27۔ 1 اَنْ تمیلوا یعنی حق سے باطل کی طرف جھک جاؤ۔
[٤٦] معاشرتی اصلاحات پر مخالفین کا شورو غوغا :۔ ان خواہشات نفس کی پیروی کرنے والوں سے مراد وہ ہر طرح کے لوگ ہیں جو اللہ کی ہدایات پر اپنے آباؤ اجداد کے رسم و رواج کو مقدم سمجھتے اور انہی چیزوں سے محبت رکھتے ہیں خواہ وہ یہود و نصاریٰ ہوں یا منافق یا دوسرے مشرکین ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے معاشرتی برائیوں کے خاتمہ کے لیے بیشمار ایسے احکامات نازل فرمائے جن پر عمل کرنا اکثر لوگوں کو ناگوار تھا۔ مثلاً میراث میں لڑکیوں اور چھوٹے بچوں کا حصہ مقرر کرنا، بیوہ سے سسرال کی بندشوں کو ختم کرنا اور عدت کے بعد اسے نکاح کے لیے پوری آزادی دلانا، متبنّیٰ کی وراثت کا خاتمہ، عورت کو خاوند کی طرح طرح کی زیادتیوں سے نجات دلا کر معاشرہ میں اس کا مقام بلند کرنا وغیرہ وغیرہ۔ ایسی تمام اصلاحات پر بڑے بوڑھے اور آبائی رسوم کے پرستار چیخ اٹھتے تھے اور لوگوں کو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بھڑکاتے رہتے تھے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے چار سے زیادہ بیویوں پر پابندی لگا دی۔ اب جن مسلمانوں نے زائد بیویوں کو طلاق دے کر فارغ کیا تھا، ان کی اولاد سے یوں کہنا کہ اس حکم کی رو سے تمہاری ماؤں اور باپ کے تعلق کو ناجائز ٹھہرایا گیا ہے، تو کیا تم جائز اولاد ہو یا ناجائز وغیرہ وغیرہ۔ اور سب سے بڑھ کر اعتراض یہود کو تھے جنہوں نے از خود کئی حلال چیزوں کو حرام قرار دے رکھا تھا۔ اور اپنے اوہام و خرافات کو شریعت الٰہی کا درجہ دے رکھا تھا۔ مثلاً حیض والی عورت ان کے ہاں ایسی ناپاک تھی جس کے ہاتھ کا پکایا ہوا کھانا بھی جائز نہ تھا اسی لیے وہ حیض کے دوران انہیں بالکل الگ تھلگ رکھتے تھے اور ان کی دیکھا دیکھی ایسا ہی رواج انصار مدینہ میں بھی چل نکلا تھا مگر قرآن کے حکم کی رو سے مجامعت کے سوا حیض والی عورت سے تمام تعلقات اسی طرح رکھے جاسکتے تھے جس طرح پاکیزگی کے دنوں میں ہوتے ہیں۔ ایسی باتوں پر یہود چلا اٹھتے تھے کہ دیکھو یہ نبی ہر ناپاک کو پاک اور ہر حرام کو حلال بنانے پرتلا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم ان لوگوں کی مطلق پروا نہ کرو اور اگر تم لوگ ان کی باتوں پر توجہ دینے لگو گے تو یہ تو تمہیں راہ راست سے کہیں دور جا پھینکیں گے لہذا جو احکام تمہیں مل رہے ہیں ان پر ان کے اعتراضات سے بےپروا ہو کر اور بےخوف ہو کر عمل کیے جاؤ۔
وَاللہُ يُرِيْدُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْكُمْ ٠ۣ وَيُرِيْدُ الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الشَّہَوٰتِ اَنْ تَمِيْلُوْا مَيْلًا عَظِيْمًا ٢٧- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - شها - أصل الشَّهْوَةِ : نزوع النّفس إلى ما تریده، وذلک في الدّنيا ضربان : صادقة، وکاذبة، فالصّادقة : ما يختلّ البدن من دونه كشهوة الطّعام عند الجوع، والکاذبة : ما لا يختلّ من - دونه، وقد يسمّى الْمُشْتَهَى شهوة، وقد يقال للقوّة التي تَشْتَهِي الشیء : شهوة، وقوله تعالی:- زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران 14] ، يحتمل الشّهوتین، وقوله : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم 59] ، فهذا من الشّهوات الکاذبة، ومن الْمُشْتَهِيَاتِ المستغنی عنها، وقوله في صفة الجنّة : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت 31] ، وقوله : فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ- [ الأنبیاء 102] ، وقیل : رجل شَهْوَانٌ ، وشَهَوَانِيٌّ ، وشیء شَهِيٌّ.- ( ش ھ و ) الشھوہ - کے معنی ہیں نفس کا اس چیز کی طرف کھینچ جاتا جسے وہ چاہتا ہے و خواہشات دنیوی دوقسم پر ہیں صادقہ اور کاذبہ سچی خواہش وہ ہے جس کے حصول کے بغیر بدن کا نظام مختل ہوجاتا ہے جیسے بھوک کے وقت کھانے کی اشتہا اور جھوٹی خواہش وہ ہے جس کے عدم حصول سے بدن میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی ۔ پھر شھوۃ کا لفظ کبھی اس چیز پر بولاجاتا ہے ۔ جس کی طرف طبیعت کا میلان ہو اور کبھی خود اس قوت شہویہ پر اور آیت کریمہ ؛زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران 14] لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں ( بڑی ) زینت دار معلوم وہوتی ہیں۔ میں شہو ات سے دونوں قسم کی خواہشات مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم 59] اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے ۔ میں جھوٹی خواہشات مراد ہیں یعنی ان چیزوں کی خواہش جن سے استغناء ہوسکتا ہو ۔ اور جنت کے متعلق فرمایا : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت 31] اور وہاں جس ( نعمت کو تمہارا جی چاہے گا تم کو ملے گا ۔ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ [ الأنبیاء 102] اور جو کچھ ان جی چاہے گا اس میں ۔۔۔ رجل شھوان وشھوانی خواہش کا بندہ شمئ لذیز چیز ۔ مرغوب شے ۔ - ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا مونز ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔
قول باری (ویتوب علیکم) فرقہ جبریہ کے عقائد کے بطلان پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ وہ ہماری طرف متوجہ ہونے ا رادہ رکھتا ہے جبکہ ان باطل پرستوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ گناہوں پر اڑے رہنے والوں کے لیے اصرار اور اڑے رہنے کا اراد ہ کرتا ہے اور ان سے توبہ اور استغفار کا ارادہ نہیں کرتا۔ - قول باری ہے (ویرید الذین یتبعون الشہوات ان یمیلوا میلا عظیما، مگر جو لوگ اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ) ۔- بعض حضرات کا قول ہے کہ اس سے ہر باطل پرست مراد ہے کیونکہ وہ ہر صورت میں اپنی خواہش نفس کی پیروی کرتا ہے خواہ یہ حق کے موافق یا یا مخالف اس کی اسے کوئی پروا نہیں ہوتی اور اپنی خواہش نفس کی مخالفت کرتے ہوئے حق کی پیروی کی اس میں ہمت نہیں ہوتی مجاہد کا قول ہے کہ اس سے مراد زنا ہے۔ سدّی کا قول ہے کہ اس سے مراد یہود ونصاری ہیں۔ قول باری (ان تمیلوا میلا عظیما) سے مراد یہ ہے کہ کثرت سے گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے حق پر استقامت باقی نہ رہے اور قدم لڑکھڑا جائیں۔- باطل پرست جو یہ چاہتے ہیں کہ تم راہ حق سے ہٹ کر دو چلے جاؤ تو اس کی دو وجہیں ہیں یا تو اس عداوت کی بنا پر جو وہ تمہارے خلاف اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اور یا اس وجہ کی بنا پر کہ گناہ اور معصیت سے انہیں دلی لگاؤ ہے اور اس پر ڈٹے رہنے میں انہیں سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ جو کچھ وہ ہمارے لیے چاہتا ہے وہ ان باطل پرستوں کے ارادوں سے بالکل مختلف ہے۔ - آیت کی اس مفہوم پر دلالت ہو رہی ہے کہ خواہش نفسانی کی پیروی کا ارادہ قابل مذمت ہے لیکن اگر یہ خواہش حق کے موافق ہو تو اصورت میں اس کی پیروی قابل مذمت نہیں ہوتی۔- کیونکہ اس شکل میں اس کا ارادہ دراصل اتباع حق کا ہوتا ہے۔ اور ایسے شخص کے متعلق یہ کہا درست نہیں ہوتا کہ وہ اپنی خواہشات کا پیروکار ہے اس لیے کہ اس طریق کار سے اس کا مقصد اتباع حق ہوتا ہے خواہ یہ اس کی خواہشات کے موافق ہو یا مخالف ۔
آیت ٢٧ (وَاللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْکُمْ قف) (وَیُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّہَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلاً عَظِیْمًا ) - وہ چاہتے ہیں کہ تمہارا رجحان صراط مستقیم کے بجائے غلط راستوں کی طرف ہوجائے اور ادھر ہی تم بھٹکتے چلے جاؤ۔ آج بھی عورت کی آزادی ( ) کی بنیاد پر اور حقوق نسواں کے نام پر دنیا میں جو تحریکیں برپا ہیں یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ حدود وقیود کو توڑ کر جنسی بےراہروی پھیلانے کی ایک عظیم سازش ہے جو دنیا میں چل رہی ہے۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :49 یہ اشارہ ہے منافقین اور قدامت پرست جہلاء اور نواحی مدینہ کے یہودیوں کی طرف ۔ منافقین اور قدامت پرستوں کو تو وہ اصلاحات سخت ناگوار تھیں جو تمدن و معاشرت میں صدیوں کے جمے اور رچے ہوئے تعصبات اور رسم و رواج کے خلاف کی جارہی تھیں ۔ میراث میں لڑکیوں کا حصہ ۔ بیوہ عورت کا سسرال کی بندشوں سے رہائی پانا اور عدت کے بعد اس کا ہر شخص سے نکاح کے لیے آزاد ہو جانا ۔ سوتیلی ماں سے نکاح حرام ہونا ۔ دو بہنوں کے ایک ساتھ نکاح میں جمع کیے جانے کو ناجائز قرار دینا ۔ متبنّٰی کو وراثت سے محروم کرنا اور منہ بولے باپ کے لیے متبنّٰی کی بیوہ اور مطلقہ کا حلال ہونا ۔ یہ اور اس طرح کی دوسری اصلاحات میں سے ایک ایک چیز ایسی تھی جس پر بڑے بوڑھے اور آبائی رسوم کے پرستار چیخ چیخ اٹھتے تھے ۔ مدتوں ان احکام پر چہ میگوئیاں ہوتی رہتی تھیں ۔ شرارت پسند لوگ ان باتوں کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت اصلاح کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتے پھرتے تھے ۔ مثلاً جو شخص کسی ایسے نکاح سے پیدا ہوا تھا جسے اب اسلامی شریعت حرام قرار دے رہی تھی ، اس کو یہ کہہ کہہ کر اشتعال دلایا جاتا تھا کہ لیجیے ، آج جو نئے احکام وہاں آئے ہیں ان کی رو سے آپ کی ماں اور آپ کے باپ کا تعلق ناجائز ٹھیرا دیا گیا ہے ۔ اس طرح یہ نادان لوگ اس اصلاح کے کام میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے جو اس وقت احکام الہٰی کے تحت انجام دیا جا رہا تھا ۔ دوسری طرف یہودی تھے جنہوں نے صدیوں کی موشگافیوں سے اصل خدائی شریعت پر اپنے خود ساختہ احکام و قوانین کا ایک بھاری خول چڑھا رکھا تھا ۔ بے شمار پابندیاں اور باریکیاں اور سختیاں تھیں جو انہوں نے شریعت میں بڑھالی تھیں ۔ بکثرت حلال چیزیں ایسی تھیں جنہیں وہ حرام کر بیٹھے تھے ۔ بہت سے اوہام تھے جن کو انہوں نے قانون خداوندی میں داخل کر لیا تھا ۔ اب یہ بات ان کے علماء اور عوام دونوں کی ذہنیت اور مذاق کے بالکل خلاف تھی کہ وہ اس سیدھی سادھی شریعت کی قدر پہچان سکتے جو قرآن پیش کر رہا تھا ۔ وہ قرآن کے احکام کو سن کر بے تاب ہو جاتے تھے ۔ ایک ایک چیز پر سو سو اعتراضات کرتے تھے ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ یا تو قرآن ان کے فقہاء کے تمام اجتہادات اور ان کے اسلاف کے سارے اوہام و خرافات کو شریعت الہٰی قرار دے ، ورنہ یہ ہرگز کتاب الہٰی نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر یہودیوں کے ہاں دستور تھا کہ ایام ماہواری میں عورت کو بالکل پلید سمجھا جاتا تھا ۔ نہ اس کا پکایا ہوا کھانا کھاتے ۔ نہ اس کے ہاتھ کا پانی پیتے نہ اس کے ساتھ فرش پر بیٹھتے ۔ بلکہ اس کے ہاتھ سے ہاتھ چھو جانے کو بھی مکروہ سمجھتے تھے ۔ ان چند دنوں میں عورت خود اپنے گھر میں اچھوت بن کر رہ جاتی تھی ۔ یہی رواج یہودیوں کے اثر سے مدینہ کے انصار میں بھی چل پڑا تھا ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ سے اس کے متعلق سوال کیا گیا ۔ جواب میں یہ آیت آئی جو سورہ بقرہ رکوع ۲۸ کے آغاز میں درج ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی رو سے حکم دیا کہ ایام ماہواری میں صرف مباشرت ناجائز ہے ۔ باقی تمام تعلقات عورتوں کے ساتھ اسی طرح رکھے جائیں جس طرح دوسرے دنوں میں ہوتے ہیں ۔ اس پر یہودیوں میں شور مچ گیا ۔ وہ کہنے لگے کہ یہ شخص تو قسم کھا کر بیٹھا ہے کہ جو جو کچھ ہمارے ہاں حرام ہے اسے حلال کر کے رہےگا اور جس جس چیز کو ہم ناپاک کہتے ہیں اسے پاک قرار دے گا ۔