Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

65۔ 1 اس آیت کا شان نزول ایک یہودی اور مسلمان کا واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے جو بارگاہ رسالت سے فیصلے کے باوجود حضرت عمر (رض) سے فیصلہ کروانے گیا جس پر حضرت عمر (رض) نے اس مسلمان کا سر قلم کردیا۔ لیکن سنداً یہ واقعہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر نے بھی وضاحت کی، صحیح واقعہ یہ ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے کہ حضرت زبیر (رض) کا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پھوپھی زاد تھے۔ اور ایک آدمی کا کھیت کو سیراب کرنے والے (نالے) کے پانی پر جھگڑا ہوگیا۔ معاملہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا آپ نے صورت حال کا جائزہ لے کر جو فیصلہ دیا تو وہ اتفاق سے حضرت زبیر (رض) کے حق میں تھا، جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پھوپھی زاد ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ آیت کا مطلب یہ ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کسی بات یا فیصلے سے اختلاف تو کجا دل میں انقباض بھی محسوس کرنا ایمان کے منافی ہے۔ یہ آیت منکریں حدیث کے لئے لمحہ فکریہ ہے

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٧] یہ سابقہ آیات کا تتمہ ہے جس میں ایک مستقل قانون دیا گیا ہے جو صرف مقدمہ کے منافق کے لیے ہی نہیں بلکہ ساری امت کے لیے ہے اور قیامت تک کے لیے ہے اور وہ یہ ہے کہ جو مسلمان آپ کے ارشاد، حکم یا فیصلہ کو بدل و جان قبول کرلینے اور اس کے آگے سر تسلیم خم کردینے پر آمادہ نہیں ہوتا وہ سرے سے مسلمان ہی نہیں ہوسکتا۔ اور آپ کے ارشادات، احکام اور فیصلے سب کچھ کتب احادیث میں مذکور ہوچکے ہیں۔ اب جو شخص ان کے مقابلہ میں کسی اور شخص، عالم، پیر یا امام کے قول کو ترجیح دے گا وہ بھی اس حکم میں داخل ہے۔- یہ آیت بھی امت کے تمام اختلافات اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنے میں ہماری رہنما اور کسوٹی ہے۔ اس آیت سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ کتاب و سنت کی موجودگی میں قیاس کرنا حرام ہے۔ اس مضمون کو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی خواہشات کو اس چیز کے تابع نہ بنا دے جو میں لے کر آیا ہو۔ (شرح السنۃ بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ فصل ثانی)- اور بالخصوص اس آیت کا شان نزول کتب احادیث میں درج ذیل مذکور ہے :- اختلافات کے خاتمہ کا واحد حل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کا جواب :۔ سیدنا عروہ بن زبیر (رض) روایت کرتے ہیں کہ زبیر (رض) (میرے باپ) اور ایک انصاری میں حرہ میں واقع پانی کی نالی پر جھگڑا ہوا۔ نبی اکرم نے زبیر (رض) کو کہا تم اپنے درختوں کو پانی پلا لو پھر اسے اپنے ہمسایہ کے باغ میں جانے دو ۔ یہ سن کر وہ انصاری کہنے لگا کیوں نہیں آخر زبیر (رض) آپ کی پھوپھی کا بیٹا جو ہوا۔ اس پر آپ کا رنگ متغیر ہوگیا اور آپ نے زبیر (رض) کو کہا زبیر اپنے کھیت کو پانی پلاؤ اور جب تک پانی منڈیروں تک نہ پہنچ جائے اس کے لیے پانی نہ چھوڑو۔ یعنی جب انصاری نے آپ کو غصہ دلایا تو پھر آپ نے زبیر کو اس کا پورا حق دلایا۔ جبکہ آپ کے پہلے حکم میں دونوں کی رعایت ملحوظ تھی۔ زبیر (رض) کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت اسی مقدمہ میں نازل ہوئی (بخاری، کتاب التفسیر و کتاب المساقاۃ، باب سکر الانہار۔۔ مسلم، کتاب الفضائل باب وجوب اتباعہ )

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ ۔۔ : اس آیت کی شان نزول میں ایک مسلمان اور یہودی کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فیصلہ کروانے کے بعد عمر (رض) سے فیصلہ کروانے گیا تھا، جس پر عمر (رض) نے اس مسلمان کی گردن اڑا دی تھی۔ مگر یہ واقعہ سنداً صحیح نہیں ہے، جیسا کہ حافظ ابن کثیر (رض) نے بھی وضاحت کی ہے، ویسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کے اصرار کے باوجود منافقوں کی بڑی بڑی گستاخیوں پر نہ انھیں قتل کرتے، نہ قتل کی اجازت دیتے اور وجہ یہ بتاتے تھے کہ لوگ کہیں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔ [ مسلم، الزکوٰۃ، باب ذکر الخوارج : ١٠٦٣ ]- 2 عبداللہ بن زبیر (رض) راوی ہیں کہ زبیر (رض) اور ایک انصاری کے درمیان حرہ کی نالیوں میں جھگڑا ہوگیا۔ زبیر (رض) کی زمین اوپر کی جانب تھی، جہاں سے پانی آتا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زبیر (رض) سے انصاری کے حق میں رعایت کی سفارش کی اور فرمایا : ” اپنے باغ کو پانی دے کر اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو ۔ “ اس پر انصاری نے کہا : ” یہ اس لیے کہ زبیر ( ) آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ “ مطلب یہ تھا کہ آپ نے اس رشتے کی رعایت کی ہے، اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف محسوس ہوئی اور فرمایا : ” زبیر اپنے باغ کو اتناپانی دو کہ منڈیروں تک چڑھ جائے، پھر اس کے لیے چھوڑ دو ، پہلے آپ نے انصاری کی سفارش کی تھی، اب جب اس نے آپ کو غصہ دلایا تو آپ نے سفارش کے بجائے فیصلہ کیا اور زبیر (رض) کو ان کا پورا حق دلوایا۔ زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ یہ آیت : ( فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ ) اس بارے میں نازل ہوئی۔ [ مسلم، الفضائل، باب وجوب اتباعہ، ص : ٢٣٥٧۔ بخاری : ٤٥٨٥ ] - حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر مومن ہونے کی تین شرطیں بیان کی ہیں، پہلی یہ کہ کسی بھی جھگڑے کا فیصلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ کسی اور کے پاس نہ لے جایا جائے۔ [ دیکھیے النور : ٥١۔ الأحزاب : ٣٦ ] دوسری یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے پر دل میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کی جائے اور تیسری یہ کہ صاف اعلان کر کے اس فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر عمل کیا جائے۔ اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد قرآن و سنت سے فیصلہ طلب کیا جائے گا۔ اس سے منکرین حدیث کے ایمان کی حقیقت پوری طرح کھل جاتی ہے۔ یہ آیت منکرین حدیث کے علاوہ ان لوگوں کے لیے بھی لمحہ فکر یہ ہے جن کے امام یا پیر کے خلاف کوئی آیت یا حدیث آجائے تو وہ صرف دل میں تنگی ہی محسوس نہیں کرتے بلکہ ماننے سے صاف انکار کردیتے ہیں کہ کیا ہمارے امام کو اس آیت و حدیث کا علم نہ تھا، یا پھر اس کی تاویل کرنے یا اسے منسوخ قرار دینے کے لیے اپنی ساری قوت صرف کردیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آیت کے صریح الفاظ کے مطابق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے کے خلاف دل میں ذرہ بھر تنگی یا نا پسندیدگی محسوس کی جائے تو یہ ایمان کے منافی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - پھر قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ (جو صرف زبانی ایمان ظاہر کرتے پھرتے ہیں عند اللہ) ایمان دار نہ ہوں گے جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جھگڑا واقع ہو، اس میں یہ لوگ آپ سے (اور آپ نہ ہوں تو آپ کی شریعت سے) فیصلہ کرا دیں پھر (جب آپ تصفیہ کردیں تو) اس آپ کے تصفیہ سے اپنے دلوں میں (انکار کی) تنگی نہ پاویں اور (اس فیصلہ کو) پورا پورا (ظاہری سے باطن سے) تسلیم کرلیں۔- معارف و مسائل - رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ کو تسلیم نہ کرنا کفر ہے :۔- اس آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت اور علو مرتبت کے اظہار کے ساتھ آپ کی اطاعت جو بیشمار آیات قرآنیہ سے ثابت ہے اس کی واضح تشریح بیان فرمائی ہے اس آیت میں قسم کھا کر حق تعالیٰ شانہ نے فرمایا کہ کوئی آدمی اس وقت تک مومن یا مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ٹھنڈے دل سے پوری طرح تسلیم نہ کرے کہ اس کے دل میں بھی اس فیصلہ سے کوئی تنگی نہ پائی جائے۔- آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحیثیت رسول خود امت کے حاکم اور ہر پیش آنے والے جھگڑے کا فیصلہ کرنے کے ذمہ دار ہیں، آپ کی حکومت اور آپ کا فیصلہ کسی کے حکم بنانے پر موقوف نہیں پھر اس آیت میں مسلمانوں کو حکم بنانے کی تلقین اس لئے فرمائی گئی ہے کہ حکومت کے مقرر کردہ حاکم اور اس کے فیصلہ پر تو بہت سے لوگوں کو اطمینان نہیں ہوا کرتا، جیسا اپنے مقررہ کردہ ثالث یا حکم پر ہوتا ہے، مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف حاکم نہیں بلکہ رسول معصوم بھی ہیں رحمتہ للعالمین بھی ہیں، امت کے شفیق و مہربان باپ بھی ہیں، اس لئے تعلیم یہ دی گئی کہ جب بھی کسی معاملہ میں یا کسی مسئلہ میں باہم اختلاف کی نوبت آئے تو فریقین کا فرض ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم بنا کر اس کا فیصلہ کرائیں اور پھر آپ کے فیصلہ کو دل و جان سے تسلیم کر کے عمل کریں۔- اختلافات میں آپ کو حکم بنانا آپ کے عہد مبارک کے ساتھ مخصوص نہیں :۔ - حضرات مفسرین نے فرمایا کہ ارشاد قرآنی پر عمل آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک کے ساتھ مخصوص نہیں، آپ کے بعد آپ کی شریعت مطہرہ کا فیصلہ خود آپ ہی کا فیصلہ ہے، اس لئے یہ حکم قیامت تک اس طرح جاری ہے کہ آپ کے زمانہ مبارک میں خود بلاواسطہ آپ سے رجوع کیا جائے اور آپ کے بعد آپ کی شریعت کی طرف رجوع کیا جائے جو درحقیقت آپ ہی کی طرف رجوع ہے۔- چند اہم مسائل :۔- اول یہ کہ وہ شخص مسلمان نہیں جو اپنے ہر جھگڑے اور ہر مقدمہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ پر مطمئن نہ ہوا، یہی وجہ ہے کہ حضرت فاروق اعظم نے اس شخص کو قتل کر ڈالا جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ پر راضی نہ ہوا اور پھر اس معاملہ کو حضرت عمر پر دعویٰ کردیا کہ انہوں نے ایک مسلمان کو بلاوجہ قتل کردیا جب یہ استغاثہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ہوا تو بےساختہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے نکلا، ماکنت الظن ان عمر یجتوء علی قتل رجل مومن “ (یعنی مجھے یہ گمان نہ تھا کہ عمر کسی مرد مومن کے قتل کی جرأت کریں گے) اس سے ثابت ہوا کہ حاکم اعلی کے پاس اگر کسی ماتحت حاکم کے فیصلہ کی اپیل کی جائے تو اس کو اپنے حاکم ماتحت کی جانب داری کے بجائے انصاف کا فیصلہ کرنا چاہئے، جیسا اس واقعہ میں آیت نازل ہونے سے پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر کے فیصلہ پر اظہار ناراضی فرمایا پھر جب یہاں یہ آیت نازل ہوئی تو حقیقت کھل گئ کہ اس آیت کی رو سے وہ شخص مومن ہی نہیں تھا۔- دوسرا مسئلہ اس آیت سے یہ نکلا کہ لفظ فیما شجر صرف معاملات اور حقوق کے ساتھ متعلق نہیں، عقائد اور نظریات اور دوسرے نظری مسائل کو بھی حاوی ہے۔ (بحر محیط) اس لئے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جب بھی کسی مسئلہ میں باہم اختلاف کی نوبت آئے تو باہم جھگڑتے رہنے کے بجائے دونوں فریق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اور آپ کے بعد آپ کی شریعت کی طرف رجوع کر کے مسئلہ کا حل تلاش کریں۔ - تیسرا مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ جو کام آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قولاً یا عملاً ثابت ہو، اس کے کرنے سے دل میں تنگی محسس کرنا بھی ضعف ایمان کی علامت ہے، مثلاً جہاں شریعت نے تمیم کر کے نماز پڑھنے کی اجازت دی وہاں تمیم کرنے پر جس شخص کا دل راضی نہ ہو وہ اس کو تقوی نہ سمجھے بلکہ اپنے دل کا روگ سمجھے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ کوئی متقی نہیں ہوسکتا جس صورت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت دی اور خود بیٹھ کر ادا فرمائی، اگر کسی شخص کا دل اس پر راضی نہ ہو اور ناقابل براشت محنت و مشقت اٹھا کر کھڑے ہی ہو کر نماز ادا کرے، تو وہ سمجھ لے کہ اس کے دل میں روگ ہے ہاں معمولی ضرورت یا تکلیف کے وقت اگر رخصت کو چھوڑ کر عزیمت پر عمل کرے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی تعلیم کے مطابق درست ہے، مگر مطلقاً شرعی رخصتوں سے تنگدلی محسوس کرنا کوئی تقوی نہیں، اس لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- ” یعنی اللہ تعالیٰ جس طرح عزیمتوں پر عمل کرنے سے خوش ہوتے ہیں اسی طرح رخصتوں پر عمل کرنے کو بھی پسند فرماتے ہیں۔ “- عام عبادات و اذکار و اوراد، درود و تسبیح میں سب سے بہتر طریقہ وہی ہے جو خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا معمول رہا اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ کرام کا جس پر عمل رہا، مسلمانوں کا فرض ہے کہ حدیث کی مستند روایات سے اس کو معلوم کر کے اسی کو اپنا لائحہ عمل بنائیں۔- ایک اہم فائدہ :۔ گزشتہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امت کے صرف مصلح اور اخلاقی رہبر ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک عادل حاکم بھی تھے، پھر حاکم بھی اس شان کے کہ آپ کے فیصلہ کو ایمان و کفر کا معیار قرار دیا گیا، جیسا کہ بشر منافق کے واقعہ سے ظاہر ہے، اس چیز کی وضاحت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں متعدد مقامات پر اپنی اطاعت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کو بھی لازمی قرار دیا ہے، ارشاد ہوتا ہے : اطیعواللہ واطیعوا الرسول، ” یعنی تم اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرو۔ “- ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا، من یطح الرسول فقد اطاع اللہ، یعنی ” جو رسول “ کی اطاعت کرے اس نے درحقیقت اللہ کی اطاعت کی۔ “- ان آیات میں غور کرنے سے آپ کی شان حاکمیت بھی نکھر کر سامنے آجاتی ہے جس کی عملی صورت ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس اپنا قانون بھیجا، تاکہ آپ مقدمات کے فیصلے اسی کے مطابق کرسکیں، چناچہ ارشاد ہوتا ہے : انا انزلنا الیک الکتب بالحق لتحکم بین الناس بما اراک اللہ، یعنی ” ہم نے آپ پر کتاب کو حق کے ساتھ نازل کیا، تاکہ آپ لوگوں کے درمیان میں اس طرح فیصلہ کریں جس طرح اللہ آپ کو دکھلائے اور سمجھائے۔ “

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا۝ ٦٥- لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- حَكَمُ- : المتخصص بذلک، فهو أبلغ . قال اللہ تعالی: أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَماً [ الأنعام 114] ، وقال عزّ وجلّ : فَابْعَثُوا حَكَماً مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَماً مِنْ أَهْلِها [ النساء 35] ، وإنما قال : حَكَماً ولم يقل : حاکما، تنبيها أنّ من شرط الحکمين أن يتولیا الحکم عليهم ولهم حسب ما يستصوبانه من غير مراجعة إليهم في تفصیل ذلك، ويقال الحکم للواحد والجمع، وتحاکمنا إلى الحاکم . قال تعالی: يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء 60] ، وحَكَّمْتُ فلان - اور حکم ( منصف ) ماہر حاکم کو کہاجاتا ہے اس لئے اس میں لفظ حاکم سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَماً [ الأنعام 114]( کبو ) کیا میں خدا کے سوا اور منعف تلاش کردں ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَابْعَثُوا حَكَماً مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَماً مِنْ أَهْلِها [ النساء 35] تو ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے مقرر کردو ۔ میں حاکما کی بجائے حکما کہنے سے اس امر پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ دو منصف مقرر کرنے کی شرط یہ ہے کہ وہ دونوں تفصیلات کی طرف مراجعت کئے بغیر اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کریں خواہ وہ فیصلہ فریقین کی مرضی کے موافق یا ہو مخالف اور حنم کا لفظ واحد جمع دونوں پر بولاجاتا ہے ۔ ہم حاکم کے پاس فیصلہ لے گئے قرآن میں ہے ۔ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء 60] اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ کے پاس لے جاکر فیصلہ کر آئیں ۔ حکمت فلان ۔ کسی کو منصف ان لینا ۔ قرآن میں سے : حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنایئں ۔ جب یہ کہا جاتا ہے حکم بالباطل تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس نے باطل کو بطور حکم کے جاری کیا - شجر - الشَّجَرُ من النّبات : ما له ساق، يقال : شَجَرَةٌ وشَجَرٌ ، نحو : ثمرة وثمر . قال تعالی: إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] ، وقال : أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] ، وقال : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] . وواد شَجِيرٌ: كثير الشّجر، وهذا الوادي أَشْجَرُ من ذلك، والشَّجَارُ الْمُشَاجَرَةُ ، والتَّشَاجُرُ : المنازعة . قال تعالی: حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] . وشَجَرَنِي عنه : صرفني عنه بالشّجار، وفي الحدیث : «فإن اشْتَجَرُوا فالسّلطان وليّ من لا وليّ له» «1» . والشِّجَارُ : خشب الهودج، والْمِشْجَرُ : ما يلقی عليه الثّوب، وشَجَرَهُ بالرّمح أي : طعنه بالرّمح، وذلک أن يطعنه به فيتركه فيه .- ( ش ج ر ) الشجر - ( درخت وہ نبات جس کا تنہ ہو ۔ واحد شجرۃ جیسے ثمر و ثمرۃ ۔ قرآن میں ہے : إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کررہے ہیں ۔ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، تھوہر کے درخت سے إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] بلاشبہ تھوہر کا درخت گنجان درختوں والی وادی ۔ بہت درختوں والی جگہ ۔ ھذا الوادی اشجر من ذالک اس وادی میں اس سے زیادہ درخت ہیں ۔ الشجار والمشاجرۃ والتشاجر باہم جھگڑنا اور اختلاف کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] اپنے تنازعات میں ۔ شجرنی عنہ مجھے اس سے جھگڑا کرکے دور ہٹا دیا یا روک دیا حدیث میں ہے ۔ (189) فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ اگر تنازع ہوجائے تو جس عورت کا ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے الشجار ۔ ہودہ کی لکڑی چھوٹی پالکی ۔ المشجر لکڑی کا اسٹینڈ جس پر کپڑے رکھے یا پھیلائے جاتے ہیں ۔ شجرہ بالرمح اسے نیزہ مارا یعنی نیزہ مار کر اس میں چھوڑ دیا ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - حرج - أصل الحَرَج والحراج مجتمع الشيئين، وتصوّر منه ضيق ما بينهما، فقیل للضيّق : حَرَج، وللإثم حَرَج، قال تعالی: ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً [ النساء 65] ، وقال عزّ وجلّ :- وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [ الحج 78] ، وقد حرج صدره، قال تعالی:- يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً [ الأنعام 125] ، وقرئ حرجا «1» ، أي : ضيّقا بکفره، لأنّ الکفر لا يكاد تسکن إليه النفس لکونه اعتقادا عن ظن، وقیل : ضيّق بالإسلام کما قال تعالی:- خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] ، وقوله تعالی: فَلا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ [ الأعراف 2] ، قيل : هو نهي، وقیل : هو دعاء، وقیل : هو حکم منه، نحو : أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح 1] ، والمُتَحَرِّج والمتحوّب : المتجنّب من الحرج والحوب .- ( ح ر ج ) الحرج والحراج ( اسم ) کے اصل معنی اشب کے مجتع یعنی جمع ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ اور جمع ہونے میں چونکہ تنگی کا تصور موجود ہے اسلئے تنگی اور گناہ کو بھی حرج کہاجاتا ہے قرآن میں ہے ؛۔ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً [ النساء 65] اور ۔۔۔ اپنے دل میں تنگ نہ ہوں ۔ وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [ الحج 78 اور تم پر دین ( کی کسی بات ) میں تنگی نہیں کی ۔ حرج ( س) حرجا ۔ صدرہ ۔ سینہ تنگ ہوجانا ۔ قرآن میں ہے ؛۔ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً [ الأنعام 125] اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کردیتا ہے ۔ ایک قرآت میں حرجا ہے ۔ یعنی کفر کی وجہ سے اس کا سینہ گھٹا رہتا ہے اس لئے کہ عقیدہ کفر کی بنیاد وظن پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کو کبھی سکون نفس حاصل نہیں ہوتا اور بعض کہتے کہ اسلام کی وجہ سے اس کا سینہ تنگ ہوجاتا ہے جیسا کہ آیت خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] سے مفہوم ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَلا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ [ الأعراف 2] اس سے تم کو تنگ دل نہیں ہونا چاہیے ۔ میں لایکن فعل نہی کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے اور ۔۔۔۔ جملہ دعائیہ بھی ۔ بعض نے اسے جملہ خبر یہ کے معنی میں لیا ہے ۔ جیسا کہ آیت کریمہ ۔ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح 1] سے مفہوم ہوتا ہے ،۔ المنحرج ( صفت فاعلی ) گناہ اور تنگی سے دور رہنے والا جیسے منحوب ۔ حوب ( یعنی گنا ہ) بچنے والا ۔- قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٥) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروردگار کی قسم ہے یہ لوگ عنداللہ ہرگز ایمان والے نہیں ہوسکتے جب تک کہ یہ لوگ اپنے باہمی جھگڑوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فیصلہ نہ کروائیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ کے بعد ان کے دلوں میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہ باقی نہ رہے اور اس فیصلے کو پوری طرح دل سے تسلیم کرلیں۔- شان نزول : آیت ”۔ فلا وربک لایؤمنون حتی “۔ (الخ)- آئمہ ستہ نے حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت زبیر (رض) کا ایک شخص سے حرہ کی زمین کی سیرابی کے بارے میں کچھ جھگڑا ہوا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اے زبیر اپنی زمین کو اولا خوب پانی دو اور پھر پانی اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو ، وہ شخص کہنے لگا یہ فیصلہ اس لیے ہے کہ زبیر (رض) آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔- یہ سن کر حیرت اور غصہ کے مارے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرۂ انور کا رنگ تبدیل ہوگیا، آپ نے فرمایا زبیر پانی دینے کے بعد روکے رکھو یہاں تک کہ پانی ڈولوں پر سے نکلنے لگے، اس کے بعد اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑو،- اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صاف طور پر حضرت زبیر (رض) کو اس کا پورا حق دے دیا اور اس سے پہلے ایسی چیز کی طرف اشارہ فرمایا تھا جس میں دونوں کے لیے سہولت تھی، زبیر (رض) فرماتے ہیں یہ آیتیں اسی واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔- طبرائی (رح) نے کبیر میں اور حمیدی (رح) نے اپنی مسند میں ام سلمہ (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ حضرت زبیر (رض) کا ایک شخص سے جھگڑا ہوا، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زبیر (رض) کے حق میں فیصلہ فرما دیا، وہ شخص کہنے لگا یہ فیصلہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس لیے کیا ہے کہ حضرت زبیر (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پھوپھی زاد بھائی ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ قسم ہے آپ کے پروردگار کی یہ لوگ ایمان دارنہ ہوں گے ، (الخ)- نیز ابن ابی حاتم نے سعید بن مسیب (رض) سے فرمان خداوندی (آیت) ” فل اور بک “۔ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضرت زبیر بن عوام (رض) اور ایک دوسرے شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے، دونوں میں پانی کے بارے میں تنازع تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فیصلہ فرما دیا کہ پہلے بلندی والی زمین کو پانی دیا جائے اس کے بعد نچلی زمین کو۔- اور ابن ابی حاتم (رح) اور ابن مردویہ (رح) نے اسود سے روایت کیا ہے کہ دو شخص رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جھگڑتے ہوئے آئے، آپ نے دونوں کے درمیان فیصلہ فرما دیا، جس کے خلاف فیصلہ ہوا تھا، وہ کہنے لگا کہ ہم حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس فیصلہ لے کر جائیں چناچہ دونوں حضرت عمر (رض) کے پاس گئے، تو اس کا ساتھی کہنے لگا کہ میرے حق میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرما دیا تھا مگر یہ کہنے لگا کہ عمر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہم فیصلہ لے جائیں حضرت عمر (رض) نے اس دوسرے شخص سے پوچھا کیا ایسا ہی ہے اس نے کہا جی ہاں، حضرت عمر (رض) نے فرمایا اسی جگہ ٹھہرو، میں ابھی آکر تمہارا فیصلہ کردوں گا۔- چناچہ حضرت عمر (رض) ان دونوں کے پاس اپن تلوار سونت کر تشریف لائے اور اس شخص کو جس نے یہ کہا کہ حضرت عمر (رض) سے فیصلہ کروائیں گے، قتل کردیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یہ روایت مرسل غریب ہے۔- اور اس کی سند میں ابن لھیعہ ہے مگر اس روایت کے دیگر شواہد موجود ہیں، اسی روایت کو رحیم نے اپنی تفسیر میں عتبہ بن ضمرہ عن ابیہ کے حوالہ سے روایت کیا ہے

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٥ (فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ) - اس میں انہیں کوئی اختیار ( ) حاصل نہیں ہے۔ ان کے مابین جو بھی نزاعات اور اختلافات ہوں ان میں اگر یہ آپ کو حکم نہیں مانتے تو آپ کے رب کی قسم یہ مؤمن نہیں ہیں۔ کلام الٰہی کا دوٹوک اور پر جلال انداز ملاحظہ کیجیے ۔- ( ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ ) - اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کا فیصلہ قبول بھی کرلیا ‘ لیکن دل کی تنگی اور کدورت کے ساتھ کیا تب بھی یہ مؤمن نہیں ہیں۔- (وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ) - واضح رہے کہ یہ حکم صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی تک محدود نہیں تھا ‘ بلکہ یہ قیامت تک کے لیے ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :95 اس آیت کا حکم صرف حضور صلی اللہ علیہ کی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ قیامت تک کے لئے ہے جو کچھ اللہ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اور جس طریقہ پر اللہ کی ہدایت و راہنمائی کے تحت آپ نے عمل کیا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کے درمیان فیصلہ کن سند ہے ۔ اور اس سند کو ماننے یا نہ ماننے ہی پر آدمی کے مومن ہونے اور نہ ہونے کا فیصلہ ہے حدیث میں اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے کہ لایومن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس اس طریقہ کی تابع نہ ہوجائے جسے میں لے کر آیا ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani