Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مرد عورتوں سے افضل کیوں؟ جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ مرد عورت کا حاکم رئیس اور سردار ہے ہر طرح سے اس کا محافظ و معاون ہے اسی لئے کہ مرد عورتوں سے افضل ہیں یہی وجہ ہے کہ نبوۃ ہمیشہ مردوں میں رہی بعینہ شرعی طور پر خلیفہ بھی مرد ہی بن سکتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں وہ لوگ کبھی نجات نہیں پاسکتے جو اپنا والی کسی عورت کو بنائیں ۔ ( بخاری ) اسی طرح ہر طرح کا منصب قضا وغیرہ بھی مردوں کے لائق ہی ہیں ۔ دوسری وجہ افضیلت کی یہ ہے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں جو کتاب و سنت سے ان کے ذمہ ہے مثلاً مہر نان نفقہ اور دیگر ضروریات کا پورا کرنا ۔ پس مرد فی نفسہ بھی افضل ہے اور بہ اعتبار نفع کے اور حاجت براری کے بھی اس کا درجہ بڑا ہے ۔ اسی بنا پر مرد کو عورت پر سردار مقرر کیا گیا جیسے اور جگہ فرمان ہے ( وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ) 2 ۔ البقرۃ:228 ) ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو مردوں کی اطاعت کرنی پڑے گی اس کے بال بچوں کی نگہداشت اس کے مال کی حفاظت وغیرہ اس کا کام ہے ۔ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اپنے خاوند کی شکایت کی کہ ایک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیوی صاحبہ کو لئے ہوئے حاضر خدمت ہوئے اس عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے اس خاوند نے مجھے تھپڑ مارا ہے ۔ پس آپ نے بدلہ لینے کا حکم دیا ہی تھا جو یہ آیت اتری اور بدلہ نہ دلوایا گیا ایک اور روایت کہ ایک انصار رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیوی صاحبہ کو لئے ہوئے حاضر خدمت ہوئے اس عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے اس خاوند نے مجھے تھپڑ مارا جس کا نشان اب تک میرے چہرے پر موجود ہے آپ نے فرمایا اسے حق نہ تھا وہیں یہ آیت اتری کہ ادب سکھانے کے لئے مرد عورتوں پر حاکم ہیں ۔ تو آپ نے فرمایا میں نے اور چاہا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اور چاہا ۔ شعبہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مال خرچ کرنے سے مراد مہر کا ادا کرنا ہے دیکھو اگر مرد عورت پر زنا کاری کی تہمت لگائے تو لعان کا حکم ہے اور اگر عورت اپنے مرد کی نسبت یہ بات کہے اور ثابت نہ کر سکے تو اسے کوڑے لگیں گے ۔ پس عورتوں میں سے نیک نفس وہ ہیں جو اپنے خاوندوں کی اطاعت گزار ہوں اپنے نفس اور خاوند کے مال کی حفاظت والیاں ہوں جسے خود اللہ تعالیٰ سے محفوظ رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں بہتر عورت وہ ہے کہ جب اس کا خاوند اس کی طرف دیکھے وہ اسے خوش کر دے اور جب حکم دے بجا لائے اور جب کہیں باہر جائے تو اپنے نفس کو برائی سے محفوظ رکھے اور اپنے خاوند کے مال کی محافظت کرے پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی مسند احمد میں ہے کہ آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا جب کوئی پانچوں وقت نماز ادا کرے رمضان کے روزے رکھے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے تو چاہے جنت میں چلی جا ، پھر فرمایا جن عورتوں کی سرکشی سے ڈرو یعنی جو تم سے بلند ہونا چاہتی ہو نافرمانی کرتی ہو بےپرواہی برتتی ہو دشمنی رکھتی ہو تو پہلے تو اسے زبانی نصیحت کرو ہر طرح سمجھاؤ اتار چڑھاؤ بتاؤ اللہ کا خوف دلاؤ حقوق زوجیت یاد دلاؤ اس سے کہو کہ دیکھو خاوند کے اتنے حقوق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو حکم کر سکتا کہ وہ ماسوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرے کو سجدہ کرے تو عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے ۔ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کیونکہ سب سے بڑا حق اس پر اسی کا ہے بخاری شریف میں ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے بسترے پر بلائے اور وہ انکار کر دے تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں صحیح مسلم میں ہے ۔ کہ جس رات کوئی عورت روٹھ کر اپنے خاوند کے بستر کو چھوڑے رہے تو صبح تک اللہ کی رحمت کے فرشتے اس پر لعنتیں نازل کرتے رہتے ہیں ، تو یہاں ارشاد فرماتا ہے کہ ایسی نافرمان عورتوں کو پہلے تو سمجھاؤ بجھاؤ پھر بستروں سے الگ کرو ، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یعنی سلائے تو بستر ہی پر مگر خود اس سے کروٹ موڑ لے اور مجامعت نہ کرے ، بات چیت اور کلام بھی ترک کر سکتا ہے اور یہ عورت کی بڑی بھاری سزا ہے ، بعض مفسرین فرماتے ہیں ساتھ سلانا ہی چھوڑ دے ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ عورت کا حق اس کے میاں پر کیا ہے؟ فرمایا یہ کہ جب تو کھا تو اسے بھی کھلا جب تو پہن تو اسے بھی پہنا اس کے منہ پر نہ مار گالیاں نہ دے اور گھر سے الگ نہ کر غصہ میں اگر تو اس سے بطور سزا بات چیت ترک کرے تو بھی اسے گھر سے نہ نکال پھر فرمایا اس سے بھی اگر ٹھیک ٹھاک نہ ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ یونہی سی ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ سے بھی راہ راست پر لاؤ ۔ صحیح مسلم میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجتہ الوداع کے خطبہ میں ہے کہ عورتوں کے بارے میں فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو وہ تمہاری خدمت گزار اور ماتحت ہیں تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ جس کے آنے جانے سے تم خفا ہو اسے نہ آنے دیں اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں یونہی سے تنبیہہ بھی تم کر سکتے ہو لیکن سخت مار جو ظاہر ہو نہیں مار سکتے تم پر ان کا حق یہ ہے کہ انہیں کھلاتے پلاتے پہناتے اڑھاتے رہو ۔ پس ایسی مار نہ مارنی چاہیے جس کا نشان باقی رہے جس سے کوئی عضو ٹوٹ جائے یا کوئی زخم آئے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس پر بھی اگر وہ باز نہ آئے تو فدیہ لو اور طلاق دے دو ۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کی لونڈیوں کو مارو نہیں اس کے بعد ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عورتیں آپ کے اس حکم کو سن کر بہت سی عورتیں شکایتیں لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ نے لوگوں سے فرمایا سنو میرے پاس عورتوں کی فریاد پہنچی یاد رکھو تم میں سے جو اپنی عورتوں کو زدو کوب کرتے ہیں وہ اچھے آدمی نہیں ( ابو داؤد وغیرہ ) حضرت اشعث رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مہمان ہوا اتفاقاً اس روز میاں بیوی میں کچھ ناچاقی ہو گئی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی صاحبہ کو مارا پھر مجھ سے فرمانے لگے اشعث تین باتیں یاد رکھ جو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن کر یاد رکھی ہیں ایک تو یہ کہ مرد سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی عورت کو کس بنا پر مارا ؟ دوسری یہ کہ وتر پڑھے بغیر سونا مت اور اور تیسری بات راوی کے ذہن سے نکل گئی ( نسائی ) پھر فرمایا اگر اب بھی عورتیں تمہاری فرمانبردار بن جائیں تو تم ان پر کسی قسم کی سختی نہ کرو نہ مارو پیٹو نہ بیزاری کا اظہار کرو ۔ اللہ بلندیوں اور بڑائیوں والا ہے ۔ یعنی اگر عورتوں کی طرف سے قصور سرزد ہوئے بغیر یا قصور کے بعد ٹھیک ہو جانے کے باوجود بھی تم نے انہیں ستایا تو یاد رکھو ان کی مدد پر ان کا انتقام لینے کے لئے اللہ تعالیٰ ہے اور یقینا وہ بہت زرو اور زبردست ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 اس میں مرد کی حاکمیت و قوامیت کی دو وجہیں بیان کی گئی ہیں، ایک مردانہ قوت و دماغی صلاحیت ہے جس میں مرد عورت سے خلقی طور پر ممتاز ہے۔ دوسری وجہ کسبی ہے جس کا مکلف شریعت نے مرد کو بنایا ہے اور عورت کو اس کی فطری کمزوری اور مخصوص تعلیمات کی وجہ سے جنہیں اسلام نے عورت کی عفت و حیا اور اس کے تقدس کے تحفظ کے لئے ضروری قرار دیا، عورت کو معاشی جھمیلوں سے دور رکھا۔ عورت کی سربراہی کے خلاف قرآن کریم کی یہ نص قطعی بلکل واضح ہے جس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے ہوتی ہے۔ جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ قوم ہرگز فلاح یاب نہیں ہوسکتی جس نے اپنے امور ایک عورت کے سپرد کردیئے۔ 34۔ 2 نافرمانی کی صورت میں عورت کو سمجھانے کے لئے سب سے پہلے وعظ و نصیحت کا نمبر ہے دوسرے نمبر پر ان سے وقتی اور عارضی علیحدگی ہے جو سمجھدار عورت کے لئے بہت بڑی تنبہ ہے۔ اس سے بھی نہ سمجھے تو ہلکی سی مار کی اجازت ہے۔ لیکن یہ مار وحشیانہ اور ظالمانہ نہ ہو جیسا کہ جاہل لوگوں کا وطیرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ظلم کی اجازت کسی مرد کو نہیں دی۔ اگر وہ اصلاح کرلے تو پھر راستہ تلاش نہ کرو یعنی مار پیٹ نہ کرو تنگ نہ کرو، یا طلاق نہ دو ، گویا طلاق بلکل آخری مرحلہ ہے جب کوئی اور چارہ کار باقی نہ رہے۔ لیکن مرد اس حق کو بھی بہت ناجائز طریقے سے استعمال کرتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات میں فوراً طلاق دے ڈالتے ہیں اور اپنی زندگی بھی برباد کرتے ہیں، عورت کی بھی اور بچے ہوں تو ان کی بھی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٧] مرد قوام کس لحاظ سے ہیں ؟ قوام کا معنیٰ سرپرست، سربراہ اور منتظم ہے۔ یعنی ایسا شخص جو کسی دوسرے کی تمام تر معاشی اور معاشرتی ذمہ داریاں پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ پھر مردوں کے قوام ہونے کی اللہ تعالیٰ نے دو وجوہ بیان فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ مرد اپنی جسمانی ساخت کے لحاظ سے عورتوں سے مضبوط ہوتے ہیں مشقت کے کام جتنا مرد کرسکتے ہیں عورتیں نہیں کرسکتیں۔ پھر ذمہ داریوں کو نباہنے کی صلاحیت بھی مردوں میں عورتوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ چناچہ تاریخ کے اوراق اس بات پر شاہد ہیں کہ جو کچھ کارہائے نمایاں مردوں نے سرانجام دیئے ہیں عورتیں اس کے عشر عشیر کو بھی نہ پہنچ سکیں اور یہ کارنامے خواہ زندگی کے کسی بھی پہلو اور تاریخ کے کسی بھی دور سے تعلق رکھتے ہوں۔ لہذا گھر کی چھوٹی سی ریاست کا سربراہ یا قوام بھی مرد ہی کو ہونا چاہیے اور مردوں کے قوام ہونے کی دوسری وجہ یہ بتائی کہ وہ اپنے اہل خانہ کے تمام تر معاشی اخراجات کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور بنائے گئے ہیں اور اس کی بھی اصل وجہ وہی ہے جو پہلی وجہ میں مذکور ہوئی کہ مرد محنت شاقہ کر کے جو کچھ کمائی کرسکتے ہیں وہ عورتیں نہیں کرسکتیں۔ لہذا امور خانہ داری کا سربراہ تو عورت کو بنایا گیا اور پورے گھر کی اندرونی اور بیرونی ذمہ داریوں کا سربراہ مرد کو۔ یہی وجہ ہے کہ طلاق اور رجوع کا حق بھی مرد کو دیا گیا ہے چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مرد اپنے اہل بیت پر حکمران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق بازپرس ہوگی۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد پر حکمران ہے اس سے اس کے متعلق بازپرس ہوگی۔ (بخاری کتاب الاحکام۔ باب (اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ 59؀ ) 4 ۔ النسآء :59) نیز کتاب النکاح، باب (قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۝) 66 ۔ التحریم :6) مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامیر العادل)- [٥٨] آپ نے فرمایا۔ بہترین بیوی وہ ہے کہ جب تم اسے دیکھو تو تمہارا جی خوش ہوجائے، جب اسے کسی بات کا حکم دو تو وہ تمہاری اطاعت کرے اور جب تم گھر میں موجود نہ ہو تو وہ تمہارے پیچھے تمہارے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔ (بخاری، کتاب النفقات، باب حفظ المرأۃ زوجہا فی ذات یدہ)- اچھی بیوی کی صفات :۔ اس مختصر سی حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک اچھی بیوی کی چار صفات بیان فرمائی ہیں۔ دو تو شوہر کی موجودگی سے تعلق رکھتی ہیں اور دو عدم موجودگی سے۔ موجودگی سے متعلق یہ ہیں کہ جب شوہر گھر میں ہو یا باہر سے کام کاج کے بعد شام کو گھر آئے تو اس کی بیوی خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرے اس کا جسم اور اس کے کپڑے صاف ستھرے ہوں اور وہ اپنے خاوند کا دل موہ لے اور خاوند اسے دیکھ کر خوش ہوجائے۔ دوسری یہ کہ خاوند اسے اگر کھانے پینے سے متعلق کسی بات کے لیے کہے تو اسے فوراً بجا لائے۔ یا اگر اسے بوس و کنار کے لیے بلائے تو بطیب خاطر اس کی بات مانے۔ اور جب گھر میں نہ ہو تو کسی غیر مرد کو گھر میں داخل نہ ہونے دے۔ نہ ہی خود کسی غیر مرد سے آزادانہ اختلاط یا خوش طبعی کی باتیں کرے۔ نیز اپنے شوہر کے گھر کی امین ہو۔ اس کے مال کو نہ فضول کاموں میں خرچ کرے نہ ہی اس کی اجازت کے بغیر اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ الایہ کہ اس کا مال ذاتی ہو اور نہ ہی چوری چھپے خاوند کے مال سے اپنے میکے والوں کو دینا شروع کر دے۔- مگر جب خاوند کوئی ایسا کام بتائے جو گناہ کا کام ہو اور اس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو تو اللہ کی معصیت کے مقابلہ میں کسی کی اطاعت جائز نہیں۔ جیسے مثلاً مرد اسے نماز کی ادائیگی یا پردہ کرنے سے روکے یا اسے شرک و بدعت والے کاموں پر مجبور کرے تو اس سے انکار کردینا ضروری ہے ورنہ وہ گنہگار ہوگی۔ اور خاوند کی اطاعت کی حد کے بارے میں مندرجہ ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اگر عورت کا خاوند اس کے پاس موجود ہو تو وہ اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب صوم المراۃ باذن زوجھا تطوعا)- ٢۔ نیز آپ نے فرمایا جب مرد اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ نہ آئے تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ (بخاری، کتاب النکاح۔ باب اذاباتت المراۃ مھاجرۃ فراش زوجھا)- [٥٩] نشوز کا لغوی معنیٰ بلندی یا ارتفاع، اٹھان اور ابھار کے ہیں۔ خصوصاً جب کسی چیز میں یہ اٹھان تحرک اور ہیجان کا تیجہ ہو مثلاً عورت اپنے خاوند کو اپنا ہمسر یا اپنے سے کمتر سمجھتی ہو یا اس کی سربراہی کو اپنے لیے توہین سمجھ کر اسے تسلیم نہ کرتی ہو۔ اس کی اطاعت کے بجائے اس سے کج بحثی کرتی ہو۔ خندہ پیشانی سے پیش آنے کی بجائے بدخلقی سے پیش آتی ہو اور سرکشی پر اتر آتی ہو۔ بات بات پر ضد اور ہٹ دھرمی دکھاتی ہو یا مرد پر ناجائز قسم کے اتہامات لگاتی ہو۔ یہ باتیں نشوز کے معنیٰ میں داخل ہیں۔ ایسی عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو تین قسم کے ترتیب وار اقدام کرنے کی اجازت دی ہے۔ پہلا قدم یہ ہے کہ اسے نرمی سے سمجھائے کہ اس کے اس رویہ کا کیا انجام ہوسکتا ہے۔ لہذا وہ کم از کم اپنی بہتری اور مفاد کی خاطر گھر کی فضا کو مکدر نہ بنائے۔ پھر اگر وہ خاوند کے سمجھانے بجھانے کا کچھ اثر قبول نہیں کرتی تو خاوند اس سے الگ کسی دوسرے کمرہ میں سونا شروع کر دے۔ اور اسے اپنے ساتھ نہ سلائے۔ اگر اس عورت میں کچھ بھی سمجھ بوجھ ہوگی اور اپنا برا بھلا سمجھنے سوچنے کی تمیز رکھتی ہوگی تو وہ اپنے خاوند کی اس ناراضی اور سرد جنگ کو برداشت نہیں کرسکے گی۔ اگر پھر بھی اسے ہوش نہیں آتا تو پھر تیسرے اور آخری حربہ کے طور پر مارنے کی بھی اجازت دی گئی ہے، مگر چند شرائط کے ساتھ جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے واضح ہے :- ١۔ آپ نے فرمایا خبردار عورتوں کے متعلق نیک سلوک کی وصیت قبول کرو۔ وہ تمہارے پاس صرف تمہارے لیے مخصوص ہیں۔ اس کے سوا تم ان کے کچھ بھی مالک نہیں، بجز اس کے کہ وہ کھلی بےحیائی کریں اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں بستروں میں علیحدہ کرسکتے ہو اور اس طرح مار سکتے ہو کہ انہیں چوٹ نہ آئے (ترمذی، ابو اب الرضاع، باب فی حق المرأۃ علی زوجھا)- ٢۔ آپ نے فرمایا۔ بیوی کو مارو نہیں نہ اسے برا بھلا کہو اور نہ اسے چھوڑو مگر گھر میں (یعنی گھر میں ہی اسے اپنے بستر سے علیحدہ سلاؤ۔ گھر سے نکالو نہیں۔ ) ابو داؤد، کتاب النکاح، باب فی حق المرأۃ علی زوجھا)- ٣۔ آپ نے فرمایا تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو یوں نہ مارے جیسے اپنے غلام کو مارتے ہو، پھر دن کے آخر میں اس سے جماع بھی کرے۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب مایکرہ من ضرب النساء۔۔ مسلم کتاب الجنۃ۔ باب النار یدخلہ الجبارون)- یعنی اگر مارنے کے بغیر عورت کے راہ راست پر آنے کا کوئی امکان نہ ہو تو یہ سوچ کر مارے کہ ممکن ہے رات کو اسے بیوی کی ضرورت پیش آجائے اور اسے منانا پڑے۔ دوسرے یہ کہ اسے غلاموں کی طرح بےتحاشا نہ مارے۔ اور ایک حدیث کے مطابق کسی کو بھی یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی، یا ملازم یا بال بچوں کو منہ پر مارے۔ اور تیسری پابندی یہ ہے کہ ایسی مار نہ مارے جس سے اس کی بیوی کو کوئی زخم آجائے یا اس کی کوئی ہڈی پسلی ٹوٹ جائے۔ ان حدود وقیود کے ساتھ خاوند کو ایسی اضطراری حالت میں بیوی کو مارنے کی اجازت دی گئی ہے۔- [٦٠] یعنی اگر وہ باز آجاتی ہیں تو محض ان پر اپنا رعب داب قائم کرنے کے لیے پچھلی باتیں یاد کر کے ان سے انتقام نہ لو اور اس اجازت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ اور اگر ایسا کرو گے تو اللہ جو بلند مرتبہ اور تم پر پوری قدرت رکھتا ہے تم سے تمہارے اس جرم کا بدلہ ضرور لے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ ۔۔ : شریعت نے گھر کے بندوبست اور انتظام کے لیے مرد کو گھر کا قوام (نگران، ذمہ دار) قرار دیا ہے اور عورت کو اس کے ماتحت رکھا ہے۔ قرآن نے اس کی دو وجہیں بیان کی ہیں، ایک تو یہ کہ مرد کو طبعی طور پر امتیاز حاصل ہے کہ وہ منتظم بنے اور دوسرے یہ کہ گھر کے سارے اخراجات بیوی کے نفقہ سمیت مرد کے ذمے ہیں۔ اس بنا پر گھر کا نگران بننے کا حق مرد کو ہے عورت کو نہیں۔ یہی حال حکومتی امور کا ہے کہ مسلمانوں کا خلیفہ یا امیر عورت نہیں ہوسکتی، بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَنْ یُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْ اَمْرَہُمُ امْرَأَۃً ) ” وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جس نے اپنا حاکم عورت کو بنا لیا۔ “ [ بخاری، المغازی، باب کتاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إلی کسریٰ و قیصر : ٤٤٢٥ ]- فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ ۔۔ : اس آیت کی تشریح وہ حدیث کرتی ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : ” بہترین بیوی وہ ہے جسے اگر تم دیکھو تو تمہیں خوش کرے، اگر تم اسے کسی بات کا حکم دو تو وہ تمہاری اطاعت کرے اور جب تم گھر میں نہ ہو تو تمہارے پیچھے وہ تمہارے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔ “ پھر رسول للہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : ( اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ ) [ مسند أبی داوٗد الطیالسی : ابن جریر، ٤؍٦٢، و صححہ صاحب ہدایۃ المستنیر ]- حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ ۭ : یعنی چونکہ اللہ تعالیٰ نے خاوندوں کو عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کا حکم دے کر ان کے حقوق محفوظ کردیے ہیں، اس کے بدلے میں وہ خاوندوں کی غیر موجودگی میں ان کے مال اور عزت و آبرو کی حفاظت رکھتی ہیں۔ [ دیکھیے نسائی، النکاح، باب أی النساء خیر : ٣٢٣٣ ] یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ان کے مال و عزت اور حقوق کی حفاظت کرتی ہیں اور خیانت سے کام نہیں لیتیں۔ (شوکانی) - وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ ۔۔ : نشوز کا لفظی معنی ” اونچا ہونا، چڑھائی کرنا ہے “ اور عورت کے نشوز کا معنی ” خاوند سے بغض رکھنا اور اس کی اطاعت سے اپنے آپ کو اونچا سمجھنا ہے۔ “ ( مفردات) عورت پر مرد کا بہت بڑا حق ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ (اللہ کے سوا) کسی دوسرے کو سجدہ کرے تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ “ [ ترمذی، الرضاع، باب ما جاء فی حق۔۔ : ١١٥٩۔ أبو داوٗد : ٢١٤٠، عن أبی ہریرۃ (رض) ]- عورت نافرمانی کا رویہ اختیار کرے تو خاوند کو حالات کے مطابق تین چیزوں کا اختیار دیا گیا ہے، تینوں یکے بعد دیگرے اور اکٹھی بھی ہوسکتی ہیں، نصیحت کرنا، ایک ہی بستر میں رہ کر انھیں چھوڑنا اور انھیں مارنا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض ناگزیر حالات میں مارنے کی اجازت دی، مگر فرمایا : ” چہرے پر مت مارو، اسے بد صورت نہ کہو اور اسے مت چھوڑو مگر گھر میں۔ “ [ أبو داوٗد، النکاح، باب فی حق المرأۃ علی زوجھا : ٢١٤٢، عن حکیم بن معاویۃ (رض) ] اسی طرح ایسی مار سے بھی منع کیا جس سے سخت چوٹ آئے۔ [ مسلم، الحج، باب حجۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ١٢١٨، عن جابر (رض) ] اور فرمایا : ” تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو اس طرح نہ مارے جس طرح غلام کو مارتے ہیں، پھر دن کے آخر حصے میں اس سے جماع کرے گا۔ “ [ بخاری، النکاح، باب ما یکرہ من ضرب النساء : ٥٢٠٤ ]- فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا : یعنی اگر وہ تمہاری مطیع ہوجائیں تو ان پر زیادتی کا کوئی راستہ تلاش نہ کرو، مثلاً طلاق دینا، تنگ کر کے خلع پر مجبور کرنا وغیرہ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات :- عورتوں کے متعلق جو احکام گذر چکے ہیں، اس میں ان کی حق تلفی کی ممانعت بھی مذکور ہوئی، اب آگے مردوں کے حقوق کا ذکر ہے اور ان کے مطالبہ اور ان کو قوت کرنے کی صورت میں تادیب کی اجازت بھی دی گئی ہے، حقوق میں اختلاف واقع ہونے کی صورت میں اس کے تصفیہ کا طریق اور حقوق ادا کرنے والوں کی فضیلت بھی مذکور ہے، اس کے ساتھ ہی اس بات کی بھی تصریح ہے کہ مردوں کا درجہ عورتوں سے بڑھا ہوا ہے، اس سے یہ جواب بھی نکل آیا کہ جب مرد، عورت کے مقابل ہمیں افضل ہیں تو یہ اشکال نہیں ہونا چاہئے، کہ میراث میں ان کا حصہ عورتوں کی نسبت زیادہ کیوں ہے ؟- خلاصہ تفسیر - مرد حاکم ہیں عورتوں پر (دو وجہ سے، ایک تو) اس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ نے بعضوں کو (یعنی مردوں کو) بعضوں پر (یعنی عورتوں پر قدرتی) فضیلت دی ہے، (یہ تو وہی امر ہے) اور (دوسرے) اس سبب سے کہ مردوں نے (عورتوں پر) اپنے مال (مہر میں اور نان نفقہ میں) خرچ کئے ہیں (اور خرچ کرنے والوں کا ہاتھ اونچا اور بہتر ہوتا ہے اس سے کہ جس پر خرچ کیا جاوے اور یہ امر مکتسب ہے) سو جو عورتیں نیک ہیں (وہ مرد کے ان فضائل و حقوق کی وجہ سے) اطاعت کرتی ہیں (اور) مرد کی عدم موجودگی میں (بھی) بحفاظت (وتوفیق) الٰہی (اس کی آبرو و مال کی) نگہداشت کرتی ہیں اور جو عورتیں (اس صفت کی نہ ہوں، بلکہ) ایسی ہوں کہ تم کو (قرائن سے) ان کی بد دماغی کا احتمال (قوی) ہو تو ان کو (اول) زبانی نصیحت کرو اور (نہ مانیں تو) ان کو ان کے لیٹنے کی جگہوں میں تنہا چھوڑ دو (یعنی ان کے پاس مت لیٹو) اور (اس سے بھی نہ مانیں تو) ان کو (اعتدال کے ساتھ) مارو، پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرنا شروع کردیں تو ان پر (زیادتی کرنے کے لئے) بہانہ (اور موقع) مت ڈھونڈو (کیونکہ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑی رفعت اور عظمت والے ہیں (ان کے حقوق اور قدرت اور علم سب بڑے ہیں، اگر تم ایسا کرو گے پھر وہ بھی تم پر اپنے حقوق کے متعلق ہزاروں الزام قائم کرسکتے ہیں) اور اگر (قرائن سے) تم اوپر والوں کو ان دونوں میاں بی بی میں (ایسی کشاکش کا) اندیشہ ہو (کہ اس کو وہ باہم نہ سلجھا سکیں گے) تو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو، مرد کے خاندان سے اور ایک آدمی جو (ایسا ہی) تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو عورت کے خاندان سے (تجویز کر کے اس کشاکش کے رفع کرنے کے لئے ان کے پاس) بھیجو (کہ وہ جا کر تحقیق حال کریں، اور جو بےراہی پر ہو، یا دونوں کا کچھ کچھ قصور ہو سمجھا دیں) اگر ان دونوں آدمیوں کو (سچے دل سے) اصلاح (عاملہ کی) منظور ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان میاں بی بی میں (بشرطیکہ وہ ان دونوں کی رائے پر عمل بھی کریں) اتفاق فرما دیں گے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبر والے ہیں (جس طریق سے ان میں باہم مصالحت ہو سکتی ہے اس کو جانتے ہیں جب حاکمین کی نیت ٹھیک دیکھیں گے وہ طریق ان کے قلب میں القاء فرما دیں گے۔ )- معارف و مسائل - سورة نسآء کے شروع سے یہاں تک بیشتر احکام اور ہدایات عورتوں کے حقوق سے متعلق آتی ہیں، جن میں ان ” الم کو مٹایا گیا ہے جو اسلام سے پہلے پوری دنیا میں اس صنف نازک پر توڑے جاتے تھے، اسلام نے عورتوں کو وہ تمام انسانی حقوق دیئے جو مردوں کو حاصل ہیں، اگر عورتوں کے ذمہ مردوں کی کچھ خدمات عائد کیں تو مردوں پر بھی عورتوں کے حقوق فرض کئے۔- سورة بقرہ کی آیت میں ارشاد فرمایا : ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف (٢: ٨٢٢) یعنی ” عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمہ ایسے ہی واجب ہیں جیسے مردوں کے حقوق عورتوں کے ذمہ ہیں۔ ‘ اس میں دونوں کے حقوق کی مماثلت کا حکم دے کر اس کی تفصیلات کو عرف کے حوالہ سے فرمایا جاہلیت اور تمام دنیا کی ظالمانہ رسموں کا یکسر خاتمہ کردیا، ہاں یہ ضروری نہیں کہ دونوں کے حقوق صورت کے اعتبار سے متماثل ہوں، بلکہ عورت پر ایک قسم کے کام لازم ہیں تو اس کے مقابل مرد پر دوسری قسم کے کام ہیں، عورت امور خانہ داری اور بچوں کی تربیت و حفاظت کی ذمہ دار ہے، تو مردان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کسب معاش کا ذمہ دار ہے، عورت کے ذمہ مرد کی خدمت و اطاعت ہے تو مرد کے ذمہ اس کا مہر اور نفقہ یعنی شام ضروری اخراجات کا نتظام ہے، غرض اس آیت نے عرتوں کو مردوں کے مماثل حقوق دیدیئے۔- لیکن ایک چیز ایسی بھی ہے جس میں مردوں کو عورتوں پر تفوق اور ایک خالص فضیلت حاصل ہے، اس لئے اس آیت کے آخر میں فرمایا : وللرجال علیھن درجة یعنی مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت کا حاصل ہے۔- ان آیات میں اسی درجہ کا بیان قرآن کریم کے حکیمانہ طرز بیان کے ساتھ اس طرح کیا گیا ہے کہ مردوں کی یہ فضیلت اور تفوق خود عورتوں کی مصلحت اور فائدہ کے لئے اور عین مقتضائے حکمت ہے اس میں عورت کی نہ کسر شان ہے نہ اس کا کوئی نقصان ہے۔- ارشاد فرمایا : الرجال قومون علی النسآئ (٥: ٤٣) قوام، قیام، قیم عربی زبان میں اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی کام یا نظام کا ذمہ دار اور چلانے والا ہو، اسی لئے اس آیت میں قوام کا ترجمہ عموماً حاکم کیا گیا ہے، یعنی مرد عورتوں پر حاکم ہیں، مراد یہ ہے کہ ہر اجتماعی نظام کے لئے عقلاً اور عرفاً یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کا کوئی سربراہ یا امیر اور حاکم ہوتا ہے کہ اختلاف کے قوت اس کے فیصلہ سے کام چل سکے، جس طرح ملک و سلطنت اور ریاست کے لئے اس کی ضرورت سب کے نزدیک مسلم ہے، اسی طرح قبائلی نظام میں بھی اس کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی گئی اور کسی ایک شخص کو قبیلہ کا سردار اور حاکم مانا گیا ہے، اسی طرح اسی عائلی نظام میں جس کو خانہ داری کہا جاتا ہے اس میں بھی ایک امیر اور سربراہ کی ضرورت ہے، عورتوں اور بچوں کے مقابل ہمیں اس کام کے لئے حق تعالیٰ نے مردوں کو منتخب فرمایا کہ ان کی عمی اور عملی قوتیں بہ نسبت عورتوں، بچوں کے زیادہ ہیں اور یہ ایسا بدیہی معاملہ ہے کہ کوئی سمجھدار عورت یا مرد اس کا انکار نہیں کرسکتا۔- خلاصہ یہ ہے کہ سورة بقرہ کی آیت میں وللرجال علیھن درجة (٢: ٨٢٢) فرما کر اور سورة نسآء کی آیت متذکرہ میں الرجال قومون علی النسآء فرما کر یہ بتلا دیا گیا کہ اگرچہ عورتوں کے حقوق مردوں پر ایسے ہی لازم و واجب ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر ہیں اور دونوں کے حقوق باہم ماثل ہیں، لیکن ایک چیز میں مردوں کو امتیاز حاصل ہے کہ وہ حاکم ہیں ........ اور قرآن کریم کی دوسری آیات میں یہ بھی واضح کردیا گیا کہ یہ حکومت جو مردوں کی عورتوں پر ہے محض آمریت اور ساتبداد کی حکومت نہیں، بلکہ حاکم یعنی مرد بھیق انون شرع اور مشورہ کا پابند ہے، محض اپنی طبیعت کے تقاضہ سے کوئی کام نہیں کرسکتا، اس کو حکم دیا گیا ہے کہ عاشر وھن بالمعروف (٥: ٩١) یعنی عورتوں کے ساتھ معروف طریقہ پر اچھا سلوک کرو۔ - اسی طرح دوسری آیت میں عن تراض منھما وتشاور (٢: ٣٣٢) کی تعلیم ہے جس میں اس کی ہدایت کی گئی ہے کہ امور خانہ داری میں بیوی کے مشورہ سے کام کریں، اس تفصیل کے بعد مرد کی حاکمیت عورت کے لئے کسی رنج کا سبب نہیں ہو سکتی، تاہم چونکہ یہ احتمال تھا کہ مردوں کی اس فضیلت اور اپنی محکومیت سے عورتوں پر کوئی ناگوار اثر ہو، اس لیے حق تعالیٰ نے اس جگہ صرف حکم بتلانے اور جاری کرنے پر اکتفاء نہیں فرمایا، بلکہ خود ہی اس کی حکمت اور وجہ بھی بتلا دی، ایک وہبی جس میں کسی کے عمل کا دخل نہیں، دوسرے کسی جو عمل کا اثر ہے۔- پہلی وجہ یہ ارشاد فرمائی بما فضل اللہ بعضھم علی بعض، یعنی اللہ تعالیٰ نے دنیا میں خاص حکمت و مصلحت کے تحت ایک کو ایک پر بڑائی دی ہے، کسی کو افضل کسی کو مفضول بنایا ہے، جیسے ایک خاص گھر کو اللہ نے اپنا بیت اللہ اور قبلہ قرار دیدیا، بیت المقدس کو خاص فضیلت دیدی، اسی طرح مردوں کی حاکمیت بھی ایک خدا داد فضیلت ہے جس میں مردوں کی سعی و عمل یا عورتوں کی کوتاہی و بےعملی کا کوئی دخل نہیں۔- دوسری وجہ کسی اور اختیاری ہے کہ مرد اپنا مال عورتوں پر خرچ کرتے ہیں، مر ادا کرتے ہیں اور ان کی تمام ضروریات کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں ........ ان دو وجہ سے مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا گیا۔- فائدہ :۔ یہاں ایک بات اور قابل غور ہے، ابن حیان بحر محیط میں لکھتے ہیں کہ آیت میں حاکمیت رجال کی دو وجہوں کے بیان سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ کسی کو ولایت و حکومت کا استحقاق محض زور و تغلب سے قائم نہیں ہوتا، بلکہ کام کی صلاحیت و اہلیت ہی اس کو حکومت کا مستحق بنا سکتی ہے۔- مردوں کی افضلیت کے بیان کے لئے قرآن حکیم کا عجیب اسلوب :۔ - پہلی وجہ کے بیان میں مختصر طریقہ یہ تھا کہ رجال اور نساء کی طرف ضمیریں عائد کر کے فضلھم علیھن فرما دیا جاتا، مگر قرآن کریم نے عنوان بدل کر بعضھم علی بعض کے الفاظ اختیار کئے، اس میں یہ حکمت ہے کہ عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کا بعض اور جزء قرار دے کر اس طرف اشارہ کردیا کہ اگر کسی چیز میں مردوں کی فوقیت اور افضلیت ثابت بھی ہوجائے تو اس کی ایسی مثال جیسے انسان کا سر اس کے ہاتھ سے افضل یا انسان کا دل اس کے معدہ سے افضل ہے، تو جس طرح سرکا ہاتھ سے افضل ہونا ہاتھ کے مقام اور اہمیت کو کم نہیں کرتا، اسی طرح مرد کا حاکم ہونا عورت کے درجہ کو نہیں گھٹاتا کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے مثل اعضاء و اجزاء کے ہیں، مرد سر ہے تو عورت بدن۔- اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس عنوان سے اس طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے کہ یہ افضلیت جو مردوں کو عورتوں پر حاصل ہے یہ جنس اور مجموعہ کے اعتبار سے ہے، جاں تک افراد کا تعلق ہے تو بہت ممکن ہے کہ کوئی عورت کمالات علمی و عملی میں کسی مرد سے بڑھ جائے اور صفت حاکمیت میں بھی مرد سے فائق ہوجائے۔- مرد اور عورت کے مختلف اعمال تقسیم کار کے اصول پر مبنی ہیں :۔- دسوری وجہ اختیاری جو بیہ بیان کی گئی ہے کہ مرد اپنے مال عورتوں پر خرچ کرتے ہیں، اس میں بھی چند اہم امور کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، مثلاً ایک تو اس کا شبہ کا ازالہ ہے جو آیات میراث میں مردوں کا حصہ دوہرا اور عورتوں کا اکہرا ہونے سے پیدا ہوسکتا ہے، کیونکہ اس آیت نے اس کی بھی ایک وجہ بتلا دی کہ مالی ذمہ داریاں تمام تر مردوں پر ہیں، عورتوں کا حال تو یہ ہے کہ شادی سے پہلے ان کے تمام مصارف کی ذمہ داری باپ پر ہے اور شادی کے بعد شوہر پر اس لئے اگر غور کیا جائے تو مرد کو دوہرا حصہ دینا اس کو کچھ زیادہ دینا نہیں ہے، وہ پھر لوٹ کر عورتوں ہی کو پہنچ جاتا ہے۔- دوسرا اشارہ ایک اہم اصول زندگی کے متعلق یہ بھی ہے کہ عورت اپنی خلقت اور فطرت کے اعتبار سے نہ اس کی متحمل ہے کہ اپنے مصارف خود کما کر پیدا کرے، نہ اس کے حالات اس کے لئے سازگار ہیں کہ وہ محنت، مزدوری اور دوسرے ذرائع کسب میں مردوں کی طرح دفتروں اور بازاروں میں پھرا کرے ........ اس لئے حق تعالیٰ نے اس کی پوری ذمہ دری مردوں پر اس کے بالمقابل نسل بڑھانے کا ذریعہ عورت کو بنایا گیا ہے، بچوں کی اور امور خانہ داری کی ذمہ داری بھی اسی پر ڈال دی گئی ہے، جبکہ مرد ان امور کا متحمل نہیں ہو سکتا۔- اس لئے یہ نہیں سمجھا جاسکتا کہ عورت کو اپنے نفقات میں مرد کا محتاج کر کے اس کا رتبہ کم کردیا گیا ہے، بلکہ تقسیم کار کے اصول پر ڈیوٹیاں تقسیم کردی گئی ہیں، ہاں ڈیوٹیوں کے درمیان جو باہم تفاضل ہوا کرتا ہے وہ یہاں بھی ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ ان دونوں وجہوں کے ذریعہ یہ بتلا دیا گیا کہ مردوں کی حاکمیت سے نہ عورتوں کا کوئی درجہ کم ہوتا ہے اور نہ ان کی اس میں کوئی منفعت ہے، بلکہ اس کا فائدہ بھی عورتوں ہی کی طرف عائد ہوتا ہے۔- صالح بیوی :۔ اس آیت کے شروع میں بطور ضابطہ یہ بتلا دیا گیا کہ مرد عورت پر حاکم ہے اس کے بعد نیک و بد عورتوں کا بیان اس طرح فرمایا : فالصلحت قنثت حفظت للغیب بما حفظ اللہ ” یعنی نیک عورتیں وہ ہیں جو مرد کی حاکمیت کو تسلیم کر کے ان کی اطاعت کرتی ہیں اور مردوں کے پیٹھ پیچھے بھی اپنے نفس اور ان کے مال کی حفاظت کرتی ہیں۔ “ یعنی اپنی عصمت اور گھر کے مال کی حفاظت جو امور خانہ داری میں سب سے اہم ہیں، ان کے بجا لانے میں ان کے لئے مردوں کے سامنے اور پیچھے کے حالات بالکل مساوی ہیں، یہ نہیں کہ ان کے سامنے تو اس کا اہتمام کریں، اور ان کی نظروں سے غائب ہوں تو اس میں لاپرواہی برتیں۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تفسیر کے طور پر ارشاد فرمایا کہ :- ” یعنی بہترین عورت وہ ہے کہ جب تم اس کو دیکھو تو خوش رہو اور جب اس کو کوئی حکم دو تو اطاعت کرے اور جب تم غائب ہو تو اپنے نفس اور مال کی حفاظت کرے۔- اور چونکہ عورتوں کی یہ ذمہ داریاں یعنی اپنی عصمت اور شوہر کے مال کی حفاظت دونوں آسان کام نہیں، اس لئے آگے فرما دیا بما حفظ اللہ، یعنی اس حفاظت میں اللہ تعالیٰ عورت کی مدد فرماتے ہیں، انہی کی امداد اور توفیق سے وہ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوتی ہیں، ورنہ نفس و شیطان کے مکائد ہر وقت ہر انسان مرد و عورت کے گھیرے ہوئے ہیں اور عورتیں خصوصاً اپنی علمی اور عملی قوتوں میں بہ نسبت مرد کمزور بھی ہیں، اس کے باوجود وہ ان ذمہ داریوں میں مردوں سے زیادہ مضبوط نظر آتی ہیں، یہ سب اللہ تعالیٰ کی توفیق اور امداد ہے، یہی وجہ ہے کہ بےحیائی کے گناہوں میں بہ نسبت مردوں کی عورتیں بہت کم مبتلا ہوتی ہیں۔- اطاعت شعار، تابعدار عورتوں کی فضیلت جہاں اس آیت سے مفہوم ہوتی ہے وہاں اس سلسلہ میں احادیث بھی وارد ہیں۔- ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ جو عورت اپنے شوہر کی تابعدار و مطیع ہو اس کے لئے استغفار کرتے ہیں پرندے ہوا میں، اور مچھلیاں دریا میں، اور فرشتے آسمانوں میں اور درندے جنگلوں میں۔ (بحر محیط)- نافرمان بیوی اور اس کی اصلاح کا طریقہ :۔- اس کے بعد ان عورتوں کا ذکر ہے جو اپنے شوہروں کی فرمانبردار نہیں یا جن سے اس کام میں کوتاہی ہوتی ہے، قرآن کریم نے ان کی اصلاح کے لئے مردوں کو علی الترتیب تین طریقے بتلائے، والتی تخافون نسوزھن فعظوھن واھجروھن فی المضاجع واضربوھن ” یعنی عورتوں کی طرف سے اگر نافرمانی کا صدور یا اندیشہ ہو، تو پہلا درجہ ان کی اصلاح کا یہ ہے کہ نرمی سے ان کو سجھاؤ اور اگر وہ محض سمجھانے بجھانے سے باز نہ آئیں، تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ ان کا بسترہ اپنے سے علیحدہ کردو، تاکہ وہ اس علیحدگی سے شوہر کی ناراضگی کا احساس کر کے اپنے فعل پر نادم ہوجائیں قرآن کریم کے الفاظ میں فی المضاجع کا لفظ ہے، اس سے فقہاء رحمہہ اللہ نے یہ مطلب نکالا کہ جدائی صرف بسترہ میں ہو، مکان کی جدائی نہ کرے کہ عورت کو مکان میں تنہا چھوڑ دے اس میں ان کو رنج بھی زیادہ ہوگا اور فساد بڑھنے کا اندیشہ بھی اس میں زیادہ ہے۔ ایک صحابی سے روایت ہے :- ” میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہماری بیویوں کا ہم پر کیا حق ہے آپ نے فرمایا جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ اور تم پہنو تو انہیں بھی پہناؤ اور چہرے پر مت مارو، اگر اس سے علیحدگی کرنا چاہو تو صرف اتنی کرو کہ (بستر الگ کردو) مکان الگ نہ کرو۔ - اور جو اس شریفانہ سزا و تنبیہ سے بھی متاثر نہ ہو تو پھر اس کو معمولی مار مارنے کی بھی اجازت ہے، جس سے اس کے بدن پر اثر نہ پڑے، اور ہڈی ٹوٹنے یا زخم لگنے تک نوبت نہ آئے اور چہرہ پر مارنے کو مطلقاً منع فرما دیا گیا ہے۔ “- ابتدائی دو سزائیں تو شریفانہ سزائیں ہیں، اس لئے انبیاء و صلحاً سے قولاً بھی ان کی اجازت منقول ہے اور اس پر عمل بھی ثابت ہے مگر تیسری سزا یعنی مار پیٹ کی اگرچہ بدرجہ مجبوری ایک خاص انداز میں مرد کو اجازت دی گئی ہے مگر اس کے ساتھ ہی حدیث میں یہ بھی ارشاد ہے ولن یضرب خیارکم، یعنی ” اچھے مرد یہ مارنے کی سزا عورتوں کو نہ دیں گے چناچہ انبیاء (علیہم السلام) سے کہیں ایسا عمل منقول نہیں۔- ابن سعد اور بیہقی نے حضرت صدیق اکبر کی صاحبزادی سے یہ روایت نقل کی ہے کہ پہلے مردوں کو مطلقاً عورتوں کو مارنے سے منع کردیا گیا تھا، مگر پھر عورتیں شیر ہوگئیں تو یہ اجازت مکرر دی گئی۔ - آیت مذکور کا تعلق بھی اسی قسم کے ایک واقعہ سے ہے، اس کا شان نزول ہے کہ زید بن ابی زبیر نے اپنی لڑکی حبیبہ کا نکاح حضرت سعد بن ربیع سے کردیا تھا، ان کے آپس میں کچھ اختلاف پیش آیا، شوہر نے ایک طمانچہ مار دیا، حبیبہ نے اپنے والد سے شکایت کی، والد ان کو لے کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے حکم دے دیا کہ حبیبہ کو حق حاصل ہے کہ جس زور سے سعد بن ربیع نے ان کے طمانچہ مارا ہے وہ بھی اتنی ہی زر سے ان کے طمانچہ ماریں۔- یہ دونوں حکم نبوی سن کر چلے کہ اس کے مطابق سعد بن ربیع سے اپنا انتقام لیں، مگر اسی وقت آیت مذکورہ نازل ہوگئی، جس میں آخری درجہ میں مرد کے لئے عورت کی مارپیٹ کو بھی جائز قرار دے دیا ہے اور اس پر مرد سے قصاص یا اتنقام لینے کی اجازت نہیں دی، آیت نازل ہونے پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کو بلوا کر حق تعالیٰ کا حکم سنا دیا، اور انتقام لینے کا پہلا حکم منسوخ فرما دیا۔- آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ ان تدابیر سہ گانہ کے ذریعہ اگر وہ تابعدار ہوجائیں تو پھر تم بھی چشم پوشی سے کام لو، معمولی باتوں پر الزام کی راہ نہ تلاش کرو، اور سمجھ لو کہ اللہ کی قدرت سب پر حاوی ہے۔- خلاصہ مضمون :۔ آیت سے بنیادی اصول کی حیثیت سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ پچھلی آیات کے ارشادات کے مطابق مردوں اور عورتوں کے حقوق باہم متماثل ہیں بلکہ عورتوں کے حقوق کی ادائیگی کا اس وجہ سے زیادہ اہتمام کیا گیا ہے کہ وہ بہ نسبت مرد کے ضعیف ہیں، اپنے حقوق اپنی قوت بازو کے ذریعہ مرد سے حاصل نہیں کرسکتیں، لیکن اس مساوات کے یہ معنی نہیں کہ عورت و مرد میں کوئی تفاضل یا درجہ کا کوئی فرق ہی نہ ہو، بلکہ بقتضائے حکمت و انصاف دو سبب سے مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا گیا ہے :- اول : تو جنس مرد کو اپنے علمی اور عملی کمالات کے اعتبار سے عورت کی جنس پر ایک خدا داد فضیلت اور فوقیت حاصل ہے، جس کا حصول جنس عورت کے لئے ممکن نہیں ........ افراد و احاد اور اتفاقی واقعات کا معاملہ الگ ہے۔- دوسرے یہ کہ عورتوں کی تمام ضروریات کا تکفل مرد اپنی کمائی اور اپنے مال سے کرتے ہیں ........ پہلا سبب وہی غیر اختیاری اور دوسرا کسبی اور اختیاری ہے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک ہی مال باپ کی اولاد میں سے بعض کو حاکم بعض کو محکوم بنانے کے لئے عقل و انصاف کی رو سے دو چیزیں ضروری تھیں، ایک جس کو حاکم بنایا جائے اس میں علم و عمل کے اعتبار سے حاکمیت کی صلاحیت، دوسرے اس کی حاکمیت پر محکوم کی رضامندی پہلا سبب مرد کی صلاحیت حاکمیت کو واضح کر رہا ہے اور دوسرا سبب محکوم کی رضا مندی کو، کیونکہ بوقت نکاح جب عورت اپنے مہر اور نان نفقہ کے تکفل کی شرط پر نکاح کی اجازت دیتی ہے تو اس کی اس حاکمیت کو تسلیم اور منظور کرتی ہے۔- الغرض اس آیت کے پہلے جملہ میں خانگی اور عائلی نظام کا ایک بنیادی اصول بتلایا گیا ہے کہ اکثر چیزوں میں مساوات حقوق کے باوجود مرد کو عورت پر ایک فضیلت حاکمیت کی حاصل ہے اور عورت محکوم و تابع ہے۔- اس بنیادی اصول کے ماتحت عملی دنیا میں عورتوں کے دو طبقے ہوگئے، ایک وہ جنہوں نے اس بنیادی اصول اور اپنے معاہدہ کی پابندی کی اور مرد کی حاکمیت کو تسلیم کر کے اس کی اطاعت کی ........ دوسرے وہ جو اس اصول پر پوری طرح قائم نہ رہا، پہلا طبقہ تو خانگی امن و اطمینان کا خود ہی کفیل ہے، اس کو کسی اصلاح کی حاجت نہیں۔- دوسرے طبقہ کی اصلاح کے لئے آیت کے دوسرے جملہ میں ایک ایسا مرتب نظام بتلایا گیا کہ جس کے ذریعہ گھر کی اصلاح گھر کے اندر ہی ہوجائے اور میاں بیوی کا جھگڑا انہیں دونوں کے درمیان نمٹ جائے کسی تیسرے کی مداخلت کی ضرورت نہ ہو، اس میں مردوں کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ اگر عورتوں سے نافرمانی یا اطاعت میں کچھ کمی محسوس کرو تو سب سے پہلا کام یہ کرو کہ سمجھا بجھا کر ان کی ذہنی اصلاح کرو، اس سے کام چل گیا تو معاملہ یہیں ختم ہوگیا عورت ہمیشہ کے لئے گناہ سے اور مرد قلبی اذیت سے اور دونوں رنج و غم سے بچ گئے اور اگر فہمائش سے کام نہ چلا تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ ان کو تنبیہ کرنے اور اپنی ناراضی کا اظہار کرنے کے لئے خود علیحدہ بستر پر سو یہ ایک معمولی سزا اور بہترین تنبیہ ہے، اس سے عورت متنبہ ہوگی تو جھگڑا یہیں ختم ہوگیا اور اگر وہ اس شریفانہ سزا پر بھی اپنی نافرمانی اور کج روی سے باز نہ آئی تو تیسرے درجہ میں معمولی مار مار نے کی بھی اجازت دے دیگئی جس کی حد یہ ہے کہ بدن پر اس مار کا اثر و زخم نہ ہو ........ مگر اس تیسرے درجہ کی سزا کے استعمال کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پسند نہیں فرمایا، بلکہ ارشاد فرمایا کہ شریف اور بھلے لوگ ایسا نہیں کریں گے۔- بہرحال اس معمولی مارپیٹ سے بھی اگر معاملہ درست ہوگیا تب بھی مقصد حاصل ہوگیا، اس میں مردوں کو عورتوں کی اصلاح کے لئے جہاں یہ تین اختیارات دیئے گئے وہیں آیت کے آخر میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ فان اطعنکم فلاتبغوا علیھن سبیلا یعنی اگر ان سہ نمبری تدبیروں سے وہ تمہاری بات ماننے لگیں تو اب تم بھی زیادہ بال کی کھال نہ نکالو “ اور الزام تراشی میں مت لگو، بلکہ کچھ چشم پوشی سے کام لو اور خوب سمجھ لو کہ اگر اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر تمہیں کچھ بڑائی دی ہے تو اللہ تعای کی بڑائی تمہارے اوپر بھی مسط ہے، تم زیادتی کرو گے تو اس کی سزا تم بھگتو گے۔- جھگڑا اگر طول پکڑ جائے تو دونوں طرف سے برادری کے حکم سے صلح کرائی جائے :۔ یہ نظام تو وہ تھا کہ جس کے ذریعہ گھر کا جھگڑا گھر ہی میں ختم ہوجائے، لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جھگڑا طول پکڑ لیتا ہے، خواہ اس وجہ سے کہ عورت کی طبیعت میں تمردو سرکشی ہو یا اس بناء پر کہ مرد کا قصور اور اس کی طرف سے بےجا تشدد ہو، بہرحال اس صورت میں گھر کی بات کا باہر نکلنا تو لازمی ہے، لیکن عام عادت کے مطابق تو یہ ہوتا ہے کہ طرفین کے حامی ایک دوسرے کو برا کہتے ہیں اور الزام لگاتے پھرتے ہیں، جس کا نتیجہ جانبین سے اشتعال اور پھر دو شخصوں کی لڑائی خاندانی جھگڑے کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ۝ ٠ۭ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللہُ۝ ٠ۭ وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاہْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِــعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ۝ ٠ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْہِنَّ سَبِيْلًا۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْرًا۝ ٣٤- رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - قيام - والْقِيَامُ علی أضرب : قيام بالشّخص، إمّا بتسخیر أو اختیار، و قیام للشیء هو المراعاة للشیء والحفظ له، و قیام هو علی العزم علی الشیء، فمن القِيَامِ بالتّسخیر قوله تعالی: مِنْها قائِمٌ وَحَصِيدٌ [هود 100] ، وقوله : ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوها قائِمَةً عَلى أُصُولِها [ الحشر 5] ، ومن القِيَامِ الذي هو بالاختیار قوله تعالی: أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر 9] . وقوله : الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] ، وقوله : الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساءِ [ النساء 34] ، وقوله : وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً وَقِياماً [ الفرقان 64] . والقِيَامُ في الآیتین جمع قائم . ومن المراعاة للشیء قوله :- كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَداءَ بِالْقِسْطِ [ المائدة 8] ، قائِماً بِالْقِسْطِ [ آل عمران 18] ، وقوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] أي : حافظ لها . وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران 113] ، وقوله : إِلَّا ما دُمْتَ عَلَيْهِ قائِماً [ آل عمران 75] أي : ثابتا علی طلبه . ومن القِيَامِ الذي هو العزم قوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 6] ، وقوله : يُقِيمُونَ الصَّلاةَ [ المائدة 55] أي : يديمون فعلها ويحافظون عليها . والقِيَامُ والقِوَامُ : اسم لما يقوم به الشیء . أي : يثبت، کالعماد والسّناد : لما يعمد ويسند به، کقوله : وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِياماً [ النساء 5] ، أي : جعلها ممّا يمسككم .- قيام - اور قیام کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے :( 1 ) کسی شخص کا تسخیری طور پر یا اپنے ارادے سے کھڑا ہونا ۔ ( 2 ) قیام للشئی : یعنی شے کی حفاظت اور نگہبانی کرنا ۔ ( 3 ) کسی کام کا پختہ ارادہ کرلینا ۔ تسخیری طور کھڑا ہونے کے معنی میں فرمایا : ۔ مِنْها قائِمٌ وَحَصِيدٌ [هود 100] ان میں سے بعض تو باقی ہیں اور بعض تہس نہس ہوگئے ہیں ۔ ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوها قائِمَةً عَلى أُصُولِها [ الحشر 5] کجھور کے جو درخت تم نے کاٹے یا ان کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو خدا کے حکم سے تھا ۔ اور قیام اختیاری کے معنی میں فرمایا : ۔ أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر 9] یا وہ جو رات کے وقتوں میں زمین پیشانی رکھ کر اور کھڑے ہوکر عبادت کرتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] اور جو کھڑے اور بیٹھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ اور نیز ایت : ۔ وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً وَقِياماً [ الفرقان 64] اور وہ لوگ اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کر کے ( عجز وادب سے ) کھڑے رہکر راتیں بسر کرتے ہیں ۔ میں قیام قائم کی جمع ہے اور کسی چیز کی حفاظت اور مراعات کے معنی میں فرمایا : ۔ الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساءِ [ النساء 34] مرد عورتوں پر راعی اور محافظ ہیں ۔ كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَداءَ بِالْقِسْطِ [ المائدة 8] انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو ۔ قائِماً بِالْقِسْطِ [ آل عمران 18] جو انصافپر قائم ہیں ۔ أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] تو کیا جو خدا ہر متنفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔ نیز فرمایا ؛ لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران 113] یہ بھی سب ایک جیسے نہیں ہیں ۔ ان اہل کتاب میں کچھ لوگ حکم خدا پر قائم بھی رہیں ۔ اور آیت کریمہ : إِلَّا ما دُمْتَ عَلَيْهِ قائِماً [ آل عمران 75] تو جب تک اس کے سر پر ہر وقت کھڑے نہ رہو ۔ میں قائما کے معنی برابر مطالبہ کرنے والے کے ہیں اور قیام بمعنی عزم کے متعلق فرمایا : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 6] مومنو جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو اور آیت کریمہ : ۔ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ [ المائدة 55] اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیں ۔ میں یقیمون کے معنی نماز پر دوام اور راس کے ارکان کی حفاطت کرنے کے ہیں ۔ اور قیام دقوام اس چیز کو بھی کہتے ہیں جس کے سہارے کوئی چیز قائم رہ سکے جس طرح کہ عماد اور سناد اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو سہارا لگا دیا جائے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِياماً [ النساء 5] اور بےعقلوں کو ان کا مال جسے خدا نے تم لوگوں کے لئے سبب معشیتبنایا مت دو ۔ یعنی ان کو تمہاری بقا کا سبب بنایا - نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - قنت - القُنُوتُ : لزوم الطّاعة مع الخضوع، وفسّر بكلّ واحد منهما في قوله تعالی: وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ- [ البقرة 238] ، وقوله تعالی: كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم 26] قيل : خاضعون، وقیل :- طائعون، وقیل : ساکتون ولم يعن به كلّ السّكوت، وإنما عني به ما قال عليه الصلاة والسلام : «إنّ هذه الصّلاة لا يصحّ فيها شيء من کلام الآدميّين، إنّما هي قرآن وتسبیح» «1» ، وعلی هذا قيل : أيّ الصلاة أفضل ؟ فقال : «طول القُنُوتِ» «2» أي : الاشتغال بالعبادة ورفض کلّ ما سواه - ( ق ن ت ) القنوت - ( ن ) کے معنی خضوع کے ساتھ اطاعت کا التزام کرنے کے ہیں اس بناء پر آیت کریمہ : وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة 238] اور خدا کے آگے ادب کھڑے رہا کرو ۔ میں برض نے قانیتین کے معنی طائعین کئے ہیں یعنی اطاعت کی ھالت میں اور بعض نے خاضعین یعنی خشوع و خضوع کے ساتھ اسی طرح آیت کریمہ كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم 26] سب اس کے فرمانبردار ہیں ۔ میں بعض نے قنتون کے معنی خاضعون کئے ہیں اور بعض نے طائعون ( فرمانبرادار اور بعض نے ساکتون یعنی خاموش اور چپ چاپ اور اس سے بالکل خاموش ہوکر کھڑے رہنا مراد نہیں ہے بلکہ عبادت گذاری میں خاموشی سے ان کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 87 ) کہ نماز ( تلاوت قرآن اور اللہ کی تسبیح وتحمید کا نام ہے اور اس میں کسی طرح کی انسانی گفتگو جائز نہیں ہے ۔ اسی بناء پر جب آپ سے پوچھا گیا کہ کونسی نماز افضل تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 88 ) طول القنوت یعنی عبادت میں ہمہ تن مصروف ہوجانا اور اس کے ماسوا ست توجہ پھیرلینا قرآن میں ہے ۔- حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔- غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - نشز - النَّشْزُ : المُرْتَفِعُ من الأرضِ ، ونَشَزَ فلانٌ: إذا قصد نَشْزاً ، ومنه : نَشَزَ فلان عن مقرِّه : نَبا، وكلُّ نابٍ نَاشِزٌ. قال تعالی: وَإِذا قِيلَ انْشُزُوافَانْشُزُوا [ المجادلة 11] ويعبّر عن الإحياء بِالنَّشْزِ والإِنْشَازِ ، لکونه ارتفاعا بعد اتِّضاع . قال تعالی: وَانْظُرْ إِلَى الْعِظامِ كَيْفَ نُنْشِزُها[ البقرة 259] ، وقُرِئَ بضَمِّ النون وفَتْحِهَا وقوله تعالی: وَاللَّاتِي تَخافُونَ نُشُوزَهُنَ [ النساء 34] ونُشُوزُ المرأة : بُغْضُها لزَوْجها ورفْعُ نفسِها عن طاعتِه، وعَيْنِها عنه إلى غيره، وبهذا النَّظر قال الشاعر :إِذَا جَلَسَتْ عِنْدَ الإمامِ كأَنَّهَا ... تَرَى رُفْقَةً من ساعةٍ تَسْتَحِيلُهَا وعِرْقٌ نَاشِزٌ. أيْ : نَاتِئٌ.- ( ن ش ز ) النشز۔ بلند زمین کو کہتے ہیں ۔ اور نشز فلان کے معنی بلند زمین کا قصد کرنے کے ہیں ۔ اسی سے نشز فلان عن مقرہ کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی کے اپنی قرارگاہ سے اوپر ابھر آنے کے ہیں ۔ اور ہر اوپر اٹھنے والی چیز کو ناشز کہاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَإِذا قِيلَ انْشُزُوافَانْشُزُوا [ المجادلة 11] اور جب کہاجائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوا کرو۔ اور نشز ونشاز کے معنی زندہ کرنا ۔۔۔ بھی آتے ہیں ۔ کیونکہ زندگی میں بھی ایک طرح کا ابھار پایا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَانْظُرْ إِلَى الْعِظامِ كَيْفَ نُنْشِزُها[ البقرة 259] اور ( وہاں ) گدھے کی ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکہ جوڑ دیتے ہیں اور ان پر ( کس طرح ) گوشت ( پوست) چڑھادیتے ہیں ۔ اور نشرھا کے نون پر ضمہ اور فتحۃ دونوں جائز ہیں ۔ اور نشوزا المرءۃ کے معنی عورت کے اپنے شوہر کو برا سمجھنے اور سرکشی کرنے اور کسی دوسرے مرد پر نظر رکھنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَاللَّاتِي تَخافُونَ نُشُوزَهُنَ [ النساء 34] اور جن عورتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی ( اور بدخوئی ) کرنے لگی ہیں ۔ چناچہ اسی معنی کے پیش نظر شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (426) اذا جلست عندا الامام کانھا تریٰ رفقۃ من ساعۃ تستحیلھا اور عرق ناشز کے معنی پھولی ہوئی رگ کے ہیں - وعظ - الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] - ( و ع ظ ) الوعظ - کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔- هجر - الهَجْرُ والهِجْرَان : مفارقة الإنسان غيره، إمّا بالبدن، أو باللّسان، أو بالقلب . قال تعالی:- وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] كناية عن عدم قربهنّ ،- والمُهاجرَةُ في الأصل :- مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] ، وقوله :- وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . - ( ھ ج ر ) الھجر - الھجر والھجران کے معنی ایک انسان کے دوسرے سے جدا ہونے کے ہیں عام اس سے کہ یہ جدائی بدنی ہو یا زبان سے ہو یا دل سے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو ۔ میں مفا رقت بدنی مراد ہے اور کنایتا ان سے مجامعت ترک کردینے کا حکم دیا ہے - المھاجر ۃ کے اصل معی تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ - مضاجع - جمع مضجع فإن کان بمعنی المرقد فهو استعارة للمصرع، وإن کان بمعنی محلّ امتداد البدن مطلقا للحي والمیت فهو حقیقة .- ضرب - الضَّرْبُ : إيقاعُ شيءٍ علی شيء، ولتصوّر اختلاف الضّرب خولف بين تفاسیرها، كَضَرْبِ الشیءِ بالید، والعصا، والسّيف ونحوها، قال : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ- [ الأنفال 12] ، فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد 4] ، فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة 73] ، أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف 160] ، فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات 93] ، يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد 27] ، وضَرْبُ الأرضِ بالمطر، وضَرْبُ الدّراهمِ ، اعتبارا بِضَرْبِ المطرقةِ ، وقیل له : الطّبع، اعتبارا بتأثير السّمة فيه، وبذلک شبّه السّجيّة، وقیل لها : الضَّرِيبَةُ والطَّبِيعَةُ. والضَّرْبُ في الأَرْضِ : الذّهاب فيها وضَرْبُهَا بالأرجلِ. قال تعالی: وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء 101] ، وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران 156] ، وقال : لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة 273] ، ومنه : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ- [ طه 77] ، وضَرَبَ الفحلُ الناقةَ تشبيها بالضَّرْبِ بالمطرقة، کقولک : طَرَقَهَا، تشبيها بالطّرق بالمطرقة، وضَرَبَ الخیمةَ بضرب أوتادها بالمطرقة، وتشبيها بالخیمة قال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران 112] ، أي : التحفتهم الذّلّة التحاف الخیمة بمن ضُرِبَتْ عليه، وعلی هذا : وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران 112] ، ومنه استعیر : فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] ، وقوله : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید 13] ، وضَرْبُ العودِ ، والناي، والبوق يكون بالأنفاس، وضَرْبُ اللَّبِنِ بعضِهِ علی بعض بالخلط، وضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] ، وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا - [ الزخرف 57] ، ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف 58] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا - [ الكهف 45] ، أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف 5] .- والمُضَارَبَةُ : ضَرْبٌ من الشَّرِكَةِ. والمُضَرَّبَةُ :- ما أُكْثِرَ ضربُهُ بالخیاطة . والتَّضْرِيبُ : التّحریضُ ، كأنه حثّ علی الضَّرْبِ الذي هو بعد في الأرض، والاضْطِرَابُ : كثرةُ الذّهاب في الجهات من الضّرب في الأرض، واسْتِضَرابُ الناقةِ : استدعاء ضرب الفحل إيّاها .- ( ض ر ب ) الضرب - کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز پر واقع کرنا یعنی مارنا کے ہیں اور مختلف اعتبارات سے یہ لفظ بہت سے معانی میں استعمال ہوتا ہے (1) ہاتھ لاٹھی تلوار وغیرہ سے مارنا ۔ قرآن میں ہے : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ [ الأنفال 12] ان کے سر مارکراڑا دو اور ان کا پور پور مارکر توڑدو ۔ فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد 4] تو انکی گردنین اڑا دو ۔ فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة 73] تو ہم نے کہا کہ اس بیل کا سا ٹکڑا مقتول کو مارو أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف 160] اپنی لاٹھی پتھر پر مارو ۔ فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات 93] پھر ان کو داہنے ہاتھ سے مارنا اور توڑنا شروع کیا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد 27] ان کے مونہوں ۔۔۔۔ پر مارتے ہیں ۔ اور ضرب الارض بالمطر کے معنی بارش پر سنے کے ہیں ۔ اور ضرب الدراھم ( دراہم کو ڈھالنا ) کا محاورہ الضرب بالمطرقۃ کی مناسبت سے استعمال ہوتا ہے ۔ اور نکسال کے سکہ میں اثر کرنے کے مناسبت سے طبع الدرھم کہاجاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر انسان کی عادت کو ضریبۃ اور طبیعۃ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ ضرب فی الارض کے معنی سفر کرنے کے ہیں ۔ کیونکہ انسان پیدل چلتے وقت زمین پر پاؤں رکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء 101] اور جب سفر کو جاؤ ۔ وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران 156] اور ان کے مسلمان بھائی جب خدا کی راہ میں سفر کریں ۔۔۔۔ تو ان کی نسبت کہتے ہیں ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة 273] اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اور یہی معنی آیت : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه 77] کے ہیں یعنی انہیں سمندر میں ( خشک راستے سے لے جاؤ ۔ ضرب الفحل ناقۃ ( نرکا مادہ سے جفتی کرنا ) یہ محاورہ ضرب بالمطرقۃ ( ہتھوڑے سے کوٹنا) کی مناسبت سے طرق الفحل الناقۃ کا محاورہ بولا جاتا ہے ۔ ضرب الخیمۃ خیمہ لگانا کیونکہ خیمہ لگانے کیلئے میخوں کو زمین میں ہتھوڑے سے ٹھونکاجاتا ہے اور خیمہ کی مناسبت سے آیت : ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران 112] اور آخر کار ذلت ۔۔۔۔۔۔ ان سے چمٹا دی گئی۔ میں ذلۃ کے متعلق ضرب کا لفظاستعمال ہوا ہے جس کے معنی کہ ذلت نے انہیں اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا جیسا کہ کیس شخص پر خیمہ لگا ہوا ہوتا ہے اور یہی معنی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران 112] اور ناداری ان سے لپٹ رہی ہے ۔ کے ہیں اور آیت : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] تو ہم نے غارکئی سال تک ان کے کانوں پر نیند کا پردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ نیز آیت کر یمہ : ۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید 13] پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کردی جائیگی ۔ میں ضرب کا لفظ ضرب الخیمۃ کے محاورہ سے مستعار ہے ۔ ضرب العود والنای والبوق عود اور نے بجان یا نر سنگھے میں پھونکنا ۔ ضرب اللبن : اینٹیں چننا، ایک اینٹ کو دوسری پر لگانا ضرب المثل کا محاورہ ضرب الدراھم ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں : کسی بات کو اس طرح بیان کرنا کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] اور ان سے ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] اور ہم نے ۔۔۔۔۔۔۔ ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا[ الزخرف 57] اور جب مریم (علیہ السلام) کے بیٹے ( عیسٰی کا حال بیان کیا گیا ۔ ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف 58] انہوں نے عیسٰی کی جو مثال بیان کی ہے تو صرف جھگڑنے کو وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الكهف 45] اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کردو ۔ أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف 5] بھلا ( اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوے لوگ ہو ) ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے ۔ المضاربۃ ایک قسم کی تجارتی شرکت ( جس میں ایک شخص کا سرمایہ اور دوسرے کی محنت ہوتی ہے اور نفع میں دونوں شریک ہوتے ہیں ) المضربۃ ( دلائی رضائی ) جس پر بہت سی سلائی کی گئی ہو ۔ التضریب اکسانا گویا اسے زمین میں سفر کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ الا ضطراب کثرت سے آنا جانا حرکت کرنا یہ معنی ضرب الارض سے ماخوذ ہیں ۔ استضرب الناقۃ سانڈھے نے ناقہ پر جفتی کھانے کی خواہش کی ۔- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ - قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - بغي - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى،- والبَغْيُ علی ضربین :- أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع .- والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری 42] - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ - بغی دو قسم پر ہے ۔- ( ١) محمود - یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔- ( 2 ) مذموم - ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شہاے ت میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- عَليّ ( بلند)- هو الرّفيع القدر من : عَلِيَ ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به في قوله : أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] ، إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] ، فمعناه : يعلو أن يحيط به وصف الواصفین بل علم العارفین . وعلی ذلك يقال : تَعَالَى، نحو : تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل 63] ، [ و تخصیص لفظ التّفاعل لمبالغة ذلک منه لا علی سبیل التّكلّف كما يكون من البشر ] وقال عزّ وجلّ : تَعالی عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيراً [ الإسراء 43]- العلی کے معنی بلند اور بر تر کے ہیں یہ علی ( بکسراللام سے مشتق ہے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت واقع ہو جیسے : ۔ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ ذات اس سے بلند وبالا تر ہے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے بلکہ عارفین کا علم بھی وہاں تک نہیں پہچ سکتا ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ۔ تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل 63] یہلوگ جو شرک کرتے ہیں خدا کی شان اس سے بلند ہے ۔ اور یہاں تعالیٰ باب تقاعل سے ہے جس کے معنی ہیں نہایت ہی بلند ورنہ یہاں تکلف کے معنی مقصود نہیں مقصود نہیں ہیں جیسا کہ جب یہ لفظ انسان کے متعلق استعمال ہو تو یہ معنی مراد لئے جاتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ تَعالی عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيراً [ الإسراء 43] اور جو کچھ یہ بکواس کرتے ہیں اس سے ( اس کا رتبہ ) بہت عالی ہے ۔ میں لفظ علوا فعل تعالیٰ کا مصدر نہیں ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

عورت پر شوہر کی اطاعت کا وجوب - قول باری ہے (الرجال قوامون علی النساء بمافضل اللہ بعضھم علی بعض وبما انفقوا من اموالھم، مرد عورتوں پر قوام ہیں اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ یونس نے حسن سے روایت کی ہے ایک شخص نے اپنی بیوی کو مار کر زخمی کردیا، اس کا بھائی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا آپ نے ساراواقعہ سن کر فیصلہ دیا کہ مرد سے قصاص لیاجائے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ، آیت کے نزول کے بعد آپ نے فرمایا، ہم نے ایک امر کا ارادہ کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی اور امر کا ارادہ کرلیا۔- جریر بن حازم نے حسن سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طمانچہ مارا، بیوی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے خلاف شکایت کی ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ دیا کہ قصاص لیاجائے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی، ولاتعجل بالقران من قبل ان یقضی الیک وحیہ، تم قرآن پڑھنے میں جلد بازی نہ کرو، قبل، اس کے کہ آپ پر اس کی وحی نازل ہوچکے) پھر اللہ تعالیٰ نے آیت زیر بحث نازل فرمائی۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ پہلی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان جان لینے سے کمتر کی زیادتی اور نقصان کا کوئی قصاص نہیں ہے۔ زہری سے بھی اسی قسم کی روایت ہے دوسری حدیث میں یہ ممکن ہے کہ شوہر نے اسے اس کی نافرمانی اور سرکشی کی بنا پر طمانچہ مارا ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسی حالت میں ضرب اور مارپیٹ کی اباحت کردی ہے۔- چنانچہ ارشاد ہے (وللاتی تخافون نشوزھن فعظوھن واھجروھن فی المضاجع واضربوھن ، اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہوا نہیں سمجھاؤ خوابگاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اور مارو) اگر یہ کہاجائے کہ درج بالاواقعہ میں اگر بیوی کی سرکشی کی بنا پر مرد کی طرف سے پٹائی کا اقدام ہوتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی قصاص واجب نہ کرتے ، اس کے جواب میں یہ کہاجائے کا کہ آپ نے یہ بات اس آیت کے نزول سے پہلے ارشاد فرمائی تھی جس میں سرکشی کی بنا پر ضرب کی اباحت کا حکم دیا گیا ہے۔- اس لیے کہ قول باری (الرجال قوامون علی النساء تا قول باری واضربوھن) بعد میں نازل ہوئی اس لیے آپ نے اس آیت کے نزول کے بعد شوہر پر کوئی چیز واجب نہیں کی۔ اس لیے قول باری (الرجال قوامون علی النساء) میں مرد کے قوام ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ عورت کی حفاظت ونگہبانی کرنے، اس کی ضروریات مہیا کرنے اور اسے تادیب کرنے اور درست حالت میں رکھنے کا ذمہ دارہوتا ہے۔- کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عقل اور رائے کے لحاظ سے مرد کو عورت پر فضیلت دی ہے نیز فضیلت کی کی یہ وجہ بھی ہے کہ مرد عورت کے تمام اخراجات کا کفیل ہوتا ہے ، اس آیت کی کئی معانی پر دلالت ہورہی ہے ایک تو یہ کہ درجے اور مرتبے کے لحاظ سے مرد کو عورت پر فضیلت حاصل ہے اور مرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ عورت کی حفاظت ونگہبانی اور اس کی دیکھ بھال نیز اس کی تادیب کا کام خود سنبھالے رکھے۔- یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ مرد کوا سے گھر میں رو کے رکھنے اور گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگانے کا اختیار اور عورت پر مرد کی اطاعت اور اس کا حکم بجالانا واجب ہے بشرطیکہ وہ کسی معصیت اور گناہ کے ارتکاب کا حکم نہ دے رہا ہو۔- آیت کے اندریہ دلالت بھی ہے کہ مرد پر عورت کانان ونفقہ واجب ہے جیسا کہ ہوا (وبماانفقوا من اموالھم اس کی مثال یہ قول باری ہے (وعلی المولودلہ رزقھم وکسوتھن بالمعروف) نیز) لینفق ذوسعۃ من سعتہ، وسعت والے کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہیے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ، (ولھن رزقھن وکسوتھن بالمعروف، دستور کے مطابق ان کے لیے کھانا کپڑا ہے ) قول باری وبماانفقوا من اموالھم، مہر اور نان دونوں پر مشتمل ہے کیونکہ ان دونوں باتوں کی ذمہ داری شوہر پر ہوتی ہے ، قول باری ہے ، (فالصالحات قانتات حافظات للغیب بماحفظ اللہ، پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت ونگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں ۔- آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ عورتوں کے اندر بھی صالح اور نیک سیرت خواتین موجود ہوتی ہیں قول باری (قانتات) کے متعلق قتادہ سے مروی ہے کہ اللہ کی اور اپنے شوہروں کی اطاعت گذار عورتیں ، قنوت کے اصل معنی اطاعت پر مداومت کرنے کے ہیں وتر میں پڑھی جانے والی قنوت کو طول قیام کی بنا پر اس نام سے موسوم کرتے ہیں۔- قول باری (حافظات للغیب بماحفظ اللہ) کی تفسیر میں عطا اور قتادہ سے مروی ہے اپنے شوہروں کے پیچھے ان کے مال کی حفاظت کرنے والیاں، اپنے شوہروں کا پورا پوراخیال رکھنے والیاں اور اپنی عزت وآبرو کو ان کے لیے محفوظ کرنے والی عورتیں۔- قول باری (بماحفظ اللہ) کی تفسیر میں عطا کا قول ہے ، اس تحفظ کے بدلے اور جواب میں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے مہر کے سلسلے میں انہیں عطا کیا اور ان کے نان ونفقہ کی ذمہ داری ان کے شوہروں پر ڈال دی ، اس کی تفسیر میں دوسرے حضرات کا قول ہے ، یہ عورتیں صرف اس بنا پر صالح ، اطاعت شعار ، اور حفاظت کرنے والی بن سکی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں گناہوں سے محفوظ رکھا تھا، اور انہیں توفیق دی تھی نیز اپنے لطف و کرم اور معونت سے ان کی دستگیری کی تھی۔ ابومعشر نے سعید المقبری سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (خیرالنساء امرۃ ، اذانضرت الیھاسرتک واذا مر تھا اطاعتک واذا غبت عنھاخلفتک فی مالک ونفسھا) ۔- عورتوں میں سب سے بہتر وہ خاتون ہے کہ جب تم اسے دیکھو تو تمہیں مسرت حاصل ہو، اور جب اسے کوئی بات کہو تو وہ فورامان لے اور جب اس کی نظروں سے دور ہوجاؤ تو تمہارے پیچھے تمہارے مال اور اپنی عزت وآبرو کی حفاظت کے سلسلے میں تمہاری پوری نیابت کرے) یہ فرماکر آپ نے قول باری (الرجال قوامون علی النساء بمافضل اللہ بعضھم علی بعض) کی تاآخر آیت تلاوت کی ۔ واللہ الموفق۔- سرکشی کی ممانعت - ارشاد باری تعالیٰ (وللاتی تخافون نشوزھن فعظوھن وھجروھن فی المضاجع، اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہوا نہیں سمجھاؤ اور خوابگاہوں میں ان سے علیحدہ ہو) آیت میں لفظ (تخافون) کے دومعنی بیان کیے گئے ہیں ، ایک ، تعلمون ، (تمہیں علم ہو) کیونکہ کسی چیز کا خوف اس وقت ہوتا ہے جب اس کے وقوع پذیر ہونے کا علم ہو، اس لیے (یعلم) کی جگہ ، یخاف، لانادرست ہوگیا جس طرح ابومحجن ثقفی کا شعر ہے ،- ولاتدفنی بالضلاۃ فاتنی، اخاف اذامامت ان لاذوقھا،- مجھے جنگل بیابان میں دفن نہ کرنا کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ مرنے کے بعد اسے یعنی شراب کو چکھ نہیں سکوں گا، خفت (میں ڈرگیا) کے معنی ظننت (میں نے گمان کیا) کے بھی آتے ہیں، فراء نے اس کا ذکر کی ا ہے محمد بن کعب کا قول ہے کہ ، وہ خوف جو امن اور اطمینان کی ضد ہو، گویا یوں کہا گیا ، تمہیں ان کی سرکشی کا اندیشہ اس حالت کے متعلق اپنے علم کی بنا پر ہو جو اس سرکشی کی دستک دے رہی ہو، لفظ نشوز کے متعلق حضرت ابن عباس، عطاء اور سدی کا قول ہے کہ اس سے مرد ان باتوں میں شوہر کی نافرمانی ہے ، جنہیں مان لینا عورت پر لازم ہے ، نشوز کے اصل معنی شوہر کی مخالفت کے ذریعے اپنے آپ کو بلند رکھنے کے ہیں ، یہ لفظ ، نشز الارض، سے ماخوذ ہے ، جس کے معنی ہیں زمین میں ابھری ہوئی بلندجگہ ، قول باری (فعظوھن) کے معنی ہیں ، انہیں اللہ اور اس کے عتاب سے ڈراؤ، قول باری (وھجروھن فی المضاجع) کے متعلق حضرت ابن عباس ، عکرمہ ضحاک اور سدی کا قول ہے ، کہ اس سے مراد قطع کلامی ہے ، سعید بن جبیر کے قول کے مطابق اس سے مراد ہمبستری سے کنارہ کشی ہے، مجاہد، شعبی اور ابراہیم کا قول ہے کہ اس سے مراد ایک بستر پر لپیٹنے سے اجتناب ہے ، قول باری (واضربوھن) کے متعلق حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ جب عورت خواب گاہ اپنے شوہر کی اطاعت شعار ہو توپھرا سے مار پیٹ کرنے کا کوئی حق شوہر کو حاصل نہیں ہوتا مجاہد کا قول ہے کہ جب عورت شوہر کے ساتھ بستر پر لیٹنے سے روگردانی کرے توشوہر اس سے یہ کہے ، اللہ سے ڈر اور واپس آجا۔- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ، انہیں ابوداؤد ، انہیں عبداللہ ، انہیں عبداللہ بن محمد نفیلی اور عثمان بن ابی شیبہ اور دوسرے حضرات ، ان سب کو حاتم بن اسماعیل نے ، انہیں جعفر بن محمد اپنے والد سے ، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے ، انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے عرفات کے اندروادی کے نشیب میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا۔- (اتقواللہ فی النساء فانکم اخذتموھن بامانۃ اللہ واستحللتم فروجھن بکلمۃ اللہ ، وان لکم علیھن الا یطئن فرشکم احداتکرھونہ فان فعلن فاضربوھن ضربا غیرمبرح ولھن علیکم رزقھن، وکسوتھن، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طورپرحاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمہ سے تم نے ان کی چادر کشائی کی ہے۔ تمہاری طرف سے ان پر یہ فرض ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو تمہارے بستروں پر قدم رکھنے نہ دیں جو تمہیں ناپسندہو، اگر انہوں نے ایسا کیا تو تم ان کی اس طرح پٹائی کروجس کے اثرات جسم پر ظاہرنہ ہوں ، تمہارے ذمے دستور کے مطابق ان کا کھانا اور کپڑا ہے ) ۔- ابن جریج نے عطا سے روایت کی ہے کہ مسواک وغیرہ سے پٹائی ایسی پٹائی ہے جس کے اثرات جسم پر ظاہر نہیں ہوتے ، سعید نے قتادہ سے نقل کیا ہے کہ ایسی پٹائی جو چہرے یا جسم کو داغدار نہ کردے اور بگاڑ نہ دے۔- ہم سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (مثل المراۃ مثل الضلع متی ترد اقامتھانکسوھا ولکن دعھا تستمع بھا، عورت کی مثال ٹیڑھی پسلی جیسی ہے کہ جیسی ہے کہ جب تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے توتوڑ ڈالو گے سیدھا نہیں کرسکو گے ، اس لیے اسے اسی حالت میں رہنے دو اور لطف اندوز ہوتے رہو) ۔ حسن نے (واضربوھن) کے متعلق کہا ہے کہ اس سے مراد ایسی ضرب ہے جو سخت نہ ہو اور جس کے اثرات جسم پر ظاہر نہ ہوں۔- ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع نے ، انہیں عبدالرزاق نے ، انہیں معمر نے حسن اور قتادہ سے قول باری (فعظوھن وھجروھن فی المضاجع) کے متعلق بیان کیا کہ جب شوہر کو اس کی سرکشی کا اندیشہ ہوتوا سے پہلے نصیحت کرے اور سمجھائے اگر وہ نصیحت قبول کرلے توفبھاء ورنہ خواب گاہ میں اس سے علیحدگی اختیار کرلے اگر وہ باز آجائے توٹھیک ہے ورنہ اس کی ہلکی سی پٹائی کرے۔- پھریہ آیت پڑھی (فان لم اطعنکم فلاتبغوا علیھن سبیلا) پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہوجائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو) یعنی غلطیوں پر لو نہیں بار بار سرزنش نہ کرو۔ واللہ اعلم۔- زوجین کے تعلقات بگڑنے پر حکمین کو کون سا طریق کاراختیار کرنا چاہیے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٤) یعنی مرد عقل، مال غینمت، میراث اور عورتوں کو مہر اور نفقہ وغیرہ دینے کی وجہ سے عورتوں پر حاکم ہیں۔- سو جو عورتوں نیک ہیں وہ خاوندوں کے حقوق میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتی ہیں اور خاوندوں کی غیر موجودگی میں اپنی عصمتوں اور ان کے اموال کی بحفاظت خداوندی حفاظت کرتی ہیں۔- اور جن عورتوں کی نافرمانیوں سے تم باخبر ہو پہلے تو قرآن و حدیث سے ان کو سمجھاؤ اور پھر بستر پر اپنے چہروں کو ان سے پھیر لو اور پھر بھی نہ مانیں تو حد اعتدال میں ان کو مناسب سزا دو کرو اگر وہ سنبھل جائیں تو نباہ کرو ورنہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان امور کا مکلف نہیں کیا جن کی تم میں طاقت نہیں، تم بھی ان امور پر ان کو مجبور مت کرو۔ (یعنی شرعی طریقہ کے مطابق ان کو طلاق دے دو )- شان نزول : الرجال قومون “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے انس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ایک عورت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اپنے خاوند کی شکایت کرنے کے لیے آئی کہ اس نے اس کے تھپڑ مارا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس پر قصاص (بدلہ) ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی مرد عورتوں پر حاکم ہیں، چناچہ وہ بغیر قصاص لیے ہوئے واپس ہوگئیں اور اپنے دعوی قصاص سے دستبردار ہوگئیں۔- اور ابن جریر (رح) نے حسن کے واسطہ سے اس طرح روایت نقل کی ہے کہ ایک انصاری شخص نے اپنی بیوی کے چاٹنا مارا وہ قصاص کے مطالبہ کے لیے آئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کے درمیان قصاص کا فیصلہ کردیا تو اس پر (آیت) ” ولا تعجل بالقرآن “ (الخ) اور یہ آیت نازل ہوئی اور اسی طرح ابن جریج (رح) اور سدی (رح) سے بھی روایت کی گئی ہے۔- اور ابن مردویہ (رح) نے حضرت علی (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک انصاری شخص اپنی بیوی کو لے کر آیا ان کی بیوی بولی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہوں نے میرے منہ پر زور سے چانٹا مارا ہے کہ نشان پڑگیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان کو یہ حق نہیں ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- اس روایت کے بہت سے شواہد ہیں جن سے یہ روایت مضبوط وثقہ ہوجاتی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤ (اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ ) - یہ ترجمہ میں زور دے کر کر رہا ہوں۔ اس لیے کہ یہاں قامَ ‘ ’ عَلٰی ‘ کے صلہ کے ساتھ آ رہا ہے۔ قَامَ ’ بِ ‘ کے ساتھ آئے گا تو معنی ہوں گے کسی شے کو قائم کرنا “۔ اسی سورة مبارکہ میں آگے چل کر یہ الفاظ آئیں گے : (کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بالْقِسْطِ ) عدل کو قائم کرنے والے بن کر کھڑے ہوجاؤ جبکہ قام عَلٰی کا مفہوم ہے کسی کے اوپر مسلط ہونا۔ّیعنی حاکم اور منتظم ہونا۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ سے یہ واضح ہدایت ملتی ہے کہ گھر کے ادارے میں حاکم ہونے کی حیثیت مرد کو حاصل ہے ‘ سربراہ خاندان مرد ہے ‘ عورت نہیں ہے۔ عورت کو بہرحال اس کے ساتھ ایک وزیر کی حیثیت سے کام کرنا ہے۔ یوں تو ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ میری بات مانی جائے۔ گھر کے اندر مرد بھی یہ چاہتا ہے اور عورت بھی۔ لیکن آخر کار کس کی بات چلے گی ؟ یا تو دونوں باہمی رضامندی سے کسی مسئلے میں متفق ہوجائیں ‘ بیوی اپنے شوہر کو دلیل سے ‘ اپیل سے ‘ جس طرح ہو سکے قائل کرلے تو معاملہ ٹھیک ہوگیا۔ لیکن اگر معاملہ طے نہیں ہو رہا تو اب کس کی رائے فیصلہ کن ہوگی ؟ مرد کی عورت کی رائے جب مسترد ہوگی تو اسے اس سے ایک صدمہ تو پہنچے گا۔ اسی صدمے کا اثر کم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے عورت میں نسیان کا مادہ زیادہ رکھ دیا ہے ‘ جو ایک کا کام دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قانون شہادت میں ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کا نصاب رکھا گیا ہے تاکہ ان میں سے کوئی ایک بھول جائے تو دوسری یاد کرا دے “۔ اس پر ہم سورة البقرۃ (آیت ٢٨٢) میں بھی گفتگو کرچکے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے گھر کے ادارے کا سربراہ مرد کو بنایا ہے۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ مرد اگر اپنی اس حیثیت کا غلط استعمال کرتا ہے ‘ عورت پر ظلم کرتا ہے اور اس کے حقوق ادا نہیں کرتاتو اللہ کے ہاں بڑی سخت پکڑ ہوگی۔ آپ کو ایک اختیار دیا گیا ہے اور آپ اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں ‘ اس کو ظلم کا ذریعہ بنا رہے ہیں تو اس کی سزا اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ کو مل جائے گی۔- (بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ ) - مرد کو بعض صفات میں عورت پر نمایاں تفوّق حاصل ہے ‘ جن کی بنا پر قوّ امیت کی ذمہ داری اس پر ڈالی گئی ‘ ہے۔ - (وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ ط) ۔- اسلام کے معاشرتی نظام میں کفالتی ذمہ داری تمام تر مرد کے اوپر ہے۔ شادی کے آغاز ہی سے مرد اپنا مال خرچ کرتا ہے۔ شادی اگرچہ مرد کی بھی ضرورت ہے اور عورت کی بھی ‘ لیکن مرد مہر دیتا ہے ‘ عورت مہر وصول کرتی ہے۔ پھر گھر میں عورت کا نان نفقہ مرد کے ذمے ہے۔ - (فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ) - مرد کو قوامیت کے منصب پر فائز کرنے کے بعد اب نیک بیویوں کا رویہ بتایاجا رہا ہے۔ یوں سمجھئے کہ قرآن کے نزدیک ایک خاتون خانہ کی جو بہترین روش ہونی چاہیے وہ یہاں تین الفاظ میں بیان کردی گئی ہے : (فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ ) ۔- (حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ ) َوہ مردوں کی غیر موجودگی میں ان کے اموال اور حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔ ظاہر ہے مرد کا مال تو گھر میں ہی ہوتا ہے ‘ وہ کام پر چلا گیا تو اب وہ بیوی کی حفاظت میں ہے۔ اسی طرح بیوی کی عصمت درحقیقت مرد کی عزتّ ہے۔ وہ اس کی غیر موجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت کرتی ہے۔ اسی طرح مرد کے راز ہوتے ہیں ‘ جن کی سب سے زیادہ بڑھ کر رازدان بیوی ہوتی ہے۔ تو یہ حفاظت تین اعتبارات سے ہے ‘ شوہر کے مال کی ‘ شوہر کی عزت و ناموس کی ‘ اور شوہر کے رازوں کی ۔- (بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ط) ۔- اصل حفاظت و نگرانی تو اللہ کی ہے ‘ لیکن انسان کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی پڑتی ہے۔ جیسے رازق تو اللہ ہے ‘ لیکن انسان کو کام کر کے رزق کمانا پڑتا ہے۔ - (وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ ) ّاگر کسی عورت کے رویے سے ظاہر ہو رہا ہو کہ یہ سرکشی ‘ سرتابی ‘ ضد اور ہٹ دھرمی کی روش پر چل پڑی ہے ‘ شوہر کی بات نہیں مان رہی بلکہ ہر صورت میں اپنی بات منوانے پر مصر ہے اور اس طرح گھر کی فضا خراب کی ہوئی ہے تو یہ نشوز ہے۔ اگر عورت اپنی اس حیثیت کو ذہناً تسلیم نہ کرے کہ وہ شوہر کے تابع ہے تو ظاہر بات ہے کہ مزاحمت ( ) ہوگی اور اس کے نتیجے میں گھر کے اندر ایک فساد پیدا ہوگا۔ ایسی صورت حال میں مرد کو قوّام ہونے کی حیثیت سے بعض تادیبی اختیارات دیے گئے ہیں ‘ جن کے تین مراحل ہیں : ُ - (فَعِظُوْہُنَّ ) - پہلا مرحلہ سمجھانے بجھانے کا ہے ‘ جس میں ڈانٹ ڈپٹ بھی شامل ہے۔- (وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْْمَضَاجِعِ ) - اگر نصیحت و ملامت سے کام نہ چلے تو دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ ان سے اپنے بستر علیحدہ کرلو اور اس کے ساتھ تعلق زن و شو کچھ عرصہ کے لیے منقطع کرلو۔ - ( وَاضْرِبُوْہُنَّ ج) ۔- اگر اب بھی وہ اپنی روش نہ بدلیں تو مرد کو جسمانی سزا دینے کا بھی اختیار ہے۔ اس ضمن میں آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہدایت فرمائی ہے کہ چہرے پر نہ مارا جائے اور کوئی ایسی مار نہ ہو جس کا مستقل نشان جسم پر پڑے۔ مذکورہ بالا تادیبی ہدایات اللہ کے کلام کے اندر بیان فرمائی گئی ہیں اور انہیں بیان کرنے میں ہمارے لیے کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے۔ معاشرتی زندگی کو درست رکھنے کے لیے ان کی ضرورت پیش آئے تو انہیں اختیار کرنا ہوگا۔ - (فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُوْا عَلَیْہِنَّ سَبِیْلاً ط) ۔- اگر عورت سرکشی و سرتابی کی روش چھوڑ کر اطاعت کی راہ پر آجائے تو پچھلی کدورتیں بھلا دینی چاہئیں۔ اس سے انتقام لینے کے بہانے تلاش نہیں کرنے چاہئیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :56 قوام یا قیم اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالت میں چلانے اور اس کی حفاظت و نگہبانی کرنے اور اس کی ضروریات مہیا کرنے کا ذمہ دار ہو ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :57 یہاں فضیلت بمعنی شرف اور کرامت اور عزت نہیں ہے ، جیسا کہ ایک عام اردو خواں آدمی اس لفظ کا مطلب لے گا ، بلکہ یہاں یہ لفظ اس معنی میں ہے کہ ان میں سے ایک صنف ( یعنی مرد ) کو اللہ نے طبعاً بعض ایسی خصوصیات اور قوتیں عطا کی ہیں جو دوسری صنف ( یعنی عورت ) کو نہیں دیں یا اس سے کم دی ہیں ۔ اس بنا پر خاندانی نظام میں مرد ہی قوام ہونے کی اہلیت رکھتا ہے اور عورت فطرةً ایسی بنائی گئی ہے کہ اسے خاندانی زندگی میں مرد کی حفاظت و خبر گیری کے تحت رہنا چاہیے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :58 حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” بہترین بیوی وہ ہے کہ جب تم اسے دیکھو تو تمہارا جی خوش ہو جائے ، جب تم اسے کسی بات کا حکم دو تو وہ تمہاری اطاعت کرے ، اور جب تم گھر میں نہ ہو تو وہ تمہارے پیچھے تمہارے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے“ ۔ یہ حدیث اس آیت کی بہترین تفسیر کرتی ہے ۔ مگر یہاں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت سے اہم اور اقدم اپنے خالق کی اطاعت ہے ۔ لہٰذا اگر کوئی شوہر خدا کی معصیت کا حکم دے ، یا خدا کے عائد کیے ہوئے کسی فرض سے باز رکھنے کی کوشش کرے تو ، اس کی اطاعت سے انکار کر دینا عورت کا فرض ہے ۔ اس صورت میں اگر وہ اس کی اطاعت کرے گی تو گناہ گار ہوگی ۔ بخلاف اس کے اگر شوہر اپنی بیوی کو نفل نماز یا نفل روزہ ترک کرنے کے لیے کہے تو لازم ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے ۔ اس صورت میں اگر وہ نوافل ادا کرے گی تو مقبول نہ ہوں گے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :59 یہ مطلب نہیں ہے کہ تینوں کام بیک وقت کر ڈالے جائیں ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ نشوز کی حالت میں ان تینوں تدبیروں کی اجازت ہے ۔ اب رہا ان پر عمل درآمد ، تو بہرحال اس میں قصور اور سزا کے درمیان تناسب ہونا چاہیے ، اور جہاں ہلکی تدبیر سے اصلاح ہو سکتی ہو وہاں سخت تدبیر سے کام نہ لینا چاہیے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کے مارنے کی جب کبھی اجازت دی ہے بادل ناخواستہ دی ہے اور پھر بھی اسے ناپسند ہی فرمایا ہے ۔ تاہم بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو پٹے بغیر درست ہی نہیں ہوتیں ۔ ایسی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ منہ پر نہ مارا جائے ، بے رحمی سے نہ مارا جائے اور ایسی چیز سے نہ مارا جائے جو جسم پر نشان چھوڑ جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani