Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 یعنی منہیات کا ارتکاب، جانتے بوجھتے، ظلم وتعدی سے کرے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥١] یہاں ایسے کام سے مراد وہ تمام اوامرو نواہی ہیں جن کا ذکر اس سورة کی ابتداء سے چلا آ رہا ہے۔ اور ازراہ ظلم و زیادتی سے مراد یہ ہے کہ جو شخص ازراہ معصیت وتکبر اللہ کے اوامرو نواہی کی پروا نہ کرے اور گناہوں کا ارتکاب کرتا جائے اس کی سزا دوزخ ہی ہوسکتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ ۔۔ : ” ذلک “ کا اشارہ قتل نفس کی طرف بھی ہوسکتا ہے، دوسروں کا مال باطل طریقے سے کھانے کی طرف بھی اور سورت کی ابتدا سے یہاں تک جتنی چیزیں منع کی گئی ہیں ان سب کی طرف بھی۔ - وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرًا : یہ انداز بیان ڈانٹنے میں مبالغے پر دلالت کر رہا ہے۔ (رازی) موضح میں ہے : ” یعنی مغرور نہ ہوں کہ ہم مسلمان دوزخ میں کیوں کر جائیں گے ؟ اللہ تعالیٰ پر یہ آسان ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس کے بعد دوسری آیت میں ارشاد فرمایا : ومن یفعل ذلک عدوانا ظلماً فسوف نصلیہ ناراً یعنی قرآنی ہدایت کے باوجود اگر کوئی شخص اس کی خلاف ورزی کرے اور جان بوجھ کر تعددی اور ظلم کی راہ سے کسی مال ناحق لے لے یا کسی کو ناحق قتل کر دے تو ہم عنقریب اس کو جہنم میں داخل کریں گے ........ تعدی اور ظلم کی قید سے معلوم ہوا کہ اگر سہو و نسیان یا خطا سے ایسا ہوگیا تو وہ اس وعید میں داخل نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيْہِ نَارًا۝ ٠ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرًا۝ ٣٠- فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ - هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- عُدْوَانِ- ومن العُدْوَانِ المحظور ابتداء قوله : وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ المائدة 2] ، ومن العُدْوَانِ الذي هو علی سبیل المجازاة، ويصحّ أن يتعاطی مع من ابتدأ قوله : فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة 193] - اور عدوان یعنی زیادتی کا بدلہ لینے کو بھی قرآن نے عدوان کہا ہے حالانکہ یہ جائز ہے جیسے فرمایا : ۔ فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة 193] تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی چاہئے ۔- سوف - سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو :- سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ :- شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر :- إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه .- ( س و ف ) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - يسر - اليُسْرُ : ضدّ العسر . قال تعالی: يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق 7] ، وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف 88] ، فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات 3] - ( ی س ر ) الیسر کے معنی آسانی ار سہولت کے ہیں یہ عسر کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے ۔ اور سختی نہیں چاہتا ۔ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق 7] خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا ۔ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف 88] بلکہ اس سے نرم بات کہیں گے ۔ فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات 3] پھر نر می سے چلتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (ومن یفعل ذالک عدوانا و ظلما فسوف نسلیہ نارا، جو شخص ظلم اور زیادتی کی بنا پر ایسا کرے گا اسے ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے) اس وعید میں روئے سخن کس طرف ہے اس کے متعلق کئی اقوال بیان کیئے گئے ہیں ایک یہ کہ اس کا مرجع باطل طریقے سے مال کھانے نیز ناحق کسی کی جان لینے کے گھناؤنے افعال کی طرف ہے۔ اس لیے جو شخص بھی ان میں سے کسی کا ایک فعل کا مرتکب ہوگا وہ اس وعید کا سزا وار قرار پائے گا۔ - عطاء کا قول ہے کہ اس وعید کا تعلق صرف ناحق کسی کی جان لینے کے فعل سے ہے ۔ ایک قول ہے کہ اس کا مرجع ہر وہ فعل ہے جس کی سورت کی ابتدائی سے یہاں تک ممانعت کردی گئی ہے۔ - ایک اور قول ہے کہ اس وعید کا تعلق قوری باری (یا یہا الذین امنوا لایحل لکم ان ترثوا النساء کرہا) سے شروع ہوتا ہے اس لیے کہ اس کا ماقبل بھی مقرون بالوعید ہے۔ لیکن زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ اس وعید کا تعلق اس سے متصل دو افعال یعنی باطل طریقے سے مال کھانے اور کسی کو ناحق قتل کرنے کے ساتھ ہے وعید کو اپنے قول (عدوانا وظلما) کے ساتھ مقید کیا ہے تاکہ سہو اور غلطی کی بنا پر سرزد ہونے والے افعال اس سے خارج ہوجائیں۔ نیز وہ افعال بھی اس سے نکل جائیں جو احکام میں اجتہاد کی راہ سے تعمد اور عصیان کی حد کو چھو جانے والے ہوں۔ - اللہ تعالیٰ نے ظلم و عدوان دونوں کا ذکر کیا حالان کہ ان دونوں کے معانی متقارب ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب دو لفظوں کے معانی متقارب ہوں لیکن ان میں لفظی اختلاف ہو تو ایسی صورت میں دونوں کا اکٹھا ذکر عبارت کے حسن کا سبب بنتا ہے۔ اس کی ایک مثال عدی بن زید کا یہ شعر ہے - وقددت الایم لہا مشیہ - والفی قولہا کذبا و مینا - زبّاء نے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے جذیمہ کی چمڑی ہاتھ کی دونوں رگوں تک ادھیڑ دی اور جذیمہ نے زباء کے ساتھ اس کے شادی کے وعدے کو جھوٹا پایا۔ کذب اور مین دونوں کے معنی جھوٹ کے ہیں لیکن لفظی اختلاف کی بنا پر ایک کو دوسرے پر عطف کرنا عبارت کے حسن کا سبب بن گیا اسی طرح بشر بن حازم کا شعر ہے۔ - فما وطی الحصی مثل ابن سعدی - ولا لبس النعال ولا احتذاہا - ابن سعدی کی طرح نہ کسی نے کنکریوں کو ورندا ہے اور نہ ہی کسی نے جوتے پہنے ہیں۔ احتذاء جوتا پہننے کو کہتے ہیں۔ اس لیے ان دونوں لفظوں کے معنی ایک ہیں لیکن لفظی اختلاف کی بنا پر شعر میں ان کا ایک ساتھ ذکر ہوگیا جو عبارت کی خوبصورتی کا سبب ہے۔ واللہ اعلم۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ (وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا) - یعنی یہ دونوں کام ۔۔ باطل طریقے سے ایک دوسرے کا مال کھانا اور قتل نفس۔- (فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَارًا ط) (وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا ) - یہ مت سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ نوع انسانی کے بہت بڑے حصے کو جہنم میں کیسے جھونک دے گا ؟ یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے۔- اگلی دو آیات میں انسانی تمدن کے دو بہت اہم مسائل بیان ہو رہے ہیں ‘ جو بڑے گہرے اور فلسفیانہ اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلا مسئلہ گناہوں کے بارے میں ہے ‘ جن میں کبائر اور صغائر کی تقسیم ہے۔ بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ شرک اور پھر کفر ہے۔ پھر یہ کہ جو فرائض ہیں ان کا ترک کرنا اور جو حرام چیزیں ہیں ان کا ارتکاب کبائر میں شامل ہوگا۔ ایک ہیں چھوٹی چھوٹی کوتاہیاں جو انسان سے اکثر ہوجاتی ہیں ‘ مثلاً آداب میں یا احکام کی جزئیات میں کوئی کوتاہی ہوگئی ‘ یا بغیر کسی ارادے کے کہیں کسی کو ایسی بات کہہ بیٹھے کہ جو غیبت کے حکم میں آگئی ‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس ضمن میں صحت مندانہ رویہ یہ ہے کہ کبائر سے پورے اہتمام کے ساتھ بچا جائے کہ اس سے انسان بالکل پاک ہوجائے۔ فرائض کی پوری ادائیگی ہو ‘ محرمات سے مطلق اجتناب ہو ‘ اور یہ جو چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں ان کے بارے میں نہ تو ایک دوسرے پر زیادہ گرفت اور نکیر کی جائے اور نہ ہی خود زیادہ دل گرفتہ ہو اجائے ‘ بلکہ ان کے بارے میں توقع رکھی جائے کہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا۔ ان کے بارے میں استغفار بھی کیا جائے اور یہی صغائر ہیں جو نیکیوں کے ذریعے سے خود بخود بھی ختم ہوتے رہتے ہیں۔ جیسے حدیث میں آتا ہے کہ اعضائے وضو دھوتے ہوئے ان اعضاء کے گناہ دھل جاتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جو شخص وضو کرتا ہے تو جب وہ کلی کرتا ہے اور ناک میں پانی ڈالتا ہے تو اس کے منہ اور ناک سے اس کے گناہ نکل جاتے ہیں۔ جب وہ چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے اور اس کی آنکھوں سے اس کے گناہ نکل جاتے ہیں۔ جب وہ ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں سے گناہ نکل جاتے ہیں ‘ یہاں تک کہ اس کے ہاتھوں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ دھل جاتے ہیں۔ جب وہ سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے سر اور کانوں سے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔ پھر جب وہ پاؤں دھوتا ہے تو اس کے پاؤں سے گناہ نکل جاتے ہیں ‘ یہاں تک کہ اس کے پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں۔ پھر اس کا مسجد کی طرف چلنا اور نماز پڑھنا اس کی نیکیوں میں اضافہ بنتا ہے۔ (١) ُ ّ - یہ صغیرہ گناہ ہیں جو نیکیوں کے اثر سے معاف ہوتے رہتے ہیں ‘ ازروئے الفاظ قرآنی : (اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ط) (ھود : ١١٤) یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں “۔ ان برائیوں سے مراد کبائر نہیں ‘ صغائر ہیں۔ کبائر توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے (اِلاّماشاء اللہ ) ان کے لیے توبہ کرنی ہوگی۔ اور جو اکبر الکبائر یعنی شرک ہے اس کے بارے میں تو اس سورت میں دو مرتبہ یہ الفاظ آئے ہیں : (اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَاءُ ط) (آیت ٤٨ و ١١٦) بلاشبہ اللہ تعالیٰ یہ بات تو کبھی معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے ‘ اور اس کے ماسوا جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہے گا معاف کر دے گا “۔ لیکن ہمارے ہاں مذہب کا جو مسخ شدہ ( ) تصور موجود ہے اس سے ایک ایسا مذہبی مزاج وجود میں آتا ہے کہ جو کبائر ہیں وہ تو ہو رہے ہیں ‘ سود خوری ہو رہی ہے ‘ حرام خوری ہو رہی ہے ‘ مگر چھوٹی چھوٹی باتوں پر نکیر ہو رہی ہے۔ ساری گرفت ان باتوں پر ہو رہی ہے کہ تمہاری داڑھی کیوں شرعی نہیں ہے ‘ اور تمہارا پائنچہ ٹخنوں سے نیچے کیوں ہے ؟ قرآن مجید میں اس معاملے کو تین جگہ نقل کیا گیا ہے کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے بارے میں درگزر سے بھی کام لو اور یہ کہ بہت زیادہ متفکر بھی نہ ہو۔ اس معاملے میں باہمی نسبت و تناسب پیش نظر رہنی چاہیے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani