Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تیسرا قول یہ ہے کہ اہل کتاب میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی موت سے پہلے ایمان لائے گا ۔ عکرمہ یہی فرماتے ہیں ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں ان سب اقوال میں زیادہ تر صحیح قول پہلا ہے کہ حضرت عیسیٰ آسمان سے قیامت کے قریب اتریں گے ، اس وقت کوئی اہل کتاب آپ پر ایمان لائے بغیر نہ رہے گا ۔ فی الواقع امام صاحب کا یہ فیصلہ حق بجانب ہے ۔ اس لئے کہ یہاں کی آیتوں سے صاف ظاہر ہے کہ اصل مقصود یہودیوں کے اس دعوے کو غلط ثابت کرنا ہے کہ ہم نے جناب مسیح کو قتل کیا اور سولی دی اور اسی طرح جن جاہل عیسائیوں نے یہ بھی کہا ہے ان کے قول کو بھی باطل کرنا ہے ، روح اللہ نہ مقتول ہیں ، نہ مصلوب ۔ تو اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ فی الواقع نفس الامر میں نہ تو روح اللہ مقتول ہوئے ، نہ مصلوب ہوئے بلکہ ان کے لئے شبہ ڈال دیا گیا اور انہوں نے حضرت عیسیٰ جیسے ایک شخص کو قتل کیا لیکن خود انہیں اس حقیقت کا علم نہ ہو سکا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تو اپنے پاس چڑھا لیا ۔ وہ زندہ ہیں ، اب تک باقی ہیں ، قیامت کے قریب اتریں گے ۔ جیسے صحیح متواتر احادیث میں ہے مسیح ہر گمراہ کو قتل کریں گے ، صلیب کو توڑیں گے ، خنزیروں کو قتل کریں گے ، جزیہ قبول نہیں کریں گے ، اعلان کر دیں گے کہ یا تو اسلام کو قبول کرو یا تلوار سے مقابلہ کرو ۔ پس اس آیت میں خبر دیتا ہے کہ اس وقت تمام اہل کتاب آپ کے ہاتھ پر ایمان قبول کریں گے اور ایک بھی ایسا نہ رہے گا جو اسلام کو مانے بغیر رہ جائے یا رہ سکے ۔ پس جسے یہ گمراہ یہود اور یہ جاہل نصرانی مرا ہوا جانتے ہیں اور سولی پر چڑھایا ہوا مانتے ہیں ، یہ ان کی حقیقی موت سے پہلے ہی ان پر ایمان لائیں گے اور جو کام انہوں نے ان کی موجودگی میں کئے ہیں اور کریں گے یہ ان پر قیامت کے دن اللہ کے سامنے گواہی دیں گے یعنی آسمان پر اٹھائے جانے کے قبل زندگی کے مشاہدہ کئے ہوئے کام اور دوبارہ کی آخری زندگی جو زمین پر گذاریں گے ، اس میں ان کے سامنے جتنے کام انہوں نے کئے وہ سب آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوں گے اور انہیں اللہ کے سامنے انہیں پیش کریں گے ۔ ہاں اس کی تفسیر میں جو دو قول اور بیان ہوئے ہیں وہ بھی واقعہ کے اعتبار سے بالکل صحیح اور درست ہیں ۔ موت کا فرشتہ آ جانے کے بعد احوال آخرت ، سچ جھوٹ کا معائنہ ہو جاتا ہے ، اس وقت ہر شخص سچائی کو سچ کہنے اور سمجھنے لگتا ہے لیکن وہ ایمان اللہ کے نزدیک معتبر نہیں ۔ اسی سورت کے شروع میں ہے آیت ( وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّـيِّاٰتِ ۚ حَتّٰى اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْــٰٔنَ وَلَا الَّذِيْنَ يَمُوْتُوْنَ وَھُمْ كُفَّارٌ ۭاُولٰۗىِٕكَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا ) 4 ۔ النسآء:18 ) اور جگہ فرمان ہے آیت ( فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِيْنَ ) 40 ۔ غافر:84 ) یعنی جو لوگ موت کے آ جانے تک برائیوں میں مشغول رہے ان کی توبہ قبول نہیں اور جو لوگ عذاب رب دیکھ کر ایمان لائیں ، انہیں بھی ان کا ایمان نفع نہ دے گا ۔ پس ان دونوں آیتوں کو سامنے رکھ کر ہم کہتے ہیں کہ پچھلے دو اقوال جن کی امام ابن جریر نے تردید کی ہے وہ ٹھیک نہیں ۔ اس لئے کہ امام صاحب فرماتے ہیں اگر پچھلے دونوں قولوں کو اس آیت کی تفسیر میں صحیح مانا جائے تو لازم آتا ہے کہ کسی یہودی یا نصرانی کے اقرباء اس کے وارث نہ ہوں ، اس لئے کہ وہ تو حضرت عیسیٰ پر اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر مرا اور اس کے وارث یہود و نصاریٰ ہیں ، مسلمان کا وارث کافر نہیں ہو سکتا ۔ لیکن ہم کہتے ہیں یہ اس وقت ہے جب ایمان ایسے وقت لائے کہ اللہ کے نزدیک معتبر ہو ، نہ ایسے وقت ایمان لانا جو بالکل بےسود ہے ۔ ابن عباس کے قول پر گہری نظر ڈالئے کہ دیوار سے گرتے ہوئے ، درندے کے جبڑوں میں ، تلوار کے چلتے ہوئے وہ ایمان لاتا ہے تو ایسی حالت کا ایمان مطلق نفع نہیں دے سکتا ۔ جیسے قرآن کی مندرجہ بالا دونوں آیتیں ظاہر کر رہی ہیں واللہ اعلم ۔ میرے خیال سے تو یہ بات بہت صاف ہے کہ اس آیت کی تفسیر کے پچھلے دونوں قول بھی معتبر مان لینے سے کوئی اشکال پیش نہیں آتی ۔ اپنی جگہ وہ بھی ٹھیک ہیں ۔ لیکن ہاں آیت سے واقعی مطلب تو یہ نکلتا ہے جو پہلا قول ہے ۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر زندہ موجود ہیں ، قیامت کے قریب زمین پر اتریں گے اور یہودیوں و نصرانیوں دونوں کو جھوٹا بتائیں گے اور جو افراط تفریط انہوں نے کی ہے ، اسے باطل قرار دیں گے ۔ ایک طرف ملعون جماعت یہودیوں کی ہے ، جنہوں نے آپ کو آپ کی عزت سے بہت گرا دیا اور ایسی ناپاک باتیں آپ کی شان میں کہیں جن سے ایک بھلا انسان نفرت کرے ۔ دوسری جانب نصرانی ہیں جنہوں نے آپ کے مرتبے کو اس قدر بڑھایا کہ جو آپ میں نہ تھا اس کے اثبات میں اتنے بڑھے کہ مقام نبوت سے مقام ربوبیت تک پہنچا دیا جس سے اللہ کی ذات بالکل پاک ہے ۔ اب ان احادیث کو سنئے جن میں بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام آخر زمانے میں قیامت کے قریب آسمان سے زمین پر اتریں گے اور اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کی طرف سب کو بلائیں گے ۔ صحیح بخاری شریف جسے ساری امت نے قبول کیا ہے اس میں امام محمد بن اسماعیل بخاری علیہ رحمتہ و الرضوان کتاب ذکر انبیاء میں یہ حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ عنقریب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے ۔ عادل منصف بن کر صلیب کو توڑیں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے ۔ جزیہ ہٹا دیں گے ۔ مال اس قدر بڑھ جائے گا کہ اسے لینا کوئی منظور نہ کرے گا ، ایک سجدہ کر لینا دنیا اور دنیا کی سب چیزوں سے محبوب تر ہو گا ۔ اس حدیث کو بیان فرما کر راوی حدیث حضرت ابو ہریرہ نے بطور شہادت قرآنی کے اسی آیت ( وان من ) کی آخر تک تلاوت کی ۔ صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے اور سند سے یہی روایت بخاری مسلم میں مروی ہے اس میں ہے کہ سجدہ اس وقت فقط اللہ رب العالمین کے لئے ہی ہو گا ۔ اور اس آیت کی تلاوت میں قبل موتہ کے بعد یہ فرمان بھی ہے کہ قبل موت عیسیٰ بن مریم پھر اسے حضرت ابو ہریرہ کا تین مرتبہ دوہرانا بھی ہے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے حضرت عیسیٰ حج یا عمرے پر یا دونوں پر لبیک کہیں گے ، میدان حج میں ، روحاء میں ۔ یہ حدیث مسلم میں بھی ہے ۔ مسند کی اور حدیث میں ہے عیسیٰ بن مریم اتریں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے ، صلیب کو مٹائیں گے ، نماز با جماعت ہو گی اور اللہ کی راہ میں مال اس قدر کثرت سے دیا جائے گا کہ کوئی قبول نہ کرنے والا نہ ملے گا ۔ خراج چھوڑ دیں گے ، روحاء میں جائیں گے اور وہاں سے حج یا عمرہ کریں گے یا دونوں ایک ساتھ کریں گے ۔ پھر ابو ہریرہ نے یہی آیت پڑھی لیکن آپ کے شاگرد حضرت حنظلہ کا خیال ہے کہ حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا حضرت عیسیٰ کے انتقال سے پہلے آپ پر ایمان لائیں گے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ سب حدیث کے ہی الفاظ ہیں یا حضرت ابو ہریرہ کے اپنے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

156۔ 1 اس سے مراد یوسف نجار کے ساتھ حضرت مریم (علیہ السلام) پر بدکاری کی تہمت ہے۔ آج بھی بعض نام نہاد محققین اس بہتان عظیم کو ایک حقیقت ثابتہ باور کرانے پر تلے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ یوسف نجار (نعوذ باللہ) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ تھا یوں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بن باپ کے معجزانہ ولادت کا بھی انکار کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَّبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلٰي مَرْيَمَ ۔۔ : کے معنی یہ ہیں کہ انھوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات دیکھنے کے باوجود ان کی نبوت کا انکار کر کے صریح کفر کا ارتکاب کیا اور پھر مریم [ کی طرف زنا کی نسبت کر کے مزید بہتان باندھا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّبِكُفْرِہِمْ وَقَوْلِـہِمْ عَلٰي مَرْيَمَ بُہْتَانًا عَظِيْمًا۝ ١٥٦ۙ- مریم - مریم : اسم أعجميّ ، اسم أمّ عيسى عليه السلام» .- بهت - قال اللہ عزّ وجل : فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ [ البقرة 258] ، أي : دهش وتحيّر، وقد بَهَتَهُ.- قال عزّ وجل : هذا بُهْتانٌ عَظِيمٌ [ النور 16] أي : كذب يبهت سامعه لفظاعته . قال تعالی: وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ [ الممتحنة 12] ، كناية عن الزنا «2» ، وقیل : بل ذلک لکل فعل مستبشع يتعاطینه بالید والرّجل من تناول ما لا يجوز والمشي إلى ما يقبح، ويقال : جاء بالبَهِيتَةِ ، أي : بالکذب .- ( ب ھ ت ) بھت ( س ) حیران وششدرہ جانا نا سے مبہوث کردیا : قرآن میں ہے فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ [ البقرة 258] یہ سن کر کافر حیران رہ گیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ هذا بُهْتانٌ عَظِيمٌ [ النور 16] یہ تو ( بہت ) بڑا بہتان ہے ۔ میں بہتان کے معنی ایسے الزام کے ہیں جسے سن کر انسان ششد ر و حیرانوی جائے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ [ الممتحنة 12] نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی ۔ میں بہتان زنا سے کنایہ ہے ۔ بعض نے کہا ہے نہیں بلکہ اس سے ہر وہ عمل شنیع مراد ہے جسے ہا اور پاؤں سے سر انجام دیا جائے ۔ مثلا ہاتھ سے کسی نادا چیز کو پکڑنا یا کسی عمل شنیع کا ارتکاب کرنے کے لئے اس کی طرف چل کر جانا اس نے جھوٹ بولا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥٦۔ ١٥٧۔ ١٥٨) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل کے انکار اور ان پر چھوٹے الزام کی وجہ سے ہم نے ان کو سور بنادیا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کے دعوے پر ان کے ساتھی قطیانوس کو ہلاک کردیا، قطیانوس کے سامنے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مشابہ ایک شخص ہوگیا، اس نے اس کو قتل کردیا، ان کے پاس تو ان کے قتل کا شبہ بھی نہیں یقیناً انھوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کیا، اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں سے انتقام لینے میں بڑے زبردست ہیں اور ساتھ ہی حکیم بھی ہیں کس طرح اپنی نبی کو حفاظت کیساتھ آسمان پر اٹھا لیا اور ان کے دشمن کو ہلاک کردیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٦ (وَّبِکُفْرِہِمْ وَقَوْلِہِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُہْتَانًا عَظِیْمًا ) - حضرت مریم (سلامٌ علیہا) پر یہودیوں نے بہتان لگایا کہ انہوں نے (معاذ اللہ) زنا کیا ہے اور مسیح ( علیہ السلام) دراصل یوسف نجار کا بیٹا ہے۔ ان کی روایات کے مطابق یوسف نجار کے ساتھ حضرت مریم کی نسبت ہوچکی تھی ‘ لیکن ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ ان کے مابین تعلق قائم ہوگیا ‘ جس کے نتیجے میں یہ بیٹا پیدا ہوگیا۔ اس طرح انہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو ولد الزّ نا قرار دیا۔ یہ ہے وہ اتنی بڑی بات جو یہودی کہتے ہیں اور آج بھی اس گمراہ کن نظریے پر مبنی جیسی فلمیں بنا کر امریکہ میں چلاتے ہیں ‘ جن میں عیسائیوں کو بتایا جاتا ہے کہ جس مسیح کو تم لوگ کہتے ہو وہ حقیقت میں ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :189 یہ فقرہ اصل سلسلہ تقریر سے تعلق رکھتا ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :190 حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا معاملہ یہودی قوم میں فی الواقع ذرہ برابر بھی مشتبہ نہ تھا بلکہ جس روز وہ پیدا ہوئے تھے اسی روز اللہ تعالیٰ نے پوری قوم کو اس بات پر گواہ بنا دیا تھا کہ یہ ایک غیر معمولی شخصیت کا بچہ ہے جس کی ولادت معجزے کا نتیجہ ہے نہ کہ کسی اخلاقی جرم کا ۔ جب بنی اسرائیل کے ایک شریف ترین اور مشہور و نامور مذہبی گھرانے کی بن بیاہی لڑکی گود میں بچہ لیے ہوئے آئی ، اور قوم کے بڑے اور چھوٹے سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں اس کے گھر پر ہجوم کر کے آگئے ، تو اس لڑکی نے ان کے سوالات کا جواب دینے کے بجائے خاموشی کے ساتھ اس نوزائیدہ بچے کی طرف اشارہ کر دیا کہ یہ تمہیں جواب دے گا ۔ مجمع نے حیرت سے کہا کہ اس بچہ سے ہم کیا پوچھیں جو گہوارے میں لیٹا ہوا ہے ۔ مگر یکایک وہ بچہ گویا ہو گیا اور اس نے نہایت صاف اور فصیح زبان میں مجمع کو خطاب کر کے کہا کہ اِنِّیْ عَبْدُ اللہِ قف اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا ۔ ” میں اللہ کا بندہ ہوں ، اللہ نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے ۔ “ ( سورہ مریم رکوع ۲ ) ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کی ہمیشہ کے لیے جڑ کاٹ دی تھی جو ولادت مسیح کے بارے میں پیدا ہو سکتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے سن شباب کو پہنچنے تک کبھی کسی نے نہ حضرت مریم علیہ السلام پر زنا کا الزام لگایا ، نہ حضرت عیسٰی کو ناجائز ولادت کا طعنہ دیا ۔ لیکن جب تیس برس کی عمر کو پہنچ کر آپ نے نبوت کے کام کی ابتدا فرمائی ، اور جب آپ نے یہودیوں کو ان کی بد اعمالیوں پر ملامت کرنی شروع کی ، ان کے علماء و فقہاء کو ان کی ریاکاریوں پر ٹوکا ، ان کے عوام اور خواص سب کو اس اخلاقی زوال پر متنبہ کیا جس میں وہ مبتلا ہو گئے تھے ، اور اس پرخطر راستے کی طرف اپنی قوم کو دعوت دی جس میں خدا کے دین کو عملاً قائم کرنے کے لیے ہر قسم کی قربانیاں برداشت کرنی پڑتی تھیں اور ہر محاذ پر شیطانی قوتوں سے لڑائی کا سامنا تھا ، تو یہ بے باک مجرم صداقت کی آواز کو دبانے کے لیے ہر ناپاک سے ناپاک ہتھیار استعمال کرنے پر اتر آئے ۔ اس وقت انہوں نے وہ بات کہی جو تیس سال تک نہ کہی تھی کہ مریم علیہا السلام معاذاللہ زانیہ ہیں اور عیسیٰ ابن مریم ولد الزنا ۔ حالانکہ یہ ظالم بالیقین جانتے تھے کہ یہ دونوں ماں بیٹے اس گندگی سے بالکل پاک ہیں ۔ پس درحقیقت ان کا یہ بہتان کسی حقیقی شبہہ کا نتیجہ نہ تھا جو واقعی ان کے دلوں میں موجود ہوتا ، بلکہ خالص بہتان تھا جو انہوں نے جان بوجھ کر محض حق کی مخالفت کے لیے گھڑا تھا ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اسے ظلم اور جھوٹ کے بجائے کفر قرار دیا ہے کیونکہ اس الزام سے ان کا اصل مقصد خدا کے دین کا راستہ روکنا تھا نہ کہ ایک بے گناہ عورت پر الزام لگانا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

90: حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) چونکہ حضرت مریم علیہا السلام کے بطن سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے، اس لیے یہودیوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے اس معجزے کو تسلیم کرنے کے بجائے حضرت مریم علیہا السلام جیسی پاک نفس اور عفت مآب خاتون پر گھناؤنا الزام لگایا تھا۔