Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حقوق العباد اور حقوق اللہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی عبادت کا حکم دیتا ہے اور اپنی توحید کے ماننے کو فرماتا ہے اور اپنے ساتھ کسی کو شریک کرنے سے روکتا ہے اس لئے کہ جب خالق رزاق نعمتیں دینے والا تمام مخلوق پر ہر وقت اور ہر حال میں انعام کی بارش برسانے والا صرف وہی ہے تو لائق عبادت بھی صرف وہی ہوا ۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت زیادہ جاننے والے ہیں آپ نے فرمایا یہ کہ وہ اسی کی عبادت کریں اسی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں پھر فرمایا جانتے ہو جب بندے یہ کریں تو ان کا حق اللہ تعالیٰ کے ذمہ کیا ہے ؟ یہ کہ انہیں وہ عذاب نہ کرے ، پھر فرماتا ہے ماں باپ کے ساتھ احسان کرتے رہو وہی تمہارے عدم سے وجود میں آنے کا سبب بنے ہیں ۔ قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی عبادت کے ساتھ ہی ماں باپ سے سلوک و احسان کرنے کا حکم دیا ہے جیسے فرمایا ( اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ) 31 ۔ لقمان:14 ) اور ( وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ) 17 ۔ الاسراء:23 ) یہاں بھی یہ بیان فرما کر پھر حکم دیتا ہے کہ اپنے رشتہ داروں سے بھی سلوک و احسان کرتے رہو ۔ حدیث میں ہے مسکین اور صدقہ دینا اور صلہ رحمی کرنا بھی ، اسی حسن سلوک کی شاخ ہے پھر حکم ہوتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ بھی سلوک و احسان کرو اس لئے کہ ان کی خبر گیری کرنے والا ان کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرنے والا ان کے ناز ، لاڈ اٹھانے والا نہیں محبت کے ساتھ کھلانے پلانے والا ان کے سر سے اٹھ گیا ہے ۔ پھر مسکینوں کے ساتھ نیکی کرنے کا ارشاد کیا کہ وہ حاجت مند ہے ہاتھ میں محتاج ہیں ان کی ضرورتیں تم پوری کرو ان کی احتیاج تم رفع کرو ان کے کام تم کر دیا کرو ۔ فقیرو مسکین کا پورا بیان سورۃ براۃ کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ پڑوسیوں کے حقوق اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو ان ان کے ساتھ بھی برتاؤ اور نیک سلوک رکھو خواہ وہ قرابت دار ہوں یا نہ ہو ، خواہ مسلمان یا یہودو نصرانی ہوں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جارذی القربی سے مراد بیوی ہے اور جار الجنت سے مراد مرد رفیق سفر ہے ، پڑوسیوں کے حق میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں کچھ سن لیجئے ۔ مسند احمد میں بیان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں مجھے حضرت جبرائیل پڑوسیوں کے بارے میں یہاں تک وصیت و نصیحت کرتے ہیں کہ مجھے گمان ہوا کہ شاید یہ پڑوسیوں کو وارث بنا دیں گے ، فرماتے ہیں بہتر ساتھی اللہ کے نزدیک وہ ہے جو اپنے ہمراہیوں کے ساتھ خوش سلوک زیادہ ہو اور پڑوسیوں کو وارث بنا دیں گے ، فرماتے ہیں بہتر ساتھی اللہ کے نزدیک وہ ہے جو ہمسایوں سے نیک سلوک میں زیادہ ہو ، فرماتے ہیں انسان جو نہ چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی آسودگی بغیر خود شکم سیر ہو جائے ۔ ایک مرتبہ آپ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کیا زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ لوگوں نے کہا وہ حرام ہے اللہ نے اور اس کے رسول سے اسے حرام کیا ہے اور قیامت تک وہ حرام ہی رہے گا ، آپ نے فرمایا سنو دس عورتوں سے زناکاری کرنے والا اس شخص کے گناہ سے کم گنہگار ہے جو اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرے پھر دریافت فرمایا تم چوری کی نسبت کیا کہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ اسے بھی اللہ تعالیٰ نے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرام کیا ہے اور وہ بھی قیامت تک حرام ہے آپ نے فرمایا سنو دس گھروں سے چوری کرنے والے گناہ کا اس شخص کے گناہ سے ہلکا ہے جو اپنے پڑوسی کے گھر سے کچھ چرائے ، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہا سوال کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ کہ تو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے حالانکہ اسی ایک نے تجھے پیدا کیا ہے میں نے پوچھا پھر کونسا ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی پڑوسن سے زناکاری کرے ۔ ایک انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے گھر سے چلا وہاں پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ ایک صاحب کھڑے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہیں میں نے خیال کیا کہ شاید انہیں آپ سے کچھ کام ہو گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہیں اور ان سے باتیں ہو رہی ہیں بڑی دیر ہو گئی یہاں تک کہ مجھے آپ کے تھک جانے کے خیال نے بےچین کر دیا بہت دیر کے بعد آپ لوٹے اور میرے پاس آئے میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم نے انہیں دیکھا میں نے کہا ہاں خوب اچھی طرح دیکھا فرمایا جانتے ہو وہ کون تھے؟ وہ جبرائیل علیہ السلام تھے مجھے پڑوسیوں کے حقوق کی تاکید کرتے رہے یہاں تک ان کے حقوق بیان کئے کہ مجھے کھٹکا ہوا کہ غالباً آج تو پڑوسی کو وارث ٹھہرا دیں گے ( مسند احمد ) مسند عبد بن حمید میں ہے حضرت جابر بن عبداللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک شخص عوالی مدینہ سے آیا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام اس جگہ نماز پڑھ رہے تھے جہاں جنازوں کی نماز پڑھی جاتی ہے جب آپ فارغ ہوئے تو اس شخص نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہ دوسرا شخص کون نماز پڑھ رہا تھا آپ نے فرمایا تم نے انہیں دیکھا ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا تو نے بہت بڑی بھلائی دیکھی یہ جبرائیل تھے مجھے پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ عنقریب اسے وارث بنا دیں گے آٹھویں حدیث بزار میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پڑوسی تین قسم کے ہیں ایک حق والے یعنی ادنی ، دو حق والے اور تین حق والے یعنی اعلیٰ ، ایک حق والا وہ ہے جو مشرک ہو اور اس سے رشتہ داری نہ ہو ، دو حق والا وہ ہے جو مسلمان ہو اور رشتہ دار نہ ہو ، ایک حق اسلام دوسرا حق پڑوس ، تین حق والا وہ ہے جو مسلمان بھی ہو پڑوسی بھی ہو اور رشتے ناتے کا بھی ہو تو حق اسلام کا حق ہمسائیگی حق صلہ رحمی تین تین حق اس کے ہوگئے ۔ حدیث مسند احمد میں ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ میرے دو پڑوسی ہیں میں ایک کو ہدیہ بھیجنا چاہتی ہوں تو کسے بھیجواؤں؟ آپ نے فرمایا جس کا دروازہ قریب ہو ۔ دسویں حدیث طبرانی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا لوگوں نے آپ کے وضو کے پانی کو لینا اور ملنا شروع کیا آپ نے پوچھا ایسا کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں آپ نے فرمایا جسے یہ خوش لگے کہ اللہ اور اس اس کا رسول اس سے محبت کریں تو اسے چاہئے کہ جب بات کرے سچ کرے اور جب امانت دیا جائے تو ادا کرے ۔ ( تفسیر ابن کثیر میں یہ حدیث یہیں پر ختم ہے لیکن شاید اگلا جملہ اس کا سہوا رہ گیا ہے جس کا صحیح تعلق اس مسئلہ سے ہے وہ یہ کہ اسے چاہیے پڑوسی کے ساتھ سلوک و احسان کرے ۔ مترجم ) گیارھویں حدیث مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جو جھگڑا اللہ کے سامنے پیش ہو گا وہ دو پڑوسیوں کا ہو گا ۔ پھر حکم ہوتا ہے صاحب بالجنت کے ساتھ سلوک کرنے کا ۔ اس سے مراد بہت سے مفسرین کے نزدیک عورت ہے اور بہت سے فرماتے ہیں مراد سفر کا ساتھی ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد دوست اور ساتھی ہے عام اس سے کہ سفر میں وہ یا قیام کی حالت میں ابن سبیل سے مراد مہمان ہے اور یہ بھی جو سفر میں کہیں ٹھہر گیا ہو اگر مہمان بھی یہاں مراد لی جائے کہ سفر میں جاتے جاتے مہمان بنا تو دونوں ایک ہوگئے ، اس کا پورا بیان سورۃ براۃ کی تفسیر میں آ رہا ہے انشاء اللہ تعالی ۔ غلاموں کے بارے میں احکامات پھر غلاموں کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ بھی نیک سلوک رکھو اس لئے کہ وہ غریب تمہارے ہاتھوں اسیر ہے اس پر تو تمہارا کامل اختیار ہے تو تمہیں چاہیے کہ اس پر رحم کھاؤ اور اس کی ضرورت کا اپنے امکان بھر خیال رکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اپنے آخری مرض الموت میں بھی اپنی امت کو اس کی وصیت فرما گئے فرماتے ہیں لوگو نماز کا اور غلاموں کا خوب خیال رکھنا بار بار اسی کو فرماتے رہے یہاں تک کہ زبان رکنے لگی مسند کی حدیث میں ہے آپ فرماتے ہیں تو جو خود کھائے وہ بھی صدقہ ہے جو اپنے بچوں کو کھلائے وہ بھی صدقہ ہے جو اپنی بیوی کھلائے وہ بھی صدقہ ہے جو اپنے خادم کو کھلائے وہ بھی صدقہ ہے مسلم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مرتبہ دراوغہ سے فرمایا کہ کیا غلاموں کو تم نے ان کی خوراک دے دی ؟ اس نے کہا اب تک نہیں دی فرمایا جاؤ دے کر آؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے انسان کو یہی گناہ کافی ہے کہ جن کی خوراک کا وہ مالک ہے ان سے روک رکھے ، مسلم میں ہے مملوکہ ماتحت کا حق ہے کہ اسے کھلایا پلایا پہنایا اڑھایا جائے اور اس کی طاقت سے زیادہ کام اس سے نہ لیا جائے ، بخاری شریف میں ہے جب تم میں سے کسی کا خادم اس کا کھانا لے کر آئے تو تمہیں چاہیے کہ اگر ساتھ بٹھا کر نہیں کھلاتے تو کم از کم اسے لقمہ دو لقمہ دے دو خیال کرو کہ اس نے پکانے کی گرمی اور تکلیف اٹھائی ہے اور روایت میں ہے کہ چاہیے تو یہ کہ اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھلائے اور اگر کھانا کم ہو تو لقمہ دو لقمے ہی دے دیا کرو ، آپ فرماتے ہیں تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ماتحت کر دیا ہے پس جس کے ہاتھ تلے اس کا بھائی ہو اسے اپنے کھانے سے کھلائے اور اپنے پہننے میں سے پہنائے اور ایسا کام نہ کرے کہ وہ عاجز ہو جائے اگر کوئی ایسا ہی مشکل کام آ پڑے تو خود بھی اس کا ساتھ دے ( بخاری مسلم ) پھر فرمایا کہ خودبین ، معجب ، متکبر ، خود پسند ، لوگوں پر اپنی فوقیت جتانے والا ، اپنے آپ کو تولنے والا اپنے تیئں دوسروں سے بہتر جاننے والا اللہ کا پسندیدہ بندہ نہیں ، وہ گو اپنے آپکو بڑا سمجھے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ذلیل ہے لوگوں کی نظروں میں وہ حقیر ہے بھلا کتنا اندھیر ہے کہ خود تو اگر کسی سے سلوک کرے تو اپنا احسان اس پر رکھے لیکن رب کی نعمتوں کا جو اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھی ہیں شکر بجا نہ لائے لوگوں میں بیٹھ کر فخر کرے کہ میں اتنا بڑا آدمی ہوں میرے پاس یہ بھی ہے اور وہ بھی ہے حضرت ابو رجاہروی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہربدخلق متکبر اور خود پسند ہوتا ہے پھر اسی آیت کو تلاوت کیا اور فرمایا ہر ماں باپ کا نافرمان سرکش اور بد نصیب ہوتا ہے پھر آپ نے ( وَځ ا بِوَالِدَتِيْ ۡ وَلَمْ يَجْعَلْنِيْ جَبَّارًا شَقِيًّا ) 19 ۔ مریم:32 ) پڑھی ، حضرت عوام بن حوشب رحمتہ اللہ علیہ بھی یہی فرماتے ہیں حضرت مطرب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مجھے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک روایت ملی تھی میرے دل میں تمنا تھی کہ کسی وقت خود حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مل کر اس روایت کو انہی کی زبانی سنوں چنانچہ ایک مرتبہ ملاقات ہو گئی تو میں نے کہا مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تین قسم کے لوگوں کو دوست رکھتا ہے اور تین قسم کے لوگوں کو ناپسند فرماتا ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ہاں یہ سچ ہے میں بھلا اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بہتان کیسے باندھ سکتا ہوں؟ آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا اسے تو تم کتاب اللہ میں پاتے بھی ہو ، بنو ہجیم کا ایک شخص رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہتا ہے مجھے کچھ نصیحت کیجئے آپ نے یرمایا کپڑا ٹخنے سے نیچا نہ لٹکاؤ کیونکہ یہ تکبر اور خود پسندی ہے جسے اللہ ناپسند رکھتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 الجار، الجنب، قرابت دار پڑوسی کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے۔ جس کے معنی ایسا پڑوسی جس سے قرابت داری نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ پڑوسی سے بہ حیثیت پڑوسی کے حسن و سلوک کیا جائے رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار، جس طرح کہ حدیث میں بھی اس کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ 36۔ 2 اس سے مراد رفیق سفر، شریک کار، بیوی اور وہ شخص ہے جو فائدے کی امید پر کسی کی قربت و ہم نشینی اختیار کرے بلکہ اسکی تعریف میں وہ لوگ بھی آسکتے ہیں جنہیں تحصیل علم، تعلم صناعت (کوئی کام سیکھنے) کے لئے یا کسی کاروباری سلسلہ میں آپ کے پاس بیٹھنے کا موقع ملے (فتح القدیر) 36۔ 3 اس میں گھر، دکان اور کارخانوں، ملوں کے ملازم اور نوکر چاکر بھی آجاتے ہیں۔ غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید حدیث میں آئی ہے۔ 36۔ 4 فخر و غرور اور تکبر اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے بلکہ ایک حدیث میں یہاں تک آتا ہے کہ " وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہوگا۔ " (صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر وبیانہ حدیث نمبر۔ 91) یہاں کبر کی بطور خاص مذمت سے یہ مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور جن جن لوگوں سے حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ اس پر عمل وہی شخص کرسکتا ہے جس کا دل کبر سے خالی ہوگا۔ متکبر اور مغرور شخص صحیح معنوں میں نہ حق عبادت ادا کرسکتا ہے اور نہ اپنوں اور بیگانوں کے ساتھ حسن سلوک کا اہتمام۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٣] شرک کے لیے دیکھیے اسی سورة کا حاشیہ نمبر ٨٠، اور حاشیہ نمبر ١٥٤)- [٦٤] والدین سے حسن سلوک کے لیے دیکھیے سورة بنی اسرائیل کا حاشیہ نمبر ٢٥ تا ٢٨۔ اوراقرباء سے حسن سلوک کے لیے دیکھیے سورة نساء کا حاشیہ نمبر ٣۔- [٦٥] یتیموں سے حسن سلوک کے لیے دیکھیے سورة نساء کی آیات ٢ تا ٦ کے حواشی۔- [٦٦] ہمسایہ سے بہتر سلوک :۔ ہمسایوں سے بہتر سلوک کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ آپ نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہو وہ اپنے ہمسایہ کو تکلیف نہ پہنچائے (بخاری، کتاب النکاح، باب الوصاۃ بالنساء۔۔ مسلم، کتاب الایمان، باب الحث علیٰ اکرام الجار)- ٢۔ ایک دفعہ آپ نے تین بار یہ الفاظ دہرائے اللہ کی قسم وہ شخص مومن نہیں صحابہ نے پوچھا کون یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا جس کی ایذا دہی سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو۔ (بخاری، کتاب الادب، باب اثم من لا یامن جارہ بوائقہ)- ٣۔ آپ نے فرمایا جس کی ایذا دہی سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (مسلم کتاب الایمان۔ باب بیان تحریم ایذاء الجار)- ٤۔ آپ نے فرمایا وہ شخص جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے ہمسایہ کی عزت کرے (مسلم۔ کتاب الایمان، باب الحث علی اکرام الجار)- ٥۔ آپ نے فرمایا جبریل مجھے ہمسایہ سے حسن سلوک کے بارے میں اتنی وصیت کرتے رہے کہ میں نے سمجھا کہ وہ اسے وارث بھی بنادیں گے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب الوصایہ بالجار۔۔ مسلم، کتاب البر والصلۃ باب الوصیۃ بالجار)- ٦۔ آپ نے سیدنا ابوذر (رض) سے فرمایا ابو ذر جب تم سالن پکاؤ تو اس کا شوربا زیادہ کرلیا کرو اور اپنے پڑوسیوں کا بھی خیال رکھو۔ (مسلم۔ ایضاً )- ٧۔ آپ نے فرمایا ہمسایہ اپنے قرب کی وجہ سے (فروختنی جائیداد کا) زیادہ حقدار ہے ، (بخاری کتاب السلم باب عرض الشفعۃ علی صاحبہا قبل البیع)- ٨۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا اللہ کے رسول میرے دو پڑوسی ہیں تو میں کس کو تحفہ بھیجوں ؟ فرمایا جس کا دروازہ زیادہ قریب ہو۔ (بخاری، کتاب المسلم باب ای الجواراقرب)- ٩۔ آپ نے فرمایا اے مسلم عورتو کوئی ہمسائی اپنی ہمسائی کے تحفہ کو حقیر نہ سمجھے خواہ وہ تحفہ بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری، کتاب الہبتہ، و التحریض علیہا۔۔ مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب الحث علی الصدقۃ)- ١٠۔ آپ نے فرمایا کوئی ہمسایہ اپنے ہمسایہ کو اپنی دیوار میں لکڑی (شہتیر وغیرہ) رکھنے سے منع نہ کرے۔ (بخاری، کتاب المظالم۔ باب لایمنع جار جارہ ان یغرز خشبہ فی جدارہ)- ١١۔ آپ نے فرمایا جب آپ اپنے ہمسایوں کو یہ کہتے سنیں کہ آپ نے اچھا کام کیا تو فی الواقع آپ نے اچھا کام کیا اور جب آپ سنیں کہ آپ نے برا کام کیا تو فی الواقع آپ نے برا کام کیا۔ (ابن ماجہ، ابو اب الزھد فی الدنیا، باب الثناء الحسن)- ١٢۔ آپ نے فرمایا وہ شخص مسلمان نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھاتا ہے اس حال میں کہ اس کا ہمسایہ بھوکا رہے۔ (شعب الایمان للبیہقی)- اس آیت میں تین قسم کے ہمسایوں کا ذکر آیا ہے۔ ایک وہ جو ہمسائے بھی ہوں اور رشتہ دار بھی ہوں۔ دوسرے وہ جو تمہارے پہلو میں یا تمہارے مکان کے پاس تو رہتے ہوں مگر تمہارے رشتہ دار نہ ہوں۔ تیسرے وہ جو تمہاری سوسائٹی سے متعلق ہوں مثلاً وہ دوست احباب جو ایک جگہ مل بیٹھتے ہوں یا کسی دفتر میں یا دوسری جگہ اکٹھے کام کرتے ہوں اور اکثر میل ملاقات رہتی ہو۔ حسن سلوک تو ان سب سے کرنا چاہیے۔ تاہم اسی ترتیب سے الاقرب فالاقرب کا خیال ضرور رکھا جائے۔ سب سے زیادہ حقدار رشتہ دار ہمسائے ہیں، پھر ان کے بعد اپنے گھر کے آس پاس رہنے والے ہمسائے۔ اور ایک روایت کے مطابق ایسے ہمسایوں کی حد چالیس گھروں تک ہے پھر ان کے بعد ان ہمسایوں کی باری آتی ہے جو اپنے ہم نشین، ہم جماعت یا کو لیگ ہوں۔- اور مندرجہ بالا احادیث سے نہایت اہم چیز جو سب سے پہلے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام معاشرتی زندگی اور مل جل کر رہنے کا زبردست مؤید ہے۔ آج کے دور میں کوٹھیوں اور بنگلوں میں رہائش ہے جہاں ساتھ والے ہمسائے تک کو اس کی غمی یا خوشی کی خبر تک نہیں ہوتی، یہ اسلامی نظریہ معاشرت کے عین برعکس ہے۔ پھر اسلام جن اعلیٰ اقدار کا سبق دیتا ہے تہذیب و تمدن کی تبدیلی نے ان اقدار کو بھی یکسر بدل دیا ہے مثلاً اسلام یہ سکھاتا ہے کہ کوئی ہمسایہ اپنے ہمسائے کو اپنی دیوار پر شہتیر رکھ لینے سے منع نہ کرے مگر یہاں یہ حال ہے کہ اگر ہمسائے بھائی بھائی بھی ہوں تو ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ اپنی دیوار اپنے بھائی کی دیوار سے بالکل الگ تعمیر کرے۔ گو یہ اس لحاظ سے بہتر ہے کہ بعد میں کسی وقت تنازعہ پیدا نہ ہو مگر شریعت نے تنازعہ پیدا کرنے کا نہیں بلکہ تنازعہ کو ختم کرنے اور بھائی بھائی نہ ہونے کے باوجود بھائی بھائی بن کر رہنے کا سبق دیا تھا۔- پھر ان احادیث میں جو حقوق بیان کیے گئے ہیں وہ بڑے واضح ہیں جن کی شرح و تفصیل کی ضرورت نہیں اور پڑھنے کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ہمسائے بھی اپنے ہی گھر کے افراد ہیں اور یہ بھی غور فرمائیے کہ اگر ان ارشادات نبوی پر عمل کیا جائے تو معاشرہ میں کس قدر خوشگوار ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔- [٦٧] مسافروں سے بہتر سلوک :۔ مسافروں سے بہتر سلوک کے لیے مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ سیدنا ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں جا رہے تھے۔ اثنائے سفر میں آپ نے ہمیں فرمایا جس کے پاس فاضل سواری ہے وہ اسے دے دے جس کے پاس سواری نہیں اور جس کے پاس زائد کھانا ہو وہ اسے دے دے جس کے پاس کھانا نہیں۔ غرضیکہ آپ نے مال کی ایک ایک قسم کا جدا جدا ذکر کیا۔ حتیٰ کہ ہم یہ سمجھنے لگے کہ اپنے زائد مال میں ہمارا کوئی حق نہیں ہے۔ مسلم، کتاب اللقطۃ، باب استحباب المواسات بفضول المال )- ٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) نے ایک شخص کو جو سفر پر روانہ ہو رہا تھا، کہا کہ میرے پاس آؤ۔ میں تمہیں ایسے ہی رخصت کروں جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں رخصت کیا کرتے تھے۔ پھر انہوں نے کہا اَسْتَوْدِعُ اللہَ دِیْنَکَ وَاَمَانَتَکَ وَخَوَاتِیْمَ عَمَلِکَ (میں تمہارا دین، تمہاری امانت اور تمہارے آخری اعمال اللہ کے سپرد کرتا ہوں) (ترمذی، ابو اب الدعوات، باب مایقول اذا ودع انسانا)- ٣۔ آپ نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں جن کی طرف اللہ قیامت کے دن دیکھے گا بھی نہیں اور نہ انہیں پاک کرے گا اور انہیں دردناک عذاب ہوگا۔ ایک وہ جس کے پاس راستہ میں فاضل پانی ہو اور وہ مسافر کو بھی پانی نہ دے۔ (بخاری، کتاب المساقات۔ باب اثم من منع ابن السبیل من المائ)- ٤۔ سیدنا عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ آپ ہمیں روانہ کرتے ہیں پھر ہم (راستے میں) ایسے لوگوں کے پاس اترتے ہیں جو ہماری مہمانی تک نہیں کرتے تو آپ کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اگر وہ لوگ دستور کے مطابق تمہاری مہمانی کریں تو فبہا اور اگر نہ کریں تو دستور کے مطابق مہمانی کا حق ان سے وصول کرلو۔ (بخاری۔ کتاب الادب باب اکرام الضیف و خدمتہ ایاہ بنفسہ۔۔ الخ)- مندرجہ بالا احادیث سے جو نتائج اخذ ہوتے ہیں وہ یہ ہیں :- ١۔ ہم سفر لوگوں کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا ضروری ہے۔ اگر ایک مسافر کے پاس کھانے پینے کی یا ضرورت کی کوئی بھی چیز اپنی ضرورت سے زائد ہے تو اسے اپنے ایسے مسافر بھائی کو وہ چیز دینا ضروری ہے جس کے پاس وہ چیز نہ ہو اور پانی کا بالخصوص اس لیے ذکر آیا کہ یہ زندگی کی نہایت اہم بنیادی ضرورت ہے۔ لہذا اپنی ضرورت سے زائد پانی نہ دینے کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ فقہاء کہتے ہیں کہ جس فعل کے متعلق قرآن یا حدیث میں یہ مذکور ہو کہ اللہ قیامت کے دن اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں، یا پاک نہیں کرے گا تو ایسا فعل گناہ کبیرہ ہوتا ہے۔- ٢۔ دور نبوی میں عرب بھر میں پانی کی بھی قلت تھی اور بستیوں اور شہروں کی بھی۔ لہذا اس دور میں بستی والوں کا مسافروں کی مہمانی سے انکار دراصل انہیں مار دینے کے مترادف ہوتا تھا لہذا بصورت انکار ان سے حق وصول کرلینے کی اجازت دی گئی لیکن آج کل اور بالخصوص پاکستان میں ایسی صورت نہیں ہے پانی عام ہے۔ بستیاں قریب قریب ہیں اور کھانے پینے کی دکانیں اور ہوٹل بکثرت موجود ہیں۔ لہذا ان حالات میں کسی ناجائز طریقہ سے مہمانی وصول کرنے کا حق نہیں اور اب یہ صرف اس صورت میں جائز ہے جب مسافر کے پاس زاد راہ ختم ہوجائے اور کوئی شخص اس کو کھانا کھلانے یا مہمانی کرنے پر تیار نہ ہو ایسے مسافر کو صدقہ حتیٰ کہ زکوٰۃ بھی دی جاسکتی ہے خواہ وہ اپنی گھر میں کتنا ہی امیر ہو۔ - [٦٨] لونڈی غلاموں سے بہتر سلوک :۔ لونڈی غلاموں سے بہتر سلوک کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ سیدنا ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میرے اور فلاں (سیدنا بلال (رض) ۔۔ آزاد شدہ حبشی غلام) کے درمیان سخت کلامی ہوئی تو میں نے اسے ماں کی عار دلائی (یہ کہا تھا اے کالی ماں کے بیٹے ) تو انہوں نے ( بلال (رض) نے یہ بات آپ کو بتادی۔ آپ نے مجھے فرمایا ابو ذرص تم ایسے انسان ہو جس میں جاہلیت (ابھی باقی) ہے۔ میں نے کہا اتنی بڑی عمر ہوجانے کے باوجود بھی باقی ہے ؟ فرمایا ہاں یہ تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ نے تمہارے ماتحت کردیا ہے۔ تو جس شخص کا بھائی اللہ اس کے تحت کر دے تو اسے چاہیے کہ اسے وہی کچھ کھلائے جو خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے۔ ایسا کام کرنے کو نہ کہے جو اس پر بھاری ہو۔ اور اگر ایسا کام کرنے کو کہے تو خود اس کی مدد بھی کرے۔ (بخاری کتاب الادب۔ باب ماینھی من السباب واللعن۔ نیز کتاب الایمان۔ باب المعاصی من امر الجاھلیۃ) - ٢۔ آپ نے فرمایا جو شخص اپنے غلام پر تہمت لگائے درآنحالیکہ وہ اس چیز سے بری ہو جو اس نے تہمت لگائی ہے تو قیامت کے دن اسے کوڑے لگائے جائیں گے۔ (بخاری۔ کتاب المحاربین، باب قذف العبید)- ٣۔ آپ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کے پاس اس کا خادم کھانا لائے تو اسے بھی اپنے ساتھ بٹھا کر کھلائے اور اگر کھانا کم ہو تو بھی اسے لقمہ دو لقمے دے دے۔ کیونکہ اس نے پکانے کی گرمی اور دھواں برداشت کیا ہے۔ (بخاری، کتاب العتق، باب اذا اتاہ خادمۃ بطعامہ) - ٤۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اگر کسی کے پاس لونڈی ہو اور وہ اس کو اچھی طرح تعلیم دے اور اچھی طرح ادب سکھائے۔ پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کرلے تو اسے دوہرا اجر ملے گا۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب اتخاذ السراری۔ نیز کتاب العلم۔ باب تعلیم الرجل امتہ واھلہ)- ٥۔ آپ نے فرمایا کوئی شخص (اپنے لونڈی غلام کو) عبد (بندہ) اور امتہ (بندی) نہ کہے کیونکہ تم سب اللہ کے بندے ہو اور سب عورتیں اللہ کی بندیاں ہیں بلکہ یوں کہو۔ میرا خادم اور میری خادمہ اور میرا بچہ اور میری بچی۔ (مسلم۔ کتاب الالفاظ من الادب، باب حکم اطلاق لفظۃ العبد والامۃ و المولی والسید)- ٦۔ غلاموں کا وقار بلند کرنے کے اقدامات :۔ سیدنا ابو مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں اپنے غلام کو کوڑے سے مار رہا تھا۔ اتنے میں پیچھے سے آواز آئی ابو مسعود جان لو۔ میں غصہ کی وجہ سے آواز نہ پہچان سکا۔ جب کہنے والا قریب آیا تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے اور یوں کہہ رہے تھے ابو مسعود جان لو ابو مسعود جان لو آپ کی ہیبت کی وجہ سے کوڑا میرے ہاتھ سے گرگیا ۔ پھر آپ نے فرمایا ابو مسعود خوب سمجھ لو کہ جتنی قدرت تمہیں اس غلام پر ہے اس سے زیادہ قدرت اللہ کو تم پر ہے۔ چناچہ میں نے کہا کہ آج کے بعد کبھی غلام کو نہ ماروں گا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ میں نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ غلام اللہ کی خاطر آزاد ہے۔ آپ نے فرمایا : اگر تم ایسا نہ کرتے تو جہنم کی آگ تجھے جھلس دیتی۔ (مسلم۔ کتاب الایمان، باب صحبۃ الممالیک)- ٧۔ آپ نے فرمایا جو شخص اپنے غلام کو بغیر کسی قصور کے حد لگائے یا طمانچہ مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے۔ (مسلم۔ حوالہ ایضاً )- ٨۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم کے پاس آیا اور کہا میں اپنے غلام کو کتنی بار معاف کروں ؟ آپ خاموش رہے۔ اس نے اپنی بات دہرائی تو بھی آپ خاموش رہے۔ پھر تیسری بار جب یہی بات پوچھی تو آپ نے فرمایا خادم کو ہر دن میں ستر دفعہ معاف کرو (ابو داؤد، کتاب الادب باب فی حق المملوک )- ٩۔ سیدنا ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ آپ کے خیمہ کے دروازہ کے پاس ایک حاملہ عورت لائی گئی۔ آپ نے پوچھا غالباً وہ شخص (جس کے حصہ میں یہ آئی ہے) اس سے جماع کرنا چاہتا تھا ؟ صحابہ نے کہا جی ہاں آپ نے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ اس پر ایسی لعنت کروں جو قبر میں اس کے ساتھ داخل ہو بھلا وہ اس بچہ کا کیسے وارث ہوسکتا ہے حالانکہ وہ اس کے لیے حلال نہیں اور وہ اس بچہ کو کیسے غلام بنا سکتا ہے۔ حالانکہ وہ اس کے لیے حلال نہیں۔ (مسلم، کتاب النکاح۔ باب تحریم وطی الحامل المسبیۃ)- ١٠۔ آپ نے فرمایا جو شخص کسی آزاد آدمی کو غلام بنائے، قیامت کے دن میں خود اس کے خلاف استغاثہ کروں گا۔ (بخاری بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب البیوع۔ باب الاجارۃ۔ فصل اول)- جنگ بدر کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگی قیدیوں کو مختلف صحابہ کے گھروں میں بانٹ دیا اور ساتھ ہی یہ تاکید فرمائی کہ استَوْصُوْابِالْاُسَارٰی خَیْرًا۔ یعنی ان قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ انہی قیدیوں میں سے ایک قیدی ابو عزیز کا بیان ہے کہ مجھے جس انصاری کے گھر میں رکھا گیا تھا وہ خود تو کھجوریں کھاتے تھے۔ لیکن مجھے صبح و شام روٹی کھلاتے تھے۔- ١١۔ اسلام میں داخل ہونے کے لئے شہادتیں :۔ معاویہ بن حکم اسلمی سے روایت ہے کہ میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ (ایک مقام کا نام) کی طرف بکریاں چرایا کرتی تھی۔ ایک دن میں وہاں آ نکلا تو دیکھا کہ ایک بھیڑیا ایک بکری لیے جا رہا ہے۔ میں بھی آخر آدمی ہوں مجھ کو بھی ایسے غصہ آتا ہے جیسے دوسروں کو آتا ہے۔ میں نے اس لونڈی کو ایک طمانچہ مارا۔ پھر میں رسول کے پاس آیا تو آپ نے میرے اس فعل کو بہت بڑا جرم سمجھا۔ میں نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس لونڈی کو آزاد نہ کردوں ؟ آپ نے فرمایا۔ اسے میرے پاس لاؤ۔ میں اسے آپ کے پاس لے کر گیا تو آپ نے اس سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا۔ آسمان پر۔ پھر آپ نے پوچھا میں کون ہوں ؟ وہ کہنے لگی۔ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر آپ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ اسے آزاد کردے۔ یہ مومنہ ہے۔ (مسلم کتاب المساجد۔ باب تحریم الکلام فی الصلٰوۃ۔۔ )- اسلام سے پہلے غلاموں کی جس قدر بدتر حالت تھی وہ سب کو معلوم ہے۔ اسلام نے غلاموں کو اتنے حقوق عطا کیے کہ وہ معاشرہ کا معزز فرد بن گئے۔ اسلام نے ان سے حسن سلوک کی جو تاکید کی تھی یہ اسی کا اثر تھا کہ نام کے علاوہ غلام اور آزاد میں کچھ فرق نہ رہ گیا۔ غلاموں کا فقیہ اور محدث ہونا تاریخ سے ثابت ہے اور یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ پھر آپ نے زید (رض) بن حارثہ کو اپنا متبنیٰ بنایا۔ پھر اپنی پھوپھی زاد بہن سے ان کا نکاح کردیا۔ زید (رض) بن حارثہ اور ان کے بیٹے اسامہ (رض) بن زید (رض) دونوں کو کئی بار سپہ سالارلشکر بنایا۔ جن کے تحت صحابہ کبار جنگ میں شریک ہوئے۔ سیدنا بلال (رض) کو جو کالے رنگ اور موٹے ہونٹوں والے حبشی غلام تھے سیدنا عمر (رض) سیدنا بلال (رض) کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ سیدنا عمر (رض) نے اپنی وفات کے وقت ابو حذیفہ (رض) کے آزاد کردہ غلام سیدنا سالم (رض) کے متعلق فرمایا کہ آج اگر وہ زندہ ہوتے تو میں انہیں خلیفہ نامزد کردیتا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر تم پر نکٹا غلام بھی امیر بنادیا جائے تو جب تک وہ تمہیں اللہ کے احکام کے مطابق چلاتا رہے اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ (مسلم، کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ۔۔ )- چناچہ تاریخ میں ایسے بیشمار مسلمان بادشاہ گزرے ہیں جو غلام تھے۔ محمود غزنوی مشہور فاتح ہند بھی آزاد کردہ غلام تھا۔ ہندوستان اور مصر میں غلاموں کے خاندان نے صدیوں تک حکومت کی۔ مغلوں کی ہند میں آمد سے بہت پہلے خاندان غلاماں کے کئی فرمانرواؤں نے ہند پر حکومت کی۔ اب وہ کونسا اعزاز باقی رہ جاتا ہے جو آزاد کے ساتھ مخصوص ہو اور غلام اس سے محروم ہو۔ - اور بعض لوگوں نے (اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۝ۭ ) 4 ۔ النسآء :3) میں ان جانوروں اور مویشیوں کو بھی شامل کیا ہے جو انسان اپنی ضرورت کے تحت اپنے گھر میں پالتا ہے مثلاً سواری کے لیے گھوڑا یا اونٹ۔ دودھ حاصل کرنے کے لیے بھیڑ بکری یا گائے بھینس اور انڈوں اور گوشت وغیرہ کے لیے مرغیاں پالنا وغیرہ۔ کہ یہ جانور بھی اپنے مالک کے حسن سلوک کے مستحق ہیں اور یہ توجیہ اس لحاظ سے بہت خوب ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جانوروں پر رحم کرنے اور ان سے بہتر سلوک کرنے کی بہت تاکید فرمائی ہے۔- [٦٩] یعنی وہ لوگ جو اپنی انا میں مست و مغرور رہتے ہیں اور شیخی بگھارتے ہیں اور اللہ کے احکام کی پروا نہیں کرتے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاعْبُدُوا اللّٰهَ ۔۔ : میاں بیوی کے معاملات کے بعد دوسرے حقوق والوں کے ساتھ احسان کا ذکر ہے، مگر ابتداء اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حکم اور شرک سے منع کرنے سے کی ہے، کیونکہ ہر کام کی ابتدا اس سے ہوتی ہے، جیسا کہ اس سورت کا موضوع عموماً عورتوں کے مسائل ہیں، مگر سورت کی ابتدا ( اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ ) سے کی ہے۔ (ابن عاشور) - وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْـــــًٔـا : یعنی کسی چیز کو کسی صورت میں اس کا شریک نہ بنانا۔ اس کا شریک نہ بنانا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا مالک و مختار تسلیم کیا جائے اور اس کی کسی صفت میں کسی زندہ یا مردہ مخلوق کو شریک قرار نہ دیا جائے، تمام مرادیں اور حاجات اسی سے مانگی جائیں کہ وہی عالم میں متصرف ہے، کوئی اور نہیں۔ - وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا : توحید کا حکم دینے کے بعد درجہ بدرجہ رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں کے حقوق بیان فرمائے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” اول حق اللہ تعالیٰ کا، پھر ماں باپ کا اور پھر ان سب کا درجہ بدرجہ۔ “ (موضح) انسان کے عدم سے وجود میں آنے کا ذریعہ اللہ تعالیٰ کے بعد ماں باپ بنتے ہیں، اس لیے ان کا حق پہلے رکھا۔ - وَّبِذِي الْقُرْبٰى : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مسکین پر صدقہ صرف صدقہ ہے اور رشتے دار پر صدقہ، صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔ “ [ ترمذی، الزکاۃ، باب ما جاء فی الصدقۃ۔۔ : ٦٥٨ ] اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص پسند کرے کہ اس کے لیے اس کا رزق فراخ کیا جائے اور اس کے نشان قدم میں تاخیر کی جائے تو چاہیے کہ وہ اپنی رشتے داری کو ملائے۔ “ [ مسلم، البر والصلۃ، باب صلۃ الرحم۔۔ : ٢١؍٢٥٥٧ ]- وَالْيَتٰمٰي : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔ “ آپ نے اپنی دو انگلیوں شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو ملا کر بتایا۔ [ بخاری، الأدب، باب فضل من یقول یتیمًا : ٦٠٠٥، عن أبی ہریرۃ (رض) ] 6 مسکین کی تشریح کے لیے دیکھیے سورة توبہ کی آیت (٦) ۔ - وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ : قرابت والے ہمسائے سے مراد رشتے دار ہمسایہ ہے اور اجنبی ہمسائے سے مراد غیر رشتے دار ہمسایہ ہے۔ ہمسائیگی کے حقوق کی نگہداشت میں متعدد احادیث وارد ہیں، ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جبریل (علیہ السلام) مجھے ہمیشہ پڑوسی کے متعلق وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ پڑوسی کو وارث قرار دے دیں گے۔ “ [ بخاری، الأدب، باب الوصاۃ بالجار : ٦٠١٥، عن ابن عمر ] اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین دفعہ فرمایا : ” اللہ کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا۔ “ صحابہ نے پوچھا : ” کون شخص ؟ “ فرمایا : ” وہ شخص جس کی ایذا رسانیوں سے اس کا ہمسایہ بےخوف نہ ہو۔ “ [ بخاری، الأدب، باب إثم من لا یؤمن : ٦٠١٦، عن أبی شریح (رض) ]- وَالصَّاحِبِ بالْجَـنْۢبِ : پہلو کے ساتھی سے ہم نشین دوست، سفر کا ساتھی، بیوی، علم سیکھنے کے لیے آنے والے یا کاروباری سلسلے میں پاس آ بیٹھنے والے سب مراد ہیں۔ - وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ : مسافر سے مراد اکثر سلف کے نزدیک مہمان بھی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : ” جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کا اکرام ( عزت افزائی) کرے۔ “ [ بخاری، الأدب، باب من کان یؤمن۔۔ : ٦٠١٨، عن أبی ہریرۃ (رض) ] - وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : اس سے مراد غلام اور لونڈیاں ہیں، کیونکہ وہ ملکیت میں ہونے کی وجہ سے بالکل ہی بےبس ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آخری وصیت کرتے ہوئے فرمایا : ” نماز اور تمہارے غلام (ان دونوں کا خاص خیال رکھنا) ۔ “ [ أبو داوٗد، الأدب، باب فی حق المملوک : ٥١٥٦، عن علی (رض) ] آج کل اگرچہ کفار نے زنا پھیلانے اور دوسرے مذموم مقاصد کے لیے غلامی کو ختم کردیا ہے مگر اس آیت پر عمل کرنے کے لیے آدمی کے ماتحت افراد، جو اگرچہ غلام نہیں، حسن سلوک کے حق دار ہیں، مثلاً گھر، دکان اور کارخانوں کے ملازم اور نوکر چاکر وغیرہ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” آدمی کو اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ وہ ان لوگوں کو ضائع کرے جن کی خوراک کا وہ ذمے دار ہے۔ “ [ مسلم، الزکوٰۃ، باب فضل النفقۃ۔۔ : ٩٩٦، عن ابن عمرو (رض) ]- مُخْــتَالًا فَخُــوْرَۨا : ” مختالا “ جو خرچ کرنے سے پہلے متکبر ہو اور ” فخورا “ جو خرچ کرنے کے بعد فخر کرے۔ معلوم ہوا متکبر اور فخر کرنے والا نام و نمود کے لیے خرچ کرے گا، مگر اللہ کی خاطر خرچ نہیں کرسکتا اس لیے اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت نہیں رکھتا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اکڑنے والے، شیخی باز بخیل ہوتے ہیں، کسی کو اپنے برابر نہیں سمجھتے کہ اس پر خرچ کریں۔ حقیقی سخی متواضع ہوتے ہیں۔ جابر بن سلیم (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول مجھے کوئی وصیت فرمائیے، تو آپ نے (چند اہم امور کا تذکرہ کرنے کے بعد) فرمایا : ” تہ بند کو نیچے نہ لٹکاؤ، کیونکہ تہ بند کا (ٹخنوں سے نیچے) لٹکانا تکبر کی علامت ہے اور اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔ “ [ أحمد : ٥؍٦٤، ح : ٢٠٦٦٣ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات :- سورة نساء کی تفسیر میں آپ دیکھتے آئے ہیں کہ اس سورت میں حقوق العباد کا زیادہ اہتمام کیا گیا ہے، شروع سورت سے یہاں تک عام انسانی حقوق کی اہمیت کا اجمالی تذکرہ فرمانے کے بعد یتیموں اور عورتوں کے حقوق کا اہتمام اور ان میں کوتاہی پر سزا، وعید اور اس دنیا میں جو ان کی دو صنف ضعیف یعنی بچوں اور عورتوں کے ساتھ ظلم روا رکھا گیا اور ظالمانہ رسمیں اختیار کی گئیں ان کی اصلاح کا اور پھر وراثت کے حقوق کا بیان آیا ہے، اس کے بعد والدین اور دوسرے رشتہ داروں اور تعلق داروں اور پڑوسیوں اور عام انسانوں کے حقوق کا کچھ تفصیلی بیان آ رہا ہے اور چونکہ ان حقوق کو علی سبیل الکمال وہی شخص ادا کرسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور رسول اور قیامت کے ساتھ عقیدہ درست رکھتا ہو، نیز بخل، کبر اور ریا سے بھی بچتا ہو، اس لئے کہ یہ امور بھی ادا حقوق میں مانع ہوتے ہیں اس لئے ان آیات میں توحید اور ترغیب و ترہیب کے کچھ مضامین ارشاد فرمائے اور شرک، انکار قیامت، عصیان رسول اور بخل وغیرہ اخلاق ذمیمہ کی مذمت بھی ذکر فرمائی :- خلاصہ تفسیر - اور تم اللہ کی عبادت اختیار کرو (اس میں توحید بھی آگئی) اور اس کے ساتھ کسی چیز کو (خواہ وہ انسان ہو یا غیر انسان عبادت میں یا ان کی خاص صفات میں، اعتضاد میں) شریک مت کرو اور (اپنے) والدین کے ساتھ اچھا معاملہ کرو اور (دوسرے) اہل قرابت کے ساتھ بھی، اور یتیموں کے ساتھ بھی اور غریب غرباء کے ساتھ بھی، اور پاس والے پڑوسی کے ساتھ بھی اور دور والے پڑسی کے ساتھ بھی اور ہم مجلس کے ساتھ بھی، (خواہ وہ مجلس دائمی ہو جیسے سفر طویل کی رفاقت اور کسی مباح کام میں شرکت یا عارضی ہو جیسے سفر قصیر، یا اتفاقی جلسہ میں شرکت) اور راہ گیر کے ساتھ بھی (خواہ وہ تمہارا مہمان ہو یا نہ ہو) اور ان (غلام لونڈیوں) کے ساتھ بھی جو (شرعاً ) تمہارے مالکانہ قبضہ میں ہیں (غرض ان سب سے خوش معاملگی کرو جس کی تفصیل شرع نے دوسرے موقع پر بتلا دی ہے اور جو لوگ ان حقوق کو ادا نہیں کرتے اکثر اس کے کئی سبب ہیں یا تو ان کے مزاج میں تکبر ہے کہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور کسی کی طرف التفات ہی نہیں کرتے اور یا ان کی طبیعت میں بخل غالب ہے کہ کسی کو دیتے دلاتے جان نکلتی ہے اور یا ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اعتقاد نہیں کہ آپ کے احکام کو اور اداء حقوق کے ثواب کے وعدوں کو اور تلاف حقوق کے عذاب کی وعیدوں کو صحیح نہیں سمجھتے اور یہ کفر ہے اور یا ان کی عادت نمائش اور نام و نمود کی ہے، اس لئے جہاں نمود ہو وہاں دیتے دلاتے ہیں گو حق نہ ہو اور جہاں نمود نہ ہو وہاں ہمت نہیں ہوتی گو حق ہو اور یا ان کو سرے سے اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ عقیدہ نہیں، یا وہ قیامت کے قائل نہیں اور یہ بھی کفر ہے، اس لئے اسی ترتیب سے جو ان امور کا انفراداً یا اجتماعاً ارتکاب کرتے ہیں ان کا حال بھی سن لو کہ) بیشک اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں سے محبت نہیں رکھتے جو (دل میں) اپنے کو بڑا سمجھتے ہوں (زبان سے) شیخی کی باتیں کرتے ہوں، جو کہ بخل کرتے ہوں اور دوسرے لوگوں کو بھی بخل کی تعلیم کرتے ہوں (خواہ زبان سے یا اس طرح سے کہ ان کو دیکھ کر دوسرے یہی تعلیم پاتے ہیں) اور وہ اس چیز کو پوشیدہ رکھتے ہوں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے (اس سے مراد یا مال و دولت ہے جب کہ بلامصلحت حفاظت کے محض بخل کی وجہ سے چھپا دے کہ اہل حقوق ان سے توقع ہی نہ کریں، یا مراد علم دین ہے کہ یہود اخبار رسالت کو چھپایا کرتے تھے، پس بخل بھی عام ہوجاوے گا، پس اس میں بخلاء و منکرین رسالت دونوں آگئے) اور ہم نے ایسے ناسپاسوں کے لئے (جو نعمت مال یا نعمت بعثت رسول کی حق شناسی نہ کریں) اہانت آمیز سزا تیار کر رکھی ہے اور جو لوگ کہ اپنے مالوں کو لوگوں کے دکھلانے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر اور آخری دن (یعنی قیامت کے دن) پر اعتقاد نہیں رکھتے (ان کا بھی یہی حال ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان سے محبت نہیں) اور (بات یہ ہے کہ) شیطان جس کا مصاحب ہو (جیسا ان مذکور لوگوں کا ہوا ہے) تو وہ اس کا برا مصاحب ہے (کہ ایسا مشورہ دیتا ہے جس میں انجام کار سخت ضرر ہو۔ )- معارف و مسائل - حقوق کے بیان سے پہلے توحید کا ذکر کیوں :۔ حقوق کی تفصیل سے پہلے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت اور توحید کا مضمون اس طرح ارشاد فرمایا گیا : واعبدواللہ ولاتشرکوا بہ شیئاً یعنی ” اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو عبادت میں شریک نہ ٹھہراؤ۔ “- بیان حقوق سے پہلے مضمون عبادت اور توحید کو ذکر کرنے میں بہت سی حکمتیں ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کے حقوق کا اہتمام نہ ہو تو اس سے دنیا میں اور کسی کے حقوق کے اہتمام کی کیا امید رکھی جاسکتی ہے، برادری، سوسائٹی کی شرم یا حکومت کے قانون سے بچنے کے لئے ہزاروں راہیں ڈھونڈھ لیتا ہے، وہ چیز جو انسان کو انسانی حقوق کے احترام پر حاضر و غائب مجبور کرنیوالی ہے وہ صرف خوف خدا اور تقوی ہے اور یہ خوف وتقوی صرف توحید ہی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اس لئے مختلف تعلقات اور رشتہ والوں کے حقوق کی تفصیل سے پہلے اللہ تعالیٰ کی توحید و عبادت کی یاد دھانی مناسب تھی۔- توحید کے بعد والدین کے حقوق کا ذکر :۔- اس کے بعد تمام رشتہ داروں اور تعلق والوں میں سب سے پہلے والدین کے حقوق کا بیان فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور اپنے حقوق کے متصل والدین کے حقوق کو بیان فرما کر اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ حقیقت اور اصل کے اعتبار سے تو سارے احسانات و انعامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، لیکن ظاہری اسباب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ احسانات انسان پر اس کے والدین کے ہیں کیونکہ عام اسباب میں وہی اس کے وجود کا سبب ہیں اور آفرینش سے لے کر اس کے جوان ہونے تک جتنے کٹھن مراحل ہیں ان سب میں بظاہر اسباب ماں باپ ہی اس کے وجود اور پھر اس کے بقاء و ارتقاء کے ضامن ہیں، اسی لئے قرآن کریم میں دوسرے مواقع میں بھی ماں باپ کے حقوق کو اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کے متصل بیان فرمایا گیا ہے، ایک جگہ ارشاد ہے :- ” یعنی میرا شکر ادا کرو اور اپنے ماں باپ کا شکر ادا کرو۔ “- دوسری جگہ ارشاد ہے :۔ واذا خذنامیثاق بنی اسرآئیل لاتعبدون الا اللہ وبالوالدین احساناً (٢: ٣٨) ان دونوں آیتوں میں والدین کے معاملہ میں یہ نہیں فرمایا کہ ان کے حقوق ادا کرو، یا ان کی خدمت کرو، بلکہ لفظ احسان لایا گیا، جس کے عام مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ حسب ضرورت ان کے نفقہ میں اپنا مال خرچ کریں اور یہ بھی داخل ہے کہ جیسی ضرورت ہو اس کے مطاق جسمانی خدمات انجام دیں، یہ بھی داخل ہے کہ ان کے ساتھ گفتگو میں سخت آواز سے یا بہت زور سے نہ بولیں جس سے ان کی بےادبی ہو، کوئی ایسا کلمہ نہ کہیں جس سے ان کی دل شکنی ہو، ان کے دوستوں اور تعلق والوں سے بھی کوئی ایسا سلوک نہ کریں جس سے والدین کی دل آزاری ہو، بلکہ ان کو آرام پہونچانے اور خوش رکھنے کے لئے جو صورتیں اختیار کرنی پڑیں وہ سب کریں، یہاں تک کہ اگر ماں باپ نے اولاد کے حقوق میں کوتاہی بھی کی ہو جب بھی اولاد کے لئے بدسلوکی کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔- حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس وصیتیں فرمائی تھیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اگرچہ تمہیں قتل کردیا جائے یا آگ میں جلا دیا جائے، دوسرے یہ کہ اپنے والدین کی نافرمانی یا دل آزاری نہ کرو اگرچہ وہ یہ حکم دیں کہ تم اپنے اہل اور مال کو چھوڑ دو دوسرے یہ کہ اپنے والدین کی نافرمانی یا دل آزاری نہ کرو اگرچہ وہ یہ حکم دیں کہ تم اپنے اہل اور مال کو چھوڑ دو ۔ (مسند احمد) - رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات میں جس طرح والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکیدات وارد ہیں، اسی طرح اس کے بےانتہا فضائل اور درجات ثواب بھی مذکور ہیں۔- بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص یہ چاہے کہ اس کے رزق اور عمر میں برکت ہو اس کو چاہئے کہ صلہ رحمی کرے یعنی اپنے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرے۔- ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا باپ کی رضا میں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے۔- شعب الایمان میں بیہقی نے روایت کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو لڑکا اپنے والدین کا مطیع و فرمانبردار ہو جب وہ اپنے والدین کو عزت و محبت کی نظر سے دیکھتا ہے تو ہر نظر میں اس کو حج مقبول کا ثواب ملتا ہے۔- بیہقی ہی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمام گناہوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں لیکن جو شخص ماں باپ کی نافرمانی اور دل آزاری کرے اس کو آخرت سے پہلے دنیا ہی میں طرح طرح کی آفتوں میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔- قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید :۔- آیت میں والذین کے بعد عام ذوی القربی یعنی تمام رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید آئی ہے، قرآن کریم کی ایک جامع اور مشہور آیت میں جس کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے خطبات کے آخر میں تلاوت فرمایا کرتے تھے، اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا ہے :- ان اللہ یامرباعدل والاحسان وایتآء ذی القربی یعنی ” اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں سب کے ساتھ انصاف اور حسن سلوک کا اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کا “ جس میں رشتہ داروں کی حسب استطاعت مالی اور جانی خدمت بھی داخل ہے اور ان سے ملاقات و خبر گیری بھی۔- حضرت سلمان ابن عامر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ صدقہ عام مسکینوں فقیروں کو دینے میں تو صرف صدقہ کا ثواب ملتا ہے اور اگر اپنے ذی رحم رشتہ دار کو دیا جائے تو اس میں دو ثواب ہیں، ایک صدقہ کا دوسرا صلہ رحمی کا یعنی رشتہ داری کے حقوق ادا کرنے کا۔ (مسند احمد، نسائی، ترمذی)- آیت مذکورہ میں اول والدین کے حقوق کی تاکید فرمائی پھر عام رشتہ داروں کی۔- یتیم اور مسکین کا حق :۔- تیسرے نمبر پر ارشاد فرمایا : والیتمی والمساکین، یتیموں اور مساکین کے حقوق کا مفصل بیان اگرچہ شروع سورت میں آ چکا ہے مگر اس کی یاد دہانی رشتہ داروں کے ضمن میں فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ لاوارث بچوں اور بیکس لوگوں کی امداد و اعانت کو بھی ایسا ہی ضروری سمجھیں جیسا اپنے رشتہ داروں کے لئے کرتے ہیں۔- پڑوسی کا حق :۔- چوتھے نمبر میں ارشاد فرمایا والجار ذی القربی، اور پانچویں نمبر میں والجار الجنب جار کے معنی پڑوسی کے ہیں، اس آیت میں اس کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں، ایک جار ذی القربی دوسرے جار جنب ان دو قسموں کی تفسیر و تشریح میں صحابہ کرام کے مختلف اقوال ہیں :- عام مفسرین نے فرمایا کہ جار ذبی القربی سے مراد وہ پڑوسی ہے جو تمہارے مکان کے متصل رہتا ہے اور جار جنب سے وہ پڑوسی مراد ہے جو تمہارے مکان سے کچھ فاصلہ پر رہتا ہے۔- حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ جار ذی القربی سے وہ شخص مراد ہے جو پڑوسی بھی ہے اور رشتہ دار بھی، اس طرح اس میں دو حق جمع ہوگئے اور جار جنب سے مراد وہ ہے جو صرف پڑوسی ہے رشتہ دار نہیں، اسلئے اس کا درجہ پہلے سے موخر رکھا گیا۔- بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ جار ذی القربی وہ پڑوسی ہے جو اسلامی برادری میں داخل اور مسلمان ہے اور جارجنب سے غیر مسلم پڑوسی مراد ہے۔- الفاظ قرآن ان سب معانی کو متحمل ہیں اور حقیقت کے اعتبار سے بھی درجہ میں فرق ہوجانا امر معقول ہے اور معتبر ہے اور پڑوسی کے رشتہ دار یا غیر ہونے کے اعتبار سے بھی اور مسلم اور غیر مسلم ہونے کے اعتبار سے بھی ........ اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ پڑوسی خواہ قریب ہو یا بعید، رشتہ دار ہو یا مسلم ہو یا غیر مسلم، بہر حال اس کا حق ہے بقدر استطاعت کے امداد و اعانت اور خبر گیری لازم ہے۔- البتہ جس کا حق علاوہ پڑوسی کے دوسرا بھی ہے وہ دوسرے پڑوسیوں سے درجہ میں مقدم ہے، ایک حدیث میں خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو واضح فرما دیا ارشاد فرمایا کہ ” بعض پڑوسی وہ ہیں جن کا صرف ایک حق ہے، بعض وہ ہیں جن کے دو حق ہیں اور بعض وہ جن کے تین ہیں ہیں، ایک حق والا پڑوسی وہ غیرمسلم ہے جس سے کوئی رشتہ داری بھی نہیں، دو حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلمان بھی ہے، تین حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہے، مسلمان بھی اور رشتہ دار بھی۔ “ (ابن کثیر) - رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جبرائیل امین ہمیشہ مجھے پڑوسی کی رعایت و امداد کی تاکید کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ شاید پڑوسی کو بھی رشتہ داروں کی طرح وراثت میں شریک کردیا جائے گا۔ (بخاری و مسلم)- ترمذی اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کسی محلہ کے لوگوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے افضل اور بہتر وہ شخص ہے جو اپنے پڑوسیوں کے حق میں بہتر ہو۔ - مسند احمد کی ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ ایک پڑوسی کو پیٹ بھر کر کھاناجائز نہیں، جب کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔ - ہمنشین کا حق :۔- چھٹے نمبر میں ارشاد فرمایا : والصاحب بالجنب اس کے لفظی معنی ہم ” پہلوساتھی “ کے ہیں، جس میں رفیق سفر بھی داخل ہے جو ریل میں جہاز میں بس میں، گاڑی میں آپ کے برابر بیٹھا ہو اور وہ شخص بھی داخل ہے جو کسی عام مجلس میں آپ کے برابر بیٹھا ہو۔ - شریعت اسلام نے جس طرح نزدیک و دور کے دائمی پڑوسیوں کے حقوق واجب فرمائے اسی طرح اس شخص کا بھی حق صحبت لازم کردیا۔ جو تھوڑی دیر کے لئے کسی مجلس یا سفر میں آپ کے برابر بیٹھا ہو جس میں مسلم و غیر مسلم اور رشتہ دار و غیر رشتہ دار سب برابر ہیں، اس کے ساتھ بھی حسن سلوک کی ہدایت فرمائی جس کا ادنی درجہ یہ ہے کہ آپ کے کسی قول و فعل سے اس کو ایذا نہ پہنچے، کوئی گفتگو ایسی نہ کریں جس سے اس کی دل آزاری ہو، کوئی کام ایسا نہ کریں جس سے اس کو تکلیف ہو، مثلاً سگریٹ پی کر اس کا دھواں اس کے منہ کی طرف نہ چھوڑیں، پان کھا کر پیک اس کی طرف نہ ڈالیں، اس طرح نہ بیٹھیں جس سے اس کی جگہ تنگ ہوجائے۔- قرآن کریم کی اس ہدایت پر لوگ عمل کرنے لگیں تو ریلوے مسافروں کے سارے جھگڑے ختم ہوجائیں، ہر شخص اس پر غور کرے کہ مجھے صرف ایک آدمی کی جگہ کا حق ہے، اس سے زائد جگہ گھیرنے کا حق نہیں، دوسرا کوئی اگر قریب بیٹھا ہے تو اس ریل میں اس کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا میرا ہے۔- بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ صاحب بالجنب میں ہر وہ شخص داخل ہے جو کسی کام اور کسی پیشہ میں آپ کا شریک ہے، صنعت مزدوری میں، دفتر کی ملازمت میں، سفر میں حضر میں۔ (روح المعانی)- راہ گیر کا حق :۔- ساتویں نمبر میں ارشاد فرمایا : وابن السبیل، یعنی راہ گیر، اس سے مراد وہ شخص ہے جو دوران سفر آپ کے پاس آجائے یا آپ کا مہمان ہوجائے چونکہ اس اجنبی شخص کا کوئی تعلق والا یہاں نہیں ہے، تو قرآن نے اس کے اسلامی، بلکہ انسانی تعلق کی رعایت کر کے اس کا حق بھی آپ پر لازم کردیا کہ بقدر وسعت و استطاعت اس کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔- غلام، باندی اور ملازموں کا حق :۔ - آٹھویں نمبر میں ارشاد فرمایا : وماملکت ایمانکم جس سے مراد مملوک غلام اور باندیاں ہیں، ان کا بھی یہ حق لازم کردیا گیا کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کریں، استطاعت کے موافق کھلانے پلانے، پہنانے میں کوتاہی نہ کریں، اور نہ ان کی طاقت سے زیادہ کام ان پر ڈالیں۔- اگرچہ الفاظ آیت کا صریح مدلول مملوک اور غلام اور باندیاں ہیں، لیکن اشتراک علت اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات کی بناء پر یہ احکام نوکروں اور ملازموں پر بھی حاوی ہیں کہ ان کا بھی یہی حق ہے کہ مقررہ تنخواہ اور کھانا وغیرہ دینے میں بخل اور دیر نہ کریں اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر کام نہ ڈالیں۔- حقوق میں کوتاہی وہی لوگ کرتے ہیں جن کے دلوں میں تکبر ہو :۔- آخر آیت میں ارشاد فرمایا : ان اللہ لایحب من کان مختالا فخوراً یعنی ” اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتے جو متکبر اور دوسروں پر اپنی بڑائی جتانے والا ہو۔ “- آیت کا یہ آخری جملہ پچھلے تمام ارشادات کا تکملہ ہے کہ پچھلے آٹھ نمبروں میں جن لوگوں کے حقوق کی تاکید آئی ہے اس میں کوتاہی وہ ہی لوگ کرتے ہیں جن کے دلوں میں تکبر اور فخر و غرور ہے، اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو اس سے محفوظ رکھے۔- تکبر اور جاہلی تفاخر کی وعید میں بہت سی احادیث بھی وارد ہوئی ہیں :- ” حضرت عبداللہ مسعود سے روایت ہے وہ شخص جہنم میں (ہمیشہ کے لئے) نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہو اور جنت میں ایسا کوئی شخص نہیں جاسکے گا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے مقدار تکبر ہو۔ “- ایک اور حدیث جس میں کبر کی تعریف بھی مذکور ہے :- ” حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہو سکے گا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو، حاضرین میں سے ایک آدمی نے سوال کیا، لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے کپڑے اچھے ہوں ان کے جوتے اچھے ہوں (تو کیا یہ بھی تکبر میں داخل ہے ؟ ) آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خود بھی جمیل ہیں اور جمال کو پسند بھی فرماتے ہیں، تکبر نام ہے حق رد کرنے کا اور لوگوں کو ذلیل سمجھنے کا۔ “

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝ ٠ۙ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْــتَالًا فَخُــوْرَۨا۝ ٣٦ۙ- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، وقوله : وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] . وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] . وفي الحظوة : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] ، وقال في عيسى: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45] ، عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] ، فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] ، قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114] ، وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] . ويقال للحظوة : القُرْبَةُ ، کقوله : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] ، تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] . وفي الرّعاية نحو : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] ، وقوله : فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] - وفي القدرة نحو : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] . قوله وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ [ الواقعة 85] ، يحتمل أن يكون من حيث القدرة- ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] اور مجھے معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو ۔۔۔ اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا کے متعلق فرمایا : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] اور نہ مقرب فرشتے ( عار ) رکھتے ہیں ۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45]( اور جو ) دنیا اور آخرت میں آبرو اور ( خدا کے ) خاصوں میں سے ہوگا ۔ عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے ( خدا کے ) مقرب پئیں گے ۔ فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] پھر اگر وہ خدا کے مقربوں میں سے ہے : قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114]( فرعون نے ) کہا ہاں ( ضرور ) اور اس کے علاوہ تم مقربوں میں داخل کرلئے جاؤ گے ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] اور باتیں کرنے کے لئے نزدیک بلایا ۔ اور القربۃ کے معنی قرب حاصل کرنے کا ( ذریعہ ) کے بھی آتے ہیں جیسے فرمایا : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] اس کو خدا کی قربت کا ذریعہ ۔ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] دیکھو وہ بےشبہ ان کے لئے ( موجب ) قربت ہے۔ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں ۔ اور رعایت ونگہبانی کے متعلق فرمایا : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے ۔ فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] میں تو تمہارے پاس ہوں ۔ جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اسکی دعا قبول کرتا ہوں ۔ اور قرب بمعنی قدرہ فرمایا : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔- يتم - اليُتْمُ : انقطاع الصَّبيِّ عن أبيه قبل بلوغه، وفي سائر الحیوانات من قِبَلِ أمّه . قال تعالی: أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] ، وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] وجمعه : يَتَامَى. قال تعالی: وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] ، إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] ، وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] وكلُّ منفردٍ يَتِيمٌ ، يقال : دُرَّةٌ يَتِيمَةٌ ، تنبيها علی أنّه انقطع مادّتها التي خرجت منها، وقیل : بَيْتٌ يَتِيمٌ تشبيها بالدّرّة اليَتِيمَةِ.- ( ی ت م ) الیتم - کے معنی نا بالغ بچہ کے تحت شفقت پدری سے محروم ہوجانے کے ہیں ۔ انسان کے علاوہ دیگر حیوانات میں یتم کا اعتبار ماں کیطرف سے ہوتا ہے اور جانور کے چھوٹے بچے کے بن ماں کے رہ جانے کو یتم کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] بھلا اس نے تمہیں یتیم پاکر جگہ نہیں دی ۔ وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] یتیموں اور قیدیوں کو یتیم کی جمع یتامیٰ ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] اور یتیموں کا مال ( جو تمہاری تحویل میں ہو ) ان کے حوالے کردو ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] جو لوگ یتیموں کا مال ( ناجائز طور پر ) کھاتے ہیں ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریاقت کرتے ہیں ۔ مجازا ہر یکتا اور بےملي چیز کو عربی میں یتیم کہاجاتا ہے ۔ جیسا کہ گوہر یکتا درۃ یتیمۃ کہہ دیتے ہیں ۔ اور اس میں اس کے مادہ کے منقطع ہونے پر تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور درۃ کے ساتھ تشبیہ دے کر یکتا مکان کو بھی یتیم کہہ دیا جاتا ہے ۔- مِسْكِينُ- قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین .- المسکین - المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ )- جار - الجار : من يقرب مسکنه منك، وهو من الأسماء المتضایفة، فإنّ الجار لا يكون جارا لغیره إلا وذلک الغیر جار له، قال تعالی: لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا [ الأحزاب 60] ، وقال تعالی: وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُتَجاوِراتٌ [ الرعد 4] - ( ج و ر ) الجار - پڑوسی ۔ ہمسایہ ہر وہ شخص جس کی سکونت گاہ دوسرے کے قرب میں ہو وہ اس کا جار کہلاتا ہے یہ ، ، اسماء متضا یفہ ، ، یعنی ان الفاظ سے ہے جو ایک دوسرے کے تقابل سے اپنے معنی دیتے ہیں قرآن میں ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا [ الأحزاب 60] وہ اس ( شہر ) میں عرصہ قلیل کے سوا تمہارے ہمسایہ بن کر نہیں رہ سکیں گے ۔ وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُتَجاوِراتٌ [ الرعد 4] اور زمین ایک دوسرے سے متصل قطعات ہیں ۔- جنب - أصل الجَنْب : الجارحة، وجمعه : جُنُوب، قال اللہ عزّ وجل : فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] ، وقال تعالی: تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ، وقال عزّ وجلّ : قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] . ثم يستعار من الناحية التي تليها کعادتهم في استعارة سائر الجوارح لذلک، نحو : الیمین والشمال،- ( ج ن ب ) الجنب - اصل میں اس کے معنی پہلو کے ہیں اس کی جمع جنوب ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے ۔ فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] پھر اس سے ان ( بخیلوں ) کی پیشانیاں اور پہلو داغے جائیں گے ۔ تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ان کے پہلو بچھو نوں سے الگ رہنے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ پہلو کی سمت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسا کہ یمین ، شمال اور دیگر اعضا میں عرب لوگ استعارات سے کام لیتے ہیں ۔ - صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] - ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - ملکت ايمانکم - والمِلْكَة تختصّ بمِلْك العبید، ويقال : فلان حسن الملکة . أي :- الصّنع إلى مماليكه، وخصّ ملک العبید في القرآن بالیمین، فقال : لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 58] ، وقوله : أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النساء 3] اور قرآن پاک میں غلاموں کے مالک کو یمین کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 58] تمہارے غلام لونڈیاں ۔۔۔۔۔۔ اجازت لیا کریں ۔ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النساء 3] یا لونڈی جس کے تم مالک ہو ۔ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُنَّ [ النور 31] اپنے لونڈی غلاموں کے سوا ) الملوکۃ یہ بمعنی ملک کے آتا ہے جیسے : ۔ یعنی ملک کا اقرار کرنے والا غلام ۔- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - مختالا - ، اسم فاعل من اختال الخماسي فهو علی وزن مضارعه بإبدال حرف المضارعة ميما مضمومة وکسر ما قبل آخره، ولکن الکسرة لا تظهر قبل الآخر لأن الفعل معلّ في المضارع فتقدر الکسرة علی الألف ... ولهذا کان هذا اللفظ مطابقا لاسم المفعول أيضا . وفيه إعلال أصله مختیل تحرکت الیاء بعد فتح قلبت ألفا .- فخر - الفَخْرُ : المباهاة في الأشياء الخارجة عن الإنسان کالمال والجاه، ويقال : له الفَخَرُ ، ورجل فَاخِرٌ ، وفُخُورٌ ، وفَخِيرٌ ، علی التّكثير . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتالٍ فَخُورٍ [ لقمان 18] ، ويقال : فَخَرْتُ فلانا علی صاحبه أَفْخَرُهُ فَخْراً : حکمت له بفضل عليه، ويعبّر عن کلّ نفیس بِالْفَاخِرِ. يقال : ثوب فَاخِرٌ ، وناقة فَخُورٌ: عظیمة الضّرع، كثيرة الدّر، والفَخَّارُ :- الجرار، وذلک لصوته إذا نقر كأنما تصوّر بصورة من يكثر التَّفَاخُرَ. قال تعالی: مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن 14] .- ( ف خ ر ) الفخر ( ن ) کے معنی ان چیزوں پر اترانے کے ہیں جو انسان کے ذاتی جوہر سے خارج ہوں مثلا مال وجاہ وغیرہ اور اسے فحر ( بفتح الخا ) بھی کہتے ہیں اوت فخر کرنے والے کو فاخر کہا جاتا ہے اور فخور وفخیر صیغہ مبالغہ ہیں یعنی بہت زیادہ اترانے والا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتالٍ فَخُورٍ [ لقمان 18] کہ خدا کسی اترانے والے کو خود پسند کو پسند نہیں کرتا ۔ فخرت فلان علٰی صاحبہ افخرہ فخرا ایک یکو دوسرے پر فضیلت دینا اور ہر نفیس چیز کو فاخر کہا جاتا ہے چوب فاخر قیمتی کپڑا اور جس اونٹنی کے تھن تو بڑے بڑے ہوں مگر دودھ بہت کم دے اسے فخور کہتے ہیں ۔ الفخار منکوں کو کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ٹھوکا لگانے سے اس طرح زور سے بولتے ہیں جیسے کوئی کوئی بہت زیادہ فخر کررہا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن 14] ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

والدین کے ساتھ نیکی کرنا - قول باری ہے (واعبداللہ ولاتشرکوا بہ شیئا وبالوالدین احسانا) اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو) اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ نیکی کے لزوم کو اپنی عبادت اور وحدانیت کے ساتھ مقرر کردیا اور اس کا اسی طرح حکم دیا جس طرح ان دونوں کا حکم دیا، نیز اپنے قول (ان ش کرلی ولوالدیک، یہ کہ میرا شکرکرو اور اپنے والدین کا) میں ان دونوں کا شکرادا کرنے کے حکم کو رب کا شکر ادا کرنے کے حکم کے ساتھ متصل کردیا۔- والدین کے حقوق کی عظمت اور ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کے وجوب پر یہی دلالت کافی ہے نیز فرمایا (ولاتقل لھمااف ولاتنھرھما وقل لھماقولا کریما، اور انہیں اف تک نہ کہو اور نہ ہی انہیں جھڑکو اور ان سے ہمیشہ نرم لہجے میں گفتگو کرو۔ نیز فرمایا، ووصیناالانسان ب والدین حسنا، اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کی وصیت کی ) ۔- کافر والدین کے متعلق ارشاد ہوا (وان جاھداک علی ان تشرک بی مالیس لک بہ علم فلاتطعھما وصاحبھما فی الدنیا معروفا) اور اگر تمہیں یہ دونوں اس بات پر مجبورکریں کہ تم میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کے بارے میں تمہیں کوئی علم نہیں تو ان دونوں کی نہ مانو اور دنیا میں ان کے ساتھ بھلے طریقے سے رہو) ۔- عبداللہ بن انیس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا، اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، اور جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑھ کر ہیں قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے جب کوئی شخص کسی چیز کی قسم کھاتا ہے خواہ وہ چیز مچھر کے برابر کیوں نہ ہو تو اس کے دل میں ایک دھبہ پڑجاتا ہے جو قیامت تک باقی رہتا ہے) ۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ معروف میں والدین کی اطاعت واجب ہے اللہ کی معصیت میں نہیں ، اس لیے کہ خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جاتی۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ، انہیں ابوداؤد نے ، انہیں سعید بن منصور نے ، انہیں عبداللہ بن وہب نے ، انہیں عمرو بن الحارث نے ، انہیں ابوالسمح دراج نے ابوالہیـثم سے ، انہوں نے حضرت ابوسعید خدری سے کہ یمن کا ایک شخص ہجرت کرکے حضور کی خدمت میں آگیا۔ آپ نے اس سے دریافت کیا کہ یمن میں تمہارا کوئی رشتہ دار ہے ، اس نے جواب دیا کہ میرے والدین ہیں، آپ نے پوچھا، انہوں نے تمہیں یہاں آنے کی اجازت دی تھی ؟ اس نے نفی میں جواب دیا، آپ نے فرمایا واپس جاؤ اور ان سے اجازت طلب کرو اگر وہ اجازت دے دیں توپھرجہاد پر جاؤ ورنہ ان کے ساتھ نیکی کرتے رہو۔- اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ کسی شخص کے لیے والدین کی اجازت کے بغیر جہاد پر جانا جائز نہیں ہے ، جبکہ دشمنوں کے خلاف جہاد کرنے والوں کی موجودگی میں اسے جہاد پر نکلنے کی ضرورت نہ ہو، تجارت یا کسی اور غرض سے سفر جس میں قتال کی صورت پیش نہ آتی ہو اگر والدین کی اجازت کرلیاجائے تو ہمارے اصحاب کے قول کے مطابق اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس لیے کہ حضور نے اس یمنی کو والدین کی اجازت کے بغیر جہاد پر جانے سے منع فرمادیا تھا، جبکہ اس فرض کو اس کے سوادوسرے لوگ ادا کررہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جہاد پر جانے کی صورت میں ممکن تھا کہ وہ شہید ہوجاتا اور اس کے والدین کو اس کا صدمہ برداشت کرنا پڑتا، لیکن تجارت اور جائز قسم کے کاموں کی غرض سے سفر جس میں قتل وغیرہ کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا، والدین سے عام طور پر اس سے نہیں روکتے ، اس لیے ان کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔- والدین کے حقوق کی عظمت کی اللہ تعالیٰ نے جو تاکید کی ہے اس کی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے اگر کسی مسلمان کا کافر باپ مسلمانوں سے برسرپیکار ہو تو وہ اپنے ہاتھ سے قتل کرنے سے گریز کرے کیونکہ فرمان الٰہی ہے ، (ولاتقل لھمااف) نیز قول باری ہے (وان جاھداک علی ان تشرک بی مالیس ۔ الخ) ۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے ساتھ اس حالت میں بھی بھلے طریقے سے پیش آنے کا حکم دیاجب کہ وہ کفر پر اس کے خلاف برسرپیکار ہوں، معروف میں یہ بات بھی داخل ہے کہ بیٹا ان کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائے اور نہ ہی انہیں قتل کرے ہاں اگر اس پر مجبور ہوجائے تو الگ بات ہے۔- مثلابیٹے کو یہ خطرہ پیدا ہوجائے کہ اگر وہ کافر بات کو قتل نہیں کرے گا تو خود اس کے ہاتھوں قتل ہوجائے گا اس صورت میں اسے قتل کردیناجائز ہوگاکیو کہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا توگویاوہ خود اپنی ذات کے قتل کا بایں صورت مرتکب ٹھہرے گا، کہ اس نے دوسرے کو اپنے اوپرقابو پانے کا موقعہ فراہم کردیا، جبکہ اسے اس کام سے اچھی طرح روکا گیا ہے جس طرح اپنے ہاتھوں اپنی جان لینے سے روکا گیا ہے۔ اس بنا پر اپنے کافر باپ کو ای سے موقعہ پر قتل کردینا جائز ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے آپ نے حنظلہ بن ابی عامر راہب کو اپنے باپ کے قتل سے روک دیا تھا، ان کا باپ مشرک تھا۔- ہمارے اصحاب کا یہ بھی قول ہے کہ اگر کسی مسلمان کے کافر ماں باپ مرجائیں تو وہ انہیں غسل دے گا، ان کی ار تھی کے ساتھ جائے گا اور تدفین میں شریک ہوگاکیون کہ یہ بات بھلے طریقے سے پیش آنے کے مفہوم میں شامل ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالاآیت میں حکم دیا ہے اگر یہ پوچھاجائے کہ قول باری ، وبالوالدین احسانا) کے کیا معنی ہیں اور اس فقرے میں کون سافعل پوشیدہ ہے تو یہ کہاجائے گا، یہ احتمال ہے اس کا مفہوم یہ ہو، استوصوا بالوالدین احسانا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت قبول کرو) اور یہ بھی احتمال ہے کہ معنی یہ ہوں ) احسنوا بالوالدین احسانا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو) ۔- قول باری ہے (وبذی القربی) اور قرابت داروں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے قرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا اسی نہج پر حکم دیا ہے جس کا ذکر سورت کی ابتداء میں اپنے قول (والارحام) کے ذریعے کیا ہے۔- اللہ تعالیٰ نے آیت زیر بحث کی ابتدا اپنی وحدانیت اور عبادت کے ذکر سے کی ، کیونکہ توحید کا عقیدہ وہ اصل اور بنیاد ہے جس پر تمام آسمانی شریعتوں اور نبوتوں کی عمارت کھڑی ہے اور جس کے حصول کی بنا پر مصالح دین تک رسائی ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کا ذکر فرمایا جو والدین کی نسبت سے اولاد پر واجب ہیں یعنی ان کے ساتھ حسن سلوک ، ان کے حقوق کی ادائیگی اور ان کی تعظیم وتکریم پھر اس پڑوسی کا ذکر فرمایا جو رشتہ دار بھی ہو اس سے مراد ایک مسلمان کا وہ مسلمان رشتہ دار ہے جسے رشتہ داری کی بنا پر حق حاصل ہے اور اسلام نے بھی اس سے موالات اور اس کی نصرت واجب کردی ہے پھر اجنبی ہمسایہ کا ذکر اس سے مراد کسی کا وہ ہمسایہ ہے جو نسب کے لحاظ سے اس سے دور ہو لیکن مسلمان ہو، اس میں ہمسائیگی کے حق اور ان حقوق کا اجتماع ہوجائے گاجواسلام نے اس کے لیے ربط ملت اور رشتہ مذہب کی بنا پر واجب کردیے ہیں حضرت ابن عباس مجاہد، قتاہ اور ضحاک کا قول ہے کہ رشتہ دار پڑوسی سے مراد وہ شخص ہے جو نسب کے لحاظ سے قریب ہو۔- تین طرح کے ہمسائے - حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا، (الجیران ثلاثۃ فجار لہ ثلاثۃ حقوق حق الجوار وحق القرابۃ وحق الاسلام ، وجارلہ حقان حق الجوار وحق الاسلام وجارلہ حق الجوار المشرک من اھل الکتاب۔ پڑوسی تین قسم کے ہوتے ہیں۔- ١) ایک ہمسایہ وہ ہے جس کے تین حقوق ہیں حق ہمسائیگی ، حق قرابت اور حق اسلام۔- ٢) ایک ہمسایہ وہ ہے جس کے دوحقوق ہیں حق ہمسائیگی اور حق اسلام۔- ٣) ایک ہمسایہ وہ ہے جسے صرف حق ہمسائیگی حاصل ہے یہ وہ ہمسایہ ہے جو اہل کتاب میں سے ہو اور مشرک ہو۔- قول باری ہے (والصاحب بالجنب، اور پہلو کے ساتھی) اس کے متعلق حضرت ابن عباس سے ایک روایت کے مطابق ، نیز سعید بن جبیر، حسن، مجاہد، قتادہ، سدی اور ضحاک سے مروی ہے کہ اس سے مراد سفر میں ساتھ ہوجانے والاشخص ہے۔ حضرت ابن مسعود، ابراہیم نخعی، اور ابن ابی لیلی سے مروی ہے کہ اس سے مراد بیوی ہے حضرت ابن عباس سے ایک اور روایت کے مطابق اس سے مراد وہ شخص ہے جو کسی سے خیر و بھلائی کی آس لگا کر اس کے درپرآکرپڑ رہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد ہمسایہ ہے خواہ نسب کے لحاظ سے قریب ہو یا بعید بشرطیکہ مومن ہو۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب لفظ میں ان تمام معانی کا احتمال ہے توا سے ان سب پر محمول کرنا واجب ہے اور دلالت کے بغیر کسی خاص معنی کے ساتھ اسے مخصوص کردینا درست نہیں ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے آپ نے فرمایا (مازال جبریل یوصینی بالجار حتی ظننت انہ سیورثہ، مجھے جبرائیل ہمسایہ کے متعلق اتنی وصیت کرتے رہے کہ میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ اب وہ اسے میروارث بھی بنادیں گے) ۔ سفیان نے عمرو بن دینار سے انہوں نے نافع بن جبیر بن مطعم سے اور انہوں نے ابوشریح الخزاعی سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من کان یومن باللہ والیوم الاخر فلیکرم جارہ، جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کا احترام کرے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہو اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے ، اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہو اسے چاہیے کہ بھلی بات کرے یاپھر خاموش رہے ) عبیداللہ الوصافی نے ابوجعفر سے روایت کی ہے کہ حضور نے فرمایا وہ شخص ایمان والا نہیں جو خود توشکم سیر ہو اور اس کا ہمسایہ بھوکارہ جائے۔ عمروبن ہارون انصاری نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ حضور نے فرمایا (ومن اشراط الساعۃ سوء الجوار وقطعیہ الارحام وتعطیل الجھاد) ۔- قیامت کی نشانیوں میں سے چند یہ ہیں کہ ہمسائے کے ساتھ برائی کی جائے رشتہ داروں سے قطع تعلقی کی جائے اور جہاد کو معطل کردیاجائے) ۔- زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ پڑوسی کی عظمت کو تسلیم کرتے تھے اور اس کی حفاظت و حمایت میں پوری سرگرمی دکھاتے تھے جو حقوق رشتہ داری کے سلسلے میں تسلیم کیے جاتے تھے پڑوس اور ہمسائیگی کی بنا پر ان ہی حقوق کی پاسداری کی جاتی تھی ، زہیر کا شعر ہے، وجار البیت والرجل المنادی، ،، امام الحی عقدھما سواء۔ ہمسایہ اور قبیلے کی مجلس میں ساتھ رہنے والاشخص قبیلے کے سامنے ان دونوں کے ساتھ تعلق میں یکسانیت ہوتی ہے۔- الرجل المنادی، سے وہ شخص مراد ہے جو قبیلے کی مجلس میں ساتھ رہنے والاہوبعض اہل علم کا قول ہے کہ الصاحب بالجنب سے مراد وہ پڑوسی ہے جس کے گھر کے ساتھ اس کا گھر ملاہوا ہو اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ اس کا اس لیے ذکر فرمایا تاکہ اس پڑوسی پر اس کے حق کی فوقیت کی تاکید ہوجائے جس کا گھر متصل نہ ہو۔- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں ابوعمر ومحمد بن عثمان قرشی نے ، انہیں اسماعیل بن مسلم نے ، انہیں عبدالسلام بن حرب نے ابوخالد والابی سے ، انہوں نے ابوالعلاء ازدی سے ، انہوں نے حمیدبن عبدالرحمن حمیری سے انہوں نے ایک صحابی سے کہ حضور نے فرمایا، اگر تمہیں دو شخصوں کی طرف سے بیک دعوت طعام ملے تو اس کے ہاں چلے جاؤ جس کا دروازہ تمہارے گھر سے زیادہ قریب ہو کیونکہ ایساشخص زیادہ قریبی ہمسایہ ہوتا ہے اور اگر ان دونوں میں سے ایک کی دعوت تمہیں پہلے پہنچ جائے توپھرتم اس کی دعوت کو قبول کرلو) ۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ اپنے گھر سے چالیس گھروں تک پڑوس کا دائرہ ہوتا ہے ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں حسن بن شبیب معمری نے ، انہیں محمد بن مصفی نے ، انہیں یوسف بن السفر نے اوزاعی سے ، انہوں نے یونس سے ، انہوں نے زہری سے ، انہوں نے فرمایا کہ مجھے عبدالرحمن بن کعب بن مالک نے اپنے والد سے یہ روایت بیان کی ہے ، کہ ایک شخص حضور کی خدمت میں آکر کہنے لگا میں فلاں قبیلے کے محلے میں آکرٹھہراہوں تو کیا اب وہ شخص جس کا میرے ساتھ سلوک سب سے بڑھ کر ہوگا وہی میرا سب سے قریبی پڑوسی ہوگا ؟- آپ نے سن کر حضرت ابوبکر، حضرت عمر، اور حضرت علی کو بلوایا اور انہیں حکم دیا کہ مسجد نبوی کے دروازے پر جاکر تین دفعہ یہ اعلان کردیں کہ چالیس گھروں تک پڑوس ہوتا ہے اور وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکتا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے خائف رہتا ہو۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے زہری سے پوچھا، ابوبکر ، چالیس گھر کس طرح ؟ انہوں نے جواب دیا اس طرف چالیس گھر اور اس طرف چالیس گھر اللہ تعالیٰ نے ایک شہر میں اکـٹھی رہائش کو بھی پڑوس کا نام دیا ہے۔- چنانچہ قول باری ہے (لئن لم ینتہ المنافقون والذین فی قلوبھم مرض والمرجفون فی المدینہ۔۔۔ تا۔۔۔ الاقلیلا۔ اگر منافقین اور وہ لوگ باز نہ آئے جن کے دلوں میں روگ ہے اور جو مدینہ مین افواہیں اڑایا کرتے ہیں توہم ضرور آپ کو ان پر مسلط کردیں گے پھر یہ لوگ آپ کے پاس مدینہ میں بس قدرے قلیل رہنے پائیں گے) آیت کے اندر حضور کے ساتھ مدینہ میں ان لوگوں کے اجتماع کو پڑوس کا نام دیا گیا ہے۔- اللہ تعالیٰ نے آیت میں جس حسن سلوک کا ذکر فرمایا ہے اس کی کئی صورتیں ہیں ایک صورت یہ ہے کہ ان میں سے جو مفلس ہو اور بھوک اور ننگ کی بنا پرا سے شدید ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو اس کی خبرگیری کرے اور حتی الامکان اس کی ضرورتیں پوری کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ حسن معاشرت اور ایذارسانی سے باز رہے اور اس پر ظلم کرنے والے کے خلاف اس کا پورا پورا دفاع کرے نیز حسن اخلاق اور حسن سلوک کا بھی مظاہرہ کرے جو حسن معاشرت کے ضمن میں آتے ہیں۔- اللہ تعالیٰ نے پڑوس کی بنا پر جو حقوق واجب کیے ہیں ان میں سے ایک حق شفعہ بھی ہے جو اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جس کے پہلو میں واقع مکان فروخت کردیا گیا ہو، واللہ الموفق۔- شفعہ بالجو اور میں اختلاف رائے کا ذکر - امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف، امام محمد، اور زفر کا قول ہے کہ فروخت شدہ چیز میں شریک مبیع تک جانے والے راستے میں شریک سے بڑھ کر حق دار ہوتا ہے پھر مبیع تک جانے والے راستے میں شریک ساتھ والے پڑوسی سے بڑھ کر حق دار ہوتا ہے پھر اس پڑوسی کانمبرآتا ہے جوان پڑوسیوں کے بعد آتا ہے۔- ابن شبرمہ ، ثوری، اور حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے ، امام مالک اور مام شافعی کا قول ہے کہ ایسی چیز میں کوئی شفعہ نہیں ہوتا جو کچھ لوگوں میں مشترک ہو اور ان کے حصے متعین نہ ہوں اس کنویں میں بھی کوئی شفعہ نہیں ہوتا جس کے ساتھ خالی زمین نہ ہو اور اس کی تقسیم بھی نہ ہوسکتی ہو۔ سلف کی ایک جماعت سے پڑوسی کے لیے شفعہ کے وجوب کی روایت منقول ، حضرت عمر سے یہ روایت ہے اور ابوبکر بن ابی حفص بن عمر سے مروی ہے کہ قاضی شریح نے کہا، مجھے حضرت عمر نے تحریری حکم بھیجا تھا کہ میں شفعہ بالجوار یعنی پڑوس کی بنا پر شفعہ کا فیصلہ کروں ، عاصم نے شعبی سے اور انہوں نے شریح سے روایت کی ہے کہ شریک (مال کے اندر شراکت رکھنے والا) خلیط (مال کے حقوق میں شریک) سے بڑھ کر حق دار ہے اور خلیط پڑوسی سے بڑھ کر اور پڑوسی باقی ماندہ تمام لوگوں سے بڑھ کر حق دار ہوتا ہے۔ ایوب نے امام محمد سے روایت کی ہے انہوں نے فرمایا، کہاجاتا تھا کہ شریک خلیط سے بڑھ کر اور خلیط باقی ماندہ لوگوں سے بڑھ کر حق دار ہوتا ہے۔- ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ اگر شریک موجود نہ ہوتوپڑوسی کو سب سے بڑھ کر حق شفعہ حاصل ہوگا، طاوس کا بھی یہی قول ہے ، ابراہیم بن میسرہ کا کہنا ہے کہ ہمیں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تحریر کیا تھا کہ جب کسی مکان یا جگہ کا حدود اربعہ متعین کردیاجائے تو پھر حق شفعہ باقی نہیں رہتا۔- طاؤس کا قول ہے کہ پڑوسی زیادہ حق دار ہوتا ہے پڑؤسی کے لیے حق شفعہ کے وجوب پر دلالت کرنے والی وہ روایت ہے جسکے راوی حسین المعلم ہیں انہوں نے عمرو بن شعیب سے اس کی روایت کی ہے انہوں نے عمرو بن الشرید سے ، انہوں نے اپنے والد سے کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ایک زمین ہے جس میں پڑوسی کے سو اور کوئی شریک نہیں ہے آپ نے فرمایا پڑوسی اپنے قرب کی بنا پر دوسروں کے مقابلے اس کا زیادہ حق دار ہے جب تک وہ قرب باقی رہے سفیان نے ابراہم بن میسرہ سے انہوں نے عمرو بن شرید سے انہوں نے حضرت ابورافع سے اور انہوں نے حضور سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا، (الجار احق بسقبہ، پڑوسی اپنے قرب کی بنا پر زیادہ حق دار ہے) ۔- امام ابوحنیفہ نے فرمایا ہمیں عبدالکریم نے حضرت مسور بن مخرمہ سے اور انہوں نے حضرت رافع بن خدیج سے روایت کی ہے کہ حضرت سعد نے اپنا ایک گھر مجھے خریدنے کی پیش کش کی اور کہا کہ مجھے اس کی قیمت اس سے زیادہ مل رہی ہے جو تم دو گے لیکن تم اس کی خریداری کے زیادہ حق دار ہو کیونکہ میں نے حضور کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (الجار احق یسقبہ) ۔- ابوالزبیر نے حضڑت جابر سے روایت کی ہے کہ حضور نے پڑوس کی بنا پر حق شفعہ کا فیصلہ دیاتھاعبدالمالک بن ابی سلیمان نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ حضور نے فرمایا پڑوسی اپنے قرب کی بناپرزیادہ حق دار ہوتا ہے اس کے جواب کا انتظار کیا جائے گا خواہ غائب کیوں نہ ہو جبکہ ان دونوں کا راستہ مشترک ہو، ابن ابی لیلی نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کی ہے حضور نے فرمایا، الجار احق بسقبہ ماکان) قتادہ نے حسن سے اور انہوں نے حضرت سمرہ سے روایت کی ہے حضور نے فرمایا (جارالداراحق بشفعۃ الجار، گھر کے ساتھ والاپڑوسی شفعہ کا زیادہ حق دار ہوتا ہے قتادہ نے حضڑت انس سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا، گھر کا پڑوسی اس گھرکازیادہ حق دار ہوتا ہے ، سفیان نے منصور سے ، انہوں نے حکم سے روایت کی ہے کہ حکم نے کہا، مجھے ایک ایسے شخص نے روایت سنائی ہے جس نے حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ حضور نے پڑوس کی بنیاد پر حق شفعہ کا فیصلہ فرمایا تھا، یونس نے حسن سے روایت کی ہے حضور نے شفعہ بالجوار کا فیصلہ دیا، تھا یہ پوری جماعت حضور سے اس روایت پر متفق ہے اور ہمیں کسی بھی شخص کے بارے میں علم نہیں جس نے ان روایات کو رد کردیا ہو جب کہ یہ روایات امت میں شائع وذائع تھیں اور ان کی کثرت کی بنا پر اصطلاحی طور پر حد استفاضہ کو پہنچی ہوئی تھیں، اب جو شخص بھی انہیں تسلیم کرنے سے گریز کرے گا وہ حضور سے ثابت شدہ ایک سنت کاتارک قرار پائے گا۔- جن لوگوں نے حق شفعہ کا انکار کیا ہے ان کا استدلال اس روایت سے ہے جس کے راوی ابوعاصم النبیل ہیں ، انہوں نے امام مالک سے اس کی روایت کی ہے ، امام مالک نے زہری سے انہوں نے سعید بن المسیب اور ابوسلمہ بن عبیدالرحمن سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے اس مشترک چیز میں شفعہ کا فیصلہ فرمایا تھا، جو تقسیم نہ ہوئی ہو جب حدود مقرر ہوجائیں تو حق شفعہ ختم ہوجاتا ہے۔- اس طرح ابوقنبلہ المدنی اور عبدالملک بن عبدالعزیز الماجشون نے امام مالک سے روایت کی ہے ، اس حدیث کو اگرچہ ان حضرات نے حضڑت ابوہریرہ سے موصولاروایت کی ہے لیکن اصل میں یہ سعید بن المسیب سے مقطوعا مروی ہے اسے معن ، وکیع، القعنبی اور ابن وہب سب نے امام مالک سے ، انہوں نے زہری سے اور انہوں نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے اس میں حضرت ابوہریرہ کا ذکر نہیں ہے۔- امام مالک کی کتاب، الموطا، میں یہ روایت اس طرح مندرج ہے اگر اس روایت کاموصولا مروی ہوجانا بھی ثابت ہوجاتاتھاتو بھی اسے ان روایات کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جاسکتا جنہیں تقریبا دس صحابہ کرام نے شفعہ کے وجوب کے سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔- کیونکہ یہ روایات اصطلاحی طور پر متواتر ومستفیض روایت کے درجے کو پہنچ گئی ہیں اس لیے اخبار احاد کے ذریعے ان کا معارضہ نہیں ہوسکتا اگر یہ اخبار آحاد کئی وجوہ سے ثابت ہوجاتے جس کی بنا پر ان کے ذریعہ ان روایات کا معارضہ جائز ہوجاتاجن کا ہم نے اوپرذکر کیا ہے تو بھی ان اخبار آحاد میں ایسی بات نہ ہوتی توجوپڑوس کے لیے حق شفعہ کے ایجاب کی روایات کی نفی کردیتی کیونکہ ان روایات میں زیادہ سے زیادہ یہی بات ہے کہ حضور نے اس مشترک چیز میں شفعہ کا فیصلہ صادر فرمایا تھاجوتقسیم نہیں ہوئی تھی پھر جب حدود اربعہ، متعین ہوجائے تو حق شفعہ ختم ہوجاتا ہے۔- حضرت ابوہریرہ کے اس قوپ پر کہ ، حضور نے اس مشترک چیز میں شفعہ کا فیصلہ صادر فرمایا تھاجوتقسیم نہیں ہوئی تھی ، شریک کے لیے حق شفعہ کے ایجاب پر عمل کرنے میں سب کا اتفاق ہے تاہم اس کے باوجود اس میں حضور کے صرف ایک خاص فیصلے کی حکایت ہے اس کے لفظ میں عموم نہیں اور نہ ہی ا س میں حضور کے ایک قول یا فرمان کی نقل ہے۔ رہ گیا حضرت ابوہریرہ کا یہ قول کہ جب حدود متعین ہوجائیں تو پھر کوئی شفعہ نہیں ہوتا تواسمیں یہ احتمال ہے کہ یہ راوی کا کلام ہوکیون کہ اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ حضور نے یہ فرمایا تھایا آپ نے اس کا فیصلہ صادر کیا تھا۔ جب کسی روایت کے متعلق یہ احتمال پیدا ہوجائے کہ یہ حضور کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی بات ہے یا یہ راوی کا اپناقول ہے جسے اس نے اصل حدیث میں داخل کردیا تھا جس کی روایات میں ہمیں بہت سی مثالیں ملتی ہیں تو ایسی صورت میں ہمارے لیے حضور سے اس روایت کا اثبات جائز نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ بات کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ شک اور احتمال کی بنیاد پر ایک بات کی نسبت حضور کی طرف کردے یہ وہ وجہ ہے جس کی بنا پر اس روایت کے ذریعے ایجاب شفعہ کی روایات کا معارضہ نہیں کیا جاسکتا۔- حق شفعہ تسلیم نہ کرنے والوں کا استدلال اس روایت پر بھی ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی ہے انہیں حامد بن محمد المعروف نے، انہیں عبیداللہ بن عمروالقواریری نے انہیں عبدالواحد بن زیاد نے انہیں معمر نے زہری سے انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے کہ حضور نے اس مشترک چیز میں حق شفعہ کا فیصلہ صادر فرمایا تھاجوابھی تقسیم نہیں ہوئی تھی لیکن جب ایک چیز یعنی مکان یا زمین وغیرہ کی حدود متعین ہوجائیں اور راستے بدل دیے جائیں توپھرشفعہ باقی نہیں رہتا، اس روایت میں شفعہ بالجوار کی نفی پر کوئی دلالت نہیں ہے۔- ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس میں وجوب شفعہ کی نفی کا اس صورت میں ذکر ہواجب حدود متعین ہوجائیں اور راستے بدل دیے جائیں اس سے تو اس شخص کے لیے شفعہ کی نفی کا اظہار ہوتا ہے جو ساتھ والے پڑوسی کے سوا کوئی اور ہوتا ہے کیونکہ راستوں کی تبدیلی اس پڑوس کی نفی کرتی ہے جس میں گھر سے گھرملا ہواہو اس لیے کہ ایسے دوپڑوسیوں کے درمیان آنے جانے کے لیے ایک اور راستہ ہوتا ہے۔- دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر ہم اس روایت کو اس کے حقیقی معنوں پر محمول کریں گے تو حدیث کے الفاظ حدود اربعہ کے قیام اور رواستے کی تبدیلی پر شفعہ کی نفی کے مقتضی ہوں گے حدود کا قیام اور راستوں کی تبدیلی تقسیم کادوسرانام ہے گویا حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ تقسیم میں کوئی شفعہ نہیں ہوتا، جیسا کہ ہمارے اصحاب کا قول ہے تقسیم میں شفعہ نہیں ہوتا۔ پہلی حدیث بھی ان ہی معنوں پر محمول کی جائے گی ، نیز عبدالملک بن ابی سلیمان نے عطاء سے انہوں نے حضرت جابر سے انہوں نے حضور سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا، (الجار احق بسقبہ ینتظوبہ وان کان غائبا اذاکان طریقھماواحدا، یہ دونوں روایتیں حضرت جابر کے واسطے سے حضور سے مروی ہیں اب یہ بات درست نہیں کہ ایک ہی صحابی سے مروی دوروایتوں کو ایک دوسرے کے متعارض قرار دیاجائے جبکہ ان دونوں پر عمل پیرا ہونے کا امکان موجود ہو۔- ہمارے لیے ان دونوں پر اس طریقے سے عمل پیرا ہوناممکن ہے جو ہم نے ابھی بیان کیے ہیں جبکہ ہمارے مخالفین ان دونوں کو ایک دوسری کی متعارض قرار دیتے ہیں اور ایک کو دوسری کی بنا پر ساقط کردیتے ہیں اس میں یہ بھی امکان ہے کہ کسی سبب اور پس منظر کی بنا پر حضور کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے ہوں لیکن راوی نے آپ کے الفاظ تو نقل کردیے اور سبب کا ذکر نہیں کیا۔- مثلا یہ ممکن ہے کہ آپ کے پاس دو شخص اپنا جھگڑا لے کر آئے ہوں ان میں سے ایک پڑوسی ہو اوردوسراشخص شریک ہو آپ نے شریک کے لیے شفعہ کا فیصلہ کردیا ہوپڑوسی کے لیے نہ کیا ہو، اور یہ فرمایا دیاہو کہ جب حدود متعین ہوجائیں گے توپھرپڑوسی کے ہوتے ہوئے اس حصے دار کے لیے کوئی شفعہ نہیں ہوگا، جس کا حصہ تقسیم ہوگیا ہوگا۔- جس طرح حضرت اسامہ بن زید نے روایت کی ہے کہ حضور نے فرمایا، (لارباالافی النسیۃ، صرف ادھار کے اندرسود ہوتا ہے تمام فقہاء کے نزدیک یہ ایساکلام ہے جس کے پس منظر میں کوئی سبب ہوتا ہے اور اس کاراوی حضور کا قول تو، نقل کردیتا ہے لیکن سبب کا ذکر نہیں کرتا۔- درج بالا حدیث میں اس طرح ہوئی ہوگی کہ حضور سے سونے اور چاندی کے دومختلف نوع کی ایک دوسرے کے بدلے بیع کے متعلق سوال کیا گیا ہوگا۔ تو آپ نے جواب میں فرمایا ہوگا کہ صرف ادھار کی صورت میں سود ہوگا جس کے متعلق سوال کیا گیا ہے حق شفعہ کے متعلق حضور کے قول کا بھی یہی مفہوم ومحمل ہے۔ ایک اور پہلو سے اس پر غور کریں اگر شفعہ بالجوار کے ایجاب اور اس کی نفی کی روایتیں یکساں قرار دی جائیں تو اس صورت میں ایجاب کی روایتیں نفی کی روایتوں کے مقابلے میں اولی ہوں گی کیونکہ اصل کے لحاظ سے شفعہ کا اس وقت تک وجوب نہیں ہوا تھا، جب تک شرع کے ذریعے اس کا ایجاب وارد نہیں ہوا، اس لیے شفعہ کی نفی کی روایت اپنے اصل پروارد ہوئی ہے اور اس کے اثبات کی روایت اس کے بعد وارد ہوئی ہے اور شفعہ کے حکم کو اس کے اصل سے منتقل کررہی ہے اس لیے یہ روایت اولی ہوگی۔- اگرچہ یہ کہاجائے پڑوسی سے شریک مراد ہوسکتا ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ہم نے گذشتہ سطور میں جن احادیث کی روایت کی ہے ان میں سے اکثر حدیثیں اس تاویل کی نفی کرتی ہیں اس لیے کہ ان احادیث میں یہ بیان کیا گیا ہے گھر کا پڑوسی اس گھر کے شفعہ کا زیادہ حق دار ہوتا ہے اور شریک کو گھر کا پڑوسی نہیں کہاجاتا۔ حضرت جابر کی روایت کردہ حدیث میں کہا گیا ہے کہ اس کا انتظار کیا جائے گا خواہ وہ کہیں چلاکیوں نہ گیا، جبکہ ان دونوں کا راستہ مشترک ہو، مبیع میں شریک کے متعلق یہ کہنا درست نہیں ہوسکتا۔- نیز شریک کو پڑوسی نہیں کہاجاتا کیونکہ شراکت کی بنا پر اگر شریک پڑوسی کے نام سے پکارے جانے کا حق دار ہوتاتو پھر کسی شے میں ہر دوشریکوں کو پڑوسیوں کے نام سے پکارناضروری ہوتا، مثلاایک غلام یا ایک سواری کے جانور کے دوشریک۔ جب ان چیزوں میں شراکت کی بنا پر کوئی شریک پڑوسی کے اسم کا مستحق قرار پاتا ہے تو اس سے اس بات پر دلالت حاصل ہوتی ہے کہ شریک کو پڑوسی کا نام نہیں دیاجاتا۔- پڑوسی تو وہ ہوتا ہے جس کا حق اور حصہ شریک کے حق اور حصے سے بالکل علیحدہ ہوتا ہے اور ہر ایک کی ملکیت دوسرے کی ملکیت سے بالکل متمیز ہوتی ہے نیز شراکت کی بنا شفعہ کا استحقاق اس لے پیدا ہوتا ہے کہ وہ تقسیم کے ذریعے پڑوس کے مفہوم کے حصوں کی مقتضی ہوتی ہے۔- اس کی دلیل یہ ہے کہ تمام اشیاء میں شراکت شفعہ کی موجب نہیں ہوتی کیونکہ تقسیم کے وقت اس کے ذریعے پڑوس مفہوم کا حصول نہیں ہوتایہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ زمین کے اندر شراکت کی بنا پر شفعہ کا استحقاق اس لیے ہوتا ہے کہ تقسیم کی صورت میں اس کے ساتھ پڑوس کا مفہوم متعلق ہوجاتا ہے اگرچہ شریک اس فضیلت اور خصوصیت کی بنا پر پڑوسی سے بڑھ کر حق دار ہوتا ہے جوا سے پہلے سے حاصل ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تقسم کی وجہ سے پڑوس کا حق بھی اس سے متعلق ہوجاتا ہے۔- اس کی دلیل یہ ہے کہ تمام اشیاء میں شراکت شفعہ کی موجب نہیں ہوتی کیونکہ اس کے ذریعے پڑوسی کے مفہوم کا حصول نہیں ہوتا، جس طرح حقیقی بھائی علاتی بھائی سے بڑھ کر میراث کا حق دار ہوتا ہے اگرچہ باپ کی جہت سے بھائی ہونے کی بنا پر وہ عصبہ قرار پانے کا مستحق ہوجاتا ہے اور حقیقی بھائی کی عدم موجودگی میں میراث کا مستحق ہوتا ہے۔ جبکہ یہ بات واضح ہے کہ ماں کی طرف سے قرابت کی صورت میں وہ عصبہ قرار پانے کا مستحق نہیں ہوتا کیونکہ اس صورت میں باپ کی طرف سے قرابت نہیں ہوتی۔- تاہم یہ بات اس قرابت کے عصبہ قرار پانے کو موکد کردیتی ہے جو باپ کی جہت سے ہوٹھیک اسی طرح شریک شراکت کی بنا پر شفعہ کا اس لیے مستحق ہوتا ہے کہ تقسیم کی وجہ سے پڑوس کے مفہوم کے حصول کا اس کے ساتھ تعلق ہوجاتا ہے اور شریک اس فضیلت اور خصوصیت کی بنا پر جوا سے حاصل ہوتی ہے پڑوسی سے اولی قرار پاتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے میراث میں عصبہ کی مثال کے ذریعے سے بیان کیا ہے ج اور جس سبب کی بنیاد پر اس کے ساتھ شفعہ کے وجوب کا تعلق ہوتا ہے وہ جوار یعنی پڑوس اور ہمسائیگی ہوتی ہے نیز وہ سبب جس کی بنا پر شراکت کی وجہ سے شفعہ واجب ہوتا ہے وہ ایک شریک کے وجود کی صورت میں دوسرے کا ہمیشہ تکلیف میں مبتلارہنا ہے۔- یہی سبب پڑوس کی صورت میں بھی موجود ہوتا ہے کیونکہ ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کے وجود کی صورت میں اس طرح تکلیف اٹھاتا ہے کہ دوسراپڑوسی اپنے گھر کی چھت وغیرہ سے اسے جھانک سکتا ہے اس کے معاملات سے آگاہ ہوسکتا ہے اور اس کے امور کو اپنی نظروں میں رکھ سکتا ہے۔- اس لیے پڑوسی کے لیے بھی شفعہ کا وجوب ضروری ہوگیا کیونکہ اس کے اندر بھی وہی سبب پایاجاتا ہے جس کی بنا پر شریک کے لیے شفعہ واجب ہوا تھا، لیکن اس سبب کا وجود اس پڑوسی میں نہیں پایاجاتا جس کا گھر گھر سے ملاہوا نہ ہوکیون کہ اس صورت میں اس پڑوسی اور پہلے پڑوسی کے گھروں کے درمیان گذرگاہ ہوگی اور جو اوپر سے اس کے گھر میں جھانکنے اور اس کے معاملات سے باخبر ہونے کی راہ میں حائل ہوگی۔- ابن سبیل ، مسافر یا مہمان،- قول باری ہے (وابن السبیل، اور مسافر کے ساتھ ) مجاہد اور ربیع بن انس سے مروی ہے کہ اس کے معنی مسافر کے ہیں ، قتادہ اور ضحاک کا قول ہے کہ اس کے معانی مہمان کے ہیں ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس کے معنی راستے والے کے ہیں، یہ اسی طرح ہے جیسے آبی پرندے کو، ابن ما، کہاجاتا ہے شاعر کا قول ہے ، وردت اعتسافا الثریا کانھا، علی قمۃ الراس ابن ماء محلق، میں راستے کو جانے پہچانے بغیر اس پر چلتا رہا اور رات کے باعث ثریا ستارہ یوں نظر آرہا تھا گویا وہ سر کے اوپرچکر لگانے والا کوئی آبی پرندہ ہو۔- جن حضرات نے اس لفظ کو مہمان کے معنوں پر محمول کیا ہے ان کے لیے بھی اس کی گنجائش ہے کیونکہ مہمان بھی اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو مسافت طے کرنے والا اور قیام نہ کرنے والاہوتا ہے ، اس لیے سفر کرنے والے مسافر کے ساتھ مہمان کو تشبیہ دے کرا سے ابن السبیل کے نام سے موسوم کیا گیا۔- امام شافعی کا قول ہے کہ ابن سبیل وہ شخص ہے جو سفر کا ارادہ رکھتاہو لیکن اس کے پاس زاد راہ نہ ہو یہ بات درست نہیں ہے اس لیے کہ ایک شخص جب تک سفر کی راہ پر چل نہ نکلے وہ نہ ابن سبیل کہلاتا ہے نہ مسافر اور نہ ہی رستہ طے کرنے والا۔- قول باری ہے (وماملک ایمانکم) اور ان لونڈی غلاموں کے ساتھ جو تمہارے قبضے میں ہوں) یعنی ان کے ساتھ حسن سلوک کرو جس کا حکم آیت کی ابتداء میں دیا گیا ہے سلیمان التیمی نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس سے روایت کی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام طورپر مسلمانوں کو جس چیز کی نصیحت فرمایا کرتے تھے وہ نماز اور لونڈی غلاموں کے متعلق ہوتی تھی ، حتی کہ یہ حالت تھی گویا یہی نصیحت آپ کے سینے میں جوش ماررہی ہے اور آپ کی زبان کبھی بند نہیں ہوتی تھی۔- حضرت ام سلمہ نے اس کی روایت کی ہے ، اعمش نے طلحہ بن مصرف سے ، انہوں نے ابوعمارہ سے اور انہوں نے عمرو بن شرجیل سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ وسلم نے فرمایا (الغنم برکتہ والابل عزلاھلھا والخیل معقودفی نواصیھا الخیر الی یوم القیامۃ والمملوک اخوک فاحسن الیہ فان وجدتہ مغلوبا فاعنہ۔ بھیڑ بکریاں برکت کا سبب ہیں ، اونٹ مالک کے لیے باعث عزیز وافتخار ہیں گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک کے لیے خیر و بھلائی رکھ دی گئی ہے مملوک تمہارا بھائی ہے ، اس لیے اس سے حسن سلوک کرو، اگر تم اسے کام کے بوجھ تلے دبا ہواپاؤتو اس کا ہاتھ بٹاؤ ، مرۃ الطیب نے حضرت ابوبکر سے روایت کی ہے کہ حضور نے فرمایا، (لایدخل الجنہ سی الملکہ، اپنی ملکیت میں آجانے والوں کے ساتھ براسلوک کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا) یہ سن کر صحابہ کرام نے عرض کیا ، اللہ کے رسول کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ یہ امت لونڈی غلاموں اور ماتحتوں کے لحاظ سے دوسری تمام امتوں سے بڑھ کر ہوگی، اس پر آپ نے فرمایا (بلی ، فاکرموھم ککرامۃ اولادکم واطعموھم مماتاکلون، کیوں نہیں ، اس لیے تم اپنے ماتحتوں اور لونڈی غلاموں کی اس طرح تکریم کرو جس طرح تم اپنی اولاد کی کرتے ہو، اور انہیں بھی وہی کچھ کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو) ۔- اعمش نے معرور بن سوید سے روایت کی ہے کہ میرا ایک مرتبہ حضرت ابوذر کے پاس سے گذرا ہوا جب وہ ربذہ میں مقیم تھے میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضور کا ارشاد ہے (المماالیک ھم اخوانکم ولکن اللہ خولکم ایاھم فاطعموھم مماتاکلون والبسوھم مماتلبسون، تمہارے مملوک یعنی غلام تمہارے بھائی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہیں عطا کردیا ہے ، اس لیے انہیں کھلاؤ اور پہناؤ جو تم خود کھاتے ہو اور پہنتے ہو) ۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٦) اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کرو اور بتوں کو اس کا شریک مت ٹھہراؤ یہ حقوق اللہ ہیں اور حقوق العباد میں سب سے پہلا حق والدین کا ہے اس لیے اپنے والدین کے ساتھ نیکی کا معاملہ کرو، اسی طرح اہل قرابت اور یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کرو نیزیتیموں کے اموال کی حفاظت کرو اور غریبوں کو صدقہ خیرات دو اور ایسا پڑوسی جس کے ساتھ رشتہ داری ہو اس کے تین حق ہیں ، (١) قرابت کا حق (٢) اسلام کا اور دوسرے صحبت کا حق تم یہ تمام حقوق ادا کرو اور مہمان کے ساتھ بھی حسن سلوک کرو اور مہمان نوازی تین دن ہے، باقی احسان ہے اور خادموں کیساتھ بھی حسن سلوک کرو خواہ وہ غلام ہوں یا باندیاں، جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اترا کر اس کے بندوں پر شیخی مارتا ہوا چلتا ہے، ایسے متکبر انسان کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

اس سے قبل سورة البقرۃ آیت ٨٣ میں بنی اسرائیل سے لیے جانے والے میثاق کا ذکر آیا تھا۔ اس میثاق میں جو باتیں مذکور تھیں وہ گویا امہات شریعت یا دین کی بنیادیں ہیں۔ ارشاد ہوا : اور یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا کہ تم نہیں عبادت کرو گے کسی کی سوائے اللہ کے ‘ اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو گے اور قرابت داروں ‘ یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھی ‘ اور لوگوں سے اچھی بات کہو ‘ اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرو “۔ اب یہ دوسرا مقام آ رہا ہے کہ شریعت کے اندر جو چیزیں اہم تر ہیں اور جنہیں معاشرتی سطح پر مقدم رکھنا چاہیے وہ بیان کی جا رہی ہیں۔- فرمایا :- آیت ٣٦ (وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَلاَ تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْءًا) - سب سے پہلا حق اللہ کا ہے کہ اسی کی بندگی اور پرستش کرو ‘ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔- (وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا) - قرآن حکیم میں ایسے چار مقامات ہیں جہاں اللہ کے حق کے فوراً بعد والدین کے حق کا تذکرہ ہے۔ یہ بھی ہمارے خاندانی نظام کے لیے بہت اہم بنیاد ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک ہو ‘ ان کا ادب و احترام ہو ‘ ان کی خدمت کی جائے ‘ ان کے سامنے آواز پست رکھی جائے۔ یہ بات سورة بنی اسرائیل میں بڑی تفصیل سے آئے گی۔ ہمارے معاشرے میں خاندان کے استحکام کی یہ ایک بہت اہم بنیاد ہے۔- (وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ ) (وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ ) - پہلے عام طور پر محلے ایسے ہی ہوتے تھے کہ ایک قبیلہ ایک ہی جگہ رہ رہا ہے ‘ رشتہ داری بھی ہے اور ہمسائیگی بھی۔ لیکن کوئی اجنبی ہمسایہ بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے آج کل شہروں میں ہمسائے اجنبی ہوتے ہیں۔- (وَالصَّاحِبِ بالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ لا) - ایک ہمسائیگی عارضی نوعیت کی بھی ہوتی ہے۔ مثلاً آپ بس میں بیٹھے ہوئے ہیں ‘ آپ کے برابر بیٹھا ہوا شخص آپ کا ہمسایہ ہے۔ نیز جو لوگ کسی بھی اعتبار سے آپ کے ساتھی ہیں ‘ آپ کے پاس بیٹھنے والے ہیں ‘ وہ سب آپ کے حسن سلوک کے مستحق ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :62 متن میں”الصاحب بالجنب“ فرمایا گیا ہے جس سے مراد ہم نشین دوست بھی ہے اور ایسا شخص بھی جس سے کہیں کسی وقت آدمی کا ساتھ ہو جائے ۔ مثلاً آپ بازار میں جا رہے ہوں اور کوئی شخص آپ کے ساتھ راستہ چل رہا ہو ، یا کسی دوکان پر آپ سودا خرید رہے ہوں اور کوئی دوسرا خریدار بھی آپ کے پاس بیٹھا ہو ، یاسفر کے دوران میں کوئی شخص آپ کا ہم سفر ہو ۔ یہ عارضی ہمسائیگی بھی ہر مہذب اور شریف انسان پر ایک حق عائد کرتی ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ حتی الامکان اس کے ساتھ نیک برتاؤ کرے اور اسے تکلیف دینے سے مجتنب رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

29: قرآن و سنت نے پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ پھر پڑوسیوں کے تین درجے اس آیت میں بیان فرمائے گئے ہیں۔ پہلے درجے کو جار ذی القربی (قریب والا پڑوسی) اور دوسرے کو ’’الجار الجنب‘‘ کہا گیا ہے جس کا ترجمہ اوپر ’’دور والے پڑوسی‘‘ سے کیا گیا ہے۔ پہلے سے مراد وہ پڑوسی ہے جس کا گھر اپنے گھر سے بالکل ملا ہوا ہو، اور دوسرے سے مراد وہ پڑوسی ہے جس کا گھر اتنا ملا ہوا نہ ہو۔ بعض حضرات نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ پہلے سے مراد وہ پڑوسی ہے جو رشتہ دار بھی ہو، اور دوسرے سے مراد وہ جو صرف پڑوسی ہو۔ نیز بعض مفسرین نے پہلے کا مطلب مسلمان پڑوسی اور دوسرے کا مطلب غیر مسلم پڑوسی بتایا ہے، قرآنِ کریم کے الفاظ میں ان سب معانی کی گنجائش ہے۔ خلاصہ یہ کہ پڑوسی چاہے رشتہ دار ہویا اجنبی، مسلمان ہو یا غیرمسلم، اس کا گھر بالکل ملا ہوا ہو یا ایک دو گھر چھوڑکر ہو، ان سب کے ساتھ اچھے برتاو کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ 30: یہ پڑوسی کی تیسری قسم ہے جس کو قرآنِ کریم نے ’’صاحب بالجنب‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جو عارضی طور پر تھوڑی دیر کے لئے ساتھی بن گیا ہو، مثلا سفر کے دوران ساتھ بیٹھا یا کھڑا ہو، یا کسی مجلس یا کسی لائن میں لگے ہوئے اپنے پاس ہو۔ وہ بھی ایک طرح کا پڑوسی ہے، اور اس کے ساتھ بھی اچھے برتاو کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ بلکہ اس سے بھی آگے ہر راہ گیر اور مسافر کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے، چاہے وہ اپنا ساتھی یا پڑوسی نہ ہو۔