76۔ 1 مومن اور کافر، دونوں کو جنگوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لیکن دونوں کے مقاصد جنگ میں عظیم فرق ہے، مومن اللہ کے لئے لڑتا ہے، محض طلب دنیا یا ہوس ملک گیری کی خاطر نہیں۔ جب کہ کافر کا مقصد یہی دنیا اور اس کے مفادات ہوتے ہیں۔ 76۔ 2 مومنوں کو ترغیب دی جا رہی ہے کہ طاغوتی مقاصد کے لئے حیلے اور مکر کمزور ہوتے ہیں، ان کے ظاہری اسباب کی فروانی اور کثرت تعداد سے مت ڈرو تمہاری ایمانی قوت اور عزم جہاد کے مقابلے میں شیطان کے یہ حیلے نہیں ٹھہر سکتے۔
[١٠٥] وقتی اور سیاسی اتحاد شیطانی اتحاد ہے جس کی بنیاد کمزور ہوتی ہے :۔ یہاں طاغوت سے مراد سرداران قریش کی اپنی اپنی چودھراہٹیں اور اسی طرح یہودیوں اور دوسرے قبائل عرب کے سرداروں کی سرداریاں ہیں۔ جن کی بنا پر ان کا عوام پر تسلط قائم تھا۔ جوں جوں اسلام کو اللہ نے ترقی دی تو ان سرداروں کو اپنی سرداریاں متزلزل اور ڈگمگاتی نظر آنے لگیں تو انہوں نے مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی شروع کردی۔ گویا مسلمانوں کے خلاف تمام اسلام دشمن قومیں متحد ہو کر اسلام کو مٹانے پر آمادہ ہوجاتی تھیں اور اسلام کے مقابلہ میں کفر کا یہ اتحاد دراصل شیطانی اتحاد تھا اور یہ محض وقتی اور سیاسی اتحاد ہوتا تھا۔ ورنہ اس اتحاد میں شامل قوموں کے باہمی اختلافات بدستور موجود تھے لہذا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ اس شیطانی لشکر کا پوری ہمت اور جرات کے ساتھ مقابلہ کرو کیونکہ ان کے اتحاد کی بنیاد ہی کمزور ہے۔
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ …. جہاد کی فرضیت اور ترغیب کے بعد اس آیت میں بتایا کہ جہاد کی ظاہری صورت کا اعتبار نہیں ہے، بلکہ جہاد اپنے مقصد کے اعتبار سے جہاد ہے، مومن ہمیشہ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد کرتا ہے اور کافر کسی طاغوتی طاقت کو بچانے یا مضبوط کرنے کے لیے لڑتے ہیں، لہٰذا تم ان سے خوب لڑو۔ شیطان خواہ اپنے دوستوں کو کتنے ہی مکر و فریب سمجھائے، مگر تمہارے خلاف وہ کامیاب نہیں ہوسکتے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا تمام مصائب کا بہترین علاج ہے :- آیت یقولون ربنا اخرجنا سے یہ بتلایا گیا کہ حکم قتال کا ایک سبب ان کمزور مسلمان مردوں اور عورتوں کی دعاء تھی جس کی قبولیت مسلمان کو حکم جہاد دے کر کی گئی اور ان کی مصائب کا فوری خاتمہ ہوگیا۔- جنگ تو سب کرتے ہیں مگر اس سے مومن اور کافر کے مقاصد الگ الگ ہیں :۔ - الذین امنوا یقاتلون فی سبیل اللہ اس آیت میں بتلایا گیا کہ مؤمنین اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور کافر شیطان کی راہ میں اس سے صاف ظاہر ہے کہ مومن کی جدوجہد کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ دنیا میں خدا کا قانون رائج ہو اور اللہ تعالیٰ کا حکم بلند ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کا مالک ہے اور اس کا قانون خالص انصاف پر مبنی ہے اور جب انصاف کی حکوتم قائم ہوگی تو امن قائم رہے گا دنیا کے امن کے لئے یہ ضروری ہے کہ دنیا میں وہ قانون رائج ہو جو خدا کا قانون ہے، لہذا کامل مومن جب جنگ کرتا ہے تو اس کے سامنے یہی مقصد ہوتا ہے۔- لیکن اس کے مقابل ہمیں کفار کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ کفر کی ترویج ہو اور کفر کا غلبہ ہو اور طاغوتی قوتیں برسر اقتدار آئیں، تاکہ دنیا میں کفر و شرک خوب چمکے اور چونکہ کفر و شرک شیطان کی راہیں ہیں، اس لئے کافر شیطان کے کام میں اس کی مدد کرتے ہیں۔- شیطان کی تدبیر ضعیف ہے :۔ - ان کید الشیطن کان ضعیفاً اس آیت میں بتلایا گیا کہ شیطانی تدابیر لچر اور کمزور ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ مومنین کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، لہٰذا مسلمانوں کو شیطان کے دوستوں یعنی کافروں سے لڑنے میں کوئی تامل نہ ہونا چاہئے، اس لیے کہ ان کا مددگار اللہ تعالیٰ ہے اور کافروں کو شیطان کی تدبیرو کوئی فائدہ نہ دے گی۔- چنانچہ جنگ بدر میں ایسا ہی ہوا کہ پہلے شیطان کافروں کے سامنے لمبی ڈینگیں مارتا رہا اور اس نے کافروں کو مکمل یقین دلایا کہ :” لاغالب لکم الیوم “ آج کے دن تم لوگوں کو کوئی مغلوب نہیں کرسکتا اس لئے کہ ” انی جارلکم “ (میں تمہارا مددگار ہوں) میں اپنے تمام لاؤ لشکر کے ساتھ تمہاری مدد کو آؤں گا، جب تک جنگ شروع ہوئی تو وہ اپنے لشکر کے ساتھ اگرچہ آگے بڑھا، لیکن جب اس نے دیکھا کہ مسلمانوں کی حمایت میں فرشتے آپہنچے ہیں تو اس نے اپنی تدبیر کو ناکام پا کر الٹے پاؤں بھاگنا شروع کردیا اور اپنے دوستوں یعنی کافروں سے کہا :” انی بری منکم، انی اری مالاترون انی اخاف اللہ، واللہ شدید العاقب ” میں تم لوگوں سے بری ہوں، اس لئے کہ میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جس کی تم کو خبر نہیں (یعنی فرشتوں کا لشکر) میں اللہ سے ڈرتا ہوں کیونکہ وہ سخت عذاب دینے والا ہے “ (مظہری)- اس آیت میں شیطان کی تدبیر کو جو ضعیف کہا گیا ہے اس کے لئے اسی آیت سے دو شرطیں بھی مفہوم ہوتی ہیں ایک یہ کہ وہ آدمی جس کے مقابلہ میں شیطان تدبیر کر رہا ہے مسلمان ہو اور دوسری یہ کہ اس کا کام محض اللہ ہی کے لئے ہو، کوئی دینی نفسانی غرض نہ ہو، پہلی شرط الذین امنوا سے اور دوسری یقاتلون فی سبیل اللہ سے معلوم ہوتی ہے، اگر ان دونوں شرطوں میں سے کوئی فوت ہوجائے تو پھر ضروری نہیں کہ شیطان کی تدبیر اس کے مقابل میں کمزور ہو۔ - حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ” جب تم شیطان کو دیکھو تو بغیر کسی خوف و خدشہ کے اس پر حملہ کردو۔ “ اس کے بعد آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ان کید الشیطن کان ضعیفاً (احکام القرآن للسیوطی)
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ ٠ۚ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْٓا اَوْلِيَاۗءَ الشَّيْطٰنِ ٠ۚ اِنَّ كَيْدَ الشَّيْطٰنِ كَانَ ضَعِيْفًا ٧٦ۧ- طَّاغُوتُ- والطَّاغُوتُ عبارةٌ عن کلِّ متعدٍّ ، وكلِّ معبود من دون الله، ويستعمل في الواحد والجمع . قال تعالی: فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ [ البقرة 256] ، وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر 17] ، أَوْلِياؤُهُمُ الطَّاغُوتُ [ البقرة 257] ، يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء 60] ، فعبارة عن کلّ متعدّ ، ولما تقدّم سمّي السّاحر، والکاهن، والمارد من الجنّ ، والصارف عن طریق الخیر طاغوتا، ووزنه فيما قيل : فعلوت، نحو : جبروت وملکوت، وقیل : أصله : طَغَوُوتُ ، ولکن قلب لام الفعل نحو صاعقة وصاقعة، ثم قلب الواو ألفا لتحرّكه وانفتاح ما قبله .- الطاغوت : سے مراد ہر وہ شخص ہے جو حدود شکن ہوا اور ہر وہ چیز جس کی اللہ کے سوا پرستش کی جائے اسے طاغوت کہاجاتا ہے اور یہ واحد جمع دونوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ [ البقرة 256] جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے ۔ وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر 17] اور جنہوں نے بتوں کی پوجا۔۔ اجتناب کیا ۔ أَوْلِياؤُهُمُ الطَّاغُوتُ [ البقرة 257] ان کے دوست شیطان ہیں ۔ اور آیت کریمہ : يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء 60] اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش کے پاس لے جاکر فیصلہ کرائیں ۔ میں طاغوت سے حدود شکن مراد ہے اور نافرمانی میں حد سے تجاوز کی بنا پر ساحر، کا ہن ، سرکش جن اور ہر وہ چیز طریق حق سے پھیرنے والی ہوا سے طاغوت کہاجاتا ہے بعض کے نزدیکی فعلوت کے وزن پر ہے جیسے جبروت ومنکوت اور بعض کے نزدیک اس کی اصل طاغوت ہے ۔ پھر صاعقۃ اور صاقعۃ کی طرح پہلے لام کلمہ میں قلب کیا گیا اور پھر واؤ کے متحرک اور ماقبل کے مفتوح ہونے کہ وجہ سے الف سے تبدیل کیا گیا ۔- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - كيد - الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76]- ( ک ی د ) الکید - ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔ - ضعف - والضَّعْفُ قد يكون في النّفس، وفي البدن، وفي الحال، وقیل :- الضَّعْفُ والضُّعْفُ لغتان . قال تعالی: وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال 66]- ( ض ع ف ) الضعف - اور الضعف رائے کی کمزوری پر بھی بولا جاتا ہے اور بدن اور حالت کی کمزوری پر بھی اور اس میں ضعف اور ضعف ( ولغت ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال 66] اور معلوم کرلیا کہ ابھی تم میں کس قدر کمزور ی ہے ۔
قول باری ہے (الذین امنوایقاتلون فی سبیل اللہ ، جو لوگ صاحب ایمان ہیں وہ اللہ کے راستے میں قتال کرتے ہیں) ایک قول کے مطابق (فی سبیل اللہ ) کے معنی ہیں اللہ کی اطاعت میں کیونکہ یہی اطاعت اللہ کی جنت میں جو اس نے اپنے دوستوں کے لیے تیارکررکھی ہے ثواب کا باعث بنے گی۔ ایک اور قول کے مطابق اس سے مراد اللہ کا دین ہے جو اس نے مقرر کیا ہے ، تاکہ یہ دین انہیں اللہ کے ثواب اور اس کی رحمت تک پہنچادے اس صورت میں عبارت کی ترتیب یوں ہوگی، فی نصرۃ دین اللہ تعالیٰ (اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت میں قتال کرتے ہیں۔- طاغوت کے بارے میں ایک قول ہے کہ یہ شیطان ہے یہ قول حسن اور شعبی کا ہے ، ابوالعالیہ کا قول ہے کہ اس سے مراد کاہن ہے یعنی غیب کی باتیں بتلانے والا، ایک قول ہے کہ اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے سوا پرستش کی جائے۔- قول باری ہے (ان کید الشیطان کان ضعیفا) یقین جانوا کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں) کید اس کوشش اور دوڑ دھوپ کو کہتے ہیں کہ جو صورت حال کو بگاڑنے کے لیے حیلہ سازی کے ذریعے اور نقصان پہنچانے کی غرض سے کی جائے۔- حسن کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (ان کیدالشیطان کان ضعیفا) اس لیے فرمایا کہ شیطان نے ان کافروں سے کہا تھا کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں یہ غالب آئیں گے اس لیے یہ کمزور نصرت کے مقابلے میں اپنے دوستوں کے لیے اس کی نصرت بہت کمزور ہوتی ہے۔
(٧٦) صحابہ کرام راہ اللہ میں جہاد کرتے ہیں اور ابوسفیان اور اس کے ساتھی شیطان کی اطاعت وپیروی میں لڑتے ہیں، لہذا شیطانی لشکر سے خوب خوب جہاد کرو، کیوں کہ شیطان تدابیر ذلت ورسوائی کی وجہ سے بیہودہ اور ناکام ہوتی ہیں، چناچہ بدر کے دن وہ ذلیل ورسوا ہوئے۔
آیت ٧٦ (اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ج ) - (وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ ) - جنگ تو وہ بھی کر رہے ہیں ‘ جانیں وہ بھی دے رہے ہیں۔ ابوجہل بھی تو لشکر لے کر آیا تھا۔ ان کی ساری جدوجہد طاغوت کی راہ میں ہے۔ - (فَقَاتِلُوْآ اَوْلِیَآء الشَّیْطٰنِ ج) - تم شیطان کے حمایتیوں سے ‘ حزب الشیطان سے قتال کرو۔- (اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفًا )- شیطان کی چال بظاہر بڑی زوردار بڑی بارعب دکھائی دیتی ہے ‘ لیکن جب مرد مؤمن اس کے مقابل کھڑے ہوجائیں تو پھر معلوم ہوجاتا ہے کہ بڑی بودی اور پھسپھسی چال ہے۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :105 یہ اللہ کا دو ٹوک فیصلہ ہے ۔ اللہ کی راہ میں اس غرض کے لیے لڑنا کہ زمین پر اللہ کا دین قائم ہو ، یہ اہل ایمان کا کام ہے اور جو واقعی مومن ہے وہ اس کام سے کبھی باز نہ رہے گا ۔ اور طاغوت کی راہ میں اس غرض کے لیے لڑنا کہ خدا کی زمین پر خدا کے باغیوں کا راج ہو ، یہ کافروں کا کام ہے اور کوئی ایمان رکھنے والا آدمی یہ کام نہیں کر سکتا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :106 یعنی بظاہر شیطان اور اس کے ساتھی بڑی تیاریوں سے اٹھتے ہیں اور بڑی زبردست چالیں چلتے ہیں ، لیکن اہل ایمان کو نہ ان کی تیاریوں سے خوف زدہ ہونا چاہیے اور نہ ان کی چالوں سے ۔ آخر کار ان کا انجام ناکامی ہے ۔