Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ سے کترانے والے بخیل لوگ ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی خوشنودی کے موقعہ پر مال خرچ کرنے سے جی چراتے ہیں مثلاً ماں باپ کو دینا قرابت داروں سے اچھا سلوک نہیں کرتے یتیم مسکین پڑوسی رشتہ دار غیر رشتہ دار پڑوسی ساتھی مسافر غلام اور ماتحت کو ان کی محتاجی کے وقت فی سبیل اللہ نہیں دیتے اتنا ہی نہیں بلکہ لوگوں کو بھی بخل اور فی سبیل اللہ خرچ نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے کونسی بیماری بخل کی بیماری سے بڑ ھ کر ہے؟ اور حدیث میں ہے لوگو بخیلی سے بچو اسی نے تم سے اگلوں کو تاخت و تاراج کیا اسی کے باعث ان سے قطع رحمی اور فسق و فجور جیسے برے کام نمایاں ہوئے پھر فرمایا یہ لوگ ان دونوں برائیوں کے ساتھ ہی ساتھ ایک تیسری برائی کے بھی مرتکب ہیں یعنی اللہ کی نعمتوں کو چھپاتے ہیں انہیں ظاہر نہیں کرتے نہ ان کے کھانے پینے میں وہ ظاہر ہوتی ہیں نہ پہننے اوڑھنے میں نہ دینے لینے میں جیسے اور جگہ ہے ( اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْدٌ Č۝ۚ وَاِنَّهٗ عَلٰي ذٰلِكَ لَشَهِيْدٌ Ċ۝ۚ ) 100 ۔ العادیات:6-7 ) یعنی انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے اور وہ خود ہی اپنی اس حالت اور اس خصلت پر گواہ ہے پھر ( وَاِنَّهٗ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ Ď۝ۭ ) 100 ۔ العادیات:8 ) وہ مال کی محبت میں مست ہے ، پس یہاں بھی فرمان ہے کہ اللہ کے فضل کو یہ چھپاتا رہتا ہے پھر انہیں دھمکایا جاتا ہے کہ کافروں کے لئے ہم نے اہانت آمیز عذاب تیار کر رکھے ہیں ، کفر کے معنی ہیں پوشیدہ رکھنا اور چھپالینا پس بخیل بھی اللہ کی نعمتوں کا چھپانے والا ان پر پردہ ڈال رکھنے والا بلکہ ان کا انکار کرنے والے قرار دیا ہے پس وہ نعمتوں کا کافر ہوا ، حدیث میں ہے اللہ جب کسی بندے پر اپنی نعمت انعام فرماتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کا اثر اس پر ظاہر ہو ، دعا نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے ( حدیث واجعلنا شاکرین لنعمتکم رحمتہ اللہ علیہ مثنین بھا علیک قابلیھاواتھما علینا ) اے اللہ ہمیں اپنی نعمتوں پر شکر گزار بنا اور ان کی وجہ سے ہمیں اپنا ثنا خوان بنا ان کا قبول کرنے والا بنا اور ان کی نعمتوں کو ہمیں بھرپور عطا فرما ، بعض سلف کا قول ہے کہ یہ آیت یہودیوں کے اس بخل کے بارے میں ہے جو وہ اپنی کتاب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کے چھپانے میں کرتے تھے اسی لئے اس کے آخر میں ہے کہ کافروں کے لئے ذلت آمیز عذاب ہم نے تیار کر رکھے ہیں ۔ کوئی شک نہیں کہ اس آیت کا اطلاق ان پر بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ بظاہر یہاں مال کا بخل بیان ہو رہا ہے گو علم کا بخل بھی اس میں بطور اولیٰ داخل ہے ۔ خیال کیجئے کہ بیان آیت اقرباضعفا کو مال دینے کے بارے میں ہے اسی طرح اس کے بعد والی آیت میں ریاکاری کے طور پر فی سبیل اللہ مال دینے کی مذمت بھی بیان کی جا رہی ہے ۔ پہلے ان کا بیان ہوا جو ممسک اور بخیل ہیں کوڑی کوڑی کو دانتوں سے تھام رکھتے ہیں پھر ان کا بیان ہوا جو دیتے تو ہیں لیکن بد نیتی اور دنیا میں اپنی واہ واہ ہونے کی خاطر دیتے ہیں چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ جن تین قسم کے لوگوں سے جہنم کی آگ سلگائی جائے گی وہ یہی ریاکار ہوں گے ریاکار عالم ریاکار غازی ، ریا کار سخی ایسا سخی کہے گا باری تعالیٰ تیری ہر ہر راہ میں میں نے اپنا مال خرچ کیا تو اسے اللہ تعالیٰ کی جناب سے جواب ملے گا کہ تو جھوٹا ہے تیرا ارادہ تو صرف یہ تھا کہ تو سخی اور جواد مشہور ہو جائے سو وہ ہو چکا یعنی تیرا مقصود دنیا کی شہرت تھی وہ میں نے تجھے دنیا میں ہی دے چکا پس تیری مراد حاصل ہو چکی اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ تیرے باپ نے اپنی سخاوت سے جو چاہتا تھا وہ اسے مل گیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ عبداللہ بن جدعان تو بڑا سخی تھا جس نے مساکین وفقراء کے ساتھ بڑے سلوک کئے اور نام الہ بہت سے غلام آزاد کئے تو کیا اسے ان کا نفع نہ ملے گا ؟ آپ نے فرمایا نہیں اس سے تو عمر بھر میں ایک دن بھی نہ کہا کہ اے اللہ میرے گناہوں کو قیامت کے دن معاف فرما دینا ۔ اسی لئے یہاں بھی فرماتا ہے کہ ان کا ایمان اللہ اور قیامت پر نہیں ۔ ورنہ شیطان کے پھندے میں نہ پھنس جاتے اور بد کو بھلا نہ سمجھ بیٹھتے یہ شیطان کے ساتھی ہیں اور شیطان ان کا ساتھی ہے ساتھی کی برائی پر ان کی برائی بھی سوچ لو عرب شاعر کہتا ہے عن المرء لا تسال وسل عن قرینہ فکل قرین بالمقارن یقتدی انسان کے بارے میں نہ پوچھ اس کے ساتھیوں کا حال دریافت کر لے ۔ ہر ساتھی اپنے ساتھی کا ہی پیرو کار ہوتا ہے پھر ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں اللہ پر ایمان لانے اور صحیح راہ پر چلنے اور ریاکاری کو چھوڑ دینے اور اخلاص و یقین پر قائم ہو جانے سے کونسی چیز مانع ہے؟ ان کا اس میں کیا نقصان ہے؟ بلکہ سرا سر فائدہ ہے کہ ان کی عاقبت سنور جائے گی یہ کیوں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے تنگ دلی کر رہے ہیں اللہ کی محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ اللہ انہیں خوب جانتا ہے ان کی بھلی اور بری نیتوں کا اسے علم ہے اہل توفیق اور غیر اہل توفیق سب اس پر ظاہر ہیں وہ بھلوں کو عمل صالح کی توفیق عطا فرما کر اپنی خوشنودی کے کام ان سے لے کر اپنی قربت انہیں عطا فرماتا ہے اور بروں کو اپنی عالی جناب اور زبردست سرکاری سے دھکیل دیتا ہے جس سے ان کی دنیا اور آخرت برباد ہوتی ہے ، عیاذ اباللہ من ذالک

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٠] ایسے بڑ مارنے والوں کی ایک صفت یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کر رکھا ہے، اسے چھپاتے ہیں۔ اس عطیہ الہی سے مراد علم بھی ہوسکتا ہے اور دولت بھی۔ یہ آیت اگرچہ یہود کے حق میں نازل ہوئی ہے جو ہر اس آیت کو چھپانے کی کوشش کرتے تھے جو ان کی اپنی وضع کردہ شریعت یا ان کے مذہب کے خلاف ہوتی تھی۔ اور سودخوری اور حرام خوری کی وجہ سے بخل بھی ان کی رگ رگ میں سرایت کرچکا تھا۔ تاہم اس آیت کا حکم عام ہے اور مسلمانوں پر بھی لاگو ہے۔ مسلمانوں میں سے ہر فرقہ ہر اس آیت یا حدیث کو اپنے پیرو کاروں سے چھپانے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے مسلک و مذہب کے خلاف جاتی ہو۔ الاماشاء اللہ۔- بخل کی مذمت :۔ مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں اللہ نے بہت کچھ مال و دولت دے رکھا ہے۔ لیکن وہ اپنی حیثیت کے مطابق نہ اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں نہ اہل و عیال پر نہ اللہ کی راہ میں اس کے حکم کے مطابق خرچ کرتے ہیں اور نہ ہی اقرباء کی امداد کرتے ہیں۔ اور اپنی حیثیت سے گر کر خستہ حالی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ انتہا درجہ کا بخل دراصل اللہ کی نعمتوں کی ناشکری ہے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اللہ جب کسی بندے کو نعمت عطا کرتا ہے تو وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کا اثر بندے پر ظاہر ہو۔ یعنی اس کی طرز بود و باش، لباس، خوراک اور صدقہ و خیرات غرض ہر چیز سے اللہ کی دی ہوئی نعمت کا اظہار ہوتا رہے اسی لیے ان ہر دو قسم کے بخل کو ناشکری یا کفر سے تعبیر کیا گیا اور بتایا گیا ہے کہ انہیں ذلت کا عذاب ہوگا۔- اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں اور مال و دولت کو دوسروں سے چھپانے کا مرض اس قدر عام ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو نہ اپنے پورے ذرائع آمدنی بتاتا ہے اور نہ آمدنی۔ اور یہ بات پردہ راز میں رہتی ہے کہ کسی کے پاس کیا کچھ موجود ہے۔ موجودہ دور میں بنک بھی اس معاملہ اخفاء میں اپنے کھاتہ داروں کی پوری پوری امداد کرتے ہیں۔ ان کے پاس لوگوں کی جو رقوم جمع ہوتی ہیں ان کو صیغہ راز میں رکھنا بنکوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ کوئی بھی شخص کسی دوسرے کا بنک بیلنس معلوم نہیں کرسکتا اور نہ ہی بنک والے اسے بتاتے ہیں۔ الا یہ کہ کھاتہ دار خود کسی کو تحریری طور پر بنک بیلنس معلوم کرنے کا اختیار دے دے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اس آیت میں بخل کی مذمت کی گئی ہے اور بخیل کے لیے کافر کا لفظ استعمال کیا ہے، کیونکہ کافر کا معنی چھپانے والا ہے اور بخیل بھی اللہ کی نعمت کو چھپانے والا ہوتا ہے۔ بعض سلف نے اس آیت میں بخل کے لفظ کو یہودیوں کے بخل پر محمول کیا ہے، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات اور علامات کو لوگوں سے چھپاتے تھے۔ غرض بخل مال کا ہو یا علم کا شدید مذموم ہے۔ (ابن کثیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس کے بعد الذین یبخلون میں بیان ہے کہ جو لوگ متکبرین ہوتے ہیں وہ حقوق واجبہ میں بھی بخل کرتے ہیں اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھتے اور دوسروں کو بھی اپنے قول و عمل سے اس بری صفت کو اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔- آپ میں بخل کا لفظ آیا ہے، جس کا اطلاق عرف عام میں حقوق مالیہ کے اندر کوتاہی کرنے پر ہوتا ہے، لیکن آیت کے شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بخل کا لفظ عام معنی میں استعمال کیا گیا ہے، جو بخل بالمال اور بخل بالعلم دونوں کو شامل ہے۔- حضرت ابن عباس (رض) کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت یہود مدینہ کے حق میں نازل ہوئی تھی، یہ لوگ بہت زیادہ مغرور تھے، انتہاء درجہ کے کنجوس تھے، مال خرچ کرنے میں بھی بخل کرتے تھے اور اس علم کو بھی چھپاتے تھے جو انہیں اپنی الہامی کتابوں سے حاصل ہوا تھا، ان کتابوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی بشارت تھی اور آپ کی علامات کا بھی ذکر تھا، لیکن یہود نے ان سب کا یقین کرلینے کے بعد بھی بخل سے کام لیا، نہ خود اس علم کے تقاضے پر عمل کیا اور نہ دوسروں کو بتلایا کہ وہ عمل کرتے۔- آگے فرمایا کہ ایسے لوگ جو اللہ کے دیئے ہوئے مال و دولت میں بھی بخل کرتے ہیں اور علم و ایمان کے معاملہ میں بھی بخیل ہیں، ایسے لوگ نعمت خداوندی کے ناسپاس ہیں اور ان کے لئے اہانت آمیز عذاب تیار کرلیا گیا۔- اتفاق کی فضیلت اور بخل کی مذمت کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔- ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر صبح کے وقت دو فرشتے نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک یہ کہتا ہے اے اللہ بھلائی کے راستہ میں خرچ کرنے والے کو اچھا عوض عطا فرما، اور دوسرا کہتا ہے اے اللہ بخیل کو (مال و دولت کی) تباہی سے ہمکنار کر۔ “- ” حضرت اسماء (رض) سے روایت ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے اسماء خیر کے راستہ میں خرچ کیا کرو اور گن گن کر نہ دے ورنہ اللہ بھی تمہارے حق میں گننا شروع کر دے گا اور انفاق سے بچنے کے لئے بہت زیادہ حفاظت نہ برتو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی حفاظت کرنا شروع کر دے گا اور کم از کم جو تجھ سے ہو سکے اس کے دینے سے دریغ نہ کرو۔ “- حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سخی اللہ سے بھی قریب ہے جنت سے بھی قریب ہے اور لوگوں کی نظروں میں بھی پسندیدہ ہے، اور جہنم کی آگ سے دور ہے اور بخیل اللہ سے بھی دور ہے جنت سے بھی دور ہے لوگوں سے بھی دور ہے اور آگ سے قریب ہے اور جاہل آدمی جو سخاوت کرتا ہو (اور فرائض کو ادا کرنے اور محرمات سے بچنے کا اہتمام کرتا ہو) اس کنجوس سے بہتر ہے جو عبادت گذار ہو۔ “- ” حضرت ابو سعید (رض) سے روایت ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو عادتیں کسی مومن میں جمع نہیں ہوتیں، بخل اور بد اخلاقی۔ “

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ وَيَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُوْنَ مَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ۝ ٠ۭ وَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا مُّہِيْنًا۝ ٣٧ۚ- بخل - البُخْلُ : إمساک المقتنیات عمّا لا يحق حبسها عنه، ويقابله الجود، يقال : بَخِلَ فهو بَاخِلٌ ، وأمّا البَخِيل فالذي يكثر منه البخل، کالرحیم من الراحم .- والبُخْلُ ضربان : بخل بقنیات نفسه، وبخل بقنیات غيره، وهو أكثرها ذمّا، دلیلنا علی ذلک قوله تعالی: الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ [ النساء 37] .- ( ب خ ل ) البخل ( دس ) اپنے جمع کردہ ذخائر کو ان جگہوں سے روک لینا جہاں پر خرچ کرنے سے اسے روکنا نہیں چاہیئے ۔ اس کے بالمقابل الجواد ہے بخل اس نے بخیل کیا باخل ۔ بخل کرنے والا ۔ البخیل ( صیغہ مبالغہ ) جو بہت زیادہ بخل سے کام لیتا ہو جیسا کہ الراحم ( مہربان ) سے الرحیم مبالغہ کے لئے آتا جاتا ہے ۔ البخیل ۔ دو قسم پر ہے ایک یہ ہے کہ انسان اپنی چیزوں کو خرچ کرنے سے روک لے اور دوم یہ کہ دوسروں کو بھی خرچ کرنے سے منع کرے یہ پہلی قسم سے بدتر ہے جیسے فرمایا : الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ ( سورة النساء 37) یعنی جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل کی تعلیم دیں ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - كتم - الْكِتْمَانُ : ستر الحدیث، يقال : كَتَمْتُهُ كَتْماً وكِتْمَاناً. قال تعالی: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] ، - ( ک ت م ) کتمہ ( ن ) کتما وکتما نا کے معنی کوئی بات چھپانا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس کتاب اللہ میں موجود ہے چھپائے - إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - عد ( اعداد)- والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی:- وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ- [ البقرة 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه .- ( ع د د ) العدد - الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- هين - الْهَوَانُ علی وجهين :- أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن»- الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ بهفيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ- [ الروم 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل .- ( ھ و ن ) الھوان - اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے المؤمن هَيِّنٌ ليّن» کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کر اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] تو۔ کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے ولاا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] کہ یہ مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ قاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

بخل کی مذمت - قول باری ہے (الذین یبخلون ویامرون الناس بالبخل ویکتمون مااتاھم اللہ من فضلہ، اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اور اسے چھپاتے ہیں۔ بخل کے معنی کے بارے میں ایک قول ہے کہ کسی کو کچھ دینے کی مشقت اور بوجھ کا نام بخل ہے ایک قول یہ ہے کہ ایسی چیز کونہ دینے کا نام بخل ہے جس کے نہ دینے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا اور دے دینے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا، ایک اور قول ہے کہ جس چیز کا دینا واجب ہوا اسے نہ دینا بخل کہلاتا ہے اس کا مترادف لفظ شح اور متضاد وجود ہے۔- شرعیت میں استعمال ہونے والے اسماء میں اس لفظ کی شمولیت کی بنا پر اس کے جو معنی سمجھے گئے ہیں وہ واجب شی کونہ دینے اور روکنے کے ہیں ایک قول ہے کہ شریعت میں اس لفظ کا اطلاق صرف اس جہت سے درست ہے کہ اس کے مرتکب نے اپناہاتھ روک کر اورواجب ہونے والی چیز نہ دے کر بہت بڑا گناہ کیا ہے۔- ارشاد باری ہے ، (ولایحسبن الذین یبخلون بمااتاھم اللہ من فضلہ ھو خیرالھم بل ھو شرلھم، جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے اور پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس خیال میں نہ رہیں کہ یہ بخیلی ان کے لیے اچھی ہے ، نہیں، یہ ان کے حق میں نہایت بری ہے ، پھر فرمایا (سیطوفون مابخلوا بہ یوم القیامۃ، جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کررہے ہیں وہی قیامت کے روزان کے گلے کا طوق بن جائے گا) اللہ تعالیٰ نے اس وعید کا ان لوگوں پر اطلاق کیا ہے جو اللہ کے اس حق کی ادائیگی میں کنجوسی سے کام لیتے ہیں ، جو اس نے ان کے مال میں واجب کردیا ہے ، قول باری (ویکتمون مااتاھم اللہ من فضلہ) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس ، مجاہد اور سدی سے مروی ہے کہ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ انہوں نے اللہ کے عطا کردہ رزق میں بخل کیا تھا اور حضور کی جن نشانیوں اور خصوصیات کا انہیں علم دیا گیا تھا اسے وہ چھپاگئے تھے۔- ایک قول ہے آیت کے مصداق وہ لوگ ہیں جن کے اندر یہ صفت پائی جاتی ہو اور وہ لوگ بھی اس کے مصداق ہیں جو اللہ کی نعمتوں کو چھپاجائیں اور ان کا انکار کربیٹھیں، یہ چیز اللہ کے ساتھ کفر کرنے کے مترادف ہے ۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اللہ کے انعامات کا اعتراف واجب ہے اور ان کا جھٹلانے والاکافر ہے کفر کے اصل معنی اللہ کے انعامات پر پردہ ڈالنے انہیں چھپاجانے اور جھٹلانے کے ہیں یہ بات ا سپردلالت کرتی ہے کہ انسان کے لیے اس پر ہونے والے انعامات ربانی کو بیان کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں فخر کا پہلو نہ ہو بلکہ منعم کی نعمت کے اعتراف اور اس کے شکر کا پہلو ہو۔- یہ بات اس قول باری کی طرح ہے ، (وامابنعمۃ ربک فحدث) اور اپنے رب کی نعمت کو بیان کر) حضور کا ارشاد ہے ، میں اولاد آدم کا سردار ہوں لیکن میں اس پر فخر نہیں کرتا، اور میں عربوں میں سب سے بڑھ کر فیصیح ہوں لیکن اس پر فخر نہیں کرتا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرماکر آپ پر ہونے والے انعامات ربانی کی خبر دی ہے اور یہ واضح فرمادیا کہ آپ ان انعامات کا ذکر اظہار فخر کے طور پر نہیں کررہے ہیں آپ کا ارشاد ہے ، کس بندے کے لیے مناسب نہیں ہے یہ کہنا کہ میں یونس بن متی سے بہترہوں) حضور اگرچہ حضرت یونس بن متی (علیہ السلام) سے بہتر تھے لیکن آپ نے اظہار فخر کے طور پر ایساکہنے سے منع فرمادیا۔- قول باری ہے (فلاتزکوانفسکم ھواعلم بمن اتقی، تم اپنے آپ کو مقدس نہ سمجھو، تقوی والوں کو وہی خوب جانتا ہے ) حضور سے مروی ہے کہ آپ نے ایک شخص کو کسی کی تعریف کرتے ہوئے سنا اپ نے فرمایا، لوسمعک لقطعت ظھرہ، اگر وہ شخص تمہاری بات سن لیتاتوتم ان تعریفی الفاظ کے بوجھ سے اس کی پشت توڑ کر رکھ دیتے۔- حضرت مقداد نے ایک شخص کو حضرت عثمان کے منہ پر ان کی تعریفیں کرتے ہوئے سنا توفورامٹی لے کر اس کے منہ پردے ماری اور فرمایا کہ میں نے حضور کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم تعریفوں کے پل باندھنے والوں کو دیکھو تو ان کے منہ پر مٹی ڈالو، یہ بھی روایت ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کی مدح سرائی سے پرہیزکرو کیونکہ یہ بات ذبح کردینے کے مترادف ہے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ خود ستائی کی یہ تمام روایتیں اس صورت پر محمول ہیں جبکہ اظہار فخر کے طورپر کی جائیں لیکن اگر اللہ کے انعامات کا ذکر تحدیث نعمت کے طور پر کوئی شخص کرے یا اس کے سامنے کوئی دوسرا شخص ان کا تذکرہ کرے تو خدا کی ذات سے یہی امید ہے کہ اس سے نقصان نہیں ہوگا، تاہم انسان کے قلب کے لیے سب سے بڑھ کر مفید بات یہی ہے کہ وہ لوگوں کی زبان سے اپنی تعریفیں سن کر دھوکے میں نہ پڑے اور نہ ہی ان تعریفوں کو کوئی اہمیت ہی دے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٧) اور جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت کو چھپاتے ہیں جیسا کہ کعب اور اس کے ساتھی اور دوسروں کو بھی اس کے چھپانے کا حکم دیتے ہیں، اس کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت ان کی کتاب توریت میں بیان کردی ہے، ایسے یہودیوں کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔- شان نزول : (آیت) ” والذین یبخلون “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے سعید بن جبیر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ علماء یہود اپنے علم میں بخل کرتے تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ جو لوگ بخل کرتے ہیں۔ (الخ) ۔- اور ابن جریر (رح) نے بواسطہ ابن اسحاق (رح) محمد بن ابی محمد (رح) ، عکرمہ (رح) یا سعید ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ کروم زید کعب بن اشرف کا دوست، اسامتہ بن حبیب، نافع بن ابی نافع، بحری بن عمرو، حی بن اخطب، رفاعۃ بن زید تابوت، یہ لوگ کچھ انصاری حضرات کو نصیحت کرنے لیے آیا کرتے تھے اور ان سے کہتے کہ اپنے اموال کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہنے پر اللہ کے راستے میں خرچ مت کرو، کیونکہ ہمیں تم پر فاقہ اور تمہارے مالوں کے ختم ہوجانے کا ڈر ہے اور صدقہ و خیرات میں جلدی بھی مت کرو کیونکہ کہ کل کی کیا خبر، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ (نِ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَیَاْمُرُوْنَ النَّاس بالْبُخْلِ ) ّجن میں یہ شیخی خوری اور اکڑ ہوتی ہے پھر وہ بخیل بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ غرور و تکبرعام طور پر دولت کی بنا پر ہوتا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ہمارے پاس جو دولت ہے اگر یہ خرچ ہوگئی تو ہمارا وہ مقام نہیں رہے گا ‘ لوگوں کی نظروں میں ہماری عزت نہیں رہے گی۔ لہٰذا وہ اپنا مال خرچ کرنے میں کنجوسی سے کام لیتے ہیں۔ اس پر انہیں یہ اندیشہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ ہمیں ملامت کریں گے کہ تم بڑے بخیل ہو ‘ چناچہ وہ خود لوگوں کو اس طرح کے مشورے دینے لگتے ہیں کہ بابا اس طرح کھلا خرچ نہ کیا کرو ‘ تم خواہ مخواہ پیسے اڑاتے ہو ‘ عقل کے ناخن لو ‘ کچھ نہ کچھ بچا کے رکھا کرو ‘ وقت پر کام آئے گا۔ اس طرح وہ لوگوں کو بھی بخل ہی کا مشورہ دیتے ہیں۔ - (وَیَکْتُمُوْنَ مَآاٰتٰٹہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ط) ۔- اپنی دولت کو چھپا چھپا کر رکھتے ہیں۔ انہیں یہ اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ دولت ظاہر ہوگی تو کوئی سائل سوال کر بیٹھے گا۔ لہٰذا خود ہی مسکین صورت بنائے رکھتے ہیں کہ کوئی ان کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :63 اللہ کے فضل کو چھپانا یہ ہے کہ آدمی اس طرح رہے گویا کہ اللہ نے اس پر فضل نہیں کیا ہے ۔ مثلاً کسی کو اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اپنی حیثیت سے گر کر رہے ۔ نہ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے ، نہ بندگان خدا کی مدد کرے ، نہ نیک کاموں میں حصہ لے ۔ لوگ دیکھیں تو سمجھیں کہ بیچارہ بڑا ہی خستہ حال ہے ۔ یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی سخت ناشکری ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انّ اللہ اذا انعم نعمة علی عبد احبّ ان یظھر اثرھا علیہ ، اللہ جب کسی بندے کو نعمت دیتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کا اثر بندے پر ظاہر ہو ۔ یعنی اس کے کھانے پینے ، رہنے سہنے ، لباس اور مسکن ، اور اس کی داد و دہش ، ہر چیز سے اللہ کی دی ہوئی اس نعمت کا اظہار ہوتا رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani