Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مسئلہ وارثت میں موالی؟ وارث اور عصبہ کی وضاحت و اصلاحات بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ موالی سے مراد وارث ہیں بعض کہتے ہیں عصبہ مراد ہیں؟ چچا کی اولاد کو بھی موالی کہا جاتا ہے جیسے حضرت فضل بن عباس کے شعر میں ہے ۔ پس مطلب آیت کا یہ ہوا کہ اے لوگو تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے عصبہ مقرر کر دئیے ہیں جو اس مال کے وارث ہوں گے جسے ان کے ماں باپ اور قرابتدار چھوڑ مریں اور تمہارے منہ بولے بھائی ہیں تم جن کی قسمیں کھا کر بھائی بنے ہو اور وہ تمہارے بھائی بنے ہیں انہیں ان کی میراث کا حصہ دو جیسے کہ قسموں کے وقت تم میں عہد و پیمان ہو چکا تھا ، یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا پھر منسوخ ہو گیا اور حکم ہوا کہ جن سے عہد و پیمان ہوئے وہ نبھائے جائیں اور بھولے نہ جائیں لیکن میراث انہیں نہیں ملے گی صحیح بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ موالی سے مراد وارث ہیں اور بعد کے جملہ سے مراد یہ ہے کہ مہاجرین جب مدینہ شریف میں تشریف لائے تو یہ دستور تھا کہ ہر مہاجر اپنے انصاری بھائی بند کا وارث ہوتا اس کے ذو رحم رشتہ دار وارث نہ ہوتے پس آیت نے اس طریقے کو منسوخ قرار دیا اور حکم ہوا کہ ان کی مدد کرو انہیں فائدہ پہنچاؤ ان کی خیر خواہی کرو لیکن میراث انہیں نہیں ملے گی ہاں وصیت کر جاؤ ۔ قبل از اسلام یہ دستور تھا کہ دو شخصوں میں عہد و پیمان ہو جاتا تھا کہ میں تیرا وارث اور تو میرا وارث اسی طرح قبائل عرب عہد و پیمان کر لیتے تھے پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جاہلیت کی قسمیں اور اس قسم کے عہد اس آیت نے منسوخ قرار دے دیئے اور فرمایا معاہدوں والوں کی بہ نسبت ذی رحم رشتہ دار کتاب اللہ کے حکم سے زیادہ ترجیح کے مستحق ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جاہلیت کی قسموں اور عہدوں کے بارے میں یہاں تک تاکید فرمائی کہ اگر مجھے سرخ اونٹ دئیے جائیں اور اس قسم کے توڑنے کو کہا جائے جو دارالندوہ میں ہوئی تھی تو میں اسے بھی پسند نہیں کرتا ، ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں میں اپنے بچپنے میں اپنے ماموؤں کے ساتھ حلف طیبین میں شامل تھا میں اس قسم کو سرخ اونٹوں کے بدلے بھی توڑنا پسند نہیں کرتا پس یاد رہے کہ قریش و انصار میں جو تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قائم کیا تھا وہ صرف الفت و یگانگت پیدا کرنے کے لئے تھا ، لوگوں کے سوال کے جواب میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان مروی ہے کہ جاہلیت کے حلف نبھاؤ ۔ لیکن اب اسلام میں رسم حلف کالعدم قرار دے دی گئی ہے فتح مکہ والے دن بھی آپ نے کھڑے ہو کر اپنے خطبہ میں اسی بات کا اعلان فرمایا داؤد بن حصین رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں حضرت ام سعد بنت ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے قرآن پڑھتا تھا میرے ساتھ ان کے پوتے موسیٰ بن سعد بھی پڑھتے تھے جو حضرت ابو بکر کی گود میں یتیمی کے ایام گزار رہے تھے میں نے جب اس آیت میں عاقدت پڑھا تو مجھے میری استانی جی نے روکا اور فرمایا عقدت پڑھو اور یاد رکھو یہ آیت حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ عبدالرحمن اسلام کے منکر تھے حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قسم کھا لی کہ انہیں وارث نہ کریں گے بالآ خر جب یہ مسلمانوں کے بے انتہاحسن اعمال سے اسلام کی طرف آمادہ ہوئے اور مسلمان ہوگئے تو جناب صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم ہوا کہ انہیں ان کے ورثے کے حصے سے محروم نہ فرمائیں لیکن یہ قوم غریب ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے الغرض اس آیت اور ان احادیث سے ان کا قول رد ہوتا ہے جو قسم اور وعدوں کی بنا پر آج بھی ورثہ پہنچنے کے قائل ہیں جیسے کہ امام ابو حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ساتھیوں کا خیال ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی اس قسم کی ایک روایت ہے ۔ جسے جمہور اور امام مالک اور امام شافعی سے صحیح قرار دیا ہے اور مشہور قول کی بنا پر امام احمد کا بھی اسے صحیح مانتے ہیں ، پس آیت میں ارشاد ہے کہ ہر شخص کے وارث اس کے قرابتی لوگ ہیں اور کوئی نہیں ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں حصہ دار وارثوں کو ان کے حصوں کے مطابق دے کر پھر جو بچ رہے تو عصبہ کو ملے اور وارث وہ ہیں جن کا ذکر فرائض کی دو آیتوں میں ہے اور جن سے تم سے مضبوط عہد و پیمان اور قسموں کا تبادلہ ہے یعنی آس آیت کے نازل ہونے سے پہلے کے وعدے اور قسمیں ہوں خواہ اس آیت کے اترنے کے بعد ہوں سب کا یہی حکم ہے کہ ایسے حلف برداروں کو میراث نہ ملے اور بقول حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کا حصہ نصرت امداد خیر خواہی اور وصیت ہے میراث نہیں آپ فرماتے ہیں لوگ عہدو پیمان کر لیا کرتے تھے کہ ان میں سے جو پہلے مرے گا بعد والا اس کا وارث بنے گا پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے ( وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا ) 33 ۔ الاحزاب:6 ) نازل فرما کر حکم دیا کہ ذی رحم محرم ایک سے اولی ہے البتہ اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرو یعنی اگر ان سے مال کا تیسرا حصہ دینے کی وصیت کر جاؤ تو جائز ہے یہی معروف و مشہور امر اور بہت سے سلف سے بھی مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اور ناسخ ( وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا ) 33 ۔ الاحزاب:6 ) والی ہے ۔ حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں انہیں ان کا حصہ دو یعنی میراث ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک صاحب کو اپنا بیٹا بناتے تھے اور انہیں اپنی جائیداد کا جائز وارث قرار دیتے تھے پس اللہ تعالیٰ نے ان کا حصہ وصیت میں تو برقرار رکھا میراث کا مستحق موالی یعنی ذی رحم محرم رشتہ داروں اور عصبہ کو قرار دے دیا اور سابقہ رسم کو ناپسند فرمایا کہ صرف زبانی دعوؤں اور بنائے ہوئے بیٹوں کو ورثہ نہ دیا جائے ہاں ان کے لئے وصیت میں سے دے سکتے ہو ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میرے نزدیک مختار قول یہ ہے کہ انہیں حصہ دو یعنی نصرت نصیحت اور معونت کا یہ نہیں کہ انہیں ان کے ورثہ کا حصہ دو تو یہ معنی کرنے سے پھر آیت کو منسوخ بتلانے کی وجہ باقی نہیں رہتی نہ یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ حکم پہلے تھا اب نہیں رہا ۔ بلکہ آیت کی دلالت صرف اسی امر پر ہے کہ جو عہد و پیمان آپس میں امداد و اعانت کے خیر خواہی اور بھلائی کے ہوتے تھے انہیں وفا کرو پس یہ آیت محکم اور غیر منسوخ ہے لیکن امام صاحب کے قول میں ذرا اشکال سے اس لئے کہ اس میں تو شک نہیں کہ بعض عہد و پیمان صرف نصرت و امداد کے ہی ہوتے تھے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ بعض عہد و پیمان ورثے کے بھی ہوتے تھے جیسے کہ بہت سے سلف صالحین سے مروی ہے اور جیسے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر بھی منقولی ہیں ۔ جس میں انہوں نے صاف فرمایا ہے کہ مہاجر انصار کا وارث ہوتا تھا اس کے قرابتی لوگ وارث نہیں ہوتے تھے نہ ذی رحم رشتہ دار وارث ہوتے تھے یہاں تک کہ یہ منسوخ ہو گیا پھر امام صاحب کیسے فرما سکتے ہیں کہ یہ آیت محکم اور غیر محکم منسوخ ہے واللہ تعالیٰ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 مَوَالِیْ ، مولیٰ کی جمع ہے مولیٰ کے کئی معنی ہیں دوست، آزاد کردہ غلام، چچازاد، پڑوسی، لیکن یہاں اس سے مراد ورثاء ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر مرد اور عورت جو کچھ چھوڑ جائیں گے، اس کے وارث ان کے ماں باپ اور دیگر قریبی رشتہ دار ہونگے۔ 33۔ 2 اس آیت کے محکم یا منسوخ ہونے کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ ابن جریر طبری وغیرہ اسے غیر منسوخ (محکم) مانتے ہیں اور اَیْمَانُکُمْ (معاہدہ) سے مراد وہ حلف اور معاہدہ لیتے ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کے لئے اسلام سے قبل دو اشخاص یا دو قبیلوں کے درمیان ہوا اور اسلام کے بعد بھی وہ چلا آرہا تھا۔ نصیبھم (حصہ) سے مراد اسی حلف اور معاہدے کی پابندی کے مطابق تعاون و تناصر کا حصہ ہے اور ابن کثیر اور دیگر مفسرین کے نزدیک یہ آیت منسوخ ہے۔ کیونکہ اَیْمَانُکُمْ سے ان کے نزدیک وہ معاہدہ ہے جو ہجرت کے بعد ایک انصاری اور مہاجر کے درمیان اخوت کی صورت میں ہوا تھا۔ اس میں ایک مہاجر، انصاری کے مال کا اس کے رشتہ داروں کی بجائے، وارث ہوتا تھا، لیکن یہ چونکہ ایک عارضی انتظام تھا، اس لیے پھر (وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ ) 033:006 رشتے دار اللہ کے حکم کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، نازل فرما کر اسے منسوخ کردیا گیا ہے۔ اب " فاتوھم نصیبھم " سے مراد دوستی و محبت اور ایک دوسرے کی مدد ہے اور بطور وصیت کچھ دے دینا بھی اس میں شامل ہے۔ موالات عقد، موالات حلف یا موالات اخوت میں اب وراثت کا تصور نہیں ہوگا اہل علم کے ایک گروہ نے اس سے مراد ایسے شخصوں کو لیا جن میں سے کم از کم ایک لاوارث ہے۔ اور ایک دوسرے شخص سے یہ طے کرتا ہے کہ میں تمہارا مولی ہوں۔ اگر کوئی جنایت کروں تو میری مدد کرنا اور اگر مارا جاؤں تو میری دیت لے لینا۔ اس لاوارث کی وفات کے بعد اس کا مال مزکورہ شخص لے گا۔ بشرطیکہ واقعتا اس کا کوئی وارث نہ ہو۔ بعض دوسرے اہل علم نے اس آیت کا ایک اور معنی بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "ۭوَالَّذِيْنَ عَقَدَتْ اَيْمَانُكُمْ "004:033 سے مراد بیوی اور شوہر ہیں اور اس کا عطف الاقربون پر ہے۔ معنی یہ ہیں کہ ماں باپ نے قرابت داروں نے اور جن کو تمہارا عہد و پیمان آپس میں باندھ چکا ہے یعنی شوہر یا بیوی انہوں نے جو کچھ میراث میں چھوڑا اس کے حقدار یعنی حصے دار ہم نے مقرر کردیئے ہیں۔ لہذا ان حقداروں کو ان کے حصے دے دو گویا پیچھے آیات میراث میں تفصیلا جو حصے بیان کیے گئے تھے یہاں اجمالا ان کی ادائیگی کی مزید تاکید کی گئی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٦] مواخات اور میراث :۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ موالی سے مراد۔۔ وارث ہیں اور (وَالَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ ) کا مطلب یہ ہے کہ مہاجرین اسلام ابتداًء جب مدینہ آئے تو مہاجر اپنے انصاری بھائی کا وارث ہوتا اور انصاری کے رشتہ داروں کو ترکہ نہ ملتا تھا کیونکہ نبی اکرم نے مواخات کرا دی تھی۔ پھر (جب مسلمانوں کی معیشت سنبھل گئی تو) یہ آیت اتری (وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ 33؀ ) 4 ۔ النسآء :33) تو اب ایسے بھائیوں کو ترکہ ملنا موقوف ہوگیا اور اب (عَقَدَتْ اَيْمَانُكُمْ 33؀ ) 4 ۔ النسآء :33) سے مراد وہ لوگ ہیں جن سے قسم کھا کر دوستی، مدد اور خیر خواہی کا عہد کیا جائے ان کے لیے ترکہ نہ رہا البتہ وصیت کا حکم باقی ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر نیز کتاب الکفالہ باب قول اللہ والذین عقدت ایمانکم)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ ۔۔ : اس آیت کریمہ کے پہلے حصے میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ مرد ہو یا عورت ہر ایک کے ورثا اور رشتے دار ہوتے ہیں، جو اس کے مرنے کے بعد اس کے وارث بنتے ہیں۔ آیت کے دوسرے حصے (ۭوَالَّذِيْنَ عَقَدَتْ اَيْمَانُكُمْ فَاٰتُوْھُمْ نَصِيْبَھُمْ ۭ ) کا مفہوم یہ ہے کہ تم نے جو حلف یا معاہدہ کسی کے ساتھ کیا ہوا ہے تو اس کا حصہ اسے دو ۔ ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب مہاجرین مدینہ آئے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ قائم کردیا تھا، انصاری کا وارث اس کے رشتے داروں کی بجائے مہاجر ہوتا تھا، پھر جب یہ آیت نازل ہوئی : ( وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ ) تو وہ (وراثت جو مہاجرین اور انصار کے درمیان قائم کی گئی تھی) منسوخ ہوگئی، پھر فرمایا : ( ۭوَالَّذِيْنَ عَقَدَتْ اَيْمَانُكُمْ ) سے مراد یہ ہے کہ نصرت، اعانت اور نصیحت کی صورت میں انھیں ان کا حصہ دو ، کیونکہ میراث سے ان کا تعلق ختم ہوگیا ہے، ہاں البتہ ان کے لیے وصیت کی جاسکتی ہے۔ [ بخاری، التفسیر، باب : ( وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ ۔۔ ) : ٤٥٨٠ ] نیز دیکھیے سورة انفال کی آخری آیت۔ - مولانا محمد عبدہ (رض) لکھتے ہیں کہ آیت میں ” موالی “ سے مراد عصبہ ہیں اور عصبہ کی وراثت میں ” اَلْاَقْرَبُ فَالْاَقْرَبُ “ کا اصول مقرر ہے، یعنی اول سب سے قریبی، پھر دوسرا اور ایک حدیث میں بھی ( فَلِاَوْلٰی رَجُلٍ ذَکَرٍ ) کے الفاظ ہیں، یعنی اصحاب فروض سے جو کچھ بچ جائے گا وہ عصبہ میں سے اس شخص کو ملے گا جو میت کے مردوں میں سب سے زیادہ قریب ہوگا اور اس پر علماء کا اجماع بھی ہوچکا ہے۔ (دیکھیے فتح الباری : ٦؍٢٩٤۔ المحلٰی : ٩؍٢٧١۔ احکام القرآن للجصاص : ٢؍٢٢٤)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ۝ ٠ۭ وَالَّذِيْنَ عَقَدَتْ اَيْمَانُكُمْ فَاٰتُوْھُمْ نَصِيْبَھُمْ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَہِيْدًا۝ ٣٣ۧ- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- موالی - ۔ مولی۔ کی جمع۔ چچا کے بیٹے ( بغوی) عصیات ( مجاہد) کلالہ ( ابو صالح) عام وارث ( کلبی) دوست۔ مؤکل۔ محافظ (44:41) آقا۔ مالک (16:76)- ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، وقوله : وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] . وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] . وفي الحظوة : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] ، وقال في عيسى: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45] ، عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] ، فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] ، قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114] ، وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] . ويقال للحظوة : القُرْبَةُ ، کقوله : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] ، تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] . وفي الرّعاية نحو : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] ، وقوله : فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] - وفي القدرة نحو : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] . قوله وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ [ الواقعة 85] ، يحتمل أن يكون من حيث القدرة- ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] اور مجھے معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو ۔۔۔ اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا کے متعلق فرمایا : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] اور نہ مقرب فرشتے ( عار ) رکھتے ہیں ۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45]( اور جو ) دنیا اور آخرت میں آبرو اور ( خدا کے ) خاصوں میں سے ہوگا ۔ عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے ( خدا کے ) مقرب پئیں گے ۔ فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] پھر اگر وہ خدا کے مقربوں میں سے ہے : قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114]( فرعون نے ) کہا ہاں ( ضرور ) اور اس کے علاوہ تم مقربوں میں داخل کرلئے جاؤ گے ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] اور باتیں کرنے کے لئے نزدیک بلایا ۔ اور القربۃ کے معنی قرب حاصل کرنے کا ( ذریعہ ) کے بھی آتے ہیں جیسے فرمایا : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] اس کو خدا کی قربت کا ذریعہ ۔ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] دیکھو وہ بےشبہ ان کے لئے ( موجب ) قربت ہے۔ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں ۔ اور رعایت ونگہبانی کے متعلق فرمایا : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے ۔ فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] میں تو تمہارے پاس ہوں ۔ جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اسکی دعا قبول کرتا ہوں ۔ اور قرب بمعنی قدرہ فرمایا : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔- عقد - العَقْدُ : الجمع بين أطراف الشیء، ويستعمل ذلک في الأجسام الصّلبة کعقد الحبل وعقد البناء، ثم يستعار ذلک للمعاني نحو : عَقْدِ البیع، والعهد، وغیرهما، فيقال : عاقدته، وعَقَدْتُهُ ، وتَعَاقَدْنَا، وعَقَدْتُ يمينه . قال تعالی: عاقدت أيمانکم «5» وقرئ : عَقَدَتْ أَيْمانُكُمْ «6» ، وقال : بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ [ المائدة 89] ، وقرئ : بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ «1» ، ومنه قيل : لفلان عقیدة، وقیل للقلادة : عِقْدٌ. والعَقْدُ مصدر استعمل اسما فجمع، نحو : أَوْفُوا بِالْعُقُودِ- [ المائدة 1] ، - ( ع ق د ) العقد - کے معنی کسی چیز کے اطراف کو جمع کردینے یعنی گرہ باندھنے کے ہیں یہ اصل میں تو سخت اجسام کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے عقد الحبل ( رسی کی گرہ باندھنا عقد البناء وغیرہ محاورات ہیں ۔ پھر بطور استعارہ معانی پر ۔ بھی بولا جاتا ہے جیسے عقد البیع سودے کو پختہ کرنا عقد العھد محکم عہد باندھنا وغیرہ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ میں نے اس سے پختہ عہد وبیمان باندھا قرآن میں ہے : ۔ عَقَدَتْ أَيْمانُكُمْ «6»جن لوگوں سے تم نے پختہ عہد باندھ رکھے ہوں ۔ ایک قرات میں عقدت ایمانکم سے نیز فرمایا : ۔ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ [ المائدة 89] پختہ قسموں ہر ایک قرات میں ہے اسی سے لفلان عقیدۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی پختہ یقین کے ہیں العقد ( گلے کا ہار ) اور العقد یہ اصل میں مصدر ہیں اور بطور اسم کے استعمال ہوتے ہیں اس کی جمع عقود آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَوْفُوا بِالْعُقُودِ [ المائدة 1] اپنے اقراروں کو پورا کرو - يَمِينُ ) قسم)- في الحلف مستعار من الید اعتبارا بما يفعله المعاهد والمحالف وغیره . قال تعالی: أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم 39] ، وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] ، لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة 225] ، وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة 12] ، إِنَّهُمْ لا أَيْمانَ لَهُمْ [ التوبة 12] وقولهم : يَمِينُ اللهِ ، فإضافته إليه عزّ وجلّ هو إذا کان الحلف به . ومولی اليَمِينِ : هو من بينک وبینه معاهدة، وقولهم : ملك يَمِينِي أنفذ وأبلغ من قولهم : في يدي، ولهذا قال تعالی: مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 33] وقوله صلّى اللہ عليه وسلم آله : «الحجر الأسود يَمِينُ اللهِ» «1» أي : به يتوصّل إلى السّعادة المقرّبة إليه . ومن اليَمِينِ : تُنُووِلَ اليُمْنُ ، يقال : هو مَيْمُونُ النّقيبة . أي : مبارک، والمَيْمَنَةُ : ناحيةُ اليَمِينِ.- الیمین - بمعنی دایاں ہاتھ سے استعارہ کے طور پر لفظ یمین قسم کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عرب قسم کھاتے یا عہد کرتے وقت اپنا دایاں ہاتھ دوسرے کے دائیں ہاتھ پر مارتے تھے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم 39] یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو قیامت کے دن چلی جائیں گی ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] اور یہ لوگ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا ۔ وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة 12] اگر عہد کرن کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں ۔ ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ۔ اور عربی محاورہ ویمین اللہ ( اللہ کی قسم ) میں) یمین کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لئے کی جاتی ہے ۔ کہ قسم کھانے والا اللہ کے نام کی قسم کھاتا ہے ۔ اور جب ایک شخص دوسرے سے عہدو پیمان باندھتا ہے تو وہ اس کا موالی الیمین کہلاتا ہے اور کسی چیز پر ملک اور قبضہ ظاہر کرنے کے لئے فی یدی کی نسبت ملک یمینی کا محاورہ زیادہ بلیغ ہے ۔ اسی بنا پر غلام اور لونڈیوں کے بارے میں قرآن نے اس محاورہ کی اختیار کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 33] جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں ۔ اور حدیث میں حجر اسود کی یمین اللہ کہا گیا ہے (132) کیونکہ اس کے ذریعہ قرب الہی کی سعادت حاصل کی جاتی ہے ۔ یمین سے یمن کا لفظ ماخوذ ہے جو خیروبرکت کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ ھومیمون ۔ النقیبۃ وہ سعادت مند ہے اور میمنۃ کے معنی دائیں جانب بھی آتے ہیں ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - شَّهِيدُ- وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] - شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

عصبہ کا بیان - قول باری ہے (ولکل جعلناموالی مما ترک الوالدان ولاقربون، اور ہم نے ہر اس ترکے کے حق دار چھوڑے ہیں جو والدین اور رشتہ دار چھوڑیں) حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ یہاں موالی سے مراد عصبہ ہیں۔ سدی کا قول ہے کہ موالی ورثاء کو کہتے ہیں۔ - ایک قول کے مطابق مولیٰ کی اصل معنی ہیں وہ شخص جو کسی چیز کا ولی اور سرپرست بن گیا ہو جس کا مفہوم یہ ہے کہ سرپرستی کا تعلق اس چیز میں تصرف کے حق کے ساتھ قائم ہوجائے۔ - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مولی ایک مشترک لفظ ہے جس کے کئی معانی ہیں اپنے غلام کو آزاد کردینے والا آقا مولی کہلاتا ہے۔ کیونکہ اسے آزادی دینے کے سلسلے میں وہی اس کا ولی نعمت ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے آقا کو مولی النعمۃ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ - آزاد شدہ غلام کو بھی مولی کہتے ہیں کیونکہ آقا کی طرف سے اسے آزادی کی نعمت سے مالا مال کرنے کی بنا پر اسے کے آقا کی ولایت اس کے ساتھ متصل ہوجاتی ہے۔ اس لفظ کی حیثیت وہی ہے جو لفظ غریم کی ہے۔ طالب یعنی قرض دینے والے کو بھی غریم کہتے ہیں کیونکہ اسے مقروض کے پیچھے پڑے رہنے اور قرض کی واپسی کے مطالبے کا حق ہوتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ مطلوب یعنی مقروض کو بھی غریم کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے کیونکہ وہ قرض کی ادائیگی کے مطالبہ کی زد میں ہوتا ہے اور اس کے ذمے قرض کی رقم لگی ہوتی ہے۔ - باپ اور بیٹے کے واسطے سے مذکر رشتہ داروں یعنی عصبہ کو بھی مولی کہا جاتا ہے اور کسی حلف یعنی دوستی کے معاہدے میں شریک حلیف کو بھی مولی کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ دوستی کے اس معاہدے کی بنا پر وہ اپنے حلیف کے معاملات کا ولی اور سرپرست و نگران ہوتا ہے چچا زاد بھائی کو بھی مولی کہتے ہیں کیونکہ وہ قرابت اور رشتہ داری کی بنیاد پر مدد کرتا اور ساتھ دیتا ہے۔ - ولی کو بھی مولی کہتے ہیں کیونکہ وہ مدد کرنے اور ساتھ دینے کی صورت میں سرپرستی اور معاملات کی نگرانی کرتا ہے قول باری ہے (ذالک بأن اللہ مولی الذین آمنوا و ن الکافرین لامولی لہم) یہ اس لیے کہ اللہ تعلایٰ اہل ایمان کا مولی اور ان کا مددگار ہے اور کافروں کا کوئی مولی نہیں ہے۔ ) یعنی اللہ تعالیٰ نصرت اور مدد کے ذریعے اہل ایمان کی سرپرستی کرتا ہے جبکہ کافروں کا کوئی مدد کرنے والا نہیں جس کی مدد کسی شمار و قطار میں ہو۔ فضل بن عباس سے شعر منسوب ہے - مہلا بنی عمنا مہلا موالینا - لاتظہرن لنا ما کان مدفونا - اسے ہمارے چچا کے خاندان والو، اے ہمارے موالی ذرا صبر سے کام لو اور ہمارے سامنے اس دشمنی کا اظہا رنہ کرو جو اسلام آنے کے بعد دفن کردی گئی تھی، شاعر کا روئے سخن بنی امیہ کی طرف ہے۔ - شعر میں شاعر نے چچا کے بیٹوں کو موالی کا نام دیا ہے۔ غلام کے مالک کو بھی مولی کہتے ہیں کیونکہ ملکیت ، نصرت، ولایت ، نصرت اور حمیات کی صورت میں وہ اس کا نگران اور سرپرست ہوتا ہے۔ اس طرح مولی کے سام کے درج بالا معانی ہے اور اس لیے یہ ایک مشترک لفظ ہے جس کی بنا پر اس کے عموم کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ - اس لیے ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنے موالی کے لیے وصیت کی ہو تو اگر درجے کے لحاظ سے اس کے اعلی اور اسفل دونوں قسم کے موالی موجود ہ۔ ں گے تو اس کی یہ وصیت باطل ہوجائے گی کیونکہ ان دونوں قسموں کے موالی کا ایک ہی حالت میں لفظ کے تحت آنا ممتنع ہے نیز ان میں کوئی بھی دوسرے کے مقابلے میں اولی نہیں ہے۔ اس لیے وصیت باطل ہوجائے گی۔ - یہاں مولی کے تمام معانی میں سے عصبہ کے معنی زیادہ قریب ہیں کیونکہ اسرائیل نے حصین سے ، انہوں نے ابوصالح سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( انا اولی بالمومنین من مات وترک مالا فمالہ للموالی العصبۃ ۔ ومن ترک کلا او ضیاعا فانا ولیہ۔- میں اہل ایمان کے سب سے زیادہ قریب ہوں جو شخص وفات پا جائے اور مال چھوڑ جائے تو اس کا مال اس کے موالی یعین عصبہ کو ملے گا اور جو شخص کوئی بوجھ یا عیال چھوڑ جائے تو ان کا ولی اور سرپرست ہوں گا)- معمر نے طاؤس کے بیٹے سے ، انہوں نے اپنے والد سے، اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اقسموا المال بین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فما بقت السہام فلا ولی رجل ذکر، وروی فلا ولی عصبۃ ذکر) ترکے کو ان لوگوں میں تقسیم کر دو جو ذوالفروض ہیں یعنی جن کے حصے مقرر ہیں انہیں ان کے حصے دینے کے بعد جو باقی بچ رہے وہ سب سے قریبی مذکر رشتہ دار کا ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ سب سے قریبی مذکر عصبہ کا ہوگا) ۔ - اسی طرح وہ روایت بھی ہے جس میں موالی کو عصبہ کا نام دیا گیا ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد (فلا ولی عصبۃ ذکر) میں وہ مفہوم موجود ہے جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ قول باری (ولکل جعلنا موالی مماترک الوالدان ولاقربون) میں عصبات مراد ہیں۔- فقہاء کے درمیان بھی اس بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ ذوی الفروض کو ان کے حصے دینے کے بعد ترکے میں سے بچے رہنے والا مال اس شخص کو دیا جائے گا جو میت کا سب سے قریبی عصبہ ہوگا۔ عصبات ان مرد رشتہ داروں کو کہا جاتا ہے جن کی میت کے ساتھ قرابت باپ اور بیٹوں کے واسطے سے متصل ہوتی ہے۔ - مثلا دادا، علاتی بھائی ، چچا اور اس کے بیٹے اس طرح وہ مذکر رشتہ دار جن کی پشت ان سے نیچے ہو لیکن میت سے ان کا اتصال بیٹوں اور باپوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس قاعدے سے بہنیں خارج ہیں کیونکہ وہ بیٹیوں کی موجودگی میں عصبات بن جاتی ہیں۔ پھر عصبات میں وراثت کے لیے قاعدہ یہ ہے کہ جو میت سے زیادہ قریب ہوگا وہ وارث ہوگا ور اس کے ہوتے ہوئے دور کے عصبہ کو وارث قرار نہیں دیا جائے گا۔- اس مسئلے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ میت کے ساتھ جس مذکر رشتہ دار کی رشتہ داری کا عوروں کے واسطے سے اتصال ہوتا ہے وہ عصبہ نہیں بنتا۔ آزاد کرنے والا آقا اپنے آزاد کردہ غلام اور اس کی اولاد کا عصبہ ہوتا ہے۔ اسی طرح آزادی دینے والے آقا کی مذکر اولادآزاد کردہ غلام کی عصبہ ہوتی ہے۔ جب اس کے آقا کی وفات ہوجائے گی تو اس کی مذکر اولاد آزاد کردہ غلام کی عصبات بن جائے گی اور غلام کی ولاء انہیں منتقل ہوجائے گی۔- یہ ولاء آقا کی بیٹیوں کو منتقل نہیں ہوگی کوئی عورت ولاء کی بناء پر کسی آزاد کردہ غلام یا لونڈی کی عصبہ نہیں بن سکتی۔ ہاں اگر اس نے خود کسی غلام کو آزادی دی ہو یا اس کے آزاد کردہ غلام نے آگے کسی کو آزاد کردیا ہو تو اس صورت میں ولاء کی بنا پر وہ عورت اس کے عصبہ بن جائے گی۔- آزاد کرنے والاآقا سنت یعنی حضور کے ارشاد کی رو سے عصبہ قرار دیا گیا ہے ، اور یہ ممکن ہے کہ قول باری (ولکل جعلنا موالی مماترک الولدان والاقربون) میں بھی یہ مراد ہو یہ چونکہ یہ اپنے آزاد کردہ غلام کا عصبہ ہے اور اس کی طرف سے دیت اور جرمانہ وغیرہ بھرنے کا اسی طرح ذمہ دار ہوتا ہے جس طرح اس غلام کے جو اعمام یعنی چچازاد برادران اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔- اگریہ کہاجائے کہ مرنے والانہ آزاد کرنے والے آقا کے رشتہ داروں میں سے ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے والدین میں سے تو آیت زیر بحث کے تحت یہ آقا میراث کا کی سے حق دار بن سکتا ہے ۔ اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ اگر آزاد کرنے والے آقا کے ساتھ میت کا کوئی نسبی رشتہ دار مثلا بیتی اور بہن بھی ہو تو اس صورت میں ترکہ کے اندر ان رشتہ داروں کے ساتھ اس کا بھی حصہ دار بننا درست ہوتا ہے۔- اگرچہ یہ میت کے رشتہ داروں میں سے نہیں ہوتا لیکن ترکہ کے حصوں میں اسے بھی حق حاصل ہوتا ہے کیونکہ یہ منجملہ ان ورثاء میں سے ہوتا ہے جن کے متعلق یہ کہنادرست ہوتا ہے کہ وہ اس ترکہ کے وارث ہورہے ہیں جو والدین اور رشتہ دار چھوڑ گئے ہیں اور اس صورت میں بعض ورثاء پر یہ بات صادق آئے گی کہ وہ والدین اوراقرباء کے وارث بنے ہیں۔- مولی اعلی سے مولی اسفل یعنی آزاد کرنے والے آقا سے آزاد کردہ غلام کی وراثت کے متعلق اہل علم میں اختلاف رائے ہے، امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف ، امام محمد، اور زفر نیز امام مالک امام شافعی اور سفیان ثوری اور دوسرے تمام اہل علم کا قول ہے کہ مولی اسفل کو مولی اعلی سے وراثت میں حصہ نہیں ملے گا، ابوجعفر طحاوی نے حسن بن زیاد سے روایت کی ہے کہ مولی اسفل مولی اعلی سے وراثت میں حصہ پائے گا۔- ان کا استدلال اس حدیث پر ہے جسے حماد بن سلمہ ، حماد بن زید، وہب بن خالد، اور محمد بن مسلم الطائفی نے عمروبن دینار سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس کے آزاد کردہ غلام عوسجہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے ایک شخص نے اپنا ایک غلام آزاد کردیا اور پھر اس شخص کا انتقال ہوگیا، اور اس کے پیچھے صرف اس کا یہ آزاد کردہ غلام رہ گیا۔- حضور نے اس شخص کا ترکہ اس آزادغلام کودے دیا۔ ابوجعفر نے فرمایا، چونکہ اس روایت کی مخالفت میں کوئی روایت موجود نہں ہے ، اس لیے اس روایت کے حکم کا اثبات واجب قرار پایا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس روایت کے متعلق یہ کہنادرست ہوسکتا ہے کہ حضور کا اس غلام کو مرنے والے کو ساراتر کہ دے دینا، میراث کی بنا پر نہیں تھا، بلکہ اس کی محتاجی اور فقر کی بنا پر تھا، کیونکہ اس شخص کا چھوڑا ہوامال ایسا تھا، جس کا کوئی وارث نہیں تھا، اس لیے اسے ٹھکانے لگانے کی یہی صورت تھی کہ ضرورت مندوں اور فقراء پرا سے صرف کردیاجاتا۔- اگریہ کہاجائے کہ جن اسباب کی بنا پر میراث واجب ہوتی ہے وہ بہ ہیں ولا، نسب اور نکاح ، نسب کی بنا پر رشتہ دار ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں ، اسی طرح میاں بیوی ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں تو اس بنا پر یہ ضروری ہوگیا جب ولااسفل (آزاد کردہ غلام) سے اعلی (آزاد کرنے والاآقا) کی میراث کی موجب ہے تو یہ اعلی سے اسفل کی میراث کی بھی موجب بن جائے۔- اس کے جواب میں ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ بات ضروری نہیں ہے اس لیے کہ ہمیں نسبی رشتہ داروں میں ایسی مثالیں ملتی ہے کہ ایک رشتہ دار کا دوسرا وارث ہوجاتا ہے لیکن اگر یہ دوسرا رشتہ دار مرجائے توپہلارشتہ دار اس کا وارث نہیں ہوتا۔- مثلا ایک عورت اگر اپنے پسماندگان میں ایک بہن یابیٹی اور بھائی کا بیٹا چھوڑ جائے تو اس صورت میں بہن یابیتی کو نصف ترکہ مل جائے گا اور باقی نصف بھائی کے بیٹے کو چلاجائے گا لیکن اگر اس عورت کی بجائے اس کے بھائی کا بیٹا وفات پاجاتا اور اپنے پیچھے بہن یابیٹ اور پھوپھی چھوڑ جاتاتوپھوپھی کو راثت میں کوئی حصہ نہ ملتا، اس طرح اس عورت کا بھتیجا جس صورت میں اس کا وارث بن گیا بعینہ س صورت میں یہ عورت اپنے بھتیجے کی وارث نہیں بن سکتی۔ واللہ اعلم - ولاء موالات - قول باری تعالیٰ ہے (والذین عقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم، ) رہے وہ لوگ جن سے تمہارے عہد و پیمان ہوں تو ان کا حصہ انہیں دو ) طلحہ بن مصرف نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے اس قول باری کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ ایک مہاجر عقد مواخات کی بنا پر اپنے انصاری بھائی کا وارث ہوتا، انصاری کے اپنے رشتہ دار اس کے وارث نہ ہوتے۔- پھر جب آیت (ولکل جعلنا موالی مماترک الوالدان والاقربون) نازل ہوئی تو یہ اول الذکر آیت میں ترکہ میں حصہ دینے کا حکم منسوخ ہوگیا، پھر حضرت ابن عباس نے اول الذکر آیت تلاوت کی اور فرمایا کہ (فاتوھم نصیبھم) کی صورت یہ ہے ایسے شخص کی مدد کی جائے ، اسے سہارا دیاجائے، اس کے لیے وصیت کرجائے، جہاں تک اس کے وارث ہونے کی بات تھی وہ اب ختم ہوگئی ہے۔- علی بن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس سے اس قول باری کے سلسلے میں روایت کی ہے ایک شخص دوسرے شخص سے یہ عہد پیمان کرلیتا ہے کہ ہم میں سے جو پہلے وفات پائے گا دوسراشخص اس کا وارث ہوگا۔- اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (واولوالارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ من المومنین والھاجرین الاان تفعلوا الی اولیاء کم معروفا، اور اللہ کی کتاب میں رشتہ دار ایک دوسرے سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں بہ نسبت دوسرے مومنین اور مہاجرین کے مگر ہاں تم اپنے دوستوں سے کچھ سلوک کرنا چاہو تو وہ جائز ہے ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لوگ اگر اپنے دوستوں کے لیے جن کے ساتھ ان کا عہد و پیمان ہے وصیت کرنا چاہیں تو ان کے لیے میت کے تہائی تر کے سے ایساکرناجائز ہے۔- آیت میں مذکور معروف کے یہی معنی ہیں ابوبشر نے سعید بن جبیر سے اس قول باری کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ایک شخص دوسرے سے عہد و پیمان کرتا پھر اگر وہ مرجاتا تو وہ شخص اس کا وارث بن جاتا، حضرت ابوبکر نے بھی ایک شخص سے اسی قسم کا معاہدہ کیا تھا اور اس کی موت پر اس کے وارث بن گئے تھے۔- سعید بن المسیب کا قول ہے کہ یہ حکم ان لوگوں کے متعلق ہے ، جو لوگوں کو متبنی بناکر انہیں اپن اورثا قرار دیتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی کہ ایسے لوگوں کے لیے وصیت کی جائے اور میراث کو اس کے حق دار رشتہ داروں اور عصبات کی طرف لوٹادیا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے سلف کے جو اقوال بیان کیے ہیں اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عہد و پیمان اور موالات کی بنا پر میراث کے استحقاق کا حکم زمانہ اسلام میں بھی جاری رہا تھا۔- پھرلوگوں نے یہ کہا کہ یہ حکم قول باری (واولوالارحام بعضھم اولی ببعض من کتاب اللہ) کی بنا پر منسوخ ہوگئی لیکن اقربا کی عدم موجودگی میں یہ حکم اسی طرح باقی ہے جس طرح پہلے تھا۔- موالی المولات یعنی عہد و پیمان کی بنا پر بننے والے حلیف اور دوستوں کی میراث کے متعلق فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے ، امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف، امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ جو شخص کسی کے ہاتھ پر مسلمان ہوگیا ہو اور پھر اس نے اس کے ساتھ دوستی کا عہد و پیمان کرلیا ہو تو اس کی موت پر اگر اس کا کوئی وارث موجود نہ ہو تو اس کی میراث اس شخص کو مل جائے گی ، امام مالک ، امام شافعی، ابن شبرمہ ، سفیان ثوری اور اوزاعی کا قول ہے ، کہ اس کی میراث مسلمانوں کو ملے گی، یحییٰ بن سعید کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص دشمنوں کی سرزمین سے آکر کسی کے ہاتھ پر اسلام لے آئے تو اس کی ولاء اس شخص کو حاصل ہوگی جس کے ساتھ اس نے موالات کیا ہو اور اگر کوئی ذمی کسی مسلمان کے ہاتھ پر اسلام لے آیا ہو تو اس کی ولاء عامۃ المسلمین کے لیے ہوگی۔- لیث بن سعد کا قول ہے کہ جو شخص کسی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلے تو گویا اس نے اس کے ہی ساتھ عقد موالات کرلیا اور اس کی میراث اس کے لیے ہوگی اس کے سوا کوئی اور وارث موجود نہ ہو۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت اس شخص کے لیے میراث کو واجب کرتی ہے جس کے ساتھ مرنے والے نے عہد و پیمان کا اس طریقے پر معاہدہ کیا تھا جو ہمارے اصحاب نے بیان کیا ہے کہ کیونکہ ابتدائے اسلام میں یہ حکم جاری تھا اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں منصوص طریقے سے اس کا حکم دیا تھا۔- پھریہ ارشاد ہوا، (واولوالارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ من المومنین والمھاجرین) اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے ذوی الارحام کو عہد و پیمان کرنے والے موالی سے بڑھ کو حق دار قرار دیا۔ اس لیے جب ذوی الارحام موجود نہ ہوں تو آیت کی رو سے میراث کا استحقاق ان موالی کے لیے واجب ہوگا۔- کیونکہ آیت نے وہ حق جوان موالی کو حاصل تھا اسے ذوالارحام کی طرف ان کی موجودگی کی صورت میں منتقل کردیا تھا، اگر ذوی الارحام موجود نہ ہوں تو اس صورت میں نہ تو قرآن میں اور نہ ہی سنت میں کوئی ایسا حکم موجود ہے جو اس آیت کے نسخ کا موجب بن رہا ہو۔- اس لیے اس آیت کا حکم ثابت اور غیر منسوخ ہے اور اپنے مقتضی کے مطابق قابل عمل ہے یعنی ذوالارحام کی عدم موجودگی مین موالی کے لیے میراث کا حکم ثابت اور جاری ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی روایت موجود ہے جو ذوی الارحام کی عدم موجودگی میں اس حکم کے ثبوت وبقا پر دلالت کرتی ہے۔- ہمیں یہ روایت محمد بن بکر نے بیان کی، انہیں ابوداؤد نے ، انہیں یزید بن خالد الرملی اور ہشام بن عمار الدمشقی نے ، انہیں یحییٰ بن حمزہ نے عبدالعزیز بن عمر سے وہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن موہب کو عمر بن عبدالعزیز سے روایت کرتے ہوئے سنا ہے انہوں نے اس قبیصہ بن ذوہب سے بیان کیا اور انہوں نے تمیم الداری سے نقل کیا کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا کہ اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے جو کسی مسلمان کے ہاتھوں اسلام سے آتا ہے ، آپ نے جواب میں فرمایا تھا کہ اسے مسلمان کرنے والایہ شخص اس کی زندگی اور موت دونوں حالتوں میں دوسرے تمام لوگوں سے بڑھ کر اس سے قریب ہے ، آپ کا یہ قول اس بات کا مقتضی ہے کہ یہ شخص دوسرے تمام لوگوں سے بڑھ کر اس کی میراث کا حق دار ہے کیونکہ اس کی موت کے بعد ان دونوں کے درمیان صرف میراث کے اندر ولاء کی صورت باقی رہ جاتی ہے ، اور یہ چیز اس قول باری کے ہم معنی ہے ، (ولکل جعلناموالی) یعنی ورثاء۔- اس کے متعلق ہمارے اصحاب کے قول کے مترادف اقوال حضرت عمر، حضرت ابن مسعود، حسن اور ابراہم نخعی سے بھی مروی ہے معمر نے زہری سے روایت کی ہے کہ ان سے ایک شخص کے متعلق پوچھا گیا تھا جس نے مسلمان ہونے کے بعد ایک شخص سے عقد موالات کرلیا تھا آیا اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے، زہری نے فرمایا تھا کہ ، کوئی حرج نہیں، اس کی اجازت تو حضرت عمر نے بھی دے دی تھی۔- قتادہ نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ جو شخص کسی گروہ کے ہاتھوں مسلمان ہوگیا ہو وہ اس شخص کے جرائم کا تاوان ادا کرے گا اور اس کی میراث اس گروہ کے لیے حلال ہوجائے گی، ربیعہ بن ابی عبدالرحمن کا قول ہے کہ جب کوئی کافر کسی مسلمان کے ہاتھ پر دشمنوں یا مسلمانوں کی سرزمین میں ایمان لے آیا ہو تو اس کی میراث اسے ملے گی ، جس کے ہاتھ پر وہ مسلمان ہوا تھا۔- ابوعاصم النبیل نے ابن جریج سے انہوں نے ابولزبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ حضور نے حکم نامہ تحریر کیا تھا کہ (علی کل بطن عقبلہ) ہر قبیلے یا گروہ پر اس کے افراد کے کیے ہوئے جرائم کی دیتوں اور تاوانوں کی ادائیگی کی ذمہ داری ہوگی ۔ آپ کا یہ بھی ارشاد ہے (لایتولی مولی قوم الاباذنھم) کسی قوم کے ساتھ موالات رکھنے والاان کی اجازت کے بغیر کسی سے رشتہ موالات قائم نہ کرے) اس ارشاد کی دو باتیں بیان کی گئی ہیں ، اول ، موالات کا جواز کیونکہ آپ کا ارشاد (الاباذنھم) اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی اجازت سے ہونے والے موالات کے جواز کا آپ نے حکم دے دیا۔- دوم یہ کہ رشتہ موالات کرنے والاولاء کے لیے کسی اور رخ کرسکتا ہے ، لیکن آپ نے اسے ناپسند فرمایا ہے تاہم اگر پہلوں کی اجازت سے ہو تو اس میں کوئی کراہت اور حرج کی بات نہیں۔- یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد صرف ولاء موالات کی صورت ہے کیونکہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آزادی دینے کی بنا پر حاصل ہونے والی ولاء یعنی ولاء عتاقہ میں کسی اور کی طرف منتقل ہوجانا جائز نہیں ہوتا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (الولاء لحمد کلحمہ النسف) ولاء کی قرابت بھی نسب کی قرابت کی طرح ہے ) اگر کوئی شخص اس روایت سے استدلال کرے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ، انہں ابوداؤد نے ، انہیں عثمان بن ابی شیبہ نے ، انہیں محمد بن بشر، ابن نمیر اور ابواسامہ نے زکریا سے انہوں نے سعد بن ابراہیم سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت جبیر بن مطعم سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔- (الاحلف فی الاسلام وایما حلف کان فی الجاھلیۃ لم یزدہ الاسلام الاشدہ) ، اسلام میں کوئی معاہدہ نہیں ، زمانہ جاہلیت میں بھی بھی معاہدہ ہوا تھا، اسلام نے اور بھی مضبوط کردیا ہے ) یہ روایت زمانہ اسلام میں معاہدہ کے بطلان اور اس کی بنا پر آپس کے توارث کی ممانعت کی موجب ہے ۔- اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ اس میں یہ احتمال ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمانہ جاہلیت میں ہونے والے معاہدوں کی طرز کے معاہدوں کی زمانہ اسلام میں نفی کردی ہو، اس لیے زمانہ جاہلیت میں اس طرز کا جومعاہدہ ہوتا اس مین ایک شخص دوسرے سے یہ کہتا میراگراناتیراگرانا ہے ، میراخون تیراخون ہے ، تومیراوارث ہوگا اور میں تیراوارث بنوں گا۔ اس طرز کے معاہدے میں بہت سی ایسی باتیں بھی ہوتی تھیں جن کی اسلام میں ممانعت ہے مثلا اس میں یہ شرط ہوتی کہ ہر ایک دوسرے کا ساتھ دے گا اس کی خاطر اپناخوب نہائے گا، اور جس چیز کو گرائے گا اسے بھی گرائے گا، اس طرح جائز ناجائز ہر کام میں اسکی مدد کرے گا، شریعت نے اس قسم کے اس معاہدے کو باطل قرار دیا ہے اور ظالم کے مقابلے میں مظلوم کی حمایت اور معونت واجب کردی ہے یہاں تک کہ ظالم سے اس مظلوم کا بدلہ لے لیاجائے اور قرابت یا غیر قرابت کسی چیز کا لحاظ نہ کیا جائے۔- چنانچہ ارشاد باری ہے (یا ایھا الذین امنوا کو نواقوامین بالقسط۔۔۔ تا۔۔۔۔ ان تعدلوا) اے ایمان والوا انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ، فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے کہ تم اس کا لحاظ کرو، لہذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے بازنہ رہو) ۔- اللہ تعالیٰ نے رشتہ داروں اور جانب یعنی غیر رشتہ داروں کے معاملات میں عدل وانصاف سے کام لینے کا حکم دیا اور اللہ تعالیٰ کے حکم میں ان سب کو یکساں درجے پر رکھنے کا امر کیا اور اس طرح زمانہ جاہلیت کے اس طریق کار کو باطل کردیاجس کی رو سے غیر کے مقابلے مین حلیف اور رشتہ دار کی معونت اور نصرت ضروری ہوتی تھی خواہ یہ حلیف یارشتہ دار ظالم ہوتا یامظلوم ، اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی ارشاد ہے (انصر اخاک اللہ ظالما اومظلوما ، اپنے بھائی کی مدد کروخواہ وہ ظالم ہو یا مظولم ) صحابہ نے عرض کیا کہ بھائی اگر مظلوم ہو تو اس کی مدد اور معونت کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ظالم ہونے کی صورت میں اسے مدد دینے کی بات کے کیا معنی ہیں ؟۔- اس پر آپ نے ارشاد فرمایا (ردہ عن انطلم فذالک معونۃ منک، اسے ظلم کرنے کرنے سے پیچھے ہٹا دو یعنی اسے اس کام سے روک دو تمہاری طرف سے یہ اس کی مدد ہوگی) جاہلیت کے معاہدے میں یہ بات بھی ہوتی تھی کہ ایک شخص کی موت پر اس کی اقربا اس کے ترکہ کے وارث نہیں ہوتے بلکہ اس کا حلیف وراث ہوتا ۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول سے اسلام میں ایسے معاہدے کی نفی کردی جس میں فریق آخر کے دین ومذہب اور معاملے کے جواز اور عدم جواز کا لحاظ کیے بغیر ہر حالت میں اس کی مدد کرنا اور اس کا دفاع کرنا ضروری ہوتا، اس کے بالقمابل آپ نے احکام شریعت کی اتباع کرنے کا حکم دیا اورا ن باتوں کی پیروی سے روک دیا جو حلیف ایک دوسرے کے لیے اپنے اوپر لازم کرلیتے تھے۔ اسی طرح آپ نے اس بات کی بھی نفی کردی کہ حلیف مرنے والے کی میراث کا اس کے اقرباء سے بڑھ کر حق دار ہوتا ہے حضور کے ارشاد (لاحلف فی الاسلام) کے یہ معنی ہیں۔ آپ کے ارشاد کے دوسرے حصے (وایماحلف کان فی الجاھلیۃ لم یزدہ الاسلام ) میں یہ احتمال ہے کہ اسلام نے ایسے معاہدے سے روکنے اور اس کا ابطال کرنے میں اور زیادہ شدت اور سختی سے کام لیا ہے ۔ گویا آپ نے یوں فرمایا کہ جب اسلام مین حلف کا کوئی جواز نہیں حالانکہ اس میں مسلمانوں میں آپس میں ایک دوسرے کی مدد اور ایک دوسرے سے تعاون کی صورت موجود ہے توجاہلیت کے زمانے میں کیے گئے معاہدے کے لیے کہاں گنجائش ہوسکتی ہے۔- آیامکمل جائیداد کی وصیت لاوارث شخص کرسکتا ہے ؟- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ موالات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے وارث قرار دپانے کا جو مسئلہ ہے ہم نے بیان کیا ہے ہمارے اصحاب کا اسی جیسا یہ قول ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی پوری جائیداد کی وصیت کرجاتا ہے جبکہ اس کا کوئی وارث نہیں ہوتا تو اس کی یہ وصیت درست ہے ، ہم نے گزشتہ ابواب میں اس کی وضاحت بھی کی ہے اس کی دلیل ہے کہ جب ایک شخص کے لیے عقد موالات کی بنا پر اپنی میراث غیر کودے دینے اور بیت المال سے اسے دور رکھنے کی اجازت ہے تو اس کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ جس کے لیے چاہے اس بات کی وصیت کرجائے کہ میری موت کے بعد یہ میراث اسے دے دی جائے۔- کیونکہ دو شخصوں کے درمیان موالات کا قیام اور اثبات عقد موالات اور اس کے ایجاب کے ذریعے ہوتا ہے اور جب تک کسی نے دوسرے کے کسی جرم کا جرمانہ نہ بھرا ہوا اس وقت تک اسے اپنی ولاء منتقل کرلینے کی گنجائش ہوتی ہے اس طرح یہ ولاء وصیت کے مشابہ ہوگئی جو وصیت کرنے والے کے قول اور اس کے ایجاب سے ثابت ہوتی ہے اور وہ جب چاہے اس میں رجوع بھی کرسکتا ہے۔- البتہ ولاء ایک بات میں وصیت سے مختلف ہوتی ہے اور وہ یہ کہ وصیت کی صورت میں اگرچہ متعلقہ شخص مرنے والے کی جائیداد اس کے وصیت والے قول کی بنا پر لیتا ہے لیکن اس کا یہ لینا میراث کے طور پر ہوتا ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ اگر میت ایک رشتہ دار چھوڑ کرمرجائے تو وہ مولی الموالات کے مقابلے میں اس کی میراث کا زیادہ حق دار ہوگا لیکن تہائی ترکہ میں اس کی حیثیت اس شخص کی طرح نہیں ہوگی جس کے لیے کسی نے اپنے مال کی وصیت کی ہو اور اس صورت میں اسے اس کے مال کا تہائی حصہ دے دیاجائے گا، بلکہ مولی الموالات کو تو وارث موجود ہونے کی صورت میں مرنے والے کے ترکے میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا، خواہ یہ وارث اس کا رشتہ دار ہویا اسے آزادی دینے ولاآقا ہو۔- اس طرح موالات کی بنا پر حاصل ہونے والی ولاء، ایک صورت میں وصیت بالمال کے مشابہ ہے جب یعنی جب مرنے والے کا کوئی وارث موجود نہ ہو، تو ایک صورت میں سے مختلف ہے جیسا کہ ہم نے درج بالاسطور میں بیان کردیا ہے ۔ واللہ اعلم) ۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٣) یعنی ہم نے ہر ایک کے لیے وارث بنا دیے اور جن لوگوں سے مولی موالات کا سلسلہ قائم ہے تو ان کو ان کی شرطوں کے مطابق دے دو اور اب یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے اور عرب آدمیوں اور لڑکوں کو متبنی (لے پالک) بنا لیا کرتے تھے اور اپنی اولاد کی طرح اپنے مال میں ان کا بھی حصہ مقرر کردیتے تھے مگر اس کو اللہ تعالیٰ نے منسوخ کردیا اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے۔- شان نزول : (آیت) ” والذین عقدت “۔ (الخ)- ابوداؤد (رح) نے اپنی سنن میں ابن اسحاق (رح) کے واسطہ سے داؤد بن الحصین سے روایت نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں ام سعد کے پاس قرآن پاک پڑھتا تھا چناچہ میں نے (آیت) ” والذین عاقدت “ پڑھا تو انہوں نے فرمایا (آیت ) ” والذین عقدت “۔ ہے اور یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور ان کے لڑکے حسین کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس وقت ان کے لڑکے نے اسلام لانے سے انکار کردیا تھا تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے قسم کھائی تھی کہ اسے بوجہ کفر میراث میں سے کچھ نہیں دیں گے جب انہوں نے اسلام قبول کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کا حصہ دینے کا حکم دے دیا۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ (وَلِکُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ط) ۔- قانون وراثت کی اہمیت کو دیکھئے کہ اب آخر میں ایک مرتبہ پھر اس کا ذکر فرمایا۔ - (وَالَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ فَاٰتُوْہُمْ نَصِیْبَہُمْ ط) ۔ - ایک نیا مسئلہ یہ پیدا ہوگیا تھا کہ جن لوگوں کے ساتھ دوستی اور بھائی چارہ ہے یا مواخات کا رشتہ ہے (مدینہ منورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک انصاری اور ایک مہاجر کو بھائی بھائی بنا دیا تھا) تو کیا ان کا وراثت میں بھی حصہ ہے ؟ اس آیت میں فرمایا گیا کہ وراثت تو اسی قاعدہ کے مطابق ورثاء میں تقسیم ہونی چاہیے جو ہم نے مقرر کردیا ہے۔ جن لوگوں کے ساتھ تمہارے دوستی اور بھائی چارے کے عہد و پیمان ہیں ‘ یا جو منہ بولے بھائی یا بیٹے ہیں ان کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہے ‘ البتہ اپنی زندگی میں ان کے ساتھ جو بھلائی کرنا چاہو کرسکتے ہو ‘ انہیں جو کچھ دینا چاہو دے سکتے ہو ‘ اپنی وراثت میں سے بھی کچھ وصیت کرنا چاہو تو کرسکتے ہو۔ لیکن جو قانون وراثت طے ہوگیا ہے اس میں کسی ترمیم و تبدیلی کی گنجائش نہیں۔ وراثت میں حق دار کوئی اور نہیں ہوگا سوائے اس کے جس کو اللہ نے مقرر کردیا ہے۔ - (اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَہِیْدًا ) ۔- اب آرہی ہے اصل میں وہ کانٹے دار آیت جو عورتوں کے حلق سے بہت مشکل سے اترتی ہے ‘ کانٹا بن کر اٹک جاتی ہے۔ اب تک اس ضمن میں جو باتیں آئیں وہ دراصل اس کی تمہید کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پہلی تمہید سورة البقرۃ میں آچکی ہے : (وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بالْمَعْرُوْفِص وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ ط) (آیت ٢٢٨) اور عورتوں کے لیے اسی طرح حقوق ہیں جس طرح ان پر ذمہ داریاں ہیں دستور کے مطابق ‘ البتہ مردوں کے لیے ان پر ایک درجہ فوقیت کا ہے “۔ یہ کہہ کر بات چھوڑ دی گئی۔ اس کے بعد ابھی ہم نے پڑھا : (وَلاَ تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ط) یہ ہدایت عورتوں کے لیے مزید ذہنی تیاری کی غرض سے دی گئی۔ اور اب دو ٹوک انداز میں ارشاد ہو رہا ہے :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :55 اہل عرب میں قاعدہ تھا کہ جن لوگوں کے درمیان دوستی اور بھائی چارہ کے عہد و پیمان ہوجاتے تھے وہ ایک دوسرے کی میراث کے حقدار بن جاتے تھے ۔ اسی طرح جسے بیٹا بنا لیا جاتا تھا وہ بھی منہ بولے باپ کا وارث قرار پاتا تھا ۔ اس آیت میں جاہلیت کے اس طریقے کو منسوخ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ وراثت تو اسی قاعدہ کے مطابق رشتہ داروں میں تقسیم ہونی چاہیے جو ہم نے مقرر کر دیا ہے ، البتہ جن لوگوں سے تمہارے عہد و پیمان ہوں ان کو اپنی زندگی میں تم جو چاہو دے سکتے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

28: جب کوئی شخص اسلام لائے اور مسلمانوں میں اس کا کوئی رشتہ دار نہ ہو تو وہ جس شخص کے ہاتھ پر مسلمان ہوا ہے، بعض اوقات اس کے ساتھ یہ عہد کرلیتا تھا کہ وہ دونوں آپس میں بھائی بن گئے ہیں، لہذا وہ ایک دوسرے کے وارث بھی ہوں گے، اور اگر ان میں سے کسی پر کوئی تاوان آپڑا تو دوسرا اس کی ادائیگی میں اس کی مددکرے گا، اس رشتے کو موالاۃ کہا جاتا تھا، یہاں اسی معاہدہ کا ذکر ہے، اور امام ابوحنیفہ (رح) کا مسلک اس آیت کی بنا پر یہی ہے کہ یہ رشتہ اب بھی کسی نومسلم سے قائم ہوسکتا ہے اور اگر دوسرے مسلمان رشتہ دار موجود نہ ہوں تو میراث میں بھی ان کا حصہ ہوگا۔