Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

خرید و فروخت اور اسلامی قواعد و ضوابط؟ اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار بندوں کو ایک دوسرے کے مال باطل کے ساتھ کھانے کی ممانعت فرما رہا ہے خواہ اس کمائی کی ذریعہ سے ہو جو شرعاً حرام ہے جیسے سود خواری قمار بازی اور ایسے ہی ہر طرح کی حیلہ سازی چاہے اسے جواز کی شرعی صورت دے دی ہو اللہ کو خوب معلوم ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے ، حضرت ابن عباس سے سوال ہوتا ہے کہ ایک شخص کپڑا خریدتا ہے اور کہتا ہے اگر مجھے پسند آیا تو تو رکھ لوں گا ورنہ کپڑا اور ایک درہم واپس کر دونگا آپ نے اس آیت کی تلاوت کردی یعنی اسے باطل مال میں شامل کیا ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں یہ آیت محکم ہے یعنی منسوخ نہیں نہ قیامت تک منسوخ ہوسکتی ہے ، آپ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت اتری تو مسلمانوں نے ایک دوسرے کے ہاں کھانا چھوڑ دیا جس پر یہ آیت ( لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْمَرِيْضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ بُيُوْتِكُمْ ۔ الخ ) 24 ۔ النور:61 ) اتری تجارۃ کو تجارۃ بھی پڑھا گیا ہے ۔ یہ استثنا منقطع ہے گویا یوں فرمایا جارہا ہے کہ حرمت والے اسباب سے مال نہ لو ہاں شرعی طریق پر تجارت سے نفع اٹھانا جائز ہے جو خریدار اور بیچنے والے کی باہم رضامندی سے ہو ۔ جیسے دوسری جگہ ہے کسی بےگناہ جان کو نہ مارو ہاں حق کے ساتھ ہو تو جائز ہے اور جیسے دوسری آیت میں ہے وہاں موت نہ چکھیں گے مگر پہلی بار کی موت ۔ حضرت امام شافعی اس آیت سے استدلال کرکے فرماتے ہیں خرید و فروخت بغیر قبولیت کے صحیح نہیں ہوتی اس لئے کہ رضامندی کی پوری سند یہی ہے گو صرف لین دین کرلینا کبھی کبھی رضامندی پر پوری دلیل نہیں بن سکتا اور جمہور اس کے برخلاف ہیں ، تینوں اور اماموں کا قول ہے کہ جس طرح زبانی بات چیت رضامندی کی دلیل ہے اسی طرح لین دین بھی رضامندی کی دلیل ہے ۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کم قیمت کی معمولی چیزوں میں تو صرف دینا لینا ہی کافی ہے اور اسی طرح بیوپار کا جو طریقہ بھی ہو لیکن صحیح مذہب میں احتیاطی نظر سے تو بات چیت میں قبولیت کا ہونا اور بات ہے واللہ اعلم ۔ مجاہد فرماتے ہیں خرید و فروخت ہو یا بخشش ہو سب کے لئے حکم شامل ہے ۔ ابن جریر کی مرفوع حدیث میں ہے تجارت ایک دوسرے کی رضامندی سے ہی لین دین کرنے کا نام ہے گویا کسی مسلمان کو جائز نہیں کہ دوسرے مسلمان کو تجارت کے نام سے دھوکہ دے ، یہ حدیث مرسل ہے پوری رضامندی میں مجلس کے خاتمہ تک کا اختیار بھی ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دونوں بائع مشتری جب تک جدا نہ ہوں با اختیار ہیں ۔ بخاری شریف میں ہے جب دو شخص خرید و فروخت کریں تو دونوں کو الگ الگ ہونے تک مکمل اختیار ہوتا ہے اسی حدیث کے مطابق امام احمد امام شافعی اور ان کے سب ساتھیوں جمہور سلف و خلف کا بھی یہی فتویٰ ہے اور اس پوری رضامندی میں شامل ہے خرید و فروخت کے تین دن بعد تک اختیار دینا رضامندی میں شامل ہے بلکہ یہ مدت گاؤں کی رسم کے مطابق سال بھر کی بھی ہوسکتی ہے امام مالک کے نزدیک صرف لین دین سے ہی بیع صحیح ہوجاتی ہے ۔ شافعی مذہب کا بھی یہی خیال ہے اور ان میں سے بعض فرماتے ہیں کہ معمولی کم قیمت چیزوں میں جنہیں لوگ بیوپار کے لئے رکھتے ہوں صرف لین دین ہی کافی ہے ۔ بعض اصحاب کا اختیار سے مراد یہی ہے جیسے کہ متفق علیہ ہے ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ حرام کاموں کا ارتکاب کرکے اور اس کی نافرمانیاں کرکے اور ایک دوسرے کا بیجا طور پہ مال کھا کر اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو اللہ تم پر رحیم ہے ہر حکم اور ہر ممانعت رحمت والی ہے ۔ احترام زندگی مسند احمد میں ہے کہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ذات السلاسل والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا آپ فرماتے ہیں مجھے ایک رات احتلام ہوگیا سردی بہت سخت تھی یہاں تک کہ مجھے نہانے میں اپنی جان جانے کا خطرہ ہوگیا تو میں نے تیمم کرکے اپنی جماعت کو صبح کی نماز پڑھادی جب وہاں سے ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس حاضر ہوئے تو میں نے یہ واقعہ کہہ سنایا آپ نے فرمایا کیا تو نے اپنے ساتھیوں کو جنبی ہونے کی حالت میں نماز پڑھا دی؟ میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جاڑا سخت تھا اور مجھے اپنی جان جانے کا اندیشہ تھا تو مجھے یاد پڑا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اپنے تئیں ہلاکت نہ کر ڈالو اللہ رحیم ہے پس میں نے تیمم کرکے نماز صبح پڑھا دی تو آپ ہنس دئیے اور مجھے کچھ نہ فرمایا ۔ ایک روایت میں ہے کہ اور لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا تب آپ کے دریافت کرنے پر حضرت عمرو بن عاص نے عذر پیش کیا ۔ بخاری و مسلم میں ہے جو شخص کسی لوہے سے خودکشی کرے گا وہ قیامت تک جہنم کی آگ میں لوہے سے خود کشی کرتا رہے گا ، اور جو جان بوجھ کر مرجانے کی نیت سے زہر کھالے گا وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں زہر کھاتا رہے گا اور روایت میں ہے کہ جو شخص اپنے تئیں جس چیز سے قتل کرے گا وہ قیامت والے دن اسی چیز سے عذاب کیا جائے گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم سے پہلے کے لوگوں میں سے ایک شخص کو زخم لگے اس نے چھری سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا تمام خون بہ گیا اور وہ اسی میں مرگیا تو اللہ عزوجل نے فرمایا میرے بندے نے اپنے تئیں فنا کرنے میں جلدی کی اسی وجہ سے میں نے اس پر جنت کو حرام کیا اسی لئے اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے جو شخص بھی ظلم و زیادتی کے ساتھ حرام جانتے ہوئے اس کا ارتکاب کرے دلیرانہ طور سے حرام پر کار بند رہے وہ جہنمی ہے ، پس ہر عقل مند کو اس سخت تنبیہہ سے ڈرنا چاہئے دل کے کان کھول کر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو سن کر حرام کاریوں سے اجتناب کرنا چاہئے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے تو ہم تمہارے چھوٹے چھوٹے گناہ معاف فرما دیں گے اور تمہیں جنتی بنادیں گے ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مرفوعا مروی ہے کہ اس طرح کی کوئی اور سخت و عیدیں ملی جس کی تعمیل میں تمہیں اپنے اہل و مال سے الگ ہوجانا چاہئے پھر ہم اس کے لئے اپنے اہل و مال سے جدا نہ ہوجائیں کہ وہ ہمارے کبیرہ گناہوں کے وہ ہمارے چھوٹے موٹے گناہوں سے معاف فرماتا ہے پھر اس آیت کی تلاوت کی ۔ اس آیت کے متعلق بہت سی حدیثیں بھی ہیں تھوڑی بہت ہم یہاں بیان کرتے ہیں ۔ مسند احمد میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانتے ہو جمعہ کا دن کیا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے باپ کو پیدا کیا آپ نے فرمایا مگر اب جو میں جانتا ہوں وہ بھی سن لو جو شخص اس دن اچھی طرح غسل کرکے نماز جمعہ کے لئے مسجد میں آئے اور نماز ختم ہونے تک خاموش رہے تو اس کا یہ عمل اگلے جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے جب تک کہ وہ قتل سے بچا ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سناتے ہوئے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے تین مرتبہ یہی فرمایا پھر سرنیچا کرلیا ہم سب نے بھی سر نیچا کرلیا اور ہم سب رونے لگے ہمارے دل کانپنے لگے کہ اللہ جانے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کس چیز کے لئے قسم کھائی ہے اور پھر کیوں خاموشی اختیار کی ہے؟ تھوڑی دیر کے بعد آپ نے سراٹھایا اور آپ کا چہرہ بشاش تھا جس سے ہم اس قدر خوش ہوئے کہ اگر ہمیں سرخ رنگ اونٹ ملتے تو اس قدر خوش نہ ہوتے ، اب آپ فرمانے لگے جو بندہ پانچوں نمازیں پڑھے ، رمضان کے روزے رکھے ، زکوٰۃ ادا کرتا رہے اور سات کبیرہ گناہوں سے بچا رہے اس کے لئے جنت کے سب دروازے کھل جائیں گے اور اسے کہا جائے گا کہ سلامتی کے ساتھ اس میں داخل ہوجاؤ ۔ سات کبیرہ گناہ جن سات گناہوں کا اس میں ذکر ہے ان کی تفصیل بخاری مسلم میں اس طرح ہے گناہوں سے بچو جو ہلاک کرنے والے ہیں پوچھا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون سے گناہ ہیں؟ فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور جس کا قتل حرام ہو اسے قتل کرنا ہاں کسی شرعی وجہ سے اس کا خون حلال ہوگیا ہو تو اور بات ہے ۔ جادو کرنا ، سود کھانا اور یتیم کا مال کھانا اور میدان جنگ سے کفار کے مقابلے میں پیٹھ دکھانا اور بھولی بھالی پاک دامن مسلمان عورتوں کو تہمت لگانا ۔ ایک روایت میں جادو کے بدلے ہجرت کرکے پھر واپس اپنے دیس میں قیام کرلینا ہے ۔ یہ یاد رہے کہ ان سات گناہوں کو کبیرہ کہنے سے یہ مطلب نہیں کہ کبیرہ گناہ صرف یہی ہیں جیسے کہ بعض اور لوگوں کا خیال ہے جن کے نزدیک مفہوم مخالف معتبر ہے ۔ دراصل یہ بہت انتہائی بےمعنی قول اور غلط اصول ہے بالخصوص اس وقت جبکہ اس کے خلاف دلائل موجود ہوں اور یہاں تو صاف لفظوں میں اور کبیرہ گناہوں کا بھی ذکر موجود ہے ۔ مندرجہ ذیل حدیثیں ملاحظہ ہوں ۔ مستدرک حاکم میں ہے کہ حجتہ الوداع میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو سن لو اللہ تعالیٰ کے ولی صرف نمازی ہی ہیں جو پانچوں وقت کی فرض نمازوں کو باقاعدہ بجا لاتے ہیں جو رمضان شریف کے روزے رکھتے ہیں ثواب حاصل کرنے کی نیت رکھے اور فرض جان کر ہنسی خوشی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور ان تمام کبیرہ گناہوں سے دور رہتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے روک دیا ہے ۔ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کبیرہ گناہ کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا شرک ، قتل ، میدان جنگ سے بھاگنا ، مال یتیم کھانا ، سود خوری ، پاکدامنوں پر تہمت لگانا ، ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، بیت اللہ الحرام کی حرمت کو توڑنا جو زندگی اور موت میں تمہارا قبلہ ہے سنو جو شخص مرتے دم تک ان بڑے گناہوں سے اجتناب کرتا رہے اور نماز و زکوٰۃ کی پابندی کرتا رہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں سونے کے محلوں میں ہوگا ۔ حضرت طیسلہ بن میامن فرماتے ہیں مجھ سے ایک گناہ ہوگیا جو میرے نزدیک کبیرہ تھا ، میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا وہ کبیرہ گناہ نہیں کبیرہ گناہ نو ہیں ۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا کسی کو بلا وجہ مار ڈالنا ، میدان جنگ میں دشمنان دین کو پیٹھ دکھانا ، پاکدامن عورتوں کو تہمت لگانا ، سود کھانا ، یتیم کا مال ظلم سے کھا جانا ، مسجد حرام میں الحاد پھیلانا اور ماں باپ کو نافرمانی کے سبب رلانا ، حضرت طیسلہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس بیان کے بعد بھی حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے محسوس کیا کہ خوف کم نہیں ہوا تو فرمایا کیا تمہارے دل میں جہنم کی آگ میں داخل ہونے کا ڈر اور جنت میں جانے کی چاہت ہے؟ میں نے کہا بہت زیادہ فرمایا کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟ میں نے کہا صرف والدہ حیات ہیں ، فرمایا بس تم ان سے نرم کلامی سے بولا کرو اور انہیں کھانا کھلاتے رہا کرو اور ان کبیرہ گناہوں سے بچتے رہا کرو تو تم یقینا جنت میں جاؤ گے اور روایت میں ہے کہ حضرت طیسلہ بن علی نہدی حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے میدان عرفات میں عرفہ کے دن پیلو کے درخت تلے ملے تھے اس وقت حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے سر اور چہرے پر پانی بہا رہے تھے اس میں یہ بھی ہے کہ جب حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تہمت لگانے کا ذکر کیا تو میں نے پوچھا کیا یہ بھی مثل قتل کے بہت بڑا گناہ ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں اور ان گناہوں کے ذکر میں جادو کا ذکر بھی ہے اور روایت میں ہے کہ میری ان کی ملاقات شام کے وقت ہوئی تھی اور میں نے ان سے کبائر کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ کبائر سات ہیں میں نے پوچھا کیا کیا ؟ تو فرمایا شرک اور تہمت لگانا میں نے کہا کیا یہ بھی مثل خون ناحق کے ہے؟ فرمایا ہاں ہاں اور کسی مومن کو بےسبب مار ڈالنا ، لڑائی سے بھاگنا ، جادو اور سود خواری ، مال یتیم کھانا ، والدین کی نافرمانی اور بیت اللہ میں الحاد پھیلانا جو زندگی میں اور موت میں تمہارا قبلہ ہے ، مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اللہ کا بندہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے نماز قائم رکھے زکوٰۃ ادا کرے رمضان کے روزے رکھے اور کبیرہ گناہوں سے بچے وہ جنتی ہے ، ایک شخص نے پوچھا کبائر کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا مسلمان کو قتل کرنا لڑائی والے دن بھاگ کھڑا ہونا ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کو ایک کتاب لکھوا کر بھجوائی جس میں فرائض اور سنن کی تفصیلات تھیں دیت یعنی جرمانوں کے احکام تھے اور یہ کتاب حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ اہل یمن کو بھجوائی گئی تھی اس کتاب میں یہ بھی تھا کہ قیامت کے دن تمام کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ انسان اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرے اور ایماندار شخص کا قتل بغیر حق کے اور اللہ کی راہ میں جہاد کے میدان میں جا کر لڑتے ہوئے نامردی سے جان بچانے کی خاطر بھاگ کھڑا ہونا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور ناکردہ گناہ عورتوں پر الزام لگانا اور جادو سیکھنا اور سود کھانا اور مال یتیم برباد کرنا ۔ ایک اور روایت میں کبیرہ گناہوں کے بیان میں جھوٹی بات یا جھوٹی شہادت بھی ہے اور حدیث میں ہے کہ کبیرہ گناہوں کے بیان کے وقت آپ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے لیکن جب یہ بیان فرمایا کہ جھوٹی گواہی اور جھوٹی بات اس وقت آپ تکیے سے ہٹ گئے اور بڑے زور سے اس بات کو بیان فرمایا اور بار بار اسی کو دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے دل میں سوچا کاش اب آپ نہ دہرائیں ۔ بخاری مسلم میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کونسا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ تو اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک کرے یہ جانتے ہوئے کہ تجھے صرف اسی نے پیدا کیا ہے؟ میں نے پوچھا اس کے بعد؟ فرمایا یہ کہ تو اپنے بچے کو اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گا ، میں نے پوچھا پھر کونسا گناہ بڑا ہے؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی پڑوسن سے بدکاری کرے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ( وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا 68؀ۙ يُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَيَخْلُدْ فِيْهٖ مُهَانًا 69؀ڰ اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰۗىِٕكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَـيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا 70؀ ) 25 ۔ الفرقان:68 تا 70 ) تک پڑھی ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد الحرام میں حطیم کے اندر بیٹھے ہوئے تھے جو ایک شخص نے شراب کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا مجھ جیسا بوڑھا بڑی عمر کا آدمی اس جگہ بیٹھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں بول سکتا شراب کا پینا تمام گناہوں سے بڑا گناہ ہے؟ یہ کام تمام خباثتوں کی ماں ہے شرابی تارک نماز ہوتا ہے وہ اپنی ماں اور خالہ اور پھوپھی سے بھی بدکاری کرنے سے نہیں چوکتا یہ حدیث غریب ہے ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک مرتبہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے وہاں کبیرہ گناہوں کا ذکر نکلا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ تو کسی کے پاس مصدقہ جواب نہ تھا اس لئے انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ کو بھیجا کہ تم جاکر حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کر آؤ میں گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ سب سے بڑا گناہ شراب پینا ہے میں نے واپس آکر اس مجلس میں یہ جواب سنا دیا اس پر اہل مجلس کو تسکین نہ ہوئی اور سب حضرات اٹھ کر حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر چلے اور خود ان سے دریافت کیا تو انہوں نے بیان کیا کہ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک واقعہ بیان کیا کہ بنی اسرائیل کے بادشاہوں میں سے ایک نے ایک شخص کو گرفتار کیا پھر اس سے کہا کہ یا تو تو اپنی جان سے ہاتھ دھو ڈال یا ان کاموں میں سے کسی ایک کو کر یعنی یا تو شراب پی یا خون ناحق کر یا زنا کر یا سور کا گوشت کھا اس غور و تفکر کے بعد اس نے جان جانے کے ڈر سے شراب کو ہلکی چیز سمجھ کر پینا منظور کرلیا جب شراب پی لی تو پھر نشہ میں وہ ان تمام کاموں کو کر گزرا جن سے وہ پہلے رکا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ گوش گزار فرما کر ہم سے فرمایا جو شخص شراب پیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی نمازیں چالیس رات تک قبول نہیں فرماتا اور جو شراب پینے کی عادت میں ہی مرجائے اور اس کے مثانہ میں تھوڑی سی شراب ہو اس پر اللہ جنت کو حرام کردیتا ہے ۔ اگر شراب پینے کے بعد چالیس راتوں کے اندر اندر مرے تو اس کی موت جاہلیت کی موتی ہوتی ہے ، یہ حدیث غریب ہے ، ایک اور حدیث میں جھوٹی قسم کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے ( بخاری وغیرہ ) ابن ابی حاتم میں جھوٹی قسم کے بیان کے بعد یہ فرمان بھی ہے کہ جو شخص اللہ کی قسم کھا کر کوئی بات کہے اور اس نے مچھر کے پر برابر زیادتی کی اس کے دل میں ایک سیاہ داغ ہوجاتا ہے جو قیامت تک باقی رہتا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ انسان کا اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہ ہے لوگوں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ماں باپ کو کیسے گالی دے گا ؟ آپ نے فرمایا اس طرح کہ اس نے دوسرے کے باپ کو گالی دی اس نے اس کے باپ کو اس نے اس کی ماں کو برا کہا اس نے اس کی ماں کو ۔ بخاری شریف میں ہے سب سے بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ پر لعنت کرے لوگوں نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے فرمایا دوسرے کے ماں باپ کو کہہ کر اپنے ماں باپ کو کہلوانا ۔ صحیح حدیث میں ہے مسلمان کو گالی دینا فاسق بنا دیتا ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ اکبر الکبائر یعنی تمام کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ کسی مسلمان کی آبرو ریزی کرنا ہے اور ایک گالی کے بدلے دو گالیاں دینا ہے ۔ ترمذی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے دو نمازوں کو عذر کے بغیر جمع کیا وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے میں گھسا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتاب جو ہمارے سامنے پڑھی گئی اس میں یہ بھی تھا کہ دو نمازوں کو بغیر شرعی عذر کے جمع کرنا کبیرہ گناہ ہے ، اور لڑائی کے میدان سے بھاگ کھڑا ہونا اور لوٹ کھسوٹ کرنا بھی کبیرہ گناہ ہے ، الغرض ظہر عصر یا مغرب عشاء پہلے وقت یا پچھلے وقت بغیر کسی شرعی رخصت کے جمع کرکے پڑھنا کبیرہ گناہ ہے ۔ پھر جو شخص کہ بالکل ہی نہ پڑھے اس کے گناہ کا تو کیا ٹھکانہ ہے؟ چنانچہ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ بندے اور شرک کے درمیان نماز کا چھوڑ دینا ہے ، سنن کی ایک حدیث میں ہے کہ ہم میں اور کافر میں فرق کرنے والی چیز نماز کا چھوڑ دینا ہے ، جس نے اسے چھوڑا اس نے کفر کیا اور روایت میں آپ کا یہ فرمان بھی منقول ہے کہ جس نے عصر کی نماز ترک کردی اس کے اعمال غارت ہوئے اور حدیث میں ہے جس سے عصر کی نماز فوت ہوئی گویا اس کا مال اس کا اہل و عیال بھی ہلاک ہوگئے ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کبیرہ گناہ کیا کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، اللہ کی نعمت اور اس کی رحمت سے ناامید ہونا اور اس خفیہ تدبیروں سے بےخوف ہوجانا اور یہ سب سے بڑا گناہ ہے اسی کے مثل ایک روایت اور بھی بزار میں مروی ہے لیکن زیادہ ٹھیک یہ ہے کہ وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر موقوف ہے ، ابن مردویہ میں ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں سب سے کبیرہ گناہ اللہ عزوجل کے ساتھ بدگمانی کرنا ہے ، یہ روایت بہت ہی غریب ہے ، پہلے وہ حدیث بھی گزرچکی ہے جس میں ہجرت کے بعد کفرستان میں آکر بسنے کو بھی کبیرہ گناہ فرمایا ہے ، یہ حدیث ابن مردویہ میں ہے ، سات کبیرہ گناہوں میں اسے بھی گنا گیا ہے لیکن اس کی اسناد میں اختلاف ہے اور اسے مرفوع کہنا بالکل غلط ہے ٹھیک بات وہی ہے جو تفسیر ابن جریر میں مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفے کی مسجد میں ایک مرتبہ منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ سنا رہے تھے جس میں فرمایا لوگو کبیرہ گناہ سات ہیں اسے سن کر لوگ چیخ اٹھے آپ نے اسی کو پھر دوہرایا پھر دوہرایا پھر فرمایا تم مجھ سے ان کی تفصیل کیوں نہیں پوچھتے؟ لوگوں نے کہا امیر المومنین فرمائیے وہ کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا جس جان کو مار ڈالنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے مار ڈالنا پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانا یتیم کا مال کھانا سود خوری کرنا لڑائی کے دن پیٹھ دکھانا اور ہجرت کے بعد پھر دارالکفر میں آبسنا ۔ راوی حدیث حضرت محمد بن سہل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والد حضرت سہل بن خیثمہ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ اسے کبیرہ گناہوں میں کیسے داخل کیا تو جواب ملا کہ پیارے بچے اس سے بڑھ کر ستم کیا ہوگا ؟ کہ ایک شخص ہجرت کرکے مسلمانوں میں ملے مال غنیمت میں اس کا حصہ مقرر ہوجائے مجاہدین میں اس کا نام درج کردیا جائے پھر وہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ کر اعرابی بن جائے اور دارالکفر میں چلا جائے اور جیسا تھا ویسا ہی ہوجائے ، مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجتہ الوداع کے خطبہ میں فرمایا خبردار خبردار اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو خون ناحق سے بچو ( ہاں شرعی اجازت اور چیز ہے ) زنا کاری نہ کرو چوری نہ کرو ۔ وہ حدیث پہلے گزرچکی ہے جس میں ہے کہ وصیت کرنے میں کسی کو نقصان پہنچانا بھی کبیرہ گناہ ہے ابن جریر میں ہے کہ صحابہ نے ایک مرتبہ کبیرہ گناہوں کو دہرایا کہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا یتیم کا مال کھانا لڑائی سے بھاگ کھڑا ہونا ، پاکدامن بےگناہ عورتوں پر تہمت لگانا ، ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، جھوٹ بولنا ، دھوکہ دینا ، خیانت کرنا ، جادو کرنا ، سود کھانا یہ سب کبیرہ گناہ ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور اس گناہ کو کیا کہو گے؟ جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچتے پھرتے ہیں آخر آیت تک آپ نے تلاوت کی ۔ اس کی اسناد میں ضعف ہے اور یہ حدیث حسن ہے ، پس ان تمام احادیث میں کبیرہ گناہوں کا ذکر موجود ہے ۔ اب اس بارے میں سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے جو اقوال ہیں وہ ملاحظہ ہوں ، ابن جریر میں منقول ہے چند لوگوں نے مصر میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ بہت سی باتیں کتاب اللہ میں ہم ایسی پاتے ہیں کہ جن پر ہمارا عمل نہیں اس لئے ہم امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس بارے میں دریافت کرنا چاہتے ہیں ، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا انہیں لے کر مدینہ آئے اپنے والد سے ملے آپ نے پوچھا کب آئے ہو؟ جواب دیا کہ چند دن ہوئے ۔ پوچھا اجازت سے آئے ہو؟ اس کا بھی جواب دیا پھر اپنے ساتھ آنے والے لوگوں کا ذکر اور مقصد بیان کیا آپ نے فرمایا انہیں جمع کرو سبھی کو ان کے پاس لائے اور ان میں سے ہر ایک کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا تجھے اللہ اور اسلام حق کی قسم بتاؤ تم نے پورا قرآن کریم پڑھا ہے؟ اس نے کہا ہاں فرمایا کیا تو نے اسے اپنے دل میں محفوظ کرلیا ہے اس نے کہا نہیں اور اگر ہاں کہتا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا اسے کماحقہ دلائل سے عاجز کردیتے پھر فرمایا کیا تم سب نے قرآن حکیم کے مفہوم کو نگاہوں میں زبان میں اور اعمال میں ڈھال لیا ہے پھر ایک ایک سے یہی سوال کیا پھر فرمایا تم عمر کو اس مشقت میں ڈالنا چاہتے ہو کہ لوگوں کو بالکل کتاب اللہ کے مطابق ہی ٹھیک ٹھاک کردے ، ہمارے رب کو پہلے سے ہی ہماری خطاؤں کا علم تھا پھر آپ نے آیت ان تجتنبوا الخ ، کی تلاوت کی ۔ پھر فرمایا کیا اہل مدینہ کو تمہارے آنے کا مقصد معلوم ہے؟ انہوں نے کہا نہیں فرمایا اگر انہیں بھی اس کا علم ہوتا تو مجھے اس بارے میں انہیں بھی وعظ کرنا پڑتا ۔ اس کی اسناد حسن ہے اور متن بھی گو یہ روایت حسن کی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہے جس میں انقطاع ہے لیکن پھر بھی اتنے سے نقصان پر اس کی پوری شہرت بھاری ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں کبیرہ گناہ یہ ہیں اللہ کے ساتھ شریک کرنا ، کسی کو مار ڈالنا ، یتیم کا مال کھانا ، پاکدامن عورتوں کو تہمت لگانا ، لڑائی سے بھاگ جانا ، ہجرت کے بعد دارالکفر میں قیام کرلینا ، جادو کرنا ، ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، سود کھانا ، جماعت سے جدا ہونا ، خرید و فروخت کا عہد توڑ دینا ، پہلے گزرچکا ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں بڑے سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی وسعت رحمت سے مایوس ہونا اور اللہ کی رحمت سے ناامید ہونا ہے اور اللہ عزوجل کی پوشیدہ تدبیروں سے بےخوف ہونا ہے ۔ ابن جریر میں آپ ہی سے روایت ہے کہ سورۃ نساء کی شروع آیت سے لے کر تیس آیتوں تک کبیرہ گناہ کا بیان ہے پھر آپ نے ( اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَاۗىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِيْمًا ) 4 ۔ النسآء:31 ) کی تلاوت کی ، حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں کبیرہ گناہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا ماں باپ کو ناخوش کرنا آسودگی کے بعد کے بچے ہوئے پانی کو حاجت مندوں سے روک رکھنا اپنے پاس کے نر جانور کو کسی کی مادہ کے لئے بغیر کچھ لئے نہ دینا ، بخاری و مسلم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے بچا ہوا پانی نہ روکا جائے اور نہ بچی ہوئی گھاس روکی جائے ، اور روایت میں ہے تین قسم کے گنہگاروں کی طرف قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا اور نہ ہی ان کی فرد جرم ہٹائے گا بلکہ ان کے لئے درد ناک عذاب ہیں ایک وہ شخص جو جنگل میں بچے ہوئے پانی پر قبضہ کرکے مسافروں کو اس سے روکے ۔ مسند احمد میں ہے جو شخص زائد پانی کو اور زائد گھاس کو روک رکھے اللہ قیامت کے دن اس پر اپنا فضل نہیں کرے گا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کبیرہ گناہ وہ ہیں جو عورتوں سے بیعت لینے کے ذکر میں بیان ہوئے ہیں یعنی ( يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَاۗءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ عَلٰٓي اَنْ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَـيْـــــًٔــا وَّلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِيْنَ وَلَا يَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَاْتِيْنَ بِبُهْتَانٍ يَّفْتَرِيْنَهٗ بَيْنَ اَيْدِيْهِنَّ وَاَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِيْ مَعْرُوْفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 60 ۔ الممتحنہ:12 ) میں ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کو اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان احسانوں میں بیان فرماتے ہیں اور اس پر بڑی خوشنودی کا اظہار فرماتے ہیں یعنی ( اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَاۗىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِيْمًا ) 4 ۔ النسآء:31 ) کو ۔ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سامنے لوگوں نے کہا کبیرہ گناہ سات ہیں آپ نے کئی کئی مرتبہ فرمایا سات ہیں ، دوسری روایت میں ہے آپ نے فرمایا سات ہلکا درجہ ہے ورنہ ستر ہیں ، ایک اور شخص کے کہنے پر آپ نے فرمایا وہ سات سو تک ہیں اور سات بہت ہی قریب ہیں ہاں یہ یاد رکھو کہ استغفار کے بعد کبیرہ گناہ کبیرہ نہیں رہتا اور اصرار اور تکرار سے صغیرہ گناہ صغیرہ نہیں رہتا ، اور سند سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا جس گناہ پر بھی جہنم کی وعید اللہ تعالیٰ کے غضب لعنت یا عذاب کی ہے وہ کبیرہ گناہ ہے اور روایت میں ہے جس کام سے اللہ منع فرمادے اس کا کرنا کبیرہ گناہ ہے یعنی کام میں بھی اللہ عزوجل کی نافرمانی ہو وہ بڑا گناہ ہے تابعین کے اقوال بھی ملاحظہ ہوں ، عبیدہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کبیرہ گناہ یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ، قتل نفس بغیر حق ، میدان جہاد میں پیٹھ پھیرنا ، یتیم کا مال اڑانا ، سود خوری ، بہتان بازی ، ہجرت کے بعد وطن دوستی ۔ راوی حدیث ابن عون نے اپنے استاد محمد سے پوچھا کیا جادو کبیرہ گناہ میں نہیں؟ فرمایا یہ بہتان میں آگیا ، یہ لفظ بہت سی برائیوں پر مشتمل ہے ، حضرت عبید بن عمیر رحمۃ اللہ علیہ نے کبیرہ گناہوں پر آیات قرآنی بھی تلاوت کرکے سنائیں شرک پر ( وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاۗءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ اَوْ تَهْوِيْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ ) 22 ۔ الحج:31 ) یعنی اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا گویا آسمان سے گر پڑا اور اسے پرندے لپک لے جائیں یا ہوا اسے دور دراز نامعلوم اور بدترین جگہ پھینک دے ۔ یتیم کے مال پر ان الذین یاکلون اموال الیتمی ظلما الخ ، یعنی جو لوگ ظلم سے یتیموں کا مال ہڑپ کر لیتے ہیں وہ سب پیٹ میں جہنم کے انگارے بھرتے ہیں ۔ سود خواری پر ( اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ) 2 ۔ البقرۃ:175 ) یعنی جو لوگ سود خواری کرتے ہیں وہ قیامت کے دن مخبوط الحواس اور پاگل بن کر کھڑے ہوں گے ۔ بہتان پر ( اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۠ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ) 24 ۔ النور:23 ) جو لوگ پاکدامن بےخبر باایمان عورتوں پر تہمت لگائیں ۔ میدان جنگ سے بھاگنے پر یا ایہا الذین امنوا اذالقیتم الذین کفروا زحفا ایمان والو جب کافروں سے مقابلہ ہو جائے تو پیٹھ نہ دکھاؤ ، ہجرت کے بعد کفرستان میں قیام کرنے پر ( اِنَّ الَّذِيْنَ ارْتَدُّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى ۙ الشَّيْطٰنُ سَوَّلَ لَهُمْ ۭ وَاَمْلٰى لَهُمْ ) 47 ۔ محمد:25 ) یعنی لوگ ہدایت کے بعد مرتد ہوجائیں ، قتل مومن پر ومن یقتل مومنا متعمدا فجزا وہ جہنم خالد افیہا یعنی جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر مار ڈالے اس کی سزا جہنم کا ابدی داخلہ ہے ۔ حضرت عطا رحمتہ اللہ علیہ سے بھی کبیرہ گناہوں کا بیان موجود ہے اور اس میں جھوٹی گواہی ہے ، حضرت مغیرہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ کہا جاتا تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو برا کہنا بھی کبیرہ گناہ ہے ، میں کہتا ہوں علماء کی ایک جماعت نے اسے کافر کہا ہے جو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا کہے حضرت امام مالک بن انس رحمتہ اللہ علیہ سے یہ مروی ہے ، امام محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں یہ باور نہیں کر سکتا کہ کسی کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہو اور وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دشمنی رکھے ( ترمذی ) حضرت زید بن اسلم رحمتہ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کبائر یہ ہیں ۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اللہ کی آیتوں اور اس کے رسولوں سے کفر کرنا جادو کرنا اولاد کو مار ڈالنا اللہ تعالیٰ سے اولاد اور بیوی کی نسبت دینا اور اسی جیسے وہ اعمال اور وہ اقوال ہیں جن کے بعد کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی ہاں کی ایسے گناہ ہیں جن کے ساتھ دین رہ سکتا ہے اور عمل قبول کر سکتا ہے ایسے گناہوں کو نیکی کے بدلے اللہ عزوجل معاف فرما دیتا ہے ، حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے مغفرت کا وعدہ ان سے کیا ہے جو کبیرہ گناہوں سے بچیں اور ہم سے یہ بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کبیرہ گناہ سے بچو ٹھیک ٹھاک اور درست رہو اور خوش خبری سنو ۔ مسند عبدالرزاق میں بہ سند صحیح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا میری شفاعت صرف متقیوں اور مومنوں کے لئے ؟ نہیں نہیں بلکہ وہ خطا کاروں اور گناہوں سے آلودہ لوگوں کے لئے بھی ہے ۔ اب علماء کرام کے اقوال سنئے جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ کبیرہ گناہ کسے کہتے ہیں بعض تو کہتے ہیں کبیرہ گناہ وہ ہے جس پر حد شرعی ہو ۔ بعض کہتے ہیں جس پر قرآن میں یا حدیث میں کسی سزاکا ذکر ہو ۔ بعض کا قول ہے جس سے دین داری کم ہوتی ہو اور دیانت داری میں کمی واقع ہوتی ہو ۔ قاضی ابو سعید ہروی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جس کا حرام ہونا لفظوں سے ثابت ہو اور جس نافرمانی پر کوئی حد ہو جیسے قتل وغیرہ اسی طرح ہر فریضہ کا ترک اور جھوٹی گواہی اور جھوٹی روایت اور جھوٹی قسم ۔ قاضی روبانی فرماتے ہیں کبائر ساتھ ہیں بےوجہ کسی کو مار ڈالنا ، زنا ، لواطت ، شراب نوشی ، چوری ، غصب ، تہمت اور ایک آٹھویں گواہی اور اسی کے ساتھ یہ بھی شامل کئے گئے ہیں سود خواری ، رمضان کے روزے کا بلا عذر ترک کر دینا ، جھوٹی قسم ، قطع رحمی ، ماں باپ کی نافرمانی ، جہاد سے بھاگنا ، یتیم کا مال کھانا ، ناپ تول میں خیانت کرنا نماز وقت سے پہلے یا وقت گزار کے بےعذر ادا کرنا ، مسلمان کو بےوجہ مارنا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جان کر جھوٹ باندھنا آپ کے صحابیوں کو گالی دینا اور قدرت کے بھلی باتوں کا حکم نہ کرنا بری باتوں سے نہ روکنا ، قرآن سیکھ کر بھول جانا ، جاندار چیز کو آگ سے جلانا ، عورت کا اپنے خاوند کے پاس بےسبب نہ آنا ، رب کی رحمت سے ناامید ہو جانا ، اللہ کے مکر سے بےخوف ہو جانا ، اہل علم اور عاملان قرآن کی برائیاں کرنا ، ظہار کرنا ، سور کا گوشت کھانا ، مردار کھانا ، ہاں اگر بوجہ ضرورت اور اضطراب کے کھایا ہو تو ادویات کے مصداق ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ان میں سے بعض میں توقف کی گنجائش ہے؟ کبائر کے بارے میں بزرگان دین نہ بہت سی کتابیں بھی تصنیف فرمائی ہیں ہمارے شیخ حافظ ابو عبداللہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایک کتاب لکھی ہے جس میں ستر کبیرہ گناہ گنوائے ہیں ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کبیرہ گناہ وہ ہے جس پر شارع علیہ السلام نے جہنم کی وعید سنائی ہے ۔ اس قسم کے گناہ ہی اگر گنے جائیں تو بہت نکلیں گے اور اگر کبیرہ گناہ ہر اس کام کو کہا جائے جس سے شارع علیہ السلام نے روک دیا ہے تو بہت ہی ہو جائیں گے ۔ واللہ اعلم

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 بالْبَاطِلِ میں دھوکا، فریب، جعل سازی، ملاوٹ کے علاوہ تمام کاروبار بھی شامل ہیں جن سے شریعت نے منع کیا ہے اسی طرح ممنوع اور حرام چیزوں کا کاروبار کرنا بھی باطل میں شامل ہے مثلاً بلا ضرورت فوٹو گرافی، ریڈیو، ٹیوی، وی سی آر، ویڈیو، فلموں کا بنانا اور بیچنا وغیرہ مرمت کرنا سب ناجائز ہے۔ 29۔ 2 اس کے لئے بھی شرط ہے کہ یہ لین دین حلال اشیاء کا ہو حرام اشیاء کا کاروبار باہمی رضامندی کے باوجود ناجائز ہی رہے گا۔ علاوہ ازیں رضامندی میں خیار مجلس کا مسئلہ بھی آجاتا ہے کہ جب تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں سودا فسخ کرنے کا اختیار رہے گا۔ 29۔ 3 اس سے مراد خود کشی بھی ہوسکتی ہے جو کبیرہ گناہ ہے اور ارتکاب معصیت بھی جو ہلاکت کا باعث ہے اور کسی مسلمان کو قتل کرنا بھی کیونکہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہے۔ اس لئے اس کا قتل بھی ایسا ہی ہے جیسے اپنے آپ کو قتل کیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٨] باطل طریقے کون کون سے ہیں ؟ باطل طریقوں سے مراد ہر وہ ذریعہ آمدنی ہے جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہو۔ اور اس کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً :- ١۔ ہر وہ کام جس سے دوسرے کا مالی نقصان ہو جیسے چوری، ڈاکہ، غصب، غبن وغیرہ۔- ٢۔ سود اور اس کی تمام شکلیں، خواہ یہ سود مفرد ہو، مرکب ہو، ڈسکاؤنٹ ہو، مارک اپ اور مارک ڈاؤن ہو یا خواہ یہ ذاتی قرضے کا سود ہو اور خواہ یہ ربا النسیئہ (مدت کے عوض سود) ہو یا ربا الفضل (ایک ہی جنس میں کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ) ہو۔ - ٣۔ ہر ایسا کام جس میں تھوڑی سی محنت سے کثیر مال ہاتھ آتا ہو۔ جیسے جوا، لاٹری اور سٹہ بازی وغیرہ اور بعض حالتوں میں بیمہ پالیسی۔- ٤۔ اندھے سودے یا قسمت کے سودے جن میں صرف ایک ہی عوض مقرر ہوتا ہے دوسرا نہیں ہوتا۔ (عوضین یہ ہے کہ مثلاً ایک کتاب کی قیمت سو روپے ہے تو کتاب کا عوض سو روپے اور سو روپے کا عوض کتاب) جیسے غوطہ خور سے ایک غوطہ کی قیمت مقرر کرنا، بیع ملامسہ، منابذہ۔ بچوں کے کھیل کہ جس چیز پر بچے کا نشانہ لگے وہ اتنی قیمت میں اس کی۔- ٥۔ ہر وہ لین دین جس میں کسی ایک فریق کا فائدہ یقینی ہو دوسرے کو خواہ فائدہ ہو یا نقصان جیسے سود اور ایسے تمام سودے اور معاملات جن میں یہ شرط پائی جاتی ہو۔ - ٦۔ ایسے سودے جو محض تخمینہ سے طے کیے جائیں اور ان میں دھوکہ کا احتمال موجود ہو جیسے کسی ڈھیر کا بالمقطع سودا کرنا یا مال خرید کر قبضہ کیے بغیر آگے چلا دینا یا غیر موجود مال کا سودا کرنا اور باغات وغیرہ کے پیشگی سودے (ان میں بیع سلم اور بیع عرایا کی رخصت ہے جو چھوٹے پیمانہ پر ہوتی ہے اور غریبوں کی سہولت کے لیے جائز کی گئی ہے۔ )- ٧۔ وہ بیع جس میں مشتری دھوکہ دینے کی کوشش کرے مثلاً عیب چھپانا، جانور کا دودھ روک کر بیچنا، ناپ تول میں کمی بیشی کر جانا، دوسرے کو پھنسانے کے لیے بولی چڑھانا وغیرہ۔- ٨۔ جو اشیاء حرام ہیں ان کی خریدو فروخت جیسے شراب کی سوداگری یا ان اشیاء کی جو شراب خانے میں استعمال ہوتی ہیں، مردار کا گوشت، تصویریں اور مجسمے، فحاشی پر مشتمل کتابیں اور تصویریں، کسی حرام کاروبار کے لیے دکان یا مکان کرایہ پر دینا، کاہن کی کمائی، فاحشہ کی کمائی، کتے کی قیمت وغیرہ۔- ٩۔ حکومت کے ذریعہ دوسروں کے مال بٹورنا مثلاً لین دین کے جھوٹے مقدمات اور رشوت وغیرہ یا حکومت کا لوگوں کی زمین پر قبضہ کر کے ان کو اپنی مرضی کے مطابق لین دین پر مجبور کرنا۔ جیسے حکومت کے محکمہ ہائے ایل ڈی اے، کے ڈی اے وغیرہ دوسرے لوگوں کی زمینیں ان کی رضامندی کے بغیر حاصل ( ) کرلیتے ہیں۔- ١٠۔ کتاب اللہ میں تحریف و تاویل اور غلط فتو وں سے مال بٹورنا اور یہ کام بالخصوص علماء سے مختص ہے۔ اب اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا۔ بائع اور مشتری صرف اسی حال میں جدا ہوں کہ وہ ایک دوسرے سے راضی ہوں۔ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب البیعان بالخیار مالم یتفرقا)- ٢۔ آپ نے فرمایا بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں سودے کو پورا کرنے یا فسخ کرنے کا اس وقت تک اختیار رکھتے ہیں جب تک وہ جدا نہ ہوں سوائے بیع خیار کے (جس میں معین مدت کے اندر سودا فسخ کرنے کی شرط ہوتی ہے۔ ) (بخاری، کتاب البیوع، باب البیعان بالخیار مالم یتفرقا)- ٣۔ ابو امامہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص قسم کھا کر کسی مسلمان کا حق مار لیتا ہے اللہ اس کے لیے دوزخ واجب کردیتا ہے اور جنت اس کے لیے حرام ہوجاتی ہے۔ کسی نے آپ سے پوچھا اگرچہ یہ حق تلفی بالکل معمولی قسم کی ہو ؟ فرمایا اگرچہ وہ پیلو کے درخت کی ایک شاخ ہی کیوں نہ ہو۔ (مسلم بحوالہ فقہ السنہ جلد ٢ صفحہ ١٤٩)- ٤۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ عزوجل چار قسم کے آدمیوں سے دشمنی رکھتا ہے۔ ایک وہ جو قسمیں کھا کر سودا بازی کرتا ہو، دوسرے محتاج جو اکڑ باز ہو۔ تیسرے بوڑھے زانی سے اور چوتھے ظلم کرنے والے حاکم سے۔ (نسائی، کتاب الزکوٰۃ، باب الفقیر المحتال)- ٥۔ سیدنا ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے نہ کلام کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور انہیں دردناک عذاب ہوگا۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ کون ہیں ؟ وہ تو نامراد ہوگئے اور خسارہ میں رہے۔ فرمایا۔ ایک تہبند (ٹخنوں سے نیچے) لٹکانے والا۔ دوسرا احسان جتلانے والا اور تیسرا جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال بیچنے والا۔ (مسلم، کتاب الایمان۔ باب غلظ تحریم تنفیق السلعۃ بالحلف)- ٦۔ آپ نے فرمایا اے تاجروں کے گروہ سودے بازی میں بےہودہ باتیں اور قسمیں شامل ہوجاتی ہیں لہذا تم ان کے ساتھ صدقہ بھی ملا لیا کرو۔ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب ماجاء فی التجار۔ نسائی، کتاب البیوع باب الحلف الواجب)- ٧۔ ناپ تول میں کمی سے متعلق آپ نے فرمایا بلاشبہ تم دو ایسے کاموں کے والی بنائے گئے ہو کہ تم سے پہلے کی قومیں اسی جرم کی پاداش میں ہلاک ہوئیں۔ (ترمذی، کتاب البیوع، باب فی المکیال والمیزان)- ٨۔ ایک دفعہ آپ بازار تشریف لے گئے وہاں ایک تولنے والا کوئی جنس تول رہا تھا اسے دیکھ کر آپ نے فرمایا تول اور کچھ جھکتا تول۔ (نسائی، کتاب البیوع، باب الرجحان فی الوزن)- ٩۔ سیدنا عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ یہود کو غارت کرے، ان پر چربی حرام کی گئی تو انہوں نے اسے پگھلایا پھر بیچ ڈالا۔ ، (بخاری، کتاب البیوع باب لایذاب شحم المیتۃ)- ١٠۔ جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا بلاشبہ اللہ نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی سوداگری کو حرام کیا ہے۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب بیع المیتۃ والاصنام)- ١١۔ ابو مسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے کتے کی قیمت، فاحشہ کی کمائی اور نجومی کی اجرت سے منع فرمایا ہے۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب ثمن الکلب)- ١٢۔ سیدنا ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ آپ نے فرمایا میں بھی ایک آدمی ہوں۔ تم میرے سامنے جھگڑا لیے آتے ہو۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنی دلیل دوسرے فریق کی نسبت اچھی طرح بیان کرتا ہے اور میں جو سنتا ہوں اس پر فیصلہ کردیتا ہوں۔ پھر اگر میں کسی کو اس کے مسلمان بھائی کا حق دلا دوں تو وہ ہرگز نہ لے۔ میں اسے دوزخ کا ایک ٹکڑا دلا رہا ہوں۔ (بخاری، کتاب الحیل، باب بلاعنوان۔ بخاری، کتاب الاحکام، باب من قضی لہ من حق اخیہ فلا یا خذہ)- ١٣۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا۔ جو شخص تصویریں بناتا ہے، قیامت کے دن اللہ اسے کہے گا کہ اب اس میں جان بھی ڈال اور وہ یہ کام کبھی نہ کرسکے گا۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب بیع التصاویر التی لیس فیہا الروح)- ١٤۔ آپ نے فرمایا۔ بازار میں غلہ لانے والے کو رزق ملتا ہے اور ذخیرہ اندوز ملعون ہے۔ (ابن ماجہ، دارمی بحوالہ مشکوۃ، کتاب البیوع، باب الاحتکار، فصل ثانی)- ١٥۔ واثلہ بن الاسقع کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا کہ جس شخص نے اپنی عیب دار چیز عیب بتائے بغیر بیچی وہ ہمیشہ اللہ کے غضب میں رہے گا اور فرشتے اس پر لعنت کرتے رہیں گے۔ (ابن ماجہ بحوالہ مشکوۃ، کتاب البیوع، باب المنہی عنہا من البیوع۔ فصل ثالث)- ١٦۔ آپ نے فرمایا۔ بائع اور مشتری دونوں جب تک جدا نہ ہوں، مختار ہیں۔ پھر اگر انہوں نے سچ بولا اور صاف گوئی سے کام لیا تو ان کے سودے میں برکت دی جاتی ہے۔ اور وہ عیب وغیرہ چھپا گئے اور جھوٹ بولا تو ان کے سودے سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب اذابین البیعان نیز باب مایمحق الکذب والکتمان فی البیع)- ١٧۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دفعہ) آپ کا ایک غلہ کے ڈھیر پر گزر ہوا۔ آپ نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا تو انگلیوں کو نمی محسوس ہوئی۔ آپ نے پوچھا اے غلہ والے یہ کیا ؟ وہ کہنے لگا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بارش ہوگئی تھی۔ آپ نے فرمایا تو تو نے (اس نمدار غلے کو) ڈھیر کے اوپر کیوں نہ کیا تاکہ لوگ اسے دیکھ سکتے۔ پھر فرمایا جس نے دھوکا دیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب قول النبی من غشنا فلیس منا )- ١٨۔ آپ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اونٹنی یا بکری خریدے جس کا دودھ بڑھایا گیا ہو تو دودھ دوہنے کے بعد خریدنے والے کو دو باتوں میں سے کسی ایک کا اختیار ہے۔ چاہے تو اسے رکھ لے اور چاہے تو واپس کر دے اور ایک صاع کھجور بھی اس کے ساتھ دے۔ (مسلم، کتاب البیوع۔ باب حکم بیع المصراۃ)- ١٩۔ ایک دوسری روایت کے مطابق یہ اختیار تین دن تک ہے۔ (حوالہ ایضاً )- ٢٠۔ سیدنا جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے محاقلہ (کھیتی پکنے سے پہلے سود اچکا لینے) سے اور مزابنۃ (کھجور، انگور پکنے سے پہلے خشک کھجور یا انگور کا سودا چکا لینے) سے اور مخابرہ (زمین کو بٹائی پر دینا۔ جس کی بعد میں اجازت دے دی گئی) سے اور معاومہ (بیع سنین یعنی چند سالوں کی فصل کا پیشگی سودا چکا لینے) سے اور ثنیا (سودا چکاتے وقت چند درختوں یا کھیتی کا کچھ حصہ مستثنیٰ کرلینے) سے منع فرمایا اور بیع عرایا (چھوٹے پیمانے پر بیع مزابنۃ جس میں غریبوں کی ضرورت کا لحاظ رکھا گیا ہے، کی اجازت دی۔ (بخاری، کتاب المساقات، باب الرجل یکون لہ ممرٌّ او شرب فی الحائط، مسلم، کتاب البیوع۔ باب النہی عن المحاقلۃ) اور عرایا میں جو رخصت ہے وہ پانچ وسق (اندازاً بیس من) تک ہے۔ (مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم الرطب بالتمر الا فی العرایا)- ٢١۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ دور جاہلیت میں لوگ حبل الحبلہ تک اونٹ کے گوشت کی سودا بازی کرتے اور حبل الحبلہ یہ ہے کہ اونٹنی جنے پھر اس کا بچہ حاملہ ہو اور وہ جنے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قسم کی بیع سے منع فرما دیا۔ (مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم بیع الحبل الحبلۃ۔۔ بخاری کتاب البیوع، عنوان باب)- ٢٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے ادھار کی ادھار سے (یعنی دونون طرف ادھار) بیع کرنے سے منع فرمایا (دار قطنی بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب البیوع۔ باب المنہی عنہا من البیوع۔ فصل ثانی )- ٢٣۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے بیع الحصاۃ (کنکریاں پھینکنے کی بیع) اور دھوکے کی بیع سے منع فرمایا (بخاری، کتاب البیوع، باب بیع الغرر۔۔ مسلم، کتاب البیوع، باب بطلان بیع الحصاۃ والبیع الذی فیہ غرر)- ٢٤۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہمیں دو قسم کی بیع سے منع کیا گیا ایک ملامسہ اور دوسری منابذہ اور ملامسہ یہ ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک بلا سوچے سمجھے دوسرے کا کپڑا چھوئے اور منابذہ یہ ہے کہ ہر ایک اپنا کپڑا دوسرے کی طرف پھینک دے۔ اور کوئی دوسرے کا کپڑا نہ دیکھے (اور اس طرح یہ بیع لازم ہوجائے) (بخاری، کتاب البیوع، باب الملامسۃ والمنابذۃ۔۔ مسلم۔ کتاب البیوع۔ باب ابطال بیع الملامستہ والمنابذۃ)- ٢٥۔ سیدنا ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ آپ فرماتے ہیں کہ آپ نے بیع نجش (بائع کی طرف سے مقررہ لوگ جو خریدار کو زیادہ قیمت ادا کرنے پر راغب کرسکیں۔ نیز چڑھی کی بولی) سے منع فرمایا۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب النجش)- ٢٦۔ سیدنا علی (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے لاچار آدمی کی سودا بازی سے فائدہ اٹھانے سے اور دھوکہ کی بیع سے اور پھلوں کے پکنے سے پہلے ان کی سودا بازی سے منع فرمایا۔ (ابو داؤد، کتاب البیوع، باب ماجاء فی بیع المضطر)- ٢٧۔ سیدنا عمرو بن شعیبص اپنے باپ سے اپنے دادے سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ہمیں بیع عربان (بیعانہ کی ضبطی والے سودے) سے منع فرمایا۔ (مؤطا، کتاب البیوع، باب بیع العربان)- ٢٨۔ سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب آپ مدینہ تشریف لائے تو لوگ پھلوں کے ایک یا دو یا تین سال کے لیے پیشگی سودے کرلیا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا جو کوئی کسی چیز کا پیشگی سودا کرے تو اسے چاہیے کہ مقررہ ناپ میں، مقررہ وزن میں اور مقررہ مدت تک سودا کرے (بخاری، کتاب السلم، باب السلم فی کیل معلوم۔۔ مسلم، کتاب المساقات، باب السلم)- ٢٩۔ آپ نے فرمایا جو شخص بیع سلم کرے تو مال پر قبضہ کرنے سے پہلے کسی دوسرے کی طرف یہ سودا منتقل نہ کرے۔ (ابو داؤد۔ کتاب الاجارۃ، باب السلف لایحول)- اب ہم مختلف عنوانات کے تحت احادیث درج کرتے ہیں :- (١) شرح منافع : محمد بن سیرین (تابعی فرماتے ہیں کہ دس کا مال گیارہ میں بیچنے میں کوئی قباحت نہیں اور جو خرچہ اس پر پڑا ہے اس پر بھی یہی منافع لے سکتا ہے (بخاری، کتاب البیوع، باب من اجری امرالامصار علی مایتعارفون)- (٢) واحد کلام : سیدنا قیلہ (رض) ام انمار کہتی ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں خریدو فروخت کیا کرتی ہوں اور جو چیز مجھے خریدنا ہوتی ہے اس کے کم دام لگاتی ہوں۔ پھر دام بڑھاتے بڑھاتے اس قیمت پر آجاتی ہوں جو میرا مقصود ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی چیز بیچنا ہو تو زیادہ دام کہتی ہوں اور پھر کم کرتے کرتے اپنے مقصود پر آجاتی ہوں۔ آپ نے فرمایا قیلہص یہ کام اچھا نہیں۔ جو چیز جتنے کو بیچنا چاہتی ہو اتنے ہی دام کہہ دو ۔ لینے والا چاہے گا تو لے لے گا ورنہ نہیں اور جو چیز خریدو اس کی بھی ایک ہی قیمت کہہ دو ، دینے والا چاہے تو لے لے ورنہ نہ لے۔ (ابن ماجہ، ابو اب التجارات، باب السوم)- (٣) السابق فالسابق : سیدنا سمرہ بن جندب (رض) اور عقبہ صبن عامر دونوں کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب دو صاحب اختیار ایک ہی چیز خریدیں تو وہ چیز اس کی ہوگی جس نے پہلے خریدی (ابن ماجہ۔ کتاب البیوع۔ باب السابق فالسابق)- (٤) قیمت بتانا : آپ نے فرمایا : مال کی قیمت صاحب مال ہی لگانے کا زیادہ حقدار ہے (بخاری۔ کتاب البیوع۔ باب صاحب السلعۃ احق بالسوم)- (٥) غائب چیز کا سودا : آپ نے فرمایا جس نے کوئی ایسی چیز خریدی جسے اس نے دیکھا نہ ہو تو دیکھنے کے بعد اسے اختیار ہے کہ وہ سودا بحال رکھے یا فسخ کر دے۔ (دار قطنی بیہقی بحوالہ فقہ السنہ ج ٢ ص ١٣٦)- (٦) قیمت میں اختلاف : آپ نے فرمایا جب بائع اور مشتری میں اختلاف ہوجائے اور ان میں کوئی شہادت یا ثبوت موجود نہ ہو تو اس شخص کی بات معتبر ہوگی جو مال کا مالک ہے یا پھر وہ سودا چھوڑ دیں (ترمذی ابو اب البیوع، باب اذا اختلف البیعان)- (٧) ناپ تول کی مزدوری بائع پر ہے : سیدنا عثمان (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب تو بیچے تو ناپ کر دے اور خریدے تو ناپ کرلے۔ (بخاری، کتاب البیوع۔ باب الکیل علی البائع والمعطی)- (٨) خرید کردہ مال کا تاوان : سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ بیع کے وقت جو مال موجود تھا (اگر مشتری اسے بائع کے پاس چھوڑ جائے) اور وہ تلف ہوجائے تو تاوان خریدار پر پڑے گا۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب من اشتری متاعا اودابۃ فوضعہ عندالبائع)- (٩) کج بحث جھگڑالو : سیدہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ کے ہاں سب سے ناپسندیدہ شخص کج بحث جھگڑالو ہے (جو خواہ مخواہ جھگڑے کا پہلو پیدا کرلیتا ہے۔ ) (بخاری، کتاب المظالم۔ باب قول اللہ و ھوالد الخصام)- (١٠) ہبہ کردہ چیز کو خریدنا : سیدنا عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ایک گھوڑا مجاہد کو دیا۔ اس نے وہ گھوڑا کمزور کردیا اور بازار میں فروخت کرنے کے لیے لے آیا۔ میں نے چاہا کہ اب یہ سستے داموں مل رہا ہے تو خرید لوں۔ میں نے آپ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا۔ اسے مت خریدنا خواہ وہ تجھے ایک درہم میں دے دے کیونکہ اپنے صدقہ کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے پھر اسے چاٹ جاتا ہے۔ (بخاری، کتاب الہبہ، باب لایحل لاحدان یرجع فی ھبتہ و صدقتہ)- (١١) غیر موجود چیز کا سودا : حکیم بن حزام (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے ایسی چیز بیچنے سے منع فرما دیا، جو میرے پاس موجود نہ ہو۔ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب ماجاء فی الکراھیۃ مالیس عندہ )- (١٢) راہ میں سودا نہ کیا جائے : سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا غلہ وغیرہ کے قافلوں کو آگے جا کر مت ملو۔ جو کوئی آگے جا کر مال خریدے اور بعد میں مال کا مالک منڈی میں آئے تو اسے سودا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔ (مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم تلقی الجلب)- (١٣) ناپ تول کے بغیر سودا نہ کیا جائے : سیدنا جابر (رض) کہتے ہیں کہ : آپ نے کھجور (یا کسی دوسرے غلہ) کے ڈھیر کی سودا بازی سے منع فرمایا جس کا اس کے معروف پیمانہ سے ناپ معلوم نہ ہو (مسلم۔ کتاب البیوع باب تحریم صبرالتمر)- (١٤) قبضہ سے پہلے آگے سودا نہ کیا جائے : سیدنا ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ لوگ بازار کے بالائی حصہ میں سودا کرتے پھر وہیں بیچ دیتے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی مقام پر بیچنے سے منع فرمایا۔ یہاں تک کہ اس غلہ کو منتقل نہ کیا جائے (یعنی اپنے قبضہ میں نہ کرلیا جائے) بخاری کتاب البیوع، باب ما ذکر فی الاسواق۔۔ مسلم، کتاب البیوع، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض)- سیدنا عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں جو لوگ بن ماپے تولے اناج کے ڈھیر خریدتے انہیں مار پڑتی تھی۔ اس لیے کہ جب تک وہ اپنے گھر نہ لے جائیں مال نہ بیچیں (بخاری کتاب البیوع، باب مایذکر فی بیع الطعام والحکرۃ)- آپ نے فرمایا کہ جو شخص غلہ خریدے تو جب تک اس کے پورا ہونے کی تسلی نہ کرلے اسے فروخت نہ کرے۔ اور ابن عباس (رض) کی روایت میں ہے کہ جب تک اسے ناپ نہ لے (بخاری، کتاب البیوع، باب الکیل علی البائع والمعطی)- (١٥) بائع اور مشتری کے درمیان تیسرا آدمی سودا نہ کرے : سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے اور نہ اپنے بھائی کی منگنی کی بات کے درمیان منگنی کی بات کرے۔ ہاں اس کی اجازت سے ایسا کرسکتا ہے۔ (مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم بیع الرجل علیٰ بیع اخیہ)- (١٦) سودا خراب کرنا : سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : کوئی مسلمان اپنے بھائی کے چکائے ہوئے سودے پر سودا نہ چکائے (یعنی زیادہ رقم کا لالچ دے کر سودا خراب نہ کرے۔ (مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم بیع الرجل علی بیع اخیہ و سومہ)- (١٧) قیمت کم کر کے دوسروں کو نقصان پہنچانا : سیدنا سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ سیدنا عمر (رض) بازار میں حاطب (رض) بن ابی بلتعہ کے پاس سے گزرے جو بازاری قیمت سے کم قیمت پر منقیٰ بیچ رہے تھے۔ آپ (رض) نے انہیں فرمایا یا تو نرخ زیادہ کرو یا ہمارے بازار سے اٹھ جاؤ۔ (موطا، کتاب البیوع، باب الحکرۃ والتربص)- تاہم بعض علماء کہتے ہیں کہ چیز کے مالک کو اپنی چیز کم داموں پر بیچنے کا اختیار ہے۔ (حوالہ ایضاً ) بشرطیکہ اس سے دوسروں کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو۔ - (١٨) کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا ظلم ہے : ابو حرہ رقاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا خبردار ظلم نہ کرو، خبردار کسی کا مال دوسرے کے لیے اس کی رضامندی کے بغیر حلال نہیں۔ (بیہقی، دارقطنی بحوالہ مشکوۃ، کتاب البیوع، باب الغصب والعاریۃ۔ فصل ثانی)- (١٩) قرض دینے کے بعد مقروض سے سودا بازی نہ کی جائے :- (٢٠) جس مال پر قبضہ نہیں ہوا اس کا نفع جائز نہیں : سیدنا عمرو (رض) بن شعیب اپنے باپ سے، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا (١) پیشگی دیا ہوا قرض اور بیع جائز نہیں (٢) ایک بیع میں دو صورتیں جائز نہیں (نقد قیمت کم ادھار زیادہ) (٣) جس مال پر قبضہ نہ ہوا ہو (نہ رقم ادا کی اس کا منافع مشتری کو) حلال نہیں (٤) اور جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اس کا سودا نہ کرو۔ (ابو داؤد، کتاب البیوع، باب فی الرجل یبیع مالیس عندہ)- (٢١) ملاوٹ والی چیز کو الگ کر کے بیچا جائے : فضالہ (رض) بن عبید کہتے ہیں کہ خیبر کے دن میں نے ایک ہار بارہ دینار میں خریدا۔ جس میں سونا اور نگینے تھے۔ میں نے انہیں الگ الگ کیا تو سونا ہی بارہ دینار سے زیادہ مالیت کا پایا۔ میں نے اس کا ذکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تو آپ نے فرمایا کوئی چیز جب تک الگ الگ نہ کرلی جائے اس کی خریدو فروخت نہ کی جائے۔ (مسلم، کتاب المساقاۃ والمزارعۃ باب الربا)- (٢٢) چوری کے مال کی بیع : (١) آپ نے فرمایا۔ جس شخص نے اپنا مال بعینہ کسی کے پاس پا لیا وہ اس کا زیادہ حقدار ہے اور مسروقہ مال خریدنے والا اس شخص کو ڈھونڈے جس نے اس کے پاس مال بیچا تھا۔ (نسائی، ابو داؤد، کتاب الاجارۃ، باب فی الرجل یجد عین مالہ عندر جل)- (٢) نیز آپ نے فرمایا جس نے چوری کا مال خریدا اور وہ جانتا تھا کہ وہ چوری کا مال ہے تو وہ چوری کے گناہ اور اس کی سزا میں برابر کا شریک ہے۔ (بیہقی بحوالہ فقہ السنۃ ج ٣ ص ١٤٦)- (٢٣) سودا واپس موڑ لینا : عمرو بن شعیب اپنے باپ سے، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا کہ بائع اور مشتری جب تک جدا نہ ہوں، مختار ہیں۔ الا یہ کہ خیار کی شرط کرلی جائے اور دونوں میں سے کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس خوف سے جلد جدا ہونے کی کوشش کرے کہ کہیں سودا واپس نہ ہوجائے۔ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب البیعان بالخیار)- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص سودا واپس موڑ لے (قیامت کے دن) اللہ اس کی لغزشیں واپس لے لے گا۔ (ابو داؤد، کتاب الاجارۃ فی فضل الاقالۃ)- (٢٤) مسجد میں خریدو فروخت کرنا : آپ نے فرمایا جب تم مسجد میں کسی کو کوئی چیز بیچتا یا خریدتا دیکھو تو اسے کہو۔ اللہ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے۔ اور جب کسی کو مسجد میں کوئی گمشدہ چیز ڈھونڈتے دیکھو تو اسے کہو۔ اللہ کرے تمہیں وہ نہ ملے۔ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب النہی عن البیع فی المسجد)- (٢٥) نمازوں کی اوقات میں خریدو فروخت :- جمعہ کی اذان کے بعد لین دین یا دوسرے مشاغل حرام ہیں ( سورة جمعہ : ٩) یہی صورت عام نمازوں کے لیے بھی ہے۔- (٢٦) نیلام : سیدنا انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ٹاٹ اور ایک پیالہ بیچنا چاہا آپ نے پوچھا : کون یہ ٹاٹ اور پیالہ خریدتا ہے ؟ ایک شخص نے کہا : میں یہ دونوں چیزیں ایک درہم میں لیتا ہوں۔ آپ نے پوچھا : کوئی ایک درہم سے زیادہ دیتا ہے ؟ پھر ایک شخص نے ان چیزوں کے آپ کو دو درہم دیئے تو آپ نے یہ بیچ دیں۔ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب ماجاء فی من یزید) - (٢٧) شراکت : سیدنا ابوہریرہ (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے۔ دو شریکوں کا تیسرا میں ہوتا ہوں جب تک کوئی ان میں سے خیانت نہ کرے۔ پھر جب ان میں سے کوئی خیانت کرتا ہے تو میں درمیان سے نکل جاتا ہوں۔ (ابو داؤد، کتاب البیوع، باب فی الشرکہ) ۔۔ اور رزین نے یہ اضافہ کیا اور (اللہ کی جگہ) شیطان آجاتا ہے (مشکوٰۃ، کتاب البیوع، باب الشرکۃ والوکالۃ فصل ثالث)- [٤٩] بظاہر سود، جوا اور رشوت، ان تینوں میں باہمی رضامندی پائی جاتی ہے۔ لیکن یہ رضامندی اضطراری ہوتی ہے مثلاً قرض لینے والے کو اگر قرض حسنہ مل سکتا ہو تو وہ کبھی سود پر قرضہ لینے پر آمادہ نہ ہوگا۔ جواری اس لیے رضامند ہوتا ہے کہ ہر ایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے۔ ورنہ اگر کسی کو ہارنے کا خطرہ ہو تو وہ کبھی جوا نہ کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہو کہ اسے رشوت دیئے بغیر بھی حق مل سکتا ہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ علاوہ ازیں سودے بازی میں اگر ایک فریق کی پوری رضامندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ شرعی اصطلاح میں اسے بیع خیار کہتے ہیں۔- [٥٠] خود کشی کی حرمت :۔ اس جملہ کے تین مطلب ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ اسے سابقہ مضمون سے متعلق سمجھا جائے۔ اس صورت میں اس کا معنی یہ ہوگا کہ باطل طریقوں سے دوسروں کا مال ہضم کر کے اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔ اور اگر اسے الگ جملہ سمجھا جائے تو پھر اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ ایک دوسرے کو قتل نہ کرو یعنی قتل ناحق، جو حقوق العباد میں سب سے بڑا گناہ ہے۔ اور قیامت کو حقوق العباد میں سب سے پہلے قتل ناحق کے مقدمات کا ہی فیصلہ ہوگا۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ خودکشی نہ کرو۔ کیونکہ انسان کی اپنی جان پر بھی اس کا اپنا تصرف ممنوع اور ودکشی گناہ کبیرہ ہے۔ چناچہ حسن بصری فرماتے ہیں کہ تم سے پہلے لوگوں میں سے کسی کو ایک پھوڑا نکلا۔ جب اسے تکلیف زیادہ ہوئی تو اس نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا اور پھوڑے کو چیر دیا۔ پھر اس سے خون بند نہ ہوا یہاں تک کہ وہ مرگیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اس پر جنت کو حرام کردیا۔ (یہ حدیث بیان کرنے کے بعد) حسن نے اپنا ہاتھ مسجد کی طرف بڑھایا اور کہا اللہ کی قسم مجھ سے یہ حدیث جندب (بن عبداللہ بجلی) نے بیان کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس مسجد میں۔ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب غلظ تحریم قتل الانسان نفسہ)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ : کمائی کے جتنے بھی ناجائز طریقے ہیں سب کے سب ” بالباطل “ میں آجاتے ہیں، حتیٰ کہ حیلہ سازی کے ساتھ کسی کا مال کھانا بھی حرام ہے اور اپنے مال کو غلط طریقے سے اڑانا بھی اسی میں داخل ہے۔ (رازی۔ ابن کثیر)- اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً ۔۔ : یعنی وہ تجارت اور لین دین (صنعت و حرفت وغیرہ) جس میں حقیقی باہمی رضا مندی ہو، اس کے ذریعے سے کماؤ اور کھاؤ۔ آپس کی رضا مندی میں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ شرع کے خلاف نہ ہو، کیونکہ وہ حقیقی رضا مندی ہوتی ہی نہیں، مجبوری کی رضا مندی ہوتی ہے، مثلاً رشوت اور سود میں بظاہر رضا مندی ہے مگر حقیقی نہیں، کیونکہ ایک فریق دوسرے کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اسی طرح جوئے اور لاٹری وغیرہ کا معاملہ ہے کہ یہ دونوں فریق نفع کی موہوم امید کے فریب میں آکر یہ کام کر رہے ہیں، اس فریب کو حقیقی رضا مندی نہیں کہا جاسکتا۔ پورے طور پر باہمی رضا مندی میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ جب تک بیچنے والا اور خریدنے والا مجلس بیع سے الگ نہ ہوں اس وقت تک دونوں کو ایک دوسرے کی بیع رد کرنے کا حق ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” خریدو فروخت کرنے والوں میں سے ہر ایک کو (بیع فسخ کرنے کا ) اس وقت تک اختیار ہے جب تک وہ آپس میں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوجائیں، سوائے اس تجارت کے جس میں یہ اختیار باقی رکھا جائے۔ “ [ بخاری، البیوع، باب البیعان بالخیار ما لم یتفرقا : ٢١١١، عن ابن عمر ]- وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ : اس کے تین معانی ہوسکتے ہیں اور تینوں مراد ہیں، پہلا یہ کہ شریعت کی مخالفت کرتے ہوئے حقیقی باہمی رضا مندی کے بغیر اگر لین دین کرو گے تو اس کا نتیجہ آپس میں قتل و غارت ہوگا، جیسا کہ جوئے کے نتیجے میں ہارنے والے کے ہاتھوں کئی جیتنے والے قتل ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا یہ کام مت کرو۔ دوسرا یہ کہ ایک دوسرے کو قتل مت کرو، کیونکہ یہ اپنے آپ ہی کو قتل کرنا ہے اور تیسرا یہ کہ خود کشی مت کرو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس شخص نے چھری کے ساتھ اپنے آپ کو قتل کیا تو جہنم میں چھری اس کے ہاتھ میں ہوگی اور وہ اس کے ساتھ اپنے پیٹ کو پھاڑے گا، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسی میں رہے گا اور جس نے اپنے آپ کو زہر سے قتل کیا تو جہنم میں اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا، جسے وہ گھونٹ گھونٹ کر کے پیے گا، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسی میں رہے گا اور جس نے پہاڑ سے گرا کر اپنے آپ کو قتل کیا تو وہ جہنم کی آگ میں گرتا رہے گا، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس میں رہے گا۔ “ [ مسلم، الإیمان، باب بیان غلظ تحریم۔۔ : ١٠٩، بخاری : ٥٧٧٨، عن أبی ہریرۃ (رض) ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات :- شروع سورة نساء میں تمام انسانوں کا ایک ماں باپ سے پیدا ہونا اور سب کا ایک رشتہ اخوت میں جکڑے رہنا بیان فرما کر عام انسانوں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی ادائیگی کی طرف اجمالی اشارہ فرمایا، پھر یتیموں اور عورتوں کا تفصیلی بیان آیا، پھر میراث کے احکام کا بیان ہوا، جس میں یتیموں، عورتوں کے علاوہ دوسرے رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کی بھی تاکید آئی، اس کے بعد نکاح کے احکام آئے کہ کس عورت سے نکاح حلال ہے کس سے حرام، کیونکہ نکاح ایک ایسا معاملہ اور معاہدہ ہے جس سے عورت کی جان اور مال میں تصرف کرنے کا کسی کو حق ملتا ہے۔- مذکورہ آیتوں میں عام انسانوں کے جان و مال کی حفاظت اور ان میں ہر ناجائز تصرف کرنے کی ممانعت کا بیان ہے، خواہ وہ انسان مرد ہوں یا عورتیں اور عزیز رشتہ دار ہوں یا غیر یہاں تک کہ مسلم ہوں یا وہ غیر مسلم جن سے ترک جنگ کا کوئی معاہدہ ہوچکا ہو (کما صرح بہ المظہری)- خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق (یعنی غیر مباح) طور پر مت کھاؤ (برتو) لیکن (مباح طور پر ہو مثلاً ) کوئی تجارت ہو جو باہمی رضامندی سے (واقع) ہو (بشرطیکہ اس میں اور بھی سب شرائط شرعیہ ہوں) تو مضائقہ نہیں (یہ تو مالی تصرف تھا، آگے تصرف نفسی کو فرماتے ہیں) اور تم ایک دوسرے کو قتل بھی مت کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم پر بڑے مہربان ہیں (اس لئے ضرر رسانی کی صورتوں کو منع فرما دیا، بالخصوص جبکہ اس میں یہ اثر ہو کہ دوسرا شخص پھر تم کو ضرور پہنچاوے گا، تو یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ تم کو بھی ضرر سے بچا لیا) اور (چونکہ قتل ان دونوں امروں میں اشدہ اس لئے اس پر بالخصوص و عید سناتے ہیں کہ) جو شخص ایسا فعل (یعنی قتل) کرے گا اس طور پر کہ حد (شرع) سے گذر جائے اور (وہ گذرنا بھی خطاء فعل یا خطاء رائے سے نہ ہو بلکہ) اس طور پر کہ (قصداً ) ظلم کرے تو ہم عنقریب (یعنی بعدالموت) اس کو (دوزخ کی) آگ میں داخل کریں گے اور یہ امر (یعنی ایسی سزا دینا) اللہ تعالیٰ کو (بالکل) آسان ہے (کچھ اہتمام کی حاجت نہیں جس میں اس احتمال کی گنجائش ہو کہ شاید کسی وقت اہتمام و سامان جمع نہ ہو تو سزا ٹل جائے گی۔ )- معارف و مسائل - جس طرح باطل طریقہ سے غیر کا مال کھانا جائز نہیں، خود اپنا مال بھی باطل طریق سے خرچ کرنا جائز نہیں :۔ - آیت کے الفاظ میں اموالکم بینکم کا لفظ آیا ہے، جس کے معنی ہیں ” اپنے مال آپس میں “ اس میں یہ بات تو باتفاق مفسرین داخل ہے ہی کہ کوئی شخص دوسرے کا مال ناجائز طریق پر نہ کھائے، ابوحیان نے تفسیر بحر محیط میں فرمایا کہ اس کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی اپنا ہی مال ناجائز طور پر کھائے، مثلاً ایسے کاموں میں خرچ کرے جو شرعاً گناہ یا اسراف بےجا ہیں، وہ بھی آیت کی رو سے ممنوع و ناجائز ہے۔- آیت میں لاتاکلوا کا لفظ آیا ہے جس کے معنی ہیں ” مت کھاؤ۔ “ مگر عام محاورے کے اعتبار سے اس کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے کے مال میں ناحق طور پر کسی قسم کا تصرف نہ کرو، خواہ کھانے پینے کا ہو یا اسے استعمال کرنے کا، عرف عام میں کسی کے مال میں تصرف کرنے کو اس کا کھانا ہی بولا جاتا ہے، اگرچہ وہ چیز کھانے کی نہ ہو، لفظ ” باطل “ جس کا ترجمہ ” ناحق “ سے کیا گیا ہے عبداللہ بن مسعود اور جمہور صحابہ کے نزدیک تمام ان صورتوں پر حاوی ہے جو شرعاً ممنوع اور ناجائز ہیں، جس میں چوری، ڈاکہ، غضب، خیانت، رشوت، سود و قمار اور تمام معاملات فاسدہ داخل ہیں۔ (بحر محیط)- باطل طریقہ سے کوئی مال کھانے کی تشریح و تفصیل :۔- قرآن کریم نے ایک لفظ بالباطل فرما کر تمام ناجائز طریقوں سے حاصل کئے ہوے مال کو حرام قرار دیدیا، پھر ان ناجائز طریقوں کی تفصیلات رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالہ فرمائی، آپ نے ہر ناجائز معاملہ کی تفصیل بیان فرما دی۔- اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جو تفصیلات ناجائز خریدو فروخت یا ناجائز اجارہ وغیرہ کی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث میں مذکور ہیں وہ درحقیقت اس قرآنی حکم کی تشریح ہے اس لئے وہ سب احکام ایک حیثیت سے قرآن ہی کے احکام ہیں، احادیث رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں جتنے احکام شرعیہ مذکور ہوئے ہیں، سب کا عام طور پر یہی حال ہے کہ وہ کسی نہ کسی قرآنی اشارہ کی تشریح ہوتی ہے، خواہ ہمیں معلوم ہو یا نہ ہو کہ یہ فلاں آیت کی تشریح ہے۔- آیت کے پہلے جملہ میں ناحق اور ناجائز طریقوں سے کسی کے مال میں تصرف کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے دوسرے جملہ میں جائز طریقوں کو حرمت سے مستثنی کرنے کے لئے ارشاد فرمایا الا ان تکون تجارة عن تراض منکم یعنی دوسروں کا وہ مال حرام نہیں جو بذریعہ تجارت باہمی رضامندی سے حاصل کیا گیا ہو۔ - جائز طریقے اگرچہ تجارت کے علاوہ اور بھی ہیں، مثلاً عاریتہ ہبہ، صدقہ، میراث، لیکن عام طور پر ایک شخص کا مال دوسرے کے تصرف میں آنے کی معروف و جاری صورت تجارت ہی ہے۔- پھر تجارت کے معنی عام طور پر صرف بیع و شراء کے لئے جاتے ہیں، مگر تفسیر مظہری میں اجارہ یعنی ملازمت و مزدوری اور کرایہ کے معاملات کو بھی تجارت میں داخل قرار دیا گیا ہے، کیوں کہ بیع میں تو مال کے بدلہ میں مال حاصل کیا جاتا ہے اور اجارہ میں محنت و خدمت کے بدلہ میں مال حاصل ہوتا ہے، لفظ تجارت ان دونوں کو حاوی ہے۔- مضمون آیت کا خلاصہ یہ ہوا کہ کسی کا مال ناحق کھانا رام ہے، لیکن اگر رضامندی کے ساتھ یعنی بیع و شراء یا ملازمت و مزدوری کا معاملہ ہوجائے تو اس طرح دوسرے کا مال حاصل کرنا اور اس میں مالکانہ تصرفات کرنا جائز ہے۔- کسب معاش کے ذرائع میں تجارت اور محنت سب سے افضل ہے :۔- دوسرے کا مال حاصل کرنے کی جائز صورتوں میں سے اس آیت میں صرف تجارت کے ذکر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کسب معاش کے ذرائع میں سے تجارت اور محنت سب سے افضل اور اطیب ذریعہ معاش ہے،- حضرت رافع بن خدیج (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ کونسی کمائی حلال وطیب ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا :- ” یعنی انسان کے ہاتھ کی مزدوری اور ہر سچی بیع و شراء (جس میں جھوٹ فریب نہ ہو۔ ) “- حضرت ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- ” سجا تاجر جو امانت دا ہو وہ انبیاء اور صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا ؟- اور حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔- ” سچا تاجر قیامت کے روز عرش کے سایہ میں ہوگا۔ “- پاکیزہ کمائی کے خاص شرائط :۔- اور حضرت معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- ” سب سے زیادہ پاک کمائی تاجروں کی کمائی ہے، بشرطیکہ وہ جب بات کریں تو جھوٹ نہ بولیں، اور جب وعدہ کریں تو وعدہ خلافی نہ کریں اور جب ان کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت نہ کریں اور جب کوئی سامان (کسی سے) خریدیں تو (تاجروں کی عادت کے مطابق) اس سامان کو برا اور خراب نہ بتائیں اور جب اپنا سامان فروخت کریں تو (واقعہ کے خلاف) اس کی تعریف نہ کریں اور جب ان کے ذمہ کسی کا قرض ہو تو ٹالیں نہیں اور جب ان کا قرض کسی کے ذمہ ہو تو اس کو تنگ نہ کریں۔ “- (اخرجہ الاصبہانی، از حاشیہ مظہری)- ” قیامت کے روز تاجر لوگ فاجروں، گنہگاروں کی صف میں ہوں گے بجز اس شخص کے جو اللہ سے ڈرے اور نیکی کا معاملہ کرے اور سچ بولے۔ “- دوسرے کا مال حلال ہونے کے لئے تجارت اور تراضی کی دو شرطیں :۔ - آیت کے اس جملہ میں تجارت کے ساتھ عن تراض منکم فرما کر یہ بتلا دیا کہ جہاں تجارت ہی نہ ہو بلکہ تجارت کے نام پر جواء، سٹہ، یا ربو اور سود کا معاملہ ہو یا مال ابھی موجود نہیں، محض ذہنی قرار داد پر اس کا سودا کیا گیا ہو وہ بیع باطل اور حرام ہے۔- اس طرح اگر تجارت یعنی مبادلہ اموال تو ہو لیکن اس میں فریقین کی رضامندی نہ ہو وہ بھی بیع فاسد اور ناجائز ہے اور یہ دنوں صورتیں اکل اموال بالباطل میں داخل ہیں، پہلی صورت کو فقہاء بیع باطل کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور دوسری صورت کو بیع فاسد کے نام سے۔- تشریح اس کی یہ ہے کہ ایک مال کا دوسرے مال سے تبادلہ کرنے کا نام تجارت ہے۔ اگر ان میں کسی ایک جانب مال ہو اور اس کے بالمقابل مال ہی نہ ہو تو وہ تجارت نہیں، بلکہ فریب ہے، سود کے معاملات کا یہی حال ہے کہ سود کی رقم ادھار کی میعاد کا معاوضہ ہوتا ہے، اور یہ میعاد کوئی مال نہیں، اسی طرح سٹہ، جواء کہ اس میں ایک طرف تو مال متعین موجود ہے، دوسری طرف مال کا ہونا یا نہ ہونا مشکوک ہے، اسی طرح وہ وعدے کے سودے جن میں مال ابھی تک وجود میں نہیں آیا اور اس کا سودا کرلیا گیا تو ایک طرف مال اور دوسری طرف موہوم وعدہ ہے، اس لئے حقیقت کے اعتبار سے یہ تجارت ہی نہیں بلکہ ایک قسم کا دھوکہ فریب ہے، اسی لئے فقہاء نے اس کو بیع باطل قرار دیا ہے۔- دوسری صورت یہ ہے کہ دونوں طرف سے مال اور تبادلہ مال تو ہے، لیکن کسی ایک جانب سے رضامندی نہ ہو، یہ تجارت تو ہوئی مگر فاسد اور غلط قسم کی تجارت ہے، اس لئے اس کو بیع فاسد کہا جاتا ہے اور ناجائز ہے۔- اس تشریح سے بیع و شراء اور تجارت کی جتنی ناجائز صورتیں ہیں سب نکل جاتی ہیں۔- شرط تراضی کی حقیقت :۔ - البتہ ایک تیسری قسم اور ہے جس میں طرفین سے تبادلہ مال بھی ہے اور بظاہر فریقین کی رضامندی بھی، مگر وہ رضامندی درحقیقت مجبوری کی رضامندی ہوتی ہے، حقیقی رضامندی نہیں ہوتی، اس لئے شرعاً اس تیسری قسم کو بھی دوسری ہی قسم میں داخل قرار دیا گیا ہے، مثلاً عام ضرورت کی چیزوں کو سب طرف سے سمیٹ کر کوئی ایک شخص یا ایک کمپنی اسٹاک کرے اور پھر اس کی قیمت میں خاطر خواہ اضافہ کر کے فروخت کرنے لگے، چونکہ بازار میں دوسری جگہ ملتی نہیں، گاہک مجبور ہے کہ مہنگی سستی جیسی بھی یہ فروخت کرے وہ اس کو خریدے، اس صورت میں اگرچہ گاہک خود چل کر آتا ہے اور بظاہر رضامندی کے ساتھ خریدتا ہے، لیکن اس کی یہ رضامندی درحقیقت ایک مجبوری کے تحت ہے، اس لئے کالعدم ہے۔- اسی طرح کوئی شوہر اپنی بیوی کے ساتھ معاشرت کی ایسی صورتیں پیدا کر دے کہ وہ اپنا مہر معاف کرنے پر مجبور ہوجائے تو گو معافی کے وقت وہ اپنی رضامندی کا اظہار کرتی ہے لیکن درحقیقت رضامندی نہیں ہوتی۔- یا کوئی آدمی جب یہ دیکھے کہ میرا جائز کام بغیر رشوت دیئے نہیں ہوگا وہ رضامندی کے ساتھ رشوت دینے کے لئے آمادہ ہو تو چونکہ یہ رضامندی بھی درحقیقت رضامندی نہیں اس لئے شرعاً کالعدم ہے۔- اس سے معلوم ہوگیا کہ الا ان تکون تجارة عن تراض منکم سے بیع شراء اور تجارت کی صرف انہی صورتوں کا جواز ثابت ہوا جس کا جواز رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث سے ثابت ہے، اور فقہاء نے ان کو منضبط کردیا ہے اور جتنی صورتیں بیع و شراء اور تجارت کی شرعاً ممنوع و ناجائز ہیں وہ سب اس سے خارج ہیں، قرآن کریم کے اس ایک لفظ نے فقہ کی پوری کتاب البیوع اور کاتب الاجارہ کا مکل بیان کردیا۔- آیت کا تیسرا جملہ یہ ہے ولاتقتلوا انفسکم جس کے لفظی معنی یہ ہیں کہ تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو اس میں باتفاق مفسرین خودکشی بھی داخل ہے اور یہ بھی کہ ایک دوسرے کو ناحق قتل کرلے۔- آیت کے پہلے جملہ میں عام انسانوں کے مالی حقوق اور ان کی حفاظت کا بیان تھا، اس جملہ میں ان کے جانی حقوق کی حفاظت کا بیان آ گیا .... اور اس جگہ مال کو مقدم اور جان کو مؤخر شاید اس لئے بیان فرمایا گیا کہ مالی حقوق میں ظلم و جور اور کوتاہی و غفلت بہت عام ہے، ناحق قتل دخول ریزی اگرچہ اس سے زیادہ اشد ہے مگر عادة اس میں ابتلاء کم ہے، اس لئے اس کو مؤ خر بیان فرمایا۔- آیت کے آخر میں ارشاد ہے ان اللہ کان بکم رحیماً یعنی جو احکام اس آیت میں دیئے گئے ہیں کہ لوگوں کا مال ناحق نہ کھاؤ یا کسی کو ناحق قتل نہ کرو، یہ سب احکام تمہارے حق میں رحمت خداوندی ہیں تاکہ تم ان کاموں کے اخروی وبال سے بھی محفوظ رہو اور دنیوی سزاؤں سے بھی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ۝ ٠ۣ وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا۝ ٢٩- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - بطل - البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62]- ( ب ط ل ) الباطل - یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ - تجر - التِّجَارَة : التصرّف في رأس المال طلبا للربح، يقال : تَجَرَ يَتْجُرُ ، وتَاجِر وتَجْر، کصاحب وصحب، قال : ولیس في کلامهم تاء بعدها جيم غير هذا اللفظ «1» ، فأمّا تجاه فأصله وجاه، وتجوب التاء للمضارعة، وقوله تعالی: هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الصف 10] ، فقد فسّر هذه التجارة بقوله :- تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ «2» [ الصف 11] ، إلى آخر الآية . وقال : اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدى فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة 16] ، إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ [ النساء 29] ، تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة 282] .- قال ابن الأعرابي «3» : فلان تاجر بکذا، أي : حاذق به، عارف الوجه المکتسب منه .- ( ت ج ر ) تجر ( ن ) تجرا وتجارۃ کے معنی نفع کمانے کے لئے المال کو کاروبار میں لگانے کے ہیں ۔ صیغہ صفت تاجر وتجور جیسے صاحب وصحت یاد رہے ۔ کہ عربی زبان میں اس کے سو ا اور کوئی لفظ ایسا نہیں ہے ۔ جس تاء ( اصل ) کے بعد جیم ہو ۔ رہا تجاۃ تو اصل میں وجاہ ہے اور تجوب وغیرہ میں تاء اصلی نہیں ہے بلکہ نحل مضارع کی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الصف 10] میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو عذاب الیم سے مخلص دے ۔ میں لفظ تجارہ کی تفسیر خود قرآن نے بعد کی آیت ؛ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ «2» [ الصف 11] آلایہ میں بیان فرمادی ہے ۔ نیز فرمایا ؛ اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدى فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة 16] ہدایت چھوڑ کر گمراہی خریدی تو نہ ان کی تجارت ہی نہیں کچھ نفع دیا ۔ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ [ النساء 29] ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کالین دین ہو ( اور اس سے مالی فائدہ حاصل ہوجائے تو وہ جائز ہے ) تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة 282] سود ا وست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو ۔ ابن لاعرابی کہتے ہیں کہ فلان تاجر بکذا کے معنی ہیں کہ فلاں اس چیز میں ماہر ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا جانتا ہے ۔- رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

تجارت اور خیار بیع کا بیان - قول باری ہے (یا یہا الذین امنوا لاتأکلو اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم) اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقوں سے نہ کھاؤ۔ البتہ اگر باہمی رضامندی سے تجارت کی صورت ہوجائے، ( تو اس میں کوئی حرج نہیں) ۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس عموم میں ناجائز طریقے سے دوسروں کا مال کھانے نیز اپنا مال کھانے، دونوں کی کی نہیں شامل ہے۔ اس لیے قول باری (اموالکم) کا اطلاق غیر کے مال نیز اپنے مال دونوں پر ہوتا ہے جیسا کہ ایک اور مقام پر ارشاد باری ہے (ولا تقتلوا انلسکم، اپنے آپ کو قتل نہ کرو) ۔ - یہ آیت اپنے آپ کو قتل کرنے نیز کسی اور کو قتل کرنے دونوں سے روک رہی ہے اسی طرح قول باری (لاتأکلوا اموالکم بینکم بالباطل، میں ہر شخص کو ناجائز طیقے سے اپنا مال کھانے نیز کسی اور کا مال کھانے سے روکا گیا ہے۔ - اپنا مال باطل طریقوں سے کھانے کا مفہوم یہ ہے کہ اسے اللہ کی نافرمانی کی راہوں میں صرف کیا جائے اور گناہ کمایا جائے۔ باطل طریقوں سے دوسروں کا مال کھانے کی دو صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ - پہلی صور مفسر سدی نے بیان کی ہے اور وہ یہ ہے کہ بدکاری اور قمار بازی کے اڈوں کی کمائی کھائے یا ناپ تول میں کمی کر کے یا ظلم و ذبردستی کے ذریعے کمایا ہوا مال کھائے۔ - دوسری صورت حضرت ابن عباس (رض) اور حسن سے منقول ہے کہ معاوضہ کے بغیر کوئی مال کھائے۔ جب اس آیت کا نزل ہوا تو اس کے بعد لوگوں کی یہ حالت ہوگئی کہ ہر شخص دوسرے کے ہاں جاکر کھانا کھا لینے کو گناہ کی بات سمجھنے لگا یہاں تک کے سورة نور کی ییت (لیس علی الاعمی حرج، نابینا پر کوئی گناہ نہیں) تا قول باری (ولا علی انفسکم ان تأکلوا من بیوتکم، اور نہ ہی تم پر کوئی گناہ ہے کہ تم اپنے ت گھروں میں جاکر کھالو) تا آخر ییت ، نازل ہوئی اور پہلا حکم منسوخ ہوگیا۔ - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) اور حسن کے اس قول سے ان کی مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ درج بالا آیت کے نزول کے بعد لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں جاکر کھانے کو گناہ کی بات سمجھنے لگے ت ہے، یہ مراد نہیں کہ آیت نے یہ بات لوگوں پر واجب کردی تھی کیونکہ اس آیت کی بنا پر ہبہ اور صدقہ کی صورتوں پر کبھی کوئی پابندی نہیں لگی تھی اس طرح کسی کے ہاں جا کر کھانے پر بھی پابندی نہیں لگی تھی۔ - البتہ اگر یہ مراد لی جیئے کہ کسی کے ہاں اس کی اجازت کے بغیر جاکر کھا لینا تو آیت میں نہی کا حکم یقینا اس صورت کو شامل ہے۔ شعبی نے علقمہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے سے روایت کی ہے کہ یہ آیت محکم ہے اور منسوخ نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی قیامت تک منسوخ ہوسکتی ہے۔ - ربیع نے حسن سے روایت کی ہے کہ اس آیت کو قرآن کی کسی آیت نے منسوخ نہیں کیا آیت میں نہی کا حکم غیر کے مال کونہ کھانے کا مقتضی ہے اس کی نظیر یہ قول باری ہے۔ (ولاتأکلوا اموالکم بینکم بالباطل و تدلوبہا الی الحکام، تم آبس میں اپنے اموال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ اور نہ ہی انہیں حاکموں تک پہنچاؤ) ۔ - اس طرح حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (یحل مال امرئ مسلم الا بطیبۃ من نفسہ، کسی مسلمان کا مال کسی کے لیے حلال نہیں ، الا یہ کہ وہ خوش دلی سے اسے دے دے) - علاوہ ازیں غیر کا مال کھانے کی نہی ایک صفت کے ساتھ مشروط ہے اور وہ صفت یا کیفیت یہ ہے کہ باطل اور ناجائز طور پر کسی کا مال کھالیا جائے۔ اس نہی کے ضممن میں فاسد عقود کے بدل کے طور پر ملنے والے مال کی نہی بھی موجود ہے۔ - مثلا فاسد بیوع سے حاصل شدہ قیمت فروخت جیسے کوئی شخص کوئی خوردنی شئ خرید لے لیکن وہ کھانے کے قابل نہ ہو مثلا انڈے اور اخروٹ وغیرہ۔ اب فروخت کنندہ کے لیے ان سے حاصل شدہ پیسوں کو اپنے استعمال ا میں لانا باطل طریقے سے دوسرے کا مال کھالینے کے مترادف ہے۔ - اس طرح ان اشیاء سے حاصل شدہ پیسے بھی اس حکم میں داخل ہیں جن کی قیمت لگائی نہیں جاسکتی اور نہ ہی ان سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانا حلال ہے۔ مثلا خنزیر ، بندر، مکھی اور بھڑ وغیرہ جن میں منفعت کا کوئی پہلو موجود نہیں ہے۔ اس لیے ان کی قیمت کے طور پر حاصل شدہ مال باطل طریقے سے غیر کا مال کھانے کے ضمن میں آئے گا۔ - اسی طرح نوحہ کرنے والی اور گانے والی کی اجرت نیز مردار، سؤر اور شراب کی قیمت کا بھی یہی حکم ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کسی نے بیع فاسد کی اور مبیع کی قیمت وصول کرلی تو اس کے لیے اس قیمت کو اپنے استعمال میں لانا ممنوع ہے بکلہ اس پر اسے خریدار و واپس کردینا واجب ہے۔ - اسی طرح ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ بیع فاسد کے تحت حاصل شدہ قیمت فروخت میں اگر فروخت کنندہ نے تصرف کر کے منافع کما لیا ہو مثلا سود کی صورت ہو کہ اس نے خریدار کے ہاتھوں ایک مقررہ مدت تک مبیع کی مقررہ قیمت فروخت ادا کردینے کی شرط پر وہ چیز اسے فروخت کردی ہو اور پھر وہ چیز مقررہ قیمت فروخت سے کم قیمت پر خریدار سے خود خرید لی ہو اور اس پر قبضہ بھی کرلیا ہو تو اس پر واجب ہوگا کہ اس طرح کے سودے میں کمایا ہوا منافع صدقہ کر دے اور اپنے استعمال میں نہ لائے اس لیے کہ اسے یہ منافع ناجائز طریقے سے حاصل ہوا تھا۔ - قول باری (ولا تأکلوا اموالکم بینکم بالباطل ) ان تمام صورتوں اور عقود کی ان جیسی تمام شکلوں کو شامل ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ ظاہر آیت اس کا مقتضی ہے کہ ہبہ اور صدقہ کے تحت حاصل ہونے وال مال اور مال کے مالک کی طرف سے مباح ہوا مال سب کا کھانا حرام ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے جن عقود کو مباح کردیا ہے اور اباحت کے تحت دوسرے کا مال کھانے کی اجازت دے دی ہے وہ آیت کے اس حکم سے خارج ہیں۔- کیونکہ غیر کا مال کھانے کی ممانعت ایک شرط کے ساتھ مشروط ہے اور وہ شرط یہ ہے کہ باطل طریقے سے کسی کا مال کھایا جائے۔ اس لیے جن طریقوں کو اللہ تعالیٰ نے حلال کردیا ہے اور انہیں مباح قرار دیا ہے وہ باطل طریقے نہیں کہلاتے بلکہ وہ جائز طریقے ہوتے ہیں اس لیے ہمیں اس سبب پر غور کرنا ہوگا جو غیر کے مال کو کھا لینا مباح کردیتا ہے اگر وہ سبب باطل اور غلط نہیں ہوگا تو مال کا کھانا بھی باطل نہیں ہوگا اور آیت کے حکم میں شامل نہیں ہوگا۔ - لیکن اگر سبب مباح نہیں ہوگا بلکہ ممنوع ہوگا تو اس مال کا کھانا آیت کے اقتضاء کے عین مطابق ممنوع ہوگا۔ - قول باری (الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم) تجارت کی ان تمام صورتوں کی اباحت کا مقتضی ہے جو باہمی رضامندی سے اختیار کی جائیں۔ تجارت کے اسم کا اطلاق ان تمام عقود پر ہوتا ہے جن کی بنیاد معاوضوں پر ہوتی ہے اور جن میں منافع کمانا مقصد ہوتا ہے۔ - قول باری ہے (ہل ادلکم علی تجارۃ تنجیکم من عذاب الیم تؤمنون باللہ ورسلہ، کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت کا پتہ نہ بتاؤں جو تمہیں درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے وہ تجارت یہ کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ)- اللہ تعالیٰ نے ایمان کو مجازا تجارت کا نام دیا اور اسے ان عقود کے ساتھ تشبیہ دی گئی جن میں منافع کمانا مقصود ہوتا ہے۔ قول باری ہے (ترجون تجارۃ لن تبور، تم نہ برباد ہونے والی تجارت کی امید رکھتے ہو) اسی طرح خدا کے دشمنوں کیخلاف جہاد کرتے ہوئے اپنی جان کی بازی لگا دینے کو شِری یعنی فروخت کا نام دیا ۔- چنانچہ فرمایا (ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسہم و اموالہم بان الہم الجنۃ یقاتلون فی سبیل اللہ) اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی جان و مال کو اس بات کے بدلے خرید لیا ہے کہ ان کے لیے جنت ہے وہ اللہ کے راستے میں قتل کرتے ہیں) یہاں جان کی بازی لگادینے کو مجازا فروخت کا نام دیا۔ - نیز قول باری ہے (ولقد علمو لمن اشترہ مالہ فی الاخرۃ من خلاق ولبئس ما شروا بہ انفسہم لو کانوا یعلمون) انہیں اچی طرح معلوم تھا کہ جس شخص نے اسے خریدا اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اور انہوں نے بہت بری چیز کے بدلے اپنی جانیں فروخت کردیں، کاش کہ انہیں اس کا علم ہوتا) ۔ - اللہ تعالیٰ نے اسے بیع و شراء یعنی خرید و فروخت کے نام سے مجازا موسوم کیا اسے خرید اور فروخت کے ان عقود کے ساتھ تشبیہ دی گئی جن کے ذریعے معاوضے حاصل ہوتے ہیں ٹھیک اسی طرح اللہ پر ایمان لانے کو تجارت کا نام دیا گیا کیونکہ اس کے بدلے میں ثواب عظیم کا استحقاق ہوتا ہے اور اس کے بڑے بڑے بدلے عطاط کیئے جاتے ہیں۔- اس لیے قول باری (الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم) میں خرید و فروخت، اجارہ کے تمام عقود نیز ہبہ کی وہ تمام صورتیں داخل ہیں جن میں معاوضے کی شرط رکھی گئی ہو کیونکہ لوگوں کے عام چلن اور رواج کے مطابق عقود کی درج بالا صورتوں میں معاوضہ اور بدلہ حاصل کرنا مقصد ہوتا ہے۔ - نکاح کو عرف عام میں تجارت کا نام نہیں دیا جاتا کیونکہ اکثر حالات اور عام رواج کے مطابق عوض یعنی مہر کا حصول مطلوب نہیں ہوتا بلکہ اس میں شوہر کی صفات یعنی اس کی نیکی ، سمجھداری ، دینداری ، مرتبہ کی بلندی اور جاہ و منزلت مطلوب ہوتی ہیں۔ اس بنا پر نکاح کو تجارت کے نام سے موسوم نہیں کیا جاتا۔ - اسی طرح خلع اور مال کے بدلے آزاد کرنے کو بھی تقریبا اس نام سے موسوم نہیں کیا جاتا تجارت کا اسم اس مفہوم کے ساتھ مخصوص ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا یعنی معاوضے کا حصول۔ - اسی لیے امام ابوحنیفہ (رح) اور امام محمد (رح) کا قول ہے کہ جس غلام کو اس کے آقا نے اپنی طرف سے تجارت کرنے کی اجازت دے رکھی ہو وہ اپنے آقا کے نہ کسی غلام کا اور نہ کسی لونڈی کا نکاح کرا سکتا ، نہ کسی غلام کو مکاتب بنا سکتا ہے اور نہی ہی مال کے بدلے کسی غلام کو آزادی دے سکتا ہے اور نہ ہی خود نکاح کرسکتا ہے اور اگر غلام کی جگہ لونڈی ہو جسے تجارت کرنے کی اجزت ملی ہو وہ بھی اپنا نکاح نہیں کر اسکتی ہے۔ - کیونکہ اس قسم کے غلام یا لونڈی کے تمام تصرفات تجارت تک محدود ہوتے ہیں اور درج بالا عقود تجارت کے ضمن میں نہیں آتے، تاہم ان حضرات کا قول ہے کہ ایسا غلام اپنی ذات اور آقا کے غلاموں نیز اپنے زیر تصرف سامان تجارت کو اجارے پردے سکتا ہے۔- کیونکہ اجارہ تجارت کے ضمن میں آتا ہے مضاب کے متعلق بھی ان حضرات کا یہی قول ہے نیز شریک العنان (اپنی مخصوص رقم یا سرمایہ کے ساتھ دوسرے کے ساتھ شریک) کا بہی یہی مسئلہ ہے اس لیے کہ ان دونوں کے تصرفات کا انحار تجارت پر ہوتا ہے، اور کسی چیز پر نہیں ہوتا۔ بیع کی تمام صورتیں تجارت میں داخل ہیں اس پر لوگوں کا اتفاق ہے۔ - اہل علم کا اس بارے میں اختلاف رائے ہے کہ بیع کا انعقاد کن الفاظ سے ہوتا ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جب ایک شخص دوسرے سے یہ کہے ” اپنا یہ غلام میرے ہاتھ ہزار درہم میں فروخت کردو “ اور دوسرا شخص جواب میں یہ کہے ” میں نے فروخت کردیا “ تو بیع اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک پہلا شخص اسے قبول نہ کرلے۔ - ان حضرات کے نزدیک بیع کا ایجاب و قبول صرف ماضی کے لفظ کے ساتھ درست ہوتا ہے۔ زمانہ مستقبل پر دلالت کرنے والے لفظ کے ذریعے درست نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ خریدار کا یہ کہنا کہ ” میرے ہاتھ یہ چیز فروخت کر دو “ درحقیقت مول تول کرنا اور بیع کا حکم دینا ہوتا ہے، عقد بیع کو واقع کرنا نہیں ہوتا۔ اور ظاہر ہے کہ بیع کا حکم دینا بیع نہیں کہلاتا۔ - اسی طرح اس کا یہ کہنا کہ ” میں تم سے یہ چیز خریدوں گا “ خرید کرنا نہیں ہوتا بلکہ یہ بتانا ہوتا ہے کہ وہ یہ چیز خرید لے گا۔ کیونکہ لفظ ” اشتری “ (میں خریدوں گا) میں الف زمانہ آئندہ پر دلالت کرتا ہے۔ اسی طرح فروخت کنندہ کا یہ کہنا کہ ” مجھ سے یہ چیز خرید لو “ یا میں یہ چیز تمہیں فروخت کروں گا “ عقد بیع کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ یہ اطلاع ہے کہ وہ عقد بیع کرلے گا۔ - ان حضرات کا قول ہے کہ نکاح کی صورت میں بھی قیاس کا تقاضہ یہی ہے کہ اس کے انعقاد کا حکم بھی بیع کی طرح ہو لیکن ان حضرات نے اس معاملے میں استحسان کا طریقہ اپنایا ہے چناچہ انہوں نے یہ کہا ہے کہ اکر کوئی شخص کسی سے یہ کہے کہ ” اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کر دو “ اور دوسرا شخص جواب میں یہ کہے کہ ” میں نے تمہارے ساتھ اس کا نکاح کردیا “ تو نکاح کا انعقاد ہوجائے گا اور ہونے والے شوہر کو قبول کے الفاظ کہنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔- اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت سہل بن سعد (رض) سے ایک روایت مروی ہے جس میں اس عورت کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جس نے اپنے آپ کو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہبہ کردیا تھا لیکن آپ نے اسے قبول نہیں کیا تھا، پاس ہی موجود ایک شخص نے عرض کیا تھا کہ اس خاتون کا میرے ساتھ نکاح کر دیجئے۔ - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص سے استفسار کیا تھا کہ اس کے پاس اس خاتون کو دینے کے لیے کیا کچھ ہے۔ اس سلسلے میں میں گفتگو چلتی رہی حتی آپ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” میں تمہارے ساتھ اس کا نکاح قرآن کی ان آیات کے بدلے کردیا جو تمہیں یاد ہیں “ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کے قول ” میرا اس کے ساتھ نکاح کر دیجئے “ اور اپنے قول ” میں نے تمہارے ساتھ اس کا نکاح کردیا “ کو وقوع پذیر ہونیوالا عقد نکاح قرار دیا۔ - اس سلسلے میں کئی اور روایات بھی ہیں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نکاح کے الفاظ ادا کرنے کا یہ مقصد نہیں ہوتا کہ سودے کی صورت میں مول تول کے ذریعے بات آگے بڑہائی جائے عرف عام میں لوگ نکاح کے معاملے میں پہلے شخص کے قول ” میرا نکاح کر دو “ اور دوسرے شخص کے قول ” میں نے تمہارا نکاح کردیا “ کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ - جب نکاح کے معاملے میں عرف عام یہی ہے جس کا ہم اوپر ذکر کیا تو ایک شخص کا کسی عورت سے کہنا ” میں نے تجھ سے نکاح کرلیا “ اور یہ کہنا ” اپنا نکاح میرے ساتھ کرلے “ دونوں فقروں کی حیثیت یکساں ہے اور ان میں کوئی فرق نہیں۔- اس کے مقابلہ میں خرید و فروخت کے اندر عرف عام یہ ہے کہ مول تول اور بھاؤ لگانے کے ذریعے بات کی ابتداء کی جاتی ہے اس لیے اس قسم کا کلام مول تول توکہلاسکتا ہے عقد نہیں کہلاسکتا۔ - اس لیے فقہاء نے اس صورت کو قیاس پر محمول کرتے ہوئے اس کے متعلق وہ قول اختیار کیا جس کی گذشتہ سطور میں وضاحت کی کئی ہے ہمارے اصحاب نے تو یہ بھی کہا ہے کہ عرف عام میں تملیک کے ایجاب اور عقد کی تکمیل کا جو طریقہ رائج ہو اس سے عقد بیع وقوع پذیر ہوجاتا ہے۔ - مثلا ایک شخص فروخت کنندہ سے ایک چیز کا بھاؤ معلوم کرتا ہے پھر اسے پیسے گِن کر دے دیتا ہے اور مبیع کو اپنے قرضے میں کرلیتا ہے تو ان حضرات کے قول کے مطابق بیع کی تکمیل ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اس عقد یا سودے پر طرفین رضامند ہوگئے تھے اور ہر ایک نے دوسرے کی مطلوبہ چیز اس کے حوالے کردی تھی۔ - اس عقد کی صحت کی وجہ یہ ہے کہ عادت اور عرف عام میں ایک چیز کا رائج ہونا اس طرح ہوتا ہے گویا الفاظ کے ذریعے اسے بیان کر یدا کیا ہے ۔ کیونکہ زبان سے ادائیگی کا مقصد اپنے مافی الضمیر کا اظہار ہوتا ہے۔ جب یہ عادت اور عرف عام کے تحت معلوم اور عقدے بیع کے تحت آنے والی چیز حوالے بھی کردی جائے تو فقہاء نے اسے عقد کی صورت قرار دیا ہے۔ ۔- ایک اور مثال سے ای کی مزید وضاحت ہوجاتی ہے۔ ایک شخص کسی کو کوئی چیز تحفے کے طور پر بھیجتا ہے اور وہ شخص اس چیز کوا پنے قبضے میں لے لیتا ہے تو یہ بات سا تحفے کو قبول کرلینے کے مترادف ہے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قربانی کے کئی اونٹ اپنے دست مبارک سے ذبحکیئے اور پھر فرمایا (ومن شاء فلیقتطع) جوش خص چاہے ان جانوروں سے ٹکڑے کاٹ لے۔ - اس میں ٹکڑے کاٹنا تملیک کے ایجاب کے لحاظ سے ہبہ قبول کرنے کے مترادف تھا۔ جن صورتوں کا ہم نے اب تک ذکر کیا ہے وہ اس باہمی رضامندی کی شکلیں ہیں جس کی اس قول باری (الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم) میں شرط عائد کردی گئی ہے۔ - امام مالک (رح) کا قول ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے کہے ” یہ چیز اتنے میں مجھے فروخت کر دو “ اور دوسرا شخص جواب میں کہے ” میں نے فروخت کردیا “ تو بیع کی تکمیل ہوگئی۔ امام شافعی (رح) کا قول ہے کہ نکاح اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک ایک شخص یہ نہ کہے ” میں نے تمہارے ساتھ اس کا نکاح کردیا “ اور دوسرا یہ نہ کہے ” میں نے اس کے ساتھ قبول کرلیا “ یا پیغام نکاح دینے والا یہ نہ کہے ” میرے ساتھ اس کا نکاح کر دو “- اور جواب میں ولی یہ نہ کہے ” میں نے تمہارے ساتھ اس کا نکاح کردیا “ اس صورت میں شوہر کو یہ کہے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی کہ ” میں نے قبول کیا۔ “- اگر کوئی یہ کہے کہ آپ نے احناف کا یہ قول بیان کیا ہے کہ بائع اور مشتری اگر ایک چیز کے متعلق مول کرلیں ، پھر خردیدار قیمت نقد گن کر فروخت کنندہ کے حوالے کر دے اور وہ خریدار کو کو چیز حوالے کر دے تو یہ بیع ہوجائے گی اور یہ باہمی رضامندی سے تجارت کی صورت بن جائے گی۔ - لیکن ہمارے خیال میں یہ بیع نہیں ہوسکتی کیونکہ عقد بیع کے لیے مقررہ صیغے ہیں اور وہ صیغے الفاظ میں ایجاب و قبول کے الفاظ موجود نہیں ہیں اس لیے یہ بیع درست نہیں ہوگی۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے بیع منابذہ، بیع ملامسہ اور بیع حصاۃ سے منع فرمایا دیا تھا۔ آپ کی بیان کردہ صورت میں ان ہی ممنوعہ بیوع کا مفہوم پایا جاتا ہے کیو کہ اس صور میں سود ا منہ سے کچھ کہے بغیر طے کیا جاتا ہے۔ اس کے جواب میں کا کہا جائے گا کہ یہ بات ایسی نہیں ہے جس طرح آپ نے بیان کی ہے ہمارے اصحاب نے بیع کی کسی ایسی صورت کے جواز میں فتوی نہیں دیا ہے۔ جسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اختیار کرنے سے روک دیا ہو۔ - کیونکہ بیع ملامسہ کی صورت یہ ہوتی ہے کہ بکاؤ چیزپر ہاتھ لگاتے ہی عقد بیع کی تکمیل ہوجاتی ہے اسی طرح بیع منابذہ کی یہ صورت ہے کہ فروخت کنندہ اگر اپی چیز خریدار کی طرف پھینک دے تو بیع مکمل ہوجاتی ہے۔ - یہی صورت بیع حصاۃ کی ہے اگر خریدار مال پر کوئی پتھرکا ٹکڑا رکھ دے تو سودا طے سمجھ لیا جاتا ہے۔ زمانہ جاہلیت ان افعال کو بیع کے انعقاد کا موجب سمجھا جاتا تھا۔ خرید و فروخت کی یہ تمام صورتیں ایسی ہیں کہ انہیں اسباب و شرائط کے ساتھ مقید کردیا گیا ہے حالانکہ عقد بیع کے ساتھ ان اسباب کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ - اس کے برعکس ہمارے اصحاب نے جس صورت کے جواز کا فتویٰ دیا ہے تو یہ ہے کہ پہلے طرفین مول تول کریں اور ایک قیمت خرید پر بات آکر رک جائے پھر خریدار قیمت کی ادائیگی کر دے اور فروخت کنندہ خریدی ہوئی چیز اس کے حوالے کر دے۔ مبیع اور ثمن کی حوالگی بیع کے لوازم اور اس کے احکام میں سے ہے۔ - جب طرفین کی طرف سے مبیع اور ثمن کی حوالگی عملی میں آگئی جو عقد کی موجب ہے تو یہ گویا اس بھاؤ پر سودا کرلینے کے لیے عملی طور پر باہمی رضامندی کا مظاہرہ تھا جس پر بات جاکر ختم ہوئی تھی۔ - اس کے برعکس کپڑے کو چھولینا یا پتھر رکھ دینا یا مال کو خریدار کی طرف پھینک دینا عقد بیع کو واجب کردینے والی صورتیں نہیں ہیں اور نہ ہی بیع کے احکام سے ان کا کوئی تعلق ہے اس طرح ان صورتوں میں گویا عقد بیع کو خطرہ یعنی مستقبل کی کسی شرط کے ساتھ مشروط کردیا جاتا ہے اس لیے اس کا جواز نہیں ہوتا۔ یہی چیز بیع مخاطرہ کے امتناع کے لیے بنیاد اور اصل قرار پائی ہے۔ - بیع مخاطرہ کی صورت یہ ہوتی ہے کہ فروخت کندہ خریدار سے یہ کہے کہ میں یہ چیز تمہارے ہاتھ فروخت کرتا ہوں جب زید کی آمد ہوجائے یا کل کا دن شروع ہوجائے یا اسی طرح کی اور شرطیں جن کا آئندہ زمانے سے تعلق ہو۔ - قول باری (الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم) میں تجارت کی تمام صورتوں کے اطلاق و اباحت کے لیے عموم ہے اور یہ اس قول باری کی طرح ہے (و احل اللہ البیع اللہ تعالیٰ نے بیع حلال کردی ہے) اس میں بیع کی تمام صورتوں کی اباحت کے لیے عموم ہے البتہ وہ صورتیں اس عموم سے خارج ہیں جن کی تحریم کردی گئی ہے۔ - اس کی وجہ یہ ہے کہ تجارت کا اسم بیع کے اسم سے زیادہ عام ہے کیونکہ تجارت کے اسم کے تحت اجارے کی تمام صورتیں نیز معاوضہ کے بالمقابل کی جانے والی ہبہ کی تمام شکلیں اور خرید و فروخت کے تمام سودے ہیں اس لیے قول باری (ولاتأکلوا اموالکم بینکم بالباطل) دو باتوں کو متضمن ہے۔ - اول یہ اس میں مذکورہ نہیں ایک ایسی شرط کے ساتھ مشروط ہے جسے نہیں کے اس حکم کو واجب کرنے کے لیے آگے خود بیان کی ضرورت ہے کیونکہ قول باری (ولاتأکلوا اموالکم بینکم بالباطل) میں اس بات کو ثابت کرنے کی ضرورت باقی رہتی ہے کہ اس نے باطل طریقے سے مال کھایا ہے تاکہ نہی کے لفظ کے حکم کا اس پر اطلاع کیا جاسکے۔ - دوسری بات تجارت کی تمام صورتوں کے لیے اطلاق و عموم ہے اس سلسلے میں آیت کے اندر نہ کوئی اجمال ہے اور نہ ہی کوئی شرط۔ اگر ہم لفظ کو اس کے ظاہر پر رہنے دیں تو ہم ان صورتوں کو جائز قرار دے دیں جن پر تجارت کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان میں کچھ صورتوں کی نص کتاب اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے تخصیص کردی ہے۔ - اس لیے شراب، مردار ، خون ، سور کا گوشت اور کتاب اللہ میں حرام کی ہوئی تمام اشیاء کی بیع جائز نہیں ہے۔ کیونکہ تحریم کے لفظ کا اطلاع انتفاع کی تمام صورتوں کی تحریم کا مقتضی ہے اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لعن اللہ الیہود حرمت علیہم الشحوم فباعوہا و اکلوا اثمانہا) یہود پر اللہ کی لعنت ہو، ان پر جانوروں کی چربی حرام کردی تھی لیکن انہوں نے اس کی خرید و فروخت شروع کردی اور اس سے حاصل شدہ پیسوں کو اپنے استعمال میں لے آئے) آپ نے شراب کے متعلق ارشاد فرمایا (ان الذ ی حرمہا حرم بیعہا و اکل ثمنہا ولعن بائعہا و مشتریہا، جس ذات نے شراب کی حرمت کا حکم دیا ہے اس نے ہی اس کی خرید و فروخت اور اس سے حاصل شدہ رقوم کو استعمال میں لانے کی حرمت کا حکم دیا ہے۔ اور اس نے ہی اس کے فروخت کنندہ اور خریدار دونوں کو لعنت کا مستوجب قرار دیا ہے۔ )- حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیع غرر (ایسا سودا جس میں ثمن یا مبیع کے عدم تعین کی بنا پر دھوکے کا پہلو موجود ہو) بھاگے ہوئے غلام کی بیع اور قبضے نہ لی ہوئی چیز کی بیع نیز ایسی چیز کی بیع سے منع فرما دیا ہے جو انسان کے پاس موجود نہ ہو۔ - غرض بیع کی ان تمام صورتوں کی ممانعت ہوگئی ہے جن میں عدم تعین کا کوئی پہلو موجود ہو یا دھوکے کی کوئی گنجائش ہو ان تمام صورتوں کی قول باری (إلا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم) کے ظاہر سے تخصیص کردی گئی ہے۔ - اس قول باری کی قرأ ت نصب اور رفع دونوں صورتوں سے کی گئی ہے۔ اگر لفظ ” تجارۃ کو منصوب پڑھا جائے تو عبارت کی ترتیب یہ ہوگی ”إلا ان تکون الاموال تجارۃ عن عراض “ إلا یہ کہ یہ اموال باہمی رضامندی کی بنیاد پر تجارت کی صورت میں ہوں) اس صورت میں باہمی رضامندی کی بنیاد پر کی جانے والی تجارت اکل مال کی نہی سے مستثنی ہوگی۔ - کیونکہ آیت میں مذکورہ اکل بالباطل کبھی تجارت کے ذریعے ہوتا ہے اور کبھی غیر تجارت کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس لیے باہمی رضامندی والی تجارت کو پورے جملے سے مستثیٰ کر کے واضح فرمادیا کہ تجارت اکل بالباطل کے ضمن میں ہے۔ - جن حضرات نے اس لفظ کو رفع کے ساتھ پڑھا ان کے نزیک عبارت کی ترتیب یہ ہوگی ”إلا ان تقع تجارۃ “ (إلا یہ کہ تجارت کی صورت واقع ہو) جیسا کا شاعر کا قول ہے۔ - فدی لنبی شیبان رحلی و ناقتی اذا کان یوم ذوکواکب اشہب - بنو شیبان پر میرا کجاوہ اور میری اونٹنی قربان ہوجائیں جب ایسا دن پیش آئے جو بہت سخت ہو اور اس میں ستارے نکلے ہوئے ہوں ( اشارہ جنگ کے دن کی طرف ہے) شاعر کی مراد یہ ہے کہ جب ایسا دن پیش یئے جس کی یہ صفات ہوں۔ - اگر آیت کو اس معنی پر محمول کیا جائے گا تو آیت میں وارد نہیں کا تعلق علی الاطلاق اکل مال بالباطل سے ہوگا اور اس سے کوئی صورت مستثنی نہیں ہوگی۔ اس شکل میں حرف إلا استثنا منقطع کے معنوں میں ہوگا۔ - آیت کا مفہوم یہ ہوگا ” لیکن اگر باہمی رضامندی کی بنیاد پر تجارت کی صورت بن جائے تو اکل مال مباح ہوجائے گا “ آیت ان لوگوں کے قول کے بطلان پر دلالت کرتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے چونکہ باہمی رضامندی کی بنیاد پر تجارت مباح کردی گئی ہے اس لیے مکاسب یعنی پیشہ ورانہ کمائی اور ہنر مندی کی بنیاد پر حاصل ہونے والی روزی حرام ہے۔ - درجِ بالا آیت کی طرح یہ آیات ہیں (و احل اللہ البیع، اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کردیا) نیز ) فاذا قضیت الصلوۃ فانتشرو فی الارض وابتغوا من فضل اللہ، جب جمعہ کی نماز ادا ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ )- نیز (و اٰخرون یضربون فی الارض یبتفون من فضل اللہ و اٰخرون یقاتلون فی سبیل اللہ، کچھ دوسرے ایسے ہیں جو زمین پر چل پھر کر اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کر رہے ہیں اور کچھ دوسرے وہ ہیں جو اللہ کے راستے میں قتال کر رہے ہیں۔ - اللہ تعالیٰ نے جہاد فی سبیل اللہ ، کچھ دوسرے ایسے ہیں جو زمین پر چل پھر کر اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کر رہے ہیں۔ اور کچھ دوسرے وہ ہیں جو اللہ کے راستے میں قتال کر رہے ہیں)- اللہ تعالیٰ نے جہاد فی سبیل اللہ کے ساتھ تجارت اور طلب معاش کی غرض سے زمین میں چلنے پھرنے کا ذکر فرمایا جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ طلب معاش پسندیدہ امر ہے اور اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ واللہ اعلم۔- بائع اور مشتری کا خیار - فروخت کنندہ اور خریدار کو عقد بیع میں اپنی بات سے پلٹ جانے کا اختیار ہوتا ہے یا نہیں اس بارے میں اہم علم کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) ، امام ابویوسف (رح) ، امام محمد (رح) ، زفر (رح) ، حسن بن زیاد اور امام مالک (رح) کے نزدیک اگر دونوں نے کلام کے ذریعے عقد بیع کیا ہے یعنی ایک نے ایجاب کیا اور دوسرے نے اسے قبول کرلیا تو پھر انہیں اپنی بات سے پلٹ جانے کا اختیار نہیں ہوتا خواہ وہ جسمانی طور پر علیحدہ نہ بھی ہوئے ہوں۔ - حضرت عمر (رض) سے اسی قسم کی روایت منقول ہیں۔ سفیان ثوری، لیث بن سعد، عبیداللہ بن الحسن اور امام شافعی (رح) کا قول ہے کہ بائع اور مشرتی جب عقد بیع کرلیں تو انہیں اس وقت تک اختیار ہوتا ہے جب تک جسمانی طور پر وہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہوجائیں۔ - اوزاعی (رح) کا قول ہے کہ انہیں اختیار ہوتا ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہوجائیں۔ البتہ تین قسم کی بیع میں انہیں یہ اختیار نہیں ہوتا۔ اول بھیڑ بکریوں کی بیع میں بولی دے کر سودا طے کیا جاتا ہے، دوم میراث میں شراکت ۔ سوم تجارت میں شراکت۔ جب سودا طے ہوجائے تو بیع واجب ہوجائے گی اور انہیں اختیار نہیں رہے گا۔ ایک دوسرے سے علیحدگی کے وقت کا یہ پیمانہ یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے کی نظروں سے اوجھل ہوجائے۔ - لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر مجلس بیع سے ایک اٹھ کھڑا ہو تو تفرق ہوجائے گا جو لوگ خیار بیع کو ضروری سمجھتے ہیں ان کا قول ہے کہ جب طرفین میں سے ایک نے مجلس میں دوسرے کو سودا قبول کرنے کا اختیار دے دیا اور اس نے اختیار کرلیا تو بیع واجب ہوگئی حضرت ابن عمر (رض) سیخیار مجلس کا قول منقول ہے۔ - ابوبکر جصاص (رح) کہتے ہیں قول باری تعالیٰ (ولا تأکلوا اموالکم بینکم بالباطل إلا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم) اس بات کا مقتضی ہے کہ جب باہمی رضامندی سے بیع کا معاملہ طے ہوجائے تو دونوں کی ایک دوسرے سے علیحدگی سے پہلے اکل کا جواز ہے کیونکہ عقد بیع میں ایجاب و قبول کا نام ہی تجارت ہے۔ - تفرق اور اجتماع کا تجارت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ اسے شرع اور لغت میں تجارت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے باہمی رضامندی سے واقع ہونے والی تجارت میں خریدی ہوئی چیز کو کھا لینا مباح کردیا ہے تو خیار کے ایجاب کے ذریعے اس میں رکاوٹ ڈالنے والا ظاہر آیت سے باہر نکل جانے والا اور دلالت کے بغیر آیت کی تخصیص کرنے والا قرار پائے گا۔ - اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے۔ (یایہا الذین امنوا اوفوا بالعقود، اے ایمان والو عقود کو پورا کرو) اللہ تعالیٰ نے عقد کرنے والے ہر شخص پر اس امر کو پورا کرنا لازم کردیا جس کی اس نے اپنی ذات پر گرہ باندھ لی ہو۔ اور یہ عقد بیع بھی ایسا امر ہے جس کی گرہ بائع اور مشتری میں سے ہر ایک نے اپنی ذات پر باندھ لی ہے اس لیے ہر ایک پر اسے پورا کرنا بھی لازم ہے۔ - اب خیار کا اثبات کر کے گویا اس عقد کو پورا کرنے کے لزوم کی نفی کردینا ہے اور یہ چیز ییت بکے مقتضیٰ کے خلاف ہے ۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی فاکتبوہ، جب کسی مقررہ مدت کے لیے تم آپس میں قرض کالین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو) گواہ دستیاب نہ ہونے کی صورت میں رہن رکھنے کا حکم دیا جو ثمن یعنی فروخت شدہ چیز کی قیمت کے لیے وثیقہ اور ضمانت کا کام دے گا۔- عقدبیع کرنے کی صورت میں اسے علیحدہ ہونے سے پہلے اس کام کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ قول باری ہے ( (اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی فاکتبوہ، آپس میں قرض کا لین دین کرتے وقت اسے لکھ لینے کا حکم دیا نیز لکھنے میں انصاف کو مدنظر رکھنے کا حکم دیا اور لکھوانے کا اسے حکم جس کے ذمے قرض ہو۔ - یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس نے قرض کا جو لین دین کیا ہے اس کی وجہ سے اس کے ذمے اس ارشاد باری (ولیملل الدی علیہ الحق ولیتق اللہ ربہ و لایبخس منہ شیئا، اور املا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے یعنی قرض لینے والا، اور اسے اللہ، اپنے رب سے ڈرنا چاہیئے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے) کی رو سے قرض کا ثبوت ہوگیا ہے۔ اگر قرض کا یہ لین دین علیحدگی سے قبل ہی اس پر حق کو واجب نہ کردیتا تو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا کہ (والیملل الذی علیہ الحق) نیز اسے کمی بیشی نہ کرنے کی تلقین بھی نہ کی جاتی جبکہ ابھی اس پر کسی چیز کا ثبوت ہی نہیں ہوا ہے اس لیے کہ اس کے حق میں خیار کا ثبوت اسے قرض کے ثبوت سے مانع ہے جو فروخت کنندہ کے لیے اس کے ذمے لازم ہوچکا ہے۔ - اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشد (والیملل الذی علیہ الحق) میں قرض کے لین دین کی صورت میں اس برحق ثابت کر کے خایر کی نفی اور معاملہ کی قععیت کے اثبات کی دلیل مہیا کردی ہے۔ پھر فرمایا (وستشہدوا شہیدین من رجالکم، اور اپنے مردوں میں دو گواہ بنالو) تاکہ مال کی پوری پوری حفاظت ہوجائے اور فروخت کنندہ کو مقروض کے انکار یا ادائیگی سے قبل اس کی موت کی صورت میں تحفظ حاصل ہوجائے۔ - پھر فرمایا (ولا تسأموا ان تکتبوہ صغیر او کبیرا الی اجلہ ۔ ذلکم اقسط عند اللہ و اقوم لشہادۃ و ادنی الا ترتابوا، معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا میعاد کے تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کے نزیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے۔ - اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے) اگر دونوں کے لیے علیحدگی سے قبل خیار ہوتا تو گواہ بنانے میں احتیاط کا کوئی پہلو نہ رہ جاتا اور نہی ہی اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی کیونکہ اس صورت میں گواہ کے لیے مال کے ثبوت کی گواہی دینا ممکن نہ ہوتا۔ - پھر ارشاد ہوا ( واشہدا اذا تبایعتم، اور جب آپس میں تجارتی لین کرو توگواہ کرلیا کرو) اس میں وقت کا لحاظ رکھا گیا ہے اس لیے یہ اس بات کا مقتضی ہے کہ آپس میں لین دین کے وقت گواہی قائم کرنے کا حکم ہے علیجدگی کا اس میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ پھر حالت سفر میں رہن رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جو حالت حضر میں گواہی کے ذریعے احتیاطی تدبیر کا بدل ہے۔ - اس لیے خیار کے اثبات سے رہن کا ابطال لازم آتا ہے کیونکہ ایسے قرض کے بدلے جو ابھی تک واجب الذمہ نہیں ہوا رہن رکھوانا درست نہیں ہے۔ اس لیے آیت کے ضمن میں موجود امور یعنی ادھار لین دین اور تجارتی لین دین پر گواہ بنانے کا حکم نیز مال کی حفاظت کے لیے کبھی گواہی قائم کر کے اور کبھی رہن رکھ کر احتیاطی اقدام کی بناپر آیت کی اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ عقد نے خریدار کے لیے مبیع کی ملکیت اور فروخت کنندہ کے لیے ثمن کی ملکیت واجب کردی ہے۔ اور اب ان کے لیے خیار باقی نہیں رہا۔ کیونکہ خیار کا اثبات گواہی قائم کرنے، رہن رکھنے اور قرض کے اقرار کی صحت کے منافی ہے۔ - اگر یہ کہا جائے کہ گواہ بنانے اور رہن رکھنے کا حکم دو میں سے ایک صورت پر محمول ہوگا یا تو یہ کہ گواہ عقد کے موقع پر موجود ہوں اور ان کے سامنے عقد کرنے والے دونوں فریق ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجائیں اس صورت میں عقد بیع کی صحت اور ثمن کے لزوم سے متعلق ان کی گواہی درست ہوسکتی ہے یا یہ کہ دونوں فریق آپس میں قرض کا لین دین کریں اور پھر علیحدہ ہوجائیں اور اس کے بعد گواہوں کے سامنے اس کا اقرار کرلیں اور پھر ان کے اقرار کی بنیاد پر گواہ عقد بیع یا قرض کے بدلے رہن کی گواہی دیں اور اس طرح یہ درست ہوجائے۔ - اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ تمہاری بیان کردہ دونوں وجہیں نہ صرف آیت کے خلاف ہیں بلکہ ان سے آیت کے ضمن میں موجود بات کا ابطال لازم آتا ہے جس کے تحت گواہی قائم کرنے اور رہن رکھنے کے احتیاطی اقدام کا حکم دیا گیا اس لیے کہ ارشاد باری ہے (اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی فاکتبوہ) تا قول باری (واستشہدوا شہیدین)- ادھار لین دین کی صورت میں فوری طور پر کسی وقفہ کے بغیر گواہ قائم کرنے کا حکم طرفین کے لیے احتیاطی تدبیر کے طور پر دیا گیا ہے اور معترض کا خیال یہ ہے کہ علیحدگی کے بعد گواہی قائم کی جائے گی جبکہ اس بات کی گنجائش ہوتی ہے علیحدگی سے پہلے ہی مال ہلاک ہوجائے اور اس طرح قرض ڈوب جائے یا یہ کہ مقروض اس وقت تک انکار کرتا رہے جب تک یہ دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ ہوکر گواہ نہ بنالیں اس صورت میں یہ گنجائش ہے کہ اس کی موت واقع ہوجائے اور فروخت کنندہ کو گواہی قائم کرنے کے ذریعے اپنے مال کو محفوظ کرلینے کا موقع ہی نہ ملے جبکہ ارشاد باری ہے (واشہدوا اذا تبایعتم) اللہ تعالیٰ نے باہمی لین دین کے انعقاد پر گواہی قائم کرنے کی ترغیب دی ہے۔ - اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ” جب تم باہمی لین دین کرو اور ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجاؤ تو گواہی قائم کرو۔ “ اس لیے خیار کو واجب کرنیوالا آیت میں ایسے تفرق کا اثبات ہے جو آیت میں موجود نہیں ہے۔ آیت کے حکم میں ایسا اضافہ کسی طرح جائز نہیں ہے جو آیت ی میں موجود نہ ہو اور اگر فریقین علیحدگی کے بعد تک کے لیے گواہی قائم کرنے کے معاملے کو مؤخر کر یدں تو اس صورت میں وہ احتیاط نظر انداز ہوجائے گی جس کی خاطر گواہی قائم کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ - اور عین ممکن ہے کہ گواہی قائم ہونے سے پہلے ہی خریدار کی موت ہوجائے یا وہ انکار کر بیٹھے۔ اس صورت میں خیار کا ایجاب احتیاط کے مفہوم کو ساقط کر دے گا اور گواہوں کے ذریعے مال کے تحفظ کا معاملہ بھی ختم ہوجائے گا۔ یہ پوری وضاحت اس بات کی دلیل ہے کہ ایجاب وقبول کے ذریعے حتمی طور پر بیع کا انعقاد ہوجاتا ہے اور طرفین میں سے کسی کے لیے بھی خیار باقی نہیں رہتا۔ - اگر یہ کہا جائے کہ اگر بائع اور مشتری عقد بیع میں تین دنوں تک خیار کی شرط لگا دیں تو خیار شرط کے باوجود گواہی قائم کرنا درست ہوتا ہے اور اس صورت میں آیت مداینہ میں مذکورہ احکام یعنی دستاویز کی تحریر، گواہی کا قیام اور رہن رکھنے کا اقدام شرط خیار کے ساتھ اس بیع کے انعقاد پذیر ہونے اور اس پر گواہی قائم کرنے کی صحت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ - اسی طرح خیار مجلس کا اثباب بھی گواہی اور رہن کی صحت کی منافی نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت گواہی قائم کرنے کے ذکر کے ساتھ شرط خیار والی بیع کے ذکر کو متضمن نہیں ہے اور یہ حتمی صورت والی بیع کو متضمن ہے۔ - ہم نے خیار کی شرط کو ایک دلالت کی بنا پر جائز قرار دیا ہے جس کے ذریعے ہم نے عقود مداینت کی ان تمام صورتوں میں سے جو آیت کے مدلول ہیں خیار کی شرط کی صورت کی تخصیص کردی ہے اور آیت کے حکم کو بیع کی ان تمام صورتوں میں جاری کردیا ہے جو خیار کی شرط سے خالی ہیں۔ اس لیے ہم نے شرط خیار والی بیع کی جن صورتوں کو جائز قرار دیا ہے وہ آیت کے حکم پر عمل کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی ہیں اور آیت میں گواہی قائم کرنے، رہن رکھنے اور دستاویز لکھانے نیز خیار کی شرط سے خالی بیع کی صورتوں میں عقد بیع کرنے والے کے اقرار کی صحت کیک جن احتیاطی اقدامات کا ذکر ہے ان پر عمل ہوتا ہے۔ باقی رہی بیع کی وہ صورت جس میں خیار کی شرط لگا دی گئی ہو وہ آیت کے حکم کے دائرے سے باہر ہے اور آیت میں مراد بھی نہیں ہے جب تک خیار کا سقوط ہوکر بیع کی تکمیل نہ ہوجائے اس کی وجوہات ہم گذشتہ سطور میں بیان کر آئے ہیں۔ - پھر اس صورت میں بائع اور مشتری کو اقرار پر گواہی قائم کرنے کی ترغیب ہوگی، آپس کے سودے اور بیع پر گواہی قائم کرنے کی ترغیب نہیں ہوگی۔ اگر ہم بیع کی ہر صورت میں خیار کا اثبات کردیتے اور بیع ہمارے مخالفین کے مسلک کے مطابق اتمام کے مراحل طے کرلیتی تو پھر کوئی ایسی صورت باقی نہ رہ جاتی جس میں آیت کے حکم پر اس کے مقتضیٰ اور مراد کے مطابق عمل ہوسکتا۔ - ایک اور پہلو سے غور کیجئے بیع میں خیار کے اثبات کی ضرورت صرف اس صورت میں پیش آتی ہے۔ جہاں بیع پر پوری آمادگی نہ ہو تاکہ طرفین میں سے ہر ایک کو مزید سوچنے اور بیع کو قطعی صورت دینے یا ختم کرنے کے فیصلے تک پہنچنے کے لیے مہلت مل جائے۔ - اس کے برعکس اگر طرفین نے باہمی رضامندی سے کوئی عقدِ بیع کرلیا ہو اور اس میں خیار کی شرط بھی لگائی ہو تو اس صورت میں طریفین میں سے ہر ایک سودے کی روشنی میں فریق آخر کو ملنے والی چیز کی تملیک پر رضا مندی کی موجودگی میں خیار کا اثبات ایک بےمعنی سی بات ہوگی بلکہ رضامندی کا وجود خیار کے لیے مانع بن جائے گا۔- آپ دیکھ سکتے ہیں کہ خیار مجلس کا اثبات کرنے والوں کے نزدیک اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جب عقد بیع کی مجلس میں طرفین میں سے ایک دوسرے فریق سے کہے کہ پسند کرلو تو اگر وہ پسند کرلے اور رضامند ہوجائے تو اس کی وجہ سے دونوں کا خیار باقی نہیں رہے گا حالانکہ اس صورت کے اندر اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتا کہ دونوں کی طرف سے بیع کے نفاذ پر رضامندی کا اظہار ہوتا ہے۔ - لیکن چونکہ نفس عقد کی بنا پر دونوں کی رضامندی موجود ہوتی ہے اس لیے انہیں دوبارہ رضامندی کے حصول کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس لیے کہ اگر عقد کی بنا پر ابتدا ہی سے دونوں کی رضامندی کے بعد ایک اور رضامندی کی شرط درست ہوتی تو پھر دوسری اور تیسری رضامندی کی شرط بھی جائز ہوجاتی اور یہ بھی ہوتا کہ دونوں کی رضامندی تیسری اور چوتھی دفعہ خیار کے لیے مانع نہ ہوتی جب یہ صورت درست قرار نہیں پائی تو یہ بات درست ہوگئی کہ بیع پر ان کی رضامندی ان کے خیار کو باطل کردیتی ہے اور بیع کی تکمیل ہوجاتی ہے۔ - اب رہی یہ بات کہ بیع میں خیار شرط کیوں درست ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جس فریق کی طرف سے خیار کی شرط لگائی گئی ہے اس کی طرف سے اپنی ملکیت سے کسی چیز کے اخراج رضامندی کا اس وقت اظہار نہیں ہوا تھا جب اس نے اپنے لیے خیار کی شرط رکھی تھی اس بنا پر ایسے عقد بیع میں خیار کا اثبات درست ہوگیا تھا۔ - اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے بیع پر رضامندی کے اظہار کے باوجود خیار رویت اور خیار عیب کو اثبات کردیا اور اس طرح بیع پر ان دونوں کی رضامندی خیار کے اثبات کی راہ میں حائل نہیں ہوئی تو اسی طرح بیع پر ان دونوں کی رضامندی کو خیار مجلس کے اثبات کی راہ یمں حائل نہیں ہونا چاہیئے۔ اس اعتراض کا یہ جواب ہے کہ خیار رویت اور خیار عیب کا خیار مجلس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خیار رویت عقد بیع میں طے شدہ معاملے کے مطابق مبیع اور ثمن کو مشتری اور بائع کی ملکیت میں چلے جانے کی راہ میں حائل نہیں ہوتا کیونکہ بیع پر طرفین کی رضامندی موجود ہوتی ہے۔ - اس لیے اس خیار کو ملکیت کی نفی میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ اس خیار کے ہوتے ہوئے بھی طرفین کی رضامندی کی بنا پر مبیع اور ثمن پر ملکیت ثابت ہوجاتی ہے جبکہ خیار مجلس کے قائلین کے نزدیک اس حقیقت کے باوجود کہ طرفین میں سے ہر ایک متعلقہ شئ یعنی مبیع یا ثمن کو دوسرے کی ملکیت میں دینے پر رضامند ہوتا ہے پھر بھی خیار مجلس دونوں کے لیے متعلقہ شئ کو اپنی ملکیت میں لینے کی راہ میں رکاوٹ بنا رہتا ہے۔ - اس لیے اگر ابتدا ہی سے رضامندی کا یوں اظہار ہوجائے کہ ایک فریق دوسرے فریق کے بیے بیع واجب کر دے یا رضامندی کا اظہار ان الفاظ میں کر دے کہ ” میں تو راضی ہوں اب تم بھی پسند کرلو “ اور اس کے جواب میں دوسرا شخص بیع پر راضی ہوجائے تو ان دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ - ملکیت کے ثبوت کے لحاظ سے خیار رویت اور خیار عیب والی بیع میں اور اس بیع میں کوئی فرق نہیں جس میں ان دونوں میں سے کوئی خیار موجود نہ ہو فرق صرف اس لحاظ سے ہوتا ہے کہ ایک صورت کے اندر ملکیت کے لیے غیر مانع خیار یعنی خیار رویت یا خیار عیب موجود ہوتا ہے۔ اور دوسری صورت کے اندر موجود نہیں ہوتا۔ - اور اس خیار کا وجود بھی صرف اس لیے ہوتا ہے کہ مشتری کو مبیع کی صفات کا علم نہیں ہوتا جس کی بنا پر خیار رویت کی گنجائش رکھی جاتی ہے یا مبیع کو کسی ایسے جز کی عدم موجودگی کی بنا پر جس کا عقد بیع کی رو سے موجود ہونا ضروری ہوتا ہے خیار عیب کی گنجائش پیدا کی جاتی ہے۔ - عقدبیع پر راضی ہوجانا ملکیت کا موجب بن جاتا ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ تمام لوگوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر بائع اور مشتری ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجائیں تو ہر ایک کو اپنی متعلقہ چیز یعنی مبیع یا ثمن کی ملکیت حاصل ہوجاتی ہے اور خیار باطل ہوجاتا ہے۔ - ادھر ہم یہ جانتے ہیں کہ علیحدگی نہ تو رضامندی پر دلالت کرتی اور نہ ہی عدم رضاپر اس لیے کہ مجلس عقد سے چلے جانے اور وہاں موجود رہنے کا حکم اس لحاظ سے یکساں ہے کہ دونوں صورتوں میں رضامندی یا عدم رضا کے ساتھ اس کی دلات کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ ابتدا ہی سے عقد پر رضامندی کی بنا پر ملکیت واقع ہوئی، ایک دوسرے سے علیحدگی کی بنا پر ملکیت واقع نہیں ہوئی۔ - نیز ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اصول میں ایسی کوئی علیحدگی نہیں ہے کہ جس کے ساتھ عقد کی تصیح و تملیک کا تعلق ہو بلکہ اصول میں یہ بات موجود ہے کہ علیحدگی بہت سے عقود کے فسخ میں مؤثر ہوتی ہے اس کی ایک صورت سونے چاندی کی بیع میں قبضے سے پہلے علیحدگی ہے، اسطرح بیع سلم میں راس المال پر قبضہ کرنے سے پہلے ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجانا بھی اس میں شامل ہے۔ - اس کی ایک مثال دین کے بدلہ دین کی بیع ہے جس میں ثمن اور مبیع میں سے کسی ایک کی تعیین سے قبل اگر علیحدگی ہوجائے تو بیع فسخ ہوجاتی ہے۔ جب ہم نے اصول میں علیحدگی کو بہت سے عقود کے ابطال میں مؤثر پایا جو از میں مؤثر نہ پایا، اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں اصول میں کوئی ایسی علیحدگی نظر نہیں آئی جو عقد کی تصحیح اور جواز میں کردار ادا کرتی ہو۔ - تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عقد کو درست قرار دینے میں خیار مجلس اور بائع و مشتری کی ایک دوسرے سے علیحدگی کا اعتبار نہ صرف اصول سیخارج ہے بلکہ ظاہر کتاب اللہ کے بھی مخالف ہے۔ - ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سنت اور اتفاق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بیع صرف کی ایک شرط یہ ہے کہ درست قبضے کے بعد بائع اور مشتری کی ایک دوسرے سے علیحدگی ہو اگر عقد صرف میں ثمن اور مبیع پر طرفین کے قبضے کے ساتھ ساتھ خیار مجلس کا بھی ثبوت ہو تو دوسری طرف جب تک خیار مجلس باقی رہتا ہے اس وقت تک عقد بیع کی تکمیل نہیں ہوتی۔ ۔- تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جب بائع اور مشتری ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے اس عقد کا درست ہونا جائز نہ قرار دیا جائے کیونکہ اس عقد کی خصوصیت یہ ہے کہ اس درست ہوجانے سے قبل طرفین کی علیحدگی اسے باطل کردیتی ہے۔ - جب یہ صورت ہو کہ عقد ابھی درست نہیں ہوا ہے اور طرفین ایک دوسرے سے علیحدہ ہوگئے ہیں تو یہ جائز نہیں ہوگا کہ طرفین کی علیحدگی کی بنا پر یہ عقد درست ہوجائے کیونکہ اس صورت میں اس عقد کی صحت کا موجب بھی وہی سبب بنے گا جو اس کے بطلان کا موجب ہے۔ - خیار مجلس کی نفی پر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہقول بھی دلالت کرتا ہے کہ (لا یحل ما امرئ سلم الا بطیبۃ من نفسہ، کسی مسملان کا مال لے لینا حلال نہیں ہے اِلّا یہ کہ وہ خوش دلی کے ساتھ خود کچھ دے دے) اس حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خوش دلی کی شرط کے ساتھ مال کی حلت کا حکم لگا دیا ہے اور یہ خوش دلی عقد بیع کے ساتھ وجود میں آجاتی ہے۔ اس لیے حدیث کے مقتضی کے مطابق ہر ایک کے لیے دوسرے کے مال کی ثمن اور مبیع کی صورت میں حلت ہوجانی چاہیئے۔- اس پر حدیث کی دلالت اس قول باری (الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم) کی دلالت کی طرح ہے۔ اس پر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طعام یعنی خوردنی شئ کی بیع سے منع فرمایا ہے جب تک اس کا گذر دو صاعوں سے نہ ہوجائے پہلے وہ فروخت کنندہ کے صاع (ناپ کا ایک پیمانہ) سے گذرے اور پھر خریدار کے صاع سے گذر جائے۔ - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی بیع کے جواز کا حکم دے دیا۔ جب یہ دو صاعوں میں سے گذر جائے اور اس میں بائع اور مشتری کی ایک دوسرے سے علیحدگی کی شرط نہیں رکھی اس بنا پر یہ ضروری ہوگیا کہ مشتری جب اس کے بائع سے اسے ناپ تول کر اپنے قبضے میں کرلے تو اسی مجلس میں آگے اس کی بیع بھی جائز ہوجائے۔ - جبکہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ (ومن ابتاع طعاما فلایبعہ حتی یقبضہ، جو شخص کوئی طعام خریدے توا سے اپنے قبضے میں لیے بغیر آگے فروخت نہ کرے) جب آپ نے قبضے میں لینے کے بعد اس کی فروخت کی اباحت کا حکم دے دیا اور اس میں بائع اور مشتری کی علیحدگی کی شرط نہیں لگائی تو اس حدیث کے مقتضی کے مطابق اگر مشتری نے مجلس عقد میں اس پر قبضہ کرلیا ہو تو اسی مجلس میں اس کی آگے فروخت درست ہوجائے گی۔- یہ بات فروخت کنندہ کے خیار کی نفی کرتی ہے۔ کیونکہ جس مال میں ابھی بائع کے لیے خیار موجود ہو اس میں مشتری کا تصرف جائز نہیں ہوسکتا۔ اس پر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے کہ (من باع عبدا ولہ مال فمالہ للبائع الا ان یشترط المبتاع و من باع نخلا ولہ ثمرۃ فثمرتہ للبائع الا ان یشترط المبتاع) ۔ - جس شخص نے کوئی غلام فروخت کیا تو اس غلام کے پاس اگر کوئی مال ہوگا تو وہ فروخت کنندہ کا ہوگا الا یہ کہ خریدار عقد بیع میں اس مال کی بھی شرط لگا چکا ہو، اس طرح جس شخص نے کسی کے ہاتھ کھجور کے درخت فروخت کیے ہوں تو ان درختوں میں لگا ہوا پھل فروخت کنندہ کا ہوگا الا یہ کہ خریدار نے اس کی شرط لگا دی ہو) ۔ - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شرط کی بنا پر درخت کے پھل اور غلام کے مال کو خریدار کے قبضے میں دے دیا۔ اور ایک دوسرے سے علیحدگی کا ذکر نہیں فرمایا جبکہ یہ بات محال ہے کہ خریدار اصل شئ کی ملکیت کے بغیر جس پر عقد بیع ہوا ہے ان چیزں کا مالک بن جائے۔ - یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ نفس عقد کے ساتھ مبیع پر خریدار کی ملکیت واقع ہوجاتی ہے۔ اس پر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد مبارک بھی دلالت کرتا ہے کہ جس کی رویات حضرت ابوہریرہ (رض) نے کی ہے۔- کوئی بیٹا اپنے باپ کو اس کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔ ایک صورت میں ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے باپ کو کسی غلامی کے اندر پائے اور پھر اسے خرید کر کے آزاد کر دے۔ - فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ بیٹے کو نئے سرے اپنے باٹ کو آزاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ باپ پر بیٹے کی ملکیت کی صحت کیساتھ ہی باپ کو خود بخود آزادی مل جائے گی اس طرح حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باپ کی خریداری کیساتھ ہی اس کی آزادی واجب کردی اور اس عمل کے لیے مشتری یعنی بیٹے اور بائع کی ایک دوسرے سے علیحدگی کی کوئی شرط نہیں لگائی۔ - عقلی طور پر اس طرح دلالت ہو رہی ہے کہ عقد بیع کی مجلس کبھی طویل ہوجاتی ہے اور یہی مختصر اگر ہم خیار مجلس پر ملکیت کے وقوع کو موقوف کردیں تو یہ بات اس عقد کے بطلان کی موجب بن جائے گی۔ کیونکہ اس صورت میں خیار کی وہ مدت مجہول ہوتی ہے جس پر ملکیت کے وقوع کو موقوف رکھا جاتا ہے۔ - آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کسی نے کسی کے ساتھ قطعی طور پر سوا مکمل کرلیا ہو لیکن دونوں نے مجلس میں کسی ایک خاص شخص کی نشت کی مدت تک خیار کی بھی شرط لگا دی ہو تو یہ بیع باطل ہوجائے گی کیونکہ اس صورت میں وہ مدت مجہول ہے جس کے ساتھ عقد بیع کی صحت کو معلق کردیا گیا تھا۔ - خیار مجلس کے قائلین نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جو حضرت ابن عمر (رض)، حضرت ابوبرزہ (رض) اور حضرت حکیم بن حزام (رض) کے واسطے سے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے۔ - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (المتبایعان بالخیار مالم یفترقا، بیع کرنے والے طرفین یعنی بائع اور مشتری دونوں کو اس وقت تک اختیار ہوتا ہے جب تک ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہوجائیں۔ - نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے اور انہوں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رویات کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اذا تبایع المتبایعان بالبیع فکل واحد منہما بالخیار من بائعہ مالم یفترقا او یکون بیعہما ہن خیار فاذاکان عن خیار فقد وجب، جب دو شخص آپ میں عقد بیع کریں تو ان میں سے ہر شخص کو دوسرے کیساتھ (اسے باقی رکھنے یا رد کرنے) کا اختیار ہوتا ہے جب تک یہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہوجائیں) ۔- ہاں اگر ان کا یہ عقد بیع خیار کے ساتھ کیا گیا ہو تو ایسی صورت میں خیار واجب ہوجائے گا حضرت عمر (رض) کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب آپ کسی سے سودا کرتے اور اسے اختیار نہ دیتے اور نہ ہی سودے کز ختم کرنے کا ارادہ کرتے تو مجلس عقد سے اٹھ کھڑے ہوتے تو تھوڑی دیر تک قدموں سے چلنے کے بعد واپس آجاتے۔ - خیار مجلس کے قائلین نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظاہر قول (المتبایعان بالخیار مالم یفترقا) سیاستدلال کیا ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) جو اس حدیث کے راوی ہیں انہوں نے بھی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جسمانی طور پر ایک دوسرے سے علحدگی مراد سمجھی تھی۔ - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) کے اپنے فعل کی جس رویت کا ذکر کیا گیا ہے تو اس کی اس بات پر دلالت نیہں ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) کا مسلک بھی یہی تھا۔ کیونکہ اس میں اس بات کا امکان ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) یہ سمجھتے ہوں کہ ان کا فروخت کنندہ خیار مجلس کا قائل ہے جس کی بنا پر انہیں اس شخص سے اسی بات کا خطرہ در پیش ہو جو مبیع کی تمام عیوب سے برأ ت کے سلسلے میں ایک دفعہ پیش آچکی تھی۔ - حتی کہ معاملہ حضرت عثمان غنی (رض) کے سامنے پیش ہوا تھا اور حضرت عثمان غنی (رض) نے حضرت ابن عمر (رض) کی رائے کیخلاف فیصلہ دیا تھا اور برأت کو اسی صورت میں قابل قبول قرار دیا تھا جب خریدار کے سامنے حضرت ابن عمر (رض) کی طرف سے اس کی وضاحت کردی جاتی۔ حضرت ابن عمر (رض) سے ایسی روایت بھی منقول ہے جس اس بات کی موافقت پر دلالت کرتی ہے۔ - یہ روایت ابن شہاب نے حمرہ بن عبداللہ بن عمر (رض) سے اور انہوں نے اپنے والد سے کی ہے کہ جس مبیع پر سودا ہوجائے جبکہ مبیع موجود اور زندہ ہو تو وہ خریدار کا مال بن جاتا ہے۔ یہ قول اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) کی رائے یہ تھی کہ سودا ہوجانے کے ساتھ ہی مبیع خریدار کی ملکیت میں آجاتا ہے اور فروخت کنندہ کی ملکیت سے نکل جاتا ہے یہ بات خیار کی نفی کرتی ہے۔ - رہ گیا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول کہ (المتبایعان بالخیار مالم یفترقا) اور بعض روایات کے الفاظ میں (البائعان بالخیار ما لم یفرتقا) تو اس قول کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ طرفین کو سودا طے کرتے ہوقت یعنی مول تول کرنے کی حالت میں اختیار ہوتا ہے۔ - لیکن جب سوا قطعی طور پر طے ہوجائے اور بیع پر طرفین کی رضامندی کا اظہار ہوجائے تو بیع کی تکمیل ہوجاتی ہے اور پھر سا حالت میں حقیقت کے لحاظ سے طرفین متبایع نہیں رہتے جس طرح ایسے دو شخصوں کو اسی وقت متضارب اور متقابل کا نام دیا جاتا ہے جب وہ ایک دوسرے کو ضرب لگانی اور ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کی حالت میں ہوتے ہیں۔ - لیکن اس حالت کے ختم ہوجانے پر انہیں علی الاطلاق ان ناموں سے موسوم نہیں کیا جاتا بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں شخص متضارب و متقابل تھے جب حدیث کے لفظ کے معنی کی حقیقت وہ ہے جو ہم نے بیان کردی تو اختلافی نکتے پر اس لفظ سے استدلال درست نہیں رہا۔ - اگر یہ کہا جائے کہ آپ کی اس تاویل سے حدیث کا فائدہ ساقط ہوجاتا ہے کیونکہ کسی شخص کو اسے بارے میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ بائع اور مشتری عقد پر رضا مندی سے قبل جب بھاؤ لگانے اور مول تول کرنے کے مرحلے میں ہوتے ہیں تو دونوں کو اس سودے کے قبول کرنے یا ترک کردینے کا اختیار ہوتا ہے۔ اس لیے حدیث میں ایسے خیار کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں۔- اگر یہ اعتراض کیا جائے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض کے قول کے برعکس حدیث کے اندر ایک بڑا فائدہ موجود ہے۔ ۔- اس بات کا امکان تھا کہ کوئی یہ خیار نہ کر بیٹھے کہ جب فروخت کنندہ خریدار سے کہہ دے ” میں نے فلاں چیز تمہارے ہاتھ فروخت کردی “ تو خریدار کی طرف سے اسے قبول کرلینے سے پہلے پہلے فروخت کنندہ اپنے اس قول سے رجوع نہیں کرسکتا۔- جس طرح مال کے بدلے آزادی دینے یا خلع کرنے کی صورت میں آقا اور شوہر غلام اور بیوی کی طرف سے اسے قبول کرنے سے پہلے پہلے اپنے قول سے رجوع نہیں کرسکتے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے درج بالا قول کے ذریعے بیع کے اندر خیار کے اثبات کا حکم واضح فرمادیا یعنی فریق آخر کے قبول کرلینے سے پہلے پہلے دونوں میں سے ہر ایک کو رجوع کرلینے کا اختیار ہے اور خیار کے سلسلے میں بیع کا معاملہ عتق اور خلق کے معاملے سے مختلف ہے۔ - اگر یہ کہا جائے کہ مول تول اور بھاؤ کرنے والے دو اشخاص عقد بیع کے انعقاد سے پہلے کس طرح بائع اور مشتری کہلا سکتی ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ انہیں بائع اور مشتری کہنا درست ہوگا جب وہ مول تول اور بھاؤ کرنے کے ذریعے بیع کا قصد کرلیں جس طرح ایک دوسرے کو قتل کرنے کا ارادہ کرنے والوں کو متقابل کہا جاتا ہے۔ - اگرچہ ابھی ان سے قتل کا فعل سرزد نہیں ہوا ہے یا جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس بیٹے کو ذبیح کہا گیا تھا جس کے ذبح کا اللہ تعالیٰ کی طرف انہیں حکم آیا تھا۔ کیونکہ وہ ذبح کے قریب پہنچ گئے تھے اگرچہ ذبح نہیں ہوئے۔ - اسیس طرح قول باری ہے (فاذان بلغن اجلہن فامسکوہن بمعروف او فارقو ہن بمعروف، جب یہ عورتیں اپنی مدت کو پہنچ جائیں تو پھر انہیں یا تو بھلے طریقے سے روکے رکھو یا بھلے طریقے علیحدہ کر دو ) آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ” جب یہ عورتیں مدت کو پہنچنے کے قریب ہوجائیں “۔- آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں فرمایا ( واذا طلتم النساء فبلغن اجلہن فلا تعضلوہن، اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی مدت کو پہنچ جائیں تو انہیں نہ روکو) اس آیت میں مدت کو پہنچنے کے حقیقی معنی مراد ہیں۔- اس بنا پر بھاؤ اور مول تول کرنے والے فریقین کو متبایع یعنی فروخت کنندہ اور خریدار کا نام دینا درست ہے جبکہ یہ دونوں اس طریقے پر عقد بیع کی تکمیل کا ارادہ رکھتے ہوں جو ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔- البتہ ایک بات جس کے سمجھنے میں کسی کو کوئی دقت پیش نہیں آسکتی وہ یہ ہے کہ بیع کے انعقاد کے بعد حقیقت کے اعتبار سے ان دونوں کو متبایع یعنی بائع اور مشتری کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ جس طرح تمام افعالن میں ہوتا کہ جب یہ افعال اختتام پذیر ہوجاتے ہیں تو انہیں سر انجام دینے والوں سے وہ نام بھی مٹ جاتے ہیں جو ان افعال سے مشتق ہوئے تھے۔ - البتہ مدح و ذم کے اسماء اس قاعدے کے ذیل میں نہیں آتے جیسا کہ ہم اپنی اس کتاب کی ابتدا میں بیان کر آئے ہیں۔ افعال کے اختتام پذیر ہوجانے پر انہیں سرانجام دینے والوں کو ماضی کے الفاظ سے موسوم کیا جائے گا۔ - مثلا ایسے دو افراد جو عقد بیع کرچکے ہوں یا ایک دوسرے کی پٹائی اور مقابلے سے فارغ ہوچکے ہیں انہیں ان الفاظ میں یاد کیا جائے گا ” کان متبایعین “ یہ دونوں بائع اور مشتری رہے تھے) اسی طرح کانا متضاربین نیز کانا متقابلین عقد بیع کے وقوع پذیر ہوجانے کے بعد ان دونوں پر اس اسم کا اطلاق حقیقی معنوں میں میں نہیں ہوسکتا اس پر یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ بعض دفعہ عقد بیع کے بعد ان دونوں کے لیے اسے فسخ کردینا اور توڑ دینا درست ہوتا ہے۔ - اقالہ یعنی فسخ کرنے کی حالت میں یہ دونوں حقیقی معنوں میں متقابل یعنی بیع فسخ کرنے والے ہو تو یہیں جبکہ ان دونوں کا ایک ہی حالت کے اندر بیع کرنے والے اور بیع فسخ کرنے والے بن جانا کسی طرح بھی درست نہیں ہوسکتا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ ان دونوں ” متبایعان “ کیا اسم کا اطلاق حقیقی معنوں میں اس وقت ہوتا ہے جب یہ مول تول اور بھاؤ کرنے نیز عقد بیع کی تکمیل کے مرحلی میں ہوتے ہیں ۔ - عقد بیع کے اختتام پذیر ہوجانے کی بعد ان دونوں پر اس اسم کا اطلاق ان معنوں میں ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی آپس میں بیع کیا تھا۔ یہ اطلاق بطور مجاز ہوتا ہے جب یہ بات واضح ہوگئی تو اس لفظ کو حقیقی معنوں پر محمول کرنا ضروری ہوگیا۔ یعنی وہ حالت جس میں خریدار سے فروخت کنندہ یہ کہے :” میں نے یہ چیز تمہارے ہاتھ فروخت کردی “ فروخت کنندہ نے یہ کہہ کر اپنی طرف سے بیع کے اسم کا اطلاق کردیا جبکہ خریدار نے ابھی اسے قبول نہیں کیا۔ - یہی وہ حالت ہے جس میں یہ دونوں ” متبایعان “ کہلاتے ہیں اور اسی حالت میں ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے خیار کا ثبوت ہوتا ہے۔ فروخت کنندہ کو خریدار کی طرف سے اسے قبول کرنے سے پہلے پہلے اس کے فسخ کا اختیار ہوتا ہے اور خریدار کو علیحدگی سے پہلے اسے قبول کرلینے کا اختیار ہوتا ہے۔ - حدیث میں یہی حالت مراد ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” المتبایعان ، کا لفظ استعمال فرمایا جس کے معنی ہیں ” ایک دوسرے کے ساتھ بیع کرنے والے حالانکہ بائع ان میں ایک ہوتا ہے یعنی وہ شخص جو بکاؤ سامان کا مالک ہوتا ہے۔ - گویا آپ نے یوں فرمایا : ” جب فروخت کنندہ یہ کہہ دے کہ میں نے تمہیں یہ چیز فروخت کردی تو دونوں کو اس معاملے میں اس وقت تک خیار یعنی اختیار ہوتا ہے جب تک ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہوجائیں “ کیونکہ یہ بات تو واضح ہے کہ خریدار فروخت کنندہ نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس حدیث میں مراد یہ ہے کہ جب فروخت کنندہ خریدار کی طرف سے قبول ہونے سے پہلے چیز کو فروخت کر دے۔ - حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد (المتبایعان بالخیار ما لم یفترقا) کی تاویل میں فقہاء کی درمیان اختلاف رائے ہے۔ محمد بن الحسن سے اس کا یہ مفہوم مروی ہے کہ جب فروخت کنندہ خریدار سے یہ کہہ دے کہ ” میں نے یہ چیز تمہارے ہاتھ فروخت کردی “ توا سے اپنے قول سے اس وقت تک رجوع کرنے کا اختیار ہے جب تک خریدار یہ نہ کہہ دے کہ ” میں نے قبول کرلیا “۔ - امام محمد (رح) نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔ امام ابویوسف (رح) سے مروی ہے کہ اس سے کسی چیز کا بھاؤ لگانے والے طرفین مراد ہیں جب فروخت کرنے والے نے یہ کہہ دیا ” میں نے تمہیں یہ چیز دس میں فروخت کردی “ توخریدار کو اسی مجلس میں اسے قبول کرلینے کا اختیار ہے اور اسی مجلس میں خریدار کی طرف سیا سے قبول کرلینے سے قبل فروخت کنندہ کو اپنے فول سے رجوع کرلینے کا بھی اختیار ہے۔ - بیع قبول کرنے سے پہلے ان دونوں میں سے جو بھی جس وقت مجلس سے اٹھ کھڑا ہوگا اسی وقت وہ خیار باطل ہوجائے گا جو ان دونوں کو حاصل تھا۔ اور اب ان دونوں میں سے کسی کو بھی اس کی اجازت نہیں ہوگی۔ - عقد بیع کے اختتام پذیر ہوجانے کی بعد ان دونوں پر اس اسم کا اطلاق ان معنوں میں ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی آپس میں بیع کیا تھا۔ یہ اطلاق بطور مجاز ہوتا ہے جب یہ بات واضح ہوگئی تو اس لفظ کو حقیقی معنوں پر محمول کرنا ضروری ہوگیا۔ یعنی وہ حالت جس میں خریدار سے فروخت کنندہ یہ کہے :” میں نے یہ چیز تمہارے ہاتھ فروخت کردی “ فروخت کنندہ نے یہ کہہ کر اپنی طرف سے بیع کے اسم کا اطلاق کردیا جبکہ خریدار نے ابھی اسے قبول نہیں کیا۔ - یہی وہ حالت ہے جس میں یہ دونوں ” متبایعان “ کہلاتے ہیں اور اسی حالت میں ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے خیار کا ثبوت ہوتا ہے۔ فروخت کنندہ کو خریدار کی طرف سے اسے قبول کرنے سے پہلے پہلے اس کے فسخ کا اختیار ہوتا ہے اور خریدار کو علیحدگی سے پہلے اسے قبول کرلینے کا اختیار ہوتا ہے۔ - حدیث میں یہی حالت مراد ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” المتبایعان ، کا لفظ استعمال فرمایا جس کے معنی ہیں ” ایک دوسرے کے ساتھ بیع کرنے والے حالانکہ بائع ان میں ایک ہوتا ہے یعنی وہ شخص جو بکاؤ سامان کا مالک ہوتا ہے۔ - گویا آپ نے یوں فرمایا : ” جب فروخت کنندہ یہ کہہ دے کہ میں نے تمہیں یہ چیز فروخت کردی تو دونوں کو اس معاملے میں اس وقت تک خیار یعنی اختیار ہوتا ہے جب تک ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہوجائیں “ کیونکہ یہ بات تو واضح ہے کہ خریدار فروخت کنندہ نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس حدیث میں مراد یہ ہے کہ جب فروخت کنندہ خریدار کی طرف سے قبول ہونے سے پہلے چیز کو فروخت کر دے۔ - حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد (المتبایعان بالخیار ما لم یفترقا) کی تاویل میں فقہاء کی درمیان اختلاف رائے ہے۔ محمد بن الحسن سے اس کا یہ مفہوم مروی ہے کہ جب فروخت کنندہ خریدار سے یہ کہہ دے کہ ” میں نے یہ چیز تمہارے ہاتھ فروخت کردی “ توا سے اپنے قول سے اس وقت تک رجوع کرنے کا اختیار ہے جب تک خریدار یہ نہ کہہ دے کہ ” میں نے قبول کرلیا “۔ - امام محمد (رح) نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔ امام ابویوسف (رح) سے مروی ہے کہ اس سے کسی چیز کا بھاؤ لگانے والے طرفین مراد ہیں جب فروخت کرنے والے نے یہ کہہ دیا ” میں نے تمہیں یہ چیز دس میں فروخت کردی “ توخریدار کو اسی مجلس میں اسے قبول کرلینے کا اختیار ہے اور اسی مجلس میں خریدار کی طرف سیا سے قبول کرلینے سے قبل فروخت کنندہ کو اپنے فول سے رجوع کرلینے کا بھی اختیار ہے۔ - بیع قبول کرنے سے پہلے ان دونوں میں سے جو بھی جس وقت مجلس سے اٹھ کھڑا ہوگا اسی وقت وہ خیار باطل ہوجائے گا جو ان دونوں کو حاصل تھا۔ اور اب ان دونوں میں سے کسی کو بھی اس کی اجازت نہیں ہوگی۔ - امام محمد (رح) نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے۔ امام ابویوسف (رح) سے مروی ہے کہ اس سے کسی چیز کا بھاؤ لگانے والے طرفین مراد ہیں جب فروخت کرنے والے نے یہ کہہ دیا ” میں نے تمہیں یہ چیز دس میں فروخت کردی “ تو خریدار کو اسی مجلس میں اسے قبول کرلینے کا اختیار ہے اور اسی مجلس میں خریدار کی طرف سے اسے قبول کرلینے سے قبل فروخت کنندہ کو اپنے قول سے رجوع کرلینے کا بھی اختیار ہے۔ - بیع قبول کرنے سے پہلے ان دونوں میں سے جو بھی جس وقت مجلس سے اٹھ کھڑا ہوگا اسی وت وہ خیار باطل ہوجائے گا جو ان دونوں کو حاصل تھا۔ اور اب ان دونوں میں سے کسی کو بھی اس کی اجازت نہیں ہوگی۔ - امام محمد (رح) نے خیار کو افتراق بالقول پر محمول کیا ہے یعنی ان دونوں کو خیار حاصل رہتا ہے جب تک قول کے ذریعے یہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہوجاتے۔ اس معنی پر اسے محمول کرنے کی گنجائش ہے۔ قول باری ہے (وما تفرق الذین اوتوا الکتاب الا من بعد ما جاء تہم البینۃ ، مگر جو لوگ اہل کتاب تھے وہ تو اس دلیل کے آنے بعد کے بعد ہی مختلف ہوئے۔ - اسی طرح محاورہ ہے ” تشاور القوم فی کذا فافترقوا عن کذا “ (لوگوں نے فلاں معاملے میں باہمی مشاورت کی پھر فلاں بات پر اتفاق ہوگیا اور مجلس برخاست ہوگئی) اس محاورے میں مراد یہ ہے کہ فلاں بات پر اتفاق ہوگیا اور سب کی رضامندی حاصل ہوگئی پھر اس کے بعد خواہ مجلس باقی کیوں نہ رہی ہو۔ - حدیث میں افتراق کے لفظ سے افتراق بالقول مراد ہے اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے ہمیں محمد بن بکر البصری نے روایت کی ہے، انہیں ابوداؤد نے ، انہیں قتیبہ نے انہیں اللیث نے محمد بن عجلان سے، انہوں نے عمرو بن شعیب سے ، انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص سے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ۔ (المتبایعان بالخیار ما لم یتفرقا الا ان تکون صفۃ خیار ولا یحل لہ ان یفارق صاحبہ خشیۃ ان یقیلہ۔ - بائع اور مشتری دونوں کو خیار حاصل ہوتا ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہوجائیں الا یہ کہ یہ سودا خیار والا ہو یعنی اس صورت میں خیار ختم نہیں ہوتا اور کسی کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اس ڈر سے اپنے ساتھی سے علیحدہ ہوجائے کہ کہیں وہ اسییہ سودا توڑ دینے کے لیے نہ کہے) ۔- حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد (المتبایعان بالخیار مالم یتفرقا) افتراق بالقول کے معنوں پر محمول ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اس کے بعد حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ولا یحل لہ ان یفارقہ خشیۃ ان یستقیلہ)- یہ افتراق بالا بدان کے معنی پر محمول ہے جبکہ پہلا افتراق بالقول کے معنی دے رہا ہے۔ نیز اس سے افتراق بالقول کے ساتھ عقد کی صحت پر بھی دلالت ہو رہی ہے استقالہ کا مفہوم یہ ہے کہ ایک فریق دوسرے کو بیع توڑ دینے کی تجویز پیش کرے۔ - یہ چیز عقد ہوجانے کے بعد خیار کی نفی پر دو طرح سے دلالت کر رہی ہے اول یہ کہ اگر اسے خیار مجلس حاصل ہوتا تو پھر فریق آخر سے بیع توڑ دینے کی تجویز پیش کرنے کی ضرورت اسے نہ پڑتی بلکہ وہ اپنے خیار کے حق کو استعمال کرتے ہوئے خود بیع کو فسخ کردیتا ۔ دوم اقالہ یعنی بیع کو توڑ دینا اسی وقت درست ہوتا ہے جب عقد درست ہوجائے اور اس عقد کی بنا پر طرفین میں سے ہر ایک کو اس چیز کی ملکیت حاصل ہوجائے جو اس سے متعلق ہے یہ چیز بھی خیار کی نفی اور عقد کی صحت پر دلالت کرتی ہے۔ - حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد (ولا یحل لہ ان یفارقہ) اس پر دلالت کرتا ہے کہ جب تک دونوں مجلس عقد میں موجود رہیں اس وقت تک ایک کی طرف سے اقالہ کی تجویز کو دوسرے کی طرف سے قبول کرلینا پسندیدہ امر ہوگا اور اسے قبول نہ کرنا ناپسندیدہ فعل ہوگا۔ آپ کے درج بالا ارشاد کی اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ مجلس عقد سے ایک دوسرے کی علیحدگی کے بعد اقالہ کا حکم درج بالا حکم سے مختلف ہوگا۔ - یعنی علیحدگی کے بعد اگر وہ فریق آخر کے اقالہ کی تجویز کو نہ مانے اور اسے رد کردے تو اس کے لیے اس میں کوئی کراہت نہیں ہوگی لیکن علیحدگی سے پہلے اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کا یہ اقدام مکروہ متصور ہوگا۔ - اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی ہے۔ انہیں علی بن احمد ازدی نے، انہیں اسماعیل بن عبداللہ بن زرارہ نے ، انہیں ہیشم نے یحی ین سعید سے ، انہوں نے نافع سے ، انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (البیعان لا بیع بینہما الا ان یفترقا الا بیع الخیار۔- بیع کرنے والے طرفین کے درمیان کوئی بیع اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک وہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہوجائیں، البتہ خیار اس میں داخل نہیں ہے۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی ، انہیں معاذ بن المثنی نے ، انہیں قعنبی نے، انہیں عبدالعزیز بن مسلم القسلمی نے عبداللہ بن دینار سے ، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (کل بیعین لا بیع بینہما حتی یفترقا، عقد بیع کرنے والے ہر جوڑے کے درمیا ن بیع نہیں ہوتی جب تک وہ ایک دوسرے علیحدہ نہ ہوجائیں) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتادیا کہ بیع کرنے والے طرفین یعنی بائع اور مشتری کے درمیان علیحدگی کے بعد ہی بیع ہوتی ہے یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مول تول کرنے اور بھاؤ لگانے کے مرحلے میں ان کے درمیان بیع کی نفی مراد لی ہے۔ - اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ان کے درمیان بیع کا عمل پورا ہوجاتا تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحت عقد اور ان دونوں کے درمیان اس عقد کے انعقاد پذیر ہونے کی صورت میں ان کی اس سودا کاری کی نفی نہ کرتے اس لیے کہ آپ ایک چیز کو ثابت کرنے کے بعد اس کی نفی تو نہیں کرسکتے تھے۔ - اس لیے ہمیں اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ آپ کے اس قول سے مراد مول تول اور بھاؤ لگانے والے طرفین ہیں۔ جنہوں نے آپس میں عقد بیع کا ارادہ کرلیا ہو اور فروخت کنندہ نے خریدار کے بیے بیع کی ایجاب کردی ہو اور خیردار نے بھی اس سے خریدنے کے ارادے سے یہ کہہ دیا ہو :” ٹھیک ہے، اسے میرے ہاتھ فروخت کر دو “ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قول اور قبول کے ذریعے ایک دوسرے سے علیحدگی تک ان دونوں کے درمیان بیع کے انعقاد کی نفی کردی۔ - کیونکہ خریدار کی طرف سے کہا ہوا لفظ ” یعنی “ (مجھے فروخت کر دے) عقد کو قبول کرنے پر دلالت نہیں کرتا اور نہ ہی یہ بیع کے الفاظ میں شمار ہوتا ہے ۔ اس کے ذریعے تو ایک کی طرف سے دوسرے کو حکم دیا گیا ہے۔ اگر دوسرا شخص یہ کہہ دے کہ مجھے قبول ہے تو بیع واقع ہوجائے گی۔- یہی وہ علیحدگی ہے جو قول کے ذریعے ہوتی ہے اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد میں یہی مراد ہے۔ ہم نے عربی زبان کے محاورات میں اس کے استعمال کے بہت سے نظائر کا ذکر پہلے کردیا ہے۔ - اگر یہ کہا جائے کہ آپ کو یہ تسلیم کرنے سے کیوں انکار ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے درج بالاارشاد سے ایجاب و قبول کے ذریعے بیع کے انعقاد کی حالت میں اس کی نفی مراد لی ہو، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تکمیل کے اس مرحلے پر بیع کی اس لیے نفی کی ہے کہ ابھی دونوں کے درمیان خیار مجلس باقی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہبات غلط ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ خیار کا ثبوت بیع سے اسم بیع کی نفی کا موجب نہیں ہوتا۔ - آپ نہیں دیکھتے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کے درمیان اس صورت میں بیع کا اثبات کردیا جب انہوں نے علحدگی کے بعد بھی خیار کی شرط رکھی ہو اس صورت میں بیع کے اندر خیار کا ثبوت اس عقد سے بیع کے نا م کی نفی کا موجب نہیں۔- اس لیے کہ آپ کا قول ہے (کل بیعین فلا بیع بینہما حتی یفترقا الا بیع الخیار) آپ نے بیع خیار کو بھی بیع کا نام دیا۔ اگر آپ کا اس سے ارادہ یہ ہوتا کہ ایجاب و قبول واقع ہوجانے کی حالت میں بیع کی نفی ہوتی ہے جب تک کہ دونوں کے درمیان علیحدگی نہ ہوجائے تو پھر خیار مجلس کی بنا پر آپ ان دونوں کے درمیان بیع کر ہرگز نفی نہ فرماتے جس طرح بیع کے اندر خیار کی شرط کی موجودگی کی صورت میں آپ نے بیع کی نفی نہیں فرمائی بلکہ اس کا اثبات کر کیا سے بیع کا نام دے دیا۔ - یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درج بالا ارشاد میں ” البیعان، سے بیع میں مول تول کرنے والے اور قیمت لگانے والے جانبین مراد ہیں اور اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ بائع کا یہ کہہ دینا کہ ” مجھ سے یہ چیز خرید لو “ یا مشتری کا یہ کہہ دینا کہ ” یہ چیز میرے ہاتھ فروخت کر دو ۔ “ بیع نہیں ہوتی جب تک کہ دونوں میں قول کے ذریعے علیحدگی نہ ہو یعنی بائع یہ کہے کہ میں نے فروخت کردیا اور مشتری یہ کہے کہ میں نے خرید لیا۔ - ان فقروں کے کہنے پر علیحدگی عمل میں آئے گی اور بیع کی تکمیل ہوجائے گی۔ اس سییہ بات بھی ضروری ہوگئی کہ اس بیع میں کسی خیار کی شرط نہ رہے اور بیع کی تکمیل ہوجائے ۔ خواہ جسمانی طور پر ایک دوسرے سے علیحدہ نہ بھی ہوں لیکن ایجاب وقبول کے ذریعے قولا علیحدگی ظہور پذیر ہوچکی ہو۔ - حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی اس روایت میں زیادہ احتمال تو ان ہی معنوں کا ہے جو ہم نے اور ہمارے مخالف نے بیان کئے ہیں۔ لیکن احتمال کی بنا پر ظاہر قرآن کے مفہوم میں رکاوٹ ڈالنا جائز نہیں ہوتا بلکہ حدیث کو ظاہر قرآن کے معنوں کی موافقت کا جامہ پہنانا اور اس کے مخالف معنوں پر محمول نہ کرنا واجب ہوتا ہے۔ - اگر قیاس اور نظر کی رو سے دیکھا جائے تو حدیث کے جو معنی ہم نے بیان کیئے ہیں اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ سب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ نکاح اور مال کے بدلے خلع اور عتیق نیز قتل عمد میں صلح کی صورتوں میں جب طرفین کے ایجاب و قبول کے ذریعے بات پکی اور درست ہوجاتی ہے اور طرفین میں سے کسی کے لیے خیار باقی نہیں رہتا۔ - اس کی وجہ وہ ایجاب و قبول ہے جس کی بنا پر ان صورتوں میں طے کیا جانے والا معاملہ درست ہوجاتا ہے اور خیار کی کوئی شرط باقی نہیں رہتی۔ - قول باری (ولاتقتلوا انفسکم، اور تم اپنی جانوں کو قتل نہ کرو) کی تفسیر میں عطاء اور سدّی کا قول ہے کہ اس کا مفموم یہ ہے کہ ” تم میں سے بعض بعض کو قتل نہ کرے “۔- کہ یہ آیت اس قول باری کی نظیر ہے (ولاتقتلوہم عند المسجد الحرام حتی یقٰتلوکم فیہ، اور انہیں مسجد حرام کے نزدیک قتل نہ کرو جب تک کہ وہ تمہیں اس جگہ قتل نہ کریں) - درج بالا آیت کی یہ قرأت حمزہ اور کسائی نے کی ہے۔ باقی قرآء نے اس کی قرأت الف کے ساتھ کی ہے یعنی (ولاتقاتلوہم عند المسجد الحرام حتی یقاتلوکم فیہ) عرب کہتے ہیں ” قتلنا ورب الکعبۃ “ (رب کعبہ کی قسم ہم قتل ہوگئے) ۔ - بعض افراد کے قتل ہوجانے کی صورت میں یہ فقرہ کہا جاتا ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ قول باری (ولاتقتلوا انفسکم) کا یہ انداز اس لیے خوبصورت ہے کہ مسلمان ایک دین کے کا ننے والے ہیں اس لیے وہ ایک جن کی طرح ہیں اسی لیے فرمایا گیا (فلاتقتلوا انفسکم) اور اس سے مراد یہ لی گئی کہ تم میں سے بعض بعض کو قتل نہ کرے۔ - حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (ان المومنین کالنفس الواحدۃ اذا لم بعضہ تداعی بالحمی والسہر، تمام مسلمان ایک جان کی طرح ہیں کہ اس کے کسی ایک حصے کو کوئی تکلیف لاحق ہوجاتی ہے تو باقی تمام حصے بخار اور بیداری میں مبتلا ہوکر اس کا ساتھ دیتے ہیں) نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (المؤمنون کالبنیان یشد بعضہ بعضا، تمام مسلمان ایک عمارت کی مانند ہیں کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تقویت کا باعث ہوتا ہے) ۔ - اس بنا پر درج بالا آیت کی عبارت اس طرح مقدر مانی جائے گی ” ولایقتل بعضکم بعضا فی اکل اموالکم بالباطل وغیرہ مما ہو محرم علیکم “ ( ٖباطل یا غیر باطل طریقے سے جو تم پر حرام کردیا گیا ہے ایک دوسرے کا مال کھانے میں تم میں سے بعض بعض کو قتل نہ کرے۔ - اس کی مثال یہ قول باری تعالیٰ ہے (فاذا دخلتم بیوتا فسلموا علی انفسکم، جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے آپ کو سلام کہو) یہاں مراد یہ ہے کہ اپنوں میں سے بعض یعنی گھروالوں کو السلام علیکم کہو۔- آیت میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ ہو ” مال کی طلب میں اپنی جانوں کو قتل نہ کرو “۔ وہ اس طرح کہ اپنے آپ کو دھوکہ دہی پر کمربستہ کرے اور اس طرح اس کا یہ طریق کار اس کی ہلات کا موجب بن جائے۔ اس میں مفہوم کا بھی احتمال ہے کہ غصے اور اکتاہٹ کی بنا پر اپنی جانیں نہ لے لو یعنی خود کشی نہ کر بیٹھو “۔ آیت کے الفاظ میں چونکہ ان تمام معانی کا احتمال موجود ہے۔ اس لیے یہ معانی مراد لے لینا جائز ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٩۔ ٣٠) یعنی ظلم وغضب جھوٹی گواہی قسمیں کھا کر ایسا مت کرو۔ البتہ باہم رضا مندی کے ساتھ کوئی تجارتی معاملہ ہو اس میں بائع یا مشتری کوئی اعانت دے تو یہ اور بات ہے۔- اور ایک دوسرے کو ناحق مت قتل کرو اللہ تعالیٰ بڑا مہربان ہے کہ اس نے اس کام کو حرام کردیا اور جو شخص کسی کو ظلما قتل کرے یا اس کے مال کو حلال سمجھے تو ہم اسے آخرت میں جہنم میں داخل کریں گے اور یہ عذاب میں مبتلا کرنا اور جہنم میں داخل کرنا ہمارے لیے بہت آسان ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بالْبَاطِلِ ) (اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ قف) - تجارت اور لین دین کی بنیاد جب حقیقی باہمی رضامندی پر ہو تو اس سے حاصل ہونے والا منافع جائز اور حلال ہے۔ فرض کیجیے کہ آپ کی جوتوں کی دکان ہے۔ آپ نے گاہک کو ایک جوتا دکھایا اور اس کے دام دو سو روپے بتائے۔ اس نے جوتا پسند کیا اور دو سو روپے میں خرید لیا۔ یہ باہمی رضامندی سے سودا ہے جو سیدھے سادھے اور صحیح طریقے پر ہوگیا۔ ظاہر بات ہے کہ اس میں سے کچھ نہ کچھ نفع تو آپ نے کمایا ہے۔ آپ نے اس کے لیے محنت کی ہے ‘ کہیں سے خرید کر لائے ہیں ‘ اسے سٹور میں محفوظ کیا ہے ‘ دکان کا کرایہ دیا ہے ‘ لہٰذا یہ منافع آپ کا حق ہے اور گاہک کو اس میں تأمل نہیں ہوگا۔ لیکن اگر آپ نے یہی جوتا جھوٹ بول کر یا جھوٹی قسم کھا کر فروخت کیا کہ میں نے تو خود اتنے کا لیا ہے تو اس طرح آپ نے اپنی ساری محنت بھی ضائع کی اور آپ نے حرام کما لیا۔ اسی طرح معاملت اور لین دین کے وہ تمام طریقے جن کی بنیاد جھوٹ اور دھوکہ دہی پر ہونا جائز اور حرام ہیں۔ - (وَلاَ تَقْتُلُوْآ اَنْفُسَکُمْ ط ) ۔- یعنی ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔ تمدن کی بنیاد دو چیزوں پر ہے ‘ احترام جان اور احترام مال۔ میرے لیے آپ کا مال اور آپ کی جان محترم ہے ‘ میں اسے کوئی گزند نہ پہنچاؤں ‘ اور آپ کے لیے میرا مال اور میری جان محترم ہے ‘ اسے آپ گزند نہ پہنچائیں۔ اگر ہمارے مابین یہ شریفانہ معاہدہ ( ) قائم رہے تب تو ہم ایک معاشرے اور ایک ملک میں رہ سکتے ہیں ‘ جہاں اطمینان ‘ امن و سکون اور چین ہوگا۔ اور جہاں یہ دونوں احترام ختم ہوگئے ‘ جان کا اور مال کا ‘ تو ظاہر بات ہے کہ پھر وہاں امن و سکون ‘ چین اور اطمینان کہاں سے آئے گا ؟ اس آیت میں باطل طریقے سے ایک دوسرے کا مال کھانے اور قتل نفس دونوں کو حرام قرار دے کر ان دونوں حرمتوں کو ایک ساتھ جمع کردیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :50 ” باطل طریقوں “ سے مراد وہ تمام طریقے ہیں جو خلاف حق ہوں اور شرعاً و اخلاقاً ناجائز ہوں۔ ” لین دین “ سے مراد یہ ہے کہ آپس میں مفاد و منافع کا تبادلہ ہونا چاہیے جس طرح تجارت اور صنعت و حرفت وغیرہ میں ہوتا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کی ضروریات فراہم کرنے کے لیے محنت کرتا ہے اور وہ اس کا معاوضہ دیتا ہے۔ ” آپس کی رضامندی “ سے مراد یہ ہے کہ لین دین نہ تو کسی ناجائز دباؤ سے ہو اور نہ فریب و دغا سے۔ رشوت اور سود میں بظاہر رضامندی ہوتی ہے مگر درحقیقت جوے میں حصہ لینے والا ہر شخص اس غلط امید پر رضا مند ہوتا ہے کہ جیت اس کی ہوگی۔ ہارنے کے ارادے سے کوئی بھی راضی نہیں ہوتا۔ جعل اور فریب کے کاروبار میں بھی بظاہر رضا مندی ہوتی ہے مگر اس غلط فہمی کی بنا پر ہوتی ہے کہ اندر جعل و فریب نہیں ہے۔ اگر فریق ثانی کو معلوم ہو کہ تم اس سے جعل یا فریب کر رہے ہو تو وہ ہرگز اس پر راضی نہ ہو۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :51 یہ فقرہ پچھلے فقرے کا تتمہ بھی ہوسکتا ہے اور خود ایک مستقل فقرہ بھی۔ اگر پچھلے فقرے کا تتمہ سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کا مال ناجائز طور پر کھانا خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ دنیا میں اس سے نظام تمدن خراب ہوتا ہے اور اس کے برے نتائج سے حرام خور آدمی خود بھی نہیں بچ سکتا۔ اور آخرت میں اس کی بدولت آدمی سخت سزا کا مستوجب بن جاتا ہے اور اگر اسے مستقل فقرہ سمجھا جائے تو اس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔ دوسرے یہ کہ خود کشی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے الفاظ ایسے جامع استعمال کئے ہیں اور ترتیب کلام ایسی رکھی ہے کہ اس سے یہ تینوں مفہوم نکلتے ہیں اور تینوں حق ہیں۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :52 یعنی اللہ تعالیٰ تمہارا خیر خواہ ہے، تمہاری بھلائی چاہتا ہے، اور یہ اس کی مہربانی ہی ہے کہ وہ تم کو ایسے کاموں سے منع کر رہا ہے جن میں تمہاری اپنی بربادی ہے۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

25: اس کا سادہ مطلب تو یہ ہے کہ جس طرح دوسرے کا مال ناحق طریقے سے کھانا حرام ہے کسی کی جان لینا اس سے زیادہ حرام ہے، دوسرے کی جان لینے کو اپنے آپ کو قتل کرنے سے تعبیر کرکے اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ دوسرے کو قتل کرنا بالآخر اپنے آپ ہی کو قتل کرنا ہے ؛ کیونکہ اس کے بدلے میں خود قاتل قتل ہوسکتا ہے، اور اگر یہاں قتل نہ بھی ہو تو آخرت میں اس کی جو سزا ملنی ہے وہ موت سے بھی بدتر ہوگی، اس طرح اس تعبیر سے خود کشی کی ممانعت بھی واضح ہوگئی، دوسرے کسی کا مال ناحق کھانے کے ساتھ یہ جملہ لانے سے اس طرف بھی اشارہ ممکن ہے کہ جب ناحق مال کھانے کا رواج معاشرے میں عام ہوجائے تو اس کا نتیجہ اجتماعی خود کشی کی صورت میں نکلتا ہے۔