محسوس معجزہ کی مانگ اور بنی سرائیل کی حجت بازیاں یہودیوں نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کی طرف سے توراۃ ایک ساتھ لکھی ہوئی ہمارے پاس لائے ، آپ بھی کوئی آسمانی کتاب پوری لکھی لکھائی لے آیئے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے نام اللہ تعالیٰ خط بھیجے کہ ہم آپ کی نبوت کو مان لیں ۔ یہ سوال بھی ان کا بدنیتی سے بطور مذاق اور کفر تھا ۔ جیسا کہ اہل مکہ نے بھی اسی طرح کا ایک سوال کیا تھا ، جس طرح سورہ سبحان میں مذکور ہے کہ جب تک عرب کی سر زمین میں دریاؤں کی ریل پیل اور ترو تازگی کا دور دورہ نہ ہو جائے ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ پس بطور تسلی کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کی اس سرکشی اور بیجا سوال پر آپ کبیدہ خاطر نہ ہوں ان کی یہ بد عادت پرانی ہے ، انہوں نے حضرت موسیٰ سے اس سے بھی زیادہ بیہودہ سوال کیا تھا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ خود کو دکھائے ۔ اس تکبر اور سرکشی اور فضول سوالوں کی پاداش بھی یہ بھگت چکے ہیں یعنی ان پر آسمانی بجلی گری تھی ۔ جیسے سورہ بقرہ میں تفصیل وار بیان گذر چکا ۔ ملاحظہ ہو آیت ( وَاِذْ قُلْتُمْ يٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:52 ) یعنی جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ ہم تجھ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کو ہم صاف طور پر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں پس تمہیں بجلی کے کڑاکے نہ پکڑ لیا اور ایک دوسرے کے سامنے سب ہلاک ہو گئے ، پھر بھی ہم نے تمہاری موت کے بعد دوبارہ تمہیں زندہ کر دیا تا کہ تم شکر کرو ۔ پھر فرماتا ہے کہ بڑی بڑی نشانیاں دیکھ چکنے کے بعد بھی ان لوگوں نے بچھڑے کو پوجنا شروع کر دیا ۔ مصر میں اپنے دشمن فرعون کا حضرت موسیٰ کے مقابلے میں ہلاک ہونا اس کے تمام لشکروں کا نامرادی کی موت مرنا ، ان کا دریا سے بچ کر پار نکل آنا ، ابھی ابھی ان کی نگاہوں کے سامنے ہوا تھا لیکن وہاں سے چل کر کچھ دور جا کر ہی بت پرستوں کو بت پرستی کرتے ہوئے دیکھ کر اپنے پیغمبر سے کہتے ہیں ہمارا بھی ایک ایسا ہی معبود بنا دو ۔ جس کا پورا بیان سورہ اعراف میں ہے اور سورہ طہ میں بھی ۔ پھر حضرت موسیٰ اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتے ہیں ، ان کی توبہ کی قبولیت کی یہ صورت ٹھہرتی ہے کہ جنہوں نے گو سالہ پرستی نہیں کی وہ گوسالہ پرستوں کو قتل کریں ۔ جب قتل شروع ہو جاتا ہے ، اللہ ان کی توبہ قبول فرماتا ہے اور مرے ہوؤں کو بھی دوبارہ زندہ کر دیتا ہے ۔ پس یہاں فرماتا ہے ہم نے اس سے بھی درگذر کیا اور یہ جرم عظیم بھی بخش دیا اور موسیٰ کو ظاہر حجت اور کھلا غلبہ عنایت فرمایا اور جب ان لوگوں نے توراۃ کے احکام ماننے سے انکار کر دیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فرمانبرداری سے بیزاری ظاہر کی تو ان کے سروں پر طور پہاڑ کو معلق کھڑا کر دیا اور ان سے کہا کہ اب بولو پہاڑ گرا کر پاش پاش کر دیں یا احکام قبول کرتے ہو؟ تو یہ سب سجدے میں گر پڑے اور گریہ زاری شروع کی اور احکام الٰہی بجا لانے کا مضبوط عہد و پیمان کیا یہاں تک کہ دل میں دہشت تھی اور سجدے میں کنکھیوں سے اوپر دیکھ رہے تھے کہ کہیں پہاڑ نہ گر پڑے اور دب کر نہ مر جائیں ، پھر پہاڑ ہٹایا گیا ۔ ان کی دوسری کشی کا بیان ہو رہا ہے کہ قول و فعل دونوں کو بدل دیا ، حکم ملا تھا کہ بیت المقدس کے دروازے میں سجدے کرتے ہوئے جائیں اور حطتہ کہیں یعنی اے اللہ ہماری خطائیں بخش کہ ہم نے جہاد چھوڑ دیا اور تھک کر بیٹھ رہے جس کی سا میں چالیس سال میدان تیہ میں سرگشتہ و حیران و پریشان رہے لیکن ان کی کم ظرفی کا یہاں بھی مظاہرہ ہوا اور اپنی رانوں کے بل گھسٹتے ہوئے دروازے میں داخل ہونے لگے اور حنطتہ فی شعرۃ کہنے لگے یعنی گیہوں کی بالیں ہمیں دے ۔ پھر ان کی اور شرارت سنئے ہفتہ وار دن کی تعظیم و کریم کرنے کا ان سے وعدہ لیا گیا اور مضبوط عہد و پیمان ہو گیا لیکن انہوں نے اس کی بھی مخالفت کی نافرمانی پر کمربستہ ہو کر حرمت کرنے کا ان سے وعدہ لیا گیا اور مضبوط عہد و پیمان ہو گیا لیکن انہوں نے اس کی بھی مخالفت کی نافرمانی پر کمر بستہ ہو کر حرمت کے ارتکاب کے حیلے نکال لئے ۔ جیسے کہ سورہ اعراف میں مفصل بیان ہے ملاحظہ ہو آیت ( وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ ) 7 ۔ الاعراف:163 ) ایک حدیث میں بھی ہے کہ یہودیوں سے خاصتہ اللہ تعالیٰ نے ہفتہ والے دن کی تعظیم کا عہد لیا تھا ۔ یہ پوری حدیث سورہ سبحان کی آیت ( وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ فَسْــــَٔـلْ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِذْ جَاۗءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰي مَسْحُوْرًا ) 17 ۔ الاسراء:101 ) کی تفسیر میں آئے گی انشاء اللہ
153۔ 1 یعنی جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر گئے اور تختیوں پر لکھی ہوئی تورات لے کر آئے، اسی طرح آپ بھی آسمان پر جا کر لکھا ہوا قرآن مجید لے کر آئیں۔ یہ مطالبہ محض عناد، حجود اور تعنت کی بنا پر تھا۔
[٢٠٢] یہود کا ایمان لانے کے لئے نوشتہ کا مطالبہ :۔ مثل مشہور ہے خوئے بدرابہانہ بسیار اسی مثل کے مصداق یہود مدینہ نے آپ سے یہ مطالبہ کیا کہ اگر آسمان سے کوئی لکھی ہوئی کتاب آپ پر آسمان سے نازل ہو تو ہم اس پر ایمان لے آئیں گے جیسا کہ موسیٰ پر تورات کی تختیاں نازل ہوئی تھیں۔ ان کے اس مطالبہ کے اللہ نے مختلف مقامات پر کئی طرح سے جواب دیئے ہیں۔ الزامی بھی اور تحقیقی بھی۔ الزامی جواب یہ ہے کہ سوال کرنا اور سوال کرتے جانا یہود کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ان پر آسمان سے تورات لکھی لکھائی نازل ہوئی تھی تو کیا یہ اس پر ایمان لے آئے تھے ؟ - خ مطالبہ دیدار الہٰی :۔ انہوں نے تو اس سے بھی بڑا مطالبہ پیش کردیا تھا جو یہ تھا کہ ہم جب تک اللہ کو نہ دیکھ لیں اور وہ بھی یہ کہے کہ واقعی یہ کتاب تورات میں نے ہی نازل کی ہے۔ اس وقت تک اے موسیٰ ہم تمہارا کیسے اعتبار کریں۔ اگرچہ ان کا ہر مطالبہ انتہائی سرکشی پر مبنی تھا۔ تاہم موسیٰ (علیہ السلام) انہیں کوہ طور کے دامن میں لے گئے۔ بھلا اللہ تعالیٰ کی جس تجلی کو خود سیدنا موسیٰ بھی نہ سہار سکے تھے اور بےہوش ہو کر گرپڑے تھے یہ لوگ بھلا کیسے سہار سکتے تھے ؟ چناچہ جب بجلی کی صورت میں تجلیات ان پر پڑیں، تو سب کے سب مرگئے۔ پھر سیدنا موسیٰ کی دعا سے زندہ ہوئے اور یہ واقعہ تفصیل سے سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ لہذا اب پھر اگر ان کی خواہش کے مطابق اتارا جائے تو یہ لوگ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرچکے ہیں۔- [٢٠٣] معجزات موسیٰ :۔ یہ واضح دلائل یہ تھے۔ عصائے موسیٰ ، ید بیضاء آل فرعون پر چچڑیوں، جوؤں، مینڈکوں اور خون کا عذاب، جو سیدنا موسیٰ کی دعا سے دور کردیا جاتا مگر پھر بھی وہ لوگ ایمان نہ لاتے۔ جادوگروں کے مقابلہ میں سیدنا موسیٰ کی نمایاں کامیابی اور جادوگروں کا ایمان لانا، دریا کا پھٹنا اور اس میں فرعون اور آل فرعون کا غرق ہونا، اور بنی اسرائیل کا فرعونیوں سے نجات پانا وغیرہ۔ غرض ایسے دلائل یا معجزات بیشمار تھے۔ انہیں دیکھ کر بھی جو لوگ کماحقہ، ایمان نہ لائے تھے۔ اگر آپ پر کتاب اتار بھی دی جائے تو کیا یہ لوگ ایمان لے آئیں گے ؟- [٢٠٤] گؤسالہ پرستی :۔ تم اس قدر ظالم لوگ تھے کہ تم نے یہ نہ سمجھا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ہوتا رہا بلکہ تم میں سے اکثر نے یہی سمجھا کہ ہماری یہ نجات گؤ سالہ پرستی کی وجہ سے ہوئی ہے لہذا تم نے پھر سے گؤ سالہ پرستی شروع کردی۔ اور جب کسی بچھڑے کا نصب شدہ بت نہ ملا تو تم نے خود ہی بچھڑے کا بت بنا کر اس کی پوجا شروع کردی۔ یہ تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔
يَسْــَٔــلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ ۔۔ : اس آیت میں یہود کی ایک اور جہالت کا بیان ہے اور اس کا مقصد ان کی سرکشی اور طبعی ضد و عناد کو بیان کرنا ہے۔ (کبیر) ان کا مقصد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا تو تھا نہیں، محض شرارت کے لیے اور لاجواب کرنے کے لیے نت نئے اعتراضات پیش کرتے رہتے۔ ان میں سے ان کی ایک فرمائش یہ تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تختیاں ملی تھیں، لہٰذا آپ بھی اللہ تعالیٰ کے پاس سے اسی طرح کی کتاب لا کردکھائیں، تاکہ ہم آپ کی تصدیق کریں اور آپ پر ایمان لائیں۔ قرآن نے اس اعتراض کے جواب میں پہلے تو ان پر ان کی گزشتہ کارستانیاں بطور الزام پیش کیں (کیونکہ اصل خاموش کرانے والا جواب الزامی ہوتا ہے کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو، پھر اعتراض کرو) اور پھر آیت (١٦٣) ( اِنَّآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَمَآ اَوْحَيْنَآ) سے اس اعتراض کا تحقیقی جواب دیا ہے۔ (کبیر) اور یہ سلسلۂ بیان آیت (١٧٠) تک چلا گیا ہے۔ اس کے بعد (يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ ) سے نصاریٰ سے خطاب ہے۔ (فتح الرحمن) - فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰٓى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فرمایا ( تمہاری اس فرمائش کے عین مطابق) موسیٰ (علیہ السلام) کتاب لائے تو تم نے اس سے بڑا مطالبہ پیش کردیا، یعنی یہ کہ ہمیں واضح طور پر سامنے اللہ تعالیٰ کا دیدار کراؤ۔ ( دیکھیے بقرہ : ٥٥) پھر اس سے بھی بڑی گستاخی کی کہ بچھڑے کو معبود بنا لیا، مگر ہم نے تمہیں معاف کردیا اور تمہاری اس ضد، عناد اور جہل کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم نے غلبہ اور اقتدار عطا فرما دیا اور تم لوگ ان کے حکم کی مخالفت نہ کرسکے۔ اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بھی بشارت ہے کہ آخر کار یہ ضد اور عناد رکھنے والے مغلوب ہوں گے۔ اس کے بعد ان کی دوسری جہالتوں کا بیان ہے۔ (کبیر)
ربط آیات :۔ مقابل کی آیات میں یہود کی بد اعتقادیوں کا ذکر کر کے ان کی مذمت مذکور تھی، ان آیات میں بھی ان کی کچھ دوسری خراب حرکتوں کی ایک طویل فہرست اور ان قباحتوں کی بناء پر ان کے عذاب و سزا کا ذکر ہے اور یہ سلسلہ دور تک چلا گیا ہے۔- خلاصہ تفسیر - (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ سے اہل کتاب (یہود) یہ درخواست کرتے ہیں کہ آپ ان کے پاس ایک خاص نوشتہ آسمان سے منگوا دیں سو (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں سے اس کو عجیب نہ سمجھئے کیونکہ یہ فرقہ ایسا معاند ہے کہ) انہوں نے (یعنی اس فرقہ کے جو لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے وقت موجود تھے انہوں نے) موسیٰ (علیہ السلام) سے اس سے بھی بڑی بات کی درخواست کی تھی اور یوں کہا تھا کہ ہم کو اللہ تعالیٰ کو کھلم کھلا (بلا حجاب) دکھلادو جس پر ان کی گستاخی کے سبب ان پر کڑک بجلی کی آپڑی، پھر (اس سے بڑھ کر ان کی یہ حرکت ہوچکی ہے کہ) انہوں نے گو سالہ کو (پرستش) کے لئے تجویز کیا تھا بعد اس کے بہت سے دلائل (تعیین حق و باطل کے) ان تک پہنچ چکے تھے (مراد ان دلائل سے معجزات ہیں، موسیٰ (علیہ السلام) کے جن میں سے غرق فرعون تک بہتوں کا مشاہدہ ہوچکا تھا) پھر ہم نے ان سے درگزر کردیا تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم نے بڑا رعب دیا تھا (اس رعب پر اور ہماری درگزر اور عنایت پر ان لوگوں کی یہ کیفیت تھی کہ نہ عنایت سے متاثر ہوتے تھے نہ رعب سے) اور ہم نے ان لوگوں سے (توراة پر عمل کرنے کے) قول قرار لینے کے واسطے کوہ طور کو اٹھا کر ان کے اوپر (محاذات میں) معلق کردیا تھا اور ہم نے ان کو یہ حکم دیا تھا کہ دروازہ میں عاجزی سے داخل ہونا اور ہم نے ان کو یہ حکم دیا تھا کہ یوم ہفتہ کے بارے میں (جو حکم تم کو ملا ہے کہ اس میں شکار نہ کریں اس میں حد شرع سے) تجاوز مت کرنا اور (اس کے علاوہ اور بھی) ہم نے ان سے قول وقرار نہایت شدید لئے (جس کا بیان واذ اخذنا میثاق بنی اسرائیل میں مذکور ہے لیکن ان لوگوں نے باوجود اس قدر اہتمام کے پھر اپنے عہدوں کو توڑ ڈالا۔ )- معارف و مسائل - یہودیوں کے کچھ سردار آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور آپ سے مطالبہ کیا کہ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) پر لکھی ہوئی کتاب آسمان سے نازل ہوئی تھی، اسی طرح کی ایک کاتب آپ بھی آسمان سے لائیں، تو ہم ایمان لے آئیں گے، ان کا مطالبہ اس لئے نہیں تھا کہ وہ دل سے ایمان لانا چاہتے تھے، اور یہ ان کی ایک شرط تھی، بلکہ وہ ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے کوئی نہ کوئی عذر کرتے ہی رہتے تھے، اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حقیقت حال سے آگاہ فرمایا اور ان کی تسلی کردی کہ درحقیقت یہ قوم ہی ایسی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں کو ستاتی ہی رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے خلاف بغاوت کرنے کے لئے بڑی سے بڑی حرکت بھی کر گذرتی ہے، ان کے آباء و اجداد نے موسیٰ (علیہ السلام) سے اس سے بھی زیادہ بڑی بات کا مطالبہ کیا تھا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کھلم کھلا دکھلایا جائے ان کی اس گستاخی پر آسمان سے بجلی آئی اور ان کو ہلاک کردیا، پھر توحید اور خدائے واحد لاشریک کے براہین بنیات کو اچھی طرح سمجھنے بوجھنے کے بعد بھی خالق حقیقی کے بجائے بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے تھے، لیکن اس سب کچھ کے باوجود ہم نے عفو و درگزر سے کام لیا ورنہ تو موقع اس کا تھا کہ ان کا قلع قمع کیا جاتا ........ اور اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم نے غلبہ عطاء کیا ........ ایک موقع ایسا بھی آیا تھا کہ ان لوگوں نے تورات کی شریعت کو ماننے سے صاف انکار کردیا تھا تو ہم نے پہاڑ طور اٹھا کر ان پر معلق کردیا کہ شریعت کو ماننا ہی ہوگا، ورنہ پہاڑ کے نیچے کچل دیئے جاؤ گے ہم نے ان سے یہ بھی کہا کہ جب شہرایلیا کے دروازہ میں داخل ہو تو نہایت عاجزی سے اطاعت خداوندی کے جذبہ سے سرشار جھکائے ہوئے داخل ہو، یہ بھی ہم نے ان سے کہہ دیا تھا کہ ہفتہ کے روز مچھلیوں کا شکار نہ کھیلو، یہ ہمارا حکم ہے اس سے روگردانی نہ کرو اور اس طرح ہم نے ان سے مضبوط عہد لے لیا تھا، لیکن ہوا یوں کہ انہوں نے ایک ایک کر کے احکام کی خلاف ورزی کی اور ہمارے عہد کو توڑ ڈالا تو ہم نے دنیا میں بھی ان کو ذلیل کردیا اور آخرت میں بھی ان کو بدترین سزا بھگتنی ہوگی۔
يَسْــَٔــلُكَ اَہْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْہِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰٓى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَقَالُوْٓا اَرِنَا اللہَ جَہْرَۃً فَاَخَذَتْہُمُ الصّٰعِقَۃُ بِظُلْمِہِمْ ٠ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْہُمُ الْبَيِّنٰتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِكَ ٠ۚ وَاٰتَيْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِيْنًا ١٥٣- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - جهر - جَهْر يقال لظهور الشیء بإفراط حاسة البصر أو حاسة السمع .- أمّا البصر فنحو : رأيته جِهَارا، قال اللہ تعالی: لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة 55] ، أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] - ( ج ھ ر ) الجھر - ( ف) اس کے اصل معنی کسی چیز کا حاسہ سمع یا بصر میں افراط کے سبب پوری طرح ظاہر اور نمایاں ہونے کے ہیں چناچہ حاسہ بصر یعنی نظروں کے سامنے کسی چیز کے ظاہر ہونے کے متعلق کہا جاتا ہے رایتہ جھرا کہ میں نے اسے کھلم کھلا دیکھا قرآن میں ہے :۔ لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة 55] کہ جب تک ہم خدا کو سامنے نمایاں طور پر نہ دیکھ لیں تم پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ - أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] ہمیں نمایاں اور ظاہر طور پر خدا دکھا دو ۔- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- صعق - الصَّاعِقَةُ والصّاقعة يتقاربان، وهما الهدّة الكبيرة، إلّا أن الصّقع يقال في الأجسام الأرضيّة، والصَّعْقَ في الأجسام العلويَّةِ. قال بعض أهل اللّغة :- الصَّاعِقَةُ علی ثلاثة أوجه :- 1- الموت، کقوله : فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ- [ الزمر 68] ، وقوله : فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ [ النساء 153] .- 2- والعذاب، کقوله : أَنْذَرْتُكُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَثَمُودَ [ فصلت 13] .- 3- والنار، کقوله : وَيُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَيُصِيبُ بِها مَنْ يَشاءُ [ الرعد 13] . وما ذكره فهو أشياء حاصلة من الصَّاعِقَةِ ، فإنّ الصَّاعِقَةَ هي الصّوت الشّديد من الجوّ ، ثم يكون منها نار فقط، أو عذاب، أو موت، وهي في ذاتها شيء واحد، وهذه الأشياء تأثيرات منها .- ( ص ع ق ) الصاعقۃ - اور صاقعۃ دونوں کے تقریبا ایک ہی معنی ہیں یعنی ہو لناک دھماکہ ۔ لیکن صقع کا لفظ اجسام ارضی کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور صعق اجسام علوی کے بارے میں بعض اہل لغت نے کہا ہے کہ صاعقۃ تین قسم پر ہے - اول بمعنی موت اور ہلاکت - جیسے فرمایا : ۔ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ الزمر 68] تو جو لوگ آسمان میں ہیں اور جو زمین میں ہیں سب کے سب مرجائیں گے ۔ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ [ النساء 153] سو تم کو موت نے آپکڑا ۔- دوم بمعنی عذاب جیسے فرمایا : ۔- أَنْذَرْتُكُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَثَمُودَ [ فصلت 13] میں تم کو مہلک عذاب سے آگاہ کرتا ہوں جیسے عاد اور ثمود پر وہ ( عذاب ) آیا تھا ۔ - سوم بمعنی آگ ( اور بجلی کی کڑک )- جیسے فرمایا : ۔ وَيُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَيُصِيبُ بِها مَنْ يَشاءُ [ الرعد 13] اور وہی بجلیاں بھیجتا ہے پھو حس پر چاہتا ہے گرا بھی دیتا ہے ۔ لیکن یہ تینوں چیزیں دراصل صاعقہ کے آثار سے ہیں کیونکہ اس کے اصل معنی تو قضا میں سخت آواز کے ہیں پھر کبھی تو اس آواز سے صرف آگ ہی پیدا ہوتی ہے اور کبھی وہ آواز عذاب اور کبھی موت کا سبب بن جاتی ہے یعنی دراصل وہ ایک ہی چیز ہے اور یہ سب چیزیں اس کے آثار سے ہیں ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - عِجْلُ ( بچهڑا)- : ولد البقرة لتصوّر عَجَلَتِهَا التي تعدم منه إذا صار ثورا . قال : عِجْلًا جَسَداً [ الأعراف 148] ، وبقرةٌ مُعْجِلٌ: لها عِجْلٌ.- العجلۃ بچھڑے کو کہتے ہیں کیونکہ اس میں پھرتی پائی جاتی ہے جو بیل کی عمر تک پہنچنے پر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ عِجْلًا جَسَداً [ الأعراف 148] ایک بچھڑا ( بنالیا وہ ایک جسم تھا : ۔ اور وہ گائے جس کے ساتھ اس کا بچھڑ ہوا سے معجل کہا جاتا ہے ۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- بينات - يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ - عفو - فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237]- ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ - آتینا - وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .- [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ- [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني .- وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔- سلط - السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] ،- ( س ل ط ) السلاطۃ - اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔
(١٥٣) کعب اور اس کے ساتھی توریت کی طرح ایک نوشتہ کی درخواست کرتے ہیں یا چاہتے ہیں کہ ان پر ایسی کتاب نازل کردی جائے جس میں ان کی خیر وشر ثواب و عذاب و دیگر اعمال سب کچھ ہو، آپ سے جو سوال کرتے ہیں، اس سے بڑھ کر انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے سوال کیا تھا، مگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے ڈھٹائی اور جرأت کرنے کی وجہ سے ان کو آگ نے جلا دیا۔- مگر ان اوامرو نواہی کے آجانے کے باوجود انہوں نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی، مگر اس زیادتی کے باوجود ہم نے معاف کیا اور ان کا خاتمہ نہیں کیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تائید حق کیلئے ہم نے یدبیضاء اور عصا کا معجزہ دیا تھا۔- شان نزول : (آیت) ”۔ یسئلک اھل الکتب “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے محمد بن کعب قرطی (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے پاس اللہ کی طرف سے الواح لے کر آئے، آپ بھی ہمارے پاس الواح لائیں، تاکہ ہم آپ کی تصدیق کریں، اس پر (آیت) یسئلک۔ سے لے کر بھتانا عظیما “۔ تک یہ آیات نازل ہوئیں تو ان یہودیوں میں سے ایک شخص گھٹنوں کے بل گرپڑا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) پر اور کسی پر کوئی چیز نازل نہیں کی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” وما قدرواللہ حق قدرہ “۔
آیت ١٥٣ (یَسْءَلُکَ اَہْلُ الْکِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْہِمْ کِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ ) - یعنی جیسے تورات اتری تھی ‘ ویسے ہی تحریری شکل میں ایک کتاب آسمان سے اترنی چاہیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو کہتے ہیں مجھ پر وحی آتی ہے ‘ لیکن کہاں لکھی ہوئی ہے وہ وحی ؟ کون لایا ہے ؟ ہمیں تو پتا نہیں۔ موسیٰ ( علیہ السلام) کو تو ان کی کتاب لکھی ہوئی ملی تھی اور وہ پتھر کی تختیوں کی صورت میں اسے لے کر آئے تھے۔ آپ پر بھی اسی طرح کی کتاب نازل ہو تو ہم مانیں۔- (فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰٓی اَکْبَرَ مِنْ ذٰلِکَ ) (یہ تعجب کی بات نہیں) انہوں نے موسیٰ ( علیہ السلام) سے اس سے بھی بڑھ کر مطالبے کیے تھے - اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فکر نہ کریں ‘ ان کی پروا نہ کریں۔ انہوں نے ‘ ان کے آباء و اَجداد نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے اس سے بھی بڑے بڑے مطالبات کیے تھے۔- (فَقَالُوْْٓا اَرِنَا اللّٰہَ جَہْرَۃً ) - کہ ہم خود اپنی آنکھوں سے اسے دیکھنا چاہتے ہیں ‘ جب دیکھیں گے تب مانیں گے۔- (فَاَخَذَتْہُمُ الصّٰعِقَۃُ بِظُلْمِہِمْ ج) ۔- (ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْم بَعْدِ مَا جَآءَ تْہُمُ الْبَیِّنٰتُ ) - ان لوگوں کی نا ہنجاری کا اندازہ کریں کہ نو نو معجزے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ہاتھوں دیکھنے کے بعد بھی انہوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی۔- (فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِکَ ج وَاٰتَیْنَا مُوْسٰی سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا ) ۔- فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کو ان کی آنکھوں کے سامنے غرق کردیا۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :181 مدینہ کے یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عجیب عجیب مطالبے کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ہم آپ کی رسالت اس وقت تک تسلیم نہ کریں گے جب تک کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ایک لکھی لکھائی کتاب آسمان سے نازل نہ ہو ، یا ہم میں سے ایک ایک شخص کے نام اوپر سے اس مضمون کی تحریر نہ آجائے کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے رسول ہیں ، ان پر ایمان لاؤ ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :182 یہاں کسی واقعہ کی تفصیل بیان کرنا مقصود نہیں ہے ، بلکہ یہودیوں کے جرائم کی ایک مختصر فہرست پیش کرنی مقصود ہے ، اس لیے ان کی قومی تاریخ کے چند نمایاں واقعات کی طرف سرسری اشارات کیے گئے ہیں ۔ اس آیت میں جس واقعہ کا ذکر ہے وہ سورہ بقرہ آیت ۵۵ میں بھی گزر چکا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ بقرہ ، حاشیہ نمبر ۷۱ ) سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :183 کھلی کھلی نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے رسول مقرر ہونے کے بعد سے لے کر فرعون کے غرق ہونے اور بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے تک پے در پے ان لوگوں کے مشاہدے میں آچکی تھیں ۔ ظاہر ہے کہ سلطنت مصر کی عظیم الشان طاقت کے پنجوں سے جس نے بنی اسرائیل کو چھڑایا تھا وہ کوئی گائے کا بچہ نہ تھا بلکہ اللہ رب العالمین تھا ۔ مگر یہ اس قوم کی طابل پرستی کا کمال تھا کہ خدا کی قدرت اور اس کے فضل کی روشن ترین نشانیوں کا تجربہ اور مشاہدہ کر چکنے کے بعد بھی جب جھکی تو اپنے محسن خدا کے آگے نہیں بلکہ ایک بچھڑے کی مصنوعی مورت ہی کے آگے جھکی ۔