Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

شیطان کے دوستوں سے جنگ لازم ہے ۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کو اپنی راہ کے جہاد کی رغبت دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ وہ کمزور بےبس لوگو جو مکہ میں ہیں جن میں عورتیں اور بچے بھی ہیں جو وہاں کے قیام سے اکتا گئے ہیں جن پر کفار نت نئی مصیبتیں توڑ رہے ہیں ۔ جو محض بےبال و پر ہیں انہیں آزاد کراؤ ، جو بےکس دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اسی بستی یعنی مکہ سے ہمارا نکلنا ممکن ہو ، مکہ شریف کو اس آیت میں بھی قریہ کہا گیا ہے ( وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ هِىَ اَشَدُّ قُوَّةً مِّنْ قَرْيَتِكَ الَّتِيْٓ اَخْرَجَتْكَ ۚ اَهْلَكْنٰهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ ) 47 ۔ محمد:13 ) بہت سی بستیاں اس بستی سے زیادہ طاقتور تھیں جس بستی سے ( یعنی وہاں کے رہنے والوں نے ) تمہیں نکالا ۔ اسی مکہ کے رہنے والے مسلمان کافروں کے ظلم کے شکایت بھی کر رہے ہیں اور ساتھ ہی اپنی دعاؤں میں کہہ رہے ہیں کہ اے رب کسی کو اپنی طرف سے ہمارا ولی اور مددگار بنا کر ہماری امداد کو بھیج ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس انہی کمزوروں میں تھے اور روایت میں ہے کہ آپ نے ( اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ حِيْلَةً وَّلَا يَهْتَدُوْنَ سَبِيْلًا ) 4 ۔ النسآء:98 ) پڑھ کر فرمایا میں اور میری والدہ صاحبہ بھی انہی لوگوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے معذور رکھا ۔ ارشاد ہے ایماندار اللہ تعالیٰ نے معذور رکھا ۔ ارشاد ہے ایماندار اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اس کی رضا جوئی کے لئے جہاد کرتے ہیں اور کفار اطاعت شیطان میں لڑتے ہیں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ شیطان کے دوستوں سے جو جو اللہ کے دشمن ہیں دل کھول کر جنگ کریں اور یقین مانیں کہ شیطان کے ہتھکنڈے اور اس کے مکر و فریب سب نقش برآب ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

75۔ 1 ظالموں کی بستی سے مراد (نزول کے اعتبار سے) مکہ ہے۔ ہجرت کے بعد وہاں باقی رہ جانے والے مسلمان خاص طور پر بوڑھے مرد، عورتیں اور بچے، کافروں کے ظلم ستم سے تنگ آکر اللہ کی بارگاہ میں مدد کی دعا کرتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو متنبہ فرمایا کہ تم ان مستضعفین کو کفار سے نجات دلانے کے لئے جہاد کیوں نہیں کرتے ؟ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے علماء نے کہا کہ جس علاقے میں مسلمان اس طرح ظلم و ستم کا شکار اور نرغا کفار میں گھرے ہوئے ہوں تو دوسرے مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ان کافروں سے ظلم و ستم سے بچانے کے لئے جہاد کریں، یہ جہاد دوسری قسم کا ہے یعنی دین کی نشرو اشاعت اور کلمۃ اللہ کے غلبے کے لئے لڑنا جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں اور مابعد کی آیت میں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٤] ہجرت نہ کرسکنے والے :۔ اس آیت میں ان کمزور مسلمانوں، بیواؤں اور بچوں کی طرف اشارہ ہے جو مکہ یا بعض قبائل میں آباد تھے۔ اسلام قبول کرچکے تھے مگر ہجرت کرنے پر قدرت نہ رکھتے تھے اور کافروں کے ظلم و تشدد برداشت کرنے پر مجبور تھے اور اللہ سے دعا کیا کرتے تھے کہ یا اللہ ان ظالموں سے رہائی کی کوئی صورت پیدا فرما دے یا ہمارا کوئی حامی و مددگار بھیج جو ہمیں ان ظالموں کے پنجہ سے نکال لے جائے۔ چناچہ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسے لوگوں کے حق میں نماز میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد دعا فرماتے کہ یا اللہ ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور دوسرے ناتواں مسلمانوں کو جو مکہ میں ہیں کافروں کی قید سے چھڑا دے۔ یا اللہ مضر کے کافروں پر سخت گرفت فرما اور ان پر ایسا قحط بھیج، جیسا یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں قحط پڑا تھا۔ (بخاری، کتاب الادب، باب تسمیۃ الولید) اور سیدنا عبداللہ ابن عباس (رض) جب یہ آیت پڑھا کرتے تو کہا کرتے کہ میں اور میری ماں (دونوں مکہ میں) ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے معذور رکھا۔ (بخاری، کتاب التفسیر) اس آیت میں مسلمانوں کو ایسے ہی کمزور و ناتواں مسلمانوں کی مدد کو پہنچنے اور ایسے ظالموں سے جہاد کر کے انہیں ان کے ظلم سے بچانے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اس آیت کا تعلق بھی ترغیب جہاد سے ہے، یعنی دو وجوہ کی بنا پر تمہارے لیے کفار سے لڑنا ضروری ہے، اول : اعلائے کلمۃ اللہ، یعنی اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے، دوم ان مظلوم مسلمانوں کو نجات دلانے کے لیے جو کفار کے چنگل میں بےبس پڑے ہیں۔ (قرطبی) مکہ معظمہ میں بہت سے لوگ ایسے رہ گئے تھے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہجرت نہ کرسکے تھے اور ان کے اقارب ان پر تشدد کرنے لگے تھے، تاکہ انھیں اسلام سے پھیر کر پھر کافر بنالیں۔ پس ” الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُھَا ۚ“ سے مراد مکہ ہے اور مشرک ہونے کی وجہ سے یا مظلوم مسلمانوں کو ستانے کی وجہ سے اس کے باشندوں کو ظالم فرمایا ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں اور میری والدہ بھی ان ” مستضعفین “ (بےبس مسلمانوں میں) شامل تھے (جنھیں اللہ تعالیٰ نے معذور قرار دیا) ۔ [ بخاری، التفسیر : ٤٥٨٤ ] مدینہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان ” مستضعفین “ کے حق میں نام لے کر دعا فرمایا کرتے تھے : ( اَللّٰہُمَّ اَنْجِ الْوَلِیْدَ بْنَ الْوَلِیْدِ وَ سَلَمَۃَ بْنَ ہِشَامٍ وَ عَیَّاشَ بْنَ أَبِیْ رَبِیْعَۃَ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ )” یا اللہ ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور (مکہ میں گھرے ہوئے) دوسرے بےبس مسلمانوں کو رہائی دلا۔ “ [ بخاری، الأذان، باب یھوی بالتکبیر حین یسجد : ٨٠٤، عن أبی ہریرہ ] افسوس کہ اس وقت مسلمان کفار کے مختلف ممالک کی غلامی میں بےبس ہیں، وہ انھیں نہ آزادی دیتے ہیں نہ نکلنے دیتے ہیں اور نہ کوئی مسلمان ملک انھیں قبول کرنے کے لیے تیار ہے، بتائیں اس وقت سے بڑھ کر جہاد کب فرض ہوگا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور تمہارے پاس کیا عذر ہے کہ تم جہاد نہ کرو (باوجودیکہ اس کا قوی داعی موجود ہے، کیونکہ یہ جہاد) اللہ کی راہ میں (ہوتا ہے، یعنی اعلاء کلمتہ اللہ کے لئے ہے جس کا اہتمام ضروری ہے) اور (اس اعلاء دین کے آثار میں سے ایک خاص اثر کی ضرورت بھی درپیش ہے، وہ یہ کہ) کمزور (ایمانداروں) کی خاطر سے (بھی لڑنا ضرور ہے تاکہ کفار کے پنجہ ستم سے رہائی پائیں) جن (بیچاروں) میں کچھ مرد ہیں اور کھ عورتیں ہیں اور کچھ بچے ہیں جو (کفار سے تنگ و پریشان ہو کر) دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو (کسی طرح) اس بستی سے (یعنی مکہ سے جو ہمارے لیے جیل خانہ بنا ہوا ہے) باہر نکال، جس کے رہنے والے سخت ظالم ہیں (کہ ہم پر آفت ڈھا رکھی ہے) اور ہمارے لئے غیب سے کسی دوست کو کھڑا کیجئے اور ہمارے لئے غیب سے کسی حامی کو بھیجئے (کہ ہماری حمایت کر کے ان ظالموں کے پنجہ سے چھڑا دے) جو لوگ پکے ایمان دار ہیں (وہ تو ان احکام کو سن کر) اللہ کی راہ میں (یعنی غلبہ اسلام کے قصد سے) جہاد کرتے ہیں اور جو لوگ (ان کے مقابلہ میں) کافر ہیں وہ شیطان کی راہ میں (یعنی غلبہ کفر کے قصد سے) لڑتے ہیں (اور ظاہر ہے کہ ان دونوں میں نصرت اللہ کی طرف سے ایمان داروں کو ہوگی، جب ایمان داروں کے ساتھ اللہ کی مدد ہے) تو اے ایماندارو) تم شیطان کے ساتھیوں سے (یعنی کافروں سے جو کہ اللہ کی مدد سے محروم ہیں) جہاد کرو، شیطان ان کفری تدبیروں کا حکم کرتا ہے) شیطانی تدبیر (خود) لچر ہوتی ہے، (کیونکہ اس میں غیبی امداد نہیں ہوتی اور کبھی چند روزہ غلبہ ہوجانا تو ان کو چند روزہ مہلت اور ڈھیل دینا ہے، تو غیبی امداد جو مؤمنین کے ساتھ ہے وہ تدبیر اس کا کیا مقابلہ کرے گی۔- خلاصہ یہ کہ داعی بھی ہے اور وعدہ نصرت بھی ہے، پھر کیا عذر ہے ؟ اس لئے مکرر تاکید کی گئی۔- معارف مسائل - مظلوم کی فریاد رسی اسلام کا ایک اہم فریضہ ہے :۔- مکہ میں ایسے کمزور مسلمان رہ گئے تھے جو جسمانی ضعف اور کم سامانی کی وجہ سے ہجرت نہ کرسکے تھے اور بعد میں کافروں نے بھی ان کو جانے سے روک دیا اور طرح طرح کی اذیتیں دینی شروع کردیں، تاکہ یہ لوگ اسلام سے پھرجائیں، ان حضرات میں سے بعضوں کے نام ہی تفاسیر میں مذکور ہیں، مثلاً ابن عباس اور ان کی والدہ سلمہ بن ہشام ولید بن ولید اور ابوجندل بن سہل (قرطبی) یہ حضرات اپنے ایمان کی پختگی کی وجہ سے ان کے ظلم و ستم کو جھیلتے اور سہتے رہے اور اسلام پر بڑی مضبوطی سے جمے رہے، البتہ اللہ تعالیٰ سے ان مصائب سے نجات کی دعائیں انہوں نے برابر جاری رکھیں، آخر اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاء قبول فرمائی اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ جہاد کر کے ان کو کفار کے جبر و تشدد سے چھٹکارا دلوائیں۔- اس آیت میں مؤمنین نے اللہ تعالیٰ سے دو چیزوں کی درخواست کی تھی ایک یہ کہ ہم کو اس قریہ سے نکالیں (یہاں قریہ سے مراد مکہ ہے) دوسری یہ کہ ہمارے لئے کوئی ناصر اور مددگار بھیج دیں، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دونوں باتیں قبول فرمائی ہیں، اس طرح کہ بعض کو وہاں سے نکلنے کے مواقع میسر کئے جن سے ان کی پہلی بات پوری ہوئی، بعض اسی جگہ رہے، یہاں تک کہ مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عتاب بن اسید کو ان کا متولی مقرر کیا، جنہوں نے مظلومین کو ان کے ظالمین سے نجات دلائی، اس طرح سے ان کی دوسری بات بھی پوری ہوگئی، اس آیت میں صاف لفظوں میں حکم قتال دینے کے بجائے قرآن نے یہ الفاظ اختیار کئے، مالکم لاتقاتلون جن میں اس طرف اشارہ ہے کہ ان حالات میں قتال جہاد ایک طبعی اور فطری فریضہ ہے، جس کا نہ کرنا کسی بھلے آدمی سے بہت بعید ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْيَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُھَا۝ ٠ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا۝ ٠ۚۙ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا۝ ٧٥ۭ- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة - الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- اسْتَضْعَفْ- واسْتَضْعَفْتُهُ : وجدتُهُ ضَعِيفاً ، قال وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ- [ النساء 75] ، قالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء 97] ، إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف 150] ، وقوبل بالاستکبار في قوله : قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ 33]- استضعفتہ ۔ میں نے اسے کمزور سمجھا حقیر جانا ۔ قران میں ہے : ۔ وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا[ القصص 5] اور ہم چاہتے تھے کہ جنہیں ملک میں کمزور سمجھا گیا ہے ان پر احسان کریں : وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ [ النساء 75] اور ان بےبس مردوں عورتوں اور بچوں قالوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء 97] تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز اور ناتوان تھے ۔ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف 150] کہ لوگ تو مجھے کمزور سمجھتے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ 33] اور کمزور لوگ برے لوگوں سے کہیں گے ۔ میں استضاف استکبار کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے - رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] ،- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - لدن - لَدُنْ أخصّ من «عند» ، لأنه يدلّ علی ابتداء نهاية . نحو : أقمت عنده من لدن طلوع الشمس إلى غروبها، فيوضع لدن موضع نهاية الفعل .- قال تعالی: فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف 76]- ( ل دن ) لدن - ۔ یہ عند سے اخص ہے کیونکہ یہ کسی فعل کی انتہاء کے آغاز پر دلالت کرتا ہے ۔ جیسے قمت عند ہ من لدن طلوع الشمس الیٰ غروبھا آغاز طلوع شمس سے غروب آفتاب اس کے پاس ٹھہرا رہا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف 76] تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا کہ آپ کو مجھے ساتھ نہ رکھنے کے بارے میں میری طرف سے عذر حاصل ہوگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٥) اب جہاد فی سبیل اللہ سے ان لوگوں کے اعراض کا اللہ تعالیٰ ذکر فرماتے ہیں کہ اطاعت خداوندی میں کفار مکہ کے ساتھ کیوں جہاد نہیں کرتے، مکہ مکرمہ میں کمزور لوگ ہیں جو یہ دعا کرتے ہیں کہ مکہ والے مشرک و ظالم ہیں اے اللہ یہاں سے ہمیں باہر نکال دے اور ہمارے لیے غیب سے کوئی مددگار اور کوئی حامی بھیج دے چناچہ اللہ تعالیٰ نیان کی دعا قبول کی اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے عتاب بن اسید (رض) کو معین ومحافظ بنا دیا ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

چناچہ فرمایا :- آیت ٧٥ (وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) (وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ ) (الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ہٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُہَا ج) (وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّاج وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا ) - ان کی یہ آہ و بکا تمہیں آمادۂ پیکار کیوں نہیں کر رہی ؟ ان پر ظلم ہو رہا ہے ‘ ان پر ستم ڈھائے جا رہے ہیں اور تمہارا حال یہ ہے کہ تم اپنے گھروں سے نکلنے کو تیار نہیں ہو ؟ بعض لوگ اس آیت کا انطباق ان مختلف قسم کے سیاسی جہادوں پر بھی کردیتے ہیں جو کہ آج کل ہمارے ہاں جاری ہیں اور ان پر جہاد فی سبیل اللہ کا لیبل لگایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بات بالکل ہی قیاس مع الفارق ہے۔ واضح رہے کہ یہ خطاب ان اہل ایمان سے ہو رہا ہے جن کے ہاں اسلام قائم ہوچکا تھا۔ ہم اپنے ملک میں اسلام قائم کر نہیں سکتے۔ یہاں پر دین کے غلبہ و اقامت کی کوئی جدوجہد نہیں کر رہے۔ ہمارے ہاں کفر کا نظام چل رہا ہے۔ اس کے مخاطب اہل ایمان ہیں ‘ اور اہل ایمان کا فرض یہ ہے کہ پہلے اپنے گھر کو درست کرو ‘ پہلے اپنے ملک کے اندر اسلام قائم کرو لہٰذا جہاد کرنا ہے تو یہاں کرو ‘ جانیں دینی ہیں تو یہاں دو ۔ یہاں پر طاغوت کی حکومت ہے ‘ غیر اللہ کی حکومت ہے ‘ قرآن کے سوا کوئی اور قانون چل رہا ہے ‘ جبکہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : (وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ ۔۔ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔۔ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ ) (المائدۃ) اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں ۔۔ وہی تو ظالم ہیں ۔۔ وہی تو فاسق ہیں۔ “ چناچہ کافر ‘ ظالم اور فاسق تو ہم خود ہیں۔ ہمیں پہلے اپنے گھر کی حالت درست کرنا ہوگی۔ اس کے بعد ایک جمعیت قائم ہوگی۔ ہماری حکومت تو ان لوگوں سے دوستیاں کرتی پھرتی ہے جن کے خلاف یہاں جہاد کا نعرہ بلند ہو رہا ہے ‘ جس میں جانیں دی جا رہی ہیں۔ تو یہ آیت اپنی جگہ ہے۔ ہرچیز کو اس کے سیاق وسباق کے اندر رکھنا چاہیے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :104 اشارہ ہے ان مظلوم بچوں ، عورتوں اور مردوں کی طرف جو مکہ میں اور عرب کے دوسرے قبائل میں اسلام قبول کرچکے تھے مگر نہ ہجرت پر قادر تھے اور نہ اپنے آپ کو ظلم سے بچاسکتے تھے یہ غریب طرح طرح سے تختہ مشق ستم بنائے جارہے تھے اور دعائیں مانگتے تھے کہ کوئی انہیں اس ظلم سے بچائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani