جائز رشک اور جواب با صواب حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرد جہاد کرتے ہیں اور ہم عورتیں اس ثواب سے محروم ہیں ، اسی طرح میراث میں بھی ہمیں بہ نسبت مردوں کے آدھا ملتا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ( ترمذی ) اور روایت میں ہے کہ اس کے بعد پھر ( اَنِّىْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى ۚ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ ) 3 ۔ آل عمران:195 ) اتری ۔ اور یہ بھی روایت میں ہے کہ عورتوں نے یہ آرزو کی تھی کہ کاش کہ ہم بھی مرد ہوتے تو جہاد میں جاتے اور روایت میں ہے کہ ایک عورت نے خدمت نبوی میں حاضر ہو کر کہا تھا کہ دیکھئے مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملتا ہے دو عورتوں کی شہادت مثل ایک مرد کے سمجھی جاتی ہے گو پھر اس تناسب سے عملاً ایک نیکی کی آدھی نیکی رہ جاتی ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، سدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مردوں نے کہا تھا کہ جب دوہرے حصے کے مالک ہم ہیں تو دوہرا اجر بھی ہمیں نہیں ملتا ؟ اور عورتوں نے درخواست کی تھی کہ جب ہم پر جہاد فرض ہی نہیں ہمیں تو شہادت کا ثواب کیوں نہیں ملتا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے دونوں کو روکا اور حکم دیا کہ میرا فضل طلب کرتے رہو ۔ حضرت ابن عباس؟ سے یہ مطلب بیان کیا گیا ہے کہ انسان یہ آرزو نہ کرے کہ کاش کہ فلاں کا مال اور اولاد میرا ہوتا ؟ اس پر اس حدیث سے کوئی اشکال ثابت نہیں ہو سکتا جس میں ہے کہ حسد کے قابل صرف دو ہیں ایک مالدار جو راہ اللہ اپنا مال لٹاتا ہے اور دوسرا کہتا ہے کاش کہ میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں بھی اسی طرح فی سبیل اللہ خرچ کرتا رہتا پس یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اجر میں برابر ہیں اس لئے کہ یہ ممنوع نہیں یعنی ایسی نیکی کی حرص بری نہیں کسی نیک کام حاصل ہونے کی تمنا یا حرص کرنا محمود ہے اس کے برعکس کسی کی چیز اپنے قبضے میں لینے کی نیت کرنا ہر طرح مذموم ہے جس طرح دینی فضیلت حاصل کرنے کی حرض جائز رکھے ہی اور دنیوی فضیلت کی تمنا ناجائز ہے پھر فرمایا ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ ملے گا خیر کے بدلے خیر اور شر کے بدلے شر اور یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ ہر ایک کو اس کے حق کے مطابق ورثہ دیا جاتا ہے ، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ہم سے ہمارا فضل مانگتے رہا کرو آپس میں ایک دوسرے کی فضیلت کی تمنا بےسود امر ہے ہاں مجھ سے میرا فضل طلب کرو تو میں بخیل نہیں کریم ہوں وہاب ہوں دوں گا اور بہت کچھ دوں گا ۔ جناب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں لوگو اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو اللہ سے مانگنا اللہ کو بہت پسند ہے یاد رکھو سب سے اعلیٰ عبادت کشادگی اور وسعت و رحمت کا انتظار کرنا اور اس کی امید رکھنا ہیں اللہ علیہم ہے اسے خوب معلوم ہے کہ کون دئیے جانے کے قابل ہے اور کون فقیری کے لائق ہے اور کون آخرت کی نعمتوں کا مستحق ہے اور کون وہاں کی رسوائیوں کا سزا وار ہے اسے اس کے اسباب اور اسے اس کے وسائل وہ مہیا اور آسان کر دیتا ہے ۔
32۔ 1 اس کی شان نزول میں بتلایا گیا ہے کہ حضرت ام سلمہ (رض) نے عرض کیا مرد جہاد میں حصہ لیتے ہیں اور شہادت پاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان فضیلت والے کاموں سے محروم ہیں۔ ہماری میراث بھی مردوں سے نصف ہے، اس پر آیت نازل ہوئی، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جو جسمانی قوت و طاقت اپنی حکمت اور ارادہ کے مطابق عطا کی ہے اور جس کی بنیاد پر وہ جہاد بھی کرتے ہیں اور دیگر بیرونی کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ ان کے لئے خاص عطیہ ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے عورتوں کو مردانہ صلاحیتوں کے کام کرنے کی آرزو نہیں کرنی چاہئے۔ البتہ اللہ کی اطاعت اور نیکی کے کاموں میں خوب حصہ لینا چاہیے اور اس میدان میں وہ جو کچھ کمائیں گی، مردوں کی طرح ان کا پورا پورا صلہ انہیں ملے گا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرنا چاہیے کیونکہ مرد اور عورت کے درمیان استعداد، صلاحیت اور قوت کا جو فرق ہے وہ تو قدرت کا ایک اٹل فیصلہ ہے جو محض آرزو سے تبدیل نہیں ہوسکتا۔ البتہ اس کے فضل سے کسب و محنت میں رہ جانے والی کمی کا ازالہ ہوسکتا ہے۔
[٥٤] حسد کی بجائے اللہ کا فضل طلب کرنا چاہئے :۔ دنیا میں اللہ نے کسی کو کوئی خوبی دے رکھی ہے کسی کو کوئی دوسری۔ کوئی مالدار ہے کوئی غریب ہے۔ کوئی حسین ہے کوئی بدصورت ہے، کوئی تنومند اور صحت مند اور کوئی کمزور اور مستقل بیمار۔ کوئی سالم الاعضاء ہے تو کوئی پیدائشی اندھا یا گونگا یا بہرہ ہے۔ کوئی بڑا عقلمند اور ذہین ہے اور کوئی کند ذہن ہے۔ کسی میں قوت کار کی استعداد بہت زیادہ ہے کسی میں کم ہے، کوئی چست اور پھرتیلا ہے تو کوئی پیدائشی طور پر سست اور ڈھیلا ڈھالا ہے اور اسی اختلاف ہی سے اس جہان کی رنگینیاں قائم اور اس دنیا میں ایک دوسرے کے کام چلتے چلاتے رہتے ہیں۔ اب اگر اس قدرتی اختلاف میں سے کسی بھی چیز کا اختلاف مٹانے کی کوشش کی جائے گی تو وہ اختلاف تو دور نہ ہو سکے گا البتہ معاشرہ میں بگاڑ ضرور پیدا ہوجائے گا۔ اس لیے اگر اللہ نے کسی کو خوبی عطا کی ہے تو اس کے لیے حسد ہوس اور بغض نہ رکھنا چاہیے کیونکہ اس کے عوض اللہ نے تمہیں بھی کوئی نہ کوئی خوبی ضرور دی ہوگی۔ البتہ اپنے لیے اللہ کے فضل کی دعا کرسکتے ہو۔ اور اگر سچے دل سے دعا کرو گے اور اس کام کے لیے اسباب بھی اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ یقینا اپنے بندوں پر بہت عنایات کرنے والا ہے۔- [٥٥] اجر وثواب میں مرد و عورت برابر ہیں :۔ مرد ہو یا عورت جس کی نیت میں خلوص زیادہ ہوگا تو اس کو اس کے مطابق اجر ملے گا اور اگر عورت ہمت اور قوت کار کی استعداد میں کم ہونے کے باوجود وہی نیکی کا کام سر انجام دیتی ہے جو مرد نے دیا ہے تو یقینا عورت کو اس کا اجر زیادہ ملنا چاہیے۔ گویا ثواب کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں۔ البتہ دوسرے عوامل ثواب کی کمی بیشی پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اب اگر کوئی عورت اس انداز سے سوچنا شروع کر دے کہ مرد کے تو اللہ نے میراث میں دو حصے رکھے ہیں اور عورت کا ایک۔ یا یہ کہ مرد کو اللہ نے عورتوں پر حاکم بنادیا ہے اور عورتیں محکوم ہیں یا کوئی مرد اس انداز سے سوچنا شروع کر دے کہ اخراجات کی سب ذمہ داریاں تو مرد پر ڈال دی گئی ہیں۔ پھر عورت کا میراث میں مفت میں ہی حصہ مقرر کردیا گیا ہے یا یہ کہ مرد اپنی بیوی اور بال بچوں کی خوراک، پوشاک، رہائش، تعلیمی ذمہ داریوں کے مکمل اخراجات کا ذمہ دار بنادیا گیا ہے کہ وہ جیسے بھی بن پڑے کما کر لائے اور اہل خانہ کی خدمت میں پیش کر دے تو اس طرح تو مرد اپنے اہل خانہ کا خادم ہوا حاکم کیسے ہوا۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس قسم کے غلط انداز فکر چھوڑ دو ۔ اللہ تعالیٰ نے جو احکام دیئے ہیں اس حیثیت سے دیئے ہیں کہ وہ ہر ایک بات کو خوب جانتا ہے لہذا اگر تم میں سے کسی کو کچھ کسر معلوم ہوتی ہے تو اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو۔ وہ بڑا صاحب فضل ہے اور تمہاری سب کمزوریاں اور کو تاہیاں دور کردینے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔
وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ ۔۔ : یعنی یہ نہ کہو کہ کاش یہ درجہ یا مال مجھے مل جائے، یہ تقدیر پر راضی نہ ہونے کی دلیل ہے اور اگر یہ بھی ہو کہ اس کے پاس یہ نعمت نہ رہے تو حسد ہے، جس کی بہت مذمت آئی ہے، ام سلمہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ مرد لوگ جہاد کرتے ہیں، ہم اس سے محروم ہیں، میراث میں بھی ہمارا نصف حصہ ہے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی : ( وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ ۭ ) (أحمد : ٦؍٣٢٢) یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں تقرب نیک اعمال سے ہے، مرد کو محض مرد ہونے کی وجہ سے عورت پر عمل میں فضیلت نہیں ہے اور عورت محض عورت ہونے کی وجہ سے نیک عمل کے ثواب سے محروم نہیں ہے، لہٰذا تم بجائے حسد کے اللہ تعالیٰ کا فضل چاہا کرو۔ (ابن کثیر۔ بغوی)
ربط آیات :- ماقبل کی آیتوں میں میراث کے احکام گذرے ہیں، ان میں یہ بھی بتلایا جا چکا ہے کہ میت کے ورثہ میں اگر مرد اور عورت ہو، اور میت کی طرف رشتہ کی نسبت ایک ہی طرح کی ہو تو مرد کو عورت کی نسبت دوگنا حصہ ملے گا، اسی طرح کے اور فضائل بھی مردوں کے ثابت ہیں، حضرت ام مسلمہ نے اس پر ایک دفعہ حضور اکرم سے عرض کیا کہ ہم کو آدھی میراث ملتی ہے اور بھی فلاں فلاں فرق ہم میں اور مردوں میں ہیں۔- مقصد اعتراض کرنا نہیں تھا بلکہ ان کی تمنا تھی کہ اگر ہم لوگ بھی مرد ہوتے تو مردوں کے فضائل ہمیں بھی حاصل ہوجاتے، بعض عورتوں نے یہ تمنا کی کہ کاش ہم مرد ہوتے تو مردوں کی طرح جہاد میں حصہ لیتے اور جہاد کی فضیلت ہمیں حاصل ہوجاتی۔- ایک عورت نے حضور سے یہ عرض کیا مرد کو میراث میں دوگنا حصہ ملتا ہے اور عورت کی شہادت بھی مرد سے نصف ہے تو کیا عبادت اور اعمال میں بھی ہم کو نصف ہی ثواب ملے گا ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں دونوں قولوں کا جواب دیا گیا ہے، حضرت ام سلمہ کے قول کا جواب لاتتمنوا سے دیا گیا اور اس عورت کے قول کا جواب للرجال نصیب سے دیا گیا۔- خلاصہ تفسیر - اور تم (سب مردوں، عورتوں کو حکم ہوتا ہے کہ فضائل وہبیہ میں سے) ایسے کسی امر کی تمنا مت کیا کرو جس میں اللہ تعالیٰ نے بعضوں کو (مثلاً مردوں کو) بعضوں پر (مثلاً عورتوں پر بلا دخل ان کے کسی کے عمل کے) فوقیت بخشی ہے، (جیسے مرد ہونا یا مردوں کا دو حصہ ہونا یا ان کی شہادت کا کامل ہونا وغیرہ ذلک کیونکہ) مردوں کے لئے ان کے اعمال (کے ثواب) کا حصہ (آخرت میں) ثابت ہے اور عورتوں کے لئے ان کے اعمال (کے ثواب) کا حصہ (آخرت میں) ثابت ہے، (اور مدار نجات کا قانوناً یہی اعمال ہیں اور ان میں کسی کی تخصیص نہیں، تو اگر دوسروں سے فوقیت حاصل کرنے کا شوق ہے تو (اعمال میں جو کہ فضائل کسبیہ ہیں کوشش کر کے دوسروں سے زیادہ ثواب حاصل کرلو) باوجود اس پر قادر ہونے کے فضائل خاصہ مذکورہ کی تمنا محض ہوس اور فضول ہے) اور (اگر فضائل و ہبیہ میں ایسے فضائل کی رغبت ہے جن میں اعمال کو بھی دخل ہے مثلاً احوال و کمالات باطنیہ و امثالہا تو مضائقہ نہیں، لیکن اس کا طریقہ بھی یہ نہیں کہ خالی تمنائیں کیا کرو، بلکہ یہ چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل (خاص) کی درخواست (یعنی دعاء) کیا کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتے ہیں (اس میں سب چیزیں آگئیں، یعنی فضائل و ہبیہ قسم اول کی وجہ تخصیص بھی اور فضائل کسبیہ پر ثواب دینا بھی اور فضائل وہبیہ قسم دوم کی درخواست بھی، پس یہ جملہ سب کے متعلق ہے) اور ہر ایسے مال کے لئے جس کو والدین اور (دوسرے) رشتہ دار لوگ (اپنے مرنے کے بعد) چھوڑ جاویں، ہم نے وارث مقرر کردیئے ہیں اور جن لوگوں سے تمہارے عہد (پہلے سے) بندھے ہوئے ہیں (اسی کو مولی الموالات کہتے ہیں) ان کو (اب جبکہ شرع سے رشتہ دار لوگ وارث مقرر ہوگئے، ساری میراث مت دو ، بلکہ صرف) ان کا حصہ (یعنی ایک ششم) دیدو، بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر مطلع ہیں (پس ان کو ساری میراث نہ دینے کی حکمت اور ششم حصہ مقرر کردینے کی مصلحت اور یہ کہ یہ ششم ان کو کون دیتا ہے کون نہیں دیتا، ان سب کی ان کو خبر ہے۔ )- معارف ومسائل - امور اختیاریہ اور غیر اختیاریہ کی تمنا کرنا :۔- آیت میں ان غیر اختیاری فضائل کی تمنا کرنے سے منع کیا گیا ہے جو دوسروں کو حاصل ہوں ........ وجہ یہ ہے کہ انسان جب اپنے آپ کو دوسروں سے مال و دولت، آرام و عیش، حسن و خوبی، علم و فضل وغیرہ میں کم پاتا ہے تو عادةً اس کے دل میں ایک مادہ حسد کا ابھرتا ہے، جس کا تقاضا کم سے کم یہ ہوتا ہے کہ میں بھی اس کے برابر یا زیادہ ہوجاؤں اور بسا اوقات اس پر قدرت نہیں ہوتی، کیونکہ بہت سے کمالات ایسے ہیں جن میں انسان کے سعی و عمل کو کوئی دخل نہیں وہ محض قدرت کے انعامات ہوتے ہیں جیسے کسی شخص کا مرد ہونا، یا کسی اعلی خاندان نبوت میں یا خاندان حکومت میں پیدا ہونا، یا حسین و خوبصورت پیدا ہونا وغیرہ کہ جس شخص کو یہ انعامات حاصل نہیں، وہ اگر عمر بھر اس کی کوشش کرے کہ مثلاً مرد ہوجائے یا خاندانی سید بن جائے، اس کا ناک نقشہ قدو و قامت حسین ہوجائے تو یہ اس کی قدرت میں نہیں، نہ کسی دوا اور علاج یا تدبیر سے وہ ان چیزوں کو حاصل کرسکتا ہے اور جب دوسرے کی برابری پر قدرت نہیں ہوتی تو اب اس کے نفس میں یہ خواہش جگہ پڑتی ہے کہ دوسروں سے بھی یہ نعمت چھن جائے تاکہ وہ بھی خصلت ہے اور دنیا کے بہت سے جھگڑوں اور فسادات قتل و غارت گری کا سبب ہے۔- قرآن کریم کی اس آیت نے اس فساد کا دروازہ بند کرنے کے لئے ارشاد فرمایا ولاتتمنوا ما فضل اللہ بہ بعضکم علی بعض یعنی اللہ تعالیٰ نے بہ تقاضائے حکمت و مصلحت جو کمالات و فضائل لوگوں میں تقسیم فرمائے ہیں کسی کو کوئی وصف دے دیا کسی کو کوئی، کسی کو کم کسی کو زیادہ، اس میں ہر شخص کو اپنی قسمت پر راضی اور خوش رہنا چاہئے، دوسرے کے فضائل و کمالات کی تمنا میں نہ پڑنا چاہئے کہ اس کا نتیجہ اپنے لئے رنج و غم اور حسد کے گناہ عظیم کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔- جس کو حق تعالیٰ نے مرد بنادیا وہ اس پر شکر ادا کرے جس کو عورت بنادیا وہ اسی پر راضی رہے اور سمجھے کہ اگر وہ مرد ہوجاتی تو شاید مردوں کی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرسکتی اور گنہگار ہوجاتی جس کو اللہ تعالیٰ نے خوبصورت پیدا کیا ہے وہ اس پر شکر گزار ہو کہ اس کو ایک نعمت ملی اور جو بدصورت ہے وہ بھی رنجیدہ نہ ہوا اور سمجھے کہ میرے لئے اسی میں کوئی خیر مقدر ہوگی، اگر مجھے حسن و جمال ملتا تو شاید کسی فتنہ اور خرابی میں مبتلا ہوجاتا جو شخص نسب کے اعتبار سے سید ہاشمی ہے وہ اس پر شکر کرے کہ یہ نسبت اللہ تعالیٰ کا انعام ہے اور جس کو یہ نسبت حاصل نہیں وہ اس فکر میں نہ پڑے اور اس کی تمنا بھی نہ کرے، کیونکہ یہ چیز کسی کو کوشش سے حاصل ہونے والی نہیں اس کی تمنا اس کو گناہ میں مبتلا کر دے گی اور بجز رنج و غم کے کچھ حاصل نہ ہوگا بجائے نسب پر افسوس کرنے کے اعمال صالحہ کی فکر میں زیادہ پڑے، ایسا کرنے سے وہ بڑے نسب والوں سے بڑھ سکتا ہے۔- بعض آیات قرآنی اور ارشادات نبوی میں مسابقت فی الخیرات یعنی نیک کاموں میں دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کا حکم یا دوسروں کے فضائل و کمالات کو دیکھ کر ان کی تحصیل کے لئے سعی و عمل اور جدوجہد کی ترغیب آئی ہے تو وہ ان اعمال و افعال سے متعلق ہے جو انسان کے اختیار میں ہیں اور کسب و اکتساب سے حاصل ہو سکتے ہیں، مثلاً علمی فضائل اور عملی و اخلاقی کمالات کسی کے دیکھ کر ان کے حاصل کرنے کی جدوجہد مستحسن اور پسندیدہ عمل ہے، یہ آیت اس کے منافی نہیں، بلکہ آیت کا آخری حصہ اس کی تائید کر رہا ہے، جس میں ارشاد ہے للرجال نصیب مما اکتسوبوا وللنسآء نصیب مما اکتسبن یعنی جو کوئی چیز مردوں نے کسب و عمل کے ذریعہ حاصل کی ان کو اس کا حصہ ملے گا اور جو عورتوں نے سعی و عمل کے ذریعہ حاصل کی ان کو اس کا حصہ ملے گا۔- اس میں یہ ارشاد موجود ہے کہ فضائل و کمالات کی تحصیل میں کسب و اکتساب اور جدوجہد بیکار نہیں، بلکہ ہر مرد و عورت کو اس کی سعی و عمل کا حصہ ضرور ملے گا۔- اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کسی شخص کے علمی، عملی، اخلاقی فضائل کو دیکھ کر ان کی تمنا اور پھر تمنا پوری کرنے کے لئے سعی و عمل اور جدوجہد کرنا مطلوب اور مستحسن ہے۔- یہاں ایک مغالطہ بھی رفع ہوگیا جس میں بہت سے ناواقف مبتلا ہوا کرتے ہیں بعض تو غیر اختیاری فضائل کی تمنا میں لگ کر اپنے عیش و آرام اور سکون و اطمینان کو دنیا ہی میں برباد کرلیتے ہیں اور اگر نوبت حسد تک پہنچ گئی، یعنی دوسرے کی نعمت کے زوال کی تمنا ہونے لگی تو آخرت بھی برباد ہوئی، کیونکہ حسد کے گناہ عظیم کا ارتکاب ہوا۔- اور بعض وہ لوگ بھی ہیں جو اپنی سستی کم ہمتی بلکہ بےغیرتی سے اختیاری فضائل حاصل کرنے کی بھی کوشش نہیں کرتے اور کوئی کہے تو اپنی کم ہمتی اور بےعملی پر پردہ ڈالنے کے لئے قسمت و تقدیر کے حوالے دینے لگتے ہیں۔- اس آیت نے ایک حکیمانہ اور عادلانہ ضابطہ بتلا دیا کہ جو کمالات و فضائل غیر اختیاری میں اور ان میں انسان کا کسب و عمل موثر نہیں جیسے کسی کا عالی نسب یا حسین و خوبصورت صورت پیدا ہونا وغیرہ ایسے فضائل کو تو حوالہ تقدیر کر کے جس حالت میں کوئی ہے اسی پر اس کو راضی رہنا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے، اس سے زائد کی تمنا بھی لغو، فضول اور نقد رنج و غم ہے۔- اور جو فضائل و کمالات اختیاری ہیں جو کسب و عمل سے حاصل ہو سکتے ہیں ان کی تمنا مفید ہے، بشرطیکہ تمنا کے ساتھ کسب و عمل اور جدوجہد بھی ہو اور اس میں اس آیت نے یہ بھی وعدہ کیا کہ سعی و عمل کرنے والے کی محنت ضائع نہ کی جائے گی بلکہ ہر ایک کو بقدر محنت حصہ ملے گا مرد ہو یا عورت۔- تفسیر بحر محیط میں ہے کہ اس آیت سے پہلے لاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل اور لاتقتلوا انفسکم کے احکام آئے تھے جن میں کسی کا مال ناحق استعمال کرنے اور کسی کو ناحق قتل کرنے کی ممانعت ہے اس آیت میں ان دونوں جرموں کے سرچشمہ کو بند کرنے کے لئے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ دوسرے لوگوں کو جو مال و دولت یا عیش و عشرت یا عزت و جاہ وغیرہ میں تم پر تقوی خدا داد حاصل ہے، تم اس کی تمنا بھی نہ کرو .... اس میں غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ چوری، ڈاکہ اور دوسرے ناجائز طریقوں سے کسی کا مال لینا، یا انسان کو مال و دولت وغیرہ میں اپنے سے فائق اور بڑھا ہوا پاتا ہے تو اول اس کے دل میں اس کی برابری یا اس سے برتری کی خواہش و تمنا پیدا ہوتی ہے پھر یہ تمنا ہی ان سب جرائم تک پہنچا دیتی ہے، قرآنی ہدایت نے ان تمام جرائم کے سرچشمہ کو بند کردیا کہ دوسروں کے فضائل و کمالات کی تمنا ہی کو روک دیا۔ - آیت میں اس کے بعد ارشاد ہے وسئلو اللہ من فضلہ اس میں یہ ہدایت ہے کہ جب تم کسی کو کسی کمال میں اپنے سے زائد دیکھو تو بجائے اس کے کہ اس خاص کمال میں اس کے برابر ہونے کی تمنا کرو، تمہیں کرنا یہ چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل و کرم کی درخواست کرو، کیونکہ فضل خداوندی ہر شخص کے لئے جدا جدا صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے، کسی کے لئے مال و دولت فضل الٰہی ہوتا ہے اگر وہ فقیر ہوجائے تو گناہ و کفر میں مبتلا ہوجائے اور کسی کے لئے تنگی اور تنگدستی ہی میں فضل ہوتا ہے اگر وہ غنی اور مالدار ہوجائے تو ہزاروں گناہوں کا شکار ہوجائے اسی طرح کسی کی عزت و جاہ کی صورت میں فضل خداوندی ہوتا ہے، کسی کے لئے گمنامی اور کسمپرسی ہی میں اس کے فضل کا ظہور ہوتا ہے اور حقیقت حال پر نظر کرے تو معلوم ہوجائے کہ اگر اس کو عزت و جاہ ملتی تو بہت سے گناہوں میں مبتلا ہوجاتا۔- اسلئے اس آیت نے یہ ہدایت دی کہ جب اللہ سے مانگو تو کسی خاص وصف معین کو مانگنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا فضل مانگو تاکہ وہ اپنی حکمت کے مطابق تم پر اپنے فضل کا دروازہ کھول دے۔- آخر آیت میں فرمایا ان اللہ کان بکل شی علیماً یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے، اس میں اشارہ فرمادیا کہ حق تعالیٰ کی تقسیم عین حکمت اور عین عدل و انصاف ہے جس کو جس حال میں پیدا کیا اور رکھا ہے وہی مقتضائے حکمت و عدل تھا مگر چونکہ انسان کو اپنے اعمال کے عواقب کا پورا پتہ نہیں ہوتا اس کو اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتے ہیں کہ کس کو کس حال میں رکھنا اس کے لئے مفید ہے۔- آیت مذکورہ کی شان نزول میں بیان کیا جا چکا ہے کہ جب میراث میں مردوں کا دوہرا حصہ مقرر ہوا تو بعض عورتوں نے یہ تمنا کی کہ ہم مرد ہوتے تو ہمیں بھی دوہرا حصہ ملتا اس کے مناسب دوسری آیت میں میراث کے قانون کا اعادہ اس انداز سے کردیا گیا کہ اس میں جو کچھ حصے مقرر کئے گئے ہیں وہ عین حکمت اور مطابق عدل ہیں، انسانی عقل چونکہ تمام عالم کے مصالح و مفاسد کا احاطہ نہیں کرسکتی، اس لئے وہ ان حکمتوں کو بھی نہیں پہنچ سکتی، جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون میں ملحوظ ہیں، اس لئے جو حصہ کسی کے لئے مقرر کردیا گیا ہے اس کو اسی پر راضی رہنا اور شکر گذار ہونا چاہئے۔- میراث پہنچنے کا حکم :۔- اس آیت کے آخر میں جو باہمی معاہدہ کی بناء پر حصہ دینا مذکور ہے، یہ ابتداء اسلام میں تھا بعد میں آیت واولوالارحام بعضھم اولی بعض سے یہ منسوخ ہوگیا، اب اگر دوسرے ورثاء موجود ہوں تو دو شخصوں کے باہمی معاہدہ کا میراث پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔
وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللہُ بِہٖ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ ٠ۭ لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَـسَبُوْا ٠ۭ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَـسَبْنَ ٠ۭ وَسْـــَٔـلُوا اللہَ مِنْ فَضْلِہٖ ٠ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِـــيْمًا ٣٢- تَّمَنِّي :- تقدیر شيء في النّفس وتصویره فيها، وذلک قد يكون عن تخمین وظنّ ، ويكون عن رويّة وبناء علی أصل، لکن لمّا کان أكثره عن تخمین صار الکذب له أملك، فأكثر التّمنّي تصوّر ما لا حقیقة له . قال تعالی: أَمْ لِلْإِنْسانِ ما تَمَنَّى [ النجم 24] ، فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ [ البقرة 94] ، وَلا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً [ الجمعة 7] - والأُمْنِيَّةُ- : الصّورة الحاصلة في النّفس من تمنّي الشیء، ولمّا کان الکذب تصوّر ما لا حقیقة له وإيراده باللفظ صار التّمنّي کالمبدإ للکذب، فصحّ أن يعبّر عن الکذب بالتّمنّي، وعلی ذلک ما روي عن عثمان رضي اللہ عنه :( ما تغنّيت ولا تَمَنَّيْتُ منذ أسلمت) «1» ، وقوله تعالی: وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة 78] قال مجاهد : معناه : إلّا کذبا «2» ، وقال غيره إلّا تلاوة مجرّدة عن المعرفة . من حيث إنّ التّلاوة بلا معرفة المعنی تجري عند صاحبها مجری أمنيّة تمنیتها علی التّخمین، وقوله : وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ- [ الحج 52] أي : في تلاوته، فقد تقدم أنّ التّمنّي كما يكون عن تخمین وظنّ فقد يكون عن رويّة وبناء علی أصل، ولمّا کان النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کثيرا ما کان يبادر إلى ما نزل به الرّوح الأمين علی قلبه حتی قيل له : لا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ [ طه 114] ، ولا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ [ القیامة 16] سمّى تلاوته علی ذلک تمنّيا، ونبّه أنّ للشیطان تسلّطا علی مثله في أمنيّته، وذلک من حيث بيّن أنّ «العجلة من الشّيطان» «3» . وَمَنَّيْتَني كذا : جعلت لي أُمْنِيَّةً بما شبّهت لي، قال تعالیٰ مخبرا عنه : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ- [ النساء 119] .- ۔ التمنی - کے معنی دل میں کسی خیال کے باندھے اور اس کی تصویرکھنیچ لینے کے ہیں پھر کبھی یہ تقدیر محض ظن وتخمین پر مبنی بر حقیقت مگر عام طور پر تمنی کی بنا چونکہ ظن وتحمین پر ہی ہوتی ہے اس لئے ا س پر جھوٹ کا رنگ غالب ہوتا ہے ۔ کیونکہ اکثر طور پر تمنی کا لفظ دل میں غلط آرزو میں قائم کرلینے پر بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لِلْإِنْسانِ ما تَمَنَّى [ النجم 24] کیا جس چیز کی انسان آرزو کرتا ہے وہ اسے ضرور ملتی ہے ۔ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ [ البقرة 94] تو موت کی آرزو تو کرو ۔ وَلا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً [ الجمعة 7] اور یہ ہر گز نہیں کریں گے ۔ - الامنیۃ - کسی چیز کی تمنا سے جو صورت ذہن میں حاصل ہوتی ہے اسے امنیۃ کہا جاتا ہے ۔ اور کزب چونکہ کسی وغیرہ واقعی چیز کا تصور کر کے اسے لفظوں میں بیان کردینے کو کہتے ہیں تو گویا تمنی جھوت کا مبدء ہے مہذا جھوٹ کو تمنی سے تعبیر کر نا بھی صحیح ہے اسی معنی میں حضرت عثمان (رض) کا قول ہے ۔ ماتغنیت ولا منذ اسلمت کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں نہ راگ گایا ہے اور نہ جھوٹ بولا ہے اور امنیۃ کی جمع امانی آتی ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة 78] اور بعض ان میں ان پڑھ ہیں کہ اپنے خیالات باطل کے سوا ( خدا کی ) کتاب سے واقف نہیں ہیں ۔ مجاہد نے الا امانی کے معنی الا کذبا یعنی جھوٹ کئے ہیں اور دوسروں نے امانی سے بےسوچے سمجھے تلاوت کرنا مراد لیا ہے کیونکہ اس قسم کی تلاوت بھی اس منیۃ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی ہے جس کی بنا تخمینہ پر ہوتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ [ الحج 52] اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر اس کا یہ حال تھا کہ ) جب وہ کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اس کی آروزو میں ( وسوسہ ) ڈال دیتا تھا ۔ میں - امنیۃ کے معنی تلاوت کے ہیں اور پہلے بیان ہوچکا ہے کہ تمنی ظن وتخمین سے بھی ہوتی ہے ۔ اور مبنی بر حقیقت بھی ۔ اور چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر روح الامین جو وحی لے کر اترتے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تلاوت کے لئے مبا ورت کرتے تھے حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آیت لا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ [ طه 114] اور ولا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ [ القیامة 16] کے ذریعہ منع فرما دیا گیا ۔ الغرض اس وجہ سے آپ کی تلاوت کو تمنی سے موسوم کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ ایسی تلاوت میں شیطان کا دخل غالب ہوجاتا ہے اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا ہے ان العا جلۃ من الشیطان کہ جلد بازی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے منیتی کذا کے معنی فریب وہی سے جھوٹی امید دلانے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن نے شیطان کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء 119] اور ان کو گمراہ کرتا ۔ اور امید دلاتا رہوں گا ۔- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة - الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - نَّصِيبُ :- الحَظُّ المَنْصُوبُ. أي : المُعَيَّنُ. قال تعالی: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء 53]- ( ن ص ب ) نصیب - و النصیب کے معنی معین حصہ کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء 53] کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے ۔ - كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ - نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛
تمنا کرنے کی نہیں - قول باری ہے (ولا تتمنوا ما فضل اللہ بہ بعضکم علی بعض، اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو) سفیان نے ابن ابی نجیع سے ، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت کی ہے، وہ فرماتی ہیں۔ ” میں نے ایک دن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ مرد لوگ جہاد پر جاتے ہیں عورتیں نہیں جاتیں۔ مردوں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ عورتوں کا نہیں ہوتا “ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ولاتتمنوا ما فضل اللہ بہ بعضکم علی بعض) تا آخر آیت ۔ نیز یہ آیت بھی نازل ہوئی (ان المسلمین والمسلمات۔ بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں) تا آخر آیت - قتادہ نے حسن سے روایت کی ہے کہ کوئی شخص مال کی تمنا نہ کرے کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ کہیں اسی مال میں اس کی ہلاکت کا سامان نہ موجود ہو۔ زیر بحثت آیت کی تفسیر میں سعید نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ اہل جاہلیت عورت اور بچے کو اپنا وارث نہیں بناتے تھے اور اپنی اپنی پسند کے افراد کو دے دیتے تھے۔ - پھر اسلام آنے کے بعد جب عورت اور بچے کو اپنا اپنا حصہ مل گیا اور مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر قرار دیا گیا تو عورتیں کہنے لگیں کاش ہمارا حصہ بھی مردوں کے حصے کی طرح ہوتا اور دوسری طرف مرد یہ کہنے لگے کہ جس طرح میراث میں حصوں کے لحاظ سے ہمیں عورت۔ ں پر فضیلت ہے امید ہے کہ آخرت میں بھی ہمیں اسی طرح ان پر فضیلت حاصل ہوجائے گی۔ - اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ( وللرجال نصیب مما اکتسبوا و للنساء نصیب مما اکتسبن، جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عورت کو اس کی نیکیوں کا دس گنا بدلہ ملے گا جس طرح مرد کو اس کی نیکیوں کا ملے گا۔ - پھر فرمایا ( واسئلوا اللہ من فضلہ ان اللہ کان بکل شئ علیما، ہاں اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے) اللہ تعالیٰ نے بعضوں کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا کرنے سے منع فرمادیا ہے۔ کیونکہ اس کے علم میں اگر یہ بات ہوتی کہ فلاں کو عطاء کرنے میں اس کی بھلائی ہے تو اس کے مقابلہ میں کسی اور کو اپنے فضل سے نہ نوازتا۔ - دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بخل یا عدم فضل کی بنا پر کسی سے اپنا فضل نہیں روکتا ، بلکہ روکتا اس لیے ہے کہ اسے وہ چیز عطا کرے جو اس سے بڑھ کر ہو۔ اس آیت کے ضمن میں حسد سے نہیں بھی موجود ہے۔ کیونکہ حسد میں اس بات کی تمنا ہوتی ہے کہ دوسرے کی نعمت اس سے زائل ہو کر حاسد کو مل جائے۔ - اس کی مثال وہ روایت ہے جس کے راوی حضرت ابوہریرہ (رض) ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لا یخطب لارجل علی خطبۃ اخیہ ولایسوم علی سوم اخیہ ولا تسال المرأۃ طلاق اختہا لتکفئ ما مفی صحفتہا فان اللہ ہو رازقہا، کوئی شخص اس عورت کو پیغام نکاح نہ بھیجے جسے اس کا مسلمان بھائی پہلے ہی پیغام نکاح بھیج چکا ہو۔ کوئی شخص اس چیز کی قیمت نہ لگائے جس کی اس کا مسلمان بھائی پہلے ہی قیمت لگا چکا ہو۔ کوئی شخص اس چیز کی قیمت نہ لگائے جس کی اس کا مسلمان بھائی پہلے ہی قیمت لگاچکا ہو۔ اور کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کی اس نیت سے طلبگار نہ بنے کہ اس کے برتن میں جو کچھ ہے اسے خود سمیٹ لے۔ اس کا رازق بھی اللہ تعالیٰ ہے۔ )- حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمادیا کہ جب ایک عورت کو مرد کی طر ف سے نکاح کا پیغام جا چکا ہو اور عورت کا میلان بھی اس کی طرف ہوگیا ہو اور وہ رضامند بھی ہوگئی ہو تو ایسی صورت میں کوئی شخص اسے پیغام نکاح نہ بھیجے۔ - اسی طرح آپ نے کسی چیز پر ایک شخص کی طرف سے مول بھاؤ ہوجانے پر دوسرے شخص کو اس چیز کی قیمت لگانے سے منع فرما دیا تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان سے اس شخص کے متعلق اندازہ لگا سکتے ہیں جو یہ تمنا کرتا ہو کہ جو نعمت اور مال اس کے غیر کو مل چکا ہو اور سا پر اس کی ملکیت ہوگئی ہو وہی ما ل اس کے قبضے میں آجائے ۔ - آپ نے یہ بھی فرمایا کہ کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کی اس نیت سے طلبگار نہ بن جائے کہ اس کے برتن میں جو کچھ ہے اسے خود سمیٹ لے یعنی اپنی بہت کا حق اپنے لیے حاصل کرنے کی سعی نہ کرے۔ سفیان نے زہری سے ، انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ - لاحسد الا فی اثنتین رجل آتاہ اللہ مالا فہو ینفق منہ آناء اللیل والنہار و رجل آتاہ القرآن فہو یقوم بہ آناء اللیل والنہار، دو باتوں کے سوا اور کسی بات میں حسد کرنا درست نہیں ایک بات تو یہ ہے کہ کوئی شخص ہو جسے اللہ نے مال عطا کیا ہو اور وہ دن رات اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہور دوسری بات یہ ہے کہ کوئی شخص ہو جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن عطا کیا ہو اور وہ دن رات اس پر عمل کرنے میں لگا ہو) ۔ - ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ تمنا کی دوقسمیں ہیں ایک ممنوع اور دوسری غیر ممنوع ۔ ممنوع تمنا کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کی نعمت کے زوال کی تمنا کرے کہ یہ حسد ہے اور اس تمنا کی نہیں کی گئی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص یہ تمنا کرے اسے بھی وہی نعمت حاصل ہوجائے جو اس کے غیر کو حاصل ہے۔ لیکن اس کے ساتھ غیر سے اس نعمت کے زوال کی خواہش نہ ہو۔ اس طرح کی تمنا کی ممانعت نہیں ہے۔ بشرطیکہ مصلحت اور بھلائی کی خاطر ایسی تمنا کی جائے نیز حکمت کی رو سے بھی اس کا جواز ہو۔ - ممنوع تمنا کی ایک صورت یہ ہے کہ انسان ایسی چیز کی تمنا اپنے دل میں لے بیٹھے جو ممکن ہی نہ ہو مثلا کوئی مرد عورت بن جانے یا کوئی عورت مرد بن جانے کی تمنا کربیٹھے یا کوئی عورت اپنے میں خلافت اور امامت یا ا سی قسم کی کسی اور چیز کی تمنا پیدا کرلے جس کے متعلق سب کو معلوم ہو کہ یہ کبھی وقوع پذیر نہیں ہوسکتی۔ - قول باری (للرجال نصیب مما اکتسبوا وللنساء نصیب ممااکتسبن) کی تفسیر میں کئی اقولا منقول ہیں ۔ ایک یہ ہے کہ ہر شخص کے لیے ثواب کا وہ حصہ ہوتا ہے جوا سے اپنے معاملات میں حسن تدبیر اور باریک بینین کی بنا پر مل جاتا ہے اس طرح وہ اس کا مستحق ہوکر اس کے ذریعے اونچے مرتبے پر پہنچ جاتا ہے، تم اس کے اس حسن تدبیر کیخلاف تمنا نہ کرو کیونکہ ہر شخص کے لیے اس کا حصہ مقرر ہے نہ اس میں کم یہوسکتی ہآ۔ اور نہ اسے گھٹایا جاسکتا ہے۔ - دوسرا قول یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کی کمال کا بدلہ ملے گا اس لیے دوسرے کے بدلے کی تمنا کر کے اپنی کمائی ضائع نہ کرے اور نہ ہی اپنا عمل رائیگاں کر دے۔ ایک قول یہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کے طبقوں میں سے ہر طبقے اور گروہ کے لیے دنیاوی نعمتوں کا وہ حصہ ہے۔ جو اس نے حاصل کیا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی قسمت میں جو کچھ لکھ دیا اس پر راضی ہوجانا اس کی ذمہ داری ہے۔ - قول باری (واسئلوا اللہ من فضلہ، اور اللہ تعالیٰ اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو) کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر تمہیں اس چیز کی ضرورت پر جائے جو تمہارے غیر کے پاس ہے تو اللہ تعالیٰ سے سوال کرو کہ وہ اپنے فضل سے اس جیسی چیز تمہیں بھی عطا کر دے ۔ غیر کی چیز حاصل کرنے کی تمنا نہ کرو البتہ اللہ تعالیٰ سے سوال مصلحت اور بھلائی کی شرط کے ساتھ مشروط ہونا چاہیے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
(٣٢) یعنی کوئی شخص اپنے کسی بھائی کے پاس اس کا مال وسواری اور اس کی عورت یا اس طرح کی کوئی اور نعمت دیکھ کر اسی چیز کی تمنا نہ کرے، بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے مانگے، کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسی چیزیں یا اس سے بہتر چیزیں عطا فرما یہ آیت حضرت ام سلمہ زوجہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ کاش جن چیزوں کی اللہ تعالیٰ نے مردوں کو اجازت دی ہے، عورتوں کو بی مل جائے تو ہم بھی ان کی طرح جہاد وغیرہ کریں، اللہ تعالیٰ نے اس چیز سے منع فرمایا کہ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جمعہ جماعت، جہاد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی وجہ سے عورتوں پر فضیلت دی ہے، اس کی تمنا نہ کریں، عورتیں جو اپنے گھروں میں نیکیاں کریں گی انھیں اس کا ثواب مل جائے گا، اے طبقہ خواتین، تم اس سے ہدایت اور عصمت کی درخواست کرو، اور اللہ تعالیٰ نیکی برائی، ثواب و بدلہ، ہدایت وگمراہی ہر ایک چیز کو پوری طرح جاننے والے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” ولا تتمنوا ما فضل اللہ بہ “۔ (الخ)- ترمذی (رح) اور حاکم (رح) نے حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا مرد جہاد کرتے ہیں اور ہم جہاد نہیں کرسکتے اور ہمیں وراثت بھی آدھی ملتی ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، یعنی تم ایسی چیزوں کی تمنا مت کیا کرو، جس میں اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعضوں پر فوقیت بخشی ہے اور ان ہی کے بارے میں انالمسلمین ولمسلمات کی آیت بھی نازل ہوئی ہے۔- اور ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ایک عورت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور عرض کیا یارسول اللہ مرد کو عورت سے دوگنا حصہ ملتا ہے اور دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے تو ہمارے عمل بھی کیا اسی طرح ہیں کہ اگر عورت کوئی نیکی کرے تو اسے آدھا ثواب ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ٣٢ (وَلاَ تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ط) ۔- َاللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کو ان کی خلقی صفات کے اعتبار سے دوسروں پر فضیلت دی ہے۔ آدمی کی یہ ذہنیت کہ جہاں کسی دوسرے کو اپنے مقابلہ میں کسی حیثیت سے بڑھا ہوا دیکھے بےچین ہوجائے ‘ اس کے اندر حسد ‘ رقابت اور عداوت کے جذبات پیدا کردیتی ہے۔ اس آیت میں اسی ذہنیت سے بچنے کی ہدایت فرمائی جا رہی ہے۔ فضیلت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو مرد بنایا ‘ کسی کو عورت۔ یہ چیز بھی خلقی ہے اور کسی عورت کی مرد بننے یا کسی مرد کی عورت بننے کی تمنا نری حماقت ہے۔ البتہ دنیا میں قسمت آزمائی اور جدوجہد کے مواقع سب کے لیے موجود ہیں۔ چناچہ پہلی بات یہ بتائی جا رہی ہے : َ ّ ُ - (لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا ط) ۔ (وَلِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ ط) - یعنی جہاں تک نیکیوں ‘ خیرات اور حسنات کا معاملہ ہے ‘ یا سیئات و منکرات کا معاملہ ہے ‘ مرد و زن میں بالکل مساوات ہے۔ مرد نے جو نیکی کمائی وہ اس کے لیے ہے اور عورت نے جو نیکی کمائی وہ اس کے لیے ہے۔ مسابقت کا یہ میدان دونوں کے لیے کھلا ہے۔ عورت نیکی میں مرد سے آگے نکل سکتی ہے۔ کروڑوں مرد ہوں گے جو قیامت کے دن حضرت خدیجہ ‘ حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ کے مقام پر رشک کریں گے اور ان کی خاک کو بھی نہیں پہنچ سکیں گے۔ چناچہ آدمی کا طرز عمل تسلیم و رضا کا ہونا چاہیے کہ جو بھی اللہ نے مجھے بنا دیا اور جو کچھ مجھے عطا فرمایا اس حوالے سے مجھے بہتر سے بہتر کرنا ہے۔ میرا شاکلہ تو اللہ کی طرف سے آگیا ہے ‘ جس سے میں تجاوز نہیں کرسکتا : (قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ ط) (بنی اسراء ‘ یل : ٨٤) اور ہم سورة البقرۃ میں پڑھ چکے ہیں کہ (لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا الاَّ وُسْعَھَا ط) (آیت ٢٨٦) لہٰذا میری وسعتجو ہے وہ اللہ نے بنا دی ہے۔ ّ ِ ُ - سورۃ النساء کی زیر مطالعہ آیت سے بعض لوگ یہ مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ عورتیں بھی مال کما سکتی ہیں۔ یہ بات سمجھ لیجیے کہ قرآن مجید میں صرف ایک مقام (البقرۃ : ٢٦٧) پر کسبکا لفظ معاشی جدوجہد اور معاشی کمائی کے لیے آیا ہے : (اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ ) ۔ باقی پورے قرآن میں کسبجہاں بھی آیا ہے اعمال کے لیے آیا ہے۔ کسب حسنات نیکیاں کمانا ہے اور کسب سیئات بدیاں کمانا۔ آپ اس آیت کے الفاظ پر دوبارہ غور کیجیے : (لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْاط وَلِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ ط) مردوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو انہوں نے کمایا ‘ اور عورتوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو انہوں نے کمایا “۔ تو کیا ایک عورت کی تنخواہ اگر دس ہزار ہے تو اسے اس میں سے پانچ ہزار ملیں گے ؟ نہیں ‘ بلکہ اسے پوری تنخواہ ملے گی۔ لہٰذا اس آیت میں کسبکا اطلاق دنیوی کمائی پر نہیں کیا جاسکتا۔ ایک خاتون کوئی کام کرتی ہے یا کہیں ملازمت کرتی ہے تو اگر اس میں کوئی حرام پہلو نہیں ہے ‘ شریفانہ جاب ہے ‘ اور وہ ستر و حجاب کے آداب بھی ملحوظ رکھتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ جو بھی کمائی ہوگی وہ پوری اس کی ہوگی ‘ اس میں اس کا حصہ تو نہیں ہوگا۔ البتہ یہ اسلوب جزائے اعمال کے لیے آتا ہے کہ انہیں ان کی کمائی میں سے حصہ ملے گا۔ اس لیے کہ اعمال کے مختلف مراتب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس عمل میں خلوص نیت کتنا تھا اور آداب کتنے ملحوظ رکھے گئے۔ ہم سورة البقرۃ میں حج کے ذکر میں بھی پڑھ چکے ہیں کہ (اُولٰٓءِکَ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْا ط) (آیت ٢٠٢) یعنی جو انہوں نے کمایا ہوگا اس میں سے انہیں حصہ ملے گا۔ اسی طرح یہاں پر بھی اکتساب سے مراد اچھے یا برے اعمال کمانا ہے۔ یعنی اخلاقی سطح پر اور انسانی عزت و تکریم کے لحاظ سے عورت اور مرد برابر ہیں ‘ لیکن معاشرتی ذمہ داریوں کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے جو تقسیم کار رکھی ہے اس کے اعتبار سے فرق ہے۔ اب اگر عورت اس فرق کو قبول کرنے پر تیار نہ ہو ‘ مفاہمت پر رضامند نہ ہو ‘ اور وہ اس پر کڑھتی رہے اور مرد کے بالکل برابر ہونے کی کوشش کرے تو ظاہر ہے کہ معاشرے میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوجائے گا۔ ُ - (وَسْءََلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ ط) ۔- یعنی جو فضیلت اللہ نے دوسروں کو دے رکھی ہے اس کی تمنا نہ کرو ‘ البتہ اس سے فضل کی دعا کرو کہ اے اللہ تو نے اس معاملے میں مجھے کمتر رکھا ہے ‘ تو مجھے دوسرے معاملات کے اندر ہمت دے کہ میں ترقی کروں۔ اللہ تعالیٰ جس پہلو سے مناسب سمجھے گا اپنا فضل تمہیں عطا فرما دے گا۔ وہ بہت سے لوگوں کو کسی اور پہلو سے نمایاں کردیتا ہے۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :54 اس آیت میں بڑی اہم اخلاقی ہدایت دی گئی ہے جسے اگر ملحوظ رکھا جائے تو اجتماعی زندگی میں انسان کو بڑا امن نصیب ہو جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو یکساں نہیں بنایا ہے بلکہ ان کے درمیان بے شمار حیثیتوں سے فرق رکھے ہیں ۔ کوئی خوبصورت ہے اور کوئی بد صورت ۔ کوئی خوش آواز ہے اور کوئی بد آواز ۔ کوئی طاقت ور ہے اور کوئی کمزور ۔ کوئی سلیم الاعضا ہے اور کوئی پیدائشی طور پر جسمانی نقص لے کر آیا ہے ۔ کسی کو جسمانی اور ذہنی قوتوں میں سے کوئی قوت زیادہ دی ہے اور کسی کو کوئی دوسری قوت ۔ کسی کو بہتر حالات میں پیدا کیا ہے اور کسی کو بدتر حالات میں ۔ کسی کو زیادہ ذرائع دیے ہیں اور کسی کو کم ۔ اسی فرق و امتیاز پر انسانی تمدن کی ساری گونا گونی قائم ہے اور یہ عین مقتضائے حکمت ہے ۔ جہاں اس فرق کو اس کے فطری حدود سے بڑھا کر انسان اپنے مصنوعی امتیازات کا اس پر اضافہ کرتا ہے وہاں ایک نوعیت کا فساد رونما ہوتاہے ، اور جہاں سرے سے اس فرق ہی کو مٹا دینے کے لیےفطرت سے جنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں ایک دوسری نوعیت کا فساد برپا ہوتا ہے ۔ آدمی کی یہ ذہنیت کہ جسے کسی حیثیت سے اپنے مقابلہ میں بڑھا ہوا دیکھے بے چین ہو جائے ، یہی اجتماعی زندگی میں رشک ، حسد ، رقابت ، عداوت ، مزاحمت اور کشاکش کی جڑ ہے ، اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو فضل اسے جائز طریقوں سے حاصل نہیں ہوتا اسے پھر وہ ناجائز تدبیروں سے حاصل کرنے پر اتر آتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اسی ذہنیت سے بچنے کی ہدایت فرما رہا ہے ۔ اس کے ارشاد کا مدعا یہ ہے کہ جو فضل اس نے دوسروں کو دیا ہو اس کی تمنا نہ کرو ، البتہ اللہ سے فضل کی دعا کرو ، وہ جس فضل کو اپنے علم و حکمت سے تمہارے لیے مناسب سمجھے گا عطا فرما دے گا ۔ اور یہ جو فرمایا کہ ” مردوں نے جو کچھ کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ“ ، اس کا مطلب جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں یہ ہے کہ مردوں اور عورتوں میں سے جس کو جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس کو استعمال کر کے جو جتنی اور جیسی برائی یا بھلائی کمائے گا اسی کے مطابق ، یا بالفاظ دیگر اسی کی جنس سے اللہ کے ہاں حصہ پائے گا ۔
27: بعض خواتین نے اس تمنا کا اظہار کیا تھا کہ اگر وہ مرد ہوتیں تو وہ بھی جہاد وغیرہ میں حصہ لے کر مزید ثواب حاصل کرتیں، اس آیت کریمہ نے یہ اصول واضح فرمادیا کہ جو باتیں انسان کے اختیار سے باہر ہیں ان میں اللہ نے کسی شخص کو کسی اعتبار سے فوقیت دے رکھی ہے اور کسی کو کسی اور حیثیت سے، مثلاً کوئی مرد ہے کوئی عورت، کوئی زیادہ طاقت ور ہے کوئی کم، کسی کا حسن دوسرے کے مقابلے میں زیادہ ہے یہ چیزیں چونکہ ان کے اختیار میں نہیں ہیں اس لئے ان کی تمنا کرنے سے فضول حسرت ہونے کے سوا کوئی فائدہ نہیں ہے، لہذا ان چیزوں میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہنا چاہئے، البتہ جو اچھائیاں انسان کے اختیار میں ہیں انہیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے اور ان چیزوں میں اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جو شخص جیسا عمل کرتا ہے ویسا ہی نتیجہ ظاہر ہوتا ہے، اس میں مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔