Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

میاں بیوی مصالحت کی کوشش اور اصلاح کے اصول اوپر اس صورت کو بیان فرمایا کہ اگر نافرمانی اور کج بحثی عورتوں کی جانب سے ہو اب یہاں اس صورت کا بیان ہو رہا ہے اگر دونوں ایک دوسرے سے نالاں ہوں تو کیا کیا جائے؟ پس علماء کرام فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں حاکم ثقہ سمجھدار شخص کو مقرر کرے جو یہ دیکھے کہ ظلم و ذیادتی کس طرح سے ہے؟ اس ظالم کو ظلم سے روکے ، اگر اس پر بھی کوئی بہتری کی صورت نہ نکلے تو عورت والوں میں سے ایک اس کی طرف سے اور مرد والوں میں سے ایک بہتر شخص اسکی جانب سے منصب مقرر کردے اور دونوں مل کر تحقیقات کریں اور جس امر میں مصلحت سمجھیں اس کا فیصلہ کر دیں یعنی خواہ الگ کرا دیں خواہ میل ملاپ کرا دیں لیکن شارع نے تو اسی امر کی طرف ترغیب دلائی ہے کہ جہاں تک ہو سکے کوشش کریں کہ کوئی شکل نباہ کی نکل آئے ۔ اگر ان دونوں کی تحقیق میں خاوند کی طرف سے برائی بہت ہو تو اس کی عورت کو اس سے الگ کرلیں اور اسے مجبور کریں گے کہ اپنی عادت ٹھیک ہونے تک اس سے الگ رہے اور اس کے خرچ اخراجات ادا کرتا رہے اور اگر شرارت عورت کی طرف سے ثابت ہو تو اسے نان نفقہ نہیں دلائیں اور خاوند سے ہنسی خوشی بسر کرنے پر مجبور کریں گے ۔ اسی طرح اگر وہ طلاق کا فیصلہ دیں تو خاوند کو طلاق دینی پڑے گی اگر وہ آپس میں بسنے کا فیصلہ کریں تو بھی انہیں ماننا پڑے گا ، بلکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر دونوں پنچ اس امر پر متفق ہوں گئے کہ انہیں رضامندی کے ساتھ ایک دوسرے سے اپنے تعلقات نباہنے چاہیں اور اس فیصلہ کے بعد ایک کا انتقال ہو گیا تو جو راضی تھا وہ اس کی جائیداد کا وارث بنے گا لیکن جو ناراض تھا اسے اس کا ورثہ نہیں ملے گا ( ابن جریر ) ایک ایسے ہی جھگڑے میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو منصف مقرر کیا تھا اور فرمایا تھا کہ اگر تم ان میں میل ملاپ کرنا چاہو تو میل ہو گا اور اگر جدائی کرانا چاہو تو جدائی ہو جائے گی ۔ ایک روایت میں ہے کہ عقیل بن ابو طالب نے فاطمہ بنت عتبہ بن ربیعہ نے نکاح کیا تو اس نے کہا تو وہ پوچھتی عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ کہاں ہیں؟ یہ فرماتے تیری بائیں جانب جہنم میں اس پر وہ بگڑ کر اپنے کپڑے ٹھیک کر لیتیں ایک مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئیں اور واقعہ بیان کیا خلیفۃ المسلمین اس پر ہنسے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کا پنچ مقرر کیا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو فرماتے تھے ان دونوں میں علیحدگی کرا دی جائے لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے تھے بنو عبد مناف میں یہ علیحدگی میں ناپسند کرتا ہوں ، اب یہ دونوں حضرات حضرت عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر آئے دیکھا تو دروازہ بند ہے اور دونوں میاں بیوی اندر ہیں یہ دونوں لوٹ گئے مسند عبدالرزاق میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خلافت کے زمانے میں ایک میاں بیوی اپنی ناچاقی کا جھگڑا لے کر آئے اس کے ساتھ اس کی برادری کے لوگ تھے اور اس کے ہمراہ اس کے گھرانے کے لوگ بھی ، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دونوں جماعتوں میں سے ایک ایک کو چنا اور انہیں منصف مقرر کر دیا پھر دونوں پنچوں سے کہا جانتے بھی ہو تمہارا کام کیا ہے؟ تمہارا منصب یہ ہے کہ اگر چاہودونوں میں اتفاق کرا دو اور اگر چاہو تو الگ الگ کرا دو یہ سن کر عورت نے تو کہا میں اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی ہوں خواہ ملاپ کی صورت میں ہو جدائی کی صورت میں مرد کہنے لگا مجھے جدائی نامنظور ہے اس پر حضرت علی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں نہیں اللہ کی قسم تجھے دونوں صورتیں منظور کرنی پڑیں گی ۔ پس علماء کا اجماع ہے کہ ایسی صورت میں ان دونوں منصفوں کو دونوں اختیار ہیں یہاں تک کہ حضرت ابراہیم نخعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انہیں اجتماع کا اختیار ہے تفریق کا نہیں ، حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ سے بھی یہی قول مروی ہے ، ہاں احمد ابو ثور اور داؤد کا بھی یہی مذہب ہے ان کی دلیل ( اِنْ يُّرِيْدَآ اِصْلَاحًا يُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَيْنَهُمَا ) 4 ۔ النسآء:35 ) والا جملہ ہے کہ ان میں تفریق کا ذکر نہیں ، ہاں اگر یہ دونوں دونوں جانب سے وکیل ہیں تو بیشک ان کا حکم جمع اور تفریق دونوں میں نافذ ہو گا اس میں کسی کو پھر یہ بھی خیال رہے کہ یہ دونوں پنچ حاکم کی جانب سے مقرر ہوں گے اور فیصلہ کریں گے چاہے ان سے فریقین ناراض ہوں یا یہ دونوں میاں بیوی کی طرف سے ان کو بنائے ہوئے وکیل ہوں گے ، جمہور کا مذہب تو پہلا ہے اور دلیل یہ ہے کہ ان کا نام قرآن حکیم نے حکم رکھا ہے اور حکم کے فیصلے سے کوئی خوش یا ناخوش بہر صورت اس کا فیصلہ قطعی ہو گا آیت کے ظاہری الفاظ بھی جمہور کے ساتھ ہی ہیں ، امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا نیا قول یبھی یہی ہے اور امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا بھی یہی قول ہے ، لیکن مخالف گروہ کہتا ہے کہ اگر یہ حکم کی صورت میں ہوتے تو پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس خاوند کو کیوں فرماتے؟ کہ جس طرح عورت نے دونوں صورتوں کو ماننے کا اقرار کیا ہے اور اسی طرح تو بھی نہ مانے تو تو جھوٹا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ امام ابن عبدالبر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں علماء کرام کا اجماع ہے کہ دونوں پنچوں کا قول جب مختلف ہو تو دوسرے کے قول کا کوئی اعتبار نہیں اور اس امر پر بھی اجماع ہے کہ یہ اتفاق کرانا چاہیں تو ان کا فیصلہ نافذ ہے ہاں اگر وہ جدائی کرانا چاہیں تو بھی ان کا فیصلہ نافذ ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے لیکن جمہور کا مذہب یہی ہے کہ اس میں بھی ان کا فیصلہ نافذ ہے گو انہیں وکیل نہ بنایا گیا ہو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

35۔ 1 گھر کے اندر مزکورہ تینوں طریقے کارگر ثابت نہ ہوں تو یہ چوتھا طریقہ ہے اور اس کی بابت کہا کہ حکمین (فیصلہ کرنے والے) اگر مخلص ہوں گے تو یقینا ان کی سعی اصلاح کامیاب ہوگی۔ تاہم ناکامی کی صورت میں حکمین کو تفریق بین الزوجین یعنی طلاق کا اختیار ہے یا نہیں ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض اس کو حاکم مجاز کے حکم یا زوجین کے توکیل بالفرقہ (جدائی کے لیے وکیل بنانا) کے ساتھ مشروط کرتے ہیں اور جمہور علماء اس کے بغیر اس کے قائل ہیں (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر طبری، فتح القدیر، تفسیر ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦١] زوجین میں ثالثی فیصلہ :۔ اور اگر میاں بیوی کے تعلقات سنورنے میں نہ آ رہے ہوں اور ان میں سے ہر کوئی دوسرے پر الزام تھوپ رہا ہو تو طلاق سے پہلے فریقین اپنے اپنے خاندان میں سے ثالث منتخب کریں جو پوری صورتحال کو سمجھ کر نیک نیتی سے اصلاح کی کوشش کریں۔ یہ ثالث طرفین کی طرف سے ایک ایک آدمی بھی ہوسکتا ہے دو دو بھی اور تین تین بھی۔ جو بات بھی میاں بیوی دونوں کو تسلیم ہو اختیار کی جاسکتی ہے۔- [٦٢] یہاں دونوں سے مراد میاں بیوی بھی ہوسکتے ہیں اور طرفین کے ثالث حضرات بھی۔ یعنی اگر ان کی نیت بخیر ہوگی تو اللہ تعالیٰ زوجین میں ضرور موافقت کی راہ نکال دے گا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ثالث سمجھوتہ کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو فہوالمراد۔ اور اگر وہ اس نتیجہ پر پہنچیں کہ تفریق کے بغیر اب کوئی چارہ کار نہیں رہا۔ تو کیا وہ یہ اختیار بھی رکھتے ہیں (یعنی مرد سے طلاق دلوانے کا یا خلع کا) یا نہیں۔ اکثر علماء کے نزدیک یہ ثالثی بنچ یہ اختیار بھی رکھتا ہے کیونکہ یہ بھی ایک طرح کی عدالت ہی ہوتی ہے۔ اور بعض علماء کہتے ہیں کہ ایسے اختیارات صرف عدالت کو ہیں اور یہ بنچ عدالت کے سامنے اپنی سفارشات پیش کرسکتا ہے۔ عدالت یہ اختیار خود بھی استعمال کرسکتی ہے اور وہ یہ اختیار اس ثالثی بنچ کو بھی تفویض کرسکتی ہے اور چاہے تو اپنی طرف سے علیحدہ بنچ مقرر کر کے اسے یہ اختیار دے سکتی ہے۔ جیسا کہ آج کل ہمارے ہاں یونین کونسلوں کو ایسے اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا : پہلے صرف عورت کی طرف سے نشوز کا ذکر تھا اب اگر دونوں کی طرف سے نفرت اور مخالفت کا سلسلہ چل نکلے اور جدائی کا اندیشہ ہو تو حاکم کو چاہیے کہ میاں بیوی دونوں کی طرف ان کے خاندان کا ایک ایک سمجھدار آدمی بطور حکم (پنچ یا منصف) مقرر کردیں، اگر وہ دونوں اصلاح کرانے میں مخلص ہوں گے تو اللہ تعالیٰ دونوں میں موافقت پیدا کر دے گا۔ اگر اصلاح کی کوئی صورت نہ بنے تو کیا انھیں علیحدگی کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے یا نہیں ؟ بعض علماء نے فرمایا کہ اگر میاں بیوی دونوں اسے صلح یا جدائی کا اختیار دیں کہ تم جو فیصلہ کرو ہمیں منظور ہوگا تو اسے علیحدگی کے فیصلہ کا بھی اختیار ہے۔ اور بعض نے فرمایا کہ اگر وہ حاکم جس نے اسے حکم مقرر کیا ہے اسے صلح یا جدائی دونوں کے فیصلے کا اختیار دیتا ہے تو اسے علیحدگی کے فیصلے کا اختیار رہے ورنہ نہیں مگر جمہور علماء کا کہنا ہے کہ حکم مقرر کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ حکم دونوں فریقوں کے معاملات کا جائزہ لے کر صلح یا تفریق کا جو فیصلہ کردیں نافذ ہوگا۔ اس کے لیے میاں بیوی یا حاکم کے اسے الگ اختیار دینے کی ضرورت نہیں۔ قرآن کریم میں زیادہ زور موافقت کرانے کی کوشش پر دیا گیا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس دوسری آیت میں قرآن کریم نے اس فساد عظیم کا دروازہ بند کرنے کے لئے حکام وقت، فریقین کے اولیاء اور حامیوں کو اور مسلمانوں کی جماعتوں کو خطاب کر کے ایک ایسا پاکیزہ طریقہ بتلایا جس سے فریقین کا اشتعال بھی ختم ہوجائے اور الزام تراشی کے راستے بھی بند ہوجائیں اور ان کے آپس میں مصالحت کی راہ نکل آئے اور گھر کا جھگڑا اگر گھر میں ختم نہیں ہوا تو کم از کم خاندان ہی میں ختم ہوجائے عدالت میں مقدمہ کی صورت میں کوچہ و بازار میں یہ جھگڑا نہ چلے۔- وہ یہ کہ ارباب حکومت یا فریقین کے اولیاء یا مسلمان کی کوئی مقتدر جماعت یہ کام کرے کہ ان کے آپس میں مصاحلت کرانے کے لے دو حکم مقرر کریں، ایک مرد کے خاندان سے دوسرا عورت کے خاندان سے اور ان دونوں جگہ لفظ حکم سے تعبیر کر کے قرآن کریم نے ان دونوں شخصوں کے ضروری اوصاف کو بھی متعین کردیا کہ ان دونوں میں جھگڑوں کے فیصلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہو اور یہ صلاحیت ظاہر ہے کہ اسی شخص میں ہو سکتی ہے جو ذی علم بھی ہوا اور دیانتدار بھی۔- خلاصہ یہ ہے کہ ایک حکم مرد کے خانان کا اور ایک عورت کے خاندان کا مقرر کر کے دونوں میاں بیوی کے پاس بھیجے جائیں ........ اب وہاں جا کر یہ دونوں کیا کام کریں اور ان کے اختیارات کیا ہیں ........ قرآن کریم نے اس کو متعین نہیں فرمایا، البتہ آخر میں ایک جملہ یہ ارشاد فرمایا ان یرید اصلاحاً یوفق اللہ بینھما یعنی اگر یہ دونوں حکم اصلاح حال اور باہمی مصالحت کا ارادہ کرینگے تو اللہ تعالیٰ ان کے کام میں امداد فرما دیں گے اور میاں بیوی میں اتفاق پیدا کردیں گے۔- اس جملہ سے دو باتیں مفہوم ہوئیں :- اول تو یہ کہ مصالحت کرانے والے دونوں حکم اگر نیک نیت ہوں اور دل سے چاہیں کہ باہم صلح ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی غیبی امداد ہوگی، کہ یہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے اور ان کے ذریعہ دونوں میاں بیوی کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اتفاق و محبت پیدا فرما دیں گے، اس کے نتیجہ سے یہ بھی سمجھا سکتا ہے کہ جہاں باہمی مصالحت نہیں ہو پاتی تو دونوں حکمین میں سے کسی جانب اخلاص کے ساتھ صلح جوئی میں کمی ہوتی ہے۔- دوسری بات اس جملہ سے یہ بھی سمجھی جاتی ہے کہ ان دونوں حکمین کے بھیجنے کا مقصد میاں بیوی میں صلح کرانا ہے، اس سے زیادہ کوئی کام حکمین کے بھیجنے کے مقصد میں شامل نہیں، یہ دوسری بات ہے کہ فریقین رضا مند ہو کر انہیں دونوں حکموں کو اپنا وکیل، مختار یا ثالث بنادیں اور یہ تسلیم کرلیں کہ تم دونوں مل کر جو فیصلہ بھی ہمارے حق میں دو گے ہمیں منظور ہوگا، اس صورت میں یہ دونوں حکم کلی طور پر ان کے معاملہ کے فیصلہ میں مختار ہوجائیں گے دونوں طلاق پر متفق ہوجائیں تو طلاق ہوجائے گی دونوں مل کر خلع وغیرہ کی کوئی صورت طے کردیں تو وہی فریقین اور مرد کی جانب سے دیئے ہوئے اختیار کی بنا پر عورت کو طلاق دیدیں تو فریقین کو ماننا پڑے گی، سلف میں حسن بصری اور امام ابوحنیفہ کی یہی تحقیق ہے، (٤ وح المعانی وغیرہ)- حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ نہیں تمہیں بھی ان حکمین کو ایسا ہی اختیار دینا چاہئے جیسا عورت نے دیدیا۔- اس واقعہ سے بعض ائمہ مجتہدین نے یہ مسئلہ اخذ کیا کہ ان حکمین کا با اختیار ہونا ضروری ہے جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فریقین سے کہہ کر ان کو با اختیار بنوایا، اور امام اعظم ابوحنیفہ اور حسن بصری نے یہ قرار دیا کہ اگر ان حکمین کا با اختیار ہونا امر شرعی اور ضروری ہوتا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس ارشاد اور فریقین سے رضامندی حاصل کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی، فریقین کو رضامندی کرنے کی کوشش خود اس کی دلیل ہے کہ اصل سے یہ حکمین با اختیار نہیں ہوتے، ہاں، میاں بیوی ان کو مختار بنادیں تو با اختیار ہوجاتے ہیں۔- قرآن کریم کی اس تعلیم سے لوگوں کے باہمی جھگڑوں اور مقدمات کا فیصلہ کرنے کے متعلق ایک نئے باب کا نہایت مفید اضافہ ہوا، جس کے ذریعہ عدالت و حکومت تک پہنچنے سے پہلے ہی بہت سے مقدمات اور جھگڑوں کا فیصلہ برادریوں کی پنچایت میں ہوسکتا ہے۔- دوسرے نزاعات میں بھی حکم کے ذریعہ مصالحت کرائی جائے :۔- حضرات فقہاء نے فرمایا ہے کہ باہم صلح کرانے کے لئے دو حکموں کے بھیجنے کی یہ تجویز صرف میاں بیوی کے جھگڑوں میں محدود نہیں، بلکہ دوسرے نزاعات میں بھی اس سے کام لیا جاسکتا ہے اور لینا چاہئے، خصوصاً جب کہ جھگڑنے والے آپس میں عزیز و رشتہ دار ہوں، کیونکہ فیصلوں سے وقتی جھگڑا تو ختم ہوجاتا ہے، مگر وہ فیصلے دلوں میں کدورت و عداوت کے جراثیم چھوڑ جاتے ہیں جو بعد میں نہایت ناگوار شکلوں میں ظاہر ہوا کرتے ہیں ........ حضرت فاروق اعظم نے اپنے قاصدوں کے لئے یہ فرمان جاری فرما دیا تھا کہ :- ” رشتہ داروں کے مقدمات کو انہی میں واپس کردو تاکہ وہ خود برادری کی امداد سے آپس میں صلح کی صورت نکال لیں، کیونکہ قاضی کا فیصلہ دلوں میں کینہ و عداوت پیدا ہونے کا سبب ہوتا ہے۔ “- فقہائے حنفیہ میں سے قاضی قدس علاء الدین طرابلسی نے اپنی کتاب معین الحکام میں اور ابن سحنہ نے لسان الحکام میں اس فرمان فاروقی کو ایسے پنچایتی فیصلوں کی خاص بنیاد بنایا ہے جن کے ذریعہ فریقین کی رضامندی سے صلح کی کوئی صورت نکالی جائے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ اگرچہ فاروقی فرمان میں یہ حکم رشتہ داروں کے باہمی جھگڑوں سے متعلق ہے، مگر اس کی جو علت و حکمت اسی فرمان میں مذکور ہے کہ عدالتی فیصلے دلوں میں کدورت پیدا کردیا کرتے ہیں، یہ حکمت رشتہ دار اور غیر رشتہ داروں میں عام ہے، کیونکہ باہمی کدورت اور عداوت سے سب ہی مسلمان کو بچانا ہے، اس لئے حکام اور قضاة کے لئے مناسب یہ ہے کہ مقدمات کی سماعت سے پہلے اس کی کوشش کرلیا کریں کہ کسی صورت سے ان کے آپس میں رضامندی کے ساتھ مصالحت ہوجائے۔- غرض ان دو آیتوں میں انسان کی خانگی اور عائلی زندگی کا ایک ایسا جامع اور مکمل نظام ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اگر اس پر پورا عمل ہوجائے تو دنیا کے اکثر جھگڑے اور جنگ وجدال مٹ جائیں، مرد اور عورتیں سب مطمئن ہو کر اپنی خانگی زندگی کو ایک جنت کی زندگی محسوس کرنے لگیں اور خانگی جھگڑوں سے جو قبائلی اور پھر جماعتی اور ملکی جھگڑے اور جنگیں کھڑی ہوجاتی ہیں ان سب سے امن ہوجائے۔- آخر میں پھر اس عجیب و غریب قرآنی نظام محکم پر ایک اجمالی نظر ڈالئے جو اس نے گھریلو جھگڑوں کے ختم کرنے کے لئے دنیا کو دیا ہے :- ١۔ گھر کا جھگڑا گھر ہی میں تدریجی تدبیروں کے ساتھ چکا دیا جائے۔- ٢۔ یہ صورت ممکن نہ رہے تو حکام یا برادری کے لوگ دو حکموں کے ذریعہ ان میں مصالحت کرا دیں تاکہ گھر میں نہیں تو خاندان ہی کے اندر محدود رہ کر جھگڑا ختم ہو سکے۔- ٣۔ جب یہ بھی ممکن نہ رہے تو آخر میں معاملہ عدالت تک پہونچے، وہ دونوں کے حالات و معاملات کی تحقیق کر کے عادلانہ فیصلہ کرے۔- آخر آیت میں ان اللہ کان علیماً خبیراً ، فرما کر دونوں حکموں کو بھی متنبہ فرما دیا کہ تم کوئی بےانصافی یا کج روی کرو گے تو تم کو بھی ایک علیم وخبیر سے سابقہ پڑنا ہے اس کو سامنے رکھو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِہِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَحَكَمًا مِّنْ اَھْلِھَا۝ ٠ۚ اِنْ يُّرِيْدَآ اِصْلَاحًا يُّوَفِّقِ اللہُ بَيْنَہُمَا۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلِــيْمًا خَبِيْرًا۝ ٣٥- خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- شقاق - والشِّقَاقُ : المخالفة، وکونک في شِقٍّ غير شِقِ صاحبک، أو مَن : شَقَّ العصا بينک وبینه . قال تعالی: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَيْنِهِما[ النساء 35] ، فَإِنَّما هُمْ فِي شِقاقٍ [ البقرة 137] ، أي : مخالفة، لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي [هود 89] ، وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتابِ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ [ البقرة 176] ، مَنْ يُشاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ- [ الأنفال 13] ، أي : صار في شقّ غير شقّ أولیائه، نحو : مَنْ يُحادِدِ اللَّهَ [ التوبة 63] ، ونحوه : وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ [ النساء 115] ، ويقال : المال بينهما شقّ الشّعرة، وشَقَّ الإبلمة ، أي : مقسوم کقسمتهما، وفلان شِقُّ نفسي، وشَقِيقُ نفسي، أي : كأنه شقّ منّي لمشابهة بعضنا بعضا، وشَقَائِقُ النّعمان : نبت معروف . وشَقِيقَةُ الرّمل :- ما يُشَقَّقُ ، والشَّقْشَقَةُ : لهاة البعیر لما فيه من الشّقّ ، وبیده شُقُوقٌ ، وبحافر الدّابّة شِقَاقٌ ، وفرس أَشَقُّ : إذا مال إلى أحد شِقَّيْهِ ، والشُّقَّةُ في الأصل نصف ثوب وإن کان قد يسمّى الثّوب کما هو شُقَّةً.- ( ش ق ق ) الشق - الشقاق ( مفاعلہ ) کے معنی مخالفت کے ہیں گویا ہر فریق جانب مخالف کو اختیار کرلیتا ہے ۔ اور یا یہ شق العصابینک وبینہ کے محاورہ سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی باہم افتراق پیدا کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَيْنِهِما[ النساء 35] اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں ان بن ہے ۔ فَإِنَّما هُمْ فِي شِقاقٍ [ البقرة 137] تو وہ تمہارے مخالف ہیں ۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي [هود 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کرادے ۔ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتابِ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ [ البقرة 176] وہ ضد میں ( آکر نیگی سے ) دور ہوگئے ) ہیں ۔ مَنْ يُشاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ الأنفال 13] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے ۔ یعنی اس کے اولیاء کی صف کو چھوڑ کر ان کے مخالفین کے ساتھ مل جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : مَنْ يُحادِدِ اللَّهَ [ التوبة 63] یعنی جو شخص خدا اور رسول کا مقابلہ کرتا ہے ۔ وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ [ النساء 115] اور جو شخص پیغمبر کی مخالفت کرے ۔ المال بیننا شق الشعرۃ اوشق الابلمۃ یعنی مال ہمارے درمیان برابر برابر ہے ۔ فلان شق نفسی اوشقیق نفسی یعنی وہ میرا بھائی ہے میرے ساتھ اسے گونہ مشابہت ہے ۔ شقائق النعمان گل لالہ یا اس کا پودا ۔ شقیقۃ الرمل ریت کا ٹکڑا ۔ الشقشقۃ اونٹ کا ریہ جو مستی کے وقت باہر نکالتا ہے اس میں چونکہ شگاف ہوتا ہے ۔ اس لئے اسے شقثقۃ کہتے ہیں ۔ بیدہ شقوق اس کے ہاتھ میں شگاف پڑگئے ہیں شقاق سم کا شگاف فوس اشق راستہ سے ایک جانب مائل ہوکر چلنے والا گھوڑا ۔ الشقۃ اصل میں کپڑے کے نصف حصہ کو کہتے ہیں ۔ اور مطلق کپڑے کو بھی شقۃ کہا جاتا ہے ۔ - بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، - فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر - ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا - پس بعث دو قمخ پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) - دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ - دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے - حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - صلح - والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] - ( ص ل ح ) الصلاح - اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔- وفق - الوِفْقُ : المطابقة بين الشّيئين . قال تعالی: جَزاءً وِفاقاً [ النبأ 26] والتَّوْفِيقُ نحوه لكنه يختصّ في التّعارف بالخیر دون الشّرّ. قال تعالی: وَما تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ [هود 88] - ( و ف ق ) الوفق - ۔ دو چیزوں کے درمیان مطابقت اور ہم آہنگی ہونے کو کہتے ہیں قرآن نے اعمال کے نتائج کو ۔۔۔ جَزاءً وِفاقاً [ النبأ 26] ( یہ ) بدلہ ہے پور اپورا ۔ توفقل یہ متعدی ہے اور عرف میں یہ خبر کے ساتھ مخصوص ہوچکا ہے ( یعنی اسباب کا مقصد کے مطابق مہیا کردینا ) اور شر میں استعمال نہیں ہوتا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَما تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ [هود 88] اور مجھے توفیق کا ملنا خدا ہی کے فضل سے ہے ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (وان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکمامن اھلہ وحکما من اھلھا، اور اگر تمہیں کہیں میاں اور بیوی کے درمیان تعلقات بگڑجانے کا اندیشہ ہو تو ایک حکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو) اس آیت کے مخاطب کون ہیں اس بارے میں اختلاف رائے ہے ، سعید بن جبیر اور ضحاک کا قول ہے یہ حاکم اور سلطان ہے جس کے پاس میاں بیوی اپنامقدمہ لے کرجاتے ہیں سدی کا قول ہے یہ میاں اور بیوی ہیں۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (واللاتی تخافون نشوزھن) میں شوہروں کے خطاب ہے ، کیونکہ آیت کے تسلسل و ترتیب میں اس پر دلالت موجود ہے ، جو قول باری (واھجروھن فی المضاجع) کی صورت میں ہے اور قول باری (وان خفتم شقاق بینھما) میں بہتر بات یہی ہے یہ اس حاکم کو خطاب ہوجومقدمے کے دونوں فریق کے جھگڑے پر غور کرتا اور ظلم وتعدی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔- یہ اس لیے کہ شوہر کا معاملہ بیان کرنے کے بعد اسے اپنی بیوی کو سمجھانے ، نصیحت کرنے اور اللہ سے ڈرنے کا حکم ملا، پھر باز نہ آنے پر خواب گاہ میں علیحدگی اختیار کرنے کے لیے کہا گیا اور پھر بھی باز نہ آنے اور سرکشی پر قائم رہنے کی صورت میں پٹائی کا حکم دیا گیا ہے اس کے بعد شوہر کے لیے اس کے سو اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا، کہ وہ اپنامقدمہ فیصلے کے لیے اس شخص کے پاس لے جائے جوان دونوں میں سے مظلوم کی داد رسی کردے اور اس کا فیصلہ دونوں پر نافذ ہوجائے۔- شعبہ نے عمرو بن مرہ سے نقل کیا ہے انہوں نے سعید بن جبیر سے حکمین کے متعلق دریافت کیا توا نہیں غصہ آگیا کہنے لگے کہ میں تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوا تھا (دراصل سعید کو غلط فہمی ہوئی کہ سائل ان سے جنگ صفین کے نتیجے میں مقرر ہونے والے حکمین کے متعلق پوچھ رہا ہے۔- عمروبن مرہ نے کہا میں میاں بیوی کا جھگڑا نمٹانے والے حکمین کے متعلق معلوم کرنا چاہتاہوں یہ سن کر سعید بن جبیر نے فرمایا جب میاں بیوی کے درمیان لے دے شروع ہوجائے تورشتہ داروں کو چاہیے کہ دوحکم مقرر کردیں۔- یہ دونوں اس فریق کے پاس جائیں جس کی طرف جھگڑے کی ابتداء ہوئی تھی اور اسے سمجھائیں بجھائیں اگر وہ ان کی بات مان لے توفبھا، ورنہ پھر دوسرے فریق کے پاس جائیں اگر وہ ان کی بات سن کر ان کے حسب منشاء رویہ اپنانے پر رضامند ہوجائے توٹھیک ورنہ ان دونوں کے بارے میں وہ اپنافیصلہ سنادیں ، ان کا جو فیصلہ ہوگا وہ جائز ہوگا اور درست ہوگا۔ عبدالوہاب نے روایت کی ہ یکہ انہیں ایوب نے سعید بن جبیر سے خلع کی خواہش مند بیوی کے متعلق بیان کیا کہ شوہر پہلے اسے سمجھائے اگر وہ باز آجاے توٹھیک ہے ورنہ اس سے علیحدہ رہناشروع کردے اگر پھر بھی باز نہ آئے تو اس کی پٹائی کرے اور اگر پھر بھی وہ اپناسابقہ رویہ ترک نہ کرے توسلطان کے پاس اس کا معاملہ لے جائے ، سلطان خاوند اور بیوی کے رشتہ داروں میں سے ایک ایک حکم مقرر کردے گا۔ بیوی کے خاندان سے مقرر ہونے والاحکم شوہر کی کارگذاریاں گنوائے گا اور شوہر کے خاندان سے مقرر ہونے والاحکم بیوی کی کارگذاریاں بیا کرے گا۔- ان بیانات کی روشنی میں جس طریق کی طرف سے زیادہ ظلم نظر آئے گا اسے حکمین سلطان کے حوالے کردیں گے سلطان اسے ظلم کرنے سے روک دے گا، اگر عورت کی سرکشی ثابت ہوجائے گی تو مرد کو خلع کرلینے کا حکم دے دیاجائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ طریق کار اس لحاظ سے عنین (نامرد) مجبوب (جس کا عضو تناسل کٹ چکا ہو) اور ایلاء کے سلسلے میں اختیار کیے جانے والے طریق کار کی نظیر ہے کہ ان کے معاملات پر بھی سلطان سوچ بچار کرتا اور اللہ کے حکم سے بموجب ان کا فیصلہ کرتا ہے۔- جب میاں بیوی میں اختلافات بڑھ جائیں اور شوہر اپنی بیوی کی سرکشی اور نافرمانی کی شکایت کرے اور بیوی شوہر کے ظلم وستم اور اپنے حقوق کی پائمالی کی شاکی ہوتوایسی صورت میں حاکم میاں بیوی دونوں کے رشتہ داروں میں سے ایک ایک حکم مقرر کردے گاتا کہ وہ دونوں مل کر ان دونوں کے معاملات کی چھان بین کردیں اور اس کے نتائج سے حاکم کو آگاہ کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے خاندان سے ایک ایک حکم لینے کا حکم اس لیے دیاتا کہ ان دونوں کے اجنبی ہونے کی صورت میں کسی ایک کی طرف ان کے میلان کی بدگمانی پیدانہ ہوجائے لیکن جب ایک حکم مرد کی طرف سے اور دوسرا عورت کی طرف سے مقرر ہوگاتوایسی بدگمانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور ہر حکم اپنے فریق کی طرف سے بات کرے گا۔- قول باری (فابعثوا حکما من اھلہ وحکما من اھلھا) کی اس پر دلالت ہورہی ہے کہ شوہر کے خاندان سے مقرر ہونے والاحکم شوہر کا وکیل ہوگا اور بیوی کے خاندان والاحکم بیوی کا وکیل ہوگا، گویا اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا کہ شوہر کی طرف سے ایک شخص کو اوربیوی کی طرف سے ایک شخص کو حکم مقرر کردو۔- یہ بات ان لوگوں کے قول کے بطلان پر دلالت کرتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ حکمین کو یہ اختیار ہے کہ میاں بیوی کے کہے بغیر وہ اگر چاہیں تو دونوں کو یکجا رکھیں اور اگر چاہیں توانمیں علیحدگی کرادیں۔ اسماعیل بن اسحاق کا خیال ہے کہ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب سے یہ منقول ہے کہ ان حضرات کے حکمین کے متعلق کوئی علم نہیں تھا، ابوبکرجصاص نے کہا کہ یہ ان حضرات کے خلاف ایک جھوٹا بیان ہے انسان کو اپنی زبان کی حفاظت کی کس قدر ضرورت ہے خاص طور پر جب وہ اہل علم کی طرف سے کوئی بات نقل کررہاہو۔- قول باری ہے (مایلفظ من قول الالدیہ رقیب عتید) وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالتا مگر یہ کہ اس کے آس پاس ہی ایک تاک میں لگا رہنے والاتیار ہے) جس شخص کو اس بات کا علم ہو کہ اس کی کہی ہوئی باتوں پر مواخذہ بھی ہوگا، اس کی باتیں کم ہوتی ہیں اور جن باتوں سے اس کا تعلق نہیں ہوتا انکے متعلق وہ سوچ سمجھ کر اپنی زبان کھولتا ہے۔- زوجین کے درمیان اختلافات اور کشیدگی پیدا ہونے کی صورت میں حکمین مقرر کرنا کتاب اللہ کامنصوص حکم ہے تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ان حضرات کی نظروں سے یہ مخفی رہ جائے جبکہ علم دین اور شریعت کے معاملات میں ان حضرات کو جواونچا مقام حاصل ہے وہ سب پر عیاں ہے ، بس بات صرف اتنی ہے کہ ان حضرات کے نزدیک حکمین کو زوجین کے وکلا کا کردار اداکرنا چاہیے ایک شوہر کا وکیل بن جائے اور دوسرا بیوی کا، حضرت علی (رض) سے اسی طرح کی روایت ہے۔- ابن عیینہ نے ایوب سے انہوں نے ابن سیرین سے انہوں نے عبیدہ سے روایت کی ہے حضرت علی کے پاس ایک دفعہ ایک مرد اور اس کی بیوی آئی ہر فریق کی حمایت میں بھی لوگوں کی ایک ایک ٹولی ساتھ تھی ، آپ نے ان کے متعلق پوچھاتولوگوں نے بتایا کہ ان دونوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ یہ سن کر آپ نے آیت (فابعثوا حکما من اھلہ، ، ایک حکم مرد کے رشتہ داروں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کردو اگر وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا) ۔- پھر حضرت علی نے دونوں حکم سے مخاطب ہوکر فرمایا تمہیں معلوم بھی ہے کہ تمہاری کیا ذمہ داری ہے تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ تم ان دونوں کے عقد زوجیت میں باقی رکھناچاہو تو باقی رہنے دو اوراگر نہیں علیحدہ کردینے میں تمہیں مصلحت نظر آئے توا نہیں علیحدہ کردو۔ یہ سن کر عورت نے کہا میں اللہ کی کتاب کے فیصلے پر راضی ہوں، مرد کہنے لگاجہاں تک علیحدگی کا تعلق ہے میں اس کے لیے رضامند نہیں ہوں حضرت علی نے یہ سن کر مرد سے فرمایا، تم جھوٹ کہتے ہو بخدا تم میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر نہیں جاسکتے جب تک تم اس بات کا اقرار نہ کروجس کا تمہاری بیوی نے اقرار کیا ہے۔ حضرت علی نے یہ واضح کردیا کہ حکمین کا قول میاں بیوی کی رضامندی پر منحصر ہے۔- ہمارے اصحاب نے یہ کہا ہے کہ حکمین کو ان دونوں کے درمیان اس وقت تک علیحدگی کرانے کا اختیار نیہں ہے جب تک شوہراس پر رضامند نہ ہوجائے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اگر شوہر بیوی کے ساتھ بدسلوکی کا اقرار کرے تو بھی ان دونوں کے درمیان علیحدگی نہیں کرائی جاسکتی۔ اور حکمین کے فیصلے سے قبل حاکم بھی شوہر کو طلاق دینے پر مجبور نہیں کرسکتا، اسی طرح اگر عورت سرکشی اور نافرمانی کا اقرار کرے توحاکم اس سے خلع کر الینے پر مجبور نہیں کرسکتا، اور نہ ہی مہر کی واپسی کے لیے اس پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔- جب حکمین یعنی ثالثوں کے تقرر سے پہلے میاں بیوی دونوں کے متعلق مذکورہ بالاحکم ہے ، تو ان کے تقرر کے بعد بھی یہی ہوناچا ہے کہ شوہر کی رضامندی اور اس کی طرف سے اس معاملے کی حرکات کے لیے وکیل بنائے بغیرحکمین کا اس کی بیوی کو طلاق دے دیناجائز نہ ہو، اس طرح عورت کی رضامندی کے بغیر اس کی ملکیت سے مہر کی رقم نکلوا بھی درست نہ ہو۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ حکمین کی طرف سے خلع کرانے کا عمل زوجین کی رضامندی کے ساتھ ہی درست ہوسکتا ہے ہمارے اصحاب کا یہ بھی قول ہے کہ میاں بیوی کی رضامندی کے بغیر حکمین کو ان دونوں کے درمیان تفریق کا اختیار نہیں ہوتا۔ کیونکہ جب حاکم وقت کو بھی اس کا اختیار نہیں ہے توحکمین کو اس کا اختیار کیسے ہوسکتا ہے حکمین تو دونوں کے وکیل ہوتے ہیں ایک حکم بیوی کو وکیل ہوتا ہے اور دوسرا شوہر کا اگر شوہر نے خلع یاتفریق کے سلسلے میں معاملہ اس کے سپرد کردیاہو۔ اسماعیل کا قول ہے کہ وکیل حکم یعنی ثالت نہیں ہوتاجوشخص بھی حکم بنے گا شوہر پر اس کا حکم چلنا جائز ہوگاخواہ شوہر اس کے حکم کو تسلیم کرنے سے انکارہی کیوں نہ کرتا رہے۔- اسماعیل کا یہ قول ایک مغالطہ ہے اس لیے کہ اس نے جو وجہ بیان کی ہے وہ وکالت کے معنی کے منافی نہیں ہے کیونکہ جب کوئی کسی کا وکیل بن جاتا ہے تو وکالت سے متعلقہ معاملے میں موکل پر اس کا حکم چلنا جائز ہوجاتا ہے ، اس لیے میاں پر حکمین پرچلنے کا جواز نہیں وکالت کے دائرے سے خارج نہیں کرتا۔- کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو شخص کسی تیسرے آدمی کو اپنے جھگڑے کے تصیفے کے لیے حکم یاثالث بنالیتے ہیں اور اس صورت میں جھگڑا طے کرانے کے لحاظ سے اس ثالث کے حیثیت ان دونوں کے وکیل کی ہوتی ہے پھر جب ثالث کوئی فیصلہ کردیتا ہے ان دونوں کی آپس میں صلح ہوجاتی ہے اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ زوجین کی ناچاقی کے سلسلے میں مقرر ہونے والے ثالثوں کی کاروائی اور ان کی کوشش وکالت کے مفہوم سے کسی طرح بھی جدا نہیں ہوتی ، دو شخصوں کے جھگڑے کے سلسلے میں ثالث کا فیصلہ ایک لحاظ سے حاکم کے فیصلے کے مشابہ ہوتا ہے۔- اور ایک لحاظ سے وکالت کے مشابہ ہوتا ہے جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے جبکہ میاں بیوی کی ناچاقی کے سلسلے میں تگ ودو کرنے والے ثالثوں کے کردار کی بنیاد خالص وکالت کے مفہوم پر ہوتی ہے جس طرح وکالت کی دیگر صورتوں کے اندر ہوتا ہے۔- اسماعیل نے کہا کہ وکیل حکم یاثالث نہیں کہلاسکتا حالانکہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح اسماعیل نے سوچا ہے کیونکہ اس خاص صورت میں وکیل کو ثالث کا نام محض اس لیے دیا گیا ہے تاکہ اس کی ذریعے اس وکالت کی اور تاکید ہوجائے جو اس کے سپرد کی گئی ہے۔ اسماعیل نے کہا ہے کہ حکمین کے حکم کامیاں بیوی دونوں پرچلنا جائز ہوتا ہے خواہ وہ اسے تسلیم کرنے سے انکار ہی کیوں نہ کرتے رہیں ، یہاں بھی بات اس طرح نہیں ہے ، اگر میاں بیوی انکار کردیں توحکمین کا حکم ان پر چل نہیں سکتا کیونکہ یہ دونوں وکیل ہوتے ہیں بلکہ حاکم کو ضرورت پیش آتی ہے کہ وہ ان دونوں کو میاں بیوی کے معاملے میں غور کرنے اور یہ معلوم کرنے کے لیے کہے کہ ان دونوں میں سے حق کے راستے سے کون ہٹا ہوا ہے۔ پھر اپنی جمع شدہ معلومات کو حاکم کے سامنے پیش کردیں اور اگر اس بارے میں دونوں کے درمیان اتفاق رائے ہوتوان کی بات قبول کرلی جائے گی اور میاں بیوی میں سے جو بھی ظالم ثابت ہوگا حاکم اسے ظلم کرنے سے روک دے گا۔- اس لیے یہ ممکن کہ انہیں اس بنا پر حکمین کا نام دیا گیا ہو کہ زوجین کے متعلق ان کا قول قبول کرلیاجاتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہو کہ جب زوجین کی طرف سے وکالت کرنے کا معاملہ ان کے سپرد کردیاجاتا ہے اور اسے ان کی اپنی صوابدید اور معاملے کو سلجھانے کے لیے ان کی کوشش اور تگ ودود پر چھوڑ دیاجاتا ہے توخلع کرانے کی بنا پر انہیں حکمین کہا گیا ہوکیون کہ حکم یعنی ثالت کا اسم معاملے کو سلجھانے کے لیے تگ ودو کرنے نیز فیصلے کو عدل وانصاف کے ساتھ نافذ کرانے کا مفہوم ادا کرتا ہے۔- جب اس معاملے کو ان کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہو اور انہوں نے میاں بیوی کو رشتہ دار ازدواج میں بندھنے رہنے یا ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرلینے کے سلسلے میں اپنافیصلہ سنادیا ہو اور وہ فیصلہ نافذ بھی ہوگیا ہوتوعین ممکن ہے کہ اس بنا پر انہیں حکمین کے نام سے موسوم کیا گیا ہو، جس معاملے کو سلجھانے کا کام ان کے سپرد کیا گیا تھا اس کے متعلق خیرواصلاح کے نقطہ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے کسی فیصلے پر پہنچ جانے کے بعد زوجین پرس کے نفاظ کے سارے عمل میں ان کی حیثیت حاکم وقت کی حیثیت کے مشابہ ہے اسی بنا پر انہیں حکمین کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے۔- لیکن اس کے باوجود وہ زوجین کے وکیل ہی ہوں گے کیونکہ یہ بات تو بالکل درست نہیں ہے کہ زوجین کی اجازت کے بغیر کسی کو ان پر خلع اور طلاق جیسے امور کی ولایت حاصل ہوجائے ، اسماعیل کا خیال کہ حضرت علی سے مروی واقعہ میں جس کا گذشتہ سطور میں ذکر ہوچکا ہے شوہر کی تردید آپ نے اس لیے کی تھی کہ وہ کتاب اللہ کے فیصلے پر رضامندی نہیں ہوا، تھا، حضرت علی نے اس کی گرفت اس لیے نہیں کی تھی کہ اس نے وکیل نہیں بنایاتھابل کہ اس لیے گرفت کی تھی کہ وہ کتاب اللہ کے فیصلے پر ضامند نہیں ہوا تھا۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں یہ بات اس طرح نہیں ہے کہ کیونکہ اس شخص نے جب یہ کہاجہاں تک علیحدگی کا تعلق ہے تو اس کے لیے میں رضامند نہیں ہوں، تو حضرت علی نے جواب میں فرمایا تھا کہ تم جھوٹ کہتے ہو، بخدا اب تم میرے ہاتھ سے نکل کر نہیں جاسکتے جب تک اس طرح اقرار نہ کرو جس طرح تمہاری بیوی نے اقرار کیا ہے ۔- حضر ت علی نے علیحدگی کے معاملہ میں وکیل مقرر نہ کرنے پرس کی سرزنش کی اور اسے اس معاملے کے لیے وکیل پکڑنے کا حکم دیا، اس شخص نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ میں کتاب اللہ کے فیصلے پر رضامند نہیں ہوں، کہ پھر حضرت علی اس کی سرزنش کرتے ، اس نے تو یہ کہا تھا کہ میں علیحدگی پر رضامند نہیں ہوں جبکہ اس کی بیوی تحکیم پر رضامند ہوگئی تھی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بیوی سے علیحدگی کا فیصلہ شوہر پر اس وقت تک نافذ نہیں ہوسکتا جب تک شوہر نے اس کی وکالت کا معاملہ سپرد نہ کردیا ہو۔- اسماعیل کا قول ہے جب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، (ان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بینھما) توہ میں اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ حکمین اپناحکم اور فیصلہ نافذ کرائیں گے اور اگر انہوں نے فیصلہ کرتے وقت حق وانصآف کو پیش نظر رکھا تو اللہ تعالیٰ انہیں صحیح فیصلے کی توفیق عطا فرمائے گا۔- اسماعیل کا کہنا ہے کہ ایسی بات وکیلوں کو نہیں کہی جاتی کیونکہ وکیل کے لیے اس معاملے کے دائرے سے باہر قدم نکالنا درست نہیں ہوتا جس کے لیے اسے وکیل مقرر کیا گیا ہو۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اسماعیل نے جو کچھ کہا ہے وہ وکالت کے مفہوم اور معنی کے منافی نہیں ہے کیونکہ جب دونوں وکیلوں کو یہ معاملہ اس طرح سپرد کردیاجائے کہ وہ خیروصلاح کے حصول کی تگ ودو کے بعد اپنی صوابدید کے مطابق زوجین کے رشتہ ازدواج کو باقی رکھنے یا اسے منقطع کرنے کا جو بھی فیصلہ کریں اس میں ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی سمجھ بوجھ سے پوری طرح کام لے کر فیصلے کا اعلان کریں۔- اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ اگر ان کی نیتیں درست ہوں گی تو اللہ تعالیٰ بھی انہیں صلاح وخیر کی توفیق عطا فرمائے گا، اس لیے وکیل اور حکم یعنی ثالث میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ ہر وہ شخص جسے اس قسم کا کوئی معاملہ بھی خیروصلاح کو پیش نظر رکھتے ہوئے سلجھانے کے لیے حوالے کردیاجائے اسے توفیق ایزدی کی وہ صفت ضرور لاحق ہوجاتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے آیت زیر بحث میں بیان کی ہے۔ اسماعیل نے مزید کہا کہ حضرت ابن عباس ، مجاہد، ابوسلمہ، طاؤس، اور ابراہیم نخعی سے مروی ہے حکمین جو بھی فیصلہ کردیں وہ درست ہوگا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک ایسا ہی ہے ، لیکن ان حضرات کا یہ قول اسماعیل کے قول کی موافقت پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ ان حضرات نے یہ نہیں فرمایا کہ خلع اور تفریق کے سلسلے میں زوجین کی رضامندی کے بغیر حکمین کی کاروائی درست ہوگی، بلکہ یہاں اس بات کی گنجائش ہے کہ ان حضرات کا مسلک ہی یہ ہو کہ حکمین کو خلع اور تفریق کا اختیار ہی نہیں ہوتا، جب تک زوجین وکالت کے قیام کے ذریعے اس بارے میں اپنی رضامندی کا اظہار نہ کردیں اور وہ اس چیز کے حصول کے بغیر حکم ہی ہوتے۔- ہاں اگر زوجین کی رضامندی حاصل ہوجائے تو اس کے بعد اس بارے میں ان کا ہر فیصلہ درست ہوگا، ذراغور کیجئے حکمین کے لیے شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع کا فیصلہ دینا اور بیوی کی رضامندی کے بغیر اس کی ملکیت سے مال نکلوانا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (واتوالنساء صدقاتھن نحلہ، فان طبن لکم عن شی منہ نفسا فکلوہ ھنیا مریا) ۔ نیز فرمایا (ولایحل لکم ان تاخذوا ممااتیتموھن شیاء۔۔ تا۔۔۔۔ فیماافتدت بہ) جس خوف کا اس آیت میں ذکر ہے آیت (فابعثوا حکما من اھلہ وحکما من اھلھا) میں بھی وہی مراد ہے ، اللہ تعالیٰ نے بیوی کو دی ہوئی چیزوں میں کسی چیز کے واپس لینے کی شوہر کو ممانعت کردی لیکن اگر دونوں کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ وہ اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اس اندیشے کی شرط پر عورت کے لیے جس چیز کے بدلے چاہے اسے خلع حاصل کرلینے کی اجازت دے کر مرد کے لیے اسے لے لینا حلال قرار دے دیا۔- اس صورت حال کے تحت زوجین کی رضامندی کے بغیر حکمین کے لیے خلع ی اطلاق واقع کردینا کس طرح جائز ہوسکتا ہے ، جبکہ اللہ تعالیٰ نے منصوص طریقے سے یہ فرمادیا کہ دی ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز واپس لینا شوہر کے لیے حلال نہیں ہے الایہ کہ وہ اپنی خوشی سے کوئی چیز اسے واپس کردے۔ اس لیے جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ شوہر کی طرف سے خلع کے معاملے میں توکیل کے بغیر حکمین کو خلع کرادینے کا اختیار ہے ، وہ نص کتاب کی مخالفت کررہے ہیں۔- نیز ارشاد باری ہے (ولاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل وتدلوا بھا الی الحکام) اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمادیا کہ حاکم اور غیرحاکم دونوں اس حکم میں یکساں ہیں کہ کوئی شخص کسی کا مال لے کر کسی دوسرے کودے دینا کا اختیار نہیں رکھتا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لایحل مال امری مسلم الابطیبۃ من نفسہ) کسی مسلمان کا مال کسی کے لیے حلال نہیں ہے مگر یہ کہ وہ اپنی خوشی سے کچھ دے دے ) آپ کا یہ بھی ارشاد ہے (فمن قضیت لہ من حق اخیہ بشئی فانما قطع لہ قطعۃ من النار) جس شخص کو میں اپنے فیصلے کے ذریعے اس کے بھائی کا کوئی حق دے دوں گا تو گویا میں جہنم کی آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ کر اس کے حوالے کردوں گا) ۔- اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ حاکم کو یہ اختیار نہیں کہ وہ بیوی کے مال کا کوئی حصہ اس سے لے کر شوہر کے حوالے کردے ، نیزا سے یہ اختیار بھی نہیں کہ شوہر کی طرف سے وکیل مقرر ہوئے بغیر اور اس کی رضامندی سے بالابالابیوی پر طلاق واقع کردے۔ یہ کتاب وسنت اور اجماع امت کا حکم ہے جس کے رو سے حاکم کے لیے درج بالا حقوق کے علاوہ دوسرے حقوق کو ساقط کردینا اور انہیں کسی اور کی طرف منتقل کردینا بھی جائز نہیں ہے الایہ کہ حق والا بھی اس پر رضامند ہوجائے۔- اب ذرا حکمین کی حیثیت ملاحظہ کیجئے انہیں تو صرف زوجین کے درمیاں صلح کرانے اور ان میں سے جو ظلم کررہا ہو اس کی نشاندہی کرنے کے لیے مقرر کیا جاتا ہے جیسا کہ سعید نے قتادہ سے قول باری (وان خفتم شقاق بینھما) کے سلسلے میں روایت کی ہے کہ حکمین کا تقرر صرف صلح کرانے کی غرض سے کیا جاتا ہے۔ اگر انہیں اس میں ناکامی ہوجائے وہ ان میں سے جو ظالم ہوگا اس کی اور اس کے ظلم کی نشان دہی کردیں گے ، ان کے ہاتھوں میں زوجین کی علیحدگی نہیں ہوتی اور نہ ہی انہیں اس کا اختیار ہوتا ہے ، عطاء بن ابی رباح سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ اگر انہیں اس میں ناکامی ہوجائے تو وہ ان میں سے جو ظالم ہوگا اس کی اورا سکے ظلم کی نشان دہی کردیں گے ان کے ہاتھوں میں زوجین کی علیحدگی نہیں ہوتی اور نہ انہیں اس کا اختیار ہوتا ہے عطاء بن ابی رباح سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت کے ضمن میں یہ دلالت موجود ہے کہ حکمین کو زوجین کے درمیان علیحدگی کرادینے کا اختیار نہیں ہے یہ دلالت آیت کے ان الفاظ (ان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بینھما) میں موجود ہے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر حکمین زوجین کے درمیان علیحدگی کراناچا ہیں، حکمین تو صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ زوجین میں سے جس کی طرف سے ظلم ہورہا ہوا سے سمجھائیں اور اس کی سرزنش کریں نیز حاکم کو اس کی اطلاع دیں تاکہ وہ اسے ظلم سے روک دے ، اگر شوہر ظلم کررہا ہو تو اس کی سرزنش کرتے ہوئے یہ تلقین کریں کہ تمہارے لیے اپنی بیوی کو اس نیت سے ایذادینا حلال نہیں ہے کہ وہ خلع کرالے۔ اگر ظلم بیوی کی طرف سے ہورہا ہو تو اس سے یہ کہیں ، اب تمہارے لیے فدیہ یعنی خلع کرالینا حلال ہے ، حکمین کے سامنے عورت کی سرکشی اور نفرت کے ظہور کی بنا پر شوہر کو اپنی بیوی سے خود خلع کی رقم وصول کرنے کے سلسلے میں معذور سمجھاجائے گا، جب زوجین میں ہر ایک کو اس کے متعلقہ حکم یعنی تفریق اور خلع کی سمت موڑ دیاجائے گا تو اس پوری کاروائی میں حکمین کی حیثیت زوجین کے وکلاء جیسی ہوجائے گی جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں۔- اب ان کے لیے جائز ہوگا کہ اگر بہتر سمجھیں توخلع کرادیں اور اگر انہیں زوجین کے درمیان رشتہ ازدواج باقی رکھنے میں بھلائی نظرآئے توصلح کرادیں، اس طرح حکمین ایک حالت میں گواہوں کا کردار ادا کرتے ہیں اور ایک حالت میں صلح کنندگان ، پھر ایک حالت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والوں کا اور اگر انہیں زوجین میں علیحدگی کرانے اور رشتہ زوجیت باقی رکھنے کا کام سپرد کردیا گیا ہوتویہ ان کے وکیلوں کا کردار ادا کرسکتے ہیں ، رہ گیا یہ قول کہ حکمین زوجین کی طرف سے وکیل مقرر ہوئے بغیر ان کے درمیان خلع کر اسکتے ہیں اور انہیں ایک ودسرے سے علیحدہ کر اسکتے ہیں یہ تو ایک زبردستی کی بات ہے جو کتاب وسنت سے خارج ہے ۔ واللہ اعلم۔- سلطان اور حاکم سے بالابالا خلع کرالینا - امام ابوحنیفہ ، امام یوسف ، امام محمد، زفر، امام مالک ، حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ سلطان کے لیے بغیر خلع جائز ہے ، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، اور حضرت ابن عمر سے اسی قسم کی روایت منقول ہے۔- حسن اور ابن سیرین کا قول ہے خلع صرف سلطان کے پاس جاکر ہوسکتا ہے ، سلطان کے بغیرخلع کے وقوع پر قول باری (فان طبن لکم عن شئی من نفسا فکلوہ ھنیا مریا) دلالت کرتا ہے کیونکہ اس کا ظاہر عورت سے خلع کے طور پر یا کسی اور وجہ سے مال لینے کے جواز کا مقتضی ہے نیز قول باری ہے (فلاجناح علیھما فیماافتدت بہ) اس میں سلطان کے پاس جاکر فدیہ دینے کی شرط نہیں ہے نیز جس طرح عقد نکاح اور دوسرے تمام عقود وسلطان کے پاس جاکر اورا سکے پاس گئے بغیر جائز ہوجاتے ہیں اسی طرح خلع بھی جائز ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ان عقود کی اصولی طوپرخصوصیت نہیں کہ ان کا انعقاد سلطان کے پاس جاکر ہوتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٥) اور اگر میاں بیوی میں رنجش محسوس ہو اور یہ معلوم نہ ہو کہ ابتدا کس کی طرف سے ہے تو مرد کے گھروالوں میں سے ایک معاملہ فہم آدمی مرد کے پاس اور اسی طرح عورت کے گھروالوں میں سے ایک پختہ عمر شخص عورت کے پاس بھیجو تاکہ ہر ایک کے پاس جا کر وہ دونوں کی صحیح صورت حال معلوم کرے اور دیکھے کہ کون ظالم ہے اور کون مظلوم۔ اگر یہ دونوں میاں بیوی میں سچے دل سے اصلاح کرائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان میاں بیوی کے درمیان اتفاق فرما دیں گے۔ بیشک اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والے اور خبر دار ہیں۔- الرجال قوامون سے یہاں تک یہ آیت محمد بن سلمہ کی لڑکی کے بارے میں نازل ہوئی، ان کی جانب سے اپنے خاوند اسعد بن ربیع کی نافرمانی ہوئی، ان کے خاوند نے ان کے ایک چپت مار دیا یہ اپنے خاوند سے قصاص کا مطالبہ کرنے کے لیے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ممانعت فرمادی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٥ (وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِہِمَا) ‘- اب اگر کوئی تدبیر نتیجہ خیز نہ ہو اور ان دونوں کے مابین ضدم ضدا کی کیفیت پیدا ہوچکی ہو کہ عورت بھی اکڑ گئی ہے ‘ مرد بھی اکڑا ہوا ہے ‘ اور اب ان کا ساتھ چلنا مشکل نظر آتا ہو تو اصلاح احوال کے لیے ایک دوسری تدبیر اختیار کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ ّ َ - (فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَہْلِہٖ وَحَکَمًا مِّنْ اَہْلِہَا ج) (اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلاَحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَہُمَا ط) - اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلاَحًا “ میں مراد زوجین بھی ہوسکتے ہیں اور حکمین بھی۔ یعنی ایک تو یہ کہ اگر واقعتا شوہر اور بیوی موافقت چاہتے ہیں تو اللہ ان کے درمیان سازگاری پیدا فرما دے گا۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں کی خواہش ہوتی ہے کہ معاملہ درست ہوجائے ‘ لیکن کوئی نفسیاتی گرہ ایسی بندھ جاتی ہے جسے کھولنا ان کے بس میں نہیں ہوتا۔ اب اگر دونوں کے خاندانوں میں سے ایک ایک ثالث آجائے گا اور وہ دونوں مل بیٹھ کر خیر خواہی کے جذبے سے اصلاح احوال کی کوشش کریں گے تو اس گرہ کو کھول سکیں گے۔ یہ دونوں اسباب اختلاف کی تحقیق کریں گے ‘ میاں بیوی دونوں کے گلے شکوے اور وضاحتیں سنیں گے اور دونوں کو سمجھا بجھا کر تصفیہ کی کوئی صورت نکالیں گے۔ اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلاَحًا “ میں مراد حکمین بھی ہوسکتے ہیں کہ اگر وہ اصلاح کی پوری کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے مابین موافقت ‘ پیدا فرما دے گا۔ لیکن میرا رجحان پہلی رائے کی طرف زیادہ ہے کہ اس سے مراد میاں بیوی ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :60 دونوں سے مراد ثالث بھی ہیں اور زوجین بھی ۔ ہر جھگڑے میں صلح ہونے کا امکان ہے بشرطیکہ فریقین بھی صلح پسند ہوں اور بیچ والے بھی چاہتے ہوں کہ فریقین میں کسی طرح صفائی ہو جائے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :61 اس آیت میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جہاں میاں اور بیوی میں ناموافقت ہوجائے وہاں نزاع سے انقطاع تک نوبت پہنچنے یا عدالت میں معاملہ جانے سے پہلے گھر کے گھر ہی میں اصلاح کی کوشش کر لینی چاہیے ، اور اس کی تدبیر یہ ہے کہ میاں اور بیوی میں سے ہر ایک کے خاندان کا ایک ایک آدمی اس غرض کے لیے مقرر کیا جائے کہ دونوں مل کر اسباب اختلاف کی تحقیق کریں اور پھر آپس میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور تصفیہ کی کوئی صورت نکالیں ۔ یہ پنچ یا ثالث مقرر کرنے والا کون ہو؟ اس سوال کو اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے تاکہ اگر زوجین خود چاہیں تو اپنے اپنے رشتہ داروں میں سے خود ہی ایک ایک آدمی کو اپنے اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لیے منتخب کر لیں ، ورنہ دونوں خاندانوں کے بڑے بوڑھے مداخلت کر کے پنچ مقرر کریں ، اور اگر مقدمہ عدالت میں پہنچ ہی جائے تو عدالت خود کوئی کاروائی کرنے سے پہلے خاندانی پنچ مقرر کر کے اصلاح کی کوشش کرے ۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ ثالثوں کے اختیارات کیا ہیں ۔ فقہاء میں ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ ثالث فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے ، البتہ تصفیہ کی جو صورت ان کے نزدیک مناسب ہو اس کے لیے سفارش کر سکتے ہیں ، ماننا یا نہ ماننا زوجین کے اختیار میں ہے ۔ ہاں اگر زوجین نے ان کو طلاق یا خلع یا کسی اور امر کا فیصلہ کردینے کے لیے اپنا وکیل بنایا ہو تو البتہ ان کا فیصلہ تسلیم کرنا زوجین کے لیے واجب ہوگا ۔ یہ حنفی اور شافعی علماء کا مسلک ہے ۔ دوسرے گروہ کے نزدیک دونوں پنچوں کو موافقت کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے ، مگر علیحدگی کا فیصلہ وہ نہیں کر سکتے ۔ یہ حَسَن بصری اور قَتَادہ اور بعض دوسرے فقہاء کا قول ہے ۔ ایک اور گروہ اس بات کا قائل ہے کہ ان پنچوں کو ملانے اور جدا کردینے کے پورے اختیارات ہیں ۔ ابن عباس ، سَعِید بن جُبَیر ، ابراہیم نَخَعی ، شَعبِی ، محمد بن سِیرِین ، اور بعض دوسرے حضرات نے یہی رائے اختیار کی ہے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فیصلوں کی جو نظیریں ہم تک پہنچی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں حضرات پنچ مقرر کرتے ہوئے عدالت کی طرف سے ان کو حاکمانہ اختیارات دے دیتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عَقیِل بن ابی طالب اور ان کی بیوی فاطمہ بنت عُتبہ بن ربیعہ کا مقدمہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش ہوا تو انہوں نے شوہر کے خاندان میں سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ، اور بیوی کے خاندان میں سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان کو پنچ مقرر کیا اور ان سے کہا کہ اگر آپ دونوں کی رائے میں ان کے درمیان تفریق کر دینا ہی مناسب ہو تو تفریق کر دیں ۔ اسی طرح ایک مقدمہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حَکَم مقرر کیے اور ان کو اختیار دیا کہ چاہے ملا دیں اور چاہیں جدا کردیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ پنچ بطور خود تو عدالتی اختیارات نہیں رکھتے ۔ البتہ اگر عدالت ان کو مقرر کرتے وقت انہیں اختیارات دے دے تو پھر ان کا فیصلہ ایک عدالتی فیصلے کی طرح نافذ ہو گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani