20۔ 1 خود طلاق دینے کی صورت میں حق مہر واپس لینے سے نہایت سختی سے روک دیا گیا ہے، یعنی کتنا بھی حق مہر دیا ہو واپس نہیں لے سکتے۔ اگر ایسا کرو گے تو یہ ظلم (بہتان) اور کھلا گناہ ہے۔
[٣٥] خطلاق دیتے وقت عورت سے مال ہتھیانے کی کوشش :۔ یہاں دینے سے مراد صرف حق مہر نہیں۔ اس کے علاوہ بھی جو کچھ تم اپنی بیویوں کو دے چکے ہو۔ وہ ہرگز واپس نہ لینا چاہیے۔ بیوی کا تو خیر حق بھی ہوتا ہے۔ انسان اگر کسی دوسرے شخص کو کوئی چیز دے تو پھر اسے وہ واپس نہیں لینی چاہیے۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اپنے صدقہ (اور دوسری روایت کے مطابق اپنے ہبہ) کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے۔ (بخاری، کتاب الہبہ، باب ھبۃ الرجل لامراتہ والمرأۃ لزوجھا) - اور یہ بہتان اور صریح گناہ اس لحاظ سے ہے کہ نکاح کے وقت تم نے بھری مجلس میں گواہوں کے سامنے حق مہر کی ادائیگی کا اقرار کیا تھا۔ لہذا عورت سے پورا حق مہر یا اس کا کچھ حصہ یا ہبہ کردہ چیز واپس لینا یا واپس لینے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنا بدترین جرم ہے بلکہ اللہ کا حکم تو یہ ہے کہ اگر تم انہیں طلاق دیتے ہو تو طلاق دیتے وقت انہیں مزید کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کرو۔ چہ جائیکہ تم پہلے دیئے ہوئے میں سے بھی کچھ لینے کی کوشش کرو۔ (نیز اس سلسلہ میں اسی سورت کا حاشیہ نمبر ٧ ملاحظہ فرمائیے)
وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ ۔۔ : یہ عورتوں سے متعلق چوتھا حکم ہے۔ جب پہلی آیات میں بیان فرمایا کہ اگر صحیح طریقے سے ساتھ نہ رہنے کی وجہ عورت کی جانب سے ہو تو مہر واپس لینے کے لیے اسے تنگ کرنا جائز ہے، یہاں بتایا کہ جب زیادتی شوہر کی جانب سے ہو تو پھر عورت سے فدیۂ طلاق لینا ممنوع اور حرام ہے۔ یعنی بلاوجہ تنگ کر کے ان سے مہر واپس لو گے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی بہتان باندھ کر مہر واپس لے رہا ہے اور اس صورت میں تم ان پر دوہرا ظلم کرو گے، ایک بلاوجہ تنگ کرنا اور دوسرا مہر واپس لینا، اس لیے اسے ” اثما مبینا “ فرمایا۔ - وَّاٰتَيْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ مہر کی کوئی حد معین نہیں ہے خاوند اپنی حیثیت کے مطابق جتنا مہر دینا چاہے دے سکتا ہے اس مقام پر امیر المومنین عمر بن خطاب (رض) کے مہر زیادہ رکھنے سے منع کرنے پر ایک عورت کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے جس نے زیادہ مہر کے جواز کے لیے یہ آیت پڑھی تو عمر (رض) نے فرمایا کہ عمر سے ہر شخص زیادہ سمجھ دار ہے۔ اور اس سے کئی دشمنان صحابہ عمر (رض) پر طعن کرتے ہیں۔ عورت کا واقعہ کسی صحیح سند سے ثابت نہیں تفصیل کے لیے دیکھیں ارواء الغلیل (١٩٢٧)- وَكَيْفَ تَاْخُذُوْنَهٗ وَقَدْ اَفْضٰى ۔۔ : اس سے معلوم ہوا کہ جماع کے بعد دیا ہوا مہر واپس نہیں ہوسکتا۔ چناچہ آپ نے لعان کرنے والے مرد کے مہر واپس لینے کے مطالبے پر فرمایا تھا : ” اگر تم نے اپنی بیوی پر زنا کی بات سچ کہی ہے تو مہر اس کے عوض ہے جو تم نے اس کی شرمگاہ اپنے لیے حلال کی اور اگر اس پر جھوٹ کہا ہے تو پھر تو (مہر کی واپسی) زیادہ ہی بعید ہے۔ “ [ بخاری، الطلاق، باب قول الإمام للمتلاعنین۔۔ ٥٣١٢۔ مسلم : ٥؍١٤٩٣، عن ابن عمر ]- وَّاَخَذْنَ مِنْكُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا : ” پختہ عہد “ سے مراد عقد نکاح ہے، یعنی تمہارا یہ کہنا کہ میں نے فلاں عورت سے نکاح قبول کیا۔ اب طلاق کی صورت میں دو ہی راستے میں ( فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ۭ ) [ البقرہ : ٢٢٩ ] ” اور ظاہر ہے کہ طلاق دے کر مہر نہ دینا ان دونوں میں سے ایک بھی نہیں۔ “
اگلی دو آیتوں میں بھی اسی مضمون کا تفصیلی بیان ہے، ارشاد ہے کہ جب عورت کی طرف سے کوئی سرکشی یا بےحیائی کا کام سر زد نہ ہو، مگر شوہر محض اپنی طبعی خواہش اور خوشی کے لئے موجودہ بیوی کو چھوڑ کر دوسری شادی کرنا چاہتا ہے، تو اس صورت میں اگر وہ ڈھیروں مال بھی اس کو دے چکا ہے اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ اس سے دیئے ہوئے مال کا کوئی حصہ طلاق کے معاوضہ میں واپس لے یا واجب الادا مہر کو معاف کرائے کیونکہ عورت کا کوئی قصور نہیں اور جس سبب سے مہر واجب ہوتا ہے وہ سبب بھی پورا ہوچکا ہے، یعنی عقد نکاح بھی ہوگیا اور دونوں آپس میں بےحجابانہ مل بھی چکے ہیں تو اب دیا ہوا مال واپس لینے یا واجب الادا مہر کے معاف کرانے کا اس کو کوئی حق نہیں ہے۔- اس کے بعداس رقم کی واپسی کے ظلم و گنا ہونے کو ین مرحلوں میں بیان فرمایا گیا اول فرمایا اتاخذونہ بھتاتا و اثما مبینا ” یعنی کیا تم یہ چاہتے ہو کہ بیوی پر زنا وغیرہ کے بہتان لگانے کا کھلا گناہ کر کے اپنا مال واپس لینے کا راستہ نکالو “ یعنی جب یہ معلوم ہوچکا کہ دیا ہوا مال واپس لینا صرف اس وقت جائز ہے، جبکہ بیوی کسی ناشائستہ حرکت کی مرتکب ہو، تو اب اس سے مال واپس لینا درحقیقت اس کا اعلان کرنا ہے کہ اس نے کوئی ناشائستہ حرکت بےحیائی وغیرہ کی ہے، خواہ زبان سے اس پر تہمت زنا کی لگائے یا نہ لگائے، بہرحال یہ ایک صورت تہمت اور بہتان کی ہے جس کا اثم مبین یعنی کھلا گناہ عظیم ہونا ظاہر ہے۔
وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ ٠ ۙ وَّاٰتَيْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْہُ شَـيْـــًٔـا ٠ ۭ اَتَاْخُذُوْنَہٗ بُھْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا ٢٠- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - بدل - الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] - ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال - کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ - زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ- [ البقرة 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة .- ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔- قنطار - ( القناطیر) ، جمع القنطار، قيل النون فيه أصليّة فوزنه فعلال بکسر الفاء، وقیل هي زائدة لأنه من قطر يقطر باب نصر إذا جری، فالفضّة والذهب يشبّهان بالماء في الکثرة وسرعة التقلّب، وعلی هذا فوزنه فنعال . واختلف في وزن القنطار قدیما وحدیثا ولکنّ الغالب أنه مائة رطل .( المقنطرة) ، اسم مفعول من قنطر الرباعيّ ، وزنه مفعللة بضمّ المیم وفتح اللامین .- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- بهت - قال اللہ عزّ وجل : فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ [ البقرة 258] ، أي : دهش وتحيّر، وقد بَهَتَهُ.- قال عزّ وجل : هذا بُهْتانٌ عَظِيمٌ [ النور 16] أي : كذب يبهت سامعه لفظاعته . قال تعالی: وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ [ الممتحنة 12] ، كناية عن الزنا «2» ، وقیل : بل ذلک لکل فعل مستبشع يتعاطینه بالید والرّجل من تناول ما لا يجوز والمشي إلى ما يقبح، ويقال : جاء بالبَهِيتَةِ ، أي : بالکذب .- ( ب ھ ت ) بھت ( س ) حیران وششدرہ جانا نا سے مبہوث کردیا : قرآن میں ہے فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ [ البقرة 258] یہ سن کر کافر حیران رہ گیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ هذا بُهْتانٌ عَظِيمٌ [ النور 16] یہ تو ( بہت ) بڑا بہتان ہے ۔ میں بہتان کے معنی ایسے الزام کے ہیں جسے سن کر انسان ششد ر و حیرانوی جائے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ [ الممتحنة 12] نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی ۔ میں بہتان زنا سے کنایہ ہے ۔ بعض نے کہا ہے نہیں بلکہ اس سے ہر وہ عمل شنیع مراد ہے جسے ہا اور پاؤں سے سر انجام دیا جائے ۔ مثلا ہاتھ سے کسی نادا چیز کو پکڑنا یا کسی عمل شنیع کا ارتکاب کرنے کے لئے اس کی طرف چل کر جانا اس نے جھوٹ بولا ۔- إثم - الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات .- ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔
قول باری ہے (فان کرھتموھن فعسی ان تکرھواشیئا ویجعل اللہ فیہ خیرا کثیر، اگر تمہیں وہ بری لگیں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں بری لگے اور اللہ نے اس میں بڑی بھلائی رکھ دی ہو۔- اس میں یہ دلالت ہے کہ شوہر کو اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ وہ بیوی کو ناپسند کرنے کے باوجودا سے عقدزوجیت میں باقی رکھے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اس معنی میں روایت ہے جسے ہمیں محمد بن ب کرنے بیان کیا، انہیں ابوداؤدنے، انہیں کثیر بن عبدنے انہیں محمد بن خالد نے معروف بن واصل سے، انہوں نے محارب بن وثار سے، انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ (البغض الحلال الی اللہ تعالیٰ الطلاق، اللہ کے نزدیک تمام حلال اور جائز باتوں میں طلاق سب سے زیادہ مبغوض اور ناپسند دید ہ ہے۔ )- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں محمد بن خالدبن یزید النیلی نے، انہیں مہلب بن علاء نے انہیں شعیب بن بیان نے عمران القطان سے انہوں نے قتادہ سے انہوں نے ابوتمیمہ الھجیمی سے، انہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ (تزوجواولاتطلقوافان اللہ لایحب الذواقین والزواقات، شادیاں کرو لیکن طلاقیں نہ دوکیون کہ اللہ تعالیٰ ذواقین اور ذواقات کو پسند نہیں کرتا) ۔ ایسے مرد اور ایسی عورتیں جو گھربسانے کی خاطررشتہ ازدواج میں منسلک نہیں ہوتے بلکہ صرف چسکالینے کی خاطرنئی شادیاں کرنے اور طلاقیں دینے کو اپناوطیرہ بنالیتے ہیں۔ حدیث میں ان کا ذک رہے۔ ذواق، اس شخص کو کہا جاتا ہے جسے مختلف چیزیں چکھنے کی بڑی عادت ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد آیت زیربحث کے مدلول کے عین مطابق ہے۔ یعنی طلاق ناپسندیدہ چیز ہے اور بیوی کو ناپسند کرنے کے باوجود اسے عقدزوجیت میں معروف طریقے سے باقی رکھناپسندیدہ ام رہے اور اس کی نزغیب دی گئی ہے۔- اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیاہی کہ بعض دفعہ ایک ناپسندیدہ اور ناگوارچیز کے اندر بھلائی پوشیدہ ہوتی ہے۔ چناچہ ارشاد ہوا (وعسیٰ ان تکرھو اشیئاوھوخیرلکم وعسیٰ ان تحبواشیئا وھوشرلکم ، عین ممکن ہے کہ ایک چیز تمہیں ناپسند ہو اور اس میں تمہارے لیے بھلائی پوشیدہ ہو اور عین ممکن ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور اس میں تمہارے لیے برائی پوشیدہ ہو۔ قول باری ہے (وان اردتم استبدال زوج مکان زوج واتیتم احداھن قنطارافلاخذوامنہ شیئا، اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لاناچاہو اور تم نے ان میں سے ایک کو ڈھیرسامال دے رکھا ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو) ۔- اس آیت کا مقتضیٰ ہے کہ مہر میں عورت کو جو کچھ دیاجائے اسے پوری طرح اس کی ملکیت میں دے دیاجاناواجب ہے اور شوہر کے لیے اس بات کی ممانعت ہے کہ دی ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز اس سے واپس لے لے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ یہ چیزیں اب اسکی ملکیت ہیں خواہ وہ اسے عقدزوجیت میں باقی رکھے یا اس کی جگہ کوئی اور کرلے۔ اور اب اس کے لیے اس میں سے کوئی چیز لینا ممنوع ہے۔- اب یہ غیر کا مال ہے اور اللہ تعالیٰ نے غیر کا مال حاصل کرنے کا جو طریقہ جائز کردیا ہے اس کے ذریعے ہی وہ اس مال میں سے کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ جائز طریقے کے متعلق ارشاد باری ہے (الاان تکون تجارۃ عن تراض منکم، بجز اس کے کہ باہمی رضامندی سے تجارت کی کوئی صورت ہو) ظاہر آیت اس بات کا مقتضی ہے کہ بیوی کے ساتھ خلوت میسر آجانے کے بعد مہر میں سے کوئی حصہ واپس لینا ممنوع ہے۔ اس لیے آیت سے اس مسئلے پر استدلال ہوسکتا ہے کہ خلوت میسرآجانے کے بعد اگر شوہر اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے تو اسے مہر کی پوری رقم اداکرنا ہوگی۔ اس لیے کہ لفظ کا عموم ہر صورت میں مہر میں سے کسی حصے کو واپس لینے کی ممانعت میں دلالت کرتا ہے صرف وہ صورت اس سے مستثنیٰ ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے تخصیص کردی ہے (وان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن وقد فرضتم لھن فریضۃ فنصف مافرضتم، اور جب تم انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو ۔ رانحالی کہ تم نے ان کے لیے مہر کی رقم مقررکردی ہو تو اس مقررہ شدہ رقم کا نصف انہیں اداکرو) یہ آیت خلوت سے قبل طلاق دے دینے پر نصف مہر کے سقوط کو واجب کرتی ہے۔ اس لیے کہ اس پر سب کا تفاق ہے۔ کہ یہاں آیت میں مراد وہ صورت ہے جب شوہر اپنی منکو حہ کو خلوت میسر آنے سے پہلے ہی طلاق دے دے۔- البتہ خلوت کے مفہوم کے تعین میں اختلاف رائے ہے آیا آیت میں اس سے مراد ہاتھ لگانا ہے یاہمبستری کرنا ہے۔ لفظ میں دونوں معافی کا احتمال ہے۔ اس لیے کہ صحابہ کرام میں سے حضرت علی (رض) اور حضرت عمر (رض) وغیرھمانے اس سیمراد ہاتھ لگانالیا ہے۔ جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعو (رض) د نے اس کے معنی جماع کے کیئے ہیں اس لیے قول باری (فلاتاخذوامنہ شیئا) کے عموم کی تخصیص احتمال کی بناپر نہیں کی جاسکتی۔- قول باری (واتیتم احداھن قنطارا فلاتاخذوامنہ شیئا) کی اس پر دلالت ہورہی ہے۔ کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کوئی چیزہبہ کردے تواب اس کے لیئے اس سے رجوع کرنا جائز نہیں ہوگا اس لیے کہ یہ چیزاب اس کی دی ہوئی چیزوں کے ضمن میں آگئی اور لفظ کا عموم دی ہوئی اشیاء میں سے کسی بھی چیز کی واپسی کی ممانعت پر دلالت کرتا ہے۔ اس میں مہر اورغیر مہر میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔- اسی طرح آیت سے اس پر بھی استدلال ہوسکتا ہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی سے کسی رقم پر خلع کرلے اور وہ مہر کی رقم اسے پہلے دے چکاہو تو اب اس رقم کے کسی حصے کو وہ واپس نہیں لے سکتا خواہ مہرنقدی کی شکل میں ہو یا جنس کی صورت میں جیسا کہ اس مسئلے میں امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔ اسی طرح آیت سے اس مسئلے میں بھی استدلال کیا جاتا ہے۔ کہ ایک شخص اپنی بیوی کو ایک مدت کے لیے نان ونفقہ کے اخراجات پیشگی دے دیتا ہے لیکن مدت کے اختتام سے قبل ہی بیوی فوت ہوجاتی ہے تو اس کے لیے بیوی کی میراث میں سے کسی ایسی چیز کو واپس لینے کی اجازت نہیں ہوگی جو اس نے اسے دے رکھی ہو۔ کیونکہ لفظ ک عموم کا یہی تقاضا ہے۔ اس لیے کہ مذکورہ بالامسئلے میں اس بات کی گنجائش تھی کہ شوہر نے اس بیوی کی موت کے بعدا س کی جگہ کسی اور سے نکاح کرنے کا ارادہ کررکھا تھا اس بناپرظاہر لفظ اس صورت کو بھی شامل ہوجائے گا۔- اگریہ کہاجائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالاآیت کے فورا بعد فرمایا (وکیف تاخذونہ وقد افضیٰ بعضکم الی بعض، اور آخرتم اسے کس طرح لے لوگے جبکہ تم اپنی بیویوں سے لطف اندوز ہوچکے ہو) تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ خطاب کی ابتداء میں بیوی کی دیئے گئے جس مال کا ذکر ہے اس سے مراد مہ رہے کوئی اور چیز نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ مفہوم صرف مہر کے ساتھ خاص ہے۔- اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ اس بات میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ خطاب کا ابتدائی حصہ اسم کے تمام مدلول کو عام ہو اور پھر اس پر معطوف ہونے والے فقرے میں ایک حکم خاص ہو اس کی وجہ سے پہلے لفظ کی تخصیص لازم نہیں آتی اس کی نظائر کی ہم نے کئی مقامات پر نشاندہی کی ہے۔- یہ آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ جب شوہر کو بیوی کے ساتھ ہمبستری میسر آجائے اور پھر کسی معصیت یاعدم معصیت کی بناء پر عورت کی جانب سے علیحد گی ہوجائے تو اس صورت میں شوہر پر اس کے مہر کی ادائیگی واجب ہوجائے گی اور عورت کی جانب سے علیحد گی اس وجوب کو باطل نہیں کرے گی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بیوی کی جگہ دوسری عورت کو بیوی بنانے کی حالت میں پہلی کو دیئے ہوئے مال میں سے کسی چیز کو واپس لینے کی نہی فرمادی ہے۔ جبکہ واپس لینے کی نہی تمام صورتوں کے لیے ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے اس خیال کا ازالہ مقصود ہے کہ شاید دیئے ہوئے مال کی واپسی اس صورت میں جائز ہو جب کہ عورت اپنے جسم یعنی بضع کی خودمالک ہوجائے اور طلاق کی وجہ سے اس کے بضع پر شوہر کا حق ختم ہوجائے۔- اور اس طرح آنے والی دوسری عورت پہلی کی جگہ لے کر اس مہر کی زیادہ حق داربن جائے جو شوہر نے پہلی کو دیا تھا۔ اس خیال کے ازالے کی خاطر منصوص طریقے پر یہ فرمادیا گیا کہ اس صورت میں بھی واپس لینے کی ممانعت ہے۔ اور پھر ضمنی طورپرتمام صورتوں میں واپس لینے کی ممانعت کے عموم پر بھی دلالت ہوگئی اس لیے کہ جب اس صورت میں واپس لینے کی اجازت نہیں دی گئی جس میں اس کے بضع پر شوہر کا حق ختم ہوچکا ہے تو ان تمام صورتوں میں دیئے مال میں سے کوئی چیزواپس لینے کی ممانعت بطریق اولی ہوگی جبکہ ابھی بضع پر شوہر کا حق باقی ہو اور بیوی پر اس کا حق اس حق سیفالق ہوجوبیوی کو اپنی ذات پر حاصل ہے۔- اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کی واپسی کی ممانعت کو اور موکد بنانے کے لیے اس عمل کو بہتان کی طرح ظلم قراردیا۔ بہتان اس جھوٹ کو کہتے ہیں جس کے ذریعے مخاطب کو متجبر کرکے خاموش کردیاجاتا ہے۔ اور اس طرح اس پر غلبہ حاصل کرلیا جاتا ہے۔ یہ جھوٹ کی بدترین اور بھیانک ترین صورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بیوی کو دیئے ہوئے مال کی ناھق واپسی کے عمل کو برائی اور قباحت میں بہتان کے مشابہ قرار دے کر اس پر اثم اور بہتان کے لفظ کا اطلاق کیا۔
(٢٠۔ ٢١) اور اگر تم ایک کو طلاق دے کر دوسری سے شادی کرنا چاہتے ہو یا اس ایک کے ہوتے ہوئے ایک اور سے شادی کا ارادہ ہے اور تم نے اس پہلے والی کو مہر بھی دے دیا تو تم اس مہر میں سے ناجائز طور سے کچھ بھی مت لو اور یہ ناجائز طریقہ پر مہر وصول کرنا صریح ظلم ہے اور تم اس مہر کو کیوں جائز سمجھتے ہو جب ایک لحاف میں مہر اور نکاح کے ساتھ خلوت کرچکے ہو اور اللہ تعالیٰ عورتوں کے بارے میں تم سے ایک پختہ وعدہ لے چکا ہے کہ رکھو تو خوبی اور حسن معاشرت کے ساتھ رکھو ورنہ خوبی کے ساتھ چھوڑ دو ۔
آیت ٢٠ (وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّکَانَ زَوْجٍلا) - اگر تم نے فیصلہ کر ہی لیا ہو کہ ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانی ہے۔- (وَّاٰتَیْتُمْ اِحْدٰٹہُنَّ قِنْطَارًا) ( فَلاَ تَاْخُذُوْا مِنْہُ شَیْءًا ط) - عورتوں کو تم نے جو مہر دیا تھا وہ ان کا ہے ‘ اب اس میں سے کچھ واپس نہیں لے سکتے۔
17: اوپر یہ بتایا جاچکا ہے کہ عورتوں کو گلوخلاصی کے لئے اپنا مہر واپس کرنے پر مجبور کرنا صرف اس صورت میں جائز ہے جب انہوں نے کھلی بے حیائی کا ارتکاب کیا ہو۔ اب یہ فرمایا جارہا ہے کہ اگر تم ان سے مہر واپس کرنے کا مطالبہ کروگے تو یہ تمہاری طرف سے ان پر بہتان باندھنے کے مرادف ہوگا کہ انہوں نے کھلی بے حیائی کا ارتکاب کیا ہے، کیونکہ ان کو مہر کی واپسی پر مجبور کرنا اس صورت کے سوا کسی حالت میں جائز نہیں ہے۔