قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی مکمل دلیل اور حجت تمام ہے اللہ تبارک و تعالیٰ تمام انسانوں کو فرماتا ہے کہ میری طرف سے کامل دلیل اور عذر معذرت کو توڑ دینے والی ، شک و شبہ کو الگ کرنے والی برہان ( دلیل ) تمہاری طرف نازل ہو چکی ہے اور ہم نے تمہاری طرف کھلا نور صاف روشنی پورا اجالا اتار دیا ہے ، جس سے حق کی راہ صحیح طور پر واضح ہو جاتی ہے ۔ ابن جریج وغیرہ فرماتے ہیں اس سے مراد قرآن کریم ہے ۔ اب جو لوگ اللہ پر ایمان لائیں اور توکل اور بھروسہ اسی پر کریں ، اس سے مضبوط رابطہ کر لیں ، اس کی سرکار میں ملازمت کر لیں ، مقام عبودیت اور مقام توکل میں قائم ہو جائیں ، تمام امور اسی کو سونپ دیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ پر ایمان لائیں اور مضبوطی کے ساتھ اللہ کی کتاب کو تھام لیں ان پر اللہ اپنا رحم کرے گا ، اپنا فضل ان پر نازل فرمائے گا ، نعمتوں اور سرور والی جنت میں انہیں لے جائے گا ، ان کے ثواب بڑھا دے گا ، ان کے درجے بلند کر دے گا اور انہیں اپنی طرف لے جانے والی سیدھی اور صاف راہ دکھائے گا ، جو کہیں سے ٹیڑھی نہیں ، کہیں سے تنگ نہیں ۔ گویا وہ دنیا میں صراط مستقیم پر ہوتا ہے ۔ راہ اسلام پر ہوتا ہے اور آخرت میں راہ جنت پر اور راہ سلامتی پر ہوتا ہے ۔ شروع تفسیر میں ایک پوری حدیث گذر چکی ہے جس میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اللہ کی سیدھی راہ اور اللہ کی مضبوط رسی قرآن کریم ہے ۔
174۔ 1 برہان ایسی دلیل قاطع جس کے بعد کسی کو عذر کی گنجائش نہ رہے اور ایسی حجت جس سے ان کے شبہات زائل ہوجائیں، اسی لئے آگے اسے نور سے تعبیر فرمایا۔ 174۔ 2 اس سے مراد قرآن کریم ہے جو کفر اور شرک کی تاریکیوں میں ہدایت کا نور ہے۔ ضلالت کی پگڈنڈیوں میں صراط مستقیم اور حبل اللہ المتین ہے۔ پس اس کے مطابق ایمان لانے والے اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے مستحق ہیں۔
[٢٣١] قرآن برہان کیوں ہے ؟ برہان ایسی واضح دلیل کو کہتے ہیں کہ فریقین کے درمیان فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہو۔ قرآن اس لحاظ سے برہان ہے کہ اس نے اپنے مخالب تمام کفار کو چیلنج کیا کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ اللہ کا کلام نہیں بلکہ کسی انسان کا کلام ہے تو تم سب مل کر اور ایک دوسرے کی مدد کر کے قرآن جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ لیکن عرب بھر کے تمام فصحائ، بلغاء اور شعراء ایسا کلام پیش کرنے سے عاجز رہ گئے۔ اسی ایک چیلنج سے تین چیزوں کا ثبوت ملتا ہے اور یہ ثبوت بھی ایسا ہے جو فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے (١) وجود باری تعالیٰ کا ثبوت (٢) قرآن کے اللہ کا کلام ہونے کا ثبوت اور (٣) آپ کی نبوت کا ثبوت۔ اسی لحاظ سے قرآن کو برہان کہا گیا ہے۔ اور نورمبین اس لحاظ سے ہے کہ ہدایت انسانی یعنی دنیوی طریق زندگی اور اخروی نجات کے لیے زندگی کے ہر ہر پہلو پر روشنی ڈالنے والا ہے۔
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمْ بُرْهَانٌ۔۔ : جب اللہ تعالیٰ نے تمام گمراہ فرقوں کفار، منافقین، یہود و نصاریٰ پر دلائل قائم کردیے اور ان کے شکوک و شبہات کی بھی مکمل تردید فرما دی تو اب اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لانے کی عام دعوت دی کہ تمہارے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی برحق ہونے کی واضح دلیل آچکی اور ہم نے حق کو واضح کرنے والا نور، یعنی قرآن مجید نازل فرما دیا جو انسان کو ضلالت کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی کی طرف لاتا ہے اور دل میں نور ایمان پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔
خلاصہ تفسیر - اے (تمام) لوگو یقیناً تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک (کافی) دلیل آچکی ہے (وہ ذات مبارک ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی) اور ہم نے تمہارے پاس ایک صاف نور بھیجا ہے (وہ قرآن مجید ہے پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے ذریعہ سے جو کچھ تم کو بتلایا جائے وہ سب حق ہے جن میں مضامین مذکورہ بھی داخل ہیں) سو جو لوگ اللہ پر ایمان لائے (جس کے لئے توحید و تنزیہ کا اعتقاد لازم ہے) اور انہوں نے اللہ (کے دین) کو (یعنی اسلام کو) مضبوط پکڑا (جس کے لئے رسول اور قرآن کی تصدیق لازم ہے) سو ایسوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں یعنی جنت میں) داخل کریں گے اور اپنے فضل میں ( لے لیں گے یعنی دخول جنت کے علاوہ اور بھی نعمائے عظمی دیں گے جن میں دیدار الہی بھی داخل ہے) اور اپنے تک (پہنچنے کا) ان کو سیدھا راستہ بتلا دیں گے (یعنی دنیا میں ان کو طریق رضا پر قائم و ثابت رکھیں گے اور اسی سے تارک ایمان و اعمال صالحہ کی حالت معلوم ہوگئی کہ ان کو یہ ثمرات نہ ملیں گے۔ )- معارف ومسائل - برہان سے کیا مراد ہے ؟: (قولہ تعالی) قدجآء کم برھان من ربکم برہان کے لفظی معنی دلیل کے ہیں، اس سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس ہے (روح)- حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کو لفظ برہان سے اس لئے تعبیر فرمایا کہ آپ کی ذات مبارک اور آپ کے اخلاق کریمانہ، آپ کے معجزات اور آپ پر کتاب کا نزول، یہ سب چیزیں آپ کی نبوت اور آپ کی رسالت کے کھلے کھلے دلائل ہیں، جن کو دیکھنے کے بعد کسی اور دلیل کی احتیاج باقی نہیں رہتی تو یوں سمجھنا چاہئے کہ آپ کی ذات خود ہی ایک مجسم دلیل ہے۔- اور نور سے مراد قرآن مجید ہے (روح) جیسا کہ سورة مائدہ کی اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے قدجآء کم من اللہ نور و کتب مبین (٥: ٥١) ” یعنی تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشن چیز آئی ہے اور وہ ایک کتاب واضح یعنی قرآن ہے “ (بیان القرآن) اس آیت میں جس کو نر کہا گیا ہے آگے اسی کو کتاب مبین کہا گیا، یہاں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ عطف تو تغائر کو چاہتا ہے لہٰذا نور اور کتاب ایک چیز نہیں ہو سکتے، اس لئے کہ تغائر عنوان کا کافی ہے اگرچہ مصداق اور معنون ایک ہی ہے (روح)- اور اگر نور سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس ہو، اور کتاب سے مراد قرآن مجید ہو تو یہ بھی صحیح ہے (روح) لیکن اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایسا نور محض ہونا ثابت نہیں ہوتا جو بشریت اور جسمانیت کے منافی ہو۔
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمْ بُرْہَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ نُوْرًا مُّبِيْنًا ١٧٤- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- بره - البُرْهَان : بيان للحجة، وهو فعلان مثل :- الرّجحان والثنیان، وقال بعضهم : هو مصدر بَرِهَ يَبْرَهُ : إذا ابیضّ ، ورجل أَبْرَهُ وامرأة بَرْهَاءُ ، وقوم بُرْهٌ ، وبَرَهْرَهَة «1» : شابة بيضاء .- والبُرْهَة : مدة من الزمان، فالبُرْهَان أوكد الأدلّة، وهو الذي يقتضي الصدق أبدا لا محالة، وذلک أنّ الأدلة خمسة أضرب :- دلالة تقتضي الصدق أبدا .- ودلالة تقتضي الکذب أبدا .- ودلالة إلى الصدق أقرب .- ودلالة إلى الکذب أقرب .- ودلالة هي إليهما سواء .- قال تعالی: قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة 111] ، قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء 24] ، قَدْ جاءَكُمْ بُرْهانٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ النساء 174] .- ( ب ر ہ ) البرھان - کے معنی دلیل اور حجت کے ہیں اور یہ ( رحجان وثنیان کی طرح فعلان کے وزن پر ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ برہ یبرہ کا مصدر ہے جس کے معنی سفید اور چمکنے کے ہیں صفت ابرہ مونث برھاء ج برۃ اور نوجوان سپید رنگ حسینہ کو برھۃ کہا جاتا ہے البرھۃ وقت کا کچھ حصہ لیکن برھان دلیل قاطع کو کہتے ہیں جو تمام دلائل سے زدر دار ہو اور ہر حال میں ہمیشہ سچی ہو اس لئے کہ دلیل کی پانچ قسمیں ہیں ۔ ( 1 ) وہ جو شخص صدق کی مقتضی ہو ( 2 ) وہ جو ہمیشہ کذب کی مقتضی ہو ۔ ( 3) وہ جو اقرب الی الصدق ہو ( 4 ) جو کذب کے زیادہ قریب ہو ( 5 ) وہ جو اقتضاء صدق وکذب میں مساوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة 111] اے پیغمبر ان سے ) کہدو کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء 24] کہو کہ اس بات پر ) اپنی دلیل پیش کرویہ ( میری اور ) میرے ساتھ والوں کی کتاب بھی ہے - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - نور ( روشنی)- النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122]- ( ن و ر ) النور - ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔- اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔- نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول - جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی - دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔
آیت ١٧٤ (یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ کُمْ بُرْہَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ ) - یہ قرآن مجید اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں کی طرف اشارہ ہے۔ قرآن اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مل کر برہان ہوں گے۔ تعارف قرآن کے دوران ذکر ہوچکا ہے کہ کتاب اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مل کر بیّنہ بنتے ہیں ‘ جیسا کہ سورة البیّنہ (آیات ١ تا ٣) میں ارشاد ہوا ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں اسی بیّنہکو برہان کہا گیا ہے۔- یہاں چونکہ نور کے ساتھ لفظ انزال آیا ہے اس لیے اس سے مراد لازماً قرآن مجید ہی ہے۔