Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

69۔ 1 اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا صلہ بتلایا جا رہا ہے اس لئے حدیث میں آتا ہے۔ آدمی انہیں کے ساتھ ہوگا جن سے اس کو محبت ہوگی حضرت انس (رض) فرماتے ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو جتنی خوشی اس فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سن کر ہوتی اتنی خوشی کبھی نہیں ہوئی، کیونکہ وہ جنت میں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت پسند کرتے تھے۔ اس کی شان نزول کی روایات میں بتایا گیا ہے کہ بعض صحابہ کرام نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے گا اور ہمیں اس سے فروتر مقام ہی ملے گا اور یوں ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت ورفاقت اور دیدار سے محروم رہیں گے۔ جو ہمیں دنیا میں حاصل ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار کر ان کی تسلی کا سامان فرمایا (ابن کثیر) بعض صحابہ (رض) نے بطور خاص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنت میں رفاقت کی درخواست کی (اسالک مرافقتک فی الجنۃ) جس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں کثرت سے نفلی نماز پڑھنے کی تاکید فرمائی (فأعنی علی نفسک بکثرۃ السجود) پس تم کثرت سجود کے ساتھ میری مدد کرو۔ علاوہ ازیں ایک اور حدیث ہے (التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشہداء) (ترمذی۔ کتاب البیوع باب ماجاء فی التجار و تسمیۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایاھم) راست باز، امانت دار، تاجر انبیا، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا۔ صدیقیت، کمال ایمان و کمال اطاعت کا نام ہے، نبوت کے بعد اس کا مقام ہے امت محمدیہ میں اس مقام میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) سب سے ممتاز ہیں۔ اور اسی لیے بالاتفاق غیر انبیاء میں وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد افضل ہیں، صالح وہ ہے جو اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کامل طور پر ادا کرے اور ان میں کوتاہی نہ کرے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٩] منعم علیہم کون کون ہیں ؟ اس آیت میں چار قسم کے لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ فضیلت اور درجہ کے لحاظ سے بلند تر مقام رکھتے ہیں (١) انبیاء۔ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ نبی ہی اپنی امت کا افضل ترین فرد ہوتا ہے جسے اللہ نبوت کے لیے چن لیتا ہے۔ (٢) صدیق سے مراد ایسا شخص ہے جو اپنے ہر معاملہ میں راست باز ہو حق کا ساتھ دینے والا، ہمیشہ سچ بولنے والا، حق کی فوراً گواہی دینے والا اور باطل کے خلاف ڈٹ جانے والا ہو۔ (٣) شہید کا بنیادی معنیٰ گواہ ہے۔ اور اللہ کی راہ میں جان دینے والے کو شہید اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اپنے ایمان کی صداقت پر اپنی زندگی کے پورے طرز عمل سے شہادت دیتا ہے۔ حتیٰ کہ اپنی جان دے کر یہ ثابت کردیتا ہے کہ وہ جس چیز پر ایمان لایا تھا اسے فی الواقع درست سمجھتا تھا۔ (٤) صالح سے مراد ایسا نیک سرشت آدمی ہے جس کے ہر عمل اور ہر حرکت سے اس کی نیکی ظاہر ہوتی ہو اور اپنی پوری زندگی میں نیک رویہ رکھتا ہو۔ - جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی بسر و چشم اطاعت کرتا ہو، اس آیت میں اسے اخروی زندگی میں مندرجہ بالا چار قسم کے لوگوں کی رفاقت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ اور یہ دراصل اس کے اعمال کا بدلہ نہیں بلکہ محض اللہ کا فضل ہوگا۔ مندرجہ ذیل احادیث اسی مضمون کی تفسیر پیش کرتی ہیں :- ١ آپ کی رفاقت کیسے ؟ سیدنا انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد سے باہر نکل رہے تھے۔ دروازے پر ہمیں ایک آدمی ملا اور کہنے لگا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کب آئے گی ؟ آپ نے اس سے پوچھا کیا تو نے قیامت کے لیے کچھ تیاری کر رکھی ہے ؟ وہ کچھ جھینپ سا گیا اور کہنے لگا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے نہ کچھ لمبے چوڑے روزے رکھے ہیں نہ نماز ہے اور نہ صدقہ۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا تو قیامت کے دن) اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت رکھتا ہے۔ (بخاری، کتاب الاحکام، باب القضاء والفتیا فی الطریق)- ٢۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ نے فرمایا ہر نبی کو اس کے مرض میں اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہے تو دنیا میں رہے اور چاہے تو آخرت کو پسند کرے۔ پھر آپ کو جب مرض الموت میں سخت دھچکا لگا تو میں نے سنا آپ فرما رہے تھے (مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا 69؀ۭ ) 4 ۔ النسآء :69) ۔۔ تو میں سمجھ گئی کہ آپ کو بھی یہ اختیار ملا (اور آپ نے سفر آخرت کو پسند فرمایا) ۔ (بخاری، کتاب التفسیر)- ٣۔ سیدنا ربیعہ بن کعب اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ میں رات کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس رہا کرتا اور آپ کے پاس وضو اور حاجت کا پانی لایا کرتا۔ ایک دفعہ (میں آپ کو وضو کروا رہا تھا تو) آپ نے (خوش ہو کر) فرمایا مانگ کیا مانگتا ہے ؟ میں نے کہا میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا اس کے علاوہ کوئی اور بات بتاؤ میں نے کہا میں تو یہی چیز مانگتا ہوں آپ نے فرمایا اچھا تو پھر کثرت سجود (نماز نوافل وغیرہ) کو اپنے آپ پر لازم کرلو اور اس طرح اس سلسلہ میں میری مدد کرو۔ (مسلم، کتاب الصلوۃ باب مایقال فی الرکوع والسجود کیونکہ سجدہ ہی وہ عبادت ہے جس میں بندے کو اللہ سے نہایت قرب حاصل ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یہ صدق سے مبالغہ ہے، یعنی جو بہت سچا ہو۔ بعض نے کہا، جو کبھی جھوٹ نہ بولے۔ بعض نے کہا، صدیق وہ ہے کہ صدق کی عادت کی وجہ سے اس سے جھوٹ ناممکن ہو اور بعض نے کہا کہ جو اپنے اعتقاد اور قول میں سچا ہو اور اپنے فعل کے ساتھ اپنے صدق کو ثابت کرے۔ ( مفردات) استاد محمد عبدہ (رض) لکھتے ہیں کہ صدیق صدق سے مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی جو جملہ امور دین کی تصدیق کرنے والا ہو اور کبھی کسی معاملے میں خلجان اور شک اس کے دل میں پیدا نہ ہو، یا وہ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق میں سبقت کرنے کی وجہ سے دوسروں کے لیے اسوہ بنے، اس اعتبار سے اس امت کے صدیق ابوبکر (رض) ہی ہوسکتے ہیں، کیونکہ ابوبکر صدیق (رض) دوسرے افاضل صحابہ کے لیے نمونہ بنے ہیں۔ علی (رض) بھی اول مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں، مگر چھوٹے بچے ہونے کی وجہ سے دوسروں کے لیے نمونہ نہیں بن سکے۔ چونکہ نبی کے بعد صدیق کا درجہ ہے، اس لیے علمائے اہل سنت کا اجماع ہے کہ ابوبکر صدیق (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد سب سے افضل ہیں۔ ” الشہداء “ یہ شہید کی جمع ہے، اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جان دی اور امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی شہداء ہونے کا شرف حاصل ہے، اور ” الصالحین “ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہر طرح عقیدہ و عمل کے اعتبار سے صالح اور درست رہے اور ہر قسم کے فساد سے محفوظ رہے۔ (رازی)- مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ ۔۔ : یہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کے انعام کا ذکر ہے کہ انھیں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی معیت، یعنی ان کا ساتھ نصیب ہوگا۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام (رض) کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہنے کا شوق بہت زیادہ تھا، دنیا میں بھی وہ اس کے بہت مشتاق تھے اور انھیں جنت میں آپ کی معیت کا شوق تو حد سے زیادہ تھا۔ ربیعہ بن کعب اسلمی (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس رات بسر کیا کرتا تھا اور آپ کے لیے پانی اور دیگر ضروریات کا اہتمام کردیا کرتا تھا، ایک دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کچھ مانگ لو “ میں نے عرض کی : میں آپ سے جنت میں آپ کی مرافقت (ساتھ) کا سوال کرتا ہوں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کوئی اور سوال ؟ “ میں نے عرض کی : ” وہ بھی یہی ہے۔ “ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پھر سجدوں کی کثرت کے ساتھ اپنے بارے میں میری مدد کرو۔ “ [ مسلم، الصلاۃ، باب فضل السجود والحث علیہ : ٤٨٩ ] یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خالص محبت اور اطاعت کی برکت ہے کہ اگر عمل میں کچھ کمی ہوئی تب بھی اطاعت و اخلاص کی وجہ سے اتنے اونچے لوگوں کا ساتھ مل جائے گا۔ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا : ” آپ اس شخص کے متعلق کیا فرماتے ہیں جو کچھ لوگوں سے محبت رکھتا ہے، مگر ابھی تک ( اعمال میں) ان سے نہیں مل سکا۔ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس سے اسے محبت ہوگی۔ “ [ بخاری، الأدب، باب علامۃ الحب فی اللہ عزوجل : ٦١٦٩ ] حقیقت یہ ہے کہ اطاعت اور محبت لازم و ملزوم ہیں، وہ محبت جس میں اطاعت نہ ہو جھوٹی ہے اور وہ اطاعت جس کی بنیاد محبت نہ ہو، دکھاوا ہے۔ ہاں، محبت و اخلاص کے ساتھ عمل و اطاعت میں کچھ کمی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے فضل سے پورا کر دے گا، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین سے زیادہ اچھا ساتھی کوئی نہیں اور اللہ کے فضل سے بڑی نعمت کوئی نہیں اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں کے حالات خوب جانتا ہے کہ کسے کس کے ساتھ رکھنا ہے۔ - انس (رض) فرماتے ہیں : ” مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت ہے، ابوبکر و عمر (رض) سے محبت ہے، لہٰذا مجھے امید ہے کہ ان کے ساتھ محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مجھے ان کے ساتھ ہی اٹھائیں گے، گو میں ان جیسے عمل نہیں کرسکا۔ “ [ بخاری، الفضائل، باب مناقب عمر بن الخطاب : ٣٦٨٨ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور جو شخص (ضروری احکام میں بھی) اللہ و رسول کا کہنا مان لے گا (گو تکثیر اطاعات سے کمال حاصل نہ کرسکے) تو ایسے اشخاص بھی (جنت میں) ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے (کامل) انعام (دین و قرب و قبول کا) فرمایا ہے، یعنی انبیاء (علیہم السلام) اور صدیقین (جو کہ انبیاء کی امت میں سب سے زیادہ رتبہ کے ہوتے ہیں، جن میں کمال باطنی بھی ہوتا ہے جن کو عرف میں اولیاء کہا جاتا ہے) اور شہدائ (جنہوں نے دین کی محبت میں اپنی جان تک دیدی) اور صلحائ (جو شریعت کے پورے متبع ہوتے ہیں واجبات میں بھی اور مستحبات میں بھی جن کو نیک بخت دیندار کہا جاتا ہے) اور یہ حضرات (جس کے رفیق ہوں) بہت ثمرہ ہوا کہ اس کو ایسے رفیق ملے) یہ (معیت اور رفاقت ان حضرات کے ساتھ محض) فضل ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے (یعنی عمل کا اجر نہیں ہے، کیونکہ اس کا مقتضاتو یہ تھا کہ جو درجہ اس عمل کو مقتضا تھا وہاں سے آگے نہ جاسکتا، پس یہ بطور انعام کے ہے) اور اللہ تعال کافی جاننے والے ہیں (ہر ایک عمل کو اور اس کے مقتضاکو اور اس مقتضا سے زائد مناسب انعام کی مقدار کو خوب جانتے ہیں، کیونکہ اس انعام میں بھی تفاوت ہوگا، کسی کو ان حضرات سے بار بار قرب ہوگا، کسی کو گاہ بگاہ و علی ہذا واللہ اعلم)- ربط آیات :۔ اوپر اللہ و رسول کی اطاعت پر خاص مخاطبین سے اجر عظیم کا وعدہ تھا، اب ان آیات میں بطور قاعدہ کلیہ کے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر عام وعدہ کا ذکر ہے۔- معارف و مسائل - جنت کے درجات اعمال کے اعتبار سے ہوں گے :۔ - جو لوگ ان تمام چیزوں پر عمل کریں جن کے کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیا ہے، ان تمام چیزوں سے پرہیز کریں جن کے کرنے سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے تو عمل کے اعتبار سے ان کے مختلف درجات ہوں گے اول درجہ کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ جنت کے مقامات عالیہ میں جگہ عطا فرمائیں گے، اور دوسرے درجہ کے لوگوں کو ان لوگوں کے ساتھ جگہ عطا فرمائیں گے جو انبیاء کے بعد میں جن کو صدیقین کہا جاتا ہے، یعنی وہ اجلہ صحابہ جنہوں نے بغیر کسی جھجک اور مخالفت کے اول ہی ایمان قبول کرلیا، جیسے حضرت ابوبکر صدیق پھر تیسرے درجہ کے حضرات شہداء کے ساتھ ہوں گے شہداء وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال قربان کردیا، پھر چوتھے درجہ کے حضرات صلحاء کے ساتھ ہوں گے اور صلحاء وہ لوگ ہیں جو اپنے ظاہر و باطن میں اعمال صالحہ کے پابند ہیں۔- خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اطاعت کرنے والے ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز اور مقبول ہیں جن کے چار درجے بتلائے گئے ہیں، انبیاء صدیقین، شہداء اور صالحین - شان نزول :۔ - یہ آیت ایک خاص واقعہ کی بناء پر نازل ہوئی ہے جس کو امام تفسیر حافظ ابن کثیر نے متعدد اسانید سے نقل کیا ہے۔- واقعہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک روز ایک صحابی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے دل میں آپ کی محبت اپنی جان سے بھی زیادہ ہے، اپنی بیوی سے بھی، اپنی اولاد سے بھی، بعض اوقات میں اپنے گھر میں بےچین رہتا ہوں یہاں تک کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کی زیارت کرلوں تب سکون ہوتا ہے، اب مجھے فکر ہے کہ جب اس دنیا سے آپ کی وفات ہوجائے اور مجھے بھی موت آجائے گی تو میں جانتا ہوں کہ آپ جنت میں انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ درجات عالیہ میں ہوں گے اور مجھے اول تو یہ معلوم نہیں کہ میں جنت میں پہنچوں گا بھی یا نہیں، اگر پہنچ بھی گیا تو میرا درجہ آپ سے بہت نیچے ہوگا میں وہاں آپ کی زیارت نہ کرسکوں گا تو مجھے کیسے صبر آئے گا ؟- آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا کلام سن کر کچھ جواب نہ دیا، یہاں تک کہ یہ آیت مذکورہ نازل ہوگئی، ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبین والصدیقین والشھدآء و الصلحین، اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بشارت سنا دی کہ اطاعت گذاروں کو جنت میں انبیاء (علیہم السلام) اور صدیقین اور شہداء اور صالحین کے ساتھ ملاقات کا موقع ملتا رہے گا، یعنی درجات میں تفاضل اور اعلی ادنی ہونے کے باوجود باہم ملاقات و مجالست کے مواقع ملیں گے۔- جنت میں ملاقات کی چند صورتیں :۔ جس کی ایک صورت یہ بھی ہوگی کہ اپنی اپنی جگہ سے ایک دوسرے کو دیکھیں گے جیسا کہ مؤ طا امام مالک میں براویت ابوسعید خدری منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اہل جنت اپنی کھڑکیوں میں اپنے سے اوپر کے طبقات والوں کو دیکھیں گے جیسے دنیا میں تم ستاروں کو دیکھتے ہو۔ - اور یہ بھی صورت ہوگی کہ درجات میں ملاقات کے لئے آیا کریں گے، جیسا کہ ابن جریر نے بروایت ربیع نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تفسیر میں یہ ارشاد فرمایا کہ اونچے درجات والے نیچے درجات کی طرف اتر کر آیا کریں گے اور ان کے ساتھ ملاقات اور مجالست ہوا کرے گی۔- اور یہ بھی ممکن ہے کہ نیچے کے درجات والوں کو ملاقات کے لیے اعلی درجات میں جانے کی اجازت ہو، اس آیت کی بناء پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سے لوگوں کو جنت میں اپنے ساتھ رہنے کی بشارت دی۔- صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت کعب بن اسلمی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رات گذارتے تھے، ایک رات تہجد کے وقت کعب اسلمی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے وضو کا پانی اور مسواک وغیرہ ضروریات لا کر رکھی، تو آپ نے خوش ہو کر فرمایا : مانگو کیا مانگتے ہو، تو انہوں نے عرض کیا اور کچھ نہیں، اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم جنت میں میرے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو ” اعنی علی نفسک بکثرة السجود “ یعنی تمہارا مقصد حاصل ہوجائے گا لیکن اس میں تم بھی میری مدد اس طرح کرو کہ کثرت سے سجدے کیا کرو، یعنی نوافل کی کثرت کرو۔ - اسی طرح ترمذی کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔- ” یعنی وہ بیوپاری جو سچا اور امانتدار ہو وہ انبیاء اور صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔ “- قرب کی شرط محبت ہے :۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت اور رفاقت آپ کے ساتھ محبت کرنے سے حاصل ہوگی، چناچہ صحیح بخاری میں طریق متواترہ کے ساتھ صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ اس شخص کا کیا درجہ ہوگا جو کسی جماعت سے محبت اور تعلق رکھتا ہے مگر عمل میں ان کے درجہ کو نہیں پہنچا آپ نے فرمایا : المرامع من احب ” یعنی محشر میں ہر شخص اس کے ساتھ ہوگا جس سے اس کو محبت ہے۔ “- حضرت انس فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام کو دنیا میں کسی چیز سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی اس حدیث سے کیونکہ اس حدیث نے ان کو یہ بشارت دے دی کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ محبت کرنے والے محشر اور جنت میں بھی حضور کے ساتھ ہوں گے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت کسی رنگ نسل پر موقوف نہیں :۔ طبرانی نے معجم کبیر میں حضرت عبداللہ بن عمر کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص حبشی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ہم سے حسن صورت اور حسین رنگ میں بھی ممتاز ہیں اور نبوت و رسالت میں بھی، اب اگر میں بھی اس چیز پر ایمان لے آؤں جس پر آپ ایمان رکھتے ہیں اور وہی عمل کروں جو آپ کرتے ہیں تو کیا میں بھی جنت میں آپ کے ساتھ ہوسکتا ہوں ؟- آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں ضرور (تم اپنی حبشیانہ بدصورتی سے نہ گھبراؤ) قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے جنت میں کالے رنگ کے حبشی سفید اور حسین ہوجائیں گے اور ایک ہزار سال کی مسافت سے چمکیں گے اور جو شخص لا الہ الا اللہ کا قائل ہو اس کی فلاح و نجات اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوجاتی ہے اور جو شخص سبحان اللہ وبحمدہ پڑھتا ہے اس کے نامہ اعمال میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔- یہ سن کر مجلس میں سے ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ جب اللہ تعالیٰ کے دربار میں حسنات کی اتنی سخاوت ہے تو ہم پھر کیسے ہلاک ہو سکتے یا عذاب میں کیسے گرفتار ہو سکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا (یہ بات نہیں) حقیقت یہ ہے کہ قیامت میں بعض آدمی اتنا عمل اور حسنات لے کر آئیں گے کہ اگر ان کو پہاڑ پر رکھ دیا جائے تو پہاڑ بھی ان کے بوجھ کا تحمل نہ کرسکے، لیکن اس کے مقابلہ میں جب اللہ تعالیٰ کی نعمتیں آتی ہیں اور ان سے موازنہ کیا جاتا ہے تو انسان کا عمل ان کے مقابل ہمیں ختم ہوجاتا ہے، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کو اپنی رحمت سے نوازیں۔- اس حبشی کے سوال و جواب ہی پر سورة دہر کی یہ آیت نازل ہوئی، ھل اتی علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیاً مذکوراً حبشی نے حیرت سے سوال کیا یا رسول اللہ میری آنکھیں بھی ان نعمتوں کو دیکھیں گی جن کو آپ کی مبارک آنکھیں مشاہدہ کریں ؟- آپ نے فرمایا :” ہاں ضرور۔ “ یہ سن کر حبشی نو مسلم نے رونا شروع کیا، یہاں تک کہ روتے روتے وہیں جان دے دی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دست مبارک سے اس کی تجہیز و تکفین فرمائی۔- درجات کی تفصیل :۔- آیت کی تفسیر مع شان نزول اور متعلقہ تشریحات کے بیان ہوچکی، اب ایک بات قابل غور باقی رہ گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا جن لوگوں پر انعام ہے ان کے چار درجے بیان فرمائے گئے ہیں یہ درجے کس اعتبار سے ہیں، اور ان چار درجوں میں باہمی نسبت اور فرق کیا ہے اور کیا یہ چاروں درجے کسی ایک شخص میں جمع ہو بھی سکتے ہیں یا نہیں ؟- حضرات مفسرین نے اس بارے میں مختلف اقوال اور طویل تفصیل لکھی ہے، بعض نے فرمایا کہ یہ چاروں درجے ایک شخص میں بھی جمع ہو سکتے ہیں اور یہ سب صفات متداخلہ کی طرح ہیں، کیونکہ قرآن کریم میں جس کو نبی فرمایا گیا ہے اس کو صدیق وغیرہ کے القاب بھی دیئے گئے ہیں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق ارشاد ہے، انہ کان صدیقاً نبیاً اور حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے بارے میں آیا ہے، ونبیاً من الصلحین اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق وکلا ومن الصلحین آیا ہے۔- اس کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ مفہوم و معنی کے اعتبار سے یہ چار صفات اور درجات الگ الگ ہیں لیکن یہ سب صفات ایک شخص میں بھی جمع ہو سکتی ہیں اس کی مثال ایسی ہے جیسے مفسر، محدث، فقیہ، مورخ اور متکلم مختلف صفات علماء کی ہیں، لیکن بعض علماء ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو مفسر بھی ہوں محدث بھی، فقیہ بھی اور مورخ و متکلم بھی، یا جس طرح ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ مختلف صفات ہیں، مگر یہ سب کسی ایک شخص میں بھی جمع ہو سکتی ہیں۔- البتہ عرف عام میں قاعدہ ہے کہ جس شخص پر جس صفت کا غلبہ ہوتا ہے اسی کے نام سے وہ معروف ہوجاتا ہے، طبقات پر کتابیں لکھنے والے اس کو اسی طبقہ میں شمار کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے عامہ مفسرین نے فرمایا کہ ” صدیقین “ سے مراد اجلہ صحابہ اور ” شہداء “ سے شہداء احد اور ” صالحین “ سے عام نیک مسلمان مراد ہیں۔- اور امام راغب اصفہانی نے ان چاروں درجات کو مختلف درجات قرار دیا ہے، تفسیر بحر محیط، روح المعانی اور مظہری میں بھی یہی مذکور ہے، یعنی یہ کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو چار قسموں میں تقسیم کر کے ہر ایک کے لئے درجات اعلی و ادنی مقرر فرمائے ہیں اور مسلمانوں کو اس کی ترغیب دی ہے کہ وہ ان میں سے کسی کے درجہ سے پیچھے نہ رہیں علمی اور عملی جدوجہد کے ذریعہ ان درجات تک پہنچنے کی کوشش کریں، ان میں نبوت ایک ایسا مقام ہے جو جدوجہد سے کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا، لیکن انبیاء کی معیت پھر بھی حاصل ہوجاتی ہے، امام راغب نے فرمایا کہ ان درجات میں سب سے پہلا درجہ انبیاء (علیہم السلام) کا ہے، جن کو قوت الہیہ کی امداد حاصل ہے اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی چیز کو قریب سے دیکھ رہا ہو، اسی لئے حق تعالیٰ نے ان کے متعلق ارشاد فرمایا۔” افتمرونہ علی مایری۔ “- صدیقین کی تعریف :۔ - دوسرا درجہ صدیقین کا ہے اور وہ لوگ ہیں جو معرفت میں انبیاء (علیہم السلام) کے قریب ہیں اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی چیز کو دور سے دیکھ رہا ہو، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ؟ آپ نے فرمایا میں کسی ایسی چیز کی عبادت نہیں کرسکتا جس کو نہ دیکھا ہو، پھر فرمایا ہے اللہ تعالیٰ کو لوگوں نے آنکھوں سے تو نہیں دیکھا، لیکن ان کے قلوب نے حقائق ایمان کے ذریعہ دیکھ لیا ہے۔ اس دیکھنے سے حضرت علی کی مراد اس قسم کی رویت ہے کہ ان کی معرفت علمی مثال دیکھنے کے ہے۔- شہداء کی تعریف :۔- تیسرا درجہ شہداء کا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو مقصود کو دلائل وبراہین کے ذریعہ جانتے ہیں، مشاہدہ نہیں ہے، ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی چیز کو آئینہ میں قریب سے دیکھ رہا ہو، جیسے حضرت حارثہ نے فرمایا کہ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنے رب کریم کے عرش کو دیکھ رہا ہوں۔- اور حدیث ان تعبداللہ کانک تراہ میں بھی اسی قسم کی رویت مراد ہو سکتی ہے۔- صالحین کی تعریف :۔- چوتھا درجہ صالحین کا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو مقصود کو تقلید و اتباع کے ذریعہ پہچانتے ہیں، ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی کسی چیز کو آئینہ میں دور سے دیکھے، اور حدیث میں فان لم تکن تراہ فانہ یراک وارد ہوا ہے اس میں بھی رویت کا یہی درجہ مراد ہوسکتا ہے امام راغب اصفہانی کی اس تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ درجات معرفت رب کے درجات ہیں اور معرفت کے مختلف درجات کی بناء پر مختلف مداح ہیں ........ بہرحال آیت کا مضمون صاف ہے کہ اس میں مسلمانوں کو یہ بشارت دی گی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اطاعت کرنے والے درجات عالیہ کے رہنے والوں کے ساتھ ہوں گے، اللہ تعالیٰ یہ محبت ہم سب کو نصیب کرے۔ آمین

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ۝ ٠ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا۝ ٦٩ۭ- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ - قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- صِّدِّيقُ- : من کثر منه الصّدق، وقیل : بل يقال لمن لا يكذب قطّ ، وقیل : بل لمن لا يتأتّى منه الکذب لتعوّده الصّدق، وقیل : بل لمن صدق بقوله واعتقاده وحقّق صدقه بفعله، قال :- وَاذْكُرْ فِي الْكِتابِ إِبْراهِيمَ إِنَّهُ كانَ صِدِّيقاً نَبِيًّا [ مریم 41] ، وقال : وَاذْكُرْ فِي الْكِتابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كانَ صِدِّيقاً نَبِيًّا [ مریم 56] ، وقال : وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ [ المائدة 75] ، وقال :- فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَداءِ [ النساء 69] ، فَالصِّدِّيقُونَ هم قوم دُوَيْنَ الأنبیاء في الفضیلة علی ما بيّنت في «الذّريعة إلى مکارم الشّريعة»- صدیق وہ ہے جو قول و اعتقاد میں سچا ہو اور پھر اپنی سچائی کی تصدیق اپنے عمل سے بھی کر دکھائے ۔ قرآن میں ہے ؛وَاذْكُرْ فِي الْكِتابِ إِبْراهِيمَ إِنَّهُ كانَ صِدِّيقاً نَبِيًّا [ مریم 41] اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے ۔ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ [ المائدة 75] اور ان کی والدہ ( مریم ) خدا کی ولی تھی ۔ اور آیت ؛مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَداءِ [ النساء 69] یعنی انبیاء اور صدیق اور شہداء میں صدیقین سے وہ لوگ مراد ہیں جو فضیلت میں انبیاء سے کچھ کم درجہ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ہم اپنی کتاب الذریعۃ الی پکارم الشریعۃ میں بیان کرچکے ہیں ۔- صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - ( رفیقا)- ، صفة مشبهة وزنه فعیل من رفق يرفق باب نصر وباب کرم وباب فرح، يجوز أن يستوي فيه الأفراد والجمع، ويمكن تأويله في الآية علی معنی الجمع أي رفقاء، أو كل واحد من هؤلاء الأنواع الأربعة رفیق

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٩۔ ٧٠) یہ آیت کریمہ حضرت ثوبان (رض) مولی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت و بزرگی کے بیان میں نازل ہوئی کیونکہ ان کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حد درجہ محبت تھی، آپ کا دیدار کیے بغیر ان کو صبر نہیں آسکتا تھا، ایک مرتبہ یہ حاضر ہوئے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے چہرے کا رنگ فق دیکھا عرض کرنے لگے یا رسول اللہ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہیں آخرت میں آپ کے دیدار سے محروم نہ ہوجاؤں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ جو فرائض میں اللہ تعالیٰ کی اور سنت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے گا وہ جنت میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر انبیاء کرام اور افضل اصحاب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور شہداء وصالحین امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہوگا اور جنت میں حضرات انبیاء کرام صدیقین اور شہداء اور صالحین کی معیت میں ہوگا، یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے انعام ہے، اور اللہ تعالیٰ حضرت ثوبان کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گہری محبت اور جنت میں ان کے مقام کو کافی جاننے والا ہے۔- شان نزول : (آیت) ” ومن یطع اللہ والرسول “۔ (الخ)- طبرانی (رح) اور ابن مردویہ (رح) نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے آکر عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مجھے اپنی جان سے زیادہ محبوب ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اپنی اولاد سے بھی زیادہ پیارے ہیں اور میں جس وقت گھر میں ہوتا ہوں اور پھر آپ کی یاد آتی ہے تو آپ کا دیدار کیے بغیر ہرگز صبر نہیں آتا اور جس وقت اپنی موت اور آپ کے انتقال فرمانے کے بارے میں خیال کرتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ آپ جس وقت جنت میں تشریف لے جائیں گے تو آپ انبیاء کرام کے ساتھ درجات عالیہ میں تشریف فرما ہوں گے اور میں اس سے کہیں خاصی کم درجہ کی جنت میں جاؤں گا تو اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں آپ کے دیدار سے محروم نہ رہوں، (حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کس قدار والہانہ محبت ووابستگی کا اظہار ہے) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کا فورا کوئی جواب نہیں دیا پھر جبریل امین اس آیت کریمہ کو لے کر آپ پر نازل ہوئے۔- اور ابن ابی حاتم (رح) نے مسروق سے روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ایک لمحہ کے لیے بھی ہمیں آپ سے علیحدہ ہونا گوارہ نہیں، اگر آپ کا وصال ہم سے پہلے ہوگیا تو آپ درجات عالیہ کی طرف بلائے جائیں گے اور ہم آپ کا دیدار نہیں کرسکیں گے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی نیز عکرمہ (رض) سے روایت کیا ہے۔ کہ ایک نوجوان رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا میں تو ہم آپ کے دیدار سے بہرہ ور ہوجاتے ہیں اور آخرت میں آپ کا دیدار نہ کرسکیں گے کیوں کہ آپ جنت میں درجات عالیہ میں ہوں گے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، تب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس نوجوان سے فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ تم جنت میں میرے ساتھ ہوگے۔- اور ابن جریر (رح) نے اسی طرح سعید بن حبیب (رض) ، مسروق (رض) ، ربیع (رض) ، قتادہ (رض) ، سدی (رض) سے مرسل روایات روایت کی ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

فرمایا :- آیت ٦٩ (وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ ) (مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْن ج) - (وَحَسُنَ اُولٰٓءِکَ رَفِیْقًا )- یعنی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنے والوں کا شمار ان لوگوں کے زمرے میں ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے۔ سورة الفاتحہ میں ہم نے یہ الفاظ پڑھے تھے : (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ) آیت زیر مطالعہ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ “ کی تفسیر ہے۔ ان مراتب کو ذرا سمجھ لیجیے۔ صالح مسلمان گویا پر ہے۔ وہ ایک نیک نیت مسلمان ہے جس کے دل میں خلوص کے ساتھ ایمان ہے۔ وہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام پر عمل کر رہا ہے ‘ محرّ مات سے بچا ہوا ہے۔ وہ اس سے اوپر اٹھے گا تو ایک اونچا درجہ شہداء کا ہے ‘ اس سے بلند تر درجہ صدیقین کا ہے اور بلندترین درجہ انبیاء کا ہے۔ اس بلند ترین درجے پر تو کوئی نہیں پہنچ سکتا ‘ اس لیے کہ وہ کوئی کسبی چیز نہیں ہے ‘ وہ تو ایک وہبی چیز تھی ‘ جس کا دروازہ بھی بند ہوچکا ہے۔ البتہ مرتبہ صالحیت سے بلند تر دو درجے ابھی موجود ہیں کہ انسان اپنی ہمت ‘ محنت اور کوشش سے شہادت اور صدیقیت کے مراتب پر فائز ہوسکتا ہے۔ یہ مضمون ان شاء اللہ سورة الحدید میں پوری وضاحت کے ساتھ بیان ہوگا

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :99 صدیق سے مراد وہ شخص ہے جو نہایت راستباز ہو ، جس کے اندر صداقت پسندی اور حق پرستی کمال درجہ پر ہو ، جو اپنے معاملات اور برتاؤ میں ہمیشہ سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کرے ، جب ساتھ دے تو حق اور انصاف ہی کا ساتھ دے اور سچے دل سے دے ، اور جس چیز کو حق کے خلاف پائے اس کے مقابلہ میں ڈٹ کر کھڑا ہو جائے اور ذرا کمزوری نہ دکھائے ۔ جس کی سیرت ایسی ستھری اور بے لوث ہو کہ اپنے اور غیر کسی کو بھی اس سے خالص راست روی کے سوا کسی دوسرے طرز عمل کا اندیشہ نہ ہو ۔ شھید کے اصل معنی گواہ کے ہیں ۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے ایمان کی صداقت پر اپنی زندگی کے پورے طرز عمل سے شہادت دے ۔ اللہ کی راہ میں لڑ کر جان دینے والے کو بھی شہید اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ جان دے کر ثابت کردیتا ہے کہ وہ جس چیز پر ایمان لایا تھا اسے واقعی سچے دل سے حق سمجھتا تھا اور اسے اتنا عزیز رکھتا تھا کہ اس کے لیے جان قربان کرنے میں بھی اس نے دریغ نہ کیا ۔ ایسے راستباز لوگوں کو بھی شہید کہا جاتا ہے جو اس قدر قابل اعتماد ہوں کہ جس چیز پر وہ شہادت دیں اس کا صحیح و برحق ہونا بلا تامل تسلیم کر لیا جائے ۔ صالح سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے خیالات اور عقائد میں ، اپنی نیت اور ارادوں میں اور اپنے اقوال و افعال میں راہ راست پر قائم ہو اور فی الجملہ اپنی زندگی میں نیک رویہ رکھتا ہو ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :100 یعنی وہ انسان خوش قسمت ہے جسے ایسے لوگ دنیا میں رفاقت کے لیے میسر آئیں اور جس کا انجام آخرت میں بھی ایسے ہی لوگوں کے ساتھ ہو ۔ کسی آدمی کے احساسات مردہ ہو جائیں تو بات دوسری ہے ، ورنہ درحقیقت بد سیرت اور بد کردار لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا دنیا ہی میں ایک عذاب الیم ہے کجا کہ آخرت میں بھی آدمی انہی کے ساتھ ان انجام سے دوچار ہو جو ان کے لیے مقدر ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی ہمیشہ یہی تمنا رہی ہے کہ ان کو نیک لوگوں کی سوسائیٹی نصیب ہو اور مر کر بھی وہ نیک ہی لوگوں کے ساتھ رہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani