرتد ہوگئے اور اسی ارتداد کی حالت میں دنیا سے چل بسے بعض حضرات کا قول ہے کہ اس سے اہل کتاب کا ایک گروہ مراد ہے اس گروہ نے اہل اسلام کو شک میں مبتلا کرنے کی غرض سے یہ طریق کار اختیار کیا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان کا اظہار بھی کرتا اور انکار و کفر کا بھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے اس طریق کار کی اپنے اس قول میں وضاحت کردی ہے۔ وقالتہ الطالفۃ من اھل الکتاب امنوابالذی انزل علی الذین امنو وجہ النفاراکفروا اخرہ لعلھم یرجعون۔ اہل کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ اس نبی کے ماننے والوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے اس پر صحیح ایمان لائو اور شام کو اس سے انکار کر دو شاید اس ترکیب سے یہ لوگ اپنے ایمان سے پھرجائیں) ۔ ابوبکرحبصاص کہتے ہیں کہ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ مرتد جب تو بہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کرلی جائے اسی طرح زندیق کی توبہ بھی قابل قبول ہے کیونکہ آیت میں زندیق یعنی بےدین اور باطنی طور سے کافر اور دوسرے کافروں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ اسی طرح بار بار کفر کے بعد توبہ قبول کرلینے اور ایمان کے اظہار پر اس کے مومن ہونے کے حکم میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔- مرتد اور زندیق سے توبہ کا مطالبہ کرنے کے بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے امام ابوحنیفہ امام ابویوسف امام محمد اور زفر کا اصل یعنی مبسوط میں یہ قول ہے کہ مرتد سے جب تک توبہ کا مطالبہ نہ کرلیا جائے اسے قتل نہیں کیا جائے لیکن اگر کسی نے تو بہ کا مطالبہ کرنے سے پہلے کسی مرتد کو قتل کردیا تو اسے تاوان ادا کرنا نہیں پڑے گا۔ بشربن الولید نے امام ابویوسف سے اس زندیق کے بارے میں جو اسلام کا اظہار کرتا ہو یہ روایت نقل کی ہے ” امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ میں مرتد کی طرح اس سے بھی توبہ کا مطالبہ کرورں گا اگر یہ مسلمان ہوجائے تو اسے جانے دوں گا اور اگر اسلام لانے سے انکار کرے تو اس کی گردن اڑا دوں گا “۔ امام ابوحنیفہ کی اس رائے پر امام یوسف تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ” ایک عرصے تک امام ابوحنیفہ اسی رائے پر قائم رہے لیکن جب آپ نے زنادقہ کی حرکتیں دیکھیں اور انہیں ان حرکتوں کا اعادہ کرتے ہوئے دیکھا تو آپ نے اپنی رائے بدل لی اور فرمایا کہ اب میری رائے یہ ہے کہ اگر میرے پاس کوئی زندیق لایا جائے تو اس سے توبہ کا مطالبہ کئے بغیر اس کی گردن اڑا دینے کا حکم دوں گا “ اگر قتل ہونے سے پہلے پہلے وہ توبہ کرلے گا تو اسے جانے دوں گا “ سلیمان بن شعیب نے اپنے والد سے اور انہوں نے امام ابویوسف سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا ” جب زندیق یہ دعویٰ کرے کہ اس نے توبہ کرلی ہے تو میں اسے محبوس کردوں گا یہاں تک کہ مجھے اس کی توبہ کی حقیقت کا علم ہوجائے “۔- امام محمد نے سیرکبیر میں امام ابویوسف سے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے نقل کیا ہے کہ مرتد پر اسلام پیش کیا جائے گا اگر وہ اسلام قبول کرلے تو فبہا ورنہ اسی جگہ اس کی گردن اڑا دی جائے گی البتہ اگر وہ کچھ مہلت طلب کرے تو اسے تین دن کی مہلت دی جائے گی۔ امام محمد نے اس سلسلے میں کسی اختلاف کی نشاندہی نہیں کی ہے۔ ابوجعفر طحاوی نے کہا کہ انہیں سلیمان بن شعیب نے اپنے والد سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے امام ابویوسف سے فقہی اقوال کے نوادر میں جن کے متعلق ان کا بیان ہے کہ امام ابویوسف نے انہیں اپنے امالی (شاگردوں کو زبانی طور پر لکھوائے گئے مسائل) میں شامل کرلیا تھا درج ذیل قول نقل کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ ” زندیق کو خفیہ طور پر قتل کر دوکیون کہ اس کی توبہ کی کوئی شناخت اور حقیقت نہیں ہوتی “۔ امام ابویوسف نے اس قول سے کسی اختلاف کا ذکر نہیں کیا ابن القاسم نے امام مالک سے ذکر کیا ہے کہ مرتد پر تین دفعہ اسلام پیش کیا جائے گا۔ اگر وہ اسلام قبول کرلے گا تو ٹھیک ہے ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔ اگر اس نے خفیہ طور پر ارتداد اختیار کرلیا ہو تو اسے قتل کردیا جائے گا اور توبہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا جس طرح زنادقہ کے قتل کا مسئلہ ہے۔ توبہ کا مطالبہ تو صرف ایسے شخص سے کیا جائے گا جو اپنے اس دین کا اظہار کرتا ہو جسے اس نے اسلام چھوڑ کر اپنا لیا تھا۔ امام مالک کا قول ہے کہ زنادقہ سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ انہیں قتل کردیا جائے گا البتہ قدریہ (مسلمانوں کے ایک فرقے کا نام ہے جو خیر کی نسبت اللہ کی طرف کرتا تھا اور شر کی نسبت کسی اور کی طرف) فرقے سے تعلق رکھنے والوں سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا۔ امام مالک سے پوچھا گیا کہ ان سے توبہ کا کس صورت میں مطالبہ کیا جائے گا۔ آپ نے فرمایا :” ان سے کہا جائے گا کہ اپنے عقائد سے دست بردار ہو جائو اگر وہ ایسا کرلیں گے تو فبہا ورنہ انہیں قتل کردیا جائے گا۔ اگر یہ لوگ علم کا اقرار کرلیں گے تو انہیں قتل نہیں کیا جائے گا “۔ امام مالک نے زید بن اسلم سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من غیردینہ فاضر بواعنقہ۔ جو شخص اپنا مذہب تبدیل کرے اس کی گردن ماردو۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ حکم ان لوگوں کے متعلق ہے جو اسلام سے دست بردار ہوجائیں۔ اور اس کا اقرار نہ کریں ان لوگوں کے متعلق نہیں ہے جو یہودیت سے نکل کر نصرانیت میں داخل ہوگئے ہوں یا نصرانیت سے نکل کر یہودیت کو گلے لگا لیا ہو۔ امام مالک کا قول ہے کہ جب مرتد اسلام کی طرف لوٹ آئے تو اس کی گردن ماری نہیں جائے گی۔ یہ اچھا اقدام ہوگا کہ مترد کو تین دن تک مہلت دے دی جائے یہ بات مجھے بہت پسند ہے۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ مرتد سے توبہ کا مطالبہ ضرور کیا جائے گا خواہ اس نے اپنے طور پر سو مرتبہ کیوں نہ توبہ کرلی ہو۔ لیث کا قول ہے کہ لوگ ایسے لوگوں سے توبہ کا مطالبہ نہیں کرتے جو مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہوں اور پھر ان کے خلاف ارتداد کی گواہی قائم ہوگئی ہو۔ عادل گواہوں کی گواہی پر انہیں قتل کردیا جائے گا خواہ انہوں نے توبہ کرلی ہو یا نہ کی ہو۔- امام شافعی کا قول ہے کہ مرتد سے ظاہری طور پر توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا اسی طرح زندیق سے بھی اگر توبہ نہیں کرے گا تو قتل کردیا جائے گا۔ تین دفعہ توبہ کے مطالبہ کے سلسلے میں دو قول ہیں ایک تو حضرت عمر (رض) کی روایت ہے دوسرا قول یہ کہ اس میں تاخیر نہیں کی جائے گی کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بارے میں کسی قسم کے نرم رویے کا حکم نہیں دیا۔ یہ ظاہر حدیث ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ سفیان نے جابر سے اور انہوں نے شعبی سے روایت کی ہے کہ مترد سے تین مرتبہ توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا پھر انہوں نے آیت زیر بحث تلاوت کی۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ آپ نے مترد سے تین مرتبہ توبہ کا مطالبہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا من بدل دینہ فاقتلوہ) اس میں اس سے توبہ کے مطالبے کا ذکر نہیں ہے۔ البتہ اس روایت میں اس بات کا جواز موجود ہے کہ اسے اس پر محمول کیا جائے کہ وہ قتل کا مستحق ہوچکا ہے اور یہ بات اسے اسلام کی دعوت دینے اور توبہ کی طرف راغب کرنے میں مانع نہیں ہے کیونکہ قول باری ہے ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ۔ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ موعظت کے ذریعے بلائو) ۔ نیز ارشاد باری ہے قل ھذہ سبیلی ادعوا الی اللہ علی بصیرۃ انا ومن اتبعنی، اللہ نے دین اسلام کی طرف بلانے کا حکم دیا اور اس میں مرتد اور غیر مرتد کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا۔ ظاہر آیت تمام کافروں کو دعوت اسلام دینے کی طرح مترد کو بھی اس کی دعوت دینے کا مقتضی ہے مرتد کو دعوت اسلام دینے کا مطلب اس سے توبہ کا مطالبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قل للذین کفروا ان ینتھوا یغفرلھم ماقد سلف۔ آپ کافروں سے کہہ دیجئے کہ اگر وہ باز آجائیں تو ان کے پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے) یہ حکم ایمان کی دعوت دینے کو بھی متضمن ہے۔ اس آیت سے زندیق سے توبہ کے مطالبے پر بھی استدلال کیا جاتا ہے کیونکہ لفظ کا عموم اس کا متقاضی ہے۔ اسی طرح قول بارای ان الذین امنو اثم کفرواثم امنواثم کفروا) نے زندیق اور غیر زندیق میں کوئی فرق نہیں کیا۔ اس لئے ظاہر آیت اس کے اسلام کو قبول کرلینے کا متقاضی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری قل للذین کفروا ان ینتھوا یغفرلھم ماقد سلف) میں مرتد سے قتل کا حکم دور ہوجانے پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس کے سارے گناہ اگرچہ معاف ہوجائیں گے لیکن پھر بھی وہ واجب القتل ہوگا جس طرح محصن زانی تائب ہونے کے باوجود بھی رحم کردیا جائے گا اور کسی شخص کا قاتل توبہ کرنے کے باوجود قابل گردن زدنی ہوگا۔- اس کے جواب میں کہا جائے کہ قول باری ان ینتھوایغفرلھم ماقد سلف۔ اس کے گناہوں کی بخشش اور اس کی توبہ کی قبولیت کا مقتضی ہے کیونکہ اگر اس کی توبہ قابل قبول نہ ہوتی تو اس کے گناہوں کی بخشش بھی نہ ہوتی۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ اس سے توبہ کا مطالبہ درست ہے اور دنیا اور آخرت کے احکام کے لحاظ سے اس کی توبہ کی قبولیت بھی صحیح ہے نیز کافر اس بنا پر قتل کا سزا وار ہوتا ہے کہ وہ کفر پر قائم رہتا ہے لیکن جب وہ کفر کی حالت سے ایمان کی طرف منتقل ہوجاتا ہے تو اس سے وہ سبب زائل ہوجاتا ہے جو اس کے قتل کا موجب تھا اور اس کا خون بہانا ممنوع ہوجاتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایک شخص جو ارتداد کا کھلم کھلا اظہار کرتا ہے جب اسلام کا اظہار کرلیتا ہے تو وہ اپنے خون کو محفوظ کرلیتا ہے یہی کیفیت زندیق کی بھی ہے حضرت ابن عباس (رض) اس مرتد کے متعلق روایت کرتے ہیں جو بھاگ کر مکہ پہنچ گیا تھا۔ اس نے وہاں سے اپنے لوگوں کو لکھا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کرو کہ میرے لئے توبہ کی کوئی گنجائش ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کیف یھدی اللہ قوماً کفروا بعدایمانھم، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے سکتا ہے - جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے) تا قول باری الا الذین تابوا من بعد ذلک واصلحوا۔ مگر وہ لوگ جو اس کے بعد توبہ کرلیں اور اپنا رویہ درست کرلیں) اس مرتد کے رشتہ داروں نے اسے یہی لکھ بھیجا جس پر وہ واپس آکر مسلمان ہوگیا اس کے ظاہری قول پر توبہ کا حکم لگایا گیا اس لئے اس پر عمل کرتے ہوئے ایسے شخص کے باطن کو نظر انداز کر کے اس کے ظاہری قول پر حکم لگانا واجب ہوگیا۔ جو شخص یہ کہے کہ ” جب ایک شخص باطنی طور پر کافر ہو میں اس کی توبہ کو نہیں پہچانتا “۔ تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ ہم اس کے باطنی اعتقاد کی حقیقت کا اعتبار کرنے کے مکلف نہیں ہیں کیونکہ ہمیں کسی کے باطن تک رسائی نہیں ہوتی اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں کسی پر محض گمان کی بنیاد پر حکم لگانے کی ممانعت کردی ہے۔ چناچہ ارشاد باری ہے اجتنبوا کیثراً من الظن ان بعض الظن ثم۔ بہت سے گمانوں سے پرہیز کرو کیونکہ بعض گمان گناہ کے موجب ہوتے ہیں) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ایاکم وانص مانہ کذب الحدیث۔ گمان سے کام لینے سے بچو کیونکہ گمان سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے) ۔ ارشاد باری ہے ولاتقف مالیس لک بہ علم۔- جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو) نیز فرمایا اذاجاء کم المومنات مھا جو ات فامتنوھن اللہ اعلم بایمانھن۔ جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو ان کا امتحان لو، اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کے بارے میں بہتر جانتا ہے) ۔ یہ بات واضح ہے کہ آیت میں یہ مراد نہیں ہے کہ ان عورتوں کے ضمائر اور اعتقادات کے متعلق حقیقی طور پر علم حاص کرلیا جائے بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ ان کے قول کی بنا پر ان سے ایمان کا جو ظہور ہوجائے اس کا اعتبار کرلیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو علم قرار دیا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ دنیاوی احکام میں ضمائر یعنی دلوں میں پوشیدہ باتوں کا اعتبار نہیں کیا جاتا بلکہ اعتبار صرف قول کی بنا پر ظاہر ہونے والی باتوں پر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ولاتقولوانمن القی الیکم السلام لست مومناً ۔ جو شخص بڑھ کر تمہیں سلام کرے اس سے تم یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے) ۔ اس میں تمام کافروں کے لئے عموم ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت اسامہ بن زید (رض) جب انہوں نے اس شخص کو قتل کردیا تھا جس نے زبان سے کلمہ طیبہ کا اقرار کیا تھا، اور حضرت اسامہ (رض) نے اس کے اس کلمہ پڑھنے کو اپنی جان بچانے کے لئے ایک حیلہ پر محمول کیا تھا۔ فرمایا تھا ھلاشفقت عن قلبہ۔ تم نے اس کا دل پھاڑ کر کیوں نہیں دیکھ لیا) ۔ سفیان ثوری نے محمد بن اسحاق سے اور انہوں نے حاثہ بن مضرب سے روایت کی ہے کہ حارثہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ میرے دل میں عرب کے کسی شخص کے خلاف کوئی کینہ اور عداوت نہیں ہے میرا گزر بنی حنیفہ کی مسجد کے پاس سے ہوا تو میں نے دیکھا کہ یہ لوگ مسلیمہ کذاب پر ایمان رکھتے ہیں۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے آدمی بھیج کر ان لوگوں کو اپنے پاس بلوایا اور ان سے توبہ کا مطالبہ کیا۔ ان میں ابن النواحہ واحد شخص تھا جس سے حضرت عبداللہ (رض) نے توبہ کرنے کو نہیں کہا اور یہ فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ” ابن النواحہ، اگر تم ایلچی بن کر نہ آئے ہوتے تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا “۔ پھر ابن النواحہ سے مخاطب ہو کر فرمایا :” آج تم قاصد بن کر نہیں آئے لیکن یہ تو بتائو کہ تمہارا وہ اسلام کہاں گیا جس کا تم اظہار کرتے پھرتے تھے ” ابن النواحہ نے یہ سن کر کہا کہ میں تو صرف تم لوگوں سے بچنے کے لئے اسلام کا اظہار کرتا تھا۔- حضرت عبداللہ (رض) نے قرظہ بن کعب کو بازار میں لے جا کر اس کی گردن اڑا دینے کا حکم دیا پھر فرمایا ” جو شخص چاہے ابن النواحہ کو بازار میں کٹی ہوئی گردن کے ساتھ دیکھ لے “۔ اس روایت سے وہ استدلال کرتے ہیں جو زندیق کی توبہ کی عدم قبولیت کے قائل ہیں اس لئے کہ حضرت عبداللہ (رض) نے ان تمام لوگوں سے توبہ کا مطالبہ کیا اور انہیں اس کی ترغیب دی یہ لوگ کھلم کھلا اپنے کفر کا اظہار کرتے تھے لیکن آپ نے ابن النواحہ کو توبہ کی ترغیب نہیں دی اور نہ اس سے اس کا مطالبہ کیا کیونکہ اس نے یہ اقرار کرلیا تھا کہ وہ کفر چھپائے ہوئے تھا۔ وہ صرف اپنی جان بچانے کی خاطر اسلام کا اظہار کرتا تھا۔ ابن النواحہ کا قتل صحابہ کرام کی موجودگی میں ہوا تھا کیونکہ روایت میں اس کا بھی ذکر ہے کہ حضرت عبداللہ نے اس کے متعلق صحابہ کرام سے مشورہ لیا تھا۔ زہری نے عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت کی ہے کہ کوفہ میں کچھ ایسے لوگ پکڑے گئے جو مسلیمہ کذاب پر ایمان رکھتے تھے عبیداللہ نے ان کے متعلق حضرت عثمان (رض) کو لکھا، حضرت عثمان (رض) نے جواب میں تحریر کیا کہ ان لوگوں پر دین حق پیش کرو اور ان سے کلمہ طیبہ پڑھنے کا مطالبہ کرو جو شخص لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ : پڑھ لے اور مسیلمہ کے دین سے بیزاری کا اظہار کرے اسے چھوڑ دو اور قتل نہ کرو۔ اور جو شخص مسیلمہ کے مذہب پر قائم رہے اسے قتل کر دو کچھ لوگوں نے توبہ کا اظہار کیا اور لوگ مسیلمہ کے مذہب پر جمے رہے اور قتل کردیئے گئے۔- مومنوں کے علاوہ کفار سے مدد نہ لی جائے
(١٣٦) ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی یعنی وہ حضرات جو موسیٰ (علیہ السلام) اور توریت پر ایمان لائے ہیں وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم اور قرآن کریم سے سابقہ انبیاء پر جو کتابیں نازل کی گئی ہیں، ان پر ایمان لے آئیں اور جو اللہ تعالیٰ یا اس کے فرشتوں یا اس کی کتابوں یا اس کے رسولوں یا بعث بعد الموت کا انکار کرے تو وہ شخص گمراہی میں بڑا دور جا پڑا، جب یہ آیت نازل ہوئی تو یہ سب حضرت فی الفور اسلام میں داخل ہوگئے ،
آیت ١٣٦ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اٰمِنُوْا باللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ط) - ایمان والوں سے یہ کہنا کہ ایمان لاؤ بظاہر عجیب معلوم ہوتا ہے۔ اے ایمان والو ‘ ایمان لاؤ چہ معنی دارد ؟ اس کا مطلب ہے کہ اقرار باللّسان والا ایمان تو تمہیں موروثی طور پر حاصل ہوچکا ہے۔ مسلمان ماں باپ کے گھر پیدا ہوگئے تو وراثت میں ایمان بھی مل گیا ‘ یا یہ کہ جب پورا قبیلہ اسلام لے آیا تو اس میں پکے مسلمانوں کے ساتھ کچھ کچے مسلمان بھی شامل ہوگئے۔ انہوں نے بھی کہا : اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ ۔ اس طرح ایمان ایک درجے (اقرار با للّسان) میں تو حاصل ہوگیا۔ یہ ایمان کا قانونی درجہ ہے۔ پیچھے اسی سورة (آیت ٩٤) میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ اگر کوئی شخص راستے میں ملے اور وہ اپنا اسلام ظاہر کرے تو تم اس کو یہ نہیں کہہ سکتے ہو کہ تم مؤمن نہیں ہو ‘ کیونکہ جس نے زبان سے کلمۂ شہادت ادا کرلیا تو قانونی طور پر وہ مؤمن ہے۔ لیکن کیا حقیقی ایمان یہی ہے ؟ نہیں ‘ بلکہ حقیقی ایمان ہے یقین قلبی۔ اس لیے فرمایا : اے ایمان والو ایمان لاؤ اللہ پر۔۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لیے ہم اس آیت کا ترجمہ اس طرح کریں گے کہ اے اہل ایمان ایمان لاؤ اللہ پر جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے ‘ مانو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جیسا کہ ماننے کا حق ہے۔۔ اور یہ حق اسی وقت ادا ہوگا جب اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان دل میں گھر کر گیا ہو۔ جیسے صحابہ کرام (رض) کے بارے میں سورة الحجرات (آیت ٧) میں فرمایا گیا : (وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ) اللہ نے ایمان کو تمہارے نزدیک محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں مزینّ کردیا ہے۔ آگے چل کر اسی سورة (آیت ١٤) میں کچھ لوگوں کے بارے میں یوں فرمایا : (قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ط) یہ بدّ و لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہہ دیجیے کہ تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو ‘ ہاں یوں کہہ سکتے ہو کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں ‘ لیکن ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ چناچہ اصل ایمان وہ ہے جو دل میں داخل ہوجائے۔ یہ درجہ تصدیق بالقلب کا ہے۔ یاد رہے کہ آیت زیر مطالعہ میں دراصل روئے سخن منافقین کی طرف ہے۔ وہ زبانی ایمان تو لائے تھے لیکن وہ ایمان اصل ایمان نہیں تھا ‘ اس میں دل کی تصدیق شامل نہیں تھی۔ ( عربی زبان سے واقفیت رکھنے والے حضرات یہ نکتہ بھی نوٹ کریں کہ قرآن کے لیے اس آیت میں لفظ نَزَّلَاور تورات کے لیے اَنْزَلَ استعمال ہوا ہے ۔ )- (وَمَنْ یَّکْفُرْ باللّٰہِ وَمَلٰٓءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً م بَعِیْدًا ) - یہ تمام آیات بہت اہم ہیں اور مفہوم کے لحاظ سے ان میں بڑی گہرائی ہے ۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :166 ایمان لانے والوں سے کہنا کہ ایمان لاؤ بظاہر عجیب معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن دراصل یہاں لفظ ایمان دو الگ معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ ایمان لانے کا ایک مطلب یہ ہے کہ آدمی انکار کے بجائے اقرار کی راہ اختیار کرے ، نہ ماننے والوں سے الگ ہو کر ماننے والوں میں شامل ہو جائے ۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس چیز کو مانے اسے سچے دل سے مانے ۔ پوری سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ مانے ۔ اپنی فکر کو ، اپنے مذاق کو ، اپنی پسند کو ، اپنے رویے اور چلن کو ، اپنی دوستی اور دشمنی کو ، اپنی سعی و جہد کے مصرف کو بالکل اس عقیدے کے مطابق بنالے جس پر وہ ایمان لایا ہے ۔ آیت میں خطاب ان تمام مسلمانوں سے ہے جو پہلے معنی کے لحاظ سے ”ماننے والوں“ میں شمار ہوتے ہیں ۔ اور ان سے مطالبہ یہ کیا گیا ہے کہ دوسرے معنی کے لحاظ سے سچے مومن بنیں ۔