Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اپنی اوقات میں رہو حد سے تجاوز نہ کرو اہل کتاب کو زیادتی سے اور حد سے آگے بڑھ جانے سے اللہ تعالیٰ روک رہا ہے ۔ عیسائی حضرت عیسیٰ کے بارے میں حد سے نکل گئے تھے اور نبوت سے بڑھا کر الوہیت تک پہنچا رہے تھے ۔ بجائے ان کی اطاعت کے عبادت کرنے لگے تھے ، بلکہ اور بزرگان دین کی نسبت بھی ان کا عقیدہ خراب ہو چکا تھا ، وہ انہیں بھی جو عیسائی دین کے عالم اور عامل تھے معصوم محض جاننے لگ گئے تھے اور یہ خیال کر لیا تھا کہ جو کچھ یہ ائمہ دین کہہ دیں اس کا ماننا ہمارے لئے ضروری ہے ، سچ و جھوٹ ، حق و باطل ، ہدایت و ضلالت کے پرکھنے کا کوئی حق ہمیں حاصل نہیں ۔ جس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں ہے آیت ( اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ) 9 ۔ التوبہ:31 ) مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تم ایسا نہ بڑھانا جیسا نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم کو بڑھایا ، میں تو صرف ایک بندہ ہوں پس تم مجھے عبداللہ اور رسول اللہ کہنا ۔ یہ حدیث بخاری وغیرہ میں بھی ہے اسی کی سند ایک حدیث میں ہے کہ کسی شخص نے آپ سے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اے ہمارے سردار اور سردار کے لڑکے ، اے ہم سب سے بہتر اور بہتر کے لڑکے تو آپ نے فرمایا لوگو اپنی بات کا خود خیال کر لیا کرو تمہیں شیطان بہکا نہ دے ، میں محمد بن عبداللہ ہوں ، میں اللہ کا غلام اور اس کا رسول ہوں ، قسم اللہ کی میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے میرے مرتبے سے بڑھا دو پھر فرماتا ہے اللہ پر افتراء نہ باندھو ، اس سے بیوی اور اولاد کو منسوب نہ کرو ، اللہ اس سے پاک ہے ، اس سے دور ہے ، اس سے بلند و بالا ہے ، اس کی بڑائی اور عزت میں کوئی اس کا شریک نہیں ، اس کے سوا نہ تو کوئی معبود اور نہ رب ہے ۔ مسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ ہیں ، وہ اللہ کے غلاموں میں سے ایک غلام ہیں اور اس کی مخلوق ہیں ، وہ صرف کلمہ کن کے کہنے سے پیدا ہوئے ہیں ، جس کلمہ کو لے کر حضرت جبرائیل حضرت مریم صدیقہ کے پاس گئے اور اللہ کی اجازت سے اسے ان میں پھونک دیا پس حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے ۔ چونکہ محض اسی کلمہ سے بغیر باپ کے آپ پیدا ہوئے ، اس لئے خصوصیت سے کلمتہ اللہ کہا گیا ۔ قرآن کی ایک اور آیت میں ہے آیت ( مَا الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ) 5 ۔ المائدہ:75 ) یعنی مسیح بن مریم صرف رسول اللہ ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گذر چکے ہیں ، ان کی والدہ سچی ہیں ، یہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے اور آیت میں ہے آیت ( اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ) 3 ۔ آل عمران:59 ) عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے جسے مٹی سے بنا کر فرمایا ہو جا پس وہ ہو گیا ۔ قرآن کریم اور جگہ فرماتا ہے آیت ( وَالَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَجَعَلْنٰهَا وَابْنَهَآ اٰيَةً لِّـلْعٰلَمِيْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:91 ) جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی اور ہم نے اپنی روح پھونکی اور خود اسے اور اس کے بچے کو لوگوں کے لئے اپنی قدرت کی علامت بنایا اور جگہ فرمایا آیت ( وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهٖ وَكَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ ) 66 ۔ التحریم:12 ) سے آخر سورت تک ۔ حضرت عیسیٰ کی بابت ایک اور آیت میں ہے آیت ( اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ) 43 ۔ الزخرف:59 ) ، وہ ہمارا ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا ۔ پس یہ مطلب نہیں کہ خود کلمتہ الٰہی عیسیٰ بن گیا بلکہ کلمہ الٰہی سے حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے ۔ امام ابن جریر نے آیت ( اِذْ قَالَتِ الْمَلٰۗىِٕكَةُ يٰمَرْيَمُ اِنَّ اللّٰهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ ) 3 ۔ آل عمران:45 ) کی تفسیر میں جو کچھ کہا ہے اس سے یہ مراد ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ جو حضرت جبرائیل کی معرفت پھونکا گیا ، اس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ صحیح بخاری میں ہے جس نے بھی اللہ کے ایک اور لا شریک ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عبد و رسول ہونے کی عیسیٰ کے عبد و رسول ہونے اور یہ کہ آپ اللہ کے کلمہ سے تھے جو مریم کی طرف پھونکا گیا تھا اور الہ کی پھونکی ہوئی روح تھے اور جس نے جنت دوزخ کو برحق مانا وہ خواہ کیسے ہی اعمال پر ہو ، اللہ پر حق ہے کہ اسے جنت میں لے جائے ۔ ایک روایت میں اتنی زیادہ بھی ہے کہ جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے چاہے داخل ہو جائے جیسے کہ جناب عیسیٰ کو آیت وحدیث میں ( روح منہ ) کہا ہے ایسے ہی قرآن کی ایک آیت میں ہے آیت ( وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْهُ ) 45 ۔ الجاثیہ:13 ) اس نے مسخر کیا تمہارے لئے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے ، تمام کا تمام اپنی طرف ہے ۔ یعنی اپنی مخلوق اور اپنے پاس کی روح سے ۔ پس لفظ من تبعیض ( اس کا حصہ ) کے لئے نہیں جیسے ملعون نصرانیوں کا خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ اللہ کا ایک جزو تھے بلکہ من ابتداء کے لئے ہے ۔ جیسے کہ دوسری آیت میں ہے ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں روح منہ سے مراد رسول منہ ہے اور لوگ کہتے ہیں آیت ( محبتہ منہ ) لیکن زیادہ قوی پہلا قول ہے یعنی آپ پیدا کئے گئے ہیں ، روح سے جو خود اللہ کی مخلوق ہے ۔ پس آپ کو روح اللہ کہنا ایسا ہی ہے جیسے ( ناقتہ اللہ ) اور بت اللہ کہا گیا ہے یعنی صرف اس کی عظمت کے اظہار کے لئے اپنی طرف نسبت کی اور حدیث میں بھی ہے کہ میں اپنے رب کے پاس اس کے گھر میں جاؤں گا ۔ پھر فرماتا ہے تم اس کا یقین کر لو کہ اللہ واحد ہے بیوی بچوں سے پاک ہے اور یقین مان لو کہ جناب عیسیٰ اللہ کا کلام اللہ کی مخلوق اور اس کے برگزیدہ رسول ہیں ۔ تم تین نہ کہو یعنی عیسیٰ اور مریم کو اللہ کا شریک نہ بناؤ اللہ کی الوہیت شرکت سے مبرا ہے ۔ سورہ مائدہ میں فرمایا آیت ( لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ ) 5 ۔ المائدہ:73 ) یعنی جو کہتے ہیں کہتے ہیں کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے وہ کافر ہو گئے ، اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے ، اس کے سوا کوئی اور لائق عبادت نہیں ۔ سورہ مائدہ کے آخر میں ہے کہ قیامت کے دن حضرت عیسیٰ سے سوال ہو گا کہ اپنی اور اپنی والدہ کی عبادت کا حکم لوگوں کو تم نے دیا تھا ، آپ صاف طور پر انکار کر دیں گے ۔ نصرانیوں کا اس بارے میں کوئی اصول ہی نہیں ہے ، وہ بری طرح بھٹک رہے ہیں اور اپنے آپ کو برباد کر رہے ہیں ۔ ان میں سے بعض تو حضرت عیسیٰ کو خود اللہ مانتے ہیں ، بعض شریک الہیہ مانتے اور بعض اللہ کا بیٹا کہتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر دس نصرانی جمع ہوں تو ان کے خیالات گیارہ ہوں گے ۔ سعید بن بطریق اسکندری جو سن 400 ھ کے قریب گذرا ہے اس نے اور بعض ان کے اور بڑے علماء نے ذکر کیا ہے کہ قسطنطین بانی قسطنطنیہ کے زمانے میں اس وقت کے نصرانیوں کا اس بادشاہ کے حکم سے اجتماع ہوا ، جس میں دو ہزار سے زیادہ ان کے مذہبی پیشوا شامل ہوتے تھے ، باہم ان کے اختلاف کا یہ حال تھا کہ کسی بات پر ستر اسی آدمیوں کا اتفاق مفقود تھا ، دس کا ایک عقیدہ ہے ، بیس کا ایک خیال ہے ، چالیس اور ہی کچھ کہتے ہیں ، ساٹھ اور طرف جا رہے ہیں ، غرض ہزار ہا کی تعداد میں سے بہ مشکل تمام تین سو اٹھارہ آدمی ایک قول پر جمع ہوئے ، بادشاہ نے اسی عقیدہ کو لے لیا ، باقی کو چھوڑ دیا اور اسی کی تائید و نصرت کی اور ان کے لئے کلیساء اور گرجے بنا دئے اور کتابیں لکھوا دیں ، قوانین ضبط کر دئے ، یہیں انہوں نے امانت کبریٰ کا مسئلہ گھڑا ، جو دراصل بدترین خیانت ہے ، ان لوگوں کو ملکانیہ کہتے ہیں ۔ پھر دوبارہ ان کا اجتماع ہوا ، اس وقت جو فرقہ بنا اس کا نام یعقوبیہ ہے ۔ پھر تیسری مرتبہ کے اجتماع میں جو فرقہ بنا اس کا نام نسطوریہ ہے ، یہ تینوں فرقے اقانیم ثلثہ کو حضرت عیسیٰ کے لئے ثابت کرتے ہیں ، ان میں بھی باہم دیگر اختلاف ہے اور ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں اور ہمارے نزدیک تو تینوں کافر ہیں ۔ اللہ فرماتا ہے اس شرک سے باز آؤ ، باز رہنا ہی تمہارے لئے اچھا ہے ، اللہ تو ایک ہی ہے ، وہ توحید والا ہے ، اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہو ۔ تمام چیزیں اس کی مخلوق ہیں اور اس کی ملکیت میں ہیں ، سب اس کی غلامی میں ہیں اور سب اس کے قبضے میں ہیں ، وہ ہر چیز پر وکیل ہے ، پھر مخلوق میں سے کوئی اس کی بیوی اور کوئی اس کا بچہ کیسے ہو سکتا ہے؟ دوسری آیت میں ہے آیت ( بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ ) 6 ۔ الانعام:101 ) یعنی وہ تو آسمان و زمین کی ابتدائی آفرنیش کرنے والا ہے ، اس کا لڑکا کیسے ہو سکتا ہے؟ سورہ مریم میں آیت ( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا 88؀ۭ لَقَدْ جِئْتُمْ شَـيْــــــًٔـا اِدًّا 89؀ۙ تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَــتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا 90۝ۙ اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا 91۝ۚ وَمَا يَنْۢبَغِيْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ يَّـتَّخِذَ وَلَدًا 92۝ۭ اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا 93؀ۭ لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا 94؀ۭ وَكُلُّهُمْ اٰتِيْهِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَرْدًا 95؁ ) 19 ۔ مریم:88 تا 95 ) تک بھی اس کا مفصلاً انکار فرمایا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

171۔ 2 غلو کا مطلب ہے کسی چیز کو اس کی حد سے بڑھا دینا۔ جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا کہ انہیں رسالت و بندگی کے مقام سے اٹھا کر الوہیت کے مقام پر فائز کردیا اور ان کی اللہ کی طرح عبادت کرنے لگے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکاروں کو بھی غلو کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم بنا ڈالا اور ان کو حرام وحلال کے اختیار و سے نواز دیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے " اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ " 009:031 (انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا) یہ رب بنانا حدیث کے مطابق ان کے حلال کیے کو حلال اور حرام کیے کو حرام سمجھنا تھا۔ درآنحالیکہ یہ اختیار صرف اللہ کو حاصل ہے لیکن اہل کتاب نے یہ حق بھی اپنے علماء وغیرہ کو دے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہل کتاب کو دین میں اسی غلو سے منع فرمایا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی عیسائیوں کے اس غلو کے پیش نظر اپنے بارے میں اپنی امت کو متنبہ فرمایا۔ (لاتطرونی کما اطرت النصاری عیسیٰ ابن مریم فانما انا عبدہ، فقولوا : عبد اللہ و رسولہ " (صحیح بخاری۔ کتاب الانبیاء مسند احمد جلد 1 صفحہ 23 نیز دیکھئے مسند احمد جلد 1 صفحہ 153) تم مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھانا جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بڑھایا، میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، پس تم مجھے اس کا بندہ اور رسول ہی کہنا۔ لیکن افسوس امت محمدیہ اس کے باوجود بھی اس غلو سے محفوظ نہ رہ سکی جس میں عیسائی مبتلا ہوئے اور امت محمدیہ نے بھی اپنے پیغمبر کو بلکہ نیک بندوں تک کو خدائی صفات سے متصف ٹھرا دیا جو دراصل عیسائیوں کا وطیرہ تھا۔ اسی طرح علماء وفقہا کو بھی دین کا شارح اور مفسر ماننے کے بجائے ان کو شارع (شریعت سازی کا اختیار رکھنے والے) بنادیا ہے۔ سچ فرمایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے " جس طرح ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے، بالکل اسی طرح تم پچھلی امتوں کی پیروی کرو گے " یعنی ان کے قدم بہ قدم چلو گے۔ 171۔ 1 کلمۃ اللہ کا مطلب ہے کہ لفظ کن سے باپ کے بغیر ان کی تخلیق ہوئی اور یہ لفظ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعے سے حضرت مریم (علیہ السلام) تک پہنچایا گیا۔ روح اللہ کا مطلب وہ (پھونک) ہے جو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے حضرت مریم (علیہا السلام) کے گریبان میں پھونکا، جسے اللہ تعالیٰ نے باپ کے نطفہ کے قائم مقام کردیا۔ یوں عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا کلمہ بھی ہیں جو فرشتے نے حضرت مریم (علیہا السلام) کی طرف ڈالا اور اس کی وہ روح ہیں جسے لے کر جبرائیل (علیہ السلام) مریم (علیہا السلام) کی طرف بھیجے گئے۔ (تفسیر ابن کثیر) 171۔ 2 عیسائیوں کے کئی فرقے ہیں۔ بعض حضرت عیسیٰ کو اللہ اور بعض اللہ کا شریک اور بعض اللہ کا بیٹا مانتے ہیں۔ پھر جو اللہ مانتے ہیں وہ (تین خداؤں) کے اور حضرت عیسیٰ کے ثالث ثلاثہ (تین سے ایک) ہونے کے قائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ تین خدا کہنے سے باز آجاؤ اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٢٤] غلو کیا ہے :۔ غلو کا معنیٰ ایسا مبالغہ ہے جو غیر معقول ہو۔ خواہ یہ مبالغہ افراط کی جانب ہو یا تفریط کی جانب۔ جیسے عیسیٰ کے متعلق نصاریٰ کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ کے بیٹے تھے اور اس کے بالکل برعکس یہود کا یہ عقیدہ کہ وہ نبی نہ تھے بلکہ یہود (معاذ اللہ) انہیں ولد الحرام سمجھتے تھے۔ اسی بنا پر انہوں نے آپ کو سولی پر چڑھانے میں اپنی کوششیں صرف کردیں۔ گویا ایک ہی رسول کے بارے میں غلو کی بنا پر اہل کتاب کے دونوں بڑے فرقے گمراہ ہوگئے۔ امت محمدیہ میں غلو کی مثالوں کے لیے سورة فرقان کا حاشیہ نمبر ٣ ملاحظہ کیجئے۔- [٢٢٥] الوہیت مسیح کا عقیدہ :۔ یہ خطاب نصاریٰ کو ہے جنہوں نے سیدنا عیسیٰ کو کبھی خدا کا یٹا قرار دیا اور کبھی تین خداؤں میں سے تیسرا خدا قرار دیا حالانکہ انجیل میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی معجزانہ پیدائش کے متعلق وہی الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو قرآن میں استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی عیسیٰ اللہ کا کلمہ تھے اور اس کی طرف سے روح تھے۔ پھر جب عیسائیت پر فلسفیانہ اور راہبانہ خیالات و نظریات غالب آنے لگے تو لفظ کلمہ کو جو فرمان الٰہی یا لفظ کن کا ہم معنی تھا، کلام کا ہم معنی قرار دے کر اسے اللہ تعالیٰ کی ازلی صفات میں سے سمجھا گیا۔ اور یہ سمجھا گیا کہ اللہ کی یہ ازلی صفت ہی سیدنا مریم کے بطن میں متشکل ہو کر عیسیٰ کی صورت میں نمودار ہوئی۔ اور اس کی طرف سے روح کا معنی یہ سمجھا گیا کہ اللہ کی روح ہی عیسیٰ کے جسم میں حلول کرگئی تھی اس طرح عیسیٰ کو اللہ کا ہی مظہر قرار دے دیا گیا اور ان غلط عقائد کو پذیرائی اس لیے حاصل ہوئی کہ عیسیٰ کو جو جو معجزات دیئے گئے تھے ان سے ان کے عقائد کی تائید ہوجاتی تھی۔ حالانکہ بیشمار ایسی باتیں بھی موجود تھیں جن سے ان کے عقائد کی پرزور تردید ہوتی تھی۔ مثلاً انجیل میں صرف ایک اللہ کے الٰہ ہونے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ نیز سیدنا عیسیٰ اور ان کی والدہ دونوں مخلوق اور حادث تھے۔ وہ دونوں کھانا کھاتے تھے اور انہیں وہ تمام بشری عوارضات لاحق ہوتے تھے جو سب انسانوں کو لاحق ہوتے ہیں۔ پھر عیسیٰ اپنی ذات کو سولی پر چڑھنے اور ایسی ذلت کی موت سے بچا نہ سکے تو وہ خدا کیسے ہوسکتے تھے۔ پھر سیدنا عیسیٰ اور ان کی والدہ دونوں خود بھی ایک اللہ کی عبادت کرتے رہے اور دوسروں کو بھی یہی تعلیم دیتے رہے یہ سب باتیں ان کی خدائی کی پرزور تردید کرتی ہیں۔- [٢٢٦] عقیدہ تثلیث کی پیچیدگی :۔ عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث ایسا گورکھ دھندا ہے جس کو وہ خود بھی دوسرے کو سمجھا نہیں سکتے اور وہ عقیدہ یہ ہے کہ خدا، عیسیٰ اور روح القدس تینوں خدا ہیں اور یہ تینوں خدا مل کر بھی ایک ہی خدا بنتے ہیں یعنی وہ توحید کو تثلیث میں اور تثلیث کو توحید میں یوں گڈ مڈ کرتے ہیں کہ انسان سر پیٹ کے رہ جائے اور پھر بھی اسے کچھ اطمینان حاصل نہ ہو۔ مثلاً وہ اس کی مثال یہ دیتے ہیں کہ ایک پیسہ میں تین پائیاں ہوتی ہیں اور یہ تینوں مل کر ایک پیسہ بنتی ہیں۔ اس پر یہ اعتراض ہوا کہ جب سیدہ مریم اور عیسیٰ پیدا ہی نہ ہوئے تھے تو کیا خدا نامکمل تھا اور اگر نامکمل تھا تو یہ کائنات وجود میں کیسے آگئی۔ اور اس پر فرماں روائی کس کی تھی ؟ غرض اس عقیدہ کی اس قدر تاویلیں پیش کی گئیں جن کی بنا پر عیسائی بیسیوں فرقوں میں بٹ گئے۔ پھر بھی ان کا یہ عقیدہ لاینحل ہی رہا اور لاینحل ہی رہے گا۔- [٢٢٧] صفات الٰہی میں موشگافیاں :۔ یعنی تین خدا کہنے سے باز آجاؤ یا صفات الہی میں فلسفیانہ اور راہبانہ موشگافیاں کرنے سے باز آجاؤ کیونکہ جس نے بھی صفات الہی میں کرید شروع کی ہے وہ گمراہ ہی ہوا ہے۔ واضح رہے کہ صفات الٰہی سے متعلقہ آیات متشابہات سے تعلق رکھتی ہیں جن کے متعلق یہ حکم ہے کہ ان کے پیچھے نہ پڑنا چاہیے۔ کیونکہ ان پر نہ اوامرو نواہی کا دار و مدار ہوتا ہے اور نہ حلت و حرمت کا، نہ ہی انسانی ہدایت سے ان کا کچھ تعلق ہوتا ہے۔ لہذا انہیں جوں کا توں ہی تسلیم کرلینا چاہیے کہ یہ بھی اللہ ہی کی طرف سے نازل شدہ ہیں۔ نیز ایسی آیات کے پیچھے وہی لوگ پڑتے ہیں جن کے دلوں میں ٹیڑھ ہوتی ہے۔ لہذا اے گروہ نصاریٰ تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ وحی الٰہی کو جوں کا توں مان لو اور ان کی موشگافیوں سے باز آجاؤ اور وحی الٰہی یہی ہے کہ صرف اللہ اکیلا ہی الٰہ ہے، اسے کسی بیٹی بیٹے کی کوئی ضرورت نہیں اور وہ ایسی باتوں سے پاک و صاف ہے۔- [٢٢٨] یعنی اللہ ہر چیز کا مالک ہے اور ہر چیز اس کی مملوک ہے اور اولاد مملوک نہیں ہوتی بلکہ ہمسر ہوتی ہے۔ لہذا ان دونوں باتوں میں سے ایک ہی بات صحیح ہوسکتی ہے۔ اگر وہ مملوک ہے تو بیٹا نہیں اور اگر بیٹا ہے تو مملوک نہیں۔ علاوہ ازیں جب عیسیٰ کی پیدائش سے پہلے بھی اللہ اکیلا ہی کائنات کا پورا نظام چلا رہا تھا تو پھر اسے بیٹا بنانے کی ضرورت کیا پیش آئی، لہذا کچھ تو عقل سے کام لو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ ۔۔ : رازی لکھتے ہیں، یہود کے شبہات کا جواب دینے کے بعد اب اس آیت میں نصاریٰ کے شبہ کی تردید کی جا رہی ہے۔ (کذا فی فتح الرحمن) مگر بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ خطاب یہود و نصاریٰ دونوں سے ہے، اس لیے کہ ” غلو “ راہ اعتدال کے چھوڑ دینے کا نام ہے اور یہ افراط و تفریط (زیادتی اور کمی) دونوں صورتوں میں ہے۔ ایک طرف نصاریٰ نے مسیح (علیہ السلام) کے بارے میں افراط سے کام لے کر ان کو اللہ کا بیٹا قرار دے رکھا تھا، تو دوسری طرف یہود نے مسیح (علیہ السلام) سے متعلق یہاں تک تفریط برتی کہ ان کی رسالت کا بھی انکار کردیا، قرآن نے بتایا کہ یہ دونوں فریق غلو کر رہے ہیں۔ اعتدال کی راہ یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نہ تو اللہ کے بیٹے ہیں کہ ان کو معبود بنا لیا جائے اور نہ جھوٹے نبی ہیں، بلکہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ (قرطبی) آج کل اسی قسم کا غلو مسلمانوں میں بھی آگیا ہے اور ایسے لوگ موجود ہیں جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اولیائے امت کا درجہ اس قدر بڑھا دیتے ہیں کہ انھیں خدا کی خدائی میں شریک قرار دیتے ہیں اور پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشر سمجھنا انتہائی درجے کی گستاخی شمار کرتے ہیں، حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس غلو سے سختی سے منع فرمایا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ تُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارٰی ابْنَ مَرْیَمَ ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُہُ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ ) [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : ( واذکر فی الکتاب مریم ۔۔ ) : ٣٤٤٥ ] ” مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھاؤ جس طرح نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کو بڑھایا۔ میں تو اس کا بندہ ہوں، لہٰذا تم مجھے صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہا کرو۔ “ - وَكَلِمَتُهٗ ۚ اَلْقٰىهَآ اِلٰي مَرْيَمَ : یعنی انھیں کلمۂ ” کُنْ “ سے بنایا اور اس طرح ان کی پیدائش بن باپ کے ہوئی، یہ معنی نہیں کہ وہ کلمہ ہی عیسیٰ (علیہ السلام) بن گیا، ورنہ آدم (علیہ السلام) تو ماں باپ دونوں کے بغیر کلمۂ ” کُنْ “ سے پیدا ہوئے تھے۔ پھر انھیں بھی رب ماننا پڑے گا، دیکھیے سورة آل عمران (٥٩) ۔- وَرُوْحٌ مِّنْهُ ۡ : یعنی اس کی پیدا کردہ روح، اس اضافت سے عیسیٰ (علیہ السلام) کی عظمت کا اظہار مقصود ہے، ورنہ تمام روحیں اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کردہ ہیں، فرمایا : (هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللّٰهِ ) [ فاطر : ٣ ] ” کیا اللہ کے سوا بھی کوئی پیدا کرنے والا ہے ؟ “ جیسے فرمایا : ” ناقۃ اللہ “ ” اللہ کی اونٹنی “ اور ” بَیْتِیَ “ ” میرے گھر کو “ حالانکہ تمام اونٹنیوں اور تمام گھروں کا مالک اللہ ہے۔ یہ ” مِنْ “ تبعیضیہ نہیں ہے بلکہ ابتدائے غایت کے لیے ہے۔ (ابن کثیر) - فَاٰمِنُوْا باللّٰهِ وَرُسُلِهٖ : یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اللہ کے رسول ہیں، پس تم دوسرے پیغمبروں کی طرح ان کو اللہ کا رسول ہی مانو اور انھیں الوہیت (خدائی) کا مقام مت دو ۔ (کبیر)- وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ ” ثَلٰثَةٌ“ مبتدا محذوف کی خبر ہے، یعنی ” اٰلِہَتُنَا ثَلاَثَۃٌ“ یا ” اَلْاَقَانِیْمُ ثَلاَثَۃٌ“ کہ ہمارے معبود تین ہیں، یا اقانیم تین ہیں۔ مبتدا اس لیے حذف کیا ہے کہ نصرانیوں کے اقوال بہت ہی مختلف ہیں، اگرچہ خلاصہ ان کا ایک ہے کہ خدا تین ہیں مگر وہ تین نہیں ایک ہیں۔ اب ایک ذات اور اس کی بیشمار صفات تو ہوسکتی ہیں، مگر اللہ تعالیٰ ، مریم اور عیسیٰ (علیہ السلام) یہ تو تین مستقل شخصیتیں اور ذاتیں ہیں، یہ ایک ذات کیسے ہوگئے نصرانی بیک وقت خدا کو ایک بھی تسلیم کرتے ہیں اور پھر اقانیم ثلاثہ کے بھی قائل ہیں۔ یہ اقانیم ثلاثہ کا چکر بھی نہایت پر پیچ اور ناقابل فہم ہے۔ (کبیر) جس طرح بعض مسلمانوں میں ” نُوْرٌ مِّنْ نُوْرِ اللّٰہِ “ کا عقیدہ نہایت گمراہ کن ہے، جو واضح طور پر سورة اخلاص اور پورے قرآن کے خلاف ہے۔ نصرانی کبھی تو ان تین سے مراد وجود، علم اور حیات بتاتے ہیں اور کبھی انھیں باپ، بیٹا اور روح القدس سے تعبیر کرلیتے ہیں، حالانکہ وجود، علم اور حیات تو ایک ذات کی صفات ہوتی ہیں مگر باپ، بیٹا اور روح القدس تو تین شخصیتیں ہیں، یہ ایک کیسے بن گئے ؟ پھر ان کی کور فہمی دیکھو کہ کبھی کہتے ہیں کہ باپ سے وجود، روح سے حیات اور بیٹے سے مراد مسیح (علیہ السلام) ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اقانیم ثلاثہ سے مراد اللہ تعالیٰ ، مریم اور عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ قرآن نے بھی اس آخری قول کا ذکر کیا ہے۔ دیکھیے سورة مائدہ (٧٣، ٧٥، ٧٦، ١١٦) الغرض نصرانیوں کے عقیدۂ تثلیث سے زیادہ بعید از عقل کوئی عقیدہ نہیں اور اس بارے میں ان میں اس قدر انتشار و افتراق ہے کہ دنیا کے کسی عقیدہ میں نہیں، اس لیے قرآن نے انھیں دعوت دی کہ تم تین خداؤں کے گورکھ دھندے کو چھوڑ کر خالص توحید کا عقیدہ اختیار کرلو۔ - اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۭ: یعنی نہ کوئی اس کا شریک ہے، نہ بیوی اور نہ کوئی رشتے دار، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ کسی نے اس کو جنا۔ - لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ : اور جسے تم نے اس کا شریک ٹھہرایا ہے وہ بھی دوسرے انسانوں کی طرح اس کا مملوک اور مخلوق ہے اور جو شخص مملوک یا مخلوق ہو وہ خالق یا مالک کا بیٹا یا شریک کیسے ہوسکتا ہے ؟ - وَكَفٰي باللّٰهِ وَكِيْلًا : یعنی اس کو بیٹے کی کیا ضرورت ہے، وکیل یعنی سارے کام بنانے والا تو وہ خود ہی ہے۔ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات :- ماقبل کی آیات میں یہود کو خطاب تھا اور انہی کی گمراہیوں کی تفصیل ذکر کی گئی اس آیت میں نصاری کو خطاب ہے اور ان کی بد اعتقادی اور خدا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق ان کے باطل خیالات کی تردید کی گئی ہے۔- خلاصہ تفسیر - اے اہل کتاب (یعنی انجیل والو) تم اپنے دین (کے بارہ) میں (عقیدہ حقہ کی) حد سے مت نکلو اور اللہ تعالیٰ کی شان میں غلط بات مت کہو (کہ نعوذ باللہ وہ صاحب اولاد ہے، جیسا بعض کہتے تھے المسیح ابن اللہ یا وہ مجموعہ آلہہ کا ایک جزو ہے جیسا بعض کہتے تھے ان اللہ ثالث ثلثة اور بقیہ دو جز ایک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کہتے تھے اور ایک حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کو جیسا آیت آئندہ میں ولا الملکة المقربون کے بڑھانے سے معلوم ہوتا ہے اور بعضے حضرت مریم (علیہا السلام) کو جیسا اتخذونی وامی سے معلوم ہوتا ہے یا وہ عین مسیح ہے جیسا بعض کہتے تھے ان اللہ ھو المسیح ابن مریم، غرض یہ سب عقیدے باطل ہیں) مسیح عیسیٰ بن مریم تو اور کچھ بھی نہیں البتہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ایک کلمہ (پیدائش) ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے (حضرت) مریم تک (حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے واسطہ سے) پہنچایا تھا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک جان (دارچیز) ہیں (کہ اس جان کو حضرت مریم کے جسم میں بواسطہ نفخ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے پہنچا دیا تھا باقی نہ وہ ابن اللہ ہیں نہ تین میں کے ایک ہیں، جیسا عقائد مذکورہ میں لازم آتا ہے) سو (جب یہ سب باتیں غلط ہیں تو سب سے توبہ کرو اور) اللہ پر اور اس کے سب رسولوں پر (ان کی تعلیم کے مطابق ایمان لاؤ (اور وہ موقوف ہے توحید پر، پس توحید کا عقیدہ رکھو) اور یوں مت کہو کہ (خدا) تین ہیں (مقصود منع کرنا ہے شرک سے اور وہ سب اقوال مذکورہ میں مشترک ہے، اس شرک سے) باز آجاؤ تمہارے لئے بہتر ہوگا (اور توحید کے قائل ہوجاؤ کیونکہ) معبود حقیقی تو ایک ہی معبود ہے (اور وہ صاحب اولاد ہونے سے منزہ ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں موجودات ہیں سب اس کی ملک ہیں (اور ان کا منزہ اور مالک علی الاطلاق ہونا دلیل ہی توحید کی) اور (ایک دلیل یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ کار ساز ہونے میں کافی ہیں (اور ان کے سوا سب کار سازی میں ناکافی و محتاج الی الغیر اور ایک حد پر جا کر عاجز ہوجاتے ہیں اور یہ کفایت صفات کمال سے ہے اور صفات کا کمال لوازم الوہیت سے ہے، جب وہ غیر اللہ میں منتقی ہے پس الوہیت میں بھی منفی ہے، لہٰذا توحید ثابت ہے۔- معارف ومسائل - وکلمتہ اس لفظ میں یہ بتلایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا کلمہ ہیں، مفسرین نے اس کے مختلف معانی بیان کئے ہیں۔- (١) امام غزالی فرماتے ہیں کہ کسی بچے کی پیدائش میں دو عامل کارفرما ہوتے ہیں، ایک عامل نطفہ ہے، اور دوسرا اللہ تعالیٰ کا کلمہ ” کن “ فرمانا جس کے بعد وہ بچہ وجود میں آجاتا ہے ........ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حق میں چونکہ پہلا عامل منفی ہے، اس لئے دوسرے عامل کی طرف نسبت کر کے آپ کو کلمتہ اللہ کہا گیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مادی اسباب کے واسطہ کے بغیر صرف کلمہ ” کن “ سے پیدا ہوئے ہیں ........ اس صورت میں القھا الی مریم کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کلمہ حضرت مریم (علیہا السلام) تک پہنچا دیا جس کے نتیجہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش عمل میں آگئی۔- (٢) بعض نے فرمایا کہ کلمة اللہ، بشارة اللہ کے معنی میں ہے اور مادہ اس سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں، اللہ جل شانہ، نے فرشتوں کے ذریعہ حضرت مریم (علیہا السلام) کو حضرت عیسیٰ کی جو بشارت دی تھی اس میں ” کلمہ “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اذ قالت الملکة یمرم ان اللہ یبشرک بکلمة- (٣) بعض نے فرمایا کلمة آیت اور نشانی کے معنی میں ہے، جیسا کہ دوسری جگہ یہ لفظ آیتہ کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، وصدقت بکلمت ربھا - وروح منہ اس لفظ میں دو باتیں قابل غور ہیں ایک یہ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو روح کہنے کے کیا معنی ہیں ؟ ........ اور دوسرے یہ کہ اللہ جل شانہ کی طرف جو اس کی نسبت کی گئی ہے اس نسبت کا کیا مطلب ہے ؟- اس سلسلہ میں مفسرین کے متعدد اقوال منقول ہیں۔- (١) بعض نے فرمایا : عرف کا قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی شئے کی طہارت اور پاکیزگی کو بیان کرنا ہوتا ہے تو مبالغہ کے لئے اس پر روح کا اطلاق کردیا جاتا ہے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش میں چونکہ کسی باپ کے نطفہ کا دخل نہیں تھا اور وہ صرف اللہ جل شانہ کے ارادہ اور کلمہ کن کا نتیجہ تھے، اس لئے اپنی طہارت و نظافت میں درجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے، اسی وجہ سے عرف کے محاورہ کے مطابق کے مطابق ان کو روح کہا گیا اور اللہ کی طرف نسبت ان کی تعظیم و تشریف کے لئے ہے، جس طرح مساجد کی تعظیم کے لئے ان کی نسبت اللہ کی طرف کردی جاتی ہے، ” مساجد اللہ “ ، یا کعبہ کی نسبت اللہ کی طرف کر کے ” بیت اللہ “ کہا جاتا ہے، یا کسی اطاعت شعار بندہ کی نسبت اللہ کی طرف کر کے ” عبداللہ “ کہا جاتا ہے، چناچہ سورة بنی اسرائیل میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے یہ صیغہ استعمال کیا گیا ہے اسری بعبدہ - (٢) بعض حضرات نے فرمایا عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے مردہ دلوں میں روحانی حیات ڈال کر پھر زندہ کردیں، چونکہ وہ روحانی حیات کا سبب تھے جس طرح روح جسمانی حیات کا سبب ہوا کرتی ہے، اس لئے اس اعتبار سے ان کو روح کہا گیا، جیسا کہ خود قرآن کریم کے لئے بھی یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ وکذلک اوحینا الیک روحامن امرنا، کیونکہ قرآن کریم بھی روحانی حیات بخشتا ہے۔- (٣) بعض نے فرمایا کہ روح کا استعمال راز کے معنی میں ہوتا ہے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی عجیب و غریب پیدائش کی وجہ سے چونکہ اللہ جل شانہ کی ایک نشانی اور راز تھے اس لئے انہیں روح اللہ کہا گیا۔- (٤) بعض نے کہا کہ یہاں مضاف مخذوف ہے اور اصل عبارت یوں تھی ذوروح منہ اور چونکہ ذی روح ہونے میں سب حیوان برابر ہیں، اس لئے عیسیٰ (علیہ السلام) کا امتیاز اس طرح ظاہر کیا گیا کہ ان کی نسبت اللہ جل شانہ نے اپنی طرف کردی۔- (٥) ایک قول یہ بھی ہے کہ روح، نفخ (پھونک) کے معنی میں ہے، حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے حضرت مریم کے گریبان میں اللہ کے حکم سے پھونک دیا تھا اور اسی سے حمل قرار پا گیا، چونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بطور معجزہ کے صرف نفخ سے پیدا ہوگئے تھے اس لئے آپ کو روح اللہ کہا گیا، قرآن کریم کی دوسری آیت فنفخنا فیہا من روحنا سے اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔- اس کے علاہ بھی متعدد احتمالات بیان کئے گئے ہیں، بہرحال اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا ایک جز ہیں اور یہی روح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی انسانی شکل میں ظاہر ہوگئی ہے۔- لطیفہ :۔ علامہ آلوسی نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ہارون الرشید کے دربار میں ایک نصرانی طبیب نے حضرت علی بن الحسین واقدی سے مناظرہ کیا اور ان سے کہا کہ تمہاری کتاب میں ایسا لفظ موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا جزو ہیں اور دلیل میں یہ آیت پڑھ دی، جس میں ” روح منہ “ کے الفاظ ہیں۔- علامہ واقدی نے ان کے جواب میں ایک دوسری آیت پڑھ دی وسخرلکم ما فی السموت وما فی الارض جمیعاً منہ (اس آیت میں کہا گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اسی اللہ سے ہے اور منہ کے ذریعہ سے سب چیزوں کی نسبت اللہ کی طرف کردی گئی ہے) اور فرمایا کہ روح منہ کا اگر مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ اللہ کا جزو ہیں تو اس آیت کا مطلب پھر یہ ہوگا کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے وہ بھی اللہ کا جزو ہے ؟ یہ جواب سن کر نصرانی طبیب لاجواب ہوا اور مسلمان ہوگیا۔- ولاتقولوا ثلثة نزول قرآن کے وقت نصاری جن بڑے بڑے فرقوں میں تقسیم تھے تثلیث کے متعلق ان کا عقیدہ تین جدا جدا اصولوں پر مبنی تھا، ایک فرقہ کہتا تھا کہ مسیح عین خدا ہیں اور خدا ہی بشکل مسیح دنیا میں اتر آیا ہے، دوسرے فرقہ کا کہنا یہ تھا کہ مسیح ابن اللہ ہے اور تیسرا فرقہ یہ دعویٰ کرتا تھا کہ وحدت کا راز تین میں پوشیدہ ہے، باپ، بیٹا مریم اس جماعت میں بھی دو گروہ تھے، دوسرا گروہ وہ حضرت مریم کی جگہ روح القدس کو اقنوم ثالث کہتا تھا غرض یہ لوگ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو ثالث ثلاثہ تسلیم کرتے تھے اس لئے قرآن کریم میں تینوں کو جدا جدا بھی مخاطب کیا ہے اور یکجا بھی، اور نصاریٰ پر یہ واضح کردیا گیا ہے کہ حق ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ مسیح (علیہ السلام) مریم (علیہا السلام) کے بطن سے پیدا شدہ انسان اور خدا کے سچے رسول ہیں، اس سے زیادہ جو کچھ کہا جاتا ہے سب باطل اور لغو ہے، خواہ اس میں تفریط ہو جیسا کہ یہود کا عقیدہ ہے کہ العیاذ باللہ وہ شعبدہ باز اور مفتری تھے، یا افراط ہو جیسا کہ نصاری کا عقیدہ ہے کہ وہ خدا ہیں یا خدا کے بیٹے ہیں، یا تین میں تیسرے ہیں۔- قرآن کریم نے بیشمار آیات میں ایک طرف تو نصاری اور یہود کی گمراہی کو واضح کیا اور دوسری طرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شان رفیع اور عنداللہ ان کے مقام اعلی کو واضح فرمایا ہے تاکہ افراط وتفریط کے کج راہوں میں سے حق کا معتدل راستہ نمایاں ہوجائے۔- عیسائی عقائد اور ان کے مختلف پہلوؤں پر اور اس کے بالمقابل اسلام کی حقانیت پر اگر تفصیلی معلومات حاصل کرنا ہوں تو حضرت مولانا رحمتہ اللہ صاحب کیرانوی کی مشہور عالم کتاب ” اظہار الحق “ کا مطالعہ کریں، جس کا عربی سے ترجمہ مع شرح و تحقیق حال میں دارالعلوم کراچی نے تین جلدوں میں شائع کیا ہے۔- لہ ما فی السموات وما فی الارض وکفی باللہ وکیلا، یعنی آسمان اور زمین میں اوپر سے نیچے تک جو کچھ ہے سب اس کی مخلوق اور اس کی مملوک اور اس کے بندے ہیں، پھر کہتے اس کا شریک یا اس کا بیٹا کون اور کیونکر ہوسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب کام بنانے والا ہے اور سب کی کار سازی کے لئے وہی کافی اور بس ہے، کسی دوسرے کی حاجت نہیں، پھر بتلایئے اس کو شریک یا بیٹے کی حاجت کیسے ہو سکتی ہے ؟- خلاصہ :۔ یہ ہوا کہ نہ کسی مخلوق میں اس کی شریک بننے کی قابلیت اور لیاقت اور نہ اس کی ذات پاک میں اس کی گنجائش اور نہ اس کی حاجت، جس سے معلوم ہوگیا کہ مخلوقات میں کسی کو خدا کا شریک یا بیٹا کہنا اس کا کام ہے جو ایمان اور عقل دونوں سے محروم ہو۔ - دین میں غلو حرام ہے :۔ (قولہ تعالی) لاتغلوا فی دینکم، اس آیت میں اہل کتاب کو غلو فی الدین سے منع فرمایا گیا، غلو کے لفظی معنی حد سے نکل جانے کے ہیں اور امام حصاص نے احکام القرآن میں فرمایا :- ” یعنی دین کے بارے میں غلو یہ ہے کہ دین میں جس چیز کی جو حد مقرر کی گئی ہے اس سے آگے نکل جائے۔ “- اہل کتاب یعنی یہود و نصاری دونوں کو اس حکم کا مخاطب اس لئے بنایا گیا کہ غلوفی الدین ان دونوں میں مشترک ہے اور یہ دونوں فرقے غلوفی الدین ہی کے شکار ہیں، کیونکہ نصاری نے تو عیسیٰ (علیہ السلام) کو ماننے اور ان کی تعظیم میں غلو کیا، ان کو خدا یا خدا کا بیٹا یا تیسرا خدا بنادیا اور یہود نے ان کے نہ ماننے اور رد کرنے میں غلو کیا کہ ان کو رسول بھی نہ مانا، بلکہ معاذ اللہ ان کی والدہ ماجدہ مریم پر تہمت لگائی اور ان کے نسب پر عیاں لگایا۔- چونکہ غلو فی الدین کے سبب یہود و نصاری کی گمراہی اور تباہی مشاہدہ میں آچکی تھی، اس لئے رسل اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو اس معاملہ میں پوری احتیاط کی تاکید فرمائی، مسند احمد میں حضرت فاروق اعظم کی روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- ” میری مدح وثناء میں ایسا مبالغہ نہ کر جیسا نصاری نے عیسیٰ بن مریم کے معاملہ میں کیا ہے، خوب سمجھ لو کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس لئے تم مجھے اللہ کا بندہ اور رسول کہا کرو۔ “- (اس روایت کو بخاری اور ابن مدینی نے بھی روایت کیا ہے اور صحیح السن قرار دیا ہے۔ )- خلاصہ یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ اور بشر ہونے میں سب کے ساتھ شریک ہوں، میرا سب سے بڑا درجہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، اس سے آگے بڑھانا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں مجھے شریک قرار دے دویہ غلو، تم نصاری کی طرح کہیں اس غلو میں مبتلا نہ ہوجاؤ اور یہود و نصاری کا یہ غلو فی الدین صرف انبیاء ہی کی حد تک نہیں رہا، بلکہ انہوں نے جب یہ عادت ہی ڈال لی تو انبیاء (علیہم السلام) کے حوارییین اور متبعین اور ان کے نائبین کے مقابلہ میں بھی یہی برتاؤ اختیار کرلیا، رسول کو تو خدا بنادیا تھا، رسول کے متبعین کو معصوم کا درجہ دیدیا، پھر یہ بھی تنقید و تحقیق نہ کی کہ یہ لوگ حقیقتا انبیاء کے متبع اور ان کی تعلیم پر صحیح طور سے قائم بھی ہیں یا محض وراثتہً عالم یا شیخ سمجھے جاتے ہیں، نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں ان کی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آگئی جو خود بھی گمراہ تھے اور ان کی گمراہی کو اور بڑھاتے تھے، دین اور تدین ہی کی راہ سے ان کا دین برباد ہوگیا، قرآن حکیم نے ان لوگوں کی اس حالت کا بیان اس آیت میں فرمایا ہے : اتخذوا احبارھم ورھبانھم ارباباً من دون اللہ، یعنی ان لوگوں نے اپنے مذہبی پیشواؤ کو بھی معبود کا درجہ دیدیا، اس طرح رسول کو تو خدا بنایا ہی تھا، اتباع رسول کے نام پر پچھلے مذہبی پیشواؤں کی بھی پرستش شروع کردی۔- اس سے معلوم ہوا کہ غلو فی الدین وہ تباہ کن چیز ہے جس نے پچھلی امتوں کے دین کو دین ہی کے نام پر برباد کردیا ہے، اسی لئے ہمارے آقا و مولا حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو اس وباء عظیم سے بچانے کے لئے مکمل تدبیریں فرمائیں۔- حدیث میں ہے کہ حج کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمی جمرات کے لئے حضرت عبداللہ بن عباس کو فرمایا کہ آپ کے واسطے کنکریاں جمع کر لائیں، انہوں نے متوسط قسم کی کنکریاں پیش کردیں، آپ نے ان کو بہت پسند فرما کردو مرتبہ فرمایا : بمثلھن بمثلھن یعنی ایسی ہی متوسط کنکریوں سے جمرات پر رمی کرنا چاہئے، پھر فرمایا :- ” یعنی غلو فی الدین سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی امتیں غلو فی الدین ہی کی وجہ سے ہلاک و برباد ہوئیں۔ “- اس حدیث سے چند اہم مسائل معلوم ہوئے :- فوائد مہمہ :۔ اول یہ کہ حج میں جو کنکریاں جمرات پر پھینکیں جاتی ہیں، ان کی حد مسنون یہ ہے کہ وہ متوسط ہوں، نہ بہت چھوٹی ہوں نہ بہت بڑی، بڑے بڑے پتھر اٹھا کر پھینکنا غلو فی الدین میں داخل ہے۔- دوسرے یہ معلوم ہوا کہ ہر چیز کی حد شرعی وہ ہے جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول و عمل سے متعین فرما دی، اس سے تجاوز کرنا غلو ہے۔- تیسرے یہ واضح ہوگیا کہ غلو فی الدین کی تعریف یہ ہے کہ کسی کام میں اس کی حد مسنون سے تجاوز کیا جائے۔- حب دنیا کی حدود :۔ ضرورت سے زیادہ دنیا کے مال و دولت اور عیش و عشرت کی طمع اسلام میں مذمت ہے اور اس کے ترک کرنے کی ہدایتیں بھی قرآن میں بکثرت وارد ہیں، لیکن رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جہاں طمع دنیا اور حب دنیا سے منع فرمایا وہیں اپنے قول و عمل سے اس کی حدود بھی متعین فرما دی ہیں کہ نکاح کرنے کو اپنی سنت قرار دیا اور اس کی ترغیب دی، اولاد پیدا کرنے کے فوائد اور درجات بتلائے اہل و عیال کے ساتھ حسن معاشرت اور ان کے حقوق کی ادائیگی کو فرض قرار دیا اپنی اور ان کی ضروریات کے لئے کس معاش کو فریضہ بعدا لفریضہ فرمایا، تجارت، زراعت، صنعت، حرفت اور مزدوری کی لوگوں کو تاکید فرمائی، اسلامی حکمت کا قیام اور اسلامی نظام کی ترویج کو فریضہ نبوت قرار دے کر اپنے عمل سے پورے جزیرة العرب میں ایک نظام مملکت قائم فرمایا اور خلفائے راشدین نے اس کو دنیا کے مشرق و مغرب میں پھیلا دیا، جس سے ملوم ہوا کہ بقدر ضرورت ان چیزوں کا اشتغال نہ حب دنیا میں شمارے نہ حرص و طمع میں۔- یہود و نصاری نے اس حقیقت کو نہ سمجھا اور رہبانیت میں مبتلا ہوگئے، قرآن حکیم نے ان کی اس کجروی کو ان الفاظ میں رد فرمایا : رہبانیة ابتدموھا ماکتبنا ھاعلیھم الا ابتغآء رضوان اللہ فما رعوھا حق رعایتھا ” یعنی ان لوگوں نے اپنی طرف سے رہبانیت کے یعنی ترک دنیا کے طریقے اختیار کر لئے جو ہم نے ان کے ذمہ نہ لگائے تھے، پھر جو چیزیں خود عائد کرلی تھیں ان کو پورا بھی نہ کرسکے۔ “- سنت اور بدعت کی حدود :۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبادات، معاملات اور معاشرت سب ہی چیزوں میں اپنے قول عمل سے اعتدال کی حدود مقرر فرما دی ہیں اور ان سے پیچھے رہنا کوتاہی اور آگے بڑھنا گمراہی ہے، اسی لئے آپ نے بدعات اور محدثات کو بڑی شدت کے ساتھ روکا ہے، ارشاد فرمایا :- ” یعنی ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام جہنم ہے۔ “- بدعت اسی چیز کو کہا جاتا ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول و عمل میں صراحتہ یا اشارة موجد نہ ہو۔ - حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ نے لکھا ہے کہ اسلام میں بدعت کو اس لئے سخت جرم قرار دیا کہ وہ تحریف دین کا راستہ ہے، پچھلی امتوں میں یہی ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب اور اپنے رسل کی تعلیمات پر اپنی طرف سے اضافے کر لئے اور ہر آنے والی نسل ان میں اضافے کرتی رہی یہاں تک کہ یہ پتہ نہ رہا کہ اصل دین کیا تھا اور لوگوں کے اضافے کیا ہیں۔- شاہ صاحب نے اپنی کتاب حجتہ اللہ البالغہ کے اندر یہ بیان فرمایا ہے کہ تحریف دین کے دنیا میں کیا کیا اسباب پیش آئے ہیں اور شریعت اسلام نے ان سب کے دروازوں پر کس طرح پہرہ بٹھایا کہ سوراخ سے یہ وباء اس امت میں نہ پھیلے۔- علماء و مشائخ کی تعظیم و اتباع میں راہ اعتدال :۔ ان اسباب میں سے دین کے بارے میں تعمق و تشدد یعنی غلو فی الدین کو بڑا سبب قرار دیا مگر افسوس ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قدر اہتمام اور شریعت کی اتنی پابندیوں کے باجود آج امت مسلمہ اسی غلو کی بری طرح شکار ہے، دین کے سارے ہی شعبوں میں اس کے آثار نمایاں ہیں، ان میں سے بالخصوص جو چیز ملت کے لئے مہلک اور انتہائی مضر ثابت ہو رہی ہے وہ دینی مقتداء و پیشواؤں کا معاملہ ہے، مسلمانوں کی ایک جماعت تو اس پر گئی ہے کہ مقتداء و پیشواء علماء و عرفاء کوئی چیز نہیں، کتاب اللہ ہمارے لئے کافی ہے، جیسے وہ اللہ کی کتاب سمجھتے ہیں ہم بھی سمجھ سکتے ہیں، ھم رجال ونحن رجال یعنی وہ بھی آدمی ہیں ہم بھی آدمی ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر ہوسناک جو نہ عربی زبان سے، واقف ہے نہ قرآن کے حقائق معارف سے نہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیان و تفسیر سے محض قرآن کا ترجمہ دیکھ کر اپنے کو قرآن کا عالم کہنے لگا، قرآن کریم کی جو تفسیر تشریح خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا آپ کے بلاواسطہ شاگرد یعنی صحابہ کرام سے منقول ہے اس سب سے قطع نظر جو بات ذہن میں آگئی اس کو قرآن کے سر تھوپ دیا، حالانہ اگر صرف کتاب بغیر معلم کے کافی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کو یہ قدرت تھی کہ کتاب کے نسخے لکھے لکھائے لوگوں کو پہنچا دیتے، رسول کو معلم بناکر بھیجنے کی ضرورت نہ تھی، اور اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ بات صرف کتاب اللہ کے ساتھ مخصوص نہیں، کسی بھی علم فن کی کتاب کا محض ترجمہ دیکھ کر کبھی کوئی شخص اس فن کا عالم نہیں بن سکتا، ڈاکٹری، یا طب یونانی کی کتابوں کا ترجمہ دیکھ کر آج تک کوئی حکیم یا ڈاکٹر نہیں بنا، انجینئری کی کتابیں دیکھ کر کوئی انجینئر نہیں بنا، کپڑا سینے یا کھانا پکانے کی کتابیں دیکھ کر کوئی درزی یا باورچی نہیں بنا، بلکہ ان سب چیزوں میں تعلیم و تعلم اور معلم کی ضرورت سب کے نزدیک مسلم ہے، مگر افسوس کہ قرآن و سنت ہی کو ایسا سرسری سمجھ لیا گیا ہے کہ اس کے لئے کسی معلم کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی، چناچہ ایک بہت بڑی تعلیم یافتہ لوگوں کی جماعت تو اس طرف غلو میں بہہ گئی کہ صرف قرآن کے مطابق کو کافی سمجھ بیٹھے، علماء سلف کی تفسیروں اور تعبیروں کو اور ان کے اقتداء، و اتباع کو سرے سے نظر انداز کردیا۔- دوسری طرف ایک بھاری جماعت مسلمانوں کی اسغز میں مبتلا ہوگئی کہ اندھا دھند جس کو چاہا اپنا مقتداء اور پیشوا بنا لیا، پھر ان کی اندھی تقلید شروع کردی، نہ یہ معلوم کہ جس کو ہم مقتداء اور پیشواء بنا رہے ہیں یہ علم و عمل اور صلاح وتقوی کے معیار پر صحیح بھی اترتا ہے یا نہیں ؟ اور نہ پھر اس طرف کوئی دھیان کیا کہ جو تعلیم یہ دے رہا ہے وہ قرآن و سنت کے مخالف تو نہیں ؟ شریعت اسلام نے غلو سے بچا کر ان دونوں کے درمیان طریقہ کار یہ بتلایا کہ کتاب اللہ کو رجال اللہ سے سیکھو اور رجال اللہ کو کتاب اللہ سے پہچانو، یعنی قرآن و سنت کی مشہور تعلیمات کے ذریعہ پہلے ان لوگوں کو پہچانو جو کتاب و سنت کے علوم میں مشغول ہیں اور ان کی زندگی کتاب و سنت کے رنگ میں رنگی ہوتی ہے، پھر کتاب و سنت کے ہر الجھے ہوئے مسئلہ میں ان کی تفسیر و تشریح کو اپنی رائے سے مقدم سمجھو، اور ان کا اتباع کرو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ اِلَّا الْحَقَّ۝ ٠ۭ اِنَّمَا الْمَسِيْحُ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُوْلُ اللہِ وَكَلِمَتُہٗ۝ ٠ۚ اَلْقٰىہَآ اِلٰي مَرْيَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ۝ ٠ۡفَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ۝ ٠ۣۚ وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلٰــثَۃٌ۝ ٠ۭ اِنْـتَھُوْا خَيْرًا لَّكُمْ۝ ٠ۭ اِنَّمَا اللہُ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝ ٠ۭ سُبْحٰنَہٗٓ اَنْ يَّكُوْنَ لَہٗ وَلَدٌ۝ ٠ۘ لَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝ ٠ۭ وَكَفٰي بِاللہِ وَكِيْلًا۝ ١٧١ۧ- لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- غلا - الغُلُوُّ : تجاوز الحدّ ، يقال ذلک إذا کان في السّعر غَلَاءٌ ، وإذا کان في القدر والمنزلة غُلُوٌّ وفي السّهم : غَلْوٌ ، وأفعالها جمیعا : غَلَا يَغْلُو قال تعالی: لا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ [ النساء 171] . وَالغَلْيُ والغَلَيَانُ يقال في القدر إذا طفحت، ومنه استعیر قوله : طَعامُ الْأَثِيمِ كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ كَغَلْيِ الْحَمِيمِ [ الدخان 44- 46] ، وبه شبّه غلیان الغضب والحرب، وتَغَالَى النّبت يصحّ أن يكون من الغلي، وأن يكون من الغلوّ. والغَلْوَاءُ : تجاوز الحدّ في الجماح، وبه شبّه غَلْوَاءُ الشّباب .- ( غ ل و) الغلو کے معنی کسی چیز کے حد سے تجاوز کرنے کے ہیں اگر یہ ( حد سے تجاوز) اشیاء کے رخ میں ہو تو اسے علاء ( گرانی ) کہاجاتا ہے اور قدرومنزلت میں ہو تو اسے غلو کہتے ہیں اور اگر تیر اپنی حدود سے تجاوز کرجائے تو غلو مگر ان ہر سہ اشیاء کے متعلق فعل غلا یغلو ( ن) ہی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : لا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ [ النساء 171] اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو ۔ اور ہانڈی کے ابال اور جو ش کھانے کو غلی و غلیان ( باب ضرب ) کہتے ہیں ۔ اسی سے بطور استعارہ ارشاد ہے ۔ طَعامُ الْأَثِيمِ كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ كَغَلْيِ الْحَمِيمِ [ الدخان 44- 46] گنہگار کا کھانا ہے جیسے پگھلا ہوا تانبا پیٹوں میں اس طرح کھولے گا جس طرح گرم پانی کھولتا ہے ۔ اور تشتبیہ کے طور پر غصہ اور لڑائی کے بھڑک اٹھنے کو بھی غلیان کہہ دیتے ہیں تغالی النبت گھاس کا زیادہ ہونا اور بڑھ جانا ) غلی اور غلم یعنی وادی اور یائی دونوں سے آتا ہے اور غلواء کے معنی خودسری میں حد سے تجاوز کرنے کے ہیں اور اسی سے بطور تشبیہ جو ش جوانی کو غلواء الشباب کہاجاتا ہے ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- عيسی - عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال : عَاسَهَا يَعِيسُهَا - ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔- كلمه - أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيى مُصَدِّقاً بِكَلِمَةٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 39] قيل : هي كَلِمَةُ التّوحید . وقیل : کتاب اللہ . وقیل : يعني به عيسى، وتسمية عيسى بکلمة في هذه الآية، وفي قوله : وَكَلِمَتُهُ أَلْقاها إِلى مَرْيَمَ [ النساء 171] لکونه موجدا بکن المذکور في قوله : إِنَّ مَثَلَ عِيسى [ آل عمران 59] وقیل : لاهتداء الناس به كاهتدائهم بکلام اللہ تعالی، وقیل : سمّي به لما خصّه اللہ تعالیٰ به في صغره حيث قال وهو في مهده :- إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ الآية [ مریم 30] ، وقیل : سمّي كَلِمَةَ اللہ تعالیٰ من حيث إنه صار نبيّا كما سمّي النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] «3» . وقوله : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ الآية [ الأنعام 115] . فَالْكَلِمَةُ هاهنا القضيّة، فكلّ قضيّة تسمّى كلمة سواء کان ذلک مقالا أو فعالا، ووصفها بالصّدق، لأنه يقال : قول صدق، وفعل صدق، وقوله : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] - اللہ تعالیٰ کے فرمان أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيى مُصَدِّقاً بِكَلِمَةٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 39] خدا تمہیں یحیٰ کی بشارت دیتا ہے جو خدا کے فیض یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کر مینگے میں بعض نے کتاب اللہ مراد لی ہے اور بعض نے عیسیٰ (علیہ السلام) مردا لئے ہیں پس آیت آیت کریمہ : ۔ وَكَلِمَتُهُ أَلْقاها إِلى مَرْيَمَ [ النساء 171] اور اس کا کلمہ ( بشارت ) تھے جو اس نے مریم کی طرف بھیجا تھا ۔ میں عیسیٰ (علیہ السلام) کو کلمہ کو کلمہ اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ کلمہ کن پیدا ہوئے تھے جیسا آیت : ۔ إِنَّ مَثَلَ عِيسى [ آل عمران 59] عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک ۔ میں مذکور ہے اور بعض نے کہا ہے کہ لوگوں کے ان کے ذریعہ ہدایت پانے کی وجہ سے انہیں کلمہ کہا گیا ہے ہدایت پانے کی وجہ انہیں کلمہ کہا گیا ہے جیسا کہ کلام اللہ کے ذریعہ لوگ ہدایت پاتے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ اس خصوصی رحمت کے سبب سے ہے جو بچنے میں اللہ تعالیٰ نے ان پر کی تھی جب کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ماں کی گود میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ۔ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ الآية [ مریم 30] کہ میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ نبی ہونے کی وجہ سے انہیں کلمۃ اللہ کہا گیا ہے جیسا کہ آنحضرت کو رسول اللہ ہونے کی وجہ سے ذکر کہا گیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ الآية [ الأنعام 115] اور تمہارے پروردگار کی باتیں سچائی اور انصاف میں پوری ہیں ۔ - مریم - مریم : اسم أعجميّ ، اسم أمّ عيسى عليه السلام» .- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - انتهَاءُ- والانتهَاءُ : الانزجار عمّا نهى عنه، قال تعالی: قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ ما قَدْ سَلَفَ [ الأنفال 38] الانتھاء کسی ممنوع کام سے رک جانا ۔ قرآن پاک میں ہے : قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ ما قَدْ سَلَفَ [ الأنفال 38]( اے پیغمبر ) کفار سے کہہ دو کہ اگر وہ اپنے افعال سے باز آجائیں تو جو ہوچکا وہ انہیں معاف کردیاجائے گا ۔- إله - جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] - الٰہ - کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ - الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں - بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو - (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ - (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ - سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] ،- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - كفى- الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ- [ الأحزاب 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل .- ( ک ف ی ) الکفایۃ - وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ :- ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔- وكيل - التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك،- ( و ک ل) التوکیل - کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے یا اھل الکتاب لاتغلوافی دینکم۔ اسے اہل کتاب، اپنے دین میں غلو نہ کرو) حسن سے مروی ہے کہ یہ یہود و نصاریٰ کو خطاب ہے کیونکہ نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اتنا غلو کیا کہ انہیں انبیاء کے درجے سے بلند کر کے الہ بنا لیا، یہودیوں نے بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت میں غلو کیا اور انہیں ان کے مرتبے اور درجے سے گرا دیا۔ اس طرح دونوں گروہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معاملے میں غلو سے کام لیا۔ دین میں غلو کا مفہوم یہ ہے کہ حق کی حد سے تجاوز کیا جائے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں رمی جمار کے لئے کنکریاں پکڑانے کو کہا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے ان کنکریوں کو اپنی دونوں انگلیوں کے درمیان رکھ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پھینکنا شروع کردیا۔ آپ ان کنکریوں کو ہتھیلی پر رکھ کر الٹتے پلٹتے رہے اور فرماتے گئے (بمثلھن بمثلھن، ایاکم والغلو فی الدین فانما ھلک قبلکم بالغلونی دینھم، ان ہی جیسی کنکریاں ان ہی جیسی کنکریاں دین میں غلو کرنے سے بچو کیونکہ تم سے پہلی امتیں دین میں غلو کرنے کی بنا پر ہلاک ہوئیں۔ ) اسی بناء پر کہا جاتا ہے کہ ” اللہ کا دین کوتاہی کرنے والے اور غلو کرنے والے کے درمیان ہے “۔ کلمۃ اللہ سے کیا مراد ہے ؟- قول باری ہے وکلمۃ القاھا الی مریم و روح منہ۔ اور ایک فرمان تھا جو اللہ نے مریم کی طرف بھیجا اور اللہ کی طرف سے ایک روح تھی) اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو کلمۃ اللہ کہا ہے۔ اس کی تفسیر میں تین اقوال ہیں۔ حسن اور قتادہ سے مروی ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے کلمہ سے وجود میں آئے۔ اللہ کا کلمہ اس کا قول کن فیکون ہوجا پس وہ ہوجاتا ہے) ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا وجود میں آنا اس معتاد طریقے سے نہیں ہوا جو عام مخلوقات کے لئے رکھا گیا ہے یعنی جنسی ملاپ کے ذریعے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ بھی اسی طرح ذریعہ ہدایت تھے جس طرح اللہ کا قول اور اس کا کلمہ ذریعہ ہدایت ہوتا۔ تیسرا قول یہ ہے کہ وہ بشارت تھی جو انبیاء سابقین پر نازل ہونے والی کتابوں میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے متعلق دی تھی۔ قول باری ودوح منہ اس لئے کہا کہ اللہ کے حکم سے حضرت جبریل (علیہ السلام) کے پھونک مارنے سے شکم مادر میں آپ جاگزیں ہوئے، نفخ یعنی پھونک مارنے کو بھی روح کہتے ہیں ذی الرمہ کا شعر ہے ۔ فقلت لہ ادفعھا الیک واحیھا بروھک و اقتتہ لھا قیتۃ قدرا۔ میں نے اس سے کہا آگ اپنی طرف کرلو اور اسے آہستہ آہستہ پھونک مار کر جلائو اس طرح کہ اس کی چنگاریاں اڑنہ جائیں اور آگ بجھ نہ جائے) ۔ یہاں شاعر نے بروحک کہہ کر بنفحک، (اپنی پھونک کے ذریعے) مراد لیا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو روح کے نام سے اس لئے موسوم کیا کہ لوگ آپ کے ذریعے اسی طرح زندہ ہوجاتے تھے جس طرح روحوں کے ذریعے زندہ رہتے ہیں اس معنی میں قرآن مجید کو اس قول باری وکذلک اوحینا الیک روحاً من امرتا۔ اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف وحی یعنی اپنا حکم بھیجا ہے) ایک اور قول ہے کہ حضرت عیسیٰ بھی لوگوں کی ارواح کی طرح ایک روح تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی عظمت اور شرف بیان کرنے کے لئے اپنی طرف ان کی نسبت کردی جس طرح بیت اللہ اور سماء اللہ کا مفہوم ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٧١) یہ آیات نجران کے عیسائیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، ان میں سے نسطوریہ فرقہ اس بات کا دعویدار تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ابن اللہ ہیں اور یعقوبیہ فرقہ کہتا تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ ہیں اور مرتوسیہ کا عقیدہ تھا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ثالث ثلاثہ ہیں اور مالکانیہ گروہ یہ کہتا تھا یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور خدا دونوں آپس میں شریک ہیں۔- چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حد سے باہر مت نکلو یہ چیزیں صحیح نہیں، کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تو صرف اللہ تعالیٰ کے ایک کلمہ کی پیدایش ہیں اور اس کے حکم سے معجزاتی طور پر بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں۔- اے اہل کتاب تم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور تمام رسولوں پر ایمان لاؤ ولد، والد اور زوجہ تینوں کو خدا مت کہو، اپنی مشرکانہ باتوں سے باز رہو اور اللہ کے حضور سچی توبہ کرو، یہی چیز تمہارے لیے بہتر ہے، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو وحدہ لاشریک ہیں، نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ اس کی خدائی میں کوئی شریک ہے۔- اس کی ذات ان تمام چیزوں سے پاک ہے، وہ تمام مخلوق کا اللہ ہے اور ان مشرکانہ خرافات سے نمٹنے کے لیے کافی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧١ (یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لاَ تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ وَلاَ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ الاَّ الْحَقَّ ط) ۔- تم آپس کے معاملات میں تو جھوٹ بولتے ہی ہو ‘ مگر اللہ کے بارے میں جھوٹ گھڑنا ‘ جھوٹ بول کر اللہ پر اسے تھوپنا کہ اللہ کا یہ حکم ہے ‘ اللہ نے یوں کہا ہے ‘ یہ تو وہی بات ہوئی : بازی بازی با ریش با با ہم بازی - (اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ) - وہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ایک رسول ( علیہ السلام) تھے اور بس اُلوہیّت میں ان کا کوئی حصّہ نہیں ہے ‘ وہ خدا کے بیٹے نہیں ہیں۔- (وَکَلِمَتُہٗج اَلْقٰہَآ اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ ز) - یعنی حضرت مریم ( علیہ السلام) کے رحم میں جو حمل ہوا تھا وہ اللہ کے کلمۂ کُن کے طفیل ہوا۔ بچے کی پیدائش کے طبعی عمل میں ایک حصہ باپ کا ہوتا ہے اور ایک ماں کا۔ اب حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی ولادت میں ماں کا حصہ تو پورا موجود ہے۔ حضرت مریم ( علیہ السلام) کو حمل ہوا ‘ نو مہینے آپ ( علیہ السلام) رحم میں رہے ‘ لیکن یہاں باپ والا حصہ بالکل نہیں ہے اور باپ کے بغیر ہی آپ ( علیہ السلام) کی پیدائش ممکن ہوئی۔ ایسے معاملات میں جہاں اللہ کی مشیّت سے ایک لگے بندھے طبعی عمل میں سے اگر کوئی کڑی اپنی جگہ سے ہٹائی جاتی ہے تو وہاں پر اللہ کا مخصوص امر کلمۂکُن کی صورت میں کفایت کرتا ہے۔ یہاں پر اللہ کے کلمہ کا یہی مفہوم ہے۔- جہاں تک حضرت مسیح (علیہ السلام) کو رُوْحٌ مِّنْہُقرار دینے کا تعلق ہے تو اگرچہ سب انسانوں کی روح اللہ ہی کی طرف سے ہے ‘ لیکن تمام روحیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ بعض روحوں کے بڑے بڑے اونچے مراتب ہوتے ہیں۔ ذرا تصور کریں روح محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان اور عظمت کیا ہوگی روح محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عام طور پر ہمارے علماء نور محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے ہیں۔ اس لیے کہ روح ایک نورانی شے ہے۔ ملائکہ بھی نور سے پیدا ہوئے ہیں اور انسانی ارواح بھی نور سے پیدا ہوئی ہیں۔ لیکن سب انسانوں کی ارواح برابر نہیں ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح کی اپنی ایک شان ہے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی روح کی اپنی ایک شان ہے۔- (فَاٰمِنُوْا باللّٰہِ وَرُسُلِہٖ قف ولا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَۃٌ ط) (اِنْتَہُوْا خَیْرًا لَّکُمْ ط) - یہ مت کہو کہ الوہیت تین میں ہے۔ ایک میں تین اور تین میں ایک کا عقیدہ مت گھڑو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :211 یہاں اہل کتاب سے مراد عیسائی ہیں اور غلو کے معنی ہیں کسی چیز کی تائید و حمایت میں حد سے گزر جانا ۔ یہودیوں کا جرم یہ تھا کہ مسیح کے انکار اور مخالفت میں حد سے گزر گئے ، اور عیسائیوں کا جرم یہ ہے کہ وہ مسیح کی عقیدت میں محبت میں حد سے گزر گئے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :212 اصل میں لفظ”کلمہ“ استعمال ہوا ہے ۔ مریم کی طرف کلمہ بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے حضرت مریم علیہا السلام کے رحم پر یہ فرمان نازل کیا کہ کسی مرد کے نطفہ سے سیراب ہوئے بغیر حمل کا استقرار قبول کر لے ۔ عیسائیوں کو ابتداءً مسیح علیہ السلام کی پیدائش بے پدر کا یہی راز بتایا گیا تھا ۔ مگر انہوں نے یونانی فلسفہ سے گمراہ ہو کر پہلے لفظ کلمہ کو ”کلام“ یا ”نطق “ ( ) کا ہم معنی سمجھ لیا ۔ پھر اس کلام و نطق سے اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت کلام مراد لے لی ۔ پھر یہ قیاس قائم کیا کہ اللہ کی اس ذاتی صفت نے مریم علیہا السلام کے بطن میں داخل ہو کر وہ جسمانی صورت اختیار کی جو مسیح کی شکل میں ظاہر ہوئی ۔ اس طرح عیسائیوں میں مسیح علیہ السلام کی الوہیت کا فاسد عقیدہ پیدا ہوا اور اس غلط تصور نے جڑ پکڑ لی کہ خدا نے خود اپنے آپ کو یا اپنی ازلی صفات میں سے نطق و کلام کی صفت کو مسیح کی شکل میں ظاہر کیا ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :213 یہاں خود مسیح کو رُوْحٌ مِّنْہُ ( خدا کی طرف سے ایک روح ) کہا گیا ہے ، اور سورہ بقرہ میں اس مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے کہ اَیَّدْ نٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ( ہم نے پاک روح سے مسیح کی مدد کی ) ۔ دونوں عبارتوں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے مسیح علیہ السلام کو وہ پاکیزہ روح عطا کی تھی جو بدی سے ناآشنا تھی ۔ سراسر حقانیت اور راست بازی تھی ، اور از سر تا پا فضیلت اخلاق تھی ۔ یہی تعریف آنجناب کی عیسائیوں کو بتائی گئی تھی ۔ مگر انہوں نے اس میں غلو کیا ، رُوْحٌ مِّنَ اللہِ کو عین روح اللہ قرار دے لیا ، اور روح القدس ( ) کا مطلب یہ لیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اپنی روح مقدس تھی جو مسیح کے اندر حلول کر گئی تھی ۔ اس طرح اللہ اور مسیح کے ساتھ ایک تیسرا خدا روح القدس کو بنا ڈالا گیا ۔ یہ عیسائیوں کا دوسرا زبردست غلو تھا جس کی وجہ سے وہ گمراہی میں مبتلا ہوئے ۔ لطف یہ ہے کہ آج بھی انجیل متی میں یہ فقرہ موجود ہے کہ “فرشتے نے اسے ( یعنی یوسف نجار کو ) خواب میں دکھائی دے کر کہا کہ اے یوسف ابن داؤد ، اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر ، کیونکہ جو اس کے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قدرت سے ہے” ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :214 یعنی اللہ کو واحد الٰہ مانو اور تمام رسولوں کی رسالت تسلیم کرو جن میں سے ایک رسول مسیح بھی ہیں ۔ یہی مسیح علیہ السلام کی اصلی تعلیم تھی اور یہی امر حق ہے جسے ایک سچے پیرو مسیح کو ماننا چاہیے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :215 یعنی تین الہٰوں کے عقیدے کو چھوڑ دو خواہ وہ کسی شکل میں تمہارے اندر پایا جاتا ہو ۔ حقیقت یہ ہے کہ عیسائی بیک وقت توحید کو بھی مانتے ہیں اور تثلیث کو بھی ۔ مسیح علیہ السلام کے صریح اقوال جو اناجیل میں ملتے ہیں ان کی بنا پر کوئی عیسائی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ خدا بس ایک ہی خدا ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں ہے ۔ ان کے لیے یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے کہ توحید اصل دین ہے ۔ مگر وہ جو ایک غلط فہمی ابتداء میں ان کو پیش آگئی تھی کہ کلام اللہ نے مسیح کی شکل میں ظہور کیا اور روح اللہ نے اس میں حلول کیا ، اس کی وجہ سے انہوں نے مسیح اور روح القدس کی الوہیت کو بھی خداوند عالم کی الوہیت کے ساتھ ماننا خواہ مخواہ اپنے اوپر لازم کرلیا ۔ اس زبردستی کے التزام سے ان کے لیے یہ مسئلہ ایک ناقابل حل چیستان بن گیا کہ عقیدہ توحید کے باوجود عقیدہ تثلیث کو ، اور عقیدہ تثلیث کے باوجود عقیدہ توحید کو کس طرح نباہیں ۔ تقریباً ۱۸ سو برس سے مسیح علماء اسی خود پیدا کردہ مشکل کو حل کرنے میں سر کھپا رہے ہیں ۔ بیسیوں فرقے اسی کی مختلف تعبیرات پر بنے ہیں ۔ اسی پر ایک گروہ نے دوسرے کی تکفیر کی ہے ۔ اسی کے جھگڑوں میں کلیسا پر کلیسا الگ ہوتے چلے گئے ۔ اسی پر ان کے سارے علم کلام کا زور صرف ہوا ہے ۔ حالانکہ یہ مشکل نہ خدا نے پیدا کی تھی ، نہ اس کے بھیجے ہوئے مسیح نے ، اور نہ اس مشکل کا کوئی حل ممکن ہے کہ خدا تین بھی مانے جائیں اور پھر وحدانیت بھی برقرار رہے ۔ اس مشکل کو صرف ان کے غلو نے پیدا کیا ہے اور اس کا بس یہی ایک حل ہے کہ وہ غلو سے باز آجائیں ، مسیح اور روح القدس کی الوہیت کا تخیل چھوڑ دیں ، صرف اللہ کو الٰہ واحد تسلیم کر لیں ، اور مسیح کو صرف اس کا پیغمبر قرار دیں نہ کہ کسی طور پر شریک فی الالوہیت ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :216 یہ عیسائیوں کے چوتھے غلو کی تردید ہے ۔ بائیبل کے عہد جدید کی روایات اگر صحیح بھی ہوں تو ان سے ( خصوصاً پہلی تین انجیلوں سے ) زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے خدا اور بندوں کے تعلق کو باپ اور اولاد کے تعلق سے تشبیہ دی تھی اور ”باپ“ کا لفظ خدا کے لیے وہ محض مجاز اور استعارہ کے طور پر استعمال کرتے تھے ۔ یہ تنہا مسیح ہی کی کوئی خصوصیت نہیں ہے ۔ قدیم ترین زمانہ سے بنی اسرائیل خدا کے لیے باپ کا لفظ بولتے چلے آرہے تھے اور اس کی بکثرت مثالیں بائیبل کے پرانے عہد نامہ میں موجود ہیں ۔ مسیح نے یہ لفظ اپنی قوم کے محاورے کے مطابق ہی استعمال کیا تھا اور وہ خدا کو صرف اپنا باپ ہی نہیں بلکہ سب انسانوں کا باپ کہتے تھے ۔ لیکن عیسائیوں نے یہاں پھر غلو سے کام لیا اور مسیح کو خدا کا اکلوتا بیٹا قرار دیا ۔ ان کا عجیب و غریب نظریہ اس باب میں یہ ہے کہ چونکہ مسیح خدا کا مظہر ہے ، اور اس کے کلمے اور اس کی روح کا جسدی ظہور ہے ، اس لیے وہ خدا کا اکلوتا بیٹا ہے ، اور خدا نے اپنے اکلوتے کو زمین پر اس لیے بھیجا کہ انسانوں کے گناہ اپنے سر لے کر صلیب پر چڑھ جائے اور اپنے خون سے انسان کے گناہ کا کفارہ اداکرے ۔ حالانکہ اس کا کوئی ثبوت خود مسیح علیہ السلام کے کسی قول سے وہ نہیں دے سکتے ۔ یہ عقیدہ ان کے اپنے تخیلات کا آفریدہ ہے اور اس غلو کا نتیجہ ہے جس میں وہ اپنے پیغمبر کی عظیم الشان شخصیت سے متأثر ہو کر مبتلا ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں کفارہ کے عقیدے کی تردید نہیں کی ہے ، کیونکہ عیسائیوں کے ہاں یہ کوئی مستقل عقیدہ نہیں ہے بلکہ مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دینے کا شاخسانہ اور اس سوال کی ایک صوفیانہ و فلسفیانہ توجیہ ہے کہ جب مسیح خدا کا اکلوتا تھا تو وہ صلیب پر چڑھ کر لعنت کی موت کیوں مرا ۔ لہٰذا اس عقیدے کی تردید آپ سے آپ ہو جاتی ہے کہ اگر مسیح کے ابن اللہ ہونے کی تردید کر دی جائے اور اس غلط فہمی کو دور کر دیا جائے کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر چڑھائے گئے تھے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :217 یعنی زمین و آسمان کی موجودات میں سے کسی کے ساتھ بھی خدا کا تعلق باپ اور بیٹے کا نہیں ہے بلکہ محض مالک اور مملوک کا تعلق ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :218 یعنی خدا اپنی خدائی کا انتظام کرنے کے لیے خود کافی ہے ، اس کو کسی سے مدد لینے کی حاجت نہیں کہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

94: یہودیوں کے بعد ان آیات میں عیسائیوں کو تنبیہ کی گئی ہے۔ یہودی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جانی دُشمن بن گئے تھے، اور دوسری طرف عیسائی آپ کی تعظیم میں حد سے گزر گئے، اور انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہنا شروع کردیا اور یہ عقیدہ اپنا لیا کہ خدا تین ہیں، باپ بیٹا اور روح القدس۔ اس آیت میں دونوں کو حد سے گذرنے سے منع کیا گیا ہے، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں وہ معتدل بات بتائی گئی ہے جو حقیقت کے عین مطابق ہے، یعنی وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے، اور اللہ نے ان کو اپنے کلمہ ’’کُن‘‘ سے باپ کے واسطے کے بغیر پیدا کیا تھا، اور ان کی روح براہ راست حضرت مریم علیہا السلام کے بطن میں بھیج دی تھی۔