یہودیوں کے خود ساختہ حلال و حرام اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ حرام کام ان کا مقدر تھا یعنی اللہ کی طرف سے لکھا جا چکا تھا کہ یہ لوگ اپنی کتاب کو بدل دیں ، اس میں تحریف کرلیں اور حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام ٹھہرا لیں ، صرف اپنے تشدد اور اپنی سخت گیری کی وجہ سے ، دوسرا یہ کہ یہ حرمت شرعی ہے یعنی نزول تورات سے پہلے جو بعض چیزیں ان پر حلال تھیں ، توراۃ کے اترنے کے وقت ان کی بعض بدکاریوں کی وجہ سے وہ حرام قرار دے دی گئیں جیسے فرمان ہے آیت ( كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِىْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَاۗءِيْلُ عَلٰي نَفْسِھٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىةُ ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰىةِ فَاتْلُوْھَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران:93 ) یعنی اونٹ کا گوشت اور دودھ جو حضرت اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا ، اس کے سوا تمام طعام بنی اسرائیل کے لئے حلال تھے پھر توراۃ میں ان پر بعض چیزیں حرام کی گئیں ، جیسے سورہ انعام میں فرمایا آیت ( وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ ۚ وَمَا ظَلَمْنٰهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ ) 16 ۔ النحل:118 ) یہودیوں پر ہم نے ہر ناخن دار جانور حرام کر دیا اور گائے بکری کی چربی بھی جو الگ تھلگ ہو ، ہم نے ان پر حرام قرار دے دی ، یہ اس لئے کہ یہ باغی ، طاغی ، مخالف رسول اور اختلاف کرنے والے لوگ تھے پہلے یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ ان کے ظلم و زیادتی کے سبب وہ خود اللہ کے راستہ سے الگ ہو کر اور دوسروں کو بھی بہکانے کے باعث ( جو ان کی پرانی عادت تھی ) رسولوں کے دشمن بن جاتے تھے ۔ انہیں قتل کر ڈالتے تھے ، انہیں جھٹلاتے تھے ، ان کا مقابلہ کرتے تھے اور طرح طرح کے حیلے کر کے سود خوری کرتے تھے جو محض حرام تھی اور بھی جس طرح بن پڑتا لوگوں کے مال غصب کرنے کی تاک میں لگے رہتے اور اس بات کو جانتے ہوئے کہ اللہ نے یہ کام حرام کئے ہیں جرات سے انہیں کر گذرے تھے ، اس وجہ سے ان پر بعض حلال چیزیں بھی ہم نے حرام کر دیں ، ان کفار کے لئے درد ناک عذاب تیار ہیں ۔ ان میں جو سچے دین والے اور پختہ علم والے ہیں ، اس جملے کی تفسیر سورہ آل عمران میں گذر چکی ہے اور جو با ایمان ہیں وہ تو قرآن کو اور تمام پہلی کتابوں کو مانتے ہیں ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام ، حضرت ثعلبہ بن سعید ، زید بن سعید ، حضرت اسید بن عبید رضی اللہ عنہم ہیں ، جو اسلام قبول کر چکے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو مان چکے تھے آگے کا جملہ آیت ( والمقیمین الصلوۃ ) تمام ائمہ کے قرآن میں اور ابی بن کعب کے مصحف میں اسی طرح ہے لیکن بقول علامہ ابن جریر ابن مسعود کے صحیفہ میں آیت ( والمقیمون الصلوۃ ) ہے ۔ صحیح قرأت اگلی ہے جن بعض لوگوں نے اسے کتابت کی غلطی بتایا ہے ان کا قول غلط ہے ۔ بعض تو کہتے ہیں اس کی نصبی حالت مدح کی وجہ سے ہے ، جیسے آیت ( وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ) 2 ۔ البقرۃ:177 ) میں ہے اور کلام عرب میں اور شعروں میں برابر یہ قاعدہ موجود پایا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں یہ عطف ہے اگلے جملے پر یعنی آیت ( بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ) 2 ۔ البقرۃ:4 ) پر یعنی وہ اس پر بھی ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرنے پر بھی ان کا ایمان ہے یعنی اسے واجب و برحق مانتے ہیں ، یا یہ مطلب ہے کہ اس سے مراد فرشتے ہیں یعنی ان کا قرآن پر اور الہامی کتابوں پر اور فرشتوں پر ایمان ہے ۔ امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں لیکن اس میں تامل کی ضرورت ہے واللہ اعلم ، اور زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں یعنی مال کی یا جان کی اور دونوں بھی مراد ہو سکتے ہیں واللہ اعلم اور صرف اللہ ہی کو لائق عبادت جانتے ہیں اور موت کے بعد کی زندگانی پر بھی یقین کامل رکھتے ہیں کہ ہر بھلے برے عمل کی جزا سزا اس دن ملے گی ، یہی لوگ ہیں جنہیں ہم اجر عظیم یعنی جنت دیں گے ۔
160۔ 1 یعنی ان کے ان جرائم و معاصی کی وجہ سے بطور سزا بہت سی حلال چیزیں ہم نے ان پر حرام کردی تھیں (جن کی تفصیل سورة الآنعام۔ 146 میں ہے)
[٢٠٩] گمراہ کن نظاموں کے موجد یہودی ہیں :۔ یہود کی بدکرداریوں کا سلسلہ ابھی مزید چل رہا ہے۔ اس آیت میں جو جرم بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ وہ نہ تو خود ایمان لاتے ہیں اور نہ دوسروں کو ایمان لانے دیتے ہیں بلکہ جو شخص ایمان لانے پر آمادہ ہو ان کے ذہن میں کئی طرح کے شکوک و شبہات پیدا کر کے اسے اللہ کی راہ سے باز رکھتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ صرف دور نبوی سے ہی متعلق نہیں بلکہ غالباً یہ بدبختی بھی تاقیامت انہی یہود کا مقدر ہوچکی ہے۔ موجودہ دور میں فلسفہ اشتراکیت کا موجد ایک یہودی تھا جسے یہودی دماغوں نے ہی ایک نظام کی شکل دی۔ اور اس نظریہ کی بنیاد ہی اللہ تعالیٰ کے صریح انکار پر قائم ہوتی ہے۔ آج کا دوسرا گمراہ کن فلسفہ سگمنڈ فرائڈ کا ہے جس نے فحاشی اور بےحیائی کو انتہائی فروغ بخشا ہے اور یہ فرائڈ بھی بنی اسرائیل ہی کا ایک فرد ہے۔- [٢١٠] ان کے ایسے جرائم کی ایک سزا تو انہیں یہ ملی کہ ان کے دلوں پر ایسی بدبختی مسلط ہوگئی کہ وہ حق بات کو سننے پر بھی آمادہ نہیں ہوتے اور دوسری سزا یہ ملی کہ بعض کھانے پینے کی چیزیں جو ان پر پہلے حلال تھیں وہ حرام کردی گئیں۔ (دیکھئے سورة آل عمران کی آیت نمبر ٩٣ کا حاشیہ نمبر ٨٢)
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا ” فَبِظُلْمٍ “ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے اور جار مجرور پہلے آنے کی وجہ سے تخصیص پیدا ہوگئی، اس لیے ترجمہ ” ان کے بڑے ظلم ہی کی وجہ سے “ کیا گیا ہے۔ - یہود کی سرکشی اور شرارتیں ذکر کرنے کے بعد اب ان پر سختی کا ذکر ہے۔ (کبیر) - حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ ۔۔ : پاکیزہ چیزوں کی یہ حرمت کچھ تو ان کی سرکشی کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی، کیونکہ وہ گناہ پر بہت دلیر تھے، تاکہ ان کی سرکشی کچھ ٹوٹے، یہ شرعی حرمت تھی، جیسا کہ سورة انعام (١٤٦) میں ہے اور کچھ چیزیں انھوں نے اپنے احبارو رہبان کو حلال و حرام کا اختیار دے کر ان کے حرام قرار دینے کی وجہ سے حرام کرلیں، گویا یہ اللہ کی تقدیر میں ان کے بڑے ظلم شرک ( احبارو رہبان کو رب بنانے) کی سزا کے طور پر حرام ہوئیں، جیسا کہ اب مسلمانوں میں سے بھی بعض نے اپنے اماموں کے کہنے پر کئی حلال چیزیں حرام اور کئی حرام چیزیں حلال قرار دے رکھی ہیں۔ - شاہ ولی اللہ (رض) نے ایک اور نفیس مطلب بیان کیا ہے کہ یہاں ” طیبت “ سے مراد ان انعامات کا موقوف کردینا ہے جو بادشاہی اور نبوت و نصرت کی شکل میں حاصل تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ ) [ البقرۃ : ٦١ ] ” اور ان پر ذلت اور محتاجی مسلط کردی گئی۔ “ (فتح الرحمان) حقیقت میں تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں۔
ربط آیات :- گزشتہ آیات میں یہود کی شرارتوں کا اور ان شرارتوں کی وجہ سے ان کی سزا کا ذکر تھا، ان آیات میں بھی ان کی کچھ اور قباحتوں کا بیان ہے اور سزا کی ایک اور نعمت کا بھی ذکر ہے، وہ یہ کہ قیامت میں تو انہیں عذاب ہوگا ہی، اس دنیا میں بھی ان کی گمراہی کا یہ نتیجہ ہوا کہ بہت سی پاکیزہ چیزیں جو پہلے سے حلال تھیں بطور سزا کے ان پر حرام کردی گئی ہیں۔- خلاصہ تفسیر - سو یہود کے انہی بڑے بڑے جرائم کے سبب (جن میں سے بہت سے امور سورة بقرہ میں ذکر کئے) ہم نے بہت سی پاکیزہ (یعنی حلال و نافع اور لذیذ) چیزیں جو (پہلے سے) ان کے لئے (بھی) حلال تھیں (جیسا آیت کل الطعام کان حلا لبنی اسرآئیل (٣: ٣٩) میں ہے) ان پر (شریعت موسویہ میں) حرام کردیں (جن کا بیان سورة انعام کی آیت وعلی الذین ھادوا حرمنا کل ذی ظفر الخ (٦: ٦٤١) میں ہے اور وہاں بھی یہ بتلایا گیا ہے کہ ان حلال پاک چیزوں کو ان پر حرام کرنا ان کے گناہوں اور نافرمانیوں کی بناء پر ہوا تھا ذلک جزینھم ببغیھم الخ) اور (شریعت موسویہ میں بھی وہ سب حرام ہی رہیں کوئی حلال نہ ہوئی) بسبب اس کے کہ (وہ آئندہ بھی ایسی حرکتوں سے باز نہ آئے) مثلاً یہی کہ) وہ (احکام میں تحریف کر کے یا حکم خدا وندی کو چھپا کر) بہت آدمیوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ (یعنی دین حق کے قبول کرنے) سے مانع بن جاتے تھے (کیونکہ ان کی اس کارروائی سے عوام کو خواہ مخواہ التباس ہوجاتا تھا، گو طلب صادق سے وہ التباس دور ہوجانا ممکن تھا) اور بسبب اس کے کہ وہ سود لیا کرتے تھے، حالانکہ ان کو (توریت میں) اس سے ممانعت کی گئی تھی اور بسبب اس کے کہ وہ لوگوں کے مال ناحق طریقہ (یعنی غیر مشروع ذریعہ) سے کھا جاتے تھے، (پس اس طریق حق میں رکاوٹ بننے، سود لینے اور ناجائز طریقوں سے دوسروں کا مال کھا جانے کی وجہ سے اس شریعت کی بقاء تک تخفیف نہ ہوئی، البتہ شریعت جدیدہ عیسویہ میں کچھ احکام بدلے تھے، جیسا آیت لاحل لکم بعض الذین رم علیکم (٣: ٥) سے معلوم ہوتا ہے اور شریعت محمدیہ میں بہت تخفیف ہوگئی جیسا یحل لھم الطیبت الخ (٧: ٧٥١) سے ثابت ہے، یہ تو دنیوی سزا تھی) اور (آخرت میں) ہم نے ان لوگوں کے لئے جو ان میں سے کافر ہیں درد ناک سزا کا سامان کر رکھا ہے (البتہ جو موافق قاعدہ شرعیہ کے ایمان لے آوے اس کی پچھلی جنایتیں سب معاف ہوجائیں گی۔ )- معارف ومسائل - شریعت محمدیہ میں بھی بعض چیزیں حرام ہیں، لیکن وہ کسی جسمانی یا روحانی ضرر کی وجہ سے حرام کردی گئیں، بحلاف یہود کے کہ ان پر جو طیبات حرام کردی گئی تھیں ان میں کوئی جسمانی یا روحانی ضرر نہیں تھا، بلکہ ان کی نافرمانیوں کی سزا کے طور پر حرام کردی گئی تھیں۔
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْہِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَہُمْ وَبِصَدِّہِمْ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ كَثِيْرًا ١٦٠ۙ- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - هَادَ ( یہودی)- فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا - [ البقرة 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام .- الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔- حرم - الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ...- الآية [ الأنعام 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» .- وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع - وکذلک الشهر الحرام، وقیل : رجل حَرَام و حلال، ومحلّ ومُحْرِم، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] ، أي : لم تحکم بتحریم ذلک ؟ وكلّ تحریم ليس من قبل اللہ تعالیٰ فلیس بشیء، نحو : وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] ، وقوله تعالی: بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] ، أي : ممنوعون من جهة الجدّ ، وقوله : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] ، أي : الذي لم يوسّع عليه الرزق کما وسّع علی غيره . ومن قال : أراد به الکلب فلم يعن أنّ ذلک اسم الکلب کما ظنّه بعض من ردّ عليه، وإنما ذلک منه ضرب مثال بشیء، لأنّ الکلب کثيرا ما يحرمه الناس، أي : يمنعونه . والمَحْرَمَة والمَحْرُمَة والحُرْمَة، واستحرمت الماعز کناية عن إرادتها الفحل .- ( ح ر م ) الحرام - ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ الحرم کو حرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اس کے اندر بہت سی چیزیں حرام کردی ہیں جو دوسری جگہ حرام نہیں ہیں اور یہی معنی الشہر الحرام کے ہیں یعنی وہ شخص جو حالت احرام میں ہو اس کے بالمقابل رجل حلال ومحل ہے اور آیت کریمہ : يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] کے معنی یہ ہیں کہ تم اس چیز کی تحریم کا حکم کیون لگاتے ہو جو اللہ نے حرام نہیں کی کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام نہ کی ہو وہ کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوجاتی جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] اور ( بعض ) چار پائے ایسے ہیں کہ ان کی پیٹھ پر چڑھنا حرام کردیا گیا ہے ۔ میں مذکور ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] بلکہ ہم ( برکشتہ نصیب ) بےنصیب ہیں ان کے محروم ہونے سے بد نصیبی مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] مانگنے والے اور نہ مانگنے ( دونوں ) میں محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خوشحالی اور وسعت رزق سے محروم ہو اور بعض نے کہا ہے المحروم سے کتا مراد ہے تو اس کے معنی نہیں ہیں کہ محروم کتے کو کہتے ہیں جیسا ان کی تردید کرنے والوں نے سمجھا ہے بلکہ انہوں نے کتے کو بطور مثال ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر کتے کو لوگ دور ہٹاتے ہیں اور اسے کچھ نہیں دیتے ۔ المحرمۃ والمحرمۃ کے معنی حرمت کے ہیں ۔ استحرمت الما ر عذ بکری نے نر کی خواہش کی دیہ حرمۃ سے ہے جس کے معنی بکری کی جنس خواہش کے ہیں ۔- طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- حلَال - حَلَّ الشیء حلالًا، قال اللہ تعالی: وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] ، وقال تعالی: هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] - ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ حل ( ض ) اشئی حلا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے حلال ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ ۔ هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے - صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔
(١٦٠۔ ١٦١) اور ان یہودیوں کے ظلم کرنے اور دین خداوندی سے روکنے اور سود کو حلال سمجھنے کی وجہ سے اللہ ان پر ناراض ہے حالانکہ توریت میں ان تمام امور کی صراحتا ممانعت کردی گئی تھی اور پھر مزید یہ کہ ظلم اور رشوت کے زریعے لوگوں کا مال کھانے کی وجہ سے وہ پاکیزہ چیزیں جو تمہارے لیے حلال تھیں اللہ کی طرف سے حرام کردی گئیں جیسا کہ چربیاں، اونٹ کا گوشت اور اس کا دودھ وغیرہ۔- اور ان یہودیوں کے لیے ایسا عذاب ہے کہ اس کی شدت ان کے دلوں تک سرایت کر جائے گی۔
آیت ١٦٠ (فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَہُمْ ) - اللہ تعالیٰ کی ایک سنت یہ بھی ہے کہ کوئی قوم اگر کسی معاملے میں حد سے گزرتی ہے تو سزا کے طور پر اسے حلال چیزوں سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔ یہاں پر یہی اصول بیان ہو رہا ہے۔ مثلاً اگر حضرت یعقوب ( علیہ السلام) نے اونٹ کا گوشت کھانا چھوڑ دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے تورات میں اس کی صراحت نہیں کی کہ یہ حرام نہیں ہے ‘ یہ تو محض تمہارے نبی ( علیہ السلام) کا بالکل ذاتی قسم کا فیصلہ ہے ‘ بلکہ اللہ نے کہا کہ ٹھیک ہے ‘ ان کی یہی سزا ہے کہ ان پر تنگی رہے اور اس طرح ان کے کرتوتوں کی سزا کے طور پر حلال چیزیں بھی ان پر حرام کردیں۔- (وَبِصَدِّہِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَثِیْرًا )- یہ لوگ اللہ کے راستے سے خود بھی رکتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو بھی روکتے ہیں۔ تو اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی اور ان پر بعض حلال چیزیں بھی حرام کردیں۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :198 جملہ معترضہ ختم ہونے کے بعد یہاں سے پھر وہی سلسلہ تقریر شروع ہوتا ہے جو اوپر سے چلا آرہا تھا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :199 یعنی صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے کہ خود اللہ کے راستے سے منحرف ہیں ، بلکہ اس قدر بے باک مجرم بن چکے ہیں کہ دنیا میں خدا کے بندوں کو گمراہ کرنے کے لیے جو تحریک بھی اٹھتی ہے ، اکثر اس کے پیچھے یہودی دماغ اور یہودی سرمایہ ہی کام کرتا نظر آتا ہے ، اور راہ حق کی طرف بلانے کے لیے جو تحریک بھی شروع ہوتی ہے اکثر اس کے مقابلہ میں یہودی ہی سب سے بڑھ کر مزاحم بنتے ہیں ، درآں حالے کہ یہ کم بخت کتاب اللہ کے حامل اور انبیاء کے وارث ہیں ۔ ان کا تازہ ترین جرم یہ اشتراکی تحریک ہے جسے یہودی دماغ نے اختراع کیا اور یہودی رہنمائی ہی نے پروان چڑھایا ہے ۔ ان نام نہاد اہل کتاب کے نصیب میں یہ جرم بھی مقدر تھا کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جو نظام زندگی اور نظام حکومت خدا کے صریح انکار پر ، خدا سے کھلم کھلا دشمنی پر ، خدا پرستی کو مٹا دینے کے علی الاعلان عزم و ارادہ پر تعمیر کیا گیا اس کے موجد و مخترع اور بانی و سربراہ کار موسیٰ علیہ السلام کے نام لیوا ہوں ۔ اشتراکیت کے بعد زمانہ جدید میں گمراہی کا دوسرا بڑا ستون فرائڈ کا فلسفہ ہے اور لطف یہ ہے کہ وہ بھی بنی اسرائیل ہی کا ایک فرد ہے ۔
94: اس کی تفصیل ان شاء اللہ سورۃ انعام (146:6) میں آئے گی۔