دو ریوڑ کے درمیان کی بکری سورہ بقرہ کے شروع میں بھی ( يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:9 ) اسی مضمون کی گذر چکی ہے ، یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ یہ کم سمجھ منافق اس اللہ تعالیٰ کے سامنے چالیں چلتے ہیں جو سینوں میں چھپی ہوئی باتوں اور دل کے پوشیدہ رازوں سے آگاہ ہے ۔ کم فہمی سے یہ خیال کئے بیٹھے ہیں کہ جس طرح ان کی منافقت اس دنیا میں چل گئی اور مسلمانوں میں ملے جلے رہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے پاس بھی یہ مکاری چل جائے گی ۔ چنانچہ قرآن میں ہے کہ قیامت کے دن بھی یہ لوگ اللہ خبیر و علیم کے سامنے اپنی یک رنگی کی قسمیں کھائیں گے جیسے یہاں کھاتے ہیں لکین اس عالم الغیب کے سامنے یہ ناکارہ قسمیں ہرگز کارآمد نہیں ہو سکتیں ۔ اللہ بھی انہیں دھوکے میں رکھ رہا ہے وہ ڈھیل دیتا ہے حوصلہ افزائی کرتا ہے یہ پھولے نہیں سماتے خوش ہوتے ہیں اور اپنے لئے اسے اچھائی سمجھتے ہیں ، قیامت میں بھی ان کا یہی حال ہو گا مسلمانوں کے نور کے سہارے میں ہوں گے وہ آگے نکل جائیں گے یہ آوازیں دیں گے کہ ٹھہرو ہم بھی تمہاری روشنی میں چلیں جواب ملے گا کہ پیچھے مڑ جاؤ اور روشنی تلاش کر لاؤ یہ مڑیں گے ادھر حجاب حائل ہو جائے گا ۔ مسلمانوں کی جانب رحمت اور ان کے لئے زحمت ، حدیث شریف میں ہے جو سنائے گا اللہ بھی اسے سنائے گا اور جو ریا کاری کرے گا اللہ بھی اسے ویسا ہی دکھائے گا ۔ ایک اور حدیث میں ہے ان منافقوں میں وہ بھی ہوں گے کہ لوگوں کے سامنے اللہ تعالیٰ ان کی نسبت فرمائے گا کہ انہیں جنت میں لے جاؤ فرشتے لے جا کر دوزخ میں ڈال دیں گے اللہ اپنی پناہ میں رکھے ۔ پھر ان منافقوں کی بد ذوقی کا حال بیان ہو رہا ہے کہ انہیں نماز جیسی بہترین عبادت میں بھی یکسوئی اور خشوع و خضوع نصیب نہیں ہوتا کیونکہ نیک نیتی حسن عمل ، حقیقی ایمان ، سچا یقین ، ان میں ہے ہی نہیں حضرت ابن عباس تھکے ماندے بدن سے کسما کر نماز پڑھنا مکروہ جانتے تھے اور فرماتے تھے نمازی کو چاہئے کہ ذوق و شوق سے راضی خوشی پوری رغبت اور انتہائی توجہ کے ساتھ نماز میں کھڑا ہو اور یقین مانے کہ اس کی آواز پر اللہ تعالیٰ کے کان ہیں ، اسکی طلب پوری کرنے کو اللہ تعالیٰ تیار ہے ، یہ تو ہوئی ان منافقوں کی ظاہری حالت کہ تھکے ہارے تنگ دلی کے ساتھ بطور بیگار ٹالنے کے نماز کے لئے آئے پھر اندرونی حالت یہ ہے کہ اخلاص سے کوسوں دور ہیں رب سے کوئی تعلق نہیں رکھتے نمازی مشہور ہونے کے لئے لوگوں میں اپنے ایمان کو ظاہر کرنے کے لئے نماز پڑھ رہے ہیں ، بھلا ان صنم آشنا دل والوں کو نماز میں کیا ملے گا ؟ یہی وجہ ہے کہ ان نمازوں میں جن میں لوگ ایک دوسرے کو کم دیکھ سکیں یہ غیر حاضر رہتے ہیں مثلاً عشاء کی نماز اور فجر کی نماز ، بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے زیادہ بوجھل نماز منافقوں پر عشاء اور فجر کی ہے ، اگر دراصل یہ ان نمازوں کے فضائل کے دل سے قائل ہوتے تو گھٹنوں کے بل بھی چل کر آنا پڑتا یہ ضرور آ جاتے ہیں تو ارادہ کر رہا ہوں کہ تکبیر کہلوا کر کسی کو اپنی امامت کی جگہ کھڑا کر کے نماز شروع کرا کر کچھ لوگوں سے لکڑیاں اٹھوا کر ان کے گھروں میں جاؤں جو جماعت میں شامل نہیں ہوتے اور لکڑیاں ان کے گھروں کے اردگرد لگا کر حکم دوں کہ آگ لگا دو اور ان کے گھروں کو جلا دو ، ایک روایت میں ہے اللہ تعالیٰ کی قسم اگر انہیں ایک چرب ہڈی یا دو اچھے کھر ملنے کی امید ہو تو دوڑے چلے آئیں لیکن آخرت کی اور اللہ کے ثوابوں کی انہیں اتنی بھی قدر نہیں ۔ اگر بال بچوں اور عورتوں کا جو گھروں میں رہتی ہیں مجھے خیال نہ ہوتا تو قطعاً میں ان کے گھر جلا دیتا ، ابو یعلی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص لوگوں کی موجودگی میں نماز کو سنوار کر ٹھہر ٹھہر کر ادا کرے لیکن جب کوئی نہ ہو تو بری طرح نماز پڑھ لے یہ وہ ہے جس نے اپنے رب کی اہانت کی ۔ پھر فرمایا یہ لوگ ذکر اللہ بھی بہت ہی کم کرتے ہیں یعنی نماز میں ان کا دل نہیں لگتا ، یہ اپنی کہی ہوئی بات سمجھتے بھی نہیں ، بلکہ غافل دل اور بےپرواہ نفس سے نماز پڑھ لیتے ہیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں یہ نماز منافق کی ہے یہ نماز منافق کی ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کی طرف دیکھ رہا ہے یہاں تک کہ جب وہ ڈوبنے لگا اور شیطان نے اپنے دونوں سینگ اس کے اردگرد لگا دیئے تو یہ کھڑا ہوا اور جلدی جلدی چار رکعت پڑھ لیں جن میں اللہ کا ذکر برائے نام ہی کیا ( مسلم وغیرہ ) یہ منافق متحیر اور ششدر و پریشان حال ہیں ایمان اور کفر کے درمیان ان کا دل ڈانوا ڈول ہو رہا ہے نہ تو صاف طور سے مسلمانوں کے ساتھی ہیں نہ بالکل کفار کے ساتھ کبھی نور ایمان چمک اٹھا تو اسلام کی صداقت کرنے لگے کبھی کفر کی اندھیریاں غالب آ گئیں تو ایمان سے الگ تھلگ ہوگئے ۔ نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی طرف ہیں نہ یہودیوں کی جانب ۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ منافق کی مثال ایسی ہے جیسی دو ریوڑ کے درمیان کی بکری کہ کبھی تو وہ میں میں کرتی اس ریوڑ کی طرف دوڑتی ہے کبھی اس طرف اس کے نزدیک ابھی طے نہیں ہوا کہ ان میں جائے یا اس کے پیچھے لگے ۔ ایک روایت میں ہے کہ اس معنی کی حدیث حضرت عبید بن عمیر نے حضرت عبداللہ بن عمر کی موجودگی میں کچھ الفاظ کے ہیر پھیر سے بیان کی تو حضرت عبداللہ نے اپنے سنے ہوئے الفاظ دوہرا کر کہا یوں نہیں بلکہ دراصل حدیث یوں ہے جس پر حضرت عبید ناراض ہوئے ( ممکن ہے ایک بزرگ نے ایک طرح کے الفاظ سنے ہوں دوسرے نے دوسری قسم کے ) ابن ابی حاتم میں ہے مومن کافر اور منافق کی مثال ان تین شخصوں جیسی ہے جو ایک دریا پر گئے ایک تو کنارے ہی کھڑا رہ گیا دوسرا پار ہو کر منزل مقصود کو پہنچ گیا تیسرا اتر چلا مگر جب بیچوں بیچ پہنچا تو ادھر والے نے پکارنا شروع کیا کہ کہاں ہلاک ہونے جا رہا ہے ادھر آ واپس چلا آ ، ادھر والے نے آواز دی جاؤ نجات کے ساتھ منزل مقصود پر میری طرف پہنچ جاؤ آدھا راستہ طے کر چکے ہو اب یہ حیران ہو کر کبھی ادھر دیکھتا ہے کبھی ادھر نظر ڈالتا ہے تذبذب ہے کہ کدھر جاؤں کدھر نہ جاؤں؟ اتنے میں ایک زبردست موج آئی اور بہا کر لے گئی اور وہ غوطے کھا کھا کر مر گیا ، پس پار جانے والا مسلمان ہے کنارے کھڑا بلانے والا کافر ہے اور موج میں ڈوب مرنے والا منافق ہے ، اور حدیث میں ہے منافق کی مثال اس بکری جیسی ہے جو ہرے بھرے ٹیلے پر بکریوں کو دیکھ کر آئی اور سونگھ کر چل دی ، پھر دوسرے ٹیلے پر چڑھی اور سونگھ کر آگئی ۔ پھر فرمایا جسے اللہ ہی راہ حق سے پھیر دے اس کا ولی و مرشد کون ہے؟ اس کے گمراہ کردہ کو کون راہ دکھا سکے؟ اللہ نے منافقوں کو ان کی بدترین بدعملی کے باعث راستی سے دھکیل دیا ہے اب نہ کوئی انہیں راہ راست پر لا سکے نہ چھٹکارا دلا سکے ، اللہ کی مرضی کے خلاف کون کر سکتا ہے وہ سب پر حاکم ہے اسی پر کسی کی حکومت نہیں ۔
142۔ 1 اس کی مختصر تشریح سورة بقرہ میں ہوچکی ہے۔ 142۔ 2 نماز اسلام کا اہم ترین رکن ہے اور اشرف ترین فرض ہے اور اس میں بھی کاہلی اور سستی کا مظاہرہ کرتے تھے، کیونکہ ان کا قلب ایمان، خشیت الٰہی اور خلوص سے محروم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عشاء اور فجر کی نماز بطور خاص ان پر بہت بھاری تھی جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے، منافق پر عشاء اور فجر کی نماز سب سے بھاری ہے۔ 142۔ 3 یہ نماز بھی وہ صرف ریاکاری اور دکھلاوے کے لئے پڑھتے تھے تاکہ مسلمانوں کو فریب دے سکیں۔ 142۔ 4 اللہ کا ذکر تو برائے نام کرتے ہیں یا نماز مختصر سی پڑھتے ہیں، جب نماز اخلاص، خشیت الٰہی اور خشوع سے خالی ہو تو اطمینان سے نماز کی ادائیگی نہایت گراں ہوتی ہے۔ جیسا کہ (البقرہ۔ 45) سے واضح ہے۔ حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان (طلوع کے قریب) ہوجاتا ہے تو اٹھتا ہے اور چار ٹھونگیں مار لیتا ہے (صحیح مسلم)
[١٨٩] یعنی منافقوں کا تو کام ہی فریب کاریوں سے اپنا مفاد حاصل کرنا ہے اور جو سازشیں کرتے رہتے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بذریعہ وحی مطلع کردیتا ہے تو یہ اپنی سازش میں نامراد رہنے کے علاوہ مسلمانوں کی نظروں میں ذلیل و رسوا بھی ہوجاتے ہیں پھر کوئی اور پینترا بدل لیتے ہیں تو کافر ان سے بدظن ہوجاتے ہیں اس طرح ان کی فریب کاریوں کا وبال انہی پر ہی پڑتا رہتا ہے۔- [١٩٠] منافق کی نماز اور ان کا کردار :۔ نماز اسلام کا اہم رکن ہے اور مومن اور کافر میں فرق کرنے کے لیے یہ ایک فوری امتیازی علامت ہے منافقین چونکہ اسلام کے مدعی تھے لہذا انہیں نماز ضرور ادا کرنا پڑتی تھی کیونکہ جو شخص نماز باجماعت میں شامل نہ ہوتا تو فوراً سب کو اس کے نفاق کا شبہ ہونے لگتا تھا۔ لیکن ایک مومن اور منافق کی نماز میں فرق ہوتا تھا۔ مومن بڑے ذوق و شوق سے آتے اور وقت سے پہلے مسجدوں میں پہنچ جاتے۔ نماز نہایت اطمینان اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتے اور نماز کے بعد بھی کچھ وقت ذکر اذکار میں مشغول رہتے اور مسجدوں میں ٹھہرے رہتے تھے۔ ان کی ایک ایک حرکت سے معلوم ہوجاتا تھا کہ انہیں واقعی نماز سے دلچسپی ہے اس کے برعکس منافقوں کی یہ حالت تھی کہ اذان کی آواز سنتے ہی ان پر مردنی چھا جاتی۔ دل پر جبر کر کے مسجدوں کو آتے۔ نماز میں خشوع و خضوع نام کو نہ ہوتا تھا۔ دلوں میں وہی مکاریوں اور فائدہ کے حصول کے خیالات اور نماز ختم ہوتے ہی فوراً گھروں کی راہ لیتے۔ ان کی تمام حرکات و سکنات اور ان کے ڈھیلے پن سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا تھا کہ انہیں نہ نماز کی اہمیت کا احساس ہے نہ اللہ سے کچھ محبت ہے اور نہ ہی اللہ کے ذکر سے کوئی رغبت ہے۔ وہ مسجدوں میں آتے ہیں تو محض حاضری لگوانے کے لیے اور نماز پڑھتے ہیں تو دکھانے کے لیے۔ علاوہ ازیں منافقین نماز باجماعت کا التزام بھی کم ہی کرتے تھے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث میں منافقوں کی اسی کیفیت کا ذکر کیا گیا ہے۔- ١۔ آپ نے فرمایا۔ منافق کی نماز یہ ہے کہ بیٹھا سورج کو دیکھتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان آجاتا ہے تو اٹھ کر (نماز عصر کے لیے) چار ٹھونگیں مار لیتا ہے اور اس میں اللہ کو کم ہی یاد کرتا ہے۔ (مسلم، کتاب الصلٰوۃ۔ باب استحباب التبکیر بالعصر)- ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا منافقوں پر کوئی نماز صبح اور عشاء کی نماز سے زیادہ بھاری نہیں۔ اور اگر لوگ اس ثواب کو جانتے جو ان نمازوں میں ہے تو گھسٹ کر بھی پہنچتے۔ اور میں نے ارادہ کیا کہ موذن سے کہوں وہ تکبیر کہے اور کسی کو لوگوں کی امامت کا حکم دوں اور آگ کا شعلہ لے کر ان لوگوں (کے گھروں) کو جلا دوں جو ابھی تک نماز کے لیے نہیں نکلتے۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب فضل صلوۃ العشاء فی الجماعۃ
اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ۚ : اس جملے کی تشریح سورة بقرہ کی آیت (٩) اور (١٥) میں ہوچکی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا انھیں دھوکا دینا بھی اسی طرح ہوگا جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ - وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ ۔۔ : اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین کو اپنے اسلام کا ثبوت پیش کرنے کے لیے مسجد میں آنا پڑتا تھا۔ اگر کوئی مسجد میں نماز نہ پڑھتا تو مسلمان شمار نہیں ہوتا تھا، منافقین کی یہ نمازیں صرف مسلمانوں کے دکھلاوے کے لیے تھیں، اس لیے جن نمازوں میں چھپنے کی گنجائش ہوتی اس میں وہ غیر حاضر رہتے، جیسے صبح اور عشاء کی نماز۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” منافقین پر صبح اور عشاء کی نماز تمام نمازوں سے زیادہ بھاری ہے، حالانکہ اگر وہ جانتے کہ ان کا کیا ثواب ہے تو وہ ان میں حاضر ہوتے، چاہے انھیں ان میں گھسٹ کر آنا پڑتا۔ “ [ بخاری، الأذان، باب فضل فی - صلوۃ العشاء۔۔ : ٦٥٧۔ مسلم : ٢٥٢؍٦٥١ ]- وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا : یعنی جلدی جلدی، جیسے کوئی بیگار ٹالنا مقصود ہے۔ انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ منافق کی نماز ہے، بیٹھا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ( یعنی غروب کے بالکل قریب) ہوجاتا ہے، تو اٹھتا ہے اور چار ٹھونگے مار لیتا ہے، ان میں اللہ کو یاد نہیں کرتا مگر بہت کم۔ “ [ مسلم، المساجد، باب استحباب التبکیر : ٦٢٢ ] معلوم ہوا کہ عصر کی نماز دیر سے پڑھنا بھی نفاق ہے اور جلدی جلدی اکٹھے دو سجدے بھی، جن میں وقفہ نہ ہو، ایک ہی سجدہ ہوتے ہیں، ورنہ آپ چار کے بجائے آٹھ ٹھونگے فرماتے۔
خلاصہ تفسیر - بلاشبہ منافق لوگ (اظہار ایمان میں) چالبازی کرتے ہیں اللہ سے (گو ان کی چال اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی اور گو ان کا اعتقاد اللہ کے ساتھ چالبازی کرنے کا نہ ہو، مگر ان کی یہ کارروائی مشابہ اسی کی ہے کہ جیسا یہی اعتقاد ہو) حالانکہ اللہ تعالیٰ اس چال کی سزا ان کو دینے والے ہیں، اور (چونکہ دل میں ایمان تو ہے نہیں اور اس لئے نماز کو فرض نہ سمجھیں اس میں ثواب کا اعتقاد رکھیں، اس لئے) جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بہت ہی کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، (کیونکہ نشاط اعتقاد اور امید سے پیدا ہوتا ہے) صرف آدمیوں کو (اپنا اس نماز میں) اللہ تعالیٰ کا ذکر (زبانی) بھی نہیں کرتے مگر بہت ہی مختصر (یعنی محض صورت نماز کی بنا لیتے ہیں جس میں نماز کا نام ہوجاوے اور عجب نہیں کہ اٹھنا بیٹھنا ہی ہوتا ہو، کیونکہ جہر کی ضرورت تو بعض نمازوں میں امام کو ہوتی ہے، امامت تو ان کو کہاں نصیب ہوتی، مقتدی ہونے کی حالت میں اگر کوئی بالکل نہ پڑھے فقط لب ہلاتا رہے تو کسی کو کیا خبر ہو تو ایسے بد اعتقادوں سے کیا بعید ہے کہ زبان بھی نہ ہلتی ہو) معلق ہو رہے ہیں دونوں کے (یعنی کفار و مؤ منین) کے درمیان میں نہ (پورے) ادھر نہ (پورے) ادھر (کیونکہ ظاہر میں مومن تو کفار سے الگ اور باطن میں کافر تو مؤمنین سے الگ) اور جس کو اللہ تعالیٰ گمراہی میں ڈال دیں (جیسا کہ ان کی عادت ہے کہ عزم فعل کے وقت اس فعل کو پیدا کردیتے ہیں) ایسے شخص کے (مومن ہونے کے) لئے کوئی سبیل (یعنی راہ) نہ پاؤ گے (مطلب یہ کہ ان منافقین کے راہ پر آنے کی امید مت رکھو، اس میں منافقین کی تشنیع ہے اور مؤمنین کی تسلی کہ ان کی شرارتوں سے رنج نہ کریں) اے ایمان والو تم مؤمنین کو چھوڑ کر کافروں کو (خواہ منافق ہوں خواہ مجاہر ہوں) دوست مت بناؤ (جیسا منافقین کا شیوہ ہے، کیونکہ تم کو ان کی حالت کفرو عداوت کی معلوم ہوچکی) کیا تم (ان سے دوستی کر کے) یوں چاہتے ہو کہ اپنے اوپر (یعنی اپنے مجرم و مستحق عذاب ہونے پر) اللہ تعالیٰ کی حجت صریح قائم کرلو (حجت صریحہ یہی ہے کہ ہم نے جب منع کردیا تھا پھر کیوں کیا۔ )- معارف ومسائل - مسئلہ : (قولہ تعالی) قاموا کسالی جس کسل کی یہاں مذمت ہے وہ اعتقادی کسل ہے اور جو باوجود اعتضاد صحیح کے کسل ہو وہ اس سے خارج ہے، پھر اگر کسی عذر سے ہو جیسے مرض وتعب و غلبہ نوم تو قابل ملامت بھی نہیں اور اگر بلا عذر ہو تو قابل ملامت ہے۔ (بیان القرآن)
اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللہَ وَھُوَخَادِعُھُمْ ٠ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوۃِ قَامُوْا كُسَالٰى ٠ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللہَ اِلَّا قَلِيْلًا ١٤٢ۡۙ- نِّفَاقُ- ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] - نفاق جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ - خدع - الخِدَاع : إنزال الغیر عمّا هو بصدده بأمر يبديه علی خلاف ما يخفيه، قال تعالی:- يُخادِعُونَ اللَّهَ [ البقرة 9] ، أي : يخادعون رسوله وأولیاء ه، ونسب ذلک إلى اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معاملة الرّسول کمعاملته، ولذلک قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُبايِعُونَكَ إِنَّما يُبايِعُونَ اللَّهَ [ الفتح 10] ، وجعل ذلک خدا عا تفظیعا لفعلهم، وتنبيها علی عظم الرّسول وعظم أولیائه . وقول أهل اللّغة : إنّ هذا علی حذف المضاف، وإقامة المضاف إليه مقامه، فيجب أن يعلم أنّ المقصود بمثله في الحذف لا يحصل لو أتي بالمضاف المحذوف لما ذکرنا من التّنبيه علی أمرین : أحدهما : فظاعة فعلهم فيما تحرّوه من الخدیعة، وأنّهم بمخادعتهم إيّاه يخادعون الله، والثاني : التّنبيه علی عظم المقصود بالخداع، وأنّ معاملته کمعاملة الله، كما نبّه عليه بقوله تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُبايِعُونَكَ ... الآية [ الفتح 10] ، وقوله تعالی:- وَهُوَ خادِعُهُمْ [ النساء 142] ، قيل معناه : مجازيهم بالخداع، وقیل : علی وجه آخر مذکور في قوله تعالی: وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ [ آل عمران 54] وقیل : خَدَعَ الضَّبُّ أي :- استتر في جحره، واستعمال ذلک في الضّبّ أنه يعدّ عقربا تلدغ من يدخل يديه في جحره، حتی قيل : العقرب بوّاب الضّبّ وحاجبه ولاعتقاد الخدیعة فيه قيل : أَخْدَعُ من ضبّ و طریق خَادِع وخَيْدَع : مضلّ ، كأنه يخدع سالکه . والمَخْدَع : بيت في بيت، كأنّ بانيه جعله خادعا لمن رام تناول ما فيه، وخَدَعَ الریق : إذا قلّ متصوّرا منه هذا المعنی، والأَخْدَعَان تصوّر منهما الخداع لاستتارهما تارة، وظهورهما تارة، يقال : خَدَعْتُهُ : قطعت أَخْدَعَهُ ، وفي الحدیث : «بين يدي السّاعة سنون خَدَّاعَة» أي : محتالة لتلوّنها بالجدب مرّة، وبالخصب مرّة .- ( خ د ع ) الخداع کے معنی ہیں جو کچھ دل میں ہوا س کے خلاف ظاہر کرکے کسی کو اس چیز سے پھیرلینا جس کے علاوہ درپے ہوا اور آیت کریمہ :۔ يُخادِعُونَ اللَّهَ [ البقرة 9]( اپنے پندار میں ) خدا کو چکمہ دیتے ہیں ۔ میں اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینے سے اس کے رسول اور اولیاء کو فریب دینا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آنحضرت کے ساتھ کوئی سا معاملہ کرنا گو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے ۔ اس بنا پر فرمایا :۔ إِنَّ الَّذِينَ يُبايِعُونَكَ إِنَّما يُبايِعُونَ اللَّهَ [ الفتح 10] جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں ۔ اور ان کے اس فعل کی شناخت اور آنحضرت اور صحابہ کرام کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے اسے خدا سے تعبیر کیا ہے ۔ اور بعض اہل لغت کا یہ کہنا کہ یہاں ( مضاف محذوف ہے اور اصل میں یخادعون رسول اللہ ہے ۔ پھر مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام کردیا گیا ہے ۔ تو اس کے متعلق یہ جان لینا ضروری ہے کہ مضاف محذوف کو ذکر کرنے سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے کہ ایک تو یہاں ان کی فریب کاریوں کی شناخت کو بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کو فریب دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور دوسرے یہ بتانا ہی کہ آنحضرت کے ساتھ معاملہ کرنا اللہ تعالیٰ سے معاملہ کرنے کے مترادف ہے جیسا کہ آیت إِنَّ الَّذِينَ يُبايِعُونَكَ ... الآية [ الفتح 10] میں بیان ہوچکا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَهُوَ خادِعُهُمْ [ النساء 142] اور وہ انہیں کو ۔ دھوکے میں ڈالنے والا ہے ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہیں ان کی فریب کاریوں کا بدلہ دے گا اور بعض نے کہا ہے کہ مقابلہ اور مشاکلہ کے طور پر یہ کہا گیا ہے جیسا کہ آیت وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ [ آل عمران 54] میں ہے ۔ خدع الضب گوہ کا اپنے بل میں داخل ہوجانا اور گوہ کے بل میں چھپ جانے کے لئے خدع کا استعمال اس بنا پر ہے کہ اس کی بل کے دروازے پر ہمیشہ ایک بچھو تیا ربیٹھا رہتا ہے ۔ جو بل میں ہاتھ ڈالنے والے کو ڈس دیتا ہے ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے العقرب بواب الضب کو بچھو گوہ کا دربان ہے ۔ چونکہ اہل عرب کے ہان ضب کی مکاری ضرب المثل تھی اس لئے کہا گیا ہے ( مثل ) ھو اخدع من الضب کہ وہ ضب سے زیادہ مکار ہے طریق خادع وخیدع گمراہ کرنے والا راستہ گویا وہ مسافر کا دھوکا دیتا ہے ۔ الھذع بڑے کمرے کے اندر چھوٹا کمرہ ۔ گو یا اس بڑے کمرے سے چیز اٹھانے والے کو دھوکا دینے کے لئے بنایا ہے ۔ خدع الریق منہ میں تھوک کا خشک ہونا اس میں بھی دھوکے کا تصور پایا جاتا ہے ۔ الاخدعان گردن کی دو رگیں کیونکہ وہ کبھی ظاہر اور کبھی پوشیدہ ہیں ۔ کہا جاتا ہے خدعتہ میں نے اس کی اخدع رگ کو کاٹ دیا ۔ حدیث میں ہے (107) بین یدی الساعۃ سنون خداعۃ کہ قیامت کے قریب دھو کا دینے والے سال ہوں گے کیونکہ وہ بھی خشک سالی اور خوشحالی سے رنگ بالتے ہوں گے ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے - صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- كسل - الْكَسَلُ : التثاقل عمّا لا ينبغي التثاقل عنه، ولأجل ذلک صار مذموما . يقال : كَسِلَ فهو كَسِلٌ وكَسْلَانُ وجمعه : كُسَالَى وكَسَالَى، قال تعالی: وَلا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] وقیل : فلان لا يَكْسَلُهُ الْمَكَاسِلُ وفحل كَسِلٌ: يَكْسَلُ عن الضّراب، وامرأة مِكْسَالٌ: فاترة عن التّحرّك .- ( ک س ل ) الکسل کے معنی کسی ایسے معاملہ میں گراں باری ظاہر کرنا کے ہیں ۔ جس میں گرا نباری کرنا مناسب نہ ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے مذموم خیال کیا جاتا ہے اور یہ باب کسل کا مصدر ہے ۔ اور کسلان کی جمع کسالٰی وکسالٰی آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] اور نماز کو آتے ہیں تو سست اور کاہل ہو کر ۔ محاورہ ہے ۔ فلان لا یکسلہ المکا سل اس کو اسباب کا ھلی سست نہیں بناتے فحل کسل جو نر کی جفتی میں سست ہوجائے امراۃ مکسال زن سست جو ناز پر در وہ ہو نیکی وجہ سے اپنے کمرہ سے باہر نہ نکلے ( صفت ہو ) - ریاء - قوله : «لا تَتَرَاءَى نارهما» ومنازلهم رِئَاءٌ ، أي : متقابلة . وفعل ذلک رِئَاءُ الناس، أي : مُرَاءَاةً وتشيّعا . والْمِرْآةُ ما يرى فيه صورة الأشياء، وهي مفعلة من : رأيت، نحو : المصحف من صحفت، وجمعها مَرَائِي، رئائ۔ راء ی یرائی ( باب مفاعلۃ) مراء ۃ ورئاء مصدر ( ر ء ی مادہ) خلاف اصل و خلاف حقیقت دکھانا۔ دکھاوا۔ خود نمائی۔ کسی کو دکھانے کے لئے کسی کام کا کرنا۔ رئاء الناس۔ مضاف مضاف الیہ۔ لوگوں کے دکھاوے کے لئے۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔
قول باری ہے ان المنافقین یخادعون اللہ وھو خادعھم، یہ منافق اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ درحقیقت اللہ نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے) ۔ اس کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک یہ کہ لوگ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو ایمان کے اظہار کے ذریعے دھوکہ دے رہے ہیں تاکہ اپنی جانیں محفوظ کرلیں اور اموال غنیمت میں مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوجایا کریں جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دھوکے بازی کی سزا دے کر انہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے اس سے ایک فعل کی جزا کو اس فعل سے موسوم کیا گیا ہے جیسا کہ کلام میں مزاوجت یعنی الفاظ کی تقریب کا طریقہ ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے فمن اعتذی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل مااعتدی علیکم۔ جو شخص تمہارے ساتھ زیادتی کرے تم بھی اس کے ساتھ اسی طرح زیادتی کرو جس طرح اس نے تمہارے ساتھ زیادتی کی ہے) ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ منافقین کا طرز عمل اس شخص کے طرز عمل کی طرح ہے جو اپنے مالک کے ساتھ دھوکہ کر رہا ہو کیونکہ یہ لوگ ایمان کا اظہار کرتے ہیں اور باطن میں اس کے خلاف عقیدہ چھپائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں اس لحاظ سے دھوکے میں ڈال رکھا ہے کہ مسلمانوں کو ان کا ایمان قبول کرلینے کا حکم دے دیا ہے جبکہ خودان منافقین کو یہ معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں چھپے ہوئے کفر سے بخوبی آگاہ ہے۔- ذکر قلیل کیا ہے - قول باری ہے ولایذکرون اللہ الا قلیلاً ۔ اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں) کہا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کے ذکر اللہ کو قلیل کہا ہے کیونکہ یہ ذکر اللہ کی رضا کی خاظر نہیں بلکہ اور مقصد کے لئے ہوتا ہے اس لئے معنی طور پر یہ قلیل ہے اگرچہ ظاہری طور پر اس کی کثرت ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ اسے قلیل کی صفت سے اس لئے موصوف کیا گیا ہے کہ یہ ریاکاری کے طورپر کیا جاتا ہے۔ اس لئے یہ نہ صرف بےمعنی اور حقیر ہے بلکہ اللہ کے ہاں ناقابل قبول ہے نیز یہ ان منافقین پر وبال ہے۔ ایک قول ہے اس سے مراد ذکر یسیر یعنی تھوڑا سا ذکر ہے وہ اس طرح کہ یہ منافقین لوگوں کو دکھلاوے کے طور پر جس قدر اللہ کا ذکر کرتے ہیں وہ اس سے کہیں کم ہے جس کا انہیں حکم دیا گیا ہے جس طرح مسلمانوں کو ہر حال میں اللہ کو یاد کرنے کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے فاذکرواللہ قیلعاً وقعوداً وعلی جنوبکم، اللہ کو کھڑے ہو کر، بیٹھ کر اور لیٹ کر یاد کرو) ۔ اللہ نے یہ بھی خبر دی ہے کہ منافقین نماز کے لئے کسمساتے ہوئے لوگوں کو دکھلاوے کے طور پر اٹھتے ہیں، کسل اس کیفیت کو کہتے ہیں جو طیبعت میں کسی چیز کی طرف سے اس بنا پر بوجھل پن پیدا کردیتی ہے کہ اس کی ادائیگی میں مشفقت ہوتی ہے اور اسے سرانجام دینے کے لئے دل میں کمزور سا داعیہ اور جذبہ ہوتا ہے۔ چونکہ منافقین کے دلوں میں ایمان کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی اس لئے ان میں نماز کا داعیہ پیدا نہیں ہوتا تھا۔ صرف مسلمانوں سے ڈر کر اور انہیں دکھانے کی خاطر وہ نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔
(١٤٢۔ ١٤٣) عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی خفیہ طریقہ پر اللہ تعالیٰ کی تکذیب اور اس کے دین کی مخالفت کرتے ہیں اور اپنے زعم میں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مکر اور دھوکہ کر رہے ہیں، اس کی سزا قیامت کے دن ان کو مل جائے گی کہ پل صراط پر گزرنے کے وقت ان سے مومنین کہیں گے کہ اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور روشنی تلاش کرو اور یہ لوگ بخوبی جانتے ہوں گے کہ ان کے پاس وہاں روشنی بجھ جائیگی اور لوٹنے کی ان میں طاقت نہ ہوگی۔- اور جب یہ نماز کے لیے آتے ہیں تو بہت سستی کے ساتھ آتے ہیں، جب دوسرے لوگ انھیں دیکھیں تو نماز پڑھ لیتے ہیں ورنہ چھوڑ دیتے ہیں، ریاء اور دکھاوے کے لیے پڑھتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے لیے مخلص ہو کر نماز نہیں پڑھتے ،- یہ کفر و ایمان کے بیچ ہیں، دل میں کفر ہے اور منہ سے ایمان کا اظہار کرتے ہیں، نہ ظاہر و باطن میں مسلمانوں کے ساتھ ہیں کہ ان کے لیے وہ چیزیں واجب نہ ہوں جو مسلمانوں کے لیے واجب ہوتی ہیں۔- اور نہ پورے طریقہ سے یہودیوں کے ساتھ ہیں کہ ان پر بھی کہیں وہ احکام نافذ نہ ہوں جو یہودیوں پر ہوتے ہیں جو دین حق سے خفیہ طریقہ پر بےراہ ہوتا ہے تو اسے پھر دین حق کے لیے کوئی راستہ نہیں ملتا۔
آیت ١٤٢ (اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ ) - یہ مضمون سورة البقرہ کے دوسرے رکوع میں بھی آچکا ہے۔ مُخادَعۃ باب مفاعلہ کا مصدر ہے۔ اس باب میں کسی کے مقابلے میں کوشش کے معنی شامل ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں دو فریقوں میں مقابلہ ہوتا ہے اور پتا نہیں ہوتا کہ کون جیتے گا اور کون ہارے گا۔ لہٰذا اس کا صحیح ترجمہ ہوگا کہ وہ دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے جواب میں اللہ کی طرف سے فرمایا گیا :- (وَہُوَ خَادِعُہُمْ ج) ۔- خَادِع ثلاثی مجرد سے اسم فاعل ہے اور یہ نہایت زور دار تاکید کے لیے آتا ہے ‘ اس لیے ترجمہ میں تاکیدی الفاظ آئیں گے۔ یہاں منافقین کے لیے دھوکہ والا پہلو یہ ہے کہ اللہ نے ان کو جو ڈھیل دی ہوئی ہے اس سے وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم کامیاب ہو رہے ہیں ‘ ہمارے اوپرا بھی تک کوئی آنچ نہیں آئی ‘ کوئی پکڑ نہیں ہوئی ‘ کوئی گرفت نہیں ہوئی ‘ ہم دونوں طرف سے بچے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے وہ اپنی اس ڈھیل کی وجہ سے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اور درحقیقت یہی دھوکہ ہے جو اللہ کی طرف سے ان کو دیا جا رہا ہے۔ یعنی اللہ نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ - (وَاِذَا قَامُوْآ اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی لا) - یہ منافقین جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ طبیعت میں بشاشت نہیں ہے ‘ آمادگی نہیں ہے۔ لیکن چونکہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنا بھی ضروری ہے لہٰذا مجبوراً کھڑے ہوجاتے ہیں۔ قَام فعل ہے اور اس کے معنی ہیں کھڑے ہونا ‘ جبکہ قاءم اس سے اسم فاعل ہے۔ مختلف زبانوں میں عام طور پر کے بعد کی تبدیلی سے معنی اور مفہوم بدل جاتے ہیں۔ مثلاً انگریزی میں ایک خاص مصدر ہے۔ اگر ہو تو معنی یکسر بدل جائیں گے۔ پھر اگر یہ ہو تو بالکل ہی الٹی بات ہوجائے گی۔ اسی طرح عربی میں بھی حروف جار کے تبدیل ہونے سے معانی بدل جاتے ہیں۔ لہٰذا اگر قام عَلٰی ہو ‘ جیسے (الرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ ) میں ہے تو اس کے معنی ہوں گے حاکم ہونا ‘ سربراہ ہونا ‘ کسی کے حکم کا نافذ ہونا۔ لیکن اگر قام اِلٰی ہو (جیسے آیت زیر نظر میں ہے) تو اس کا مطلب ہوگا کسی شے کے لیے کھڑے ہونا ‘ کسی شے کی طرف کھڑے ہونا ‘ کوئی کام کرنے کے لیے اٹھنا ‘ کوئی کام کرنے کا ارادہ کرنا۔ اس سے پہلے ہم قامَ ’ بِ ‘ کے ساتھ بھی پڑھ چکے ہیں : قَوّٰمَیْنَ بِا لْقِسْطِ اور قاءِمًا بالْقِسْطِ ۔ یہاں اس کے معنی ہیں کسی شے کو قائم کرنا۔ تو آپ نے ملاحظہ کیا کہ حروف جار ( ) کی تبدیلی سے کسی فعل کے اندر کس طرح اضافی معانی پیدا ہوجاتے ہیں۔- (یُرَآءُ وْنَ النَّاسَ ) (وَلاَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ الاَّ قَلِیْلاً ) - یعنی ذکر الٰہی جو نماز کا اصل مقصد ہے (وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ ) (طٰہٰ ) وہ انہیں نصیب نہیں ہوتا۔ مگر ممکن ہے اس بےدھیانی میں کسی وقت کوئی آیت بجلی کے کڑکے کی طرح کڑک کر ان کے شعور میں کچھ نہ کچھ اثرات پیدا کر دے ۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :172 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کوئی شخص مسلمانوں کی جماعت میں شمار ہی نہیں ہو سکتا تھا جب تک کہ وہ نماز کا پابند نہ ہو ۔ جس طرح تمام دنیوی جماعتیں اور مجلسیں اپنے اجتماعات میں کسی ممبر کے بلا عذر شریک نہ ہونے کو اس کی عدم دلچسپی پر محمول کرتی ہیں اور مسلسل چند اجتماعات سے غیر حاضر رہنے والے پر اسے ممبری سے خارج کر دیتی ہیں ، اسی طرح اسلامی جماعت کے کسی رکن کا نماز باجماعت سے غیر حاضر رہنا اس زمانہ میں اس بات کی صریح دلیل سمجھا جاتا تھا کہ وہ شخص اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ، اور اگر وہ مسلسل چند مرتبہ جماعت سے غیر حاضر رہتا تو یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ وہ مسلمان نہیں ہے ۔ اس بنا پر سخت سے سخت منافقوں کو بھی اس زمانہ میں پانچوں وقت مسجد کی حاضری ضرور دینی پڑتی تھی ، کیونکہ اس کے بغیر وہ مسلمانوں کی جماعت میں شمار کیے ہی نہ جا سکتے تھے ۔ البتہ جو چیز ان کو سچے اہل ایمان سے ممیز کرتی تھی وہ یہ تھی کہ سچے مومن ذوق و شوق سے آتے تھے ، وقت سے پہلے مسجدوں میں پہنچ جاتے تھے ، نماز سے فارغ ہو کر بھی مسجد وں میں ٹھیرے رہتے تھے ، اور ان کی ایک ایک حرکت سے ظاہر ہوتا تھا کہ نماز سے ان کو حقیقی دلچسپی ہے ۔ بخلاف اس کے اذان کی آواز سنتے ہی منافق کی جان پر بن جاتی تھی ، دل پر جبر کر کے اٹھتا تھا ، اس کے آنے کا انداز صاف غمازی کرتا تھا کہ آ نہیں رہا بلکہ اپنے آپ کو کھینچ کر لا رہا ہے ، جماعت ختم ہوتے ہی اس طرح بھاگتا تھا گویا کہ کسی قیدی کو رہائی ملی ہے ، اور اس کی تمام حرکات و سکنات سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ شخص خدا کے ذکر سے کوئی رغبت نہیں رکھتا ۔
84: اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ جو سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے اللہ کو دھوکا دے دیا، تو در حقیقت یہ خود ہی دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔ کیونکہ اللہ کو کوئی دھوکا نہیں دے سکتا، اور اللہ تعالیٰ ان کو اس دھوکے میں پڑا رہنے دیتا ہے جو انہوں نے خود اپنے آپ کو اپنے اختیار سے دے رکھا ہے۔ اور اس جملے کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ ان کو دھکے میں ڈالنے والاہے۔ اس ترجمے کی بنیاد پر اس کا ایک مطلب بعض مفسرین (مثلا حضرت حسن بصری) نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان کو اس دھوکے کی سزا آخرت میں اللہ تعالیٰ اس طرح دے گا کہ شروع میں ان کو بھی مسلمانوں کے ساتھ کچھ دور لے جایا جائے گا۔ اور مسلمانوں کو جو نور عطا ہوگا۔ اسی کی روشنی میں کچھ دور تک یہ بھی مسلمانوں کے ساتھ چلیں گے، اور یہ سمجھنے لگیں گے کہ ان کا انجام بھی مسلمانوں کے ساتھ ہوگا، مگر آگے جا کر ان سے روشنی چھین لی جائے گی، اور یہ بھٹکتے رہ جائیں گے، اور بالآخر دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے، جیسا کہ سورۃ حدید (12:57۔14) میں اس کا بیان آیا ہے۔