Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عورت پر ظلم کا خاتمہ صحیح بخاری میں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قبل اسلام جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کے وارث اس کی عورت کے پورے حقدار سمجھے جاتے اگر ان میں سے کوئی چاہتا تو اپنے نکاح میں لے لیتا اگر وہ چاہتے تو دوسرے کسی کے نکاح میں دے دیتے اگر چاہتے تو نکاح ہی نہ کرنے دیتے میکے والوں سے زیادہ اس عورت کے حقدار سسرال والے ہی گنے جاتے تھے جاہلیت کی اس رسم کے خلاف یہ آیت نازل ہوئی ، دوسری روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ وہ لوگ اس عورت کو مجبور کرتے کہ وہ مہر کے حق سے دست بردار ہو جائے یا یونہی بےنکاحی بیٹھی رہے ، یہ بھی مروی ہے کہ اس عورت کا خاوند مرتے ہی کوئی بھی آ کر اس پر اپنا کپڑا ڈال دیتا اور وہی اس کا مختار سمجھا جاتا ، تو روایت میں ہے کہ یہ کپڑا ڈالنے والا اسے حسین پاتا تو اپنے نکاح میں لے لیتا اگر یہ بدصورت ہوتی تو اسے یونہی روکے رکھتا یہاں تک کہ مر جائے پھر اس کے مال کا وارث بنتا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ مرنے والے کا کوئی گہرا دوست کپڑا ڈال دیتا پھر اگر وہ عورت کچھ فدیہ اور بدلہ دے تو وہ اسے نکاح کرنے کی اجازت دیتا ورنہ یونہی مر جاتی حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں اہل مدینہ کا یہ دستور تھا کہ وارث اس عورت کے بھی وارث بن جاتے غرض یہ لوگ عورتوں کے ساتھ بڑے بری طرح پیش آتے تھے یہاں تک کہ طلاق دیتے وقت بھی شرط کر لیتے تھے کہ جہاں میں چاہوں تیرا نکاح ہو اس طرح کی قید و بند سے رہائی پانے کی پھر یہ صورت ہوتی کہ وہ عورت کچھ دے کر جان چھڑاتی ، اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس سے منع فرما دیا ، ابن مردویہ میں ہے کہ جب ابو قیس بن اسلت کا انتقال ہوا تو ان کے بیٹے نے ان کی بیوی سے نکاح کرنا چاہا جیسے کہ جاہلیت میں یہ دستور تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ کسی بچے کی سنبھال پر اسے لگا دیتے تھے حضرت مجاہد فرماتے ہیں جب کوئی مر جاتا تو اس کا لڑکا اس کی بیوی کا زیادہ حقدار سمجھا جاتا اگر چاہتا خود اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کر لیتا اور اگر چاہتا دوسرے کے نکاح میں دے دیتا مثلاً بھائی کے بھتیجے یا جس کو چاہے ، حضرت عکرمہ کی روایت میں ہے کہ ابو قیس کی جس بیوی کا نام کبینہ تھا رضی اللہ عنہا اس نے اس صورت کی خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دی کہ یہ لوگ نہ مجھے وارثوں میں شمار کر کے میرے خاوند کا ورثہ دیتے ہیں نہ مجھے چھوڑتے ہیں کہ میں اور کہیں اپنا نکاح کر لوں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، ایک روایت میں ہے کہ کپڑا ڈالنے کی رسم سے پہلے ہی اگر کوئی عورت بھاگ کھڑی ہو اور اپنے میکے آجائے تو وہ چھوٹ جاتی تھی ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں جو یتیم بچی ان کی ولایت میں ہوتی اسے یہ روکے رکھتے تھے اس امید پر کہ جب ہماری بیوی مر جائے گی ہم اس سے نکاح کرلیں گے یا اپنے لڑکے سے اس کا نکاح کرا دیں گے ، ان سب اقوال سے معلوم ہوا کہ ان تمام صورتوں کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ممانعت کر دی اور عورتوں کی جان اس مصیبت سے چھڑا دی واللہ اعلم ۔ ارشاد ہے عورتوں کی بود و باش میں انہیں تنگ کر کے تکلیف دے دے کر مجبور نہ کرو کہ وہ اپنا سارا مہر چھوڑ دیں یا اس میں سے کچھ چھوڑ دیں یا اپنے کسی اور واجبی حق وغیرہ سے دست بردار ہونے پر آمادہ ہو جائیں کیونکہ انہیں ستایا اور مجبور کیا جا رہا ہے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ عورت ناپسند ہے دل نہیں ملا چھوڑ دینا چاہتا ہے تو اس صورت میں حق مہر کے علاوہ بھی وغیرہ تمام حقوق دینے پڑیں گے اس صورت حال سے بچنے کے لئے اسے ستانا یا طرح طرح سے تنگ کرنا تا کہ وہ خود اپنے حقوق چھوڑ کر چلے جانے پر آمادہ ہو جائے ایسا رویہ اختیار کرنے سے قرآن پاک نے مسلمانوں کو روک دیا ابن سلمانی فرماتے ہیں ان دونوں آیتوں میں سے پہلے آیت امر جاہلیت کو ختم کرنے اور دوسری امر اسلام کی اصلاح کے لئے نازل ہوئی ، ابن مبارک بھی یہی فرماتے ہیں ۔ مگر اس صورت میں کہ ان سے کھلی بےحیائی کا کام صادر ہو جائے ، اس سے مراد بقول اکثر مفسرین صحابہ تابعین وغیرہ زنا کاری ہے ، یعنی اس صورت میں جائز ہے کہ اس سے مہر لوٹا لینا چاہئے اور اسے تنگ کرے تا کہ خلع پر رضامند ہو ، جیسے سورۃ بقرہ کی آیت میں ہے آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَاۗءَ كَرْهًا ۭوَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ) 4 ۔ النسآء:19 ) یعنی تمہیں حلال نہیں کہ تم انہیں دیئے ہوئے میں سے کچھ بھی لے لو مگر اس حالت میں دونوں کو اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو ۔ بعض بزرگوں نے فرمایا ہے آیت ( فاحشتہ مبینتہ ) سے مراد خاوند کے خلاف کام کرنا اس کی نافرمانی کرنا بد زبانی کج خلقی کرنا حقوق زوجیت اچھی طرح ادا نہ کرنا وغیرہ ہے ، امام ابن جریر فرماتے ہیں آیت کے الفاظ عام ہیں زنا کو اور تمام مذکورہ عوامل بھی شامل ہیں یعنی ان تمام صورتوں میں خاوند کو مباح ہے کہ اسے تنگ کرے تا کہ وہ اپنا کل حق یا تھوڑا حق چھوڑ دے اور پھر یہ اسے الگ کر دے امام صاحب کا یہ فرمان بہت ہی مناسب ہے واللہ اعلم ، یہ روایت بھی پہلے گزر چکی ہے کہ یہاں اس آیت کے اترنے کا سبب وہی جاہلیت کی رسم ہے جس سے اللہ نے منع فرما دیا ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پورا بیان جاہلیت کی رسم کو اسلام میں سے خارج کرنے کے لئے ہوا ہے ، ابن زید فرماتے ہیں مکہ کے قریش میں یہ رواج تھا کہ کسی شخص نے کسی شریف عورت سے نکاح کیا موافقت نہ ہوئی تو اسے طلاق دے دی لیکن یہ شرط کر لیتا تھا کہ بغیر اس کی اجازت کے یہ دوسری جگہ نکاح نہیں کر سکتی اس بات پر گواہ مقرر ہو جاتے اور اقرار نامہ لکھ لیا جاتا اب اگر کہیں سے پیغام آئے اور وہ عورت اراضی ہو تو یہ کہتا مجھے اتنی رقم دے تو میں تجھے نکاح کی اجازت دوں گا اگر وہ ادا کر دیتی تو تو خیر ورنہ یوں نہ اسے قید رکھتا اور دوسرا نکاح نہ کرنے دیتا اس کی ممانعت اس آیت میں نازل ہوئی ، بقول مجاہد رحمتہ اللہ علیہ یہ حکم اور سورۃ بقرہ کی آیت کا حکم دونوں ایک ہی ہیں ۔ پھر فرمایا عورتوں کے ساتھ خوش سلوکی کا رویہ رکھو ان کے ساتھ اچھا برتاؤ برتو ، نرم بات کہو نیک سلوک کرو اپنی حالت بھی اپنی طاقت کے مطابق اچھی رکھو ، جیسے تم چاہتے ہو کہ وہ تمہارے لئے بنی سنوری ہوئی اچھی حالت میں رہے تم خود اپنی حالت بھی اچھی رکھو جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۠ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ) 2 ۔ البقرۃ:228 ) جیسے تمہارے حقوق ان پر ہیں ان کے حقوق بھی تم پر ہیں ۔ بہترین زوج محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم سب سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنی گھر والی کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کرنے والا ہو میں اپنی بیویوں سے بہت اچھا رویہ رکھتا ہوں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے ساتھ بہت لطف و خوشی بہت نرم اخلاقی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے ، انہیں خوش رکھتے تھے ان سے ہنسی دل لگی کی باتیں کیا کرتے تھے ، ان کے دل اپنی مٹھی میں رکھتے تھے ، انہیں اچھی طرح کھانے پینے کو دیتے تھے کشادہ دلی کے ساتھ ان پر خرچ کرتے تھے ایسی خوش طبعی کی باتیں بیان فرماتے جن سے وہ ہنس دیتیں ، ایسا بھی ہوا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ نے دوڑ لگائی اس دوڑ میں عائشہ صدیقہ آگے نکل گئیں کچھ مدت بعد پھر دوڑ لگی اب کے حضرت عائشہ پیچھے رہ گئیں تو آپ نے فرمایا معاملہ برابر ہو گیا ، اس سے بھی آپ کا مطلب یہ تھا کہ حضرت صدیقہ خوش رہیں ان کا دل بہلے جس بیوی صاحبہ کے ہاں آپ کو رات گزارنی ہوتی وہیں آپ کی کل بیویاں جمع ہو جاتیں دو گھڑی بیٹھتیں بات چیت ہوتی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ان سب کے ساتھ ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم رات کا کھانا تناول فرماتے پھر سب اپنے اپنے گھر چلی جاتیں اور آپ وہیں آرام فرماتے جن کی باری ہوتی ، اپنی بیوی صاحبہ کے ساتھ ایک ہی چادر میں سوتے کرتا نکال ڈالتے صرف تہبند بندھا ہوا ہوتا عشاء کی نماز کے بعد گھر جا کر دو گھڑی ادھر ادھر کی کچھ باتیں کرتے جس سے گھر والیوں کا جی خوش ہوتا الغرض نہایت ہی محبت پیار کے ساتھ اپنی بیویوں کو آپ رکھتے تھے ۔ صلی اللہ علیہ وسلم پس مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھی طرح راضی خوشی محبت پیار سے رہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فرماں برداری کا دوسرا نام اچھائی ہے ، اس کے تفصیلی احکام کی جگہ تفسیر نہیں بلکہ اسی مضمون کی کتابیں ہیں والحمد للہ پھر فرماتا ہے کہ باوجود جی نہ چاہنے کے بھی عورتوں سے اچھی بود و باش رکھنے میں بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت بڑی بھلائی عطا فرمائے ، ممکن ہے نیک اولاد ہو جائے اور اس سے اللہ تعالیٰ بہت سی بھلائیاں نصیب کرے ، صحیح حدیث میں ہے مومن مرد مومنہ عورت کو الگ نہ کرے اگر اس کی ایک آدھ بات سے ناراض ہو گا تو ایک آدھ خصلت اچھی بھی ہو گی ۔ پھر فرماتا ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے اور اس کی جگہ دوسری عورت سے نکاح کرنا چاہے تو اسے دئے ہوئے مہر میں سے کچھ بھی واپس نہ لے چاہے خزانہ کا خزانہ دیا ہوا ہو ۔ حق مہر کے مسائل سورئہ آل عمران کی تفسیر میں قنطار کا پورا بیان گزر چکا ہے اس لئے یہاں دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مہر میں بہت سارا مال دینا بھی جائز ہے ، امیر المومنین حضرت عمر فاروق نے پہلے بہت لمبے چوڑے مہر سے منع فرما دیا تھا پھر اپنے قول سے رجوع کیا ، جیسے کہ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا عورتوں کے مہر باندھنے میں زیادتی نہ کرو اگر یہ دنیوی طور پر کوئی بھی چیز ہوتی یا اللہ کے نزدیک یہ تقوی کی چیز ہوتی تو تم سب سے پہلے اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عمل کرتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی کا یا کسی بیٹی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ مقرر نہیں کیا ( تقریباً سوا سو روپیہ ) انسان زیادہ مہر باندھ کر پھر مصیبت میں پڑ جاتا ہے یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اس کی بیوی اسے بوجھ معلوم ہونے لگتی ہے اور اس کے دل میں اس کی دشمنی بیٹھ جاتی ہے اور کہنے لگتا ہے کہ تو نے تو میرے کندھے پر مشک لٹکا دی ، یہ حدیث بہت سی کتابوں میں مختلف الفاظ سے مروی ہے ایک میں ہے کہ آپ نے منبر نبوی پر کھڑے ہو کر فرمایا لوگو تم نے کیوں لمبے چوڑے مہر باندھنے شروع کر دئے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے زمانہ کے آپ کے اصحاب نے تو چار سو درہم ( تقریباً سو روپیہ ) مہر باندھا ہے اگر یہ تقویٰ اور کرامت کے زاد ہونے کا سبب ہوتا تو تم زیادہ حق مہر ادا کرنے میں بھی ان پر سبقت نہیں لے سکتے تھے خبردار آج سے میں نہ سنوں کہ کسی نے چار سو درہم سے زیادہ کا مہر مقرر کیا یہ فرما کر آپ نیچے اتر آئے تو ایک قریشی خاتون سامنے آئیں اور کہنے لگیژں امیر المومنین کیا آپ نے چار سو درہم سے زیادہ کے حق مہر سے لوگوں کو منع فرما دیا ہے ۔ آپ نے فرمایا ہاں کہا کیا آپ نے اللہ کا کلام جو اس نے نازل فرمایا ہے نہیں سنا ؟ کہا وہ کیا ؟ کہا سنئیے اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَّاٰتَيْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَـيْـــًٔـا ۭ اَتَاْخُذُوْنَهٗ بُھْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا ) 4 ۔ النسآء:20 ) تم نے انہیں خزانہ دیا ہو حضرت عمر؟ نے فرمایا اللہ مجھے معاف فرما عمر سے تو ہر شخص زیادہ سمجھدار ہے پھر واپس اسی وقت منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں سے فرمایا لوگو میں نے تمہیں چار سو درہم سے زیادہ کے مہر سے روک دیا تھا لیکن اب کہتا ہوں جو شخص اپنے مال میں سے مہر میں جتنا چاہے دے اپنی خوشی سے جتنا مہر مقرر کرنا چاہے کرے میں نہیں روکتا ، اور ایک روایت میں اس عورت کا آیت کو اس طرح پڑھنا مروی ہے آیت ( وَّاٰتَيْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَـيْـــًٔـا ) 4 ۔ النسآء:20 ) ( من ذہب ) حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرأت میں بھی اسی طرح ہے اور حضرت عمر کا یہ فرمانا بھی مروی ہے کہ ایک عورت عمر پر غالب آ گئی اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تھا گوذی القصہ یعنی یزیدین حصین حارثی کی بیٹی ہو پھر بھی مہر اس کا زیادہ مقرر نہ کرو اور اگر تم نے ایسا کیا تو وہ زائد رقم میں بیت المال کے لئے لے لوں گا اس پر ایک دراز قد چوڑی ناک والی عورت نے کہا حضرت آپ یہ حکم نہیں دے سکتے ۔ پھر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تم اپنی بیوی کو دیا ہوا حق مہر واپس کیسے لے سکتے ہو؟ جبکہ تم نے اس سے فائدہ اٹھایا یا ضرورت پوری کی وہ تم سے اور تم اس سے مل گئی یعنی میاں بیوی کے تعلقات بھی قائم ہو گئے ، بخاری و مسلم کی اس حدیث میں ہے ایک شخص نے اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگایا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا ۔ بیوی نے بھی اپنے بےگناہ ہونے شوہر نے اپنے سچا ہونے کی قسم کھائی پھر ان دونوں کا قسمیں کھانا اور اس کے بعد آپ کا یہ فرمان کہ اللہ تعالیٰ کو بخوبی علم ہے کہ تم دونوں میں سے کون جھوٹا ہے؟ کیا تم میں سے کوئی اب بھی توبہ کرتا ہے؟ تین دفعہ فرمایا تو اس مرد نے کہا میں نے جو مال اس کے مہر میں دیا ہے اس کی بابت کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اسی کے بدلے تو یہ تیرے لئے حلال ہوئی تھیں اب اگر تو نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی ہے تو پھر اور ناممکن بات ہو گی اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت نفرہ نے ایک کنواری لڑکی سے نکاح کیا جب اس سے ملے تو دیکھا کہ اسے زنا کا حمل ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ نے اسے الگ کرا دیا اور مہر دلوا دیا اور عورت کو کوڑے مارنے کا حکم دیا اور فرمایا جو بچہ ہوگا وہ تیرا غلام ہوگا اور مہر تو اس کی حلت کا سبب تھا ( ابوداؤد ) غرض آیت کا مطلب بھی یہی ہے کہ عورت اس کے بیٹے پر حرام ہو جاتی ہے اس پر اجماع ہے ، حضرت ابو قیس نے ان کی بیوی سے نکاح کی خواہش کی جو ان کی سوتیلی ماں تھیں اس پر اس بیوی صاحبہ نے فرمایا بیشک تو اپنی قوم میں نیک ہے لیکن میں تو تجھے اپنا بیٹا شمار کرتی ہوں خیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتی ہوں جو وہ حکم فرمائیں وہ حاضر ہوئیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری کیفیت بیان کی آپ نے فرمایا اپنے گھر لوٹ جاؤ پھر یہ آیت اتری کہ جس سے باپ نے نکاح کیا اس سے بیٹے کا نکاح حرام ہے ، ایسے واقعات اور بھی اس وقت موجود تھے جنہیں اس ارادے سے باز رکھا گیا ایک تو یہی ابو قیس والا واقعہ ان بیوی صاحبہ کا نام ام عبید اللہ ضمرہ تھا دوسرا واقعہ خلف کا تھا ان کے گھر میں ابو طلحہ کی صاحبزادی تھیں اس کے انتقال کے بعد اس کے لڑکے صفوان نے اسے اپنے نکاح میں لانا چاہا تھا سہیلی میں لکھا ہے جاہلیت میں اس نکاح کا معمول تھا جسے باقاعدہ نکاح سمجھا جاتا تھا اور بالکل حلال گنا جاتا تھا اسی لئے یہاں بھی فرمایا گیا کہ جو پہلے گزر چکا سو گزر چکا ، جیسے دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنے کی حرمت کو بیان فرما کر بھی یہی کیا گیا کنانہ بن خزیمہ نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کیا تھا نصر اسی کے بطن سے پیدا ہوا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری اوپر کی نسل بھی باقاعدہ نکاح سے ہی ہے نہ کہ زنا سے تو معلوم ہوا کہ یہ رسم ان میں برابر جاری تھی اور جائز تھی اور اسے نکاح شمار کرتے تھے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جاہلیت والے بھی جن جن رشتوں کو اللہ نے حرام کیا ہے ، سوتیلی ماں اور دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنے کے سوا سب کو حرام ہی جانتے تھے پس اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں ان دونوں رشتوں کو بھی حرام ٹھہرایا حضرت عطا اور حضرت قتادہ بھی یہی فرماتے ہیں یاد رہے کہ سہیلی نے کنانہ کا جو واقعہ نقل کیا ہے وہ غور طلب ہے بالکل صحیح نہیں ، واللہ اعلم ۔ بہر صورت یہ رشتہ امت مسلمہ پر حرام ہے اور نہایت قبیح امر ہے ۔ یہاں تک کہ فرمایا یہ نہایت فحش برا کام بغض کا ہے ۔ دونوں میاں بیوی میں خلوت و صحبت ہو چکی ہے پھر مہر واپس لینا کیا معنی رکھتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ عقد نکاح جو مضبوط عہد و پیمان ہے اس میں تم جکڑے جا چکے ہو ، اللہ کا یہ فرمان تم سن چکے ہو کہ بساؤ تو اچھی طرح اور الگ کرو تو عمدہ طریقہ سے چنانچہ حدیث میں بھی ہے کہ تم ان عورتوں کو اللہ کی امانت کے طور پہ لیتے ہو اور ان کو اپنے لئے اللہ تعالیٰ کا کلمہ پڑھ کر یعنی نکاح کے خطبہ تشہد سے حلال کرتے ہو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج والی رات جب بہترین انعامات عطا ہوئے ، ان میں ایک یہ بھی تھا کہ آپ سے فرمایا گیا تیری امت کا کوئی خطبہ جائز نہیں جب تک وہ اس امر کی گواہی نہ دیں کہ تو میرا بندہ اور میرا رسول ہے ( ابن ابی حاتم ) نکاح کے احکامات صحیح مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجتہ الوداع کے خطبہ میں فرمایا تم نے عورتوں کو اللہ کی امانت کے طور پہ لیا ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے کلمہ سے اپنے لئے حلال کیا ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ سوتیلی ماؤں کی حرمت بیان فرماتا ہے اور ان کی تعظیم اور توقیر ظاہر کرتا ہے یہاں تک کہ باپ نے کسی عورت سے صرف نکاح کیا ابھی وہ رخصت ہو کر بھی نہیں آئی مگر طلاق ہو گئی یا باپ مر گیا وغیرہ تو بھی وہ سبب اور برا راستہ ہے اور جگہ فرما ہے آیت ( وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ) 6 ۔ الانعام:151 ) یعنی کسی برائی بےحیائی اور فحش کام کے قریب بھی نہ جاؤ یا وہ بالکل ظاہر ہو خواہ پوشیدہ ہو اور فرمان ہے آیت ( وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا ) 17 ۔ الاسراء:32 ) زنا کے قریب نہ جاؤ یقینا وہ فحش کام اور بری راہ ہے یہاں مزید فرمایا کہ یہ کام بڑے بغض کا بھی ہے یعنی فی نفسہ بھی بڑا برا امر ہے اس سے باپ بیٹے میں عداوت پڑ جاتی ہے اور دشمنی قائم ہو جاتی ہے ، یہی مشاہدہ میں آیا ہے اور عموماً یہ بھی لکھا گیا ہے کہ جو شخص کسی عورت سے دوسرا نکاح کرتا ہے وہ اس کے پہلے خاوند سے بغض ہی رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں امہات المومنین قرار دے گئیں اور امت پر مثل ماں کے حرام کی گئیں کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں اور آپ مثل باپ کے ہیں ، بلکہ اجماعاً ثابت ہے کہ آپ کے حق باپ دادا کے حقوق سے بھی بہت زیادہ اور بہت بڑے ہیں بلکہ آپ کی محبت خود اپنی جانوں کی محبت پر بھی مقدم ہے صلوات اللہ وسلامہ علیہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ کام اللہ کے بغض کا موجب ہے اور برا راستہ ہے اب جو ایسا کام کرے وہ دین سے مرتد ہے اسے قتل کر دیا جائے اور اس کا مال بیت المال میں بطور فے کے داخل کر لیا جائے ، سنن اور مسند احمد میں مروی ہے کہ ایک صحابی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی طرف بھیجا جس نے اپنے باپ کی بیوی سے باپ کے بعد نکاح کیا تھا کہ اسے قتل کر ڈالو اور اس کے مال پر قبضہ کر لو ، حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ میرے چچا حارث بن عمیر اپنے ہاتھ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا جھنڈا لے کر میرے پاس سے گزرے میں نے پوچھا کہ چچا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کہاں بھیجا ہے؟ فرمایا اس شخص کی طرف جس نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کیا ہے مجھے حکم ہے کہ میں اس کی گردن ماروں ( مسند احمد ) سوتیلی ماں سے نکاح حرام ہے مسئلہ اس پر تو علماء کا اجماع ہے کہ جس عورت سے باپ نے مباشرت کر لی خواہ نکاح کر کے خواہ ملکیت میں لا کر خواہ شبہ سے وہ عورت بیٹے پر حرام ہے ، ہاں اگر جماع نہ ہوا ہو تو صرف مباشرت ہوئی ہو یا وہ اعضاء دیکھے ہوں جن کا دیکھنا اجنبی ہونے کی صورت میں حلال نہ تھا تو اس میں اختلاف ہے امام احمد تو اس صورت میں بھی اس عورت کو لڑکے پر حرام بتاتے ہیں ، حافظ ابن عساکر کے اس واقعہ سے بھی اس روایت کی تصدیق ہوتی ہے کہ حضرت خدیج حمصی نے جو حضرت معاویہ کے مولی تھے حضرت معاویہ کے لئے ایک لونڈی خریدی جو گورے رنگ کی اور خوبصورت تھی اسے برہنہ ان کے پاس بھیج دیا ان کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی اس سے اشارہ کر کے کہنے لگے اچھا نفع تھا اگر یہ ملبوس ہوتی پھر کہنے لگے اسے یزید بن معاویہ کے پاس لے جاؤ پھر کہا نہیں نہیں ٹھہرو ربیعہ بن عمرو حرسی کو میرے پاس بلا لاؤ یہ بڑے فقیہ تھے جب آئے تو حضرت معاویہ نے ان سے یہ مسئلہ پوچھا کہ میں نے اس عورت کے یہ اعضاء مخصوص دیکھے ہیں ، یہ برہنہ تھی ۔ اب میں اسے اپنے لڑکے یزید کے پاس بھیجنا چاہتا ہوں تو کیا اس کے لئے یہ حلال ہے؟ حضرت ربیعہ نے فرمایا امیر المومنین ایسا نہ کیجئے یہ اس کے قابل نہیں رہی فرمایا تم ٹھیک کہتے ہو اچھا جاؤ عبداللہ بن مسعدہ فزاری کو بلا لاؤ وہ آئے وہ تو گندم گوں رنگ کے تھے اس سے حضرت معاویہ نے فرمایا اس لونڈی کو میں تمہیں دیتا ہوں تا کہ تمہاری اولاد سفید رنگ پیدا ہو یہ عبداللہ بن مسعدہ وہ ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو دیا تھا آپ نے انہیں پالا پرورش کیا پھر اللہ تعالیٰ کے نام سے آزاد کر دیا پھر یہ حضرت معاویہ کے پاس چلے آئے تھے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 اسلام سے قبل عورت پر ایک ظلم بھی ہوتا تھا کہ شوہر کے مرجانے کے بعد اس کے گھر کے لوگ اس کے مال کی طرح اس کی عورت کے بھی زبردستی وارث بن بیٹھتے تھے اور خود اپنی مرضی سے، اس کی رضامندی کے بغیر اس سے نکاح کرلیتے یا اپنے بھائی بھتیجے سے اس کا نکاح کردیتے، حتی کہ سوتیلا بیٹا تک بھی مرنے والے باپ کی عورت سے نکاح کرلیتا اور اگر چاہتے تو کسی اور جگہ نکاح نہ کرنے دیتے تھے۔ اور ساری عمر یونہی رہنے پر مجبور ہوتی اسلام نے ظلم کے ان تمام طریقوں سے منع فرمایا۔ 19۔ 2 ایک ظلم یہ بھی کیا جاتا تھا کہ اگر خاوند کو پسند نہ ہوتی اور وہ اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتا تو از خود اس کو طلاق نہ دیتا بلکہ اسے خوب تنگ کرتا تاکہ وہ مجبور ہو کر حق مہر جو خاوند نے اسے دیا ہوتا، از خود واپس کر کے اس سے خلاصی پانے کو ترجیح دیتی، اسلام نے اس حرکت کو بھی ظلم قرار دیا۔ 19۔ 3 کھلی برائی سے مراد بدکاری یا بدزبانی اور نافرمانی ہے ان دونوں صورتوں میں اجازت دی گئی ہے کہ خاوند اس کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرے کہ وہ اس کا دیا ہوا حق مہر واپس کرکے خلع کرانے پر مجبور ہوجائے، جیسا کہ خلع کی صورت میں حق مہر واپس لینے کا حق دیا گیا ہے (ملاحظہ ہو سورة بقرہ آیت نمبر 229) 19۔ 4 یہ بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کا وہ حکم ہے، جس کی قرآن نے بڑی تاکید کی ہے اور احادیث میں بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی بڑی وضاحت کی ہے کہ مومن مرد (شوہر (مومنہ عورت (بیوی) سے بغض نہ رکھے۔ اگر اس کی ایک عادت اسے پسند ہے تو اسکی دوسری عادت بھی پسندیدہ ہوگی، عورتوں پر ظلم کرنے اور بچوں کی زندگیاں خراب کرنے کے لئے۔ علاوہ ازیں اس طرح یہ اسلام کی بدنامی کا بھی باعث بنتے ہیں کہ اسلام نے مرد کو طلاق کا حق دے کر عورت پر ظلم کرنے کا اختیار اسے دے دیا۔ یوں یہ اسلام کی ایک بہت بڑی خوبی کو خرابی اور ظلم باور کرایا جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٢] جاہلیت میں عورت ترکہ کا مال تھا :۔ یعنی عورت بھی ترکہ کا مال تصور ہوتی تھی اور اس کا وارث سوتیلا بیٹا یا میت کا بھائی ہوتا تھا چناچہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ عربوں میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی شخص مرتا تو اس کی بیوی پر میت کے وارثوں کا زور چلتا تھا (وہ بھی ترکہ ہی تصور ہوتی تھی) چاہتے تو خود اس سے نکاح پڑھا لیتے، چاہتے تو کسی اور سے نکاح کردیتے اور چاہتے تو اسے بلانکاح ہی رہنے دیتے۔ غرض اس پر خاوند کے وارثوں کا اختیار تھا، عورت کے وارثوں کا کچھ بھی اختیار نہ تھا۔ پھر یہ آیت اتری (جس سے عورتوں کو پوری آزادی مل گئی۔ ) (بخاری، کتاب التفسیر)- [٣٣] یعنی انہیں گھر میں قید رکھنے کا اختیار صرف اس صورت میں ہے کہ بدکاری کا ارتکاب کریں۔ جیسا کہ اسی سورة کی آیت نمبر ١٥ میں گزر چکا ہے اور یہ حکم عام ہے۔ صرف ان سوتیلی ماؤں کے لیے نہیں جو تمہارے باپوں کے نکاح میں تھیں۔ ورنہ صرف مال ہتھیانے کے لیے عورتوں کو روکے رکھنا کسی صورت میں جائز نہیں۔- [٣٤] اپنی بیویوں سے حسن معاشرت کے سلسلہ میں درج ذیل ارشادات نبوی ملاحظہ فرمائیے :- خ ١۔ بیویوں سے حسن معاشرت :۔ آپ نے فرمایا۔ مومنوں میں سب سے کامل وہ شخص ہے۔ جس کے اخلاق اچھے ہوں اور تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں بہتر ہیں۔ (ترمذی، ابو اب الرضاع۔ باب حق المرأۃ علٰی زوجھا)- ٢۔ آپ نے (خطبہ حجتہ الوداع کے دوران) فرمایا۔ عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی ذمہ داری پر حاصل کیا ہے اور ان کی شر مگاہوں کو اللہ کے کلمہ کے ساتھ حلال کیا ہے۔ تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو۔ پھر اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مار سکتے ہو لیکن اس طرح کہ انہیں چوٹ نہ آئے۔ اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہیں دستور کے مطابق خوراک اور پوشاک مہیا کرو۔ (صحیح مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی )- ٣۔ آپ نے فرمایا۔ کوئی مومن (اپنی) مومنہ (بیوی) سے بغض نہ رکھے۔ اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہوگی تو ضرور کوئی دوسری پسند بھی ہوگی۔ (مسلم، کتاب الرضاع۔ باب الوصیۃ بالنسائ)- ٤۔ آپ نے فرمایا عورت پسلی کی طرح ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو اسی حالت میں اٹھاؤ جبکہ اس میں کجی موجود ہے (بخاری، کتاب النکاح، باب المداراۃ مع النساء مسلم، کتاب الرضاع، باب الوصیۃ بالنسائ)- [٣٤۔ ١] مثلاً تمہاری بیوی خوبصورت یا تعلیم یافتہ تو نہیں مگر وہ کفایت شعار ہے۔ اور خانہ داری سے خوب واقف ہے اور تنگی ترشی میں خاوند کو ناجائز تنگ نہیں کرتی بلکہ اس کی اطاعت گزار اور فرمانبردار ہے۔ اب اگر مرد محض کسی عورت کو اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اپنے گھر میں لانا اور اسے رخصت کرنا چاہتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ خوبصورت عورت مطالبات سے اپنے خاوند کا ناک میں دم کر دے۔ کفایت شعار بھی نہ ہو اور گھر کی صفائی اور امور خانہ داری کے لیے شوہر سے کسی ملازم یا ملازمہ کا مطالبہ کر دے اور اس پر جینا حرام کر دے لہذا جو کچھ تمہارے پاس ہے اسی پر اکتفا اور قناعت کرو اور اسی سے نبھانے کی اور حسن سلوک کی حتی الامکان کوشش کرو اور اپنی گھریلو زندگی کو بگاڑنے کے بجائے اس میں اصلاح پیدا کرنے کی کوشش کرو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَنْ تَرِثُوا النِّسَاۗءَ كَرْهًا ۭ : زنا وغیرہ کے سلسلہ میں ضمناً توبہ کے احکام بیان فرمانے کے بعد اب یہاں سے پھر عورتوں کے حقوق کا بیان ہو رہا ہے اور اس سے مقصد عورتوں کو اس ظلم و زیادتی سے نجات دلانا ہے جو جاہلیت میں ان پر روا رکھی جاتی تھی۔ اس کے مخاطب یا تو شوہر کے اولیاء ہیں، جیسا کہ امام بخاری (رض) اور دوسرے محدثین نے اس آیت کی شان نزول میں ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں میت کے اولیاء دوسری چیزوں کی طرح اس کی بیوی کے بھی مالک ہوتے تھے، ان میں سے اگر کوئی چاہتا تو خود اس سے شادی کرلیتا، یا کسی دوسرے سے شادی کردیتے ( اور مہر خود لے لیتے) اور اگر چاہتے تو عورت کو کلیتاً شادی سے ہی روک دیتے ( حتیٰ کہ وہ مرجاتی اور اس کے مال کے وارث خود بن جاتے) عورت کے اولیاء کو اس سلسلہ میں کوئی اختیار نہ ہوتا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور عورت پر ان کے تسلط کو ختم کردیا۔ [ بخاری، التفسیر، باب لا یحل لکم ۔۔ : ٤٥٧٩ ] اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے مخاطب شوہر ہوں، چناچہ بعض علماء نے اس کی شان نزول میں لکھا ہے کہ وہ عورتوں کو طلاق نہ دیتے بلکہ تنگ کرتے رہتے، تاکہ اگر مرجائیں تو ان کے وارث بن جائیں اور اگر طلاق لینا چاہیں تو جو کچھ انھیں دیا ہے اس میں سے کچھ واپس کریں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ پہلی صورت میں اس کا حاصل یہ ہے کہ خاوند کے مرنے کے بعد اسے نکاح سے روکنا جائز نہیں، بلکہ وہ جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے اور خاوند کے اولیاء اس طرح زبردستی اس کے وارث نہیں بن سکتے۔ دوسری صورت میں، یعنی جب شوہر مخاطب ہوں، تو خلاصہ یہ ہوگا کہ شوہر کے لیے جائز نہیں کہ عورت سے مہر واپس لینے کی غرض سے اسے تنگ کرتا رہے اور طلاق نہ دے، حتی کہ وہ خلع پر مجبور ہوجائے۔ یہ دوسری صورت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے اور ابن عطیہ وغیرہ نے اسی کو پسند کیا ہے، اس لیے کہ آیت کے بقیہ حصے کا تعلق بلا شک و شبہ شوہروں ہی کے ساتھ ہے، کیونکہ واضح بےحیائی کے ارتکاب کی صورت میں خاوند ہی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اسے روک رکھے، تاکہ اسے مہر وغیرہ، جو کچھ دیا ہے، واپس لے کر طلاق دے، شوہر کے اولیاء کو یہ اختیار نہیں ہے۔ (فتح القدیر۔ قرطبی) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خطاب عام مسلمانوں سے ہو، جس میں شوہر، میت کے اولیاء اور دوسرے مسلمان سبھی آجاتے ہوں۔ (فتح القدیر)- اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ : ابن کثیر (رض) کا قول ہے کہ ابن عباس (رض) ، عکرمہ اور ضحاک ; نے ” نَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ “ سے مراد سرکشی اور نافرمانی لی ہے، مگر ابن جریر (رض) نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اسے عام رکھا جائے اور یہ فحش کلامی، بد خلقی، ایذا رسانی، زنا اور اس قسم کے جملہ رذائل کو شامل ہو اور مطلب یہ ہوگا کہ اگر زیادتی عورت کی طرف سے ہو تو تم اسے خلع لینے پر مجبور کرسکتے ہو، تاکہ وہ لیا ہوا مال واپس کر دے۔ - 3 وعاشروہن بالمعروف : یہ عورتوں سے متعلق تیسرا حکم ہے کہ ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( خَیْرُُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِہِ وَأَنَا خَیْرُکُمْ لِأَھْلِیْ ) [ ابن ماجہ، النکاح، باب حسن معاشرۃ : ١٩٧٧، عن ابن عباس (رض) ۔ ترمذی : ٣٨٩٥ ] ” تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہت رہے اور میں تم میں سے اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔ “ - فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى ۔۔ : یہ بھی ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہنے کی بات کی تکمیل ہے، یعنی اگر کسی اخلاقی کمزوری یا بد صورت ہونے کی وجہ سے تمہیں ان سے نفرت ہوجائے اور ان کو طلاق دینا چاہو تو بھی فوراً طلاق نہ دو ، بلکہ بہتر طریقے سے انھیں اپنے پاس رکھو، ہوسکتا ہے کہ ان کی صحبت سے خیر کثیر، یعنی صالح اولاد حاصل ہوجائے یا مال میں برکت ہوجائے اور تمہاری نفرت محبت میں تبدیل ہوجائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کوئی مومن اپنی مومنہ بیوی سے بغض نہ رکھے، اگر اسے اس کی کوئی ایک عادت ناپسند ہوگی تو دوسری پسند بھی ہوگی۔ “ [ مسلم، الرضاع، باب الوصیۃ بالنساء : ١٤٦٧، عن أبی ہریرہ (رض) ] اس کے دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ اگر نفرت کے سبب تم ان سے علیحدگی اختیار کرنا چاہو تو ہوسکتا ہے کہ اس علیحدگی میں ان کے لیے خیر کثیر مضمر ہو، مثلاً ان کو بہتر خاوند مل جائے۔ دیکھیے سورة نساء (١٣٠)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات - مندرجہ بالا آیات میں توبہ کا ذکر ایک مناسبت سے آیا تھا، اس سے پہلے عورتوں سے متعلق احکام کا ذکر چل رہا تھا، ان آیات میں بھی عورتوں کے متعلق احکام ہیں، جاہلیت میں عورتوں پر ان کے شوہروں کی طرف سے بھی ظلم ہوتا تھا اور ان کے وارثوں کی طرف سے بھی۔- جب عورت کا شوہر مر جاتا تو شوہر کے ورثاء اپنی من مانی کرتے تھے، دل چاہتا تو اسی عورت کے ساتھ خود نکاح کرلیتے یا دوسرے کے ساتھ کرا دیتے اور اگر رغبت نہ ہوئی تو نہ خود نکاح کریں اور نہ دوسرے سے نکاح کرنے دیں بلکہ ان کو قیدی بنا کر رکھیں، تاکہ اس کو ذریعہ آمدنی نہ دیں، اس لئے کہا اس صورت میں اب وہ یا تو اپنا مال متاع ان کو دے کر اپنے آپ کو چھڑا لیتی اور یا یوں ہی اس کے گھر میں قید رہتی اور اسی حالت میں اس کو موت آجاتی تھی۔ شوہر بھی اپنی بیویوں پر ظلم و ستم کیا کرتے تھے، اگر رغبت نہ ہوتی تو نہ حقوق زوجیت ادا کرتے اور نہ اس کو طلاق دیتے تاکہ وہ اپنا مال دے کر طلاق حاصل کرلے۔- ان آیات میں انہی مفاسد کا سدباب ہے اور عاشروھن سے خاص شوہروں کو خطاب کیا گیا ہے، و ان اردتم استبدال زوج سے میثاقاً غلیظاً تک کی یہ دو آیتیں بھی اسی مضمون کا تتمہ ہیں :- خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو : تم کو یہ بات حلال نہیں کہ عورتوں کے (مال یا جان کے) جبراً مالک ہوجاؤ (مال کا مالک ہونا تین طرح ہے، ایک یہ کہ اس عورت کا جو حق شرعی میراث میں ہے اس کو خود لے لیا جاوے اس کو نہ دیا جائے اور دوسرے یہ کہ اس کو نکاح نہ کرنے دیا جائے یہاں تک کہ وہ یہاں ہی مر جائے پھر اس کا مال لے لیں یا اپنے ہاتھ سے کچھ دے، تیسرے یہ کہ خاوند اس کو بےوجہ مجبور کرے کہ وہ اس کو کچھ مال دے تب یہ اس کو چھوڑے۔- اول اور تیسری صورت میں جبر کی قید سے یہ فائدہ ہے کہ اگر یہ امور بالکل عورت کی خوشی سے ہوں تو جائز اور حلال ہیں اور دوسری صورت میں یہ جبر واقع میں نکاح سے روکنے میں ہے جس سے غرض مال لینا تھا، اس لئے لفظوں میں اس سے متعلق کردیا اس سے بھی وہی فائدہ ہوا۔ یعنی اگر وہ اپنی خوشی سے نکاح نہ کرے تو ان لوگوں کو گناہ نہیں۔- اور جان کا مالک ہونا یہ تھا کہ مردہ کی عورت کو میت کے مال کی طرح اپنی میراث سمجھتے تھے، اس صورت میں جبر کی قید واقعی یعنی بیان واقعہ کے لئے ہے کہ وہ ایسا کرتے تھے، مگر اس کا یہ مفہوم نہیں کہ اگر عورت اپنی رضامندی سے اپنے کو مال میت کی طرح ترکہ موروثہ بنانے پر راضی ہوجائے، تو وہ سچ مچ میراث اور ملک ہوجاوے گی) اور ان عورتوں کو اس غرض سے مقید مت کرو کہ جو کچھ تم لوگوں نے (یعنی خود تم نے یا تمہارے عزیزوں نے) ان کو دیا ہے اس میں کا کوئی حصہ (بھی ان سے) وصول کرلو ( اس مضمون میں بھی تین صورتیں آگئیں۔ )- ایک یہ کہ میت کا وارث اس میت کی بیوی کو نکاح نہ کرنے دے، تاکہ ہم کو یہ کچھ دے، دوسرے یہ کہ خاوند اس کو مجبور کرے کہ مجھ کو کچھ دے تب چھوڑوں، تیسرے یہ کہ خاند طلاق دینے کے بعد بھی بدون کچھ لئے اس کو نکاح نہ کرنے دے یہاں کی پہلی صورت اوپر کی دوسری صورت کا ایک جزو ہے اور یہاں کی دوسری صورت اوپر کی تیسری صورت ہے اور وہاں کی پہلی صورت اور یہاں کی تیسری صورت الگ الگ ہے مگر (بعض صورتوں میں ان سے مال لینا یا ان کو مقید کرنا جائز ہے وہ) یہ کہ وہ عورتیں کوئی صریح ناشائستہ حرکت کریں (اس میں بھی تین صورتیں آگئیں، ایک یہ کہ ناشائستہ حرکت نافرمانی شوہر کی اور بدخلقی ہو تو خاوند کو جائز ہے کہ اس کو بدون مال لئے ہوئے جو مہر سے زیادہ نہ ہو اس کو نہ چھوڑے دوسرے یہ کہ ناشائستہ حرکت زنا ہو تو ابتدائے اسلام میں قبل نزول حدود خاوند کو جائز تھا کہ اس جرمانہ میں اس سے اپنا دیا ہوا مال واپس کرلے اور اس کو نکال دے اب یہ حکم منسوخ ہے زنا سے مہر کا وجوب ساقط نہیں ہوتا، ان دو صورتوں میں مال لیا جائے گا اور تیسری صورت یہ کہ ناشائستہ حرکت زنا ہو تو خاوند کو اور نیز دوسرے ورثاء کو جیسا کہ شروع رکوع میں مذکور ہے بطور سزا کے بحکم حاکم عورتوں کو گھروں کے اندر مقید رکھنا جائز تھا، پھر یہ حکم بھی منسوخ ہوگیا پس یہ مقید رکھنا بطور سزا کے ہوگا، بغرض وصول مال کے نہ ہوگا، پس یہ استثناء مطلق عضل سے ہوگا، نہ عضل مقید بغرض اذہاب مال سے ........ آگے خاص شوہروں کو حکم ہے) اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گذرا کیا کرو (یعنی خوش اخلاقی اور نان و نفقہ کی خبر گیری) اور اگر (بمقضائے طبیعت) وہ تم کو ناپسند ہوں (مگر ان کی طرف سے کوئی امر ناپسندیدگی کا موجب واقع نہ ہو) تو (تم بمقتضائے عقل یہ سمجھ کر برداشت کرو کہ) ممکن ہے کہ تم ایک شے کو ناپسند کرو، اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر کوئی بڑی منفعت (دنیوی یا دینی) رکھ دے (مثلاً وہ تمہاری خدمت گار اور آرام رساں اور ہمدرد ہو، یہ دنیا کی منفعت ہے، یا اس سے کوئی اولاد پیدا ہو کر بچپن میں مر جائے یا زندہ رہے اور صالح ہو، جو ذخیرہ آخرت ہوجائے یا اقل درجہ ناپسند چیز پر صبر کرنے کا ثواب و فضیلت تو ضرور ہی ملے گی) اور اگر تم (خود اپنی رغبت کی وجہ سے) بجائے ایک بیوی کے (یعنی پہلی کے) دوسری بیوی کرنا چاہو ( اور پہلی بیوی کا کوئی قصور نہ ہو) اور تم اس ایک کو (مہر میں یا ویسے ہی بطور ہبہ و عطیہ کے) انبار کا انبار مل دے چکے ہو (خواہ ہاتھ میں سونپ دیا یا خاص مہر کے لئے صرف معاہدہ میں دینا کیا ہو) تو تم اس (دیئے ہوئے یا معاہدہ کئے ہوئے) میں سے (عورت کو تنگ کر کے) کچھ بھی (واپس) مت لو (اور معاف کرانا بھی حکماً واپس لینا ہے) کیا تم اس کو (واپس) لیتے ہو (اس کی ذات پر نافرمانی یا بدکاری کا) بہتان رکھ کر اور (اس کے مال میں) صریح گناہ (یعنی ظلم) کے مرتکب ہو کر (خواہ بہتان صراحتہً ہو یا کہ اس طور پر دلالتہً ہو کہ اوپر صرف نافرمانی و بد کرداری کی صورت میں اس سے مال لینے کی اجازت تھی، پس جب اس سے مال لیا تو گویا اس کو نافرمان و بدکردار دوسروں کے ذہن میں تصور کرایا اور ظلم مالی کی وجہ ظاہر ہے کہ بغیر خوش دلی کے عورت نے دیا اور ہبہ کی صورت میں یہ ظلم اس لئے کہ زوجین کے آپس میں کوئی کسی کو ہدیہ دیدے تو اب اس سے واپس لینے کا شرعاً کوئی حق نہیں اور واپس لے گا تو وہ ایک قسم کا غصب ہوگا اور بہتان بھی اسی سے لازم آتا ہے، کیونکہ واپس لینا گویا یہ کہنا ہے کہ یہ میری زوجہ نہ تھی، اس کا بہتان ہونا ظاہر ہے کہ اس کو دعوت زوجیت میں کا ذبہ اور معاشرت میں فاسقہ ٹھہراتا ہے) اور تم اس (دیئے ہوئے) کو (حقیقتاً حکماً ) کیسے لیتے ہو حالانکہ (علاوہ بہتان و ظلم کے اس کے لینے سے دو امر اور بھی مانع ہیں، ایک یہ کہ) تم باہم ایک دوسرے سے بےحجابانہ مل چکے ہو (یعنی صحبت ہوچکی ہے یا خلوت صحیحہ کہ وہ بھی حکم صحبت میں ہے، بہرحال انہوں نے اپنی ذات تمہارے تمتع و تلذذ کے لئے تمہارے سپرد کردی ہے اور مہر اسی سپردگی کا معاوضہ ہے پس مبدل منہ کو حاصل کر کے بدل کو واپس لینا یا کہ نہ دینا عقل سلیم کے بالکل خلاف ہے اور اگر وہ مال مہر نہیں بلکہ عطیہ تھا تو یہ بےحجابانہ ملاقات اثر زوجیت کی وجہ سے مانع ہے، اور اصل مانع زوجیت ہے) اور (دوسرا مانع یہ کہ) وہ عورتیں تم سے ایک گاڑھا اقرار (یعنی عہد مستحکم) لے چکی ہیں (وہ عہد وہ ہے کہ نکاح کے وقت تم نے مہر اپنے ذمہ رکھا تھا اور عہد کر کے خلاف کرنا یہ بھی عقل کے نزدیک مذموم ہے، اور اگر وہ ہبہ اور عطیہ ہے تو قبل بےحجابانہ ملاقات کے یہ عہد بھی اثر زوجیت ہونے کی وجہ سے واپسی ہبہ سے مانع ہے، غرض چار موانع کے ہوتے ہوئے واپسی نہایت ہی مذموم ہے)- معارف ومسائل - اسلام سے پہلے عورتوں پر ہونیوالے کا انسداد :۔- ان تین آیتوں میں ان مظالم کی روک تھام ہے جو اسلام سے پہلے صنف نازک پر روا رکھے جاتے تھے، ان میں ایک بہت بڑا ظلم یہ تھا کہ مرد عورتوں کی جان و مال کا اپنے آپ کو مالک سمجھتے تھے، عورت جس کے نکاح میں آگئی وہ اس کی جان کو بھی اپنی ملک سمجھتا تھا اور اس کے مرنے کے بعد اس کے وارث جس طرح اس کے متروکہ مال کے وارث اور مالک ہوتے تھے اسی طرح اس کی بیوی کے بھی وارث اور مالک مانے جاتے تھے چاہیں تو وہ خود اس سے نکاح کرلیں یا دوسرے کسی سے مال لے کر اس کا نکاح کردیں شوہر کا لڑکا جو دوسری بیوی سے ہوتا وہ خود بھی باپ کے بعد اس کو اپنے نکاح میں لا سکتا تھا اور جب عورت کی جان ہی اپنی ملک سمجھ لی گئی تو مال کا معاملہ ظاہر ہے اور اس ایک بنیادی غلطی کے نتیجہ میں عورتوں پر طرح طرح کے صدہا مظالم ہوا کرتے تھے، مثلاً :- ایک یہ ظلم تھا کہ جو مال عورت کو کہیں سے وراثت میں ملا یا اس کے میکہ والوں کی طرف سے بطور ہدیہ تحفہ ملا، بیچاری عورت اس سب سے محروم و بےتعلق رہتی اور یہ سب مال سسرال کے مرد ہضم کرلیتے تھے۔- دوسرا ظلم یہ ہوتا تھا کہ اگر عورت نے اپنے حصہ مال پر کہیں قبضہ کر ہی لیا تو مرد اس کو نکاح کرنے سے اس لئے روکتے تھے کہ یہ اپنا مال باہر نہ لے جاسکے بلکہ یہیں مر جائے اور مال چھوڑ جائے تو ہمارے قبضہ میں آجائے۔- تیسرا ظلم کہیں کہیں یہ بھی ہوتا تھا کہ بعض اوقات بیوی کا کوئی قصور نہ ہونے کے باوجود محض طبعی طور پر وہ شوہر کو پسند نہ ہوتی تو شوہر اس کے حقوق زوجیت ادا نہ کرتا، مگر طلاق دے کر اس کی گلو خلاصی بھی اس لئے نہیں کرتا کہ یہ تنگ آ کر زیور اور زر مہر جو وہ اسے دے چکا ہے واپس کر دے، یا اگر ابھی نہیں دیا تو معاف کر دے تب اسے آزادی ملے گی .... اور بعض اوقات شوہر طلاق بھی دیدیتا لیکن پھر بھی اپنی اس مطلقہ کو کسی دوسرے سے نکاح نہیں کرنے دیتا تاکہ وہ مجبور ہو کر اس کا دیا ہوا مہر واپس کر دے یا واجب الادا مہر کو معاف کر دے۔- چوتھا ظلم بعض اوقات یوں ہوتا تھا کہ شوہر مر گیا، اس کے وارث اس کی بیوہ کو نکاح نہیں کرنے دیتے، یا جاہلانہ عار کی وجہ سے یا اس طمع میں کہ اس کے ذریعہ کچھ مال وصول کریں۔- یہ سب مظالم اس بنیاد پر ہوتے تھے کہ عورت کے مال بلکہ اس کی جان کا بھی اپنے آپ کو مالک سمجھا جاتا تھا، قرآن کریم نے اس فساد کی اس جڑ کو اکھاڑ ڈالا اور اس کے تحت ہونے والے تمام مظالم کے انسداد کے لئے ارشاد فرمایا :- ” اے ایمان والو تمہارے لئے یہ حلال نہیں کہ تم جبراً عورتوں کے مالک بن بیٹھو۔ “- جبراً کی قید اس جگہ بطور شرط کے نہیں کہ عورتوں کی رضا مندی سے ان کا مالک بن جانا صحیح قرار دیا جائے بلکہ بیان واقعہ کے طور پر ہے کہ عورتوں کی جان و مال کا بلا وجہ شرعی و عقلی مالک بن بیٹھنا ظاہر ہے کہ جبراً ہی ہوسکتا ہے، اس پر کوئی ہوش و عقل والی عورت راضی کہاں ہو سکتی ہے (بحرمحیط) اسی لئے شریعت نے اس معاملہ میں اس کی رضا کو موثر نہیں قرار دیا، کوئی عورت بیوقوفی سے کسی کی مملوک بننے پر راضی بھی ہوجائے تو اسلامی قانون اس پر راضی نہیں کہ کوئی آزاد انسان کسی کا مملوک ہوجائے۔- ظلم و فساد کی ممانعت کا عام طریقہ یہ ہے کہ بصیغہ نہی اس سے منع کردیا جائے، لیکن اس جگہ قرآن کریم نے اس عام طریقہ کو چھوڑ کر لفظ لایحل سے اس کو بیان فرمایا، اس میں اس معاملہ کے شدید گناہ ہونے کے علاوہ اس طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ اگر کسی نے کسی بانع عورت سے بغیر اس کی رضاء واجازت کے نکاح کر بھی لیا تو وہ نکاح شرعاً حلال نہیں، بلکہ کالعدم ہے، ایسے نکاح سے نہ ان دونوں کے درمیان میاں بیوی کا رشتہ قائم ہوتا ہے اور نہ وراثت یا نسب کے احکام اس سے متعلق ہوتے ہیں۔- اسی طرح اگر کسی نے کسی عورت کو مجبور کر کے اس سے اپنا دی ہوا مہر واپس لے لیا یا واجب الادا مہر کو جبراً معاف کرا لیا تو یہ جبری واپسی یا معافی شرعاً معتبر نہیں نہ اس سے لیا ہوا مال مرد کے لئے حلال ہوتا ہے نہ کوئی حق واجب معاف ہوتا ہے اور اسی مضمون کی مزید توضیح کے لئے ارشاد فرمایا :- ولاتعضلوھن لتذھبوا ببعض ما اٰتیمتموھن،” یعنی عورتوں کو اپنی مرضی کا نکاح کرنے سے نہ روکو، اس خیال پر کہ جو مال تم نے یا تمہارے عزیز نے ان کو بطور مہر کے یا بطور ہدیہ تحفہ کے دے دیا ہے وہ اس سے واپس لے لو “ مہر دینے اور واپس لینے میں یہ بھی داخل ہے کہ جو مہر دینا مقرر کرچکے ہیں اس کو معاف کرایا جائے، غرض دیا ہوا مہر جبراً واپس لیں یا واجب الادا کو جبراً معاف کرائیں، یہ سب ناجائز اور حرام ہیں، اسی طرح جو مال بطور ہدیہ تحفہ کے مالکانہ طور پر بیوی کو دیا جا چکا ہے، ان کا واپس لینا نہ خود شوہر کے لئے حلال ہے نہ اس کے وارثوں کے لئے، مالکانہ طور پر کہنے کا یہ مطلب ہے کہ اگر شوہر نے کوئی زیور یا اور کوئی استعمال چیز بیوی کو محض عاریتہً استعمال کے لئے دی ہے مالک بنا کر نہ دی ہو تو وہ بیوی کی ملکیت میں داخل ہی نہیں ہوتی، اس لئے اس کی واپسی بھی ممنوع نہیں۔- اس کے بعد الا ان یاتین بفاحشة مبینة فرما کر بعض ایسی صورتوں کو مستثنیٰ فرمایا دیا گیا ہے، جن میں شوہر کے لئے اپنا دیا ہوا مال مہر وغیرہ واپس لینا جائز ہوجاتا ہے۔- معنی یہ ہیں کہ اگر عورت کی طرف سے کوئی کھلی ہوئی ناشائستہ حرکت ایسی صادر ہوجائے جس کی وجہ سے طلاق دینے کے لئے آدمی طبعاً مجبور ہوجائے، تو ایسی صورت میں مضائقہ نہیں کہ شوہر اس وقت تک طلاق نہ دے جب تک یہ اس کا دیا ہوا مہر وغیرہ واپس نہ کرے یا واجب الادا مہر کو معاف نہ کرے۔- اور اس جگہ لفظ فاحشہ یعنی ناشائستہ حرکت سے مراد حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ اور حضرت ضحاک وغیرہ کے نزدیک تو شوہر کی نافرمانی اور بد زبانی ہے۔ - اور ابوقالبہ حسن بصری نے فاحشہ سے مراد اس جگہ بےحائی اور زنا لیا ہے، تو معنی یہ ہوئے کہ اگر ان عورتوں سے کوئی بےحیائی کا کام سر زد ہوگیا، یا وہ نافرمان اور بد زبانی کے پیش آتی ہیں، جس سے مجبور ہو کر مرد طلاق پر آمادہ ہو رہا ہے، تو چونکہ قصور عورت کا ہے، اس لئے شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کو اس وقت تک اپنے نکاح میں روکے رکھے جب تک اس سے اپنا دیا ہوا مال واپس وصول نہ کرے یا مقرر کردہ مہر مہر معاف نہ کرا لے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَاۗءَ كَرْہًا۝ ٠ ۭ وَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَيِّنَۃٍ۝ ٠ ۚ وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝ ٠ ۚ فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَہُوْا شَـيْــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللہُ فِيْہِ خَيْرًا كَثِيْرًا۝ ١٩- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - حلَال - حَلَّ الشیء حلالًا، قال اللہ تعالی: وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] ، وقال تعالی: هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] - ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ حل ( ض ) اشئی حلا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے حلال ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ ۔ هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے - ورث - الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» أي : أصله وبقيّته - ( ور ث ) الوارثۃ - والا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے جو کے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ۔«اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔- نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ - عضل - العَضَلَة : كلّ لحم صلب في عصب، ورجل عَضِلٌ: مکتنز اللّحم، وعَضَلْتُهُ : شددته بالعضل المتناول من الحیوان، نحو : عصبته، وتجوّز به في كلّ منع شدید، قال : فَلا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْواجَهُنَ [ البقرة 232] ، قيل : خطاب للأزواج، وقیل للأولیاء، وعَضَّلَتِ الدّجاجةُ ببیضها، والمرأة بولدها : إذا تعسّر خروجهما تشبيها بها . قال الشاعر :- تری الأرض منّا بالفضاء مریضة ... مُعَضَّلَة منّا بجمع عرمرم وداء عُضَال : صعب البرء، والعُضْلَة : الدّاهية المنکرة .- ( ع ض ل ) العضلتہ پٹھا جس کے ساتھ سخت گوشت ہو رجل عضل وہ شخص جو گوشت سے گتھا ہوا ہو عضلتہ میں نے اسے عضل یعنی پٹھے کی تانت کے ساتھ باندھ دیا جیسا کہ عصبتہ اس کے بعد مجازا یہ لفظ سختی سے روک دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ فَلا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْواجَهُنَ [ البقرة 232] تو ان کو دوسرے شوہروں کے ساتھ نکاح کرنے سے مت روکو ۔ اس ایت تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ اسکے مخاطب ان کے پہلے خاوند ہیں اور بعض نے اولیاء یعنی سر پرست مراد لئے ہیں اور سختی میں عضلتہ کے ساتھ تشبیہ دے کر کہا جاتا ہے عضلت الدجاجتہ ببیضھا مرغی پر انڈہ دینا دشوار ہوگیا عضلت المرءۃ بولدھا ۔ عورت زچہ کی تکلیف میں مبتلاء ہوگئی ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطول ) ( 314 ) تری الارض منا بالفضاء مریضتہ معضلتہ منا ربجمع عر مرم زمین ہمارے لشکر جرار کی وجہ سے اس عورت کی طرح بےچین نظر آتی ہے جو زچگی کے مرض میں مبتلاء ہو ۔ داء عضال لاعلاج مرض جس سے شفایاب ہونا مشکل ہو العضلتہ بڑی مصیبت - ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - عَشِيرَةُ :- أهل الرجل الذین يتكثّر بهم . أي : يصيرون له بمنزلة العدد الکامل، وذلک أنّ العَشَرَةَ هو العدد الکامل . قال تعالی: وَأَزْواجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ [ التوبة 24] ، فصار العَشِيرَةُ اسما لكلّ جماعة من أقارب الرجل الذین يتكثّر بهم . وَعاشَرْتُهُ : صرت له كَعَشَرَةٍ في المصاهرة، وَعاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 19] . والعَشِيرُ : المُعَاشِرُ قریبا کان أو معارف .- العشیرۃ انسان کے باپ کی طرف سی قریبی رشتہ دار پر مشتمل جماعت کیونکہ ان سے انسان کژرت عدد حاصل کرتا ہے گویا وہ اس کے لئے بمنزلہ عدد کامل کے ہیں کیونکہ عشرۃ کا عدد ہی کامل ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَزْواجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ [ التوبة 24] اور عورتیں اور خاندان کے آدمی ۔ لہذا عشیرۃ انسان کے رشتہ دروں کی اس جماعت کا نام ہے جن سے انسنا کثرت ( قوت ) حاصل کرتا ہے عاشرتہ کے معنی ہیں کہ میں رشتہ داماد ی میں اس کے لئے بمنزلہ عشرۃ کے ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَعاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 19] اور ان کے ساتھ اچھی طرح سے رہو سہو ۔ العشر مل جل کر رہنے والا خواہ رشتہ دار ہو یا اجنبی ۔- معْرُوفُ :- اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] - المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ - كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ - عسی - عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] ، أي : کونوا راجین - ( ع س ی ) عسیٰ- کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (یایھا الذین امنوالایحل لکم انترثوالنساء کرھا ولا تعضلوھن لتذھبواببعض مااتیتموھن الاان یاتین بفاحشۃ مبینۃ، اے ایمان والو تمہارے لیے یہ حلال نہیں ہے کو زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو اور نہ یہ حلال ہے کہ انہیں تنگ کرکے اس مہرکا کچھ حصہ اڑالینے کی کوشش کروجوتم انہیں دے چکوہو۔ ہاں اگر وہ کسی صریح بدچلنی کی مرتکب ہوں (توضرور تمہیں تنگ کرنے کا حق ہے) ۔- شیبانی نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی شخص فوت ہوجاتاتو اس کے اولیاء اس کی بیوہ کے زیادہ حق دارس مجھے جاتے۔ بیوہ کے ولی کو ان کے مقابلے میں کم حق حاصل ہوتا۔ پھر اگر ان اولیاء میں سے کوئی اس سے چاہتے تو نہ کرتے اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔- حسن اور مجاہد کا قول ہے کہ جب کوئی شخص فوت ہوجاتا اور اس کی بیوہ رہ جاتی تومیت کا ولی یہ کہتا کہ میں اس کے مال کی طرح اس کی بیوہ کا بھی وارث ہوگیاہوں۔ پھر اگر وہ چاہتا تو پہلے مہر کی رقم پر اس سے نکاح کرلیتا اور اگر چاہتا تو اس کا کسی اور سے نکاح کرادیتا اور مہر کی رقم خودرکھ لیتا۔- مجاہد کے قول کے مطابق یہ بات اس وقت ہوتی جب بیوہ کا کوئی بیٹانہ ہوتا۔ ابومجلز کا قول ہے کہ میت کا ولی بیوہ کے ولی کے مقابلے میں میراث کا زیادہ حق دارہوتا۔ جو یبرنے ضحاک سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ آغاز اسلام میں لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی شخص فوت ہوجاتا تو اس کا سب سے بڑھ کر قریبی اس کی بیوہ پر کپڑاڈال دیتا اور اس طرح وہ اس سے نکاح کا حق داربن جاتا۔- کبشہ بنت معن کے شوہر ابوعامرکا انتقال ہوگیا، ابوعامر کا بیٹا جو کسی اور بیوی کے بطن سے تھا آیا اور دستور کے مطابق اپنی سوتیلی ماں پر کپڑاڈال دیا لیکن بعد میں اس نے نہ اسے نفقہ دیا اور نہ ہی اس کے قریب گیا کبشہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کی شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے اس پر درج بالا آیت نازل فرمائی یعنی، تمہارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ تم انہیں تنگ کرکے مہر کی رقم دو ۔- زہری کا قول ہے کہ میت کا ولی بیوہ کو اپنی ازدواجی ضرورت کے بغیر محبوس رکھتا یہاں تک کہ اسے موت آجاتی اور وہ اس کا وارث بن جاتا۔ آیت میں لوگوں کو اس بات سے منع کردیا گیا۔- قول باری (ولاتعضلوھن لتذھبواببعض مااتیتموھن) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) قتادہ، سدی اور ضحاک کا قول ہے کہ آیت میں شوہروں کو حکم دیا گیا ہے کہ جب انہیں اپنی بیویوں کی ضرورت اور ان کی طرف رغبت نہ ہو تو وہ ان کے راستے سے ہٹ جائیں اور انہیں ضررپہنچانے کی نیت سے روک نہ رکھیں کہ وہ اپنے مال کا ایک حصہ دے کر اپنی جان چھڑانے پر مجبورہوجائیں۔- حسن کا قول ہے کہ اس میں مرنے والے شوہر کے ولی کو اس کی ممانعت کردی گئی ہے کہ زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق نکاح کرلینے کی راہ میں وہ بیوہ کے لیے رکاوٹ بنے۔ مجاہد کا قول ہے کہ آیت میں بیوہ کے ولی کوا سے تنگ کرنے سے روکاگیا ہے۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں آیت کی تاویل میں حضرت ابن عباس (رض) کا قول سب سے زیادہ واضح ہے اس لیے کہ قول باری (لتذھبواببعض مااتیتموھن) اور مابعد کا سلسلہ کلام اس پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ درج بالا آیت میں مہرمراد ہے۔ جس سے دست بردارہوکروہ اپنی جان چھڑاسکتی ہے۔ گویا کہ شوہر اسے تنگ یا مجبور کرتایا اس کے ساتھ بدسلوکی پر اترآتاتا کہ وہ مہر کے ایک حصے سے دست بردار ہو کر اپنی جان چھڑالے۔- قول باری (الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ) کی تفسیر میں حسن، ابوقلابہ اور سدی کا قول ہے کہ اس سے مراد زنا ہے اور یہ کہ شوہر کے لیے فدیہ لینا اس وقت حلال ہوگا جب اسے بیوی کی بدچلنی اور مشوک کردار کی اطلاع ہو۔- حضرت ابن عباس (رض) قتادہ اور ضحاک کا قول ہے کہ اس سے مراد عورت کی سرکشی اور نافرمانی ہے۔ اگر عورت یہ رویہ اختیار کرلے تو اس صورت میں شوہر کے لیے فدیہ کے طورپر اس سے رقم لے لیناجائز ہوگا۔ جسے اصطلاح شریعت میں خلع کہتے ہیں۔ ہم نے سورة بقرہ خلع اور احکامات کی وضاحت کردی ہے۔- قول باری ہے (وعاشرو ھن بالمعروف، اور معروف طریقے سے ان کے ساتھ معاشرت اختیارکرو) اس میں شوہروں کو بیویوں کے ساتھ معروف طریقے سے معاشرت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور معروف طریقے میں جو باتیں شامل ہیں ان میں اس کے حقوق کی ادائیگی مثلا مہر، نان ونفقہ شب باشی کی باری، اور سخت کلامی اور روگردانی سے احتراز وغیرہ۔- کسی اور کی طرف اظہار میلان بلاوجہ ترش روئی وغیرہ کے ذریعے ایذاء رسانی سے پہلوبچانا داخل ہے۔ اس کی نظیریہ قول باری ہے۔ (فامساک بمعروف اؤ تسریح باحسان۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩) اپنے آباء کی عورتوں کے مال کا زبردستی مالک ہونا حلال نہیں، اور ان کو شادی کرنے سے مت روکو تاکہ تمہارے آباء نے جو مال دیا ہے، وہ بھی وصول کرلو، یہ آیت کبشہ بنت معن انصاریہ اور محض بن ابی قیس انصاری کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور یہ لوگ اس سے قبل اس مال کے وارث ہوجایا کرتے تھے۔- مگر یہ کہ ان کے زنا پر گواہ قائم ہوجائیں تو پھر ان کو جیل میں بند رکھو اور جیل کا حکم آیت رجم سے منسوخ ہوگیا اور جس طریقہ سے وہ اپنے آباء کے اموال کے وارث ہوتے تھے، اسی طرح ان کی عورتوں کے بھی وارث ہوجایا کرتے تھے۔- سب سے بڑا لڑکا وارث بنتا تھا اگر وہ عورت خوبصورت اور مالدار ہوتی تو بغیر مہر کے اس سے تعلق قائم کرلیتا تھا اور اگر وہ مالدار نہ ہوتی بلکہ نوجوان اور خوبصورت ہوتی تو اس کو اسی طرح چھوڑ دیتا تھا یہاں تک یہ وہ اپنی جان کا اپنے مال سے فدیہ نہ ادا کردے، اللہ تعالیٰ نے جہالت کی ان تمام چیزوں کی ممانعت فرمادی پھر حسن معاملہ کا حکم فرماتے ہیں کہ ان بیویوں کے ساتھ خوبی سے پیش آیا کرو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد صالحہ عطا فرما دے۔- شان نزول : (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا یحل “۔ (الخ)- امام بخاری (رح) ابو داؤد (رح) اور نسائی (رح) نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جس وقت کوئی مرجاتا تھا تو اس کے اولیاء اس کی عورت کے زیادہ حق دار ہوتے تھے اگر ان میں سے کوئی چاہتا تو خود شادی کرلیتا اور اگر چاہتے تو کہیں اور شادی کرا دیتے غرض یہ کہ اس کے گھروالوں سے زیادہ وہ اس کے حق دار بن جاتے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- اور ابن جریر (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) نے سند حسن کے ساتھ ابوامامتہ بن سہل بن حنیف (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب ابو قیس کا انتقال ہوگیا تو ان کے لڑکے نے ان کی عورت سے شادی کرنا چاہی اور یہ چیز زمانہ جاہلیت میں جائز تھی، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ایمان والو تمہارے لیے یہ حلال نہیں الخ اور ابن جریر (رح) نے عکرمہ (رض) سے بھی یہی روایت نقل کی ہے اور ابن ابی حاتم، فریابی اور طبرانی نے بواسطہ عدی بن ثابت (رض) ایک انصاری شخص سے روایت نقل کی ہے کہ ابوقیس بن اسلت کا انتقال ہوا اور وہ انصار کے شرفا میں سے تھے، تو ان کے لڑکے قیس نے ان کی بیوی کو نکاح کا پیغام دیا وہ بولیں میں تم کو اپنا بیٹا سمجھتی ہوں اور تم اپنی قوم کے شرفا میں سے ہو، اس کے بعد وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں، آپ نے فرمایا اپنے گھر چلی جاؤ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ کَرْہًا ط) ۔ - یہ بھی عرب جاہلیت کی ایک مکروہ رسم تھی جس میں عورتوں کے طبقے پر شدید ظلم ہوتا تھا۔ ہوتا یوں تھا کہ ایک شخص فوت ہوا ہے ‘ اس کی چار پانچ بیویاں ہیں ‘ تو اس کا بڑا بیٹا وارث بن گیا ہے۔ اب اس کی حقیقی ماں تو ایک ہی ہے ‘ باقی سوتیلی مائیں ہیں ‘ تو وہ ان کو وراثت میں لے لیتا تھا کہ یہ میرے قبضے میں رہیں گی ‘ بلکہ ان سے شادیاں بھی کرلیتے تھے یا بغیر نکاح اپنے گھروں میں ڈالے رکھتے تھے ‘ یا پھر یہ کہ اختیار اپنے ہاتھ میں رکھ کر ان کی شادیاں کہیں اور کرتے تھے تو مہر خود لے لیتے تھے۔ چناچہ فرمایا کہ اے اہل ایمان ‘ تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ تم عورتوں کے زبردستی وارث بن بیٹھو جس عورت کا شوہر فوت ہوگیا وہ آزاد ہے۔ عدت گزار کر جہاں چاہے جائے اور جس سے چاہے نکاح کرلے۔ ّ ِ - (وَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ ) - نکاح کے وقت تو بڑے چاؤ تھے ‘ بڑے لاڈ اٹھائے جا رہے تھے اور کیا کیا دے دیا تھا ‘ اور اب وہ سب واپس ہتھیانے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال ہو رہے ہیں ‘ انہیں تنگ کیا جا رہا ہے ‘ ذہنی طور پر تکلیف پہنچائی جا رہی ہے۔- ( اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ج) - اگر کسی سے صریح حرام کاری کا فعل سرزد ہوگیا ہو اور اس پر اسے کوئی سزا دی جائے (جیسے کہ اوپر آچکا ہے فَاٰذُوْہُمَا ) اس کی تو اجازت ہے۔ اس کے بغیر کسی پر زیادتی کرنا جائز ‘ نہیں ہے۔ خاص طور پر اگر نیت یہ ہو کہ میں اس سے اپنا مہر واپس لے لوں ‘ یہ انتہائی کمینگی ‘ ہے۔- (وَعَاشِرُوْہُنَّ بالْمَعْرُوْفِ ج ۔- ان کے ساتھ بھلے طریقے پر ‘ خوش اسلوبی سے ‘ نیکی اور راستی کے ساتھ گزر بسر کرو ۔- (فَاِنْ کَرِہْتُمُوْہُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْءًا وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا ) ۔- اگر تمہیں کسی وجہ سے اپنی عورتیں ناپسند ہوگئی ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کسی شے کو تم ناپسند کرو ‘ درآنحالیکہ اللہ نے اسی میں تمہارے لیے خیر کثیر رکھ دیا ہو۔ ایک عورت کسی ایک اعتبار سے آپ کے دل سے اتر گئی ہے ‘ طبیعت کا میلان نہیں رہا ہے ‘ لیکن پتا نہیں اس میں اور کون کون سی خوبیاں ہیں اور وہ کس کس اعتبار سے آپ کے لیے خیر کا ذریعہ بنتی ہے۔ تو اس معاملے کو اللہ کے حوالے کرو ‘ اور ان کے حقوق ادا کرتے ہوئے ‘ ان کے ساتھ خوش اسلوبی سے گزر بسرکرو۔ البتہ اگر معاملہ ایسا ہوگیا ہے کہ ساتھ رہنا ممکن نہیں ہے تو طلاق کا راستہ کھلا ہے ‘ شریعت اسلامی نے اس میں کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔ یہ مسیحیت کی طرح کا کوئی غیر معقول نظام نہیں ہے کہ طلاق ہو ہی نہیں سکتی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :28 اس سے مراد یہ ہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد اس کے خاندان والے اس کی بیوہ کو میت کی میراث سمجھ کر اس کے ولی وارث نہ بن بیٹھیں ۔ عورت کا شوہر جب مر گیا تو وہ آزاد ہے ۔ عدت گزار کر جہاں چاہے جائے اور جس سے چاہے نکاح کر لے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :29 مال اڑانے کے لیے نہیں بلکہ بدچلنی کی سزا دینے کے لیے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :30 یعنی اگر عورت خوبصورت نہ ہو ، یا اس میں کوئی ایسا نقص ہو جس کی بنا پر شوہر کو پسند نہ آئے ، تو یہ مناسب نہیں ہے کہ شوہر فوراً دل برداشتہ ہو کر اسے چھوڑ دینے پر آمادہ ہو جائے ۔ حتی الامکان اسے صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے ۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک عورت خوبصورت نہیں ہوتی مگر اس میں بعض دوسری خوبیاں ایسی ہوتی ہیں جو ازدواجی زندگی میں حسن صورت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں ۔ اگر اسے اپنی ان خوبیوں کے اظہار کا موقع ملے تو وہی شوہر جو ابتداءً محض اس کی صورت کی خرابی سے دل برداشتہ ہو رہا تھا ، اس کے حسن سیرت پر فریفتہ ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح بعض اوقات ازدواجی زندگی کی ابتداء میں عورت کی بعض باتیں شوہر کو ناگوار محسوس ہوتی ہیں اور وہ اس سے بد دل ہو جاتا ہے ، لیکن اگر وہ صبر سے کام لے اور عورت کے تمام امکانات کو بروئے کار آنے کا موقع دے تو اس پر خود ثابت ہو جاتا ہے کہ اس کی بیوی برائیوں سے بڑھ کر خوبیاں رکھتی ہے ۔ لہٰذا یہ بات پسندیدہ نہیں ہے کہ آدمی ازدواجی تعلق کو منقطع کرنے میں جلد بازی سے کام لے ۔ طلاق بالکل آخری چارہ کار ہے جس کو ناگزیر حالات ہی میں استعمال کرنا چاہیے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ابغض الحلال الی اللہ الطلاق ، یعنی طلاق اگرچہ جائز ہے مگر تمام جائز کاموں میں اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند اگر کوئی چیز ہے تو وہ طلاق ہے ۔ دوسری حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تزوجوا ولا تطلقوا فان اللہ لا یحب الذواقین و الذواقات ، یعنی نکاح کرو اور طلاق نہ دو کیونکہ اللہ ایسے مردوں اور عورتوں کو پسند نہیں کرتا جو بھونرے کی طرح پھول پھول کا مزا چکھتے پھریں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

16: زمانۂ جاہلیت میں یہ ظالمانہ رسم چلی آتی تھی کہ جب کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہوجاتا تو اس کے ورثا اس عورت کو بھی میراث کا حصہ سمجھ کر اس کے اس معنیٰ میں مالک بن بیٹھتے تھے کہ وہ ان کی اجازت کے بغیر نہ دوسری شادی کرسکتی تھی، اور نہ زندگی کے دوسرے اہم فیصلے کرنے کا حق رکھتی تھی، اس آیت نے اس ظالمانہ رسم کو ختم فرمایا ہے۔ اسی طرح ایک ظالمانہ رواج یہ تھا کہ جب کوئی شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی چاہتا کہ جو مہر ان کو دے چکا ہے وہ اسے واپس مل جائے تو وہ اپنی بیوی کو طرح طرح سے تنگ کرنا شروع کردیتا تھا، مثلا وہ اس کو گھر میں اس طرح مقید رکھتا تھا کہ وہ بیچاری مجبور ہو کر شوہر سے خلاصی حاصل کرنے کے لئے اسے خود یہ پیشکش کرے کہ تم اپنا مہر واپس لے لو، اور مجھے طلاق دے کر میری جان چھوڑ دو۔ آیت کے دوسرے حصے میں اس رواج کو حرام قرار دیا گیا ہے۔