Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّلَہَدَيْنٰھُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا۝ ٦٨- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- صرط - الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . - سرط - السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من :- سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام :- 231-- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه - «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه .- ( ص ر ط ) الصراط - ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو - ( س ر ط) السراط - کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔- الاسْتِقَامَةُ- يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30]- الاستقامۃ ( استفعال )- کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] ہم کو سدفھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٨ (وَّلَہَدَیْنٰہُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا ) - اکثر مفسرین نے اس آیت کے الفاظ کو ان کے ظاہری معنی پر محمول کیا ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ حکم دے کہ اپنے آپ کو قتل کرو ‘ خود کشی کرو ‘ تو ہمیں یہ کرنا ہوگی۔ اگر اللہ تعالیٰ حکم دے کہ اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو نکلنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمارا خالق ومالک ہے۔ اس کی طرف سے دیا گیا ہر حکم واجب التعمیل ہے۔ البتہ (اَنِ اقْتُلُوْآ اَنْفُسَکُمْ ) کے الفاظ میں ایک مزید اشارہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ سورة البقرۃ (آیت ٥٤) میں ہم تاریخ بنی اسرائیل کے حوالے سے پڑھ آئے ہیں کہ بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی ان کو مرتد ہونے کی جو سزا دی گئی تھی اس کے لیے یہی الفاظ آئے تھے : (فَاقْتُلُوْآ اَنْفُسَکُمْ ) پس قتل کرو اپنے آپ کو “۔ اس سے مراد یہ ہے کہ تم اپنے اپنے قبیلے کے ان لوگوں کو قتل کرو جنہوں نے اس کفر و شرک کا ارتکاب کیا ہے۔ منافقین کا معاملہ یہ تھا کہ ان کی حمایت میں اکثر و بیشتر ان کے خاندان والے ‘ رشتہ دار ‘ ان کے گھرانے والے ان کے ساتھ شامل ہوجاتے تھے۔ تو یہاں شاید یہ بتایا جا رہا ہے کہ بجائے اس کے کہ تم ان کی حمایت کرو ‘ تمہارا طرز عمل اس کے بالکل برعکس ہونا چاہیے کہ تم اپنے اندر سے خود دیکھو کہ کون منافق ہیں جو اصل میں آستین کے سانپ ہیں۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ حکم نہیں دیا ‘ مگر وہ یہ حکم بھی دے سکتا تھا کہ ہر گھرانہ اپنے ہاں کے منافقین کو خود قتل کرے۔ یہ تو حضرت عمر (رض) نے اپنی غیرت ایمانی کی وجہ سے اس منافق کو قتل کیا تھا ‘ جبکہ اس منافق کے خاندان کے لوگ حضرت عمر (رض) پر قتل کا دعویٰ کر رہے تھے۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ حکم دیتا تو یہ بھی تمہیں کرنا چاہیے تھا ‘ لیکن یہ اللہ کے علم میں ہے کہ تم میں سے بہت کم لوگ ہوتے جو اس حکم کی تعمیل کرتے۔ اور اگر وہ یہ کر گزرتے تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا اور ان کے ثبات قلبی اور ثبات ایمانی کا باعث ہوتا۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ انہیں خاص اپنے پاس سے اجر عظیم عطا فرماتا اور انہیں صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرماتا۔- اب جو آیت آرہی ہے یہ اطاعت رسول کے موضوع پر قرآن حکیم کی عظیم ترین آیت ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :98 یعنی جب وہ شک چھوڑ کر ایمان و یقین کے ساتھ رسول کی اطاعت کا فیصلہ کر لیتے تو اللہ کے فضل سے ان کے سامنے سعی و عمل کا سیدھا راستہ بالکل روشن ہو جاتا اور انہیں صاف نظر آجاتا کہ وہ اپنی قوتیں اور محنتیں کس راہ میں صرف کریں جس سے ان کا ہر قدم اپنی حقیقی منزل مقصود کی طرف اٹھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani