اہل کتاب ، قاتلان انبیاء ، عیسیٰ علیہ السلام کی روداد اور مراحل قیامت اہل کتاب کے ان گناہوں کا بیان ہو رہا ہے جن کی وجہ سے وہ اللہ کی رحمتوں سے دور ڈال دیئے گئے اور ملعون و جلا وطن کر دیئے گئے اولاً ان کی عہد شکنییہ تھی کہ جو وعدے انہوں نے اللہ سے کئے ان پر قائم نہ رہے ، دوسرے اللہ کی آیتوں یعنی حجت و دلیل اور نبیوں کے معجزوں سے انکار اور کفر ، تیر سے بلا وجہ ، ناحق انبیاء کرام کا قتل ۔ ان کے رسولوں کی ایک بڑی جماعت ان کے ہاتھوں قتل ہوئی ۔ چوتھی ان کا یہ خیال اور قول کہ ہمارے دل غلافوں میں ہیں یعنی پردے میں ہیں ، جیسے مشرکین نے کہا تھا آیت ( وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْٓ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَيْهِ وَفِيْٓ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّمِنْۢ بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ ) 41 ۔ فصلت:5 ) یعنی اے نبی تیری دعوت سے ہمارے دل پردے میں ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے دل علم کے ظروف ہیں وہ علم و عرفان سے پُر ہیں ۔ سورہ بقرہ میں بھی اس کی نظیر گذر چکی ہے ، اللہ تعالیٰ ان کے اس قول کی تردید کرتا ہے کہ یوں نہیں بلکہ ان پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے کیونکہ یہ کفر میں پختہ ہو چکے تھے ۔ پس پہلی تفسیر کی بنا پر یہ مطلب ہوا کہ وہ عذر کرتے تھے کہ ہمارے دل بوجہ ان پر غلاف ہونے کے نبی کی باتوں کو یاد نہیں کر سکتے تو انہیں جواب دیا گیا کہ ایسا نہیں بلکہ تمہارے کفر کی وجہ سے تمہارے دل مسخ ہو گئے ہیں اور دوسری تفسیر کی بنا پر تو جواب ہر طرح ظاہر ہے ۔ سورہ بقرہ کی تفسیر میں اس کی پوری تفصیل و تشریح گذر چکی ہے ۔ پس بطور نتیجے کے فرما دیا کہ اب ان کے دل کفر و سرکشی اور کمی ایمان پر ہی رہیں گے ، پھر ان کا پانچواں جرم عظیم بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے سیدہ مریم علیہا السلام پر زنا کاری جیسی بدترین اور شرمناک تہمت لگائی اور اسی زنا کاری کے حمل سے حضرت عیسیٰ کو پیدا شدہ بتایا ، بعض نے اس سے بھی ایک قدم آگے رکھا اور کہا کہ یہ بدکاری حیض کی حالت میں ہوئی تھی ۔ اللہ کی ان پر پھٹکار ہو کہ ان کی بد زبانی سے اللہ کے مقبول بندے بھی نہ بچ سکے ۔ پھر ان کا چھٹا گناہ بیان ہو رہا ہے کہ یہ بطور تمسخر اور اپنی بڑائی کے یہ ہانک بھی لگاتے ہیں کہ ہم نے حضرت عیسیٰ کو مار ڈالا جیسے کہ بطور تمسخر کے مشرکین حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہیں کہ اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے تو تو مجنون ہے ۔ پورا واقعہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت دے کر بھیجا اور آپ کے ہاتھ پر بڑے بڑے معجزے دکھائے مثلاً بچپن کے اندھوں کو بینا کرنا ، کوڑھیوں کو اچھا کرنا ، مردوں کو زندہ کرنا ، مٹی کے پرند بنا کر پھونک مارنا اور ان کا جاندار ہو کر اڑ جانا وغیرہ تو یہودیوں کو سخت طیش آیا اور مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے اور ہر طرح سے ایذاء رسانی شروع کر دی ، آپ کی زندگی تنگ کر دی ، کسی بستی میں چند دن آرام کرنا بھی آپ کو نصیب نہ ہوا ، ساری عمر جنگلوں اور بیابانوں میں اپنی والدہ کے ساتھ سیاحت میں گذاری ، پھر بھی انہیں چین نہ لینے دیا ، یہ دمشق کے بادشاہ کے پاس گئے جو ستارہ پرست مشرک شخص تھا ( اس مذہب والوں کے ملک کو اس وقت یونان کہا جاتا تھا ) یہ بہت روئے پیٹے اور بدشاہ کو حضرت عیسیٰ کے خلاف اکسایا اور کہا کہ یہ شخص بڑا مفسد ہے ۔ لوگوں کو بہکا رہا ہے ، روز نئے فتنے کھڑے کرتا ہے ، امن میں خلل ڈالتا ہے ۔ لوگوں کو بغاوت پہ اکساتا ہے وغیرہ ۔ بادشاہ نے اپنے گورنر کو جو بیت المقدس میں تھا ، ایک فرمان لکھا کہ وہ حضرت عیسیٰ کو گرفتار کر لے اور سولی پر چڑھا کر اس کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھ کر لوگوں کو اس دکھ سے نجات دلوائے ۔ اس نے فرمان شاہی پڑھ کر یہودیوں کے ایک گروہ کو اپنے ساتھ لے کر اس مکان کا محاصرہ کر لیا جس میں روح اللہ تھے ، آپ کے ساتھ اس وقت بارہ تیرہ یا زیادہ سے زیادہ ستر آدمی تھے ، جمعہ کے دن عصر کے بعد اس نے محاصرہ کیا اور ہفتہ کی رات تک مکان کو گھیرے میں لئے رہا جب حضرت عیسیٰ نے یہ محسوس کر لیا کہ اب وہ مکان میں گھس کر آپ کو گرفتار کرلیں گے یا آپ کو خود باہر نکلنا پڑے گا تو آپ نے صحابہ سے فرمایا تم میں سے کون اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس پر میری مشابہت ڈال دی جائے یعنی اس کی صورت اللہ مجھ جیسی بنا دے اور وہ ان کے ہاتھوں گرفتار ہو اور مجھے اللہ مخلصی دے؟ میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں ۔ اس پر ایک نوجوان نے کہا مجھے یہ منظور ہے لیکن حضرت عیسیٰ نے انہیں اس قابل نہ جان کر دوبارہ یہی کہا ، تیسری دفعہ بھی کہا مگر ہر مرتبہ صرف یہی تیار ہوئے رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ اب آپ نے یہی منظور فرما لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی صورت قدرتاً بدل گئی بالکل یہ معلوم ہونے لگا کہ حضرت عیسیٰ یہی ہیں اور چھت کی طرف ایک روزن نمودار ہو گیا اور حضرت عیسیٰ کی اونگھ کی حالت ہو گئی اور اسی طرح وہ آسمان پر اٹھا لئے گئے ۔ جیسے قرآن کریم میں ہے آیت ( اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ ) 3 ۔ آل عمران:55 ) یعنی جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے عیسیٰ میں تم سے مکمل تعاون کرنے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں ۔ حضرت روح اللہ کے سوئے ہوئے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد یہ لوگ اس گھر سے باہر نکلے ، یہودیوں کی جماعت نے اس بزرگ صحابی کو جس پر جناب مسیح علیہ السلام کی شباہت ڈال دی گئی تھی ، عیسیٰ سمجھ کر پکڑ لیا اور راتوں رات اسے سولی پر چڑھا کر اس کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھ دیا ۔ اب یہود خوشیاں منانے لگے کہ ہم نے عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا اور لطف تو یہ ہے کہ عیسائیوں کی کم عقل اور جاہل جماعت نے بھی یہودیوں کی ہاں میں ہاں ملا دی اور ہاں صرف وہ لوگ جو مسیح علیہ السلام کے ساتھ اس مکان میں تھے اور جنہیں یقینی طور پر معلوم تھا کہ مسیح آسمان پر چڑھا لئے گئے اور یہ فلاں شخص ہے جو دھوکے میں ان کی جگہ کام آیا ۔ باقی عیسائی بھی یہودیوں کا سا راگ الاپنے لگے ، یہاں تک کہ پھر یہ بھی گھڑ لیا کہ عیسیٰ کی والدہ سولی تلے بیٹھ کر روتی چلاتی رہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ نے ان سے کچھ باتیں بھی کیں ، واللہ اعلم ۔ دراصل یہ سب باتیں اللہ کی طرف سے اپنے بزرگ بندوں کا امتحان ہیں جو اس کی حکمت بالغہ کا تقاضا ہے ، پس اس غلطی کو اللہ تعالیٰ نے واضح اور ظاہر کر کے حقیقت حال سے اپنے بندوں کو مطلع فرما دیا اور اپنے سب سے بہتر رسول اور بڑے مرتبے والے پیغمبر کی زبانی اپنے پاک ، سچے اور بہترین کلام میں صاف فرما دیا کہ حقیقتاً نہ کسی نے حضرت عیسیٰ کو قتل کیا ، نہ سولی دی بلکہ ان کی شبیہ جس پر ڈالی گئی تھی ، اسے عیسیٰ ہی سمجھ بیٹھے ، جو یہود و نصاریٰ آپ کے قتل کے قائل ہو گئے وہ سب کے سب شک و شبہ میں حیرت و ضلالت میں مبتلا ہیں ۔ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں نہ انہیں خود کچھ علم ہے صرف سنی سنائی باتوں پہ یقین کے سوا کوئی ان کے پاس دلیل نہیں ۔ اسی لئے پھر اسی کے متصل فرما دیا کہ یہ یقینی امر ہے کہ روح اللہ کو کسی نے قتل نہیں کیا بلکہ جناب باری عزاسمہ نے جو غالب تر ہے اور جس کی قدرتیں بندوں کے فہم میں بھی نہیں آ سکتیں اور جس کی حکمتوں کی تہ تک اور کاموں کی لم تک کوئی نہیں پہنچ سکتا ، اپنے خاص بندے کو جنہیں اپنی روح کہا تھا اپنے پاس اٹھا لیا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھانا چاہا تھا ، آپ گھر میں آئے اور گھر میں بارہ حواری تھے ، آپ کے بالوں سے اپنی کے قطرے ٹپک رہے تھے ، آپ نے فرمایا تم میں بعض ایسے ہیں جو مجھ پر ایمان لا چکے ہیں مگر کچھ مجھ سے کفر کریں گے ۔ پھر آپ نے فرمایا تم میں سے کون شخص اسے پسند کرتا ہے کہ اس پر میری شبیہ ڈالی جائے اور میری جگہ وہ قتل کر دیا جائے اور جنت میں میرا رفیق بنے ۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت روح اللہ کی پیش گوئی کے مطابق بعض نے آپ سے بارہ بارہ بار کفر کیا ۔ پھر ان کے تین گروہ ہو گئے ، یعقوبیہ ، نسطوریہ اور مسلمان ، یعقوبیہ تو کہنے لگے خود اللہ ہم میں تھا ، جب تک چاہا رہا ، پھر آسمان پر چڑھ گیا ، نسطوریہ کا خیال ہو گیا کہ اللہ کا لڑکا ہم میں تھا ، جسے ایک زمانے تک ہم میں رکھ کر پھر اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا اور مسلمانوں کا یہ عقیدہ رہا کہ اللہ کا بندہ اور رسول ہم میں تھا جب تک اللہ نے چاہا وہ ہم میں رہا اور پھر اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا ۔ ان پہلے دو گمراہ فرقوں کا زور ہو گیا اور انہوں نے تیسرے سچے اور اچھے فرقے کو کچلنا اور دبانا شروع کیا ، چنانچہ یہ کمزور ہوتے گئے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر اسلام کو غالب کیا ۔ اس کی اسناد بالکل صحیح ہے اور نسائی میں حضرت ابو معاویہ سے بھی یہی منقول ہے اسی طرح سلف میں سے بہت سے بزرگوں کا قول ہے ، حضرت وہب بن منبہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جس وقت شاہی سپاہی اور یہودی حضرت عیسیٰ پر چڑھ دوڑے اور گھیرا ڈال دیا اس وقت آپ کے ساتھ سترہ آدمی تھے ۔ ان لوگوں نے جب دروازے کھول کر دیکھا تو دیکھا کہ سب کے سب حضرت عیسیٰ کی صورت میں ہیں تو کہنے لگے تم لوگوں نے ہم پر جادو کر دیا ہے ، اب یا تو تم اسے جو حقیقی عیسیٰ ہوں ہمیں سونپ دو یا اسے منظور کر لو کہ ہم تم سب کو قتل کر ڈالیں ۔ یہ سن کر روح اللہ نے فرمایا کوئی ہے جو جنت میں میرا رفیق بنے اور یہاں میرے بدلے سولی پر چڑھنا منظور کرے ایک صحابی اس کے لئے تیار ہو گئے اور کہنے لگے عیسیٰ میں تیار ہوں ، چنانچہ دشمنان دین نے انہیں گرفتار کیا قتل کیا اور سولی چڑھایا اور بغلیں بجانے لگے کہ ہم نے عیسیٰ کو قتل کیا ، حالانکہ دراصل ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ دھوکے میں پڑ گئے اور اللہ نے اپنے رسول کو اسی وقت اپنے پاس چڑھا لیا ۔ تفسیر ابن جریر میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہ وحی کر دیا کہ وہ دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں تو آپ پر بہت گراں گذرا اور موت کی گھبراہٹ بڑھ گئی تو آپ نے حواریوں کی دعوت کی ، کھانا تیار کیا اور سب سے کہدیا کہ آج رات کو میرے پاس تم سب ضرور آنا ، مجھے ایک ضروری کام ہے ۔ جب وہ آئے تو خود کھانا کھلایا سب کام کاج اپنے ہاتھوں کرتے رہے ، جب وہ کھا چکے تو خود ان کے ہاتھ دھلائے اور اپنے کپڑوں سے کے ہاتھ پونچھے یہ ان پر بھاری پڑا اور برا بھی لگا لیکن آپ نے فرمایا اس رات میں جو کچھ کر رہا ہوں ، اگر تم میں سے کسی نے مجھے اس سے روکا تو میرا اس کا کچھ واسطہ نہیں نہ وہ میرا نہ میں اس کا ۔ چنانچہ وہ سب خاموش رہے ۔ جب آپ ان تمام کاموں سے فارغ ہو گئے تو فرمایا دیکھو تمہارے نزدیک میں تم سب سے بڑے مرتبے والا ہوں اور میں نے تمہاری خدمت خود کی ہے ، یہ اس لئے کہ تم میری اس سنت کے عامل بن جاؤ ، خبردار تم میں سے کوئی اپنے آپ کو اپنے بھائیوں سے بڑا نہ سمجھے ، بلکہ ہر بڑا چھوٹے کی خدمت کرے ، جس طرح خود میں نے تمہاری خدمت کی ہے ۔ اب تم سے میرا جو خاص کام تھا جس کی وجہ سے آج میں نے تمہیں بلایا ہے وہ بھی سن لو کہ تم سب مل کر آج رات بھر خشوع و خضوع سے میرے لئے دعائیں کرو کہ اللہ میری اجل کو مؤخر کر دے ۔ چنانچہ سب نے دعائیں شروع کیں لیکن خشوع و خضوع سے میرے لئے دعائیں کرو کہ اللہ میری اجل کو مؤخر کر دے ۔ چنانچہ سب نے دعائیں شروع کیں لیکن خشوع و خضوع کا وقت آنے سے پہلے ہی اس طرح انہیں نیند آنے لگی کہ زبان سے ایک لفظ نکالنا مشکل ہو گیا ، آپ نے انہیں بیدار کی کوشش میں ایک ایک کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر کہا تمہیں کیا ہو گا ؟ ایک رات بھی جاگ نہیں سکتے؟ میری مدد نہیں کرتے؟ لیکن سب نے جواب دیا اے رسول اللہ ہم خود حیران ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ ایک چھوڑ کئی کئی راتیں جاگتے تھے ، جاگنے کے عادی ہیں لیکن اللہ جانے ، آج کیا بات ہے کہ بری طرح نیند نے گھیر رکھا ہے ، دعا کے اور ہمارے درمیان کوئی قدرتی رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے تو آپ نے فرمایا اچھا پھر چرواہا رہے گا اور بکریاں تین تیرہ ہو جائیں گی ، غرض اشاروں کنایوں میں اپنا مطلب ظاہر کرتے رہے ، پھر فرمایا دیکھو تم میں سے ایک شخص صبح کا مرغ بولنے سے پہلے تین مرتبہ میرے ساتھ کفر کرے گا اور تم میں سے ایک چندہ درہموں کے بدلے مجھے بیچ دے گا اور میری قیمت کھائے گا ۔ اب یہ لوگ یہاں سے باہر نکلے ادھر ادھر چلے گئے ، یہود جو اپنی جستجو میں تھے ، انہوں نے شمعون حواری کو پہچان کر اسے پکڑا اور کہا یہ بھی اس کا ساتھی ہے ، مگر شمعون نے کہا غلط ہے میں اس کا ساتھی نہیں ہوں ۔ انہوں نے یہ باور کر کے اسے چھوڑ دیا لیکن کچھ آگے جا کر یہ دوسری جماعت کے ہاتھ لگ گیا ، وہاں سے بھی اسی طرح انکار کر کے اپنا آپ چھڑایا ۔ اتنے میں مرغ نے بانگ دی اب یہ پچھتانے لگے اور سخت غمگین ہوئے ۔ صبح ایک حواری یہودیوں کے پاس پہنچتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر میں تمہیں عیسیٰ کا پتہ بتا دوں تو تم مجھے کیا دلواؤ گے؟ انہوں نے کہا تیس درہم ، چانچہ اس نے وہ رقم لے لی ، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پتہ بتا دیا ۔ اس سے پہلے وہ شبہ میں تھے ، اب انہوں نے گرفتار کر لیا اور رسیوں میں جکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لے چلے اور بطور طعنہ زنی کے کہتے جاتے تھے کہ آپ تو مردوں کو زندہ کرتے تھے ، جنات کو بھگا دیا کرتے تھی ، مجنون کو اچھا کر دیا کرتے تھے ، اب کیا بات ہے کہ خود اپنے آپ کو نہیں بچا سکتے ان رسیوں کو بھی نہیں توڑ سکتے ، تھو ہے تمہارے منہ پر یہ کہتے جاتے تھے اور کانٹے ان کے اوپر ڈالتے جاتے تھے ۔ اسی طرح بےدردی سے گھسیتے ہوئے جب اس لکڑی کے پاس لائے جہاں سولی دینا تھی اور ارادہ کیا کہ سولی پر چڑھا دیں اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اپنی طرف چڑھا لیا اور انہوں نے دوسرے شخص کو جو آپ کے مشابہ تھا سولی پر چڑھا دیا ۔ پھر سات دن کے بعد حضرت مریم اور وہ عورت جس کو حضرت عیسیٰ نے جن سے نجات دلوائی تھی ۔ وہاں آئیں اور رونے پیٹنے لگیں تو ان کے پاس حضرت عیسیٰ آئے اور ان سے کہا کہ کیوں روتی ہو؟ مجھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف بلند کر لیا ہے اور مجھے ان کی اذیتیں نہیں پہنچیں ، ان پر تو شبہ ڈال دیا گیا ہے میرے حواریوں سے کہو کہ مجھ سے فلاں جگہ ملیں چنانچہ یہ بشارت جب حواریوں کو ملی تو وہ سب کے سب گیارہ آدمی اس جگہ پہنچے ، جس حواری نے آپ کو بیچا تھا ، اسے انہوں نے وہاں نہ پایا ، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ ندامت اور شرمندگی کی وجہ سے اپنا گلا گھونٹ کر آپ ہی مر گیا ، اس نے خودکشی کر لی ۔ آپ نے فرمایا اگر وہ توبہ کرتا تو اللہ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ۔ پھر پوچھا کہ یہ بچہ جو تمہارے ساتھ ہے ، اس کا نام یحییٰ ہے ، اب یہ تمہارا ساتھی ہے سنو صبح کو تمہاری زبانیں بدل دی جائیں گی ، ہر شخص اپنی اپنی قوم کی زبان بولنے لگے گا ، اسے چاہئے کہ اسی قوم میں جا کر اسے میری دعوت پہنچائے اور اللہ سے ڈرائے ۔ یہ واقعہ نہایت ہی غریب ہے ، ابن اسحاق کا قول ہے کہ بنی اسرائیل کا بادشاہ جس نے حضرت عیسیٰ کے قتل کے لئے اپنی فوج بھیجی تھی اس کا نام داؤد تھا ۔ حضرت عیسیٰ اس وقت سخت گھبراہٹ میں تھے ، کوئی شخص اپنی موت سے اس قدر پریشان حواس باختہ اور اس قدر واویلا کرنے والا نہ ہو گا ، جس قدر آپ نے اس وقت کیا ۔ یہاں تک کہ فرمایا یا اللہ اگر تو موت کے پیالے کو کسی سے بھی ٹالنے والا ہے تو مجھ سے ٹال دے اور یہاں تک کہ گھبراہٹ اور خوف کے مارے ان کے بدن سے خون پھوٹ کر بہنے لگا ، اس وقت اس مکان میں آپ کے ساتھ بارہ حواری تھے ، جن کے نام یہ ہیں فرطوس ، یعقوبس ، ربداء ، یبخس ، ( یعقوب کا بھائی ) اندارا ابلیس ، فیلبس ، ابن یلما ، منتا طوماس ، یعقوب بن حلقایا ، نداوسیس ، قتابیا ، لیودس وکریا یوطا ۔ بعض کہتے ہیں تیرہ آدمی تھے اور ایک کا نام سرجس تھا ۔ اسی نے اپنا آپ سولی پر چڑھایا جانا حضرت عیسیٰ کی بشارت پر منظور کیا تھا ۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر چڑھا لئے گئے اور بقیہ لوگ یہودیوں کے ہاتھوں میں اسیر ہو گئے ، اب جو گنتی گنتے ہیں تو ایک کم نکلا ۔ اس کے بارے میں ان میں آپس میں اختلاف ہوا ۔ یہ لوگ جب اس جماعت پر چھاپہ مارتے ہیں اور انہیں گرفتار کرنا چاہتے ہیں تو حضرت عیسیٰ کو چونکہ پہچانتے نہ تھے تو لیودس وکریا یوطا نے تیس درہم لے کر ان سے کہا تھا کہ میں سب سے پہلے جاتا ہوں جسے میں جا کر بوسہ دوں تم سمجھ لینا کہ عیسیٰ وہی ہے ، جب یہ اندر پہنچتے ہیں ، اس وقت حضرت عیسیٰ اٹھا لئے گئے تھے اور حضرت سرجس آپ کی صورت میں بنا دیئے گئے تھے ، اس نے جا کر حسب قرار داد انہی کا بوسہ لیا اور یہ گرفتار کر لئے گئے پھر تو یہ بہت نادم ہوا اور اپنے گلے میں رسی ڈال کر پھانسی پر لٹک گیا اور نصرانیوں میں ملعون بنا ۔ بعض کہتے ہیں اس کا نام یودس رکریا بوطا تھا ، یہ جیسے ہی حضرت عیسیٰ کی پہچان کرانے کے لئے اس گھر میں داخل ہوا ، حضرت عیسیٰ تو اٹھا لئے گئے اور خود اس کی صورت حضرت عیسیٰ جیسی ہو گئی اور اسی کو لوگوں نے پک لیا ، یہ ہزار چیختا چلاتا رہا کہ میں عیسیٰ نہیں ہوں ، میں تو تمہارا ساتھی ہوں ، میں نے ہی تو تمہیں عیسیٰ کا پتہ دیا تھا لیکن کون سنتا ؟ آخر اسی کو تختہ دار پر لٹکا دیا ، اب اللہ ہی کو علم ہے کہ یہی تھا یا وہ تھا ، جس کا ذکر پہلے ہوا ۔ حضرت مجاہد کا قول ہے کہ حضرت روح اللہ کی مشابہت جس پر ڈال دی گئی تھی اسے صلیب پر چڑھایا اور حضرت عیسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھا لیا ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں حضرت عیسیٰ کی شبیہ آپ کے ان تمام ساتھیوں پر ڈال دی گی تھی ۔ اس کے بعد ذکر ہوتا ہے کہ جناب روح اللہ کی موت سے پہلے جملہ اہل کتاب آپ پر ایمان لائیں گے اور قیامت تک آپ ان کے گواہ ہوں گے ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں اس کی تفسیر میں کئی قول ہیں ایک تو یہ کہ عیسیٰ موت سے پہلے یعنی جب آپ دجال کو قتل کرنے کے لئے دوبارہ زمین پر آئیں گے اس وقت تمام مذاہب ختم ہو چکے ہوں گے اور صرف ملت اسلامیہ جو دراصل ابراہیم حنیف کی ملت ہے رہ جائے گی ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ( موتہ ) سے مراد موت عیسیٰ ہے ابو مالک فرماتے ہیں جب جناب مسیح اتریں گے ، اس وقت کل اہل کتاب آپ پر ایمان لائیں گے ۔ ابن عباس سے اور روایت میں ہے خصوصاً یہودی ایک بھی باقی نہیں رہے گا ۔ حسن بصری فرماتے ہیں یعنی نجاشی اور ان کے ساتھی آپ سے مروی ہے کہ قسم اللہ کی حضرت عیسیٰ اللہ کے پاس اب زندہ موجود ہیں ۔ جب آپ زمین پر نازل ہوں گے ، اس وقت اہل کتاب میں سے ایک بھی ایسا نہ ہو گا جو آپ پر ایمان نہ لائے ۔ آپ سے جب اس آیت کی تفسیر پوچھی جاتی ہے تو آپ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کو اپنے پاس اٹھا لیا ہے اور قیامت سے پہلے آپ کو دوبارہ زمین پر اس حیثیت سے بھیجے گا کہ ہر نیک و بد آپ پر ایمان لائے گا ۔ حضرت قتادہ ، حضرت عبدالرحمٰن وغیرہ بہت سے مفسرین کا یہی فیصلہ ہے اور یہی قول حق ہے اور یہی تفسیر بالکل ٹھیک ہے ، انشاء اللہ العظیم اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی توفیق سے ہم اسے بادلائل ثابت کریں گے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ہر اہل کتاب آپ پر اپنی موت سے پہلے ایمان لاتا ہے ۔ اس لئے کہ موت کے وقت حق و باطل سب کھل جاتا ہے تو ہر کتابی حضرت عیسیٰ کی حقانیت کو زمین سے سدھارنے سے پہلے یاد کر لیتا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کوئی یہودی نہیں مرتا جب تک کہ وہ حضرت روح اللہ پر ایمان نہ لائے ۔ حضرت مجاہد کا یہی قول ہے ۔ بلکہ ابن عباس سے تو یہاں تک مروی ہے کہ اگر کسی اہل کتاب کی گردن تلوار سے اڑا دی جائے تو اس کی روح نہیں نکلتی جب تک کہ وہ حضرت عیسیٰ پر ایمان نہ لائے اور یہ نہ کہدے کہ آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ حضرت ابی کی تو قرأت میں ( قبل موتھم ) ہے ۔ ابن عباس سے پوچھا جاتا ہے کہ فرض کرو کوئی دیوار سے گر کر مر جائے؟ فرمایا پھر بھی اس درمیانی فاصلے میں وہ ایمان لا چکتا ہے ۔ عکرمہ ، محمد بن سیرین ، محمد ضحاک ، سعید بن جبیر سے بھی یہی مروی ہے ۔ ایک قول امام حسن سے ایسا بھی مروی ہے کہ جس کا مطلب پہلے قول کا سا بھی ہو سکتا ہے اور حضرت عیسیٰ کی موت سے پہلے کا بھی ہو سکتا ہے ۔
1۔ 155 تقدیری عبارت یوں ہوگی فبنقضھم میثاقھم لعناھم۔ یعنی ہم نے ان کے نقض میثاق، کفربآیات اللہ اور قتل انبیاء وغیرہ کی وجہ سے ان پر لعنت کی یا سزا دی۔
[٢٠٥] قوم موسیٰ ٰکی نافرمانیاں :۔ ان آیات میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ موسیٰ پر تورات کی تختیاں جو نازل ہوئی تھیں تو ان پر تمہارا ایمان کس قسم کا تھا۔ جواب اس نبی سے ایسی ہی آسمان سے نازل شدہ تحریر کا مطالبہ کر رہے ہو۔ ہم نے ان الواح تورات پر عمل کرنے کا عہدا گر لیا تو تم پر پہاڑ کو اوندھا کرلیا ورنہ تم اتنے سرکش لوگ ہو کہ ان احکام کی پابندی کے لیے ہرگز تیار نہ تھے۔ اس کے بعد بھی تم نے ہر ہر حکم کی خلاف ورزی کی۔ تمہیں حکم تھا کہ شہر اریحا کی فتح کے بعد شہر کے دروازہ سے سجدہ ریز ہو کر اور عاجزی کرتے ہوئے داخل ہونا لیکن تم سرینوں کے بل اکڑتے ہوئے اور مادہ پرستانہ ذہن کے ساتھ گندم گندم پکارتے ہوئے داخل ہوئے۔ تم نے ہمارے حکم کے علی الرغم ہفتہ کے دن میں بھی مکر و فریب سے مچھلیوں کا شکار کیا۔ اسی طرح اللہ کی بہت سی آیات کا انکار کیا۔ اپنے کیے ہوئے پختہ عہدوں کو توڑا اور سب سے بڑھ کر یہ ظلم کیا کہ انبیاء کی اطاعت کے بجائے انہیں ناحق قتل کرتے رہے۔ کیا تورات پر ایمان لانے کے یہی انداز ہیں ؟- [٢٠٦] دلوں کا پردہ میں محفوظ ہونا :۔ پھر جب انہیں کوئی ہدایت کی بات سنائی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہمارے دل اس قدر محفوظ ہیں کہ ہمارے عقائد و نظریات میں کوئی بات بھی نہ داخل ہوسکتی ہے اور نہ اثر انداز ہوسکتی ہے جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ان کی انہی نافرمانیوں اور عہد شکنیوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر بدبختی اتنی زیادہ چھا چکی ہے کہ اب کوئی بھی ہدایت کی بات ان پر بےاثر ثابت ہوتی ہے اور یہ لوگ اس قدر کج فہم ہوچکے ہیں کہ اپنی اس بدبختی کو بھی اپنی خوبی کے انداز میں پیش کر رہے ہیں۔
فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ : اس میں ” ما “ تاکید کے لیے بڑھایا گیا ہے، یعنی ان کے اپنے پختہ عہد کو توڑنے ہی کی وجہ سے۔ یہاں کچھ الفاظ محذوف ہیں جو آیت پڑھنے والے کی سمجھ پر چھوڑ دیے گئے ہیں، چناچہ اکثر مفسرین نے تو لکھا ہے کہ وہ الفاظ ہیں : ” لَعَنَّاہُمْ “ یعنی ہم نے ان پر لعنت کی، اس کی دلیل یہ ہے کہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ ) [ المائدۃ : ١٣ ] ” ان کے اپنے پختہ عہد کو توڑنے کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی “ اور بعض نے کہا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے بات کو عام رکھا ہے اسے عام رکھنا ہی بہتر ہے یعنی ان کے عہد کو توڑنے ہی کی وجہ سے ” فَعَلْنَا بِہِمْ مَّا فَعَلْنَا “ (ہم نے ان کے ساتھ کیا جو کیا) یعنی جو ہم نے ان کے ساتھ کیا وہ تمہارے اندازے سے باہر ہے۔ - وَقَتْلِهِمُ الْاَنْۢبِيَاۗءَ بِغَيْرِ حَقٍّ “ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٦١) اور ” غُلْفٌ“ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٨٨) ۔- فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا : یعنی بہت کم لوگ، جیسے عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے چند ساتھی۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” قَلِيْلًا “ مصدر محذوف کی صفت ہو یعنی ” اِیْمَانًا قَلِیْلاً “ (وہ ایمان نہیں لائیں گے مگر تھوڑا) یعنی صرف موسیٰ (علیہ السلام) اور تورات پر۔ یہ ان کے گمان کے اعتبار سے فرمایا، ورنہ ایک نبی کو بھی جھٹلایا تو گویا سب کو جھٹلا دیا۔ (رازی)
ربط آیات :۔- ماقبل کی آیات میں بھی یہود کی شرارتوں کا ذکر تھا اور ان شرارتوں کی وجہ سے ان پر لعن، طعن اور سزا کا بیان ہوا تھا، ان آیات میں بھی یہود کے بعض جرائم کی تفصیل مذکور ہے، اس کے ضمن میں حضرت عیسیٰ کے متعلق ان کے باطل خیال کی تردید کی گئی ہے، اور یہ واضح کردیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ان کے ظلم و ستم سے بچا کر زندہ آسمان پر اٹھا لیا ہے، یہ لوگ جو دعوی ہے جس شخص کو انہوں نے قتل کیا تھا وہ عیسیٰ (علیہ السلام) نہیں تھے، بلکہ ان کے ہمشکل ایک دوسرا شخص تھا جس کو قتل کر کے یہ لوگ یوں سمجھنے لگے کہ ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کردیا۔- خلاصہ تفسیر - سو ہم نے (ان کی حرکتوں کی وجہ سے) سزائے لعنت و غضب و ذلت و مسخ وغیرہ) میں مبتلا کیا (یعنی) ان کی عہد شکنی کی وجہ سے اور ان کے کفر و (انکار) کی وجہ سے احکام الہیہ کے ساتھ اور ان کے قتل کرنے کی وجہ سے انبیاء (علیہم السلام) کو (جوان کے نزدیک بھی ناحق (تھا) اور ان کے اس مقولہ کی وجہ سے کہ ہمارے قلوب (ایسے) محفوظ ہیں (کہ ان میں مخالف مذہب یعنی اسلام کا اثر نہیں ہوتا تو مذہب پر ہم خوب پختہ ہیں، حق تعالیٰ اس پر رد فرماتے ہیں کہ یہ مضبوطی اور پختگی نہیں ہے) بلکہ ان کے کفر کے سبب ان کے قلوب پر اللہ تعالیٰ نے بند لگا دیا ہے (کہ حق بات کی ان میں تاثیر نہیں ہوتی) سو ان میں ایمان نہیں مگر قدرے قلیل (اور قدرے قلیل ایمان مقبول نہیں پس کافر ہی ٹھہرے) اور (ہم نے ان کو سزائے لعنت وغیرہ میں ان جو وہ سے بھی مبتلا کیا یعنی) ان کے (ایک خاص) کفر کی وجہ سے اور (تفصیل اس کی یہ ہے کہ) حضرت مریم (علیہا السلام) پر ان کے بڑا بھاری بہتان دھرنے کی وجہ سے (جس سے تکذیب عیسیٰ (علیہ السلام) کی بھی لازم آتی ہے، کیونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے معجزہ سے ان کی برات ظاہر فرما چکے ہیں) اور (نیز بطور تفاخر کے) ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم کو جو کہ رسول ہیں اللہ تعالیٰ کے قتل کردیا (یہ کہنا خود دلیل ہے عداوت کی اور عداوت انبیاء کے ساتھ کفر ہے، نیز اس میں دعوی ہے قتل کا، اور قتل نبی بھی کفر ہے اور دعویٰ کفر کا بھی کفر ہے) حالانکہ (علاوہ کفر ہونے کے خود ان کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کیونکہ) انہوں نے (یعنی یہود نے) نہ ان کو (یعنی (عیسی (علیہ السلام) کو) قتل کیا اور نہ ان کو سولی پر چڑھایا، لیکن ان کو (یعنی یہود کو) اشتباہ ہوگیا اور جو لوگ (اہل کتاب میں سے) ان کے (یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ غلط خیال میں (مبتلا) ہیں، ان کے پاس اس پر کوئی (صحیح) دلیل (وجود) نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے سے اور انہوں نے (یعنی یہود نے) ان کو (یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کو) یقینی باتوں پر عمل کرنے کے اور انہوں نے (یعنی یہود نے) ان کو (یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کو) یقینی بات ہے کہ قتل نہیں کیا (جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں) بلکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف (یعنی آسمان پر) اٹھا لیا (اور ایک شخص کو ان کا ہمشکل بنادیا اور وہ مصلوب و مقتول ہوا اور یہی سبب ہوا یہود کے اشتباہ کا اور اس اشتباہ نے اہل کتاب میں اختلاف پیدا کیا) اور اللہ تعالیٰ بڑے زبردست (یعنی قدرت والے) حکمت والے ہیں (کہ اپنی قدرت و حکمت سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بچا لیا اور اٹھا لیا اور یہود کو بوجہ تشبیہ کے پتہ بھی نہ لگا) اور (یہود کو اپنا کذب و بطلان انکار نبوت عیسویہ میں بہت جلد دنیا ہی میں ظاہر ہوجائے گا، کیونکہ وقت نزول آیت سے لے کر کسی زمانہ میں) کوئی شخص اہل کتاب (یعنی یہود میں) سے (باقی) نہ رہے گا، مگر وہ عیسیٰ (علیہ السلام) (کی نبوت) کی اپنے مرنے سے (ذرا) پہلے (جب کہ عالم برزخ نظر آنے لگتا ہے) ضرور تصدیق کرلے گا (گو اس وقت کی تصدیق نافع نہیں، مگر ظہور بطلان کے لئے تو کافی ہے تو اس سے اگر اب ہی ایمان لے آویں تو نافع ہوجاوے) اور (جب عالم دنیا اور عالم برزخ دونوں ختم ہو چکیں گے یعنی) قیامت کے روز وہ (یعنی عیسیٰ علیہ السلام) ان (منکرین کے انکار) پر گواہی دیں گے۔
فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّيْثَاقَہُمْ وَكُفْرِہِمْ بِاٰيٰتِ اللہِ وَقَتْلِہِمُ الْاَنْۢبِيَاۗءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَّقَوْلِـہِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ ٠ۭ بَلْ طَبَعَ اللہُ عَلَيْہَا بِكُفْرِہِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا ١٥٥۠- نقض - النَّقْضُ : انْتِثَارُ العَقْدِ مِنَ البِنَاءِ والحَبْلِ ، والعِقْدِ ، وهو ضِدُّ الإِبْرَامِ ، يقال : نَقَضْتُ البِنَاءَ والحَبْلَ والعِقْدَ ، وقد انْتَقَضَ انْتِقَاضاً ، والنِّقْضُ المَنْقُوضُ ، وذلک في الشِّعْر أكثرُ ، والنَّقْضُ كَذَلِكَ ، وذلک في البِنَاء أكثرُ «2» ، ومنه قيل للبعیر المهزول : نِقْضٌ ، ومُنْتَقِض الأَرْضِ من الكَمْأَةِ نِقْضٌ ، ومن نَقْضِ الحَبْل والعِقْد استُعِيرَ نَقْضُ العَهْدِ. قال تعالی: الَّذِينَ عاهَدْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ [ الأنفال 56] ، الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ [ البقرة 27] ، - ( ن ق ض ) النقض - یہ ابرام کی ضد ہے اور اس کے معنی کسی چیز کا شیزازہ بکھیرنے کے ہیں جیسے نقضت البناء عمارت کو ڈھانا الحبل رسی کے بل اتارنا العقد گرہ کھولنا النقج والنقض یہ دونوں بمعنی منقوض آتے ہیں لیکن بکسر النون زیادہ تر عمارت کے لئے آتا ہے اور بفتح النون کا عام استعمال اشعار کے متعلق ہوتا ہے اسی سے دبلے اونٹ اور زمین کی پرت کو جو کھمبی وغیرہ کے نکلنے سے پھٹ جاتی ہے نقض کہا جاتا ہے پھر نقض الحبل والعقد سے استعارہ کے طور پر عہد شکنی کے لئے بھی نقض کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ [ البقرة 27] جو خدا کے اقرار کو ۔۔۔۔ توڑ دیتے ہیں ۔ اور جب پکی قسمیں کھاؤ تو ان کو نہ توڑو ۔ وَلا تَنْقُضُوا الْأَيْمانَ بَعْدَ تَوْكِيدِها[ النحل 91]- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - غلف - قوله تعالی: قُلُوبُنا غُلْفٌ [ البقرة 88] ، قيل : هو جمع أَغْلَفَ ، کقولهم : سيف أَغْلَفُ.- أي : هو في غِلَافٍ ، ويكون ذلک کقوله : وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت 5] ، فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا [ ق 22] . وقیل : معناه قلوبنا أوعية للعلم «2» . وقیل : معناه قلوبنا مغطّاة، و غلام أَغْلَفُ كناية عن الأقلف، والغُلْفَةُ کالقلفة، وغَلَّفْتُ السّيفَ ، والقارورة، والرّحل، والسّرج :- جعلت لها غِلَافاً ، وغَلَّفْتُ لحیته بالحنّاء، وتَغَلَّفَ نحو تخضّب، وقیل : قُلُوبُنا غُلْفٌ- [ البقرة 88] ، هي جمع غِلَافٍ ، والأصل : غُلُفٌ بضمّ اللام، وقد قرئ به «3» ، نحو : كتب، أي : هي أوعية للعلم تنبيها أنّا لا نحتاج أن نتعلّم منك، فلنا غنية بما عندنا .- ( غ ل ف ) آیت کریمہ : قُلُوبُنا غُلْفٌ [ البقرة 88] میں بعض نے کہا ہے کہ یہ یعنی ( غلف ) اغلف ) کی جمع ہے اور اغلف اس چیز کو کہتے ہیں جو غلاف میں بند ہو چناچہ سیف اغلف کے معنی ہیں تلوار جو غلاف یعنی نیام میں بند ہو اور غیر محنتوں لڑکے کو غلام اغلب کہا جاتا ہے اور جو چمڑہ ختم کرتے وقت کاٹ دیا جاتا ہے لمبے غللۃ کہتے ہیں ۔ غلفت السیف تلوار کو نیام میں بند کردیا غلقت القارورۃ شیشے کے اوپر غلاف چڑھا دیا غلقت الرحل اولسرج پالان یا زین پر چمڑا مڑھ دیا اسی طرح غلقت الحیۃ بالحناء کے معنی کسی کی داڑھی کو مہندی سے چھپا دینے کے ہیں اور تغلف ( تفعر ) بمعنی تخصب آتا ہے پس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے دل غلافوں میں بند ہیں ( اس لئے قرآن کریم کی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آسکتیں لہذا یہ آیت کریمہ : ۔ قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت 5] اور فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا [ ق 22] کے ہم معنی ہوگی بعض نے کہا ہے کہ یہ ( غلف ) اصل میں غلف بضم اللام ہے جیسا کہ ایک قرات میں سے اور یہ اغلف کی نہیں بلکہ غلاف کی جمع ہے جیسا کہ کتاب کی جمع کتب آتی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے دل خود علوم ومعارف کے گنجینے اور مخزن ہیں اور ان علوم کی موجود گی میں ہم دوسروں کے علوم سے بےنیاز ہیں لہذا تم سے کیس قسم کے استفادہ کی ہمیں ضرورت نہیں ہے ۔- طبع - الطَّبْعُ : أن تصوّر الشیء بصورة مّا، كَطَبْعِ السّكّةِ ، وطَبْعِ الدّراهمِ ، وهو أعمّ من الختم وأخصّ من النّقش، والطَّابَعُ والخاتم : ما يُطْبَعُ ويختم . والطَّابِعُ : فاعل ذلك، وقیل للطَّابَعِ طَابِعٌ ، وذلک کتسمية الفعل إلى الآلة، نحو : سيف قاطع . قال تعالی: فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون 3] ، - ( ط ب ع ) الطبع ( ف )- کے اصل معنی کسی چیز کو ( ڈھال کر) کوئی شکل دینا کے ہیں مثلا طبع السکۃ اوطبع الدراھم یعنی سکہ یا دراہم کو ڈھالنا یہ ختم سے زیادہ عام اور نقش سے زیادہ خاص ہے ۔ اور وہ آلہ جس سے مہر لگائی جائے اسے طابع وخاتم کہا جاتا ہے اور مہر لگانے والے کو طابع مگر کبھی یہ طابع کے معنی میں بھی آجاتا ہے اور یہ نسبۃ الفعل الی الآلۃ کے قبیل سے ہے جیسے سیف قاطع قرآن میں ہے : فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون 3] تو ان کے دلوں پر مہر لگادی ۔- قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔
(١٥٥) چناچہ معاہدہ کی عہدشکنی کی بنا پر جو ہم نے سزا دینی تھی وہ ان کو سزا دی اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کے انکار کی وجہ سے ان پر جزیہ مسلط کردیا اور کیوں کہ انہوں نے انبیاء کرام کو ناحق قتل کیا، اس وجہ سے ہم نے ان کا خاتمہ کردیا۔- اور وہ جو یہ کہتے ہیں کہ ” ہمارے دل ہر ایک علم کے محفوظ برتن ہیں “۔ (یہ انکی خود فریبی ہے) وہ آپ کے علم اور آپ کے کلام کو محفوظ نہیں کرسکتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی تکذیب کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی اس لیے عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھیوں کے علاوہ اور کوئی ان میں سے اسلام قبول نہیں کرے گا۔
آیت ١٥٥ (فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّیْثَاقَہُمْ ) - اب ان کے جرائم کی فہرست آرہی ہے ‘ اور یوں سمجھئے کہ مبتدأ ہی کی تکرار ہو رہی ہے اور اس میں جو اصل خبر ہے وہ گویا محذوف ہے۔ گویا بات یوں بنے گی : فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّیْثَاقَہُمْ لَعَنّٰھُمْکہ انہوں نے جو اپنے میثاق کو توڑا اور توڑتے رہے ‘ ہمارے ساتھ انہوں نے جو بھی وعدے کیے تھے ‘ جب ان کا پاس انہوں نے نہ کیا تو ہم نے ان پر لعنت کردی۔ لیکن یہ لَعَنّٰھُمْاتنی واضح بات تھی کہ اس کو کہنے کی ضروت محسوس نہیں کی گئی ‘ بلکہ ان کے جرائم کی فہرست بیان کردی گئی۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :187 یہودیوں کے اس قول کی طرف سورہ بقرہ آیت ۸۸ میں بھی اشارہ کیا گیا ہے ۔ درحقیقت یہ لوگ تمام باطل پرست جہلا کی طرح اس بات پر فخر کرتے تھے کہ جو خیالات اور تعصبات اور رسم و رواج ہم نے اپنے باپ دادا سے پائے ہیں ان پر ہمارا عقیدہ اتنا پختہ ہے کہ کسی طرح ہم ان سے نہیں ہٹائے جا سکتے ۔ جب کبھی خدا کی طرف سے پیغمبروں نے آکر ان کو سمجھانے کی کوشش کی ، انہوں نے ان کو یہی جواب دیا کہ تم خواہ کوئی دلیل اور کوئی آیت لے آؤ ہم تمہاری کسی بات کا اثر نہ لیں گے ، جو کچھ مانتے اور کرتے چلے آئے ہیں وہی مانتے رہیں گے اور وہی کیے چلے جائیں گے ۔ ( ملاحضہ ہو سورہ بقرہ ، حاشیہ نمبر ۹٤ ) ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :188 یہ جملہ معترضہ ہے ۔
88: ان کا مطلب یہ تھا کہ ہمارے دل بالکل محفوظ ہیں کہ ان میں اپنے مذہب کے سوا کسی اور مذہب کی بات داخل نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں جملہ معترضہ کے طور پر ارشاد فرمایا کہ دل محفوظ نہیں ہیں، بلکہ ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے جس کی وجہ سے کوئی صحیح بات ان کے دلوں میں نہیں اترتی۔ 89: تھوڑی باتوں مراد یہ ہے کہ مثلاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت پر تو ایمان لاتے ہیں، لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لاتے۔