صحیح مسلم میں ہے کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس آیا اور کہا کہ یہ کیا بات ہے جو مجھے پہنچی ہے کہ آپ فرماتے ہیں قیامت یہاں یہاں تک آ جائے گی آپ نے سبحان اللہ یا لا الہ الا اللہ کہہ کر فرمایا میرا تو اب جی چاہتا ہے کہ تمہیں اب کوئی حدیث ہی نہ سناؤں ، میں نے تو یہ کہا تھا کہ کچھ زمانے کے بعد تم بڑے بڑے امر دیکھو گے ، بیت اللہ جلا دیا جائے گا اور یہ ہو گا وہ ہو گا وغیرہ ۔ پھر فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دجال نکلے گا اور میری امت میں چالیس تک ٹھہرے گا ، مجھے نہیں معلوم کہ چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال ۔ پھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم کو بھیجے گا ، آپ کی صورت مثل حضرت عروہ بن مسعود کے ہے ۔ آپ اسے تلاش کر کے قتل کریں گے پھر سات سال تک لوگ اسی طرح رہیں گے کہ وہ بھی کچھ عداوت ہو گی ، پھر ٹھنڈی ہوا شام کی طرف سے چلے گی اور سب ایمان والوں کو فوت کر دے گی ، جس کے دل میں ایک ذرے برابر بھی بھلائی یا ایمان ہو گا اگرچہ وہ کسی پہاڑ کے غار میں ہو وہ بھی فوت ہو جائے گا ، پھر بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے جو پرندوں جیسے ہلکے اور درندوں جیسے دماغوں والے ہوں گے ، اچھائی برائی کی کی کوئی تمیز ان میں نہ ہو گی ، شیطان ان کے پاس انسانی صورت میں آ کر انہیں بت پرستی کی طرف مائل کرے گا لیکن ان کی اس حالت میں بھی ان کی روزی کے دوازے ان پر کھلے ہوں گے اور زندگی بہ آرام گذر رہی ہو گی ، پھر صور پھونکا جائے گا ، جس سے لوگ گرنے مرنے لگیں گے ، ایک شخص جو اپنے اونٹوں کو پانی پلانے کے لئے ان کا حوض ٹھیک کر رہا ہو گا ، سب سے پہلے صور کی آواز اس کے کان میں پڑے گی ، جس سے یہ اور تمام اور لوگ بیہوش ہو جائیں گے ۔ غرض سب کچھ فنا ہو چکنے کے بعد اللہ تعالیٰ مینہ برسائے گا ، جو مثل شبنم کے یا مثل سائے کے ہو گا ، اس سے دوبارہ جسم پیدا ہوں گے پھر دوسرا صور پھونکا جائے گا ، سب کے سب جی اٹھیں گے ، پھر کہا جائے گا لوگو اپنے رب کی طرف چلو ، انہیں ٹھہرا کر ان سے سوال کیا جائے گا پھر فرمایا جائے گا جہنم کا حصہ نکالو ، پوچھا جائے گا کتنوں سے کتنے؟ جواب ملے گا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے ، یہ دن ہے جو بچوں کو بوڑھا بنا دے گا اور یہی دن ہے جس میں پنڈلی کھولی جائے گی ۔ مسند احمد میں ہے ابن مریم باب لد کے پاس یا لد کی جانب مسیح دجال کو قتل کریں گے ۔ ترمذی میں باب لد ہے اور یہ حدیث صحیح ہے ۔ اس کے بعد امام ترمذی نے چند اور صحابہ کے نام بھی لئے ہیں کہ ان سے بھی اس باب کی حدیثیں مروی ہیں تو اس سے مراد وہ حدیثیں ہیں جن میں دجال کا مسیح علیہا لسلام کے ہاتھ سے قتل ہونا مذکور ہے ۔ صرف دجال کے ذکر کی حدیثیں تو بیشمار ہیں ، جنہیں جمع کرنا سخت دشوار ہے ۔ مسند میں ہے کہ عرفے سے آتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ایک مجمع کے پاس سے گذرے اس وقت وہاں قیامت کے ذکر افکار ہو رہے تھے تو آپ نے فرمایا جب تک دس باتیں نہ ہولیں ، قیامت قائم نہ ہو گی ، آفتاب کا مغرب کی جانب سے نکلنا ، دھوئیں کا آنا ، دابتہ الارض کا نکلنا ، یاجوج ماجوج کا آنا ، عیسیٰ بن مریم کا نازل ہونا ، دجال کا آنا ، تین جگہ زمین کا دھنس جانا ، شرق میں ، غرب میں اور جزیرہ عرب میں اور عدن سے ایک آگ کا نکلنا جو لوگوں کو ہنکا کر ایک جگہ کر دے گی وہ شب باشی بھی انہی کے ساتھ کریں گے اور جب دوپہر کو وہ آرام کریں گے یہ آگ ان کے ساتھ ٹھہری رہے گی ۔ یہ حدیث مسلم اور سنن میں بھی ہے اور حضرت حذیفہ بن اسید غفاری سے موقوفاً یہی مروی ہے واللہ اعلم ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ متواتر حدیثیں جو حضرت ابو ہریرہ حضرت ابن مسعود حضرت عثمان بن ابو العاص ، حضرت ابو امامہ ، حضرت نواس بن سمعان ، حضرت عبداللہ بن عمرو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے ، ساتھ ہی ان میں یہ بھی بیان ہے کہ کس طرح اتریں گے اور کہاں اتریں گے اور کس وقت اتریں گے؟ یعنی صبح کی نماز کی اقامت کے وقت شام کے شہر دمشق کے شرقی مینارہ پر آپ اتریں گے ۔ اس زمانہ میں یعنی سن سات سو اکتالیس میں جامع اموی کا مینارہ سفید پتھر سے بہت مضبوط بنایا گیا ہے ، اس لئے کہ آگ کے شعلہ سے یہ جل گیا ہے آگ لگانے والے غالباً ملعون عیسائی تھے کیا عجب کہ یہی وہ مینارہ ہو جس پر مسیح بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے اور خنزیروں کو قتل کریں گے ، صلیبوں کو توڑ دیں گے ، جزیئے کو ہٹا دیں گے اور سوائے دین اسلام کے اور کوئی دین قبول نہ فرمائیں گے ۔ جیسے کہ بخاری و مسلم کی حدیثیں گذر چکیں ، جن میں پیغمبر صادق و مصدق علیہ السلام نے یہ خبر دی ہے اور اسے ثابت بتایا ہے ۔ یہ وہ وقت ہو گا جبکہ تمام شک شبے ہٹ جائیں گے ، اور لوگ حضرت عیسیٰ کی پیروی کے ماتحت اسلام قبول کرلیں گے ۔ جیسے اس آیت میں ہے اور جیسے فرمان ہے آیت ( وانہ لعلم للساعتہ ) اور ایک قرأت میں ( لعلم ) ہے ۔ یعنی جناب مسیح قیامت کا ایک زبردست نشان ہے ، یعنی قرب قیامت کا اس لئے کہ آپ دجال کے آچکنے کے بعد تشریف لائیں گے اور اسے قتل کریں گے ۔ جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی نہیں پیدا کی جس کا علاج نہ مہیا کیا ہو ، آپ ہی کے وقت میں یاجوج ماجوج نکلیں گے ، جنہیں اللہ تعالیٰ آپ کی دعا کی برکت سے ہلاک کرے گا ۔ قرآن کریم ان کے نکلنے کی خبر بھی دیتا ہے ، فرمان ہے آیت ( ﱑ اِذَا فُتِحَتْ يَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:96 ) یعنی ان کا نکلنا بھی قرب قیامت کی دلیل ہے ۔ اب حضرت عیسیٰ کی صفتیں ملاحظہ ہوں ۔ پہلے کی دو احادیث میں بھی آپ کی صفت گذر چکی ہے ، بخاری مسلم میں ہے کہ لیلتہ المعراج میں میں نے حضرت موسیٰ سے ملاقات کی وہ درمیانہ قد صاف بالوں والے ہیں ، جیسی شنوہ قبیلے کے لوگ ہوتے ہیں اور حضرت عیسیٰ سے بھی ملاقات کی ، وہ سرخ رنگ میانہ قد ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ابھی حمام سے نکلے ہیں ، حضرت ابراہیم کو بھی میں نے دیکھا بس وہ بالکل مجھ جیسے تھے ۔ بخاری کی اور روایت میں ہے حضرت عیسیٰ سرخ رنگ ، گھنگریالے بالوں والے ، چوڑے چکلے سینے والے تھے ، حضرت موسیٰ گندمی رنگ کے جسم اور سیدھے بالوں والے تھے ، جیسے زط کے لوگ ہوتے ہیں ، اسی طرح آپ نے دجال کی شکل و صورت بھی بیان فرما دی ہے کہ اس کی داہنی آنکھ کافی ہو گی ، جیسے پھولا ہوا انگور ، آپ فرماتے ہیں مجھے کعبہ کے پاس خواب میں دکھلایا گیا کہ ایک بہت گندمی رنگ والے آدمی جن کے سر کے پٹھے دونوں کندھوں تک تھے ، صاف بالوں والے جن کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے ، دو شخصوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے طواف کر رہے ہیں ، میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ تو مجھے بتلایا گیا کہ یہ مسیح بن مریم ہیں ، میں نے ان کے پیچھے ہی ایک شخص کو دیکھا جس کی داہنی آنکھ کافی تھی ، ابن قطن سے بہت ملتا جلتا تھا ، سخت الجھے ہوئے بال تھے ، وہ بھی دو شخصوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے بیت اللہ کا طواف کر رہا ہے ، میں نے کہا یہ کون یہ؟ کہا گیا یہ مسیح دجال ہے ۔ بخاری کی اور روایت میں حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ اللہ کی قسم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ کو سرخ رنگ نہیں بتایا بلکہ آپ نے گندمی رنگ بتایا ہے ، پھر اوپر والی پوری حدیث ہے ۔ حضرت زہری فرماتے ہیں ابن قطن قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص تھا ، جو جاہلیت میں مر چکا تھا ۔ وہ حدیث بھی گذر چکی جس میں یہ بیان ہے کہ جناب مسیح علیہ السلام اپنے نزول کے بعد چالیس سال یہاں رہیں گے پھر فوت ہوں گے اور مسلمان آپ کے جنازے کی نماز ادا کریں گے ۔ ہاں مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ یہاں سال ہا سال رہیں گے ، تو ممکن ہے کہ چالیس سال کا فرمان اس مدت سمیت کا ہو جو آپ نے دنیا میں اپنے آسمانوں پر اٹھائے جانے پہلے گذاری ہے ۔ جس وقت آپ اٹھائے گئے اس وقت آپ کی عمر تینتیس سال کی تھی اور سات سال اب آخر زمانے کے تو پورے چالیس سال ہو گئے ۔ واللہ اعلم ( ابن عساکر ) بعض کا قول ہے کہ جب آپ آسمانوں پر چڑھائے گئے اس وقت آپ کی عمر ڈیڑھ سال کی تھی ، یہ بالکل فضول سا قول ہے ، ہاں حافظ ابو القاسم رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ میں بعض سلف سے یہ بھی لکھا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے میں آپ کے ساتھ دفن کئے جائیں گے واللہ اعلم ۔ پھر ارشاد ہے کہ یہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوں گے یعنی اس بات کے کہ اللہ کی رسالت آپ نے انہیں پہنچا دی تھی اور خود آپ نے اللہ کی عبودیت کا اقرار کیا تھا ، جیسے سورہ مائدہ کے آخر میں آیت ( واذ قال اللہ ) سے ( الحکیم ) تک ہے یعنی آپ کی گواہی کا وہاں ذکر ہے اور اللہ کے سوال کا ۔
159۔ 1 قبل موتہ میں ہ ضمیر کا مرجع بعض مفسرین کے نزدیک اہل کتاب (نصاریٰ ) ہیں اور مطلب یہ کہ ہر عیسائی موت کے وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آتا ہے۔ گو موت کے وقت ایمان نافع نہیں۔ لیکن سالف اور اکثر مفسرین کے نزدیک اس کا مرجع حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور مطلب یہ ہے کہ جب ان کا دوبارہ دنیا میں نزول ہوگا اور وہ دجال کو قتل کر کے اسلام کا بول بالا کریں گے تو اس وقت جتنے یہودی اور عیسائی ہونگے ان کو بھی قتل کر ڈالیں گے اور روئے زمین پر مسلمان کے سوا کوئی اور باقی نہ بچے گا اس طرح دنیا میں جتنے بھی اہل کتاب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے ہیں وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے پہلے ان پر ایمان لا کر اس دنیا سے گزر چکے ہونگے۔ خواہ ان کا ایمان کسی بھی دھنگ کا ہو۔ صحیح احادیث سے بھی یہی ثابت ہے۔ چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ضرور ایک وقت آئے گا کہ تم میں ابن مریم حاکم و عادل بن کر نازل ہوں گے، وہ صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کردیں گے، جزیہ اٹھا دیں گے اور مال کی اتنی بہتات ہوجائے گی کہ کوئی اسے قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔ یعنی صدقہ خیرات لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔ حتی کہ ایک سجدہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔ پھر حضرت ابو ہریرۃ (رض) فرماتے اگر تم چاہو تو قرآن کی یہ آیت پڑھ لو " وان من اھل الکتب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ " (صحیح بخاری۔ کتاب الانبیاء) یہ احادیث اتنی کثرت سے آئی ہیں کہ انہیں تواتر کا درجہ حاصل ہے اور انہی متواتر صحیح روایات کی بنیاد پر اہلسنت کے تمام مکاتب کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان پر زندہ ہیں اور قیامت کے قریب دنیا میں ان کا نزول ہوگا اور دجال کا اور تمام ادیان کا خاتمہ فرما کر اسلام کو غالب فرمائیں گے۔ یاجوج ماجوج کا خروج بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی کی موجودگی میں ہوگا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کی برکت سے ہی اس فتنے کا بھی خاتمہ ہوگا جیسا کہ احادیث سے واضح ہے۔ 159۔ 2 یہ گواہی اپنی پہلی زندگی کے حالات سے متعلق ہوگی جیسا کہ سورة مائدہ کے آخر میں وضاحت ہے ( وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ ) 5 ۔ المائدہ :117) میں جب تک ان میں موجود رہا، ان کے حالات سے باخبر رہا ـ
[٢٠٨] یعنی جب قیامت کے نزدیک عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے اس دنیا پر نزول فرمائیں گے تو سارے اہل کتاب (یہود بھی عیسائی بھی) سیدنا عیسیٰ کی طبعی موت سے پیشتر ان پر ضرور ایمان لائیں گے۔ اس ضمن میں درج ذیل احادیث خاصی روشنی ڈالتی ہیں :- ١۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ عنقریب تم میں ابن مریم عادل حکمران کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ وہ صلیب توڑ ڈالیں گے، جزیہ اٹھا دیں گے۔ اس زمانے میں مال کی اتنی کثرت ہوگی کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا اور ایک سجدہ ان کے نزدیک دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔ اگر چاہو تو پڑھ لو وان من اھل الکتٰب الا لیومنن بہ قبل موتہ) بخاری، کتاب الانبیائ، باب نزول عیسیٰ بن مریم۔۔ مسلم، کتاب الایمان، باب نزول عیسیٰ بن مریم)- ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب عیسیٰ بن مریم تم میں نازل ہوں گے اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا۔ (یعنی وہ بھی شریعت محمدی کی پیروی کریں گے۔ (بخاری، کتاب الانبیائ، باب نزول عیسیٰ بن مریم)- ٣۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا۔ میں رات کو اپنے تئیں خواب میں دیکھتا ہوں جیسے میں کعبہ کے پاس ہوں۔ میں نے دیکھا کہ ایک خوش شکل آدمی، گندمی رنگ، بال کندھوں تک اور سنہرے تھے اور سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے کعبہ کا طواف کر رہا ہے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ مسیح ابن مریم ہیں۔ ان کے پیچھے میں نے ایک اور شخص کو دیکھا جس کے بال سخت گھونگریالے، رنگ کا سرخ اور داہنی آنکھ سے کانا اور اس کی آنکھ جیسے پھولا ہوا انگور ہو، جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہے ان میں سے عبدالعزیٰ بن قطن کے بہت مشابہ جو دور جاہلیت میں مرگیا تھا اپنے دونوں ہاتھ ایک شخص کے کندھوں پر رکھے طواف کر رہا ہے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ مسیح دجال ہے۔ (حوالہ ایضاً )- ٤۔ آپ نے فرمایا میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر لڑتی رہے گی اور قیامت تک غالب رہے گی۔ پھر عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے تو اس جماعت کا امیر کہے گا آئیے ہمیں نماز پڑھائیے۔ وہ کہیں گے نہیں اللہ کی طرف سے اس امت کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان میں سے ہی کوئی دوسروں پر امیر ہو (مسلم، کتاب الایمان۔ باب نزول عیسیٰ بن مریم)- ٥۔ نزول مسیح اور فتنہ دجال :۔ آپ نے فرمایا دجال اسی حال میں ہوگا کہ اللہ مسیح ابن مریم کو مبعوث فرمائے گا جو دمشق کے شرقی سفید مینار کے پاس اتریں گے اور زرد رنگ کا جوڑا پہنے اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوں گے۔ جب اپنا سر جھکائیں گے تو قطرے ٹپکیں گے اور جب اٹھائیں گے تو بھی موتیوں کی طرح قطرے گریں گے۔ کافر ان کے سانس کی بو پاتے ہی مرجائے گا اور ان کا سانس حد نگاہ تک پہنچے گا۔ پھر وہ دجال کی تلاش کریں گے تو اسے باب لد پر پائیں گے۔ پھر اسے قتل کردیں گے۔ (مسلم، کتاب الفتن، باب ذکر الدجال )- ٦۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا دجال میری امت میں نکلے گا تو وہ چالیس۔۔ رہے گا مجھے نہیں معلوم کہ چالیس دن یا چالیس ماہ یا چالیس سال۔ (نواس بن سمعان کی روایت میں چالیس دن ہے) پھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم کو بھیجے گا۔ وہ ایسے ہوں گے جیسے عروہ بن مسعود ہے۔ عیسیٰ دجال کو تلاش کریں گے پھر اسے مار ڈالیں گے۔ پھر سات سال تک لوگ اس طرح رہیں گے کہ دو آدمیوں میں دشمنی نہ ہوگی۔ (مسلم، کتاب الفتن، باب ذکر الدجال) - خ اہل کتاب کا سیدنا عیسیٰ پر ایمان لانا :۔ اہل کتاب میں سے عیسائی تو پہلے ہی رفع عیسیٰ کے قائل ہیں البتہ یہودی بزعم خود ضرور یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا عیسیٰ کو سولی پر چڑھا کر مار ڈالا تھا۔ قیامت کے قریب جب سیدنا عیسیٰ نزول فرمائیں گے تو ان کی شان و شوکت کو دیکھ کر یہود کو بھی اعتراف کرنا پڑے گا کہ سیدنا عیسیٰ واقعی اللہ کے رسول تھے اور انہوں نے ولدالحرام ہونے سے متعلق جو الزام لگایا تھا وہ سراسر غلط تھا۔ نیز ان کا یہ گمان باطل کہ انہوں نے سیدنا عیسیٰ کو مار ڈالا ہے، بھی غلط ثابت ہوجائے گا۔- خ نزول عیسیٰ کے منکرین کی تاویل :۔ بعض منکرین معجزات یہ کہتے ہیں کہ (وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا ١٥٩ۚ ) 4 ۔ النسآء :159) کی ضمیر اہل کتاب کی طرف لوٹتی ہے۔ اس لحاظ سے وہ اس کا مطلب یہ بتاتے ہیں کہ اہل کتاب اپنی موت کے وقت جبکہ غیب کے سب پردے ہٹ جاتے ہیں مرنے سے پیشتر ضرور عیسیٰ کی رسالت اور نبوت پر ایمان لے آئیں گے۔ اس تاویل کے بعد وہ احادیث مندرجہ بالا کو ناقابل اعتماد قرار دے کر نزول مسیح سے انکار کردیتے ہیں۔ یہ تاویل اس لحاظ سے غلط ہے کہ موت کے وقت غیب کے پردے ہٹ جانے سے تو بیشمار حقائق منکشف ہوجاتے ہیں اور یہود کو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ جن جن انبیاء کو یہود نے جھوٹا سمجھ کر قتل کردیا تھا وہ سب سچے تھے پھر اس میں سیدنا عیسیٰ کی کیا تخصیص رہ گئی اور ان کی کیا خصوصیت اور فوقیت ثابت ہوئی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے ؟ علاوہ ازیں ہمیں کوئی کمزور سے کمزور روایت بھی ایسی نہیں ملتی جو ان لوگوں کے اس نظریہ کی تائید کرتی ہو۔ جبکہ نزول عیسیٰ سے متعلق اس قدر احادیث کتب احادیث میں موجود ہیں جو حد تواتر کو پہنچتی ہیں۔
وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ: اس آیت کے دو مطلب ہیں اور دونوں درست ہیں، پہلا تو یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کا ہر شخص اپنے مرنے سے پہلے عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت اور ان کے زندہ اٹھائے جانے پر ایمان لے آئے گا، مگر یہ اس وقت کی بات ہے جب موت سامنے آجاتی ہے، جیسا کہ فرعون مرتے وقت ایمان لے آیا تھا، مگر اس وقت ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب عادل حاکم کی صورت میں اتریں گے اور دجال اور دوسرے تمام کفار سے جہاد کریں گے، تو ان کی موت سے پہلے پہلے تمام دنیا میں اسلام غالب ہوجائے گا۔ یہود و نصاریٰ یا تو مقابلے میں قتل ہوجائیں گے، یا اسلام لے آئیں گے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) صلیب توڑ دیں گے، جزیہ ختم کردیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، چناچہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) فوت ہوں گے تو ان کی وفات سے پہلے ہر موجود یہودی اور نصرانی ان کی نبوت اور ان کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے اور دوبارہ اترنے پر ایمان لا چکا ہوگا۔ چناچہ بخاری اور مسلم میں مذکور اس حدیث کے آخر میں ہے کہ ابوہریرہ (رض) یہ حدیث بیان کر کے فرماتے : ” اگر چاہو تو یہ آیت پڑھو : (وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ )” اور اہل کتاب میں سے کوئی نہیں مگر اس کی موت سے پہلے ضرور اس پر ایمان لائے گا۔ “- وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا : اس جملے کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة مائدہ (١١٧) ۔
آخر میں اسی مضمون کے تتمہ کے لئے فرمایا کہ وان من اھل الکتب الا لیومنن بہ قبل موتہ یہ لوگ اس وقت اگرچہ بغض و حسد کی وجہ سے حقیقت کی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق باطل خیالات رکھتے ہیں، نیز حضرت محمد مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا بھی انکار کر رہے ہیں، لیکن ایک وقت ایسا آنے والا ہے جبکہ ان کی آنکھیں کھل جائیں گی اور اس وقت انہیں یقین ہوجائے گا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق جو کچھ ہمارا خیال تھا وہ سب باطل تھا۔- اس آیت کی ایک تفسیر تو وہ ہے جو خلاصہ تفسیر میں گذری ہے کہ موتہ کی ضمیر اہل کتاب کی طرف راجع کی جائے اور آیت کا مطلب اس صورت میں یہ ہے کہ یہ یہود اپنی موت سے چند لمحے پیشتر جب عالم برزخ کو دیکھیں گے تو عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت پر ایمان لے آئیں گے اگرچہ اس وقت کا ایمان ان کے حق میں نافع نہیں ہوگا، جس طرح کہ فرعون کو اس کے اس ایمان نے فائدہ نہیں دیا تھا جو وہ غرق ہونے کے وقت لایا تھا۔- دوسری تفسیر جس کو صحابہ تابعین کی بڑی جماعت نے اختیار کیا ہے اور حدیث صحیح سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے یہ ہے کہ موتہ کی ضمیر حضرت مسیح (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ اہل کتاب اگرچہ اس وقت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہیں لاتے، یہود تو انہیں نبی ہی تسلیم نہیں کرتے، بلکہ انہیں العیاذ باللہ مفتری اور کاذب قرار دیتے ہیں اور نصاری اگرچہ ان پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر بعض تو ان میں اپنی جہالت میں یہاں تک پہنچ گئے کہ یہود ہی کی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مقتول اور مصلوب ہونے کے قائل ہوگئے اور بعض اعتقاد کے غلو میں اس حد تک آگے نکل گئے کہ انہیں خدا اور خدا کا بیٹا سجھ لیا قرآن کریم کی اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ یہ لوگ اگرچہ اس وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت پر صحیح ایمان نہیں رکھتے، لیکن جب وہ قیامت کے قریب اس زمین پر پھر نازل ہوں گے تو یہ سب اہل کتاب ان پر صحیح ایمان لے آئیں گے، نصاری تو سب کے سب صحیح اعتقاد کے ساتھ مسلمان ہوجائیں گے، یہود میں جو مخالفت کریں گے قتل کردیئے جائیں گے، باقی مسلمان ہوجائیں گے، اس قت کفر اپنی تمام قسموں کے ساتھ دنیا سے فنا کردیا جائے گا اور اس زمین پر صرف اسلام ہی کی حکمرانی ہوگی۔- حضرت ابوہریرہ (رض) سے ایک روایت منقول ہے :- ” آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عیسیٰ بن مریم ایک عادل حکمران بن کر ضرور نازل ہوں گے، وہ دجال اور خنزیز کو قتل کردیں گے، صلیب کو توڑ ڈالیں گے اور اس وقت عبادت صرف پروردگار عالم کی ہوگی۔- اس کے بعد حضرت ابوہریرہ نے فرمایا اگر تم چاہو تو قرآن کریم کی یہ - آیت بھی پڑھ لو جس میں اسی حقیت کا ذکر کیا گیا ہے کہ اہل کتاب میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا، مگر یہ کہ وہ ان پر ان کی موت سے پہلے ایمان لے آئے گا آپ نے فرمایا عیسیٰ (علیہ السلام)- کی موت سے پہلے اور تین بار ان الفاظ کو دہرایا۔ “- آیت مذکورہ کی یہ تفسیر ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابوہریرہ سے بروایت صحیحہ ثابت ہے جس میں قبل موتہ سے مراد قبل موت عیسیٰ (علیہ السلام) قرار دیا ہے جس نے آیت کا مفہوم واضح طور پر متعین کردیا کہ یہ آیت قرب قیامت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نازل ہونے کے متعلق ہے۔- اس تفسیر کی بنائ پر یہ آیت ناطق ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات ابھی نہیں ہوئی، بلکہ قیامت کے قریب جب وہ آسمان سے نازل ہوں گے اور ان کے نزول سے اللہ جل شانہ کی جو حکمتیں وابستہ ہیں وہ حکمتیں پوری ہوجائیں گی، تب اس زمین پر ہی ان کی وفات ہوگی۔- اس کی تائید سورة زخرف کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے : وانہ لعلم للساعة فلاتمترن بھا واتبعون (٣٤: ١٦) ’ یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کی ایک نشانی ہیں، پس تم قیامت کے آنے میں شک مت کرو اور میرا کہا مانو “ مفسرین کی ایک بڑی جماعت نے یہاں پر لکھا ہے کہ انہ، کی ضمیر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے، اور معنی یہ ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کی ایک علامت ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کے نزول کی خبر دی گئی ہے کہ وہ قیامت کے قریب نازل ہوں گے اور ان کا آنا قیامت کی علامات میں سے ہوگا۔- اس آیت میں ایک دوسری قراءت علم بھی منقول ہے اس سے یہ معنی زیادہ واضح ہوجاتے ہیں کیونکہ علم بفتح اللام کے معنی علامت کے ہیں، حضرت عبداللہ ابن عباس کی تفسیر بھی اسی کی موید ہے : عن ابن عباس (رض) فی قولہ تعالیٰ وانہ تعلم للساعة قال خروج عیسیٰ (علیہ السلام) قبل یوم القیمة ........ حضرت ابن عباس سے وانہ لعلم للساعة کے بارے میں منقول ہے کہ اس سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مراد ہیں جو قیامت سے پہلے تشریف لائیں گے۔ (ابن کثیر)- خلاصہ یہ ہے کہ آیت مذکورہ قبل موتہ کے ساتھ جب حضرت ابوہریرہ کی حدیث صحیح کے ساتھ تفسیر کو شامل کیا جائے تو اس سے واضح طور پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا زندہ ہونا اور پھر قرب قیامت میں نازل ہو کر یہود پر مکمل غلبہ پانا ثابت ہوجاتا ہے، اسی طرح آیت انہ لعلم للساعة سے بھی حسب تفسیر ابن عباس یہ مضمون یقینی ہوجاتا ہے۔- امام تفسیر ابن کثیر نے آیت وانہ لعلم للساعة کی تفسیر میں لکھا ہے :- ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث اس معاملے میں متواتر ہیں، کہ آپ نے قیامت سے پہلے عیسیٰ (علیہ السلام) کے دنیا میں نازل ہونے کی خبر دی ہے۔ “- ان روایات متواترہ کو ہمارے استاذ حجتہ الاسلام حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری نے جمع فرمایا، جن کی تعداد سو سے زیادہ ہے، حضرت استاذ کے حکم پر احقر نے اس مجموعے کو بزبان عربی مرتب کیا، حضرت نے اس کا نام التصریح بما تواتر فی نزول مسیح تجویز فرمایا، جو اسی زمانے میں شائع ہوچکا تھا، حال میں حلب شام کے ایک بڑے عالم علامہ عبدالفتاح ابوغدہ نے مزید شرح و حواشی کا اضافہ کر کے بیروت میں اعلی کتابت کے ساتھ شائع کرایا ہے۔ - آخر زمانے میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کا عقیدہ قطعی اور اجماعی ہے جس کا منکر کافر ہے :۔ یہ مضمون آیات مذکورہ سے بھی واضح ہوچکا ہے اور اس کی پوری تفصیل سورة آل عمران میں گذر چکی ہے وہاں دیکھ لی جائے اس میں ان شبہات کا بھی جواب مذکور ہے جو اس زمانے کے بعض ملحدین کی طرف سے اس عقیدہ کو مشکوک بنانے کے لئے پیش کئے گئے ہیں، واللہ ولی الہدایتہ
وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ ٠ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكُوْنُ عَلَيْہِمْ شَہِيْدًا ١٥٩ۚ- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ،- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ،- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینک مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - قِيامَةُ- : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة،- القیامت - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے - شَّهِيدُ- وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] - شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے
(١٥٩) نیز جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دوبارہ اتریں گے، اس وقت بھی جو یہودی موجود ہوں گے وہ اس بات کی تصدیق کریں گے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے دن ان پر گواہی دیں گے۔
آیت ١٥٩ (وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ الاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ ج ) - یعنی حضرت مسیح (علیہ السلام) فوت نہیں ہوئے ‘ زندہ ہیں ‘ انہیں آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا اور وہ دوبارہ زمین پر آئیں گے ‘ اور جب آئیں گے تو اہل کتاب میں سے کوئی شخص نہیں رہے گا کہ جو ان پر ایمان نہ لے آئے۔- (وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا )- یہ گواہی والامعاملہ وہی ہے جس کی تفصیل ہم آیت ٤١ میں پڑھ آئے ہیں : (فَکَیْفَ اِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا 4) کہ ہر نبی کو اپنی امت کے خلاف گواہی دینی ہے۔ لہٰذا حضرت مسیح (علیہ السلام) اپنی امت کے خلاف گواہی دیں گے۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :196 اس فقرے کے دو معنی بیان کیے گئے ہیں اور الفاظ میں دونوں کا یکساں احتمال ہے ۔ ایک معنی وہ جو ہم نے ترجمہ میں اختیار کیا ہے ۔ دوسرے یہ کہ”اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے مسیح پر ایمان نہ لے آئے“ ۔ اہل کتاب سے مراد یہودی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ عیسائی بھی ہوں ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ مسیح کی طبعی موت جب واقع ہوگی اس وقت جتنے اہل کتاب موجود ہوں گے وہ سب ان پر ( یعنی ان کی رسالت پر ) ایمان لاچکے ہوں گے ۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ تمام اہل کتاب پر مرنے سے عین قبل رسالت مسیح کی حقیقت منکشف ہو جاتی ہے اور وہ مسیح پر ایمان لے آتے ہیں ، مگر یہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ ایمان لانا مفید نہیں ہو سکتا ۔ دونوں معنی متعدد صحابہ ، تابعین اور اکابر مفسرین سے منقول ہیں اور صحیح مراد صرف اللہ ہی کے علم میں ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :197 یعنی یہودیوں اور عیسائیوں نے مسیح علیہ السلام کے ساتھ اور اس پیغام کے ساتھ ، جو آپ لائے تھے ، جو معاملہ کیا ہے اس پر آپ خداوند تعالیٰ کی عدالت میں گواہی دیں گے ۔ اس گواہی کی کچھ تفصیل آگے سورہ مائدہ کے آخری رکوع میں آنے والی ہے ۔
93: یہودی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیغمبر ہی نہیں مانتے، اور عیسائی خدا کا بیٹا ماننے کے باوجود یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کو سولی پر چڑھا کر قتل کردیا گیا تھا۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ سارے اہل کتاب، چاہے یہودی ہوں، یا عیسائی، اپنے مرنے سے ذرا پہلے جب عالمِ برزخ کے مناظر دیکھیں گے تو اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ان کے تمام غلط خیالات خود بخود ختم ہوجائیں گے، اور وہ ان کی اصل حقیقت پر ایمان لے آئیں گے۔ یہ اس آیت کی ایک تفسیر ہے جسے بہت سے مستند مفسرین نے ترجیح دی ہے، اور حضرت حکیم الام مولانا تھانویؒ نے ’’بیان القرآن‘‘ میں اسی کو اختیار کیا ہے۔ البتہ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے اس آیت کی جو تفسیر منقول ہے، اس کی رو سے آیت کا ترجمہ اس طرح ہوگا : ’’اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ان پر ضرور بالضرور ایمان نہ لائے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس وقت تو آسمان پر اٹھا لیا ہے، لیکن، جیسا کہ صحیح احادیث میں مروی ہے، آخر زمانے میں وہ دوبارہ اس دُنیا میں آئیں گے، اور اس وقت تمام اہلِ کتاب پر ان کی اصل حقیت واضح ہوجائے گی، اور وہ سب ان پر ایمان لے آئیں گے۔