Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 اس کمزوری کی وجہ سے اس کے گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ممکن آسانیاں اسے لئے فراہم کی ہیں انہیں میں سے لونڈیوں سے شادی کی اجازت ہے بعض نے اس ضعف کا تعلق عورتوں سے بتلایا ہے یعنی عورت کے بارے میں کمزور ہے اسی لئے عورتیں بھی باوجود نقصان عقل کے اس کو آسانی سے اپنے دام میں پھنسا لیتی ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٧] شرعی احکام میں انسای کمزوریوں کا لحاظ :۔ یعنی یہ احکام دینے میں اس بات کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ انسان فطرتاً کمزور ہے لہذا ان احکام میں انسان کی سہولت اور بساط کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ مثلاً یہ کہ انسان اپنی شہوت پر کنٹرول نہیں کرسکتا تو اسے ایک سے چار بیویوں تک نکاح کی اجازت دے دی گئی ہے اور اس میں سہولتوں کو مدنظر رکھ کر اسے آسان بنادیا گیا ہے۔ نیز جو بھی احکام شریعت ہیں ان میں اعتدال کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور پھر معاشرہ کے کمزور افراد کے لیے رخصتیں بھی رکھ دی گئی ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّخَفِّفَ عَنْكُمْ ۚ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ کو انسان کی کمزوری کا خوب علم ہے کہ عورتوں کے معاملے میں یہ کس قدر کمزور ہے، اس لیے احکام شریعت میں اس کی سہولت کا خیال رکھا گیا ہے اور دین میں سختی نہیں برتی گئی، فرمایا : ( وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ۭ ) [ الحج : ٧٨ ] ” اور اس نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بیشک دین آسان ہے۔ “ [ بخاری، الإیمان، باب الدین یسر : ٣٩، عن أبی ہریرۃ (رض) ] اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں تمہارے پاس نہایت آسان حنیفی شریعت لے کر آیا ہوں۔ “ [ بخاری، الإیمان، باب الدین یسر، قبل ح : ٣٩، عن أبی ہریرۃ (رض) ]- شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” دین اسلام میں کوئی تنگی نہیں کہ کوئی حلال کو چھوڑے اور حرام کو دوڑے۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

پھر فرمایا یریداللہ ان یخفف عنکم یعنی اللہ پاک تم پر تخفیف اور ہلکے احکام کا ارادہ فرماتے ہیں، تمہاری دقتیں دور کرنے کے لئے نکاح کے بارے میں ایسے نرم احکام دیئے جن پر سب عمل پیرا ہو سکتے ہیں اور اگر آزاد عورتوں سے نکاح کی طاقت نہ ہو تو باندیوں سے نکاح کی اجازت دے دی ہے، مہر کے بارے میں طرفین کو باہمی رضا مندی سے طے کرنے کا اختیار دیا اور ضرورت کے وقت ایک سے زائد عورت سے بھی نکاح کی اجازت دی گئی، بشرطیکہ عدل ہاتھ سے نہ چھوٹے۔- پھر فرمایا : خلق الانسان ضعیفاً یعنی انسان خلقی طور پر ضعیف ہے اور اس کے اندر شہوانی مادہ رکھا گیا ہے، اگر بالکل ہی عورتوں سے دور رہنے کا حکم دیا جاتا تو اطاعت اور فرمانبرداری کرنے سے عاجز رہ جاتا، اس کے عجز و ضعف کے پیش نظر عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت ہی نہیں بلکہ ترغیب دی، اور نکاح کے بعد آپس میں جو ایک دوسرے کو نفس اور نظر کی پاکیزگی کا نفع اور دوسرے فوائد حاصل ہوتے ہیں ان سے طرفین کو تقویت پہنچتی ہے، پس نکاح ضعف کے دور کرنے کا باہمی معاہدہ اور ایک بےمثال طریقہ ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُّخَفِّفَ عَنْكُمْ۝ ٠ۚ وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا۝ ٢٨- خفیف - الخَفِيف : بإزاء الثّقيل، ويقال ذلک تارة باعتبار المضایفة بالوزن، و قیاس شيئين أحدهما بالآخر، نحو : درهم خفیف، ودرهم ثقیل .- والثاني : يقال باعتبار مضایفة الزّمان،- نحو : فرس خفیف، وفرس ثقیل : إذا عدا أحدهما أكثر من الآخر في زمان واحد .- الثالث : يقال خفیف فيما يستحليه الناس،- وثقیل فيما يستوخمه، فيكون الخفیف مدحا، والثقیل ذمّا، ومنه قوله تعالی: الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال 66] ، فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة 86] وأرى أنّ من هذا قوله : حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً [ الأعراف 189] . - الرّابع : يقال خفیف فيمن يطيش،- و ثقیل فيما فيه وقار، فيكون الخفیف ذمّا، والثقیل مدحا . الخامس : يقال خفیف في الأجسام التي من شأنها أن ترجحن إلى أسفل کالأرض والماء، يقال : خَفَّ يَخِفُّ خَفّاً وخِفَّةً ، وخَفَّفَه تَخْفِيفاً وتَخَفَّفَ تَخَفُّفاً ، واستخففته، وخَفَّ المتاع : الخفیف منه، و کلام خفیف علی اللسان، قال تعالی: فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطاعُوهُ [ الزخرف 54] ، أي : حملهم أن يخفّوا معه، أو وجدهم خفافا في أبدانهم وعزائمهم، وقیل :- معناه وجدهم طائشين، وقوله تعالی: فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ [ المؤمنون 102- 103] ، فإشارة إلى كثرة الأعمال الصّالحة وقلّتها، وَلا يَسْتَخِفَّنَّكَ [ الروم 60] ، أي : لا يزعجنّك ويزيلنّك عن اعتقادک بما يوقعون من الشّبه، وخفّوا عن منازلهم : ارتحلوا منها في خفّة، والخُفُّ : الملبوس، وخُفُّ النّعامة والبعیر تشبيها بخفّ الإنسان .- ( خ ف ف ) الخفیف - ( ہلکا ) یہ ثقیل کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے ۔ اس کا استعمال کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) کبھی وزن میں مقابلہ کے طور یعنی دو چیزوں کے باہم مقابلہ میں ایک کو خفیف اور دوسری کو ثقیل کہہ دیا جاتا ہے جیسے درھم خفیف ودرھم ثقیل یعنی وہ درہم ہم ہلکا ہے ۔ اور یہ بھاری ہے ( 2) اور کبھی ثقابل زمانی کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں ۔ مثلا ( ایک گھوڑا جو فی گھنٹہ دس میل کی مسافت طے کرتا ہوں اور دوسرا پانچ میل فی گھنٹہ دوڑتا ہو تو پہلے کو خفیف ( سبک رفتار ) اور دوسرے کو ثقل ( سست رفتار ) کہا جاتا ہے ( 3) جس چیز کو خوش آئندہ پایا جائے اسے خفیف اور جو طبیعت پر گراں ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اس صورت میں خفیف کا لفظ بطور مدح اور ثقیل کا لفظ بطور ندمت استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات کریمہ ؛ الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال 66] اب خدا نے تم پر سے بوجھ ہلکا کردیا ۔ فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة 86] سو نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا ۔ اسی معنی پر محمول ہیں اسی معنی پر محمول ہیں بلکہ ہمارے نزدیک آیت : حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً [ الأعراف 189] اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ ( 4) جو شخص جلد طیش میں آجائے اسے خفیف اور جو پر وقار ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کے اعتبار سے خفیف صفت ذم ہوگئی اور ثقیل سفت مدح ۔ ( 5 ) جو اجسام نیچے کی طرف جھکنے والے ہوں انہیں ثقلا اور جو اپر کی جاں ب چڑھنے والے ہوں انہیں خفیفہ کہا جاتا ہے اسی معنی کے لحاظ سے زمین پانی وگیرہ ہا کو اجسام ثقیلہ اور ہوا آگ وغیرہ ہا اجسام خفیفہ میں داخل ہوں گے ۔- خف ( ض ) خفا وخفتہ ویخفف ۔ ہلکا ہونا خففہ تخفیفا ۔ ہکا کرنا ۔ استخفہ ۔ ہلکا سمجھنا خف المتاع سامان کا ہلکا ہونا اسی سے کلام خفیف علی اللسان کا محاورہ مستعار ہے یعنی وہ کلام جو زبان پر ہلکا ہو ۔ اور آیت کریمہ : فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطاعُوهُ [ الزخرف 54] غرض اس نے اپنی قوم کی عقل مار دی اور انہوں نے اس کی بات مان لی ۔ کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اس نے اپنی قوم کو اکسایا کہ اس کے ساتھ تیزی سے چلیں اور یا یہ کہ انہیں اجسام وعزائم کے اعتبار سے ڈھیلا پایا اور بعض نے یہ معنی بھی کئے کہ انہیں جاہل اور کم عقل سمجھا ۔ اور آیت کریمہ : : فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ [ المؤمنون 102- 103] اور جن کے وزن ہلکے ہوں گے ۔ میں اعمال صالحہ کی کمی کی طرف اشارہ ہی اور آیت کریمہ : وَلا يَسْتَخِفَّنَّكَ [ الروم 60] اور وہ تمہیں اوچھا نہ بنادیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ شبہات پیدا کر کے تمہیں تمہارے عقائد سے منزل اور برگشتہ نہ کردیں ۔ خفوا عن منازھم ۔ وہ تیزی سے کوچ کر گئے الخف ۔ موزہ ۔ انسان کے موزہ سے تشبیہ دے کر خف النعامتہ والبعیر ۔ ( سپل شتر وسم شتر مرغ ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- ضعف - والضَّعْفُ قد يكون في النّفس، وفي البدن، وفي الحال، وقیل :- الضَّعْفُ والضُّعْفُ لغتان . قال تعالی: وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال 66]- ( ض ع ف ) الضعف - اور الضعف رائے کی کمزوری پر بھی بولا جاتا ہے اور بدن اور حالت کی کمزوری پر بھی اور اس میں ضعف اور ضعف ( ولغت ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال 66] اور معلوم کرلیا کہ ابھی تم میں کس قدر کمزور ی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (یرید اللہ ان یخفف عنکم وخلق الانسان ضعیفا، اللہ تعالیٰ تمہارا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہے اور انسان تو کمزور بنا کر پیدا کیا گیا ہے) تخفیف سے یہاں تکلیف یک تسہیل مراد ہے یعنی ہمیں جن باتوں کا مطلف بنایا گیا ہے ان میں آسانی اور سہولت کی راہیں پیدا کردی گئی ہیں۔- تخفیف تثقیل (بوجھل بنادینا) کی ضد ہے۔ اس قول باری کی نظیر یہ قول باری ہے (ویضع عنہم اصرہم ولاغلال التی کانت علیہم ، اور وہ ان سے ان کا بوجھ اور طوق اتار دیتا جو ان پر پڑے ہوئے تھے۔ - نیز فرمایا (یرید اللہ بکم الیسر ولایرید بکم العسر، اللہ تعالیٰ تم سے آسانی کا ارادہ کرتا ہے اور وہ تم سے سختی کا ارادہ نہیں کرتا، نیز فرمایا (وماجعل علیکم فی الدین من حرج، اللہ تعالیٰ نے دین کے معاملے میں تمہارے لیے کوئی تنگی پیدا نہیں کی) ۔ - نیز ارشاد ہے (مایریدلیجعل علیکم من حرج ولکن یرید لیطہرکم، اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی مسلط کر دے وہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کر دے) ۔ - ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے تنگی پیدا کرنے ، ہم پر بوجھ ڈالنے اور ہمیں سختی میں مبتلا کرنے کی نفی فرمادی ہے۔ اس کی مثال حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ ارشاد مبارک ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (جیئتکم بالحنیفیۃ السمحاء، میں تم لوگوں کے پاس ایسی شریعت لے کرے یا ہوں جو بالکل سیدھی اور جس میں بڑی گنجائش ہے) ۔- وہ اس طرح کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر وہ عورتیں حرام کردیں جن کا ذکر سابقہ آیات میں گذر چکا ہے لیکن ان کے سوا باقی ماندہ تمام عورتیں ہمارے لیے مباح ہیں کہ انہیں ہم نکاح یا ملک یمین کے ذریعے حاصل کرسکتے ہیں۔- اسی طرح دوسری تمام حرام کردہ اشیاء کی کیفیت ہے کہ جتنی چیزیں حلال کردی گئی ہیں وہ ان حرام شدہ چیزوں کے مقابلے میں کئی گنا ہیں اس لیے حلال کردہ اشیاء کی طرف جانے کی ہمیں ضرورت ہی نہیں۔- حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے اسی مفہوم کا ایک قول منقول ہے کہ ” اللہ تعالیٰ نے تمہاری شفا ان چیزوں میں نہیں رکھی جو اس نے تم پر حرام کردی ہیں “ حضرت ابن مسعود (رض) کی اس قول سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شفا کو حرام شدہ چیزوں میں منحصر نہیں کردیا بلکہ ہمارے لیے جو غذائیں اور دوائیں حلال کردی ہیں ان میں اتنی وسعت اور گنجائش ہے کہ ہم ان کے ذریے حرام شدہ اشیاء سے مستغنی ہوسکتے ہیں تاکہ دنیاوی امور میں ہمارے لیے جو چیزیں حرام کردی گئی ہیں ان سے دامن بچانے کی بنا پر ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کبھی دو باتوں میں سے ایک کے انتخاب کا اختیار دیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیشہ وہی بات پسند کرلی جو زیادہ آسان تھی۔- ان آیات سے ان مسائل میں تخفیف کے حق میں استدلال کیا جاتا ہے جو فقہاء کے نزدیک مختلف فیہ ہیں اور انہوں نے ان میں اجتہاد کی گنجائش نکال لی ہے۔ اس میں فرقہ جبریہ کے مذہب کے بطلان کی دلالت موجود ہے۔ - ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایسے امور کا مکلف بنا دیتا ہے جن کے کرنے کی ان کے اندر طاقت نہیں ہوتی۔ اس عقیدے کے بطلان کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں پر تخفیف کرنا چاہتا ہے جبکہ تکلیف مالا یطاق یعنی ایسی بات کا مکلف جو اس کی طاقت سے بالا ہو، تثقیل کی انتہا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب کے معانی کو زیادہ جاننے والا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٨) اللہ تعالیٰ نے تم پر ضرورت کے وقت باندیوں سے شادی کو حلال کردیا اور انسان عورتوں سے نہیں رک سکتا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ ( یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْکُمْ ج) “- تم یہ نہ سمجھو کہ اللہ تم پر بوجھ ڈال رہا ہے۔ اللہ تو تم پر تخفیف چاہتا ہے ‘ تم سے بوجھ کو ہلکا کرنا چاہتا ہے۔ اگر تم ان چیزوں پر عمل نہیں کرو گے تو معاشرے میں گندگیاں پھیلیں گی ‘ فساد برپا ہوگا ‘ جھگڑے ہوں گے ‘ بدگمانیاں ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ اس سب کی روک تھام چاہتا ہے ‘ وہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے۔- (وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا )- اس کے اندر کمزوری کے پہلو بھی موجود ہیں۔ جہاں ایک بہت اونچا پہلو ہے کہ اس میں روح ربانی پھونکی گئی ہے ‘ وہاں اس کے اندر نفس بھی تو ہے ‘ جس میں ضعف کے پہلو موجود ہیں

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

24: یعنی اِنسان فطری طور پر جنسی خواہش کا مقابلہ کرنے میں کمزور واقع ہوا ہے، اس لئے اﷲ تعالیٰ نے اس کو یہ خواہش جائز طریقے سے پورا کرنے سے نہیں روکا ، بلکہ نکاح کو اس کے لئے آسان بنادیا ہے۔