اِلَّا طَرِيْقَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭ۔۔ : یعنی جب کفر ہی کی حالت میں مرجائیں گے اور مرنے سے پہلے توبہ نہیں کریں گے تو سیدھے جہنم میں جائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے اور ان کو جہنم میں لے جانا اور پھر ہمیشہ وہاں رکھنا اللہ تعالیٰ پر کچھ مشکل نہیں ہے، لہٰذا اب بھی ان کے لیے موقع ہے کہ کفر و عناد سے باز آجائیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع اختیار کرلیں۔
اِلَّا طَرِيْقَ جَہَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا ٠ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرًا ١٦٩- جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام - ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - جہنم کے مختلف طبقات ( درکات) علی سبیل التنزل یہ ہیں۔ - (1) جہنم (2) لظیٰ (3) حطمہ (4) سعیر (5) سقر (6) جحیم (7) ہاویۃ۔ سب سے نیچے منافقوں کا یہی ٹھکانہ ہے - خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔- ابد - قال تعالی: خالِدِينَ فِيها أَبَداً [ النساء 122] . الأبد : عبارة عن مدّة الزمان الممتد الذي لا يتجزأ كما يتجرأ الزمان، وذلک أنه يقال : زمان کذا، ولا يقال : أبد کذا .- وكان حقه ألا يثنی ولا يجمع إذ لا يتصور حصول أبدٍ آخر يضم إليه فيثنّى به، لکن قيل :- آباد، وذلک علی حسب تخصیصه في بعض ما يتناوله، کتخصیص اسم الجنس في بعضه، ثم يثنّى ويجمع، علی أنه ذکر بعض الناس أنّ آباداً مولّد ولیس من کلام العرب العرباء .- وقیل : أبد آبد وأبيد أي : دائم «2» ، وذلک علی التأكيد .- وتأبّد الشیء : بقي أبداً ، ويعبّر به عما يبقی مدة طویلة . والآبدة : البقرة الوحشية، والأوابد :- الوحشیات، وتأبّد البعیر : توحّش، فصار کالأوابد، وتأبّد وجه فلان : توحّش، وأبد کذلک، وقد فسّر بغضب .- اب د ( الابد)- :۔ ایسے زمانہ دراز کے پھیلاؤ کو کہتے ہیں ۔ جس کے لفظ زمان کی طرح ٹکڑے نہ کئے جاسکیں ۔ یعنی جس طرح زمان کذا ( فلا زمانہ ) کہا جا سکتا ہے ابدکذا نہیں بولتے ، اس لحاظ سے اس کا تنبیہ اور جمع نہیں بننا چا ہیئے ۔ اس لئے کہ ابد تو ایک ہی مسلسل جاری رہنے والی مدت کا نام ہے جس کے متوازی اس کی جیسی کسی مدت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ کہ اسے ملاکر اس کا تثنیہ بنا یا جائے قرآن میں ہے خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا [ النساء : 57] وہ ابدالاباد ان میں رہیں گے ۔ لیکن بعض اوقات اسے ایک خاص مدت کے معنی میں لے کر آباد اس کی جمع بنا لیتے ہیں جیسا کہ اسم جنس کو بعض افراد کے لئے مختص کر کے اس کا تثنیہ اور جمع بنا لیتا جاتا ہے بعض علمائے لغت کا خیال ہے کہ اباد جمع مولّدہے ۔ خالص عرب کے کلام میں اس کا نشان نہیں ملتا اور ابدابد وابدابید ( ہمیشہ ) ہمیشہ کے لئے ) میں دوسرا لفظ محض تاکید کے لئے لایا جاتا ہے تابدالشئی کے اصل معنی تو کسی چیز کے ہمیشہ رہنے کے ہیں مگر کبھی عرصہ درازتک باقی رہنا مراد ہوتا ہے ۔ الابدۃ وحشی گائے ۔ والجمع اوابد وحشی جانور) وتأبّد البعیر) اونٹ بدک کر وحشی جانور کی طرح بھاگ گیا ۔ تأبّد وجه فلان وأبد ( اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے ) بعض کے نزدیک اس کے معنی غضب ناک ہونا بھی آتے ہیں ۔- يسر - اليُسْرُ : ضدّ العسر . قال تعالی: يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق 7] ، وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف 88] ، فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات 3] - ( ی س ر ) الیسر کے معنی آسانی ار سہولت کے ہیں یہ عسر کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے ۔ اور سختی نہیں چاہتا ۔ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق 7] خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا ۔ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف 88] بلکہ اس سے نرم بات کہیں گے ۔ فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات 3] پھر نر می سے چلتی ہیں ۔
آیت ١٦٩ (اِلاَّ طَرِیْقَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًاط وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا ) - اب ذرا اس آیت کا تقابل کیجیے آیت ١٤٧ کے ساتھ (مَا یَفْعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمْ ۔۔ ) اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا۔۔ ؟ یقیناً اللہ ایذا پسند ( ) نہیں ہے ‘ اسے لوگوں کو عذاب دے کر خوشی نہیں ہوگی۔ لیکن یہ اس کا ضابطہ اور قانون ہے ‘ اسی پر اس نے دنیا بنائی ہے ‘ اور اپنے اسی ضابطے اور قانون کے عین مطابق وہ مستحقین کو جزا و سزا دے گا۔ یہ اس پر کوئی بھاری گزرنے والی بات نہیں ہے کہ وہ اپنی ہی مخلوق کو سزا دے۔ بعض ملنگ قسم کے صوفی اس طرح کی باتیں بھی کرتے ہیں کہ اللہ بڑا رحیم ہے ‘ کیا وہ اپنی ہی مخلوق کو جہنم میں جھونک دے گا ؟ یہ تو ایسے ہی ڈراوے کے لیے ‘ لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے عذاب اور سزا کی باتیں کی گئی ہیں۔ جیسے باپ بچوں کو ڈانٹتا ہے میں تیری ہڈیاں توڑ دوں گا ‘ ماں کہتی ہے میں تیرا قیمہ کر دوں گی۔ تو کیا وہ سچ مچ اپنے بچوں کا قیمہ کر دے گی ؟ لہٰذا یہ تو صرف ڈراوا ہے ‘ حقیقت میں ایسا نہیں ہوگا ‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے خیالات و نظریات گمراہ کن ہیں۔ ماں کے لیے تو اپنے بچے کو بڑے سے بڑے قصور پر بھی آگ میں ڈالنا ممکن نہیں ہے ‘ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا 4) اللہ کے لیے یہ بہت آسان ہے ‘ بہت ہلکی بات ہے۔