انصاف اور سچی گواہی تقوے کی روح ہے اللہ تعالیٰ ایمانداری کو حکم دیتا ہے کہ وہ عدل و انصاف پر مضبوطی سے جمے رہیں اس سے ایک انچ ادھر ادھر نہ سرکیں ، ایسا نہ ہو کہ ڈر کی وجہ سے یا کسی لالچ کی بنا پر یا کسی خوشامد میں یا کسی پر رحم کھا کر یا کسی سفارش سے عدل و انصاف چھوڑ بیٹھیں ۔ سب مل کر عدل کو قائم و جاری کریں ایک دوسری کی اس معاملہ میں مدد کریں اور اللہ کی مخلوق میں عدالت کے سکے جما دیں ۔ اللہ کے لئے گواہ بن جائیں جیسے اور جگہ ہے ( وَاَقِيْمُوا الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ ) 65 ۔ الطلاق:2 ) یعنی گواہیاں اللہ کی رضا جوئی کے لئے دو جو بالکل صحیح صاف سچی اور بےلاگ ہوں ۔ انہیں بدبو نہیں ، چھپاؤ نہیں ، چبا کر نہ بولو صاف صاف سچی شہادت دوچاہے وہ تمہارے اپنے ہی خلاف ہو تم حق گوئی سے نہ رکو اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرماں بردار غلاموں کی مخلصی کی صورتیں بہت سی نکال دیتا ہے کچھ اسی پر موقوف نہیں کہ جھوٹی شہادت سے ہی اس کا چھٹکارا ہو ۔ گو سچی شہادت ماں باپ کے خلاف ہوتی ہو گو اس شہادت سے رشتے داروں کا نقصان پہنچتا ہو ، لیکن تم سچ ہاتھ سے نہ جانے دو گواہی سچی دو ، اس لئے کہ حق ہر ایک پر غالب ہے ، گواہی کے وقت نہ تونگر کا لحاظ کرو نہ غریب پر رحم کرو ، ان کی مصلحتوں کو اللہ اعلیٰ و اکبر تم سے بہت بہتر جانتا ہے ، تم ہر صورت اور ہر حالت میں سچی شہادت ادا کرو ، دیکھو کسی کے برے میں آ کر خود اپنا برا نہ کر لو ، کسی کی دشمنی میں عصبیت اور قومیت میں فنا ہو کر عدل و انصاف ہاتھ سے نہ جانے دو بلکہ ہر حال ہر آن عدل و انصاف کا مجسمہ بنے رہو ، جیسے اور جگہ فرمان باری ہے ۔ ( وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا ۭاِعْدِلُوْا ۣ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ) 5 ۔ المائدہ:8 ) کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل کرنے پر آمادہ نہ کر دے عدل کرتے رہو یہی تقویٰ کی شان کے قریب تر ہے ، حضرت عبداللہ بن رواحہ کو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والوں کی کھیتیوں اور باغوں کا اندازہ کرنے کو بھیجا تو انہوں نے آپ کو رشوت دینا چاہی کہ آپ مقدار کم بتائیں تو آپ نے فرمایا سنو اللہ کی قسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تمام مخلوق سے زیادہ عزیز ہیں اور تم میرے نزدیک کتوں اور خنزیروں سے بدتر ہو لیکن باوجود اس کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں آ کر یا تمہاری عداوت کو سامنے رکھ کر ناممکن ہے کہ میں انصاف سے ہٹ جاؤں اور تم میں عدل نہ کروں ۔ یہ سن کر وہ کہنے لگے بس اسی سے تو زمین و آسمان قائم ہے ۔ یہ پوری حدیث سورہ مائدہ کی تفسیر میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے اگر تم نے شہادت میں تحریف کی یعنی بدل دی غلط گوئی سے کام لیا واقعہ کے خلاف گواہی دی دبی زبان سے پیچیدہ الفاظ کہے واقعات غلط پیش کر دئے یا کچھ چھپا لیا کچھ بیان کیا تو یاد رکھو اللہ جیسے باخبر حاکم کے سامنے یہ چال چل نہیں سکتی وہاں جا کر اس کا بدلہ پاؤ گے اور سزا بھگتو گے ، حضور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے بہترین گواہ وہ ہیں جو دریافت کرنے سے پہلے ہی سچی گواہی دے دیں ۔
135۔ 1 اس میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو عدل و انصاف قائم کرنے اور حق کے مطابق گواہی دینے کی تاکید فرما رہا ہے چاہے اس کی وجہ سے انہیں یا ان کے والدین اور رشتہ داروں کو نقصان ہی اٹھانا پڑے۔ اس لئے کہ حق سب پر حاکم ہے اور سب پر مقدم ہے۔ 135۔ 2 یعنی کسی مالدار کی وجہ سے رعایت نہ کی جائے نہ کسی فقیر کے فقر کا اندیشہ تمہیں سچی بات کہنے سے روکے بلکہ اللہ ان دونوں سے تمہارے زیادہ قریب اور مقدم ہے۔ 135۔ 3 یعنی خواہش نفس، عصبیت یا بغض تمہیں انصاف کرنے سے نہ روک دے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا) 005:008 تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ 135۔ 4 تلووا، لیی سے ماخوذ ہے جو تحریف اور جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کو کہا جاتا ہے۔ مطلب شہادت میں تحریف و تغیر ہے اور اعراض سے مراد شہادت کا چھپانا اور اس کا ترک کرنا ہے۔ ان دونوں باتوں سے بھی روکا گیا ہے۔ اس آیت میں عدل و انصاف کی تاکید اور اس کے لئے جن باتوں کی ضرورت ہے۔ ان کا اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مثلاً : ہر حال میں عدل کرو اس سے انحراف نہ کرو، کسی ملامت گر کی ملامت اور کوئی اور محرک اس میں رکاوٹ نہ بنے بلکہ اس کے قیام میں تم ایک دوسرے کے معاون اور دست بازو بنو۔ صرف اللہ کی رضا تمہارے پیش نظر ہو، کیونکہ اس صورت میں تم تحریف، تبدیل اور کتمان سے گریز کرو گے اور تمہارا فیصلہ عدل کی میزان میں پورا اترے گا۔ عدل و انصاف کی زد اگر تم پر یا تمہارے والدین پر یا دیگر قریبی رشتے داروں پر بھی پڑے، تب بھی تم پروا مت کرو اور اپنی اور ان کی رعایت کے مقابلے میں عدل کے تقاضوں کو اہمیت دو ۔ کسی مال دار کو اس کی تونگری کی وجہ سے رعایت نہ کرو اور کسی تنگ دست کے فقر سے خوف مت کھاؤ کیونکہ وہی جانتا ہے کہ ان دونوں کی بہتری کس میں ہے ؟ فیصلے میں خواہش نفس، عصبیت اور دشمنی آڑے نہیں آنی چاہئے۔ بلکہ ان کو نظر انداز کر کے بےلاگ عدل کرو۔ عدل کا یہ اہتمام جس معاشرے میں ہوگا، وہاں امن و سکون اور اللہ کی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوگا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم نے اس نکتے کو بھی خوب سمجھ لیا تھا، چناچہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ (رض) کی بابت آتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں خیبر کے یہودیوں کے پاس بھیجا کہ وہ وہاں کے پھلوں اور فصلوں کا تخمینہ لگا کر آئیں۔ یہودیوں نے انہیں رشوت کی پیشکش کی تاکہ وہ کچھ نرمی سے کام لیں۔ انہوں نے فرمایا " اللہ کی قسم میں اس کی طرف سے نمائندہ بن کر آیا ہوں جو دنیا میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور تم میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہو۔ لیکن اپنے محبوب کی محبت اور تمہاری دشمنی مجھے اس بات پر آمادہ نہیں کرسکتی کہ میں تمہارے معاملے میں انصاف نہ کروں۔ " یہ سن کر انہوں نے کہا " اسی عدل کیوجہ سے آسمان و زمین کا یہ نظام قائم ہے " (تفسیر ابن کثیر)
[١٧٨] انصاف کی گواہی کا تاکیدی حکم :۔ اپنے خلاف گواہی دینے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے جرم کا برملا اعتراف کرلے خواہ اس کا کتنا ہی نقصان برداشت کرنا پڑے اور یہ بڑا حوصلے اور اجر وثواب کا کام ہے۔ اپنے بعد سب سے قریبی والدین ہوتے ہیں پھر اس کے بعد دوسرے قرابت دار۔ اور ظاہر ہے کہ جو شخص اپنے خلاف گواہی دینے کی جرأت کرسکتا ہے وہ والدین اوراقرباء کے خلاف بدرجہ اولیٰ ایسی جرات کرسکے گا۔ اپنے خلاف گواہی دینے اور حق کی بات صاف صاف کہہ دینے سے بسا اوقات مخالف فریق پر بہت خوشگوار اثر پڑتا ہے اور اس کا دل از خود نرمی کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔- [١٧٩] دولت مند کے حق میں غلط گواہی اس لیے دی جاتی ہے کہ اس طرح گواہی دینے والا اس سے کوئی دنیوی مفاد حاصل کرسکے۔ اور غریب کے حق میں اس لیے کہ امیر کے مقابلہ میں غریب پر رحم اور ترس کھانا چاہیے اور اس طرح شاید اس کا کچھ بھلا ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ ان دونوں کا اللہ وارث ہے اور وہ ان دونوں کا تم سے زیادہ خیر خواہ ہے۔ ان کا بلکہ تمہارا اپنا بھی نفع و نقصان تمہارے ہاتھ میں نہیں۔ لہذا جو بھی صورت ہو گواہی تمہیں انصاف کے ساتھ بالکل ٹھیک ٹھیک اور اللہ سے ڈر کر دینی چاہیے۔- [١٨٠] گواہی میں ہیرا پھیری کی صورتیں :۔ شہادت کے وقت لگی لپٹی یا گول مول سی بات مت کرو جس سے کسی فریق کو نقصان پہنچ جائے۔ اور اس کی کئی صورتیں ہیں مثلاً مبنی برحق شہادت کا کچھ حصہ چھپایا جائے اور سمجھے کہ میں نے شہادت کے وقت جھوٹ نہیں بولا۔ تو یہ کتمان حق، جھوٹی شہادت سے بھی بڑا گناہ ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ گواہ کو واقعہ کا پورا پورا علم ہے لیکن وہ اس ترتیب سے توڑ موڑ کر اور ہیرا پھیری کر کے بیان کرے کہ بات کچھ کی کچھ بن جائے۔ اور اس کا مقصد کسی ایک فریق کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے جس سے دوسرے کو از خود نقصان پہنچ جاتا ہے اور بعض دفعہ گواہ کسی اپنے ذاتی مفاد کے لیے بھی ایسے کام کرنے لگتا ہے۔ یہ سب صورتیں عدل و انصاف اور تقویٰ کے خلاف ہیں۔- واضح رہے کہ اگر اس آیت کو ظاہری مفہوم میں لیا جائے تو اس کا وہی مفہوم ہے جو اوپر بیان ہوا ہے تاہم ( کونوا قوامین بالقسط) کے الفاظ اس سے وسیع تر مفہوم کے حامل ہیں۔ قوام، قائم سے مبالغہ کا صیغہ ہے اور قسط ایسا عام لفظ ہے جس میں دنیوی معاملات، خانہ داری، باہمی معاملات اور لین دین، اپنے اور بیگانے، کافر اور مومن ہر ایک سے انصاف کرنے کا حکم شامل ہے اور یہ صرف عدالت میں گواہی دینے تک محدود نہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے، اس سے ڈرتے ہوئے جو بات کرو انصاف کی کرو۔ نیک کو نیک اور بد کو بد کہو۔ بات کہو تو سچی کہو خواہ اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو رہا ہو یا اس کی زد تمہارے والدین یا کسی قریبی رشتہ دار پر پڑ رہی ہو۔ امیر اور غریب، کافر اور مومن کسی سے بھی رعایت نہ کرو بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی رعایت رکھو۔
كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بالْقِسْطِ ۔۔ : یعنی انصاف پر پوری طرح قائم رہ کر اللہ کے لیے گواہی دو ، چاہے وہ تمہارے خلاف ہی پڑے، یا والدین یا قرابت داروں کے اور اس میں تمہارا ذاتی نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ (ابن کثیر)- 2 اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اولاد کی شہادت ماں باپ کے خلاف قبول ہوگی اور یہ ان کے ساتھ ” بر “ یعنی احسان کے منافی نہیں ہے۔ والدین اور بھائی کی شہادت بھی سلف کے نزدیک مقبول ہے، مگر یہ اسی صورت میں ہے کہ جب وہ عادل ہوں اور ان پر تہمت نہ ہو۔ اسی تہمت کے پیش نظر بعض ائمہ نے میاں بیوی کی ایک دوسرے کے حق میں شہادت کو جائز رکھا ہے اور بعض نے رد کیا ہے۔ (قرطبی )- اِنْ يَّكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيْرًا ۔۔ : یعنی جس کے خلاف تمہاری گواہی پڑ رہی ہے وہ دولت مند ہے تب، اور غریب ہے تب، تم اللہ تعالیٰ اور اس کی شریعت سے بڑھ کر اس کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے، لہٰذا نہ تم دولت مند کی دولت مندی کی وجہ سے اس کی بےجا حمایت یا مخالفت کرو اور نہ غریب پر ترس کھا کر اس کی بےجا رعایت کرو، بلکہ ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق سچی گواہی دو ۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ غریب کی غربت تمہیں اس کی بےجا حمایت پر آمادہ کر دے، تم اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اس کے بندوں کے، خواہ وہ امیر ہوں یا غریب، نہ زیادہ خیر خواہ ہوسکتے ہو اور نہ زیادہ ان پر حق رکھنے والے۔ - وَاِنْ تَلْوٗٓا “ لوی یلوی لیاً (ض) ہیچ دینا یعنی اگر تم زبان کو پیچ دے کر اس طرح بات بنا کر پیش کرو کہ جس کے خلاف گواہی پڑنی چاہیے وہ بچ جائے ” اَوْ تُعْرِضُوْا “ یعنی گواہی دینے ہی سے پہلو بچاؤ، بلکہ چھپا جاؤ تو بیشک تم جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے اس سے پوری طرح باخبر ہے، اس کی پوری سزا اللہ کے ہاں پاؤ گے۔ یہ نہ سمجھنا کہ ہم نے صاف جھوٹ نہیں بولا تو جھوٹی گواہی کے گناہ سے بچ جائیں گے۔
خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو (تمام معاملات میں ادائے حق کے وقت بھی اور فیصلہ کے وقت بھی) انصاف پر خوب قائم رہنے والے (اور اقرار یا شہادت کی نوبت آوے تو) اللہ (کی خوشنودی کے لئے (سچی) گواہی (اور اظہار) دینے والے رہو، اگرچہ (وہ گواہی اور اظہار) اپنی ہی ذات کے خلاف ہو، (جس کو اقرار کہتے ہیں) یا کہ والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے مقابلہ میں ہو (اور گواہی کے وقت یہ خیال نہ کرو کہ جس کے مقابل ہمیں ہم گواہی دے رہے ہیں یہ امیر ہے اس کو نفع پہنچنا چاہئے تاکہ اس سے بےمروتی نہ ہو، یا یہ کہ یہ غریب ہے، اس کا کیسے نقصان کردیں، تم گواہی دینے میں کسی کی امیری غریبی یا نفع و نقصان کو نہ دیکھو، کیونکہ) وہ شخص (جس کے خلاف گواہی دینی پڑے گی) اگر امیر ہے تو اور غریب ہے تو، دونوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو زیادہ تعلق ہے (اتنا تعلق تم کو نہیں، کیونکہ تمہارا تعلق جس قدر ہے وہ بھی انہی کا دیا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کا جو تعلق ہے وہ تمہارا دیا ہوا نہیں، پھر جب باوجود قوی تعلق کے اللہ تعالیٰ نے ان کی مصلحت اسی میں رکھی ہے کہ گواہی میں حق بات کہی جائے خواہ اس سے وقتی طور پر کچھ نقصان بھی پہنچ جائے تو تم ضعیف تعلق کے باوجود اپنی شہادت میں ان کی ایک عارضی مصلحت کا کیوں خیال کرتے ہو) سو تم (اس شہادت میں) خواہش نفس کا اتباع مت کرنا، کبھی تم حق سے ہٹ جاؤ اور اگر تم کج بیانی کرو گے (یعنی غلط گواہی دو گے) یا پہلو تہی کرو گے (یعنی شہادت کو ٹالو گے) تو (یاد رکھنا) بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال کی پوری خبر رکھتے ہیں۔- معارف و مسائل - دنیا میں انبیاء (علیہم السلام) اور آسمانی کتابیں بھیجنے کا اصل مقصد عدل و انصاف کا قیام ہے اسی سے دنیا کا امن وامان قائم رہ سکتا ہے :۔ سورة نساء کی اس آیت میں تمام مسلمانوں کو عدل و انصاف پر قائم رہنے اور سچی گواہی دینے کی ہدایت کی گئی ہے، اور جو چیزیں قیام عدل یا سچی گواہی میں رکاوٹ ہو سکتی ہیں ان کو نہایت بلیغ انداز میں دور کیا گیا ہے، اسی مضمون کی ایک آیت سورة مائدہ میں بھی آنے والی ہے، دونوں کا مضمون بلکہ الفاظ بھی تقریباً مشترک ہیں اور سورة حدید کی آیت ٥٢ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں آدم (علیہ السلام) کو خلیفتہ اللہ بنا کر بھیجنے کا اور پھر ان کے بعد دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کو یکے بعد دیگرے بحیثیت خلیفتہ اللہ بھیجتے رہنے کا اور ان کے ساتھ بہت سی کتابیں اور صحیفے نازل فرمانے کا اہم مقصد یہی تھا کہ دنیا میں انصاف اور اس کے ذریعہ امن وامان قائم ہو، ہر فرد انسانی اپنے اپنے دائرہ اختیار میں انصاف کو اپنا شعار بنالے اور جو سرکش لوگ وعظ و پند اور تعلیم و تبلیغ کے ذریعے عدل وا نصاف پر نہ آئیں، اپنی سرکشی پر اڑے رہیں، ان کو قانونی سیاست اور تعزیر و سزا کے ذریعہ انصاف پر قائم رہنے کے لئے مجبور کیا جائے۔- سورة حدید کی پچیسویں آیت میں اس حقیقت کو اس طرح واضح فرمایا ہے :- ” یعنی ہم نے بھیجے ہیں اپنے رسول نشانیاں دے کر اور اتاری ان کے ساتھ کتاب اور ترازو تاکہ لوگ سیدھے رہیں انصاف پر اور ہم نے اتارا لوہا اس میں بڑا رعب ہے اور اس سے لوگوں کے کام چلتے ہیں۔ “- اس سے معلوم ہوا کہ بعثت انبیاء اور تنزیل کتب سماویہ کا سارا نظام انصاف ہی کے لئے کھڑا کیا گیا ہے رسولوں کا بھیجنا اور کتابوں کا نازل کرنا اسی مقصد کے لئے عمل میں آیا ہے اور آخر میں لوہا اتارنے کا ذکر کر کے اس طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ سب لوگوں کو انصاف پر قائم رکھنے کے لئے صرف وعظ و نصیحت ہی کافی نہ ہوگی، بلکہ کچھ شریر لوگ ایسے بھی ہوں گے جن کو لوہے کی زنجیروں اور دوسرے ہتھیاروں سے مرعوب کر کے انصاف پر قائم کیا جائے گا۔- عدل و انصاف پر قائم رہنا صرف حکومت کا فریضہ نہیں بلکہ ہر انسان کا مکلف ہے :۔- سورة حدید کی آیت مذکورہ اور سورة نساء کی اس آیت میں اسی طرح سورة مائدہ کی آیت کونوا قومین للہ شھدآء بالقسط ولایجرمنکم شنان قوم علی الاتعدلوا اعدلواھو اقرب للتقوی واتقواللہ ان اللہ خبیر بما تعملون، (آیت ٨) سے واضح طور پر یہ ہدایت دی گئی ہے کہ انصاف قائم کرنا اور اس پر قائم رہنا صرف حکومت اور عدالت کا فریضہ نہیں بلکہ ہر انسان اس کا مکلف و مخاطب ہے کہ وہ خود انصاف پر قائم رہے اور دوسروں کو انصاف پر قائم رکھنے کے لئے کوشش کرے، ہاں انصاف کا صرف ایک درجہ حکومت اور حکام کے ساتھ مخصوص ہے وہ یہ کہ شریر اور سرکش انسان جب انصاف کے خلاف اڑ جائیں، نہ خود انصاف پر قائم رہیں نہ دوسروں کو عدل و انصاف کرنے دیں، تو حاکمانہ تعزیر اور سزا کی ضرورت ہے یہ اقامت عدل و انصاف ظاہر ہے کہ حکومت ہی کرسکتی ہے جس کے ہاتھ میں اقتدار ہے۔- آج کی دنیا میں جاہل عوام کو چھوڑیئے لکھئے پڑھے تعلیم یافتہ حضرات بھی یہ سمجھتے ہیں کہ انصاف کرنا صرف حکومت و عدالت کا فریضہ ہے، عوام اس کے ذمہ دار نہیں ہیں اور یہی وہ سب سے بڑی وجہ ہے جس نے ہر ملک ہر سلطنت میں حکومت اور عوام کو دو متضاد فریق بنادیا ہے، راعی اور رعیت کے درمیان خلاف و اختلاف کی وسیع خلیج حائل کردی ہے، ہر ملک کے عوام اپنی حکومت سے عدل و انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں، لیکن خود کسی انصاف پر قائم رہنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، اسی کا نتیجہ ہے جو دنیا آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ قانون معطل ہے، جرائم کی روز افزوں ترقی ہے، آج ہر ملک میں قانون سازی کے لئے اسمبلیاں قائم ہیں، ان پر کروڑوں روپیہ خرچ ہوتا ہے، ان کے نمائندے منتخب کرنے کے لئے الیکشن میں خدا کی پوری زمین ہل جاتی ہے اور پھر یہ پورے ملک کا دل و دماغ ملک کی ضروریات اور لوگوں کے جذبات و احساسات کو سامنے رکھتے ہوئے بڑی احتیاط کے ساتھ قانون بناتے ہیں اور پھر رائے عامہ پھر اس کے نفاذ کے لئے حکومت کی لاتعداد مشینری حرکت میں آتی ہے جس کے ہزاروں بلکہ لاکھوں شعبے ہوتے ہیں اور ہر شعبہ میں ملک کے بڑے بڑے آزمودہ کار لوگوں کی محنتیں بروئے کار آتی ہیں، لیکن چلی ہوئی رسوم کی دنیا سے ذرا نظر کو اونچا کر کے دیکھا جائے اور جن لوگوں کو خواہ مخواہ تہذیب اور شائستگی کا ٹھیکہ دارمان لیا گیا ہے تھوڑی دیر کے لئے ان کو رانہ تقلید سے نکل کر حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو ہر شخص بےساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ - نگاہ خلق میں دنیا کی رونق بڑھتی جاتی ہے - مری نظروں میں پھیکا رنگ محفل ہوتا جاتا ہے - اب سے سو سال پہلے ٧٥٨١ ء سے ٧٥٨١ ء تک کا ہی موازنہ کریں اعداد و شمار محفوظ ہیں وہ گواہی دیں گے کہ جوں جوں قانون سازی بڑھی، قانون میں عوام کی مرضی کی نمائش بڑھی اور تنفیذ قانون کے لئے مشینری بڑھی، ایک پولیس کے بجائے مختلف اقسام کی پولیس بروئے کار آئی اتنے ہی روز بروز جرائم بڑھے، اور لوگ انصاف سے دور ہوتے چلے گئے اور اسی رفتار سے دنیا کی بدامنی بڑھتی چلی گئی۔- امن عالم کی ضمانت صرف عقیدہ آخرت اور خوف خدا دے سکتا ہے :۔ کوئی مرد رشید نہیں جو آنکھ کھول کر دیکھے اور چلتی ہوئی رسموں کی جکڑ بندی کو توڑ کر ذرا رسول عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے پیغام کو سچ سمجھے اور اس حقیقت پر غور کرے کہ دنیا کا امن سکون نرے تعزیرات سے نہ کہی حاصل ہوا نہ آئندہ ہوگا، عالم کے امن وامان کی ضمانت صرف عقیدہ آخرت اور خوف خدا دے سکتا ہے، جس کے ذریعہ سارے فرائض راعی اور رعی اور عوام اور حکومت میں مشترک ہوجاتے ہیں اور ہر شخص اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنے لگتا ہے، قانون کے احترام و حفاظت کے لئے عوام یہ کہہ کر آزاد نہیں ہوجاتے کہ یہ کام حکام کا ہے، قرآن مجید کی مذکورہ آیتیں بسلسلہ قیام عدل و انصاف اسی انقلابی عقیدہ کی تلقین پر ختم کی گئی ہیں۔- سورة نسآء کی اس آیت کے تم پر ان اللہ کان بما تعملون خبیراً کا ارشاد ہوا اور سورة مائدہ کی آیت کے آخر میں اول تقوی کی ہدایت فرمائی اور پھر فرمایا ان اللہ خبیر بما تعملون اور سورة حدید کی آیت کے آخر میں ارشاد ہوا : ان اللہ قوی عزیز - ان تینوں میں حکام اور عوام دونوں کو عدل و انصاف پر قائم رہنے اور قائم رکھنے کی ہدایت دینے کے بعد خواتم آیات میں سب کی نظریں اس حقیقت کی طرف پھیر دی گئی ہیں جو انسان کی زندگی اور اس کے خیالات اور جذبات میں انقلاب عظیم پیدا کرنے والی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی قوت و سلطنت اس کے سامنے حاضری اور حساب کتاب اور جزا و سزا کا تصور یہی وہ چیز تھی جس نے اب سے سو برس پہلے کی ناخواندہ دنیا کو آج کی نسبت بہت زیادہ امن و سکون بخشا ہوا تھا اور یہی وہ چیز ہے جس کے نظر انداز کردینے کی وجہ سے آج کی ترقی یافتہ آسمانوں سے باتیں کرنے والی، سیارے اڑانے والی دنیا امن و چین سے محروم ہے۔- روشن خیال دنیا سن لے کہ سائنس کی حیرت انگیز ترقیوں سے وہ آسمان کی طرف چڑھ سکتے ہیں، سیاروں پر جاسکتے ہیں، سمندر میں جاسکتے ہیں، لیکن امن وامان اور سکون و اطمینان جو ان سارے سامان اور سارے کارخانوں کا اصل مقصد ہے وہ نہ ان کو کسی سیارے میں ہاتھ آئے گا، نہ کسی نئی سے نئی ایجاد میں، وہ ملے گا تو پیغمبر عربی روحی فداہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغام اور ان کی تعلیمات میں، اللہ تعالیٰ کو ماننے اور آخرت کے حساب پر عقیدہ رکھنے میں الابذکر اللہ تطمئن القلوب، سائنس کے حیرت انکشافات روز بروز اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور اس کی بےمثال صنعت کاری کو اور زیادہ روشن کرتے جاتے ہیں، جن کے سامنے ہر انسانی ترقی اپنے عجز و درماندگی کا اعتراف کر کے رہ جاتی ہے، مگر - ” چہ سود چوں دل وانا و چشم بینا نیست “- قرآن حکیم نے ایک طرف تو دنیا کے سارے نظام کا منشاء ہی قیام عدل و انصاف بتلایا، دوسری طرف اس کا ایک بےمثال انتظام ایسا عجیب و غریب فرمایا کہ اگر اس کے پورے نظام کو اپنایا جائے اور اس پر عمل کیا جائے تو یہی خونخوار و بدکار دنیا ایک ایسے صالح معاشرے میں تبدیل ہوجائے جو آخرت کی جنت سے پہلے نقد جنت اور ارشاد قرآنی ولمن خاف مقام ربہ جنثن جس کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ خدا سے ڈرنے والوں کو دو جنتیں ملیں گی، ایک آخرت میں، دوسری نقد دنیا ہی میں اس کا ظہور مشاہدہ میں آجائے اور یہ کوئی صرف فرضی خیالی یا خیالی اسکیم نہیں، اس پیغام کے لانے والے مقدس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو عملی صورت میں لا کر چھوڑا ہے اور ان کے بعد خلفائے راشدین اور دوسرے متبع سنت سلاطین نے جب بھی اس پر عمل کیا تو شیر اور بکری کے ایک گھاٹ پر پانی پینے کی فرضی مثال ایک حقیقت بن کر لوگوں کے مشاہدہ میں آگئی، غریب و امیر مزدور و سرمایہ دار تفرقہ یک سر مٹ گیا، قانون کا احترام ہر فرد اپنے گھروں کے بند کمروں میں رات کی تاریکیوں میں کرنے لگا، یہ کوئی افسانہ نہیں، تاریخی حقائق ہیں، جن کا اعتراف غیروں نے بھی کیا، اور ہر صاف دل غیر مسلم بھی اس کے ماننے پر مجبور ہوا۔- مضمون آیت کے بعد آیت کی تفسیر تفصیلاً دیکھئے :- مذکورہ آیت میں کونوا قومین بالقسط فرمایا گیا، قسط بکسر القاف کے معنی ہیں عدل و انصاف اور عدل و انصاف کی حقیقت یہ ہے کہ ہر صاحب حق کا حق پورا ادا کیا جائے اس کے عموم میں اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی داخل ہیں اور سب قسم کے انسانی حقوق بھی، اس لئے قیام بالقسط کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی کسی پر ظلم نہ کرے اور یہ بھی داخل ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکا جائے، مظلوم کی حمایت کی جائے اور یہ بھی داخل ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکنے اور مظلوم کا حق دلوانے کے لئے شہادت کی ضررت پیش آئے تو شہادت سے گریز نہ کیا جائے اور یہ بھی داخل ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں حکومت اور انتظام ہے، جب دو فریق کا کوئی مقدمہ ان کے سامنے پیش ہو تو فریقین کے ساتھ برابری کا معاملہ کریں، کسی ایک طرف کسی طرح کا میلان نہ ہونے دیں، گواہوں کے بیانات غور سے سنیں، معاملہ کی تحقیق میں اپنی پوری کوشش خرچ کریں، پھر فیصلہ میں پورے پورے عدل وا نصاف کا معاملہ رکھیں۔- عدل و انصاف کے قیام میں رکاوٹ بننے والے اسباب :۔ - سورة نساء اور سورة مائدہ کی یہ دونوں آیتیں اگرچہ مختلف سورتوں کی ہیں لیکن مضمون دونوں کا تقریباً قدر مشترک ہے، فرق اتنا ہے کہ عدل انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والی عادة دو چیزیں ہوا کرتی ہیں ایک کسی کی محبت و قرابت یا دوستی وتعلق جس کا تقاضا شاہد کے دل میں یہ ہوتا ہے کہ شہادت ان کے موافق دی جائے تاکہ یہ نقصان سے محفوظ رہیں یا ان کو نفع پہنچنے اور فیصلہ کرنے والے قاضی یا جج کے دل میں اس تعلق کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ فیصلہ ان کے حق میں دے، دوسری چیز کسی کی عداوت و دشمنی ہے، جو شاہد کو اس کے خلاف شہادت پر آمادہ کرسکتی ہے اور قاضی اور جج کو اس کے خلاف فیصلہ دینے کے باعث ہو سکتی ہے، غرض محبت و عداوت دو ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو عدل و انصاف کی راہ سے ہٹا کر ظلم و جور میں مبتلا کرسکتی ہیں، سورة نساء اور سورة مائدہ کی دونوں آیتوں میں میں انہی رکاوٹوں کو دور کیا گیا ہے، سورة نساء کی آیت میں قرابت وتعلق کی رکاوٹ دور کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے، ارشاد ہے : اوالوالدین والاقربین یعنی اگرچہ تمہاری شہادت اپنے ماں باپ یا قریبی رشتہ داروں ہی کے خلاف پڑے تو بھی حق بات کہنے اور سچی شہادت دینے میں اس تعلق کا لحاظ نہ کرو۔ - اور سورة مائدہ کی آیت میں عداوت اور دشمنی کی رکاوٹ کو دور کیا گیا ہے، چناچہ فرمایا لایجرمنکم شنان قوم علی الاتعدلوا اعدلواھو اقرب للتقوی یعنی کسی قوم کا بغض و عداوت بھی تمہارے لئے اس کا باعث نہ ہونا چاہئے کہ راہ عدل کو چھوڑ کر ان کے خلاف گواہی یا فیصلہ دینے لگو۔ - دونوں آیتوں کے عنوان و تعبیر میں بھی تھوڑا فرق ہے، سورة نساء کی آیت میں قومین بالقسط شھدآء للہ فرمایا گیا اور سورة مائدہ کی آیت میں قومین للہ شھدآء بالقسط ارشاد ہوا، یعنی پہلی آیت میں دو چیزوں کی ہدایت ہے، ایک قیام بالقسط اور دوسری شہادت للہ، اور دوسری آیت میں بھی دو ہی چیزیں مامور بہ ہی، مگر عنوان بدل کر قیام اللہ اور شہادت بالقسط۔- اکثر حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اس تغیر عنوان سے یہ معلوم ہوا کہ یہ دونوں چیزیں دراصل ایک ہی حقیقت کی دو تعبیریں ہیں، کہیں قیام بالقسط اور شہادت للہ سے تعبیر کردیا گیا، کہیں قیام للہ اور شہادت بالقسط کے الفاظ سے بیان فرمایا گیا، ان دونوں آیتوں کے طرز بیان میں یہ بات خاص طور پر قابل نظر ہے کہ کونوا قومین بالقسط یا قومین للہ کا طویل جملہ اختیار فرمایا گیا، حالانکہ عدل و انصاف کا حکم صرف ایک لفظ اقسطوا کے ذریعہ بھی دیا جاسکتا تھا، اس طویل جملہ کے اختیار کرنے میں اس طرف اشارہ کرنا منظور ہے کہ اتفاقی طور پر کسی معاملہ میں عدل و انصاف کردینے سے ذمہ داری پوری نہیں ہوجاتی، کیونکہ کسی نہ کسی معاملہ میں انصاف ہوجاتا تو ایک ایسا طبعی امر ہے کہ ہر برے سے برے اور ظالم سے ظالم حاکم پر بھی صادق ہے کہ اس سے بھی کسی معاملہ میں تو انصاف ہو ہی جاتا ہے، اس جملہ میں لفظ قوامین استعمال فرما کر یہ بتلایا کہ عدل و انصاف پر ہمیشہ ہر وقت ہر حال اور ہر دوست دشمن کے لئے قائم رہنا ضروری ہے۔- پھر ان دونوں آیتوں میں پوری دنیا کو عدل و انصاف پر قائم کرنے اور قائم کرانے کے لئے جو زریں اصول اختیار کئے گئے ہیں وہ بھی قرآن عظیم ہی کی خصوصیات میں سے ہیں۔- ان میں سے ایک اہم چیز تو یہ ہے کہ حکام اور عوام سب کو اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ اور روز جزاء کے حساب سے ڈرا کر اس کے لئے تیار کیا گیا ہے کہ عوام خود بھی قانون کا احترام کریں اور حکام جو تنفیذ قانون کے ذمہ دار ہیں وہ بھی تنفیذ قانون میں خدا و آخرت کو سامنے رکھ کر خلق خدا کے خادم بنیں، قانون کو خدمت خلق اور اصلاح عالم کا ذریعہ بنائیں، لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ اور مظلوم کو دفتر گردی کے چکر میں پھنسا کر مزید ظلم پر ظلم کا سبب نہ بنائیں، قانون کو اپنی ذلیل خواہشات یا چند ٹکوں میں فروخت نہ کریں، قومین للہ یاشھدآء للہ فرما کر حکام و عوام دونوں کو للہیت اور اخلاص عمل کی دعوت دی گئی ہے۔- دوسری بنیادی چیز یہ ہے کہ عدل و انصاف کو قیام کی ذمہ داری پورے افراد انسانی پر ڈال دی گئی ہے، سورة نساء اور مائدہ میں تو اس کا مخاطب یایھا الذین امنوا فرما کر پوری امت مسلمہ کو بنادیا گیا ہے اور سورة حدید میں لیقوم الناس بالقسط فرما کر اس فریضہ کو تمام افراد انسانی پر عائد کردیا گیا ہے، سورة نساء کی آیت میں ولو علی انفسکم فرما کر اس طرف ہدایت فرما دی کہ انصاف کا مطالبہ صرف دوسروں ہی سے نہ ہو، بلکہ اپنے نفس سے بھی ہونا چاہئے، اپنے نفس کے خلاف کوئی بیان یا اظہار کرنا پڑے تو بھی حق و انصاف کے خلاف کچھ نہ بولے، اگرچہ اس کا نقصان اس کی ذات ہی پر پڑتا ہو، کیونکہ یہ نقصان حقیر و قلیل اور عارضی ہے اور جھوٹ بول کر اس کی جان بچالی گئی تو قیامت کا شدید عذاب اپنی جان کے لئے خرید لیا۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاۗءَ لِلہِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ ٠ۚ اِنْ يَّكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيْرًا فَاللہُ اَوْلٰى بِہِمَا ٠ۣ فَلَا تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓى اَنْ تَعْدِلُوْا ٠ۚ وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللہَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا ١٣٥- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - قيام - والْقِيَامُ علی أضرب : قيام بالشّخص، إمّا بتسخیر أو اختیار، و قیام للشیء هو المراعاة للشیء والحفظ له، و قیام هو علی العزم علی الشیء، فمن القِيَامِ بالتّسخیر قوله تعالی: مِنْها قائِمٌ وَحَصِيدٌ [هود 100] ، وقوله : ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوها قائِمَةً عَلى أُصُولِها [ الحشر 5] ، ومن القِيَامِ الذي هو بالاختیار قوله تعالی: أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر 9] . وقوله : الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] ، وقوله : الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساءِ [ النساء 34] ، وقوله : وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً وَقِياماً [ الفرقان 64] . والقِيَامُ في الآیتین جمع قائم . ومن المراعاة للشیء قوله :- كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَداءَ بِالْقِسْطِ [ المائدة 8] ، قائِماً بِالْقِسْطِ [ آل عمران 18] ، وقوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] أي : حافظ لها . وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران 113] ، وقوله : إِلَّا ما دُمْتَ عَلَيْهِ قائِماً [ آل عمران 75] أي : ثابتا علی طلبه . ومن القِيَامِ الذي هو العزم قوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 6] ، وقوله : يُقِيمُونَ الصَّلاةَ [ المائدة 55] أي : يديمون فعلها ويحافظون عليها . والقِيَامُ والقِوَامُ : اسم لما يقوم به الشیء . أي : يثبت، کالعماد والسّناد : لما يعمد ويسند به، کقوله : وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِياماً [ النساء 5] ، أي : جعلها ممّا يمسككم .- قيام - اور قیام کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے :( 1 ) کسی شخص کا تسخیری طور پر یا اپنے ارادے سے کھڑا ہونا ۔ ( 2 ) قیام للشئی : یعنی شے کی حفاظت اور نگہبانی کرنا ۔ ( 3 ) کسی کام کا پختہ ارادہ کرلینا ۔ تسخیری طور کھڑا ہونے کے معنی میں فرمایا : ۔ مِنْها قائِمٌ وَحَصِيدٌ [هود 100] ان میں سے بعض تو باقی ہیں اور بعض تہس نہس ہوگئے ہیں ۔ ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوها قائِمَةً عَلى أُصُولِها [ الحشر 5] کجھور کے جو درخت تم نے کاٹے یا ان کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو خدا کے حکم سے تھا ۔ اور قیام اختیاری کے معنی میں فرمایا : ۔ أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر 9] یا وہ جو رات کے وقتوں میں زمین پیشانی رکھ کر اور کھڑے ہوکر عبادت کرتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] اور جو کھڑے اور بیٹھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ اور نیز ایت : ۔ وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً وَقِياماً [ الفرقان 64] اور وہ لوگ اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کر کے ( عجز وادب سے ) کھڑے رہکر راتیں بسر کرتے ہیں ۔ میں قیام قائم کی جمع ہے اور کسی چیز کی حفاظت اور مراعات کے معنی میں فرمایا : ۔ الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساءِ [ النساء 34] مرد عورتوں پر راعی اور محافظ ہیں ۔ كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَداءَ بِالْقِسْطِ [ المائدة 8] انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو ۔ قائِماً بِالْقِسْطِ [ آل عمران 18] جو انصافپر قائم ہیں ۔ أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] تو کیا جو خدا ہر متنفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔ نیز فرمایا ؛ لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران 113] یہ بھی سب ایک جیسے نہیں ہیں ۔ ان اہل کتاب میں کچھ لوگ حکم خدا پر قائم بھی رہیں ۔ اور آیت کریمہ : إِلَّا ما دُمْتَ عَلَيْهِ قائِماً [ آل عمران 75] تو جب تک اس کے سر پر ہر وقت کھڑے نہ رہو ۔ میں قائما کے معنی برابر مطالبہ کرنے والے کے ہیں اور قیام بمعنی عزم کے متعلق فرمایا : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 6] مومنو جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو اور آیت کریمہ : ۔ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ [ المائدة 55] اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیں ۔ میں یقیمون کے معنی نماز پر دوام اور راس کے ارکان کی حفاطت کرنے کے ہیں ۔ اور قیام دقوام اس چیز کو بھی کہتے ہیں جس کے سہارے کوئی چیز قائم رہ سکے جس طرح کہ عماد اور سناد اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو سہارا لگا دیا جائے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِياماً [ النساء 5] اور بےعقلوں کو ان کا مال جسے خدا نے تم لوگوں کے لئے سبب معشیتبنایا مت دو ۔ یعنی ان کو تمہاری بقا کا سبب بنایا - قسط - الْقِسْطُ : هو النّصيب بالعدل کالنّصف والنّصفة . قال تعالی: لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] والقِسْطُ : هو أن يأخذ قسط غيره، وذلک جور، والْإِقْسَاطُ : أن يعطي قسط غيره، وذلک إنصاف، ولذلک قيل : قَسَطَ الرّجل : إذا جار، وأَقْسَطَ : إذا عدل . قال : أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً- [ الجن 15] وقال : وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ- [ الحجرات 9] ، وتَقَسَّطْنَا بيننا، أي : اقتسمنا، والْقَسْطُ : اعوجاج في الرّجلین بخلاف الفحج، والقِسْطَاسُ : المیزان، ويعبّر به عن العدالة كما يعبّر عنها بالمیزان، قال : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] .- ( ق س ط ) القسط ( اسم )- ( ق س ط ) القسط ( اسم ) نصف ومصفۃ کی طرح قسط بھی مبنی بر عدل حصہ کو کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] اور قسط کے معنی دوسرے کا حق مررنا بھیآتے ہیں اس لئے یہ ظلم اور جو رے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے القسط پاؤں میں ٹیڑھا پن یہ افجع کی ضد ہے جس کے نزدیک اور ایڑیوں کی جانب سے دور ہو نیکے ہیں ۔ الا قساط اس کے اصل معنی کسی کو اس کا حق دینے کے ہیں اسی چیز کا نام انصاف ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ قسط الرجل فھو قاسط ) کے معنی ظلم کرنے اوراقسط کے معنی انصاف کرنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن 15] اور گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات 9] اور انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ فقسطنا بیننا ہم نے ( کسی چیز کو آپس میں برا بر تقسیم کرلیا چناچہ القسطاس تراز دکو کہتے ہیں اور لفظ میزان کی طرح اس سے بھی عدل ونصاف کے معنی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] اور جب تول کر دو تو ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔- شَّهِيدُ- وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] - شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے - لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - قربی - وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15]- اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا - غنی - الغِنَى يقال علی ضروب :- أحدها : عدم الحاجات،- ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] ، - الثاني : قلّة الحاجات،- وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس»- والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس - کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] ،- ( غ ن ی ) الغنیٰ- ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ - 2 قدرے محتاج ہونا - اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور - غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں - اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ - فقر - الفَقْرُ يستعمل علی أربعة أوجه :- الأوّل : وجود الحاجة الضّرورية، وذلک عامّ للإنسان ما دام في دار الدّنيا بل عامّ للموجودات کلّها، وعلی هذا قوله تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ [ فاطر 15] ، وإلى هذا الفَقْرِ أشار بقوله في وصف الإنسان : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء 8] .- والثاني : عدم المقتنیات، وهو المذکور في قوله : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة 273] ، إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النور 32] . وقوله : إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة 60] .- الثالث : فَقْرُ النّفس، وهو الشّره المعنيّ بقوله عليه الصلاة والسلام : «كاد الفَقْرُ أن يكون کفرا» «1» وهو المقابل بقوله : «الغنی غنی النّفس» «1» والمعنيّ بقولهم : من عدم القناعة لم يفده المال غنی.- الرابع : الفَقْرُ إلى اللہ المشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : ( اللهمّ أغنني بِالافْتِقَارِ إليك، ولا تُفْقِرْنِي بالاستغناء عنك) ، وإيّاه عني بقوله تعالی: رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص 24] ، وبهذا ألمّ الشاعر فقال :- ويعجبني فقري إليك ولم يكن ... ليعجبني لولا محبّتک الفقر ويقال : افْتَقَرَ فهو مُفْتَقِرٌ وفَقِيرٌ ، ولا يكاد يقال : فَقَرَ ، وإن کان القیاس يقتضيه . وأصل الفَقِيرِ : هو المکسورُ الْفِقَارِ ، يقال : فَقَرَتْهُ فَاقِرَةٌ ، أي داهية تکسر الفِقَارَ ، وأَفْقَرَكَ الصّيدُ فارمه، أي : أمكنک من فِقَارِهِ ، وقیل : هو من الْفُقْرَةِ أي : الحفرة، ومنه قيل لكلّ حفیرة يجتمع فيها الماء : فَقِيرٌ ، وفَقَّرْتُ للفسیل : حفرت له حفیرة غرسته فيها، قال الشاعر : ما ليلة الفقیر إلّا شيطان فقیل : هو اسم بئر، وفَقَرْتُ الخَرَزَ : ثقبته، وأَفْقَرْتُ البعیر : ثقبت خطمه .- ( ف ق ر ) الفقر کا لفظ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ زندگی کی بنیادی ضروریات کا نہ پایا جانا اس اعتبار سے انسان کیا کائنات کی ہر شے فقیر و محتاج ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ [ فاطر 15] لوگو تم سب خدا کے محتاج ہو ۔ اور الانسان میں اسی قسم کے احتیاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء 8] اور ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھائیں ۔ ضروریات زندگی کا کما حقہ پورا نہ ہونا چناچہ اس معنی میں فرمایا : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة 273] تو ان حاجت مندوں کے لئے جو خدا کے راہ میں رے بیٹھے ہیں ۔إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النور 32] اگر وہ مفلس ہونگے تو خدا ان گو اپنے فضل سے خوشحال کردے گا ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں اور محتاجوں ۔۔۔ کا حق ہے ۔ فقرالنفس : یعنی مال کی ہوس۔ چناچہ فقر کے اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا : کا دالفقر ان یکون کفرا ۔ کچھ تعجب نہیں کہ فقر کفر کی حد تک پہنچادے اس کے بلمقابل غنی کے معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا الغنیٰ عنی النفس کو غنا تو نفس کی بےنیازی کا نام ہے ۔ اور اسی معنی میں حکماء نے کہا ہے ۔ من عدم القناعۃ لم یفدہ المال غنی جو شخص قیامت کی دولت سے محروم ہوا سے مالداری کچھ فائدہ نہیں دیتی ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف احتیاج جس کی طرف آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا (73) اللھم اغننی بالافتقار الیک ولا تفتونی بالاستغناء عنک ( اے اللہ مجھے اپنا محتاج بناکر غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کرکے فقیر نہ بنا ) اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص 24] کہ پروردگار میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے (342) ویعجبنی فقری الیک ولم یکن لیعجبنی لولا محبتک الفقر مجھے تمہارا محتاج رہنا اچھا لگتا ہے اگر تمہاری محبت نہ ہوتی تو یہ بھلا معلوم نہ ہوتا ) اور اس معنی میں افتقر فھو منتقر و فقیر استعمال ہوتا ہے اور فقر کا لفظ ) اگر چہ قیاس کے مطابق ہے لیکن لغت میں مستعمل نہیں ہوتا ۔- الفقیر - دراصل اس شخص کو کہتے ہیں جس کی ریڑھ ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو چناچہ محاورہ ہے ۔ فقرتہ فاقرہ : یعنی مصیبت نے اس کی کمر توڑدی افقرک الصید فارمہ : یعنیشکار نے تجھے اپنی کمر پر قدرت دی ہے لہذا تیر ماریئے بعض نے کہا ہے کہ یہ افقر سے ہے جس کے معنی حفرۃ یعنی گڑھے کے ہیں اور اسی سے فقیر ہر اس گڑھے کو کہتے ہیں جس میں بارش کا پانی جمع ہوجاتا ہے ۔ فقرت اللفسیل : میں نے پودا لگانے کے لئے گڑھا کھودا شاعر نے کہا ہے ( الرجز) (343) مالیلۃ الفقیر الاالشیطان کہ فقیر میں رات بھی شیطان کی مثل ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں الفقیر ایک کنویں کا نام ہے۔ فقرت الخرز : میں نے منکوں میں سوراخ کیا ۔ افقرت البیعر اونٹ کی ناک چھید کر اس میں مہار ڈالنا ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - هوى- الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى.- ( ھ و ی ) الھوی - ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ - الھوی - ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت - وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ - وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔- وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ - الھوی - ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔- عدل - العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما .- والعَدْلُ ضربان :- مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك .- وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ- [ النحل 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311-- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ- [ الطلاق 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً- [ النساء 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» .- ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ - کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ،- العدل دو قسم پر ہے - عدل مطلق - جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ - دوم عدل شرعی - جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔- لوی - اللَّيُّ : فتل الحبل، يقال : لَوَيْتُهُ أَلْوِيهِ لَيّاً ، ولَوَى يدَهُ ، قال : لوی يده اللہ الذي هو غالبه ولَوَى رأسَهُ ، وبرأسه أماله، قال تعالی: لَوَّوْا رُؤُسَهُمْ [ المنافقون 5] : أمالوها، ولَوَى لسانه بکذا : كناية عن الکذب وتخرّص الحدیث . قال تعالی: يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ- [ آل عمران 78] ، وقال : لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ [ النساء 46] ، ويقال فلان لا يلْوِي علی أحد : إذا أمعن في الهزيمة . قال تعالی:إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران 153] وذلک کما قال الشاعر : ترک الأحبّة أن تقاتل دونه ... ونجا برأس طمرّة وثّاب - واللِّوَاءُ : الراية سمّيت لِالْتِوَائِهَا بالرّيح، واللَّوِيَّةُ : ما يلوی فيدّخر من الطّعام، ولَوَى مدینَهُ ، أي : ماطله، وأَلْوَى: بلغ لوی الرّمل، وهو منعطفه .- ( ل و ی ) لویٰ ( ض ) الجبل یلویہ لیا کے معنی رسی بٹنے کے ہیں ۔ لوی یدہ : اس کے ہاتھ کو موڑ الویراسہ وبراسہ وبراسہ اس نے اپنا سر پھیرلیا یعنی اعراض کیا ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوَّوْا رُؤُسَهُمْ [ المنافقون 5] تو سر پھیر لیتے ہیں لو یٰ لسانہ بکذا : کنایہ ہوتا ہے جھوٹ بولنے اور اٹکل بچوں کی باتیں بنانے سے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] کتاب ( تو راۃ) کو زبان موڑ موڑ کر پڑھتے ہیں لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ [ النساء 46] زبان کو موڑ کر محاورہ ہے : ۔ فلان لا یلون علیٰ احد ۔ وہ کسی کی طرف گردن موڑ کر بھی نہیں دیکھتا ۔ یہ سخت ہزیمت کھا کر بھاگ اٹھنے کے موقع پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران 153] جب تم لوگ دور بھاگ جاتے تھے ۔ اور کسی کو پیچھے پھر کر نہیں دیکھتے تھے ۔ چناچہ شاعر نے اس معنی کو یوں ادا کیا ہے ( 401 ) ترک الاحبۃ ان تقاتل دو نۃ ونجا بر اس طمرۃ وثاب اور اس نے دوستوں کے درے لڑنا چھوڑ دیا اور چھلا نگیں بھر کر دوڑے والی گھوڑی پر سوار ہو کر بھاگ گیا ۔ اللواء ۔ جھنڈے کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ وہ ہوا سے لہراتا رہتا ہے ۔ اللویۃ وہ کھانا جو لپیٹ کر توشہ کے طور پر رکھ دیا جائے ۔ لوی مدینہ ۔ اپنے مقروض کو ڈھیل دینا الویٰ ۔ ٹیلے کے لوی یعنی موڑ پر پہنچنا ۔- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - خبیر - والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم،- ( خ ب ر ) الخبر - کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔
حاکم پر واجب ہے کہ وہ مقدمے کے فریقین کے درمیان انصاف کرے - قول باری ہے یایھا الذین امنواکونواقوامین باقسط شھداء للہ ولوعلی انفسکم والوالدین ولاقربین۔ اے ایمان لانے والو انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو) تا آخر آیت۔ قابوس نے ابوظبیان سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ قول باری یایھا الذین امنواکونواقرامین بالقسط شھداء للہ۔ کا یہ مفہومہ ہے کہ دو شخص جو کسی معاملہ میں فریقین ہوں اور قاضی کی عدالت میں موجود ہوں۔ قاضی ایک کے ساتھ نہ صرف بےرخی برتے بلکہ اسے اس کے مطالبے اور حق سے بھی روکے۔ ہمیں عبدالقاقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں محمد بن عبداللہ بن مہران الدنیوری نے انہیں احمد بن یونس نے انہیں زبیر نے انہیں عباد بن کثیر بن ابی عبداللہ نے عطاء بن یسار سے، انہوں نے ام الومنین حضرت ام سلمہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من بتلی بالقضا بین المسلمین فلیعدل بینھم فی لخطہ واشارتہ و مقعدہ ولایرفع صوتہ علی احد الخصمین مالم یدفع علی الاخر۔ جو شخص مسلمانوں کے درمیان ان کے جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کی آزمائش میں پڑگیا (یعنی قاضی کے عہدے پر مامور ہوگیا) تو اسے چاہیے کہ اپنی نظر اپنے اشارے اور اپنی نشست کے لحاظ سے ان کے درمیان انصاف سے کام لے، اور ایک فریق کے مقالہ میں دوسرے فریق سے اونچی آواز میں گفتگو نہ کرے جب تک اتنی ہی اونچی آواز سے دوسرے فریق سے بھی گفتگو نہ کرلے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری کو نواقوامین بالقسط۔- سے حق و انصاف پر قائم رہنے کے سلسلے میں اللہ کے حکم کا اظہار ہو رہا ہے یہ حکم ہر شخص پر یہ امر واجب کرتا ہے کہ اس پر لوگوں کے لازم ہونے والے حقوق کی ادائیگی میں وہ اپنی ذات سے پورا پورا نصاف کرے یعنی لوگوں کے حقوق کی پوری طرح ادائیگی کرے۔ نیز مظلوم کو ظالم سے انصاف دلائے اس کی داد رسی کرے اور ظالم کو ظلم کرنے سے روک دے کیونکہ یہ تمام باتیں انصاف قائم کرنے اور انصاف پر قائم رہنے کے اندر داخل ہیں۔ پھر اپنے قول شھداء للہ سے اس کی اور تاکید کردی یعنی واللہ اعلم۔ اس صورت میں جبکہ انصاف تک رسائی گواہی کے راستے ہوتی ہو۔ اس لئے آیت کا یہ ٹکڑا ظالم کے خلاف گواہی قائم کرنے کے حکم کو بھی متضمن ہے جس نے مظلوم کا حق دبا رکھا ہے اور اسے دینے سے انکاری ہے تاکہ گواہی کے ذریعے ظالم کے قبضے سے مظلوم کا حق نکال کر اس کے حوالے کردیا اجئے۔ یہ آیت اس قول باری کی طرح ہے ولاتکتموا الشھدۃ و من یکتمھا فانہ ثم قلبہ اور گواہی کو نہ چھپائو جو شخص گواہی چھپائے گا تو اس کی یہ حرکت اس بنا پر ہوگی کہ اس کا دل گہنگار ہے) آیت اس حکم کو بھی متضمن ہے کہ حق دار کا اقرار اور اعتراف کرلیا جائے۔ قول باری ہے ولوعلی انفسکم۔ کیونکہ اپنی ذات کے خلاف گواہی دینے کا مفہوم یہ ہے کہ اگر فریق مخالف کا کوئی حق اس پر عائد ہوتا ہو تو وہ اس کا اقرار و اعتراف کرلے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی غیر کے حق کا اپنی ذات پر اقرار کرلے تو اس کا یہ اقرار جائز ہے بلکہ اگر حق دار اس اقرار کا اس سے مطالبہ کرے تو اس صورت میں اقرار کرنا اس پر واجب ہوگا۔ قول باری ہے اوالوالدین والاقربین۔ اس میں والدین اور رشتہ داروں پر گواہی قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔- یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اگر کوئی انسان اپنے والدین اور اپنے تمام رشتہ داروں کے خلاف گواہی دے تو اس کی یہ گواہی درست ہوگی۔ کیونکہ اس کے والدین اس کے تمام رشتہ دار اور غیر رشتہ دار اس معاملے میں اس کے لئے یکساں ہیں۔ اگرچہ والدین کے خلاف اولاد کی گواہی کی بنا پر والدین قید میں بھی پڑ سکتے ہیں لیکن یہ بات حقوق الوالدین یعنی والدین کی نافرمانی کے ضمن میں نہیں آئے گی اور یہ بھی ضرور ی نہیں ہوگا کہ والدین چونکہ اپنے خلاف اپنے بچوں کی گواہی کو ناپسند کرتے ہیں۔ اس لئے بچے ایسی گواہی سے باز رہیں۔ اس لئے کہ بچے اس طرح والدین کے خلاف گواہی دے کر اور انہیں ظلم سے باز رکھ کر ایک گونہ ان کی مدد کریں گے جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے انصراخاک ظالماً اومظلوماً ۔ اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم) صحابہ نے عرضا کیا کہ اگر ہمارا بھائی مظلوم ہوگا تو اس کی مدد کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اگر ہمارا بھائی ظالم ہوگا تو اس کی مدد کیسی ؟ آپ نے اس پر فرمایا تردہ عن الظلوفذلک نصر منک ایاہ۔ اسے ظلم سے روک دو ۔ یہی تمہاری مدد ہوگی جو تم اسے پہنچائو گے) ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد اس ارشاد سے ملتا جلتا ہے لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق، خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی کسی قسم کی اطاعت نہیں) ۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ بیٹا اپنے ماں باپ کی صرف حلال اور جائز کاموں میں فرمانبرداری کرے گا جس کا م میں اللہ کی نافرمانی لازم آتی ہو اس میں وہ کسی صورت میں بھی ماں باپ کی فرمانبرداری نہیں کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بیٹے کو اپنے والدین کے خلاف گواہی قائم کرنے کا حکم دیا ہے خواہ ا والدین اس بات کو ناپسند ہی کیوں نہ کریں۔ قول باری ہے ان یکن غلیتاً اوفقیراً فاللہ اولیٰ بھما، فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب ، اللہ تم سے زیادہ اس کا خیر خواہ ہے کہ تم اس کا لحاظ کرو) آیت میں ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ گواہی دیتے وقت ہم اس شخص کے فقرکو دیکھتے ہوئے اس پر ترس نہ کھائیں جس کے خلاف ہم گواہی دینے جا رہے ہوں۔ اللہ تعالیٰ مالداروں اور فقیروں میں سے ہر ایک پر نظر عنایت رکھنے اور خیر خواہی کرنے کا سب سے بڑھ کر حقدار ہے اور ہر ایک کی ضروریات اور مصالح کو سب سے زیادہ جاننے والا ہے اس لئے تمہارے ذمہ تو صرف یہ ہے کہ اپنی معلومات اور علم کی بنیاد پر جو کچھ تمہارے پاس ہے اس کی گواہی دے دو ۔ قول باری فلاتتبعوا الھویٰ ان تعدلوا۔- لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو) یعنی خواہشات کی پیروی اور رشتہ داروں کی طرف میلان کی بنا پر انصاف کا دامن نہ چھوڑو۔ اس آیت کی نظیر یہ آیت ہے ان جعلنا ک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس باحق ولاتتبع الھدی۔ اے دائود ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے اس لئے لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو اور خواہش نفس کی پیروی نہ کرو) ۔ اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ گواہ پر یہ ضروری ہے کہ وہ اس شخص پر گواہی دے جس کے ذمے فریق ثانی کا حق عائد ہوتا ہے اگرچہ گواہ کو اس کی تنگدستی اور مفلوک الحالی کا علم ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح گواہ کے لئے یہ بات بھی منع ہے کہ وہ اس ڈر کے تحت گواہی سے باز رہے کہ کہیں قاضی اپنی لاعلمی کی بنا پر اسے جھوٹا گواہ تصور کر کے قید میں نہ ڈال دے۔- جج یا گواہوں کی طرف سے مقدمہ میں سچائی سے پہلو نہ بچایا جائے - قول باری ہے وان تلووا اوتعرصوافان اللہ کان بما تعملون خبیراً اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی قول کے مطابق یہ بات قاضی سے تعلق رکھتی ہے کہ اس کے سامنے مقدمے کے دونوں فریق پیش ہوتے ہیں تو وہ ان میں سے ایک سے بےرخی بھی کرے اور اسے اپنے حق اور مطالبے سے ہٹانے کی بھی کوشش کرے۔ لفظ لی کے معنی ہٹانے اور دفع کرنے کے ہیں اسی سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ماخوذ ہے لی الواجد یحل رضہ و توبتہ جس مقروض کے پاس قرض کی ادائیگی کے لئے رقم موجود ہو اور پھر وہ ٹال مٹول اور حیلے بہانے کرے اور ادائیگی سے باز رہے تو اس کا یہ رویہ اس کی عزت و آبرو کو حلال کردیتا ہے اور اسے سزا کا مستحق بنا دیتا ہے) ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد یہ ہے کہ ایسے شخص کا ٹال مٹول کرنا اور حقدار کو اس کے حق سے ہٹائے رکھنا اسے درج بالا سزا کا مستحق بنا دیتا ہے۔ آیت زیر بحث میں قاضی مراد ہو تو آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ قاضی کسی ایک فریق کو اس عدل و انصاف اور مساوات کے حق سے دور کر دے جو مقدمے کے سلسلے میں اسے ملنا چاہیے۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے گواہ مراد ہو اس صورت میں یہ مفہوم ہوگا کہ گواہ گواہی دینے پر مامور ہے اسے گواہی نہ دے کر حق دار کو اس کے حق سے دور نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی گواہی کے سلسلے میں کسی ٹال مٹول سے کام لینا چاہیے اور نہ ہی حق دار کی طرف گواہی کے مطالبے پر اس سے پہلو تہی کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی امتناع نہیں اگر آیت کا حکم حاکم اور گواہ دونوں کے لئے تسلیم کرلیا جائے کیونکہ لفظ میں دونوں کا احتمال ہے اس لئے آیت سے یہ مفہوم اخذ ہوگا کہ اس مقدمہ کے فریقین کے درمیان نشست کے لحاظ سے نیز نظر ڈالنے کے لحاظ سے مساوات قائم کرنے کا حکم ہے اور کسی ایک فریق کے ساتھ سرگوشی نہ کرنے نیز تنہائی اختیار نہ کرنے کا امر ہے۔ جیسا کہ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :” ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فریقین میں سے کسی ایک کو نظر انداز کر کے دوسرے کی دعوت کرنے سے منع فرمایا ہے “۔
(١٣٥) گواہی دینے میں عدل و انصاف پر خوب قائم رہو اور تم شہادت میں حق سے مت ہٹنا اور اگر تم کج روی اور حکام کے سامنے گواہی دینے سے احتراز کرو گے تو اللہ تعالیٰ شہادت کے چھپانے کے گناہ اور اس کے اظہار کی نیکی سے باخبر ہے۔ (گواہی کو چھپانا اسلام میں غیر پسندیدہ ہے۔ (آیت) ” ولا تکتموا الشھادۃ ومن یکتمھا فانہ اثم قلبہ “۔ (اور تم گواہی کو مت چھپاؤ جو گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔ (البقرۃ) (مترجم)- یہ آیت معتیس بن حبابہ (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، ان کے پاس ان کے والد کے خلاف گواہی تھی، یعنی جو عہد میثاق میں ایمان لائے تھے اور اس کے بعد کفر اختیار کرلیا آج کے دن ایمان لے آؤ یا یہ کہ ان کے آباء کے نام لے کر کہا گیا ہے کہ اے ایمان والوں کی اولاد، حضرت عبداللہ بن سلام، اسد بن کعب، اسید بن کعب ثعلیۃ بن قیس، سلام بن اخت، مسلمہ، یامین بن یامین، یہ سب اہل توریت میں سے ایمان دار لوگ تھے۔- شان نزول : (آیت) ” یایھا الذین امنوا کونوا “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی تو اس وقت دو آدمی غنی اور فقیر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جھگڑتے ہوئے آئے۔- اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس خیال سے کہ فقیر مالدار آدمی پر ظلم نہیں کرسکتا، فقیر کی حمایت میں تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی ممانعت فرمائی اور مالدار اور فقیر کے درمیان انصاف کرنے کا حکم دیا۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ١٣٥ (یٰٓایُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بالْقِسْطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ ) - یہ آیت قرآن کریم کی عظیم ترین آیات میں سے ہے۔ سورة آل عمران (آیت ١٨) میں ہم پڑھ آئے ہیں : (شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ الاَّ ہُوَلا والْمَلآءِکَۃُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَآءِمًا م بالْقِسْطِ ط) اللہ گواہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ‘ اور سارے فرشتے اور اہل علم بھی اس پر گواہ ہیں ‘ وہ عدل کا قائم کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس زمین پر عدل قائم کرنا چاہتا ہے ‘ اس کے لیے وہ اپنے دین کا غلبہ چاہتا ہے ‘ اور اس عظیم کام کے لیے اس کے کارندے اور سپاہی اہل ایمان ہی ہیں۔ انہی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اس دنیا میں عدل قائم کرے گا۔ لیکن اہل ایمان کو اس عظیم مقصد کے لیے کوشش کرنی ہوگی ‘ جانوں کا نذرانہ پیش کرنا ہوگا ‘ ایثار کرنا ہوگا ‘ قربانیاں دینی ہوں گی ‘ تب جا کر کہیں دین غالب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بہت ہی اہم معاملہ ہے۔ معاشرے میں عدل و قسط کے قیام کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو اللہ کے گواہ کہا گیا ہے۔ عدل اجتماعی ( ) پر اسلام نے جتنا زور دیا ہے بدقسمتی سے آج ہمارا مذہبی طبقہ اتنا ہی اس سے بےبہرہ ہے۔ آج کے مسلم معاشروں میں سرے سے شعور ہی نہیں کہ عدل اجتماعی کی بھی کوئی اہمیت اسلام میں ہے۔ اسلامی قوانین اور حدود و تعزیرات کے نفاذ کی اہمیت تو سب جانتے ہیں ‘ لیکن باطل نظام کی نا انصافیاں ‘ یہ جاگیر دارانہ ظلم و ستم اور غریبوں کا استحاصل ( ) کس طرح ختم ہوگا ؟ سرمایہ دار غریبوں کا خون چوس چوس کر روز بروز موٹے ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ نظام ایک ایسی چکی ہے جو آٹا پیس پیس کر ایک ہی طرف ڈالتی جا رہی ہے ‘ جبکہ دوسری طرف محرومی ہی محرومی ہے۔ یہاں دولت کی تقسیم کا نظام ہی غلط ہے ‘ ایک طرف وسائل کی ریل پیل ہے تو دوسری طرف بھوک ہی بھوک۔ ایک طرف امیر امیر تر ہو رہے ہیں تو دوسری طرف غریب غریب تر ‘ اور غربت تو ایسی لعنت ہے جو انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے ‘ ازروئے حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : (کَادَ الْفَقْرُ اَنْ یَکُوْنَ کُفْرًا ) (١) لہٰذا سب سے پہلے وہ نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے جس میں عدل ہو ‘ انصاف ہو ‘ جس میں ضمانت دی گئی ہو کہ ہر شہری کی بنیادی ضروریات کی کفالت ہوگی۔ کفالت عامہ کی یہ ضمانت نظام خلافت میں دی جاتی ہے۔ جب نظام درست ہوجائے تو پھر حدود و تعزیرات کا نفاذ ہو۔ پھر جو کوئی چوری کرے اس کا ہاتھ کاٹاجائے۔ لیکن موجودہ حالات میں اگر اسلامی قوانین نافذ ہوں گے تو ان کا فائدہ الٹا لٹیروں اور حرام خوروں کو ہوگا ‘ بلیک مارکیٹنگ کرنے والے ان سے مستفید ہوں گے۔ جنہوں نے حرام خوری سے دولت جمع کر رکھی ہے ‘ وہ خوب پاؤں پھیلا کر سوئیں گے۔ چور کا ہاتھ کٹے گا تو انہیں چوری کا ڈر رہے گا نہ ڈاکے کا۔ تو اصل کام نظام کا بدلنا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ (معاذ اللہ) شریعت نافذ نہ کی جائے ‘ بلکہ مقصد یہ ہے کہ شریعت نافذ کرنے سے پہلے نظام ( ) کو بدلا جائے ‘ دین کا نظام قائم کیا جائے اور پھر اس نظام کو قائم رکھنے کے لیے ‘ اس کو مستحکم اور مضبوط کرنے کے لیے ‘ اسے مستقل طور پر چلانے کے لیے قانون نافذ کیا جائے۔ کیونکہ قانون ہی کسی نظام کے استحکام کا ذریعہ بنتا ہے ‘ قانون کے صحیح نفاذ سے ہی کوئی نظام مضبوط ہوتا ہے۔ - یہی مضمون آگے چل کر سورة المائدہ (آیت ٨) میں بھی آئے گا ‘ لیکن وہاں اس کی ترتیب بدل گئی ہے۔ وہاں ترتیب اس طرح ہے : (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء بالْقِسْطِز) ۔ اس ترتیب کے بدلنے میں ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ اللہ اور عدل و قسط گویا مترادف الفاظ ہیں۔ ایک جگہ حکم ہے گواہ بن جاؤ اللہ کے اور دوسری جگہ فرمایا : گواہ بن جاؤ قِسط کے۔ ایک جگہ فرمایا : کھڑے ہوجاؤ قسط (عدل و انصاف) کے لیے جبکہ دوسری جگہ ارشاد ہوا کہ کھڑے ہوجاؤ اللہ کے لیے۔ معلوم ہوا کہ اللہ اور قسط کے الفاظ جو ایک دوسرے کی جگہ آئے ہیں ‘ آپس میں مترادف ہیں۔- (وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ ج) ۔- ایک مؤمن کا تعلق عدل و انصاف اور قسط کے ساتھ ہونا چاہیے ‘ رشتہ داری کے ساتھ نہیں۔ یہاں پر حرف جار کے بدلنے سے معانی میں ہونے والی تبدیلی مدّ نظر رہے۔ شہادۃ علٰیکا مطلب ہے لوگوں پر گواہی ‘ ان کے خلاف گواہی ‘ جبکہ شہادۃ لِلّٰہ کا مطلب ہے اللہ کے لیے گواہی ‘ لہٰذا شُہَدَآءَ لِلّٰہ کے معنی ہیں اللہ کے گواہ۔ - (اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِہِمَا ق ) ۔- اللہ ہر کسی کا کفیل ہے ‘ تم کسی کے کفیل نہیں ہو۔ تمہیں تو فیصلہ کرنا ہے جو عدل و انصاف پر مبنی ہونا چاہیے ‘ تمہیں کسی کی جانب داری نہیں کرنی ‘ نہ ماں باپ کی ‘ نہ بھائی کی اور نہ خود اپنی۔ ایک چور دروازہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کا حق تو نہیں بنتا ‘ لیکن یہ غریب ہے ‘ لہٰذا اس کے حق میں فیصلہ کردیا جائے۔ فرمایا کہ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب ‘ تمہیں اس کی جانب داری نہیں کرنی۔ یہ حکم ہمیں واضح طور پر ہمارا فرض یاد دلاتا ہے کہ ہم سب اللہ کے گواہ بن کر کھڑے ہوجائیں۔ ہر حق بات جو اللہ کی طرف سے ہو اس کے علمبردار بن جائیں اور اس حق کو قائم کرنے کے لیے تن ‘ من اور دھن کی قربانی دینے کے لیے اپنی کمر کس لیں۔- (فَلاَ تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْاج وَاِنْ تَلْوٗآ اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا ) یعنی اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا حق گوئی سے پہلوتہی کی تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ کو اس کی پوری پوری خبر ہے۔ تَلوٗا کا صحیح مفہوم آج کی زبان میں ہوگا ۔ یعنی اس طریقے سے زبان کو حرکت دینا کہ بات کہنا بھی چاہتے ہیں لیکن کہہ بھی نہیں پا رہے ہیں ‘ حق بات زبان سے نکالنا نہیں چاہتے ‘ غلط بات نکل نہیں رہی ہے۔ یا پھر ویسے ہی حق بات کہنے والی صورت حال کا سامنا کرنے سے کنی کترا رہے ہیں ‘ موقع سے ہی بچ نکلنا چاہتے ہیں۔ لیکن یاد رکھو کہ ایسی کسی کوشش سے انسانوں کو تو دھوکہ دیا جاسکتا ہے مگر اللہ تو تمہاری ہر سوچ ‘ ہر نیت اور ہر حرکت سے باخبر ہے۔- اس کے بعد جو مضمون آ رہا ہے وہ شاید اس سورة مبارکہ کا اہم ترین مضمون ہے۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :164 یہ فرمانے پر اکتفا نہیں کیا کہ انصاف کی روش پر چلو ، بلکہ یہ فرمایا کہ انصاف کے علمبردار بنو ۔ تمہارا کام صرف انصاف کرنا ہی نہیں ہے بلکہ انصاف کا جھنڈا لے کر اٹھنا ہے ۔ تمہیں اس بات پر کمر بستہ ہونا چاہیے کہ ظلم مٹے اور اس کی جگہ عدل و راستی قائم ہو ۔ عدل کو اپنے قیام کے لیے جس سہارے کی ضرورت ہے ، مومن ہونے کی حیثیت سے تمہارا مقام یہ ہے کہ وہ سہارا تم بنو ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :165 یعنی تمہاری گواہی محض خدا کے لیے ہونی چاہیے ، کسی کی رو رعایت اس میں نہ ہو ، کوئی ذاتی مفاد یا خدا کے سوا کسی کی خوشنودی تمہارے مد نظر نہ ہو ۔