38۔ 1 بخل (یعنی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا) یا خرچ کرنا لیکن ریاکاری یعنی نمود و نمائش کے لئے کرنا۔ یہ دونوں باتیں اللہ کو سخت ناپسند ہیں اور ان کی ندامت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ یہاں قرآن کریم میں ان دونوں باتوں کو کافروں کا شیوا اور ان لوگوں کا وطیرہ بتایا ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور شیطان ان کا ساتھی ہے۔
[٧١] ریاکاری کی وجہ :۔ اس آیت کا تعلق سابقہ مضمون سے بھی ہوسکتا ہے۔ تب اس کا معنیٰ یہ ہوگا کہ ان متکبر اور بڑ مارنے والوں کی دوسری صفت یہ ہے کہ اگر وہ خرچ کرتے بھی ہیں تو محض لوگوں کو دکھاوے کے لیے کرتے ہیں اللہ کی رضامندی کے لیے کرنا پڑے تو بخل کرتے ہیں اور اسے الگ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ پہلی صورت میں اس کا خطاب سب کے لیے عام ہے۔ گویا یہ دو الگ الگ گناہ ہوئے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہو تو بخل سے کام لینا اور کھلے دل سے صرف اس وقت خرچ کرنا جبکہ نمود و نمائش ہی مقصود ہو اور ان دونوں گناہوں کا سبب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا یا تو اللہ پر اور آخرت پر ایمان ہی نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو بہت ہی کمزور ہوتا ہے۔
بخیلوں کی مذمت کے بعد اب ریا کاری سے خرچ کرنے والوں کی مذمت کی جا رہی ہے اور انھیں شیطان کا ساتھی قرار دیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ تین آدمیوں کو سب سے پہلے آگ میں جھونکا جائے گا اور وہ ہیں : 1 ریا کار عالم 2 ریا کار مجاہد 3 اور ریا کار سخی۔ “ [ مسلم، الأمارۃ، باب من قاتل للریاء۔۔ : ١٩٠٥ ]- شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” مال دینے میں بخل کرنا جیسا اللہ کے نزدیک برا ہے ویسا ہی خلق کے دکھانے کو دینا۔ قبول وہ ہے جو ان حق داروں کو دے جن کا پہلے ذکر ہوچکا ہے اور پھر اللہ کے یقین اور آخرت کی توقع سے دے۔ “ (موضح)
والذین ینفقون سے متکرین کی ایک دوسری صفت بتلا دی کہ یہ لوگ اللہ کے راستہ میں خود بھی خرچ نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی بخل کی ترغیب دیتے ہیں، البتہ لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتے رہتے ہیں اور چونکہ یہ لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے، اس لئے اللہ کی رضا اور ثواب آخرت کی نیت سے خرچ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ایسے لوگ تو شیطان کے ساتھی ہیں لہٰذا اس کا انجام بھی وہی ہوگا جو ان کے ساتھی شیطان کا ہوگا۔- اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس طرح حقوق واجبہ میں کوتاہی کرنا بخل کرنا معیوب ہے اسی طرح لوگوں کو دکھانے کے لئے اور بےمقصد مصارف میں خرچ کرنا بھی بہت برا ہے، وہ لوگ جو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں بلکہ لوگوں کے دکھانے کو نیکی کرتے ہیں ان کا وہ عمل عنداللہ مقبول نہیں ہوتا اور حدیث میں اسے شرک قرار دیا گیا ہے۔- ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں شرک سے بالکل بےنیاز ہوں، جو شخص کوئی نیک عمل کرتا ہے اور اس میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو بھی شریک ٹھہراتا ہے تو میں اس عمل کو شرک ہی کے لئے چھوڑ دیتا ہوں اور اس عمل کرنے والے کو بھی چھوڑ دیتا ہوں۔ “- ” شداد بن اوس سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے نماز پڑھی دکھانے کے لئے تو اس نے شرک کیا، جس نے روزہ رکھا دکھانے کے لئے تو اس نے شرک کیا، اور جس نے کوئی صدقہ دیا دکھانے کے لئے تو اس نے شرک کیا۔ “- ” محمود بن لبید (رض) سے روایت ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے متعلق مجھے بہت زیادہ اندیشہ شرک اصغر کا ہے، صحابہ نے پوچھا، شرک اصغر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا، ریا “ (احمد بحوالہ مشکوة)- اور بیہقی کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ قیامت کے دن جب اعمال صالحہ کا ثواب تقسیم ہوگا تو اللہ تعالیٰ ان ریا کرنے والوں سے فرمائیں گے۔- ” ان لوگوں کے پاس چلے جاؤ جن کو دکھانے کے لئے تم دنیا میں نیک عمل کرتے تھے اور دیکھ لو کہ کیا ان کے پاس تمہارے اعمال کا ثواب اور اس کی جزاء ہے۔ “
وَالَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ٠ۭ وَمَنْ يَّكُنِ الشَّيْطٰنُ لَہٗ قَرِيْنًا فَسَاۗءَ قَرِيْنًا ٣٨- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - ریاء - قوله : «لا تَتَرَاءَى نارهما» ومنازلهم رِئَاءٌ ، أي : متقابلة . وفعل ذلک رِئَاءُ الناس، أي : مُرَاءَاةً وتشيّعا . والْمِرْآةُ ما يرى فيه صورة الأشياء، وهي مفعلة من : رأيت، نحو : المصحف من صحفت، وجمعها مَرَائِي، رئائ۔ راء ی یرائی ( باب مفاعلۃ) مراء ۃ ورئاء مصدر ( ر ء ی مادہ) خلاف اصل و خلاف حقیقت دکھانا۔ دکھاوا۔ خود نمائی۔ کسی کو دکھانے کے لئے کسی کام کا کرنا۔ رئاء الناس۔ مضاف مضاف الیہ۔ لوگوں کے دکھاوے کے لئے۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - قرین - الِاقْتِرَانُ کالازدواج في كونه اجتماع شيئين، أو أشياء في معنی من المعاني . قال تعالی: أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف 53] .- يقال : قَرَنْتُ البعیر بالبعیر : جمعت بينهما، ويسمّى الحبل الذي يشدّ به قَرَناً ، وقَرَّنْتُهُ علی التّكثير قال : وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص 38] وفلان قِرْنُ فلان في الولادة، وقَرِينُهُ وقِرْنُهُ في الجلادة «1» ، وفي القوّة، وفي غيرها من الأحوال . قال تعالی: إِنِّي كانَ لِي قَرِينٌ [ الصافات 51] ، وَقالَ قَرِينُهُ هذا ما لَدَيَّ [ ق 23] إشارة إلى شهيده . قالَ قَرِينُهُ رَبَّنا ما أَطْغَيْتُهُ [ ق 27] ، فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ [ الزخرف 36] وجمعه : قُرَنَاءُ. قال : وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت 25] .- ( ق ر ن ) الا قتران ازداواج کی طرح اقتران کے معنی بھی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے کسی معنی میں باہم مجتمع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف 53] یا یہ ہوتا کہ فر شتے جمع کر اس کے ساتھ آتے دو اونٹوں کو ایک رسی کے ساتھ باندھ دینا اور جس رسی کے ساتھ ان کو باندھا جاتا ہے اسے قرن کہا جاتا ہے اور قرنتہ ( تفعیل ) میں مبالغہ کے معنی پائے جاتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص 38] اور اور روں کو بھی جو زنجروں میں جکڑ ی ہوئی تھے ۔ اور آدمی جو دوسرے کا ہم عمر ہو یا بہادری قوت اور دیگر اوصاف میں اس کا ہم پلہ ہوا سے اس کا قرن کہا جاتا ہے اور ہم پلہ یا ہم سر کون قرین بھی کہتے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ فلان قرن فلان او قرینہ فلاں اس کا ہم عمر ہم سر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنِّي كانَ لِي قَرِينٌ [ الصافات 51] کہ میرا ایک ہم نشین تھا ۔ وَقالَ قَرِينُهُ هذا ما لَدَيَّ [ ق 23] اور اس کا ہم نشین ( فرشتہ ) کہے گا یہ ( اعمال مانہ ) میرے پاس تیار ہے ۔ یہاں قرین سے مراد وہ فرشتہ ہے جسے دوسری جگہ شہید ( گواہ ) کہا ہے ۔ قالَ قَرِينُهُ رَبَّنا ما أَطْغَيْتُهُ [ ق 27] ، اس کا ساتھی ( شیطان ) کہے گا کہ اے ہمارے پروردگار میں نے اس کو گمراہ نہیں کیا ۔ فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ [ الزخرف 36] تو وہ اس کا ساتھی ہوجا تا ہے ۔ قرین کی جمع قرنآء ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت 25] اور ہم نے شیبان کو ان کا ہم نشین مقرر کردیا ۔- ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] - ساء - اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔
سخاوت میں ریاکاری کی مذمت - قول باری ہے (والذین ینفقون اموالھم رئاء الناس ولایومنون بااللہ ولابالیوم الاخر ، اور وہ لوگ بھی اللہ کو ناپسند ہیں جو اپنے مال محض لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور درحقیقت نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ روز آخرت پر) ۔- آیت کا مفہوم ۔ واللہ اعلم۔ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے جو خود کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کا حکم دیتے ہیں نیز ان لوگوں کے لیے جو اپنے مال مخصوص لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں ذلت آمیز عذاب تیارکررکھا ہے۔- اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ بندہ جو کام بھی اللہ کی خاطر نہیں کرتا اس میں عبادت کا پہلو نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اس کام پر ثواب کا مستحق قرار پاتا ہے اس لیے کہ بندہ جو کام بھی دکھلاوے کی خاطر کرتا ہے اسمیں اس کا ارادہ دنیاوی معاوضہ حاصل کرنا ہوتا ہے مثلا ، یہ کہ اس کام پر خوبصورت الفاظ میں اس کا تذکرہ کیا جائے تعریفوں کے ڈونگرے برسائے جائیں وغیرہ وغیرہ۔- اس طرح یہ بات اس قاعدے کے لیے اصل اور بنیاد بن گئی کہ ہر وہ کام جس میں دنیاوی معاوضہ مدنظر ہو وہ قربت یعنی عبادت نہیں کہلاسکتا مثلاحج کرنے یا نماز کے لیے کسی کو اجرت پر لینا، اس طرح تمام عبادات کا حکم ہے کہ جب عبادت کرنے والاکسی معاوضے کا مستحق قرار دیاجائے گا، تو وہ عبادت تقرب الٰہی کے دائرے سے خارج ہوجائے گی۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ ان افعال کی ادائیگی کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ انہیں تقرب الٰہی اور اس کی رضاجوئی کی خاطر ادا کیا جائے، اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان عبادات الٰہی پر کسی معاوضے اور اجرت کا استحقاق جائز نہیں اور ان کے لیے مزدوری کے طورپر کسی کو مقرر کرنا باطل ہے۔
(٣٨) اور رؤسا یہود جو دکھاوے کے لیے مال خرچ کرتے ہیں ان کی اصل غرض یہ ہے کہ ان کو ملت ابراہیمی کا پیرو کہا جائے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم موت کے بعد دوبارہ زندگی کے عقیدے اور اہل بہشت کی نعمتوں پر ایمان نہیں رکھتے تو شیطان جس کا دنیا میں مددگار ہو وہ دوزخ میں اس کا برا ساتھی ہے۔