Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اولین درس صبر و ضبط واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ ابتدائے اسلام میں جب مکہ شریف میں تھے کمزور تھے حرمت والے شہر میں تھے کفار کا غلبہ تھا یہ انہی کے شہر میں تھے وہ بکثرت تھے جنگی اسباب میں ہر طرح فوقیت رکھتے ہیں ، اس لئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد و قتال کا حکم نہیں دیا تھا ، بلکہ ان سے فرمایا تھا کہ کافروں کی ایذائیں سہتے چلے جائیں ان کی مخالفت برداشت کریں ، ان کے ظلم و ستم برداشت کریں ، جو احکام اللہ نازل ہو چکے ہیں ان پر عامل رہیں نماز ادا کرتے رہیں زکوٰۃ دیتے رہا کریں ، گو ان میں عموماً مال کی زیادتی بھی نہ تھی لیکن تاہم مسکینوں اور محتاجوں کے کام آنے کا اور ان کی ہمدردی کرنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا مصلحت الٰہی کا تقاضہ یہ تھا کہ سردست یہ کفار سے نہ لڑیں بلکہ صبر و ضبط سے کام لیں ادھر کافی بڑی دلیری سے ان پر ستم کے پہاڑ توڑ رہے تھے ہر چھوٹے بڑے کو سخت سے سخت سزائیں دے رہے تھے ، مسلمانوں کا ناک میں دم کر رکھا تھا اس لئے ان کے دل میں رہ رہ کر جوش اٹھتا تھا اور زبان سے الفاظ نکل جاتے تھے کہ اس روز مرہ کی مصیبتوں سے تو یہی بہتر ہے کہ ایک مرتبہ دل کی بھڑاس نکل جائے ، دو دو ہاتھ میدان میں ہو لیں کاش کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جہاں کا حکم دے دے ، لیکن اب تک حکم نہیں ملا تھا ، جب انہیں ہجرت کی اجازت ملی اور مسلمان اپنی زمین ، زر ، رشتہ ، کنبے ، اللہ عزوجل کے نام پر قربان کر کے اپنا دین لے کر مکہ سے ہجرت کر کے مدینے پہنچے یہاں انہیں اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی سہولت دی امن کی جگہ دی امداد کے لئے انصار مدینہ دئیے ، تعداد میں کثرت ہو گئی قوت و طاقت قدر بڑھ گئی تو اب اللہ حاکم مطلق کی طرف سے اجازت ملی کہ اپنے لڑنے والوں سے لڑو ، جہاد کا حکم اترتے ہی بعض لوگ سٹ پٹائے ، خوف زدہ ہوئے جہاد کا تصور کر کے میدان میں قتل کئے جانے کا تصور عورتوں کے رنڈاپے کا خیال ، بچوں کی یتیمی کا منظر آنکھوں کے سامنے آگیا گھبراہٹ میں کہہ اٹھے کہ اے اللہ ابھی سے جہاد کیوں فرض کر دیا کچھ تو مہلت دی ہوتی ۔ اسی مضمون کو دوسری آیتوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ ( وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُوْرَةٌ ۚ فَاِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَّذُكِرَ فِيْهَا الْقِتَالُ ) 47 ۔ محمد:20 ) مختصر مطلب یہ ہے کہ ایماندار کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی جاتی جب کوئی سورت اتاری جاتی ہے اور اس میں جہاد کا ذکر ہوتا ہے تو بیمار دل لوگ چیخ اٹھتے ہیں ٹیڑھے تیوروں سے تجھے گھورتے ہیں اور موت کی غشی والوں کی طرح اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہی ان پر افسوس ہے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھی مکہ شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں اے نبی اللہ ہم کفر کی حالت میں منع کرتے ہیں جن سے کفار کی جرأت بڑھ گئی ہے ۔ اور وہ ہمیں ذلیل کرنے لگے ہیں تو آپ ہمیں مقابلہ کی اجازت کیوں نہیں دیتے؟ ) لیکن آپ نے جواب دیا مجھے اللہ کا حکم یہی ہے کہ ہم درگزر کریں کافروں سے جنگ نہ کریں ۔ پھر جب مدینہ کی طرف ہجرت ہوئی اور جہاد کے احکام نازل ہوئے تو لوگ ہچکچانے لگے اس پر یہ آیت اتری ( نسائی حاکم ابن مردویہ ) سدی فرماتے ہیں صرف صلوۃ و زکوٰۃ کا حکم ہی تھا تو تمنائیں کرتے تھے کہ جہاد فرض ہو جب فریضہ جہاد نازل ہوا تو کمزور دل لوگ انسانوں سے ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرنا چاہیے بلکہ اس سے بھی زیادہ کہنے لگے اے رب تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کیا کیوں ہمیں اپنی موت کے صحیح وقت تک فائدہ نہ اٹھانے دیا ۔ انہیں جواب ملتا ہے کہ دنیوی نفع بالکل ناپائیدار اور بہت ہی کم ہے ہاں متقیوں کے لئے آخرت دنیا سے بہتر اور پاکیزہ تر ہے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ آیت یہودیوں کے بارے میں اتری ہے ، جواباً کہا گیا کہ پرہیزگاروں کا انجام آغاز سے بہت ہی اچھا ہے ۔ تمہیں تمہارے اعمال پورے پورے دیئے جائیں گے کامل اجر ملے گا ایک بھی نیک عمل غارت نہ کیا جائے گا ناممکن ہے کہ ایک بال برابر ظلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی پر کیا جائے ۔ اس جملے میں انہیں دنیا سے بےرغبتی دلائی جا رہی ہے آخرت کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے جہاد کی رغبت دی جا رہی ہے ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں اللہ اس بندے پر رحم کرے جو دنیا کے ساتھ ایسا ہی رہے ساری دنیا اول سے آخرت تک اس طرح ہے جیسے کوئی سویا ہوا شخص اپنے خواب میں اپنی پسندیدہ چیز کو دیکھے لیکن آنکھ کھلتے ہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کچھ نہ تھا ۔ حضرت ابو مصہر کا یہ کلام کتنا پیارا ہے ولا خیر فی الدنیا لمن لم یکن لہ من اللہ فی دار المقام نصیب فان تعجب الدنیا رجالا فانھا متاع قلیل والزوال قریب یعنی اس شخص کے لئے دنیا بھلائی سے یکسر خالی ہے جسے کل آخرت کا کوئی حصہ ملنے والا نہیں ۔ گو دنیا کو دیکھ دیکھ کر بعض لوگ ریجھ رہے ہیں لیکن دراصل یہ یونہی سا فائدہ ہے اور وہ بھی جلد فنا ہو جانے والا ۔ پھر ارشاد باری ہے کہ آخرش موت کا مزا ہر ایک چکھنا ہی ہے کوئی ذریعہ کسی کو اس سے بچا نہیں سکتا ، جسے فرمان ہے ( كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ) 55 ۔ الرحمن:26 ) جتنے یہاں ہیں سب فانی ہیں ، اور جگہ ارشاد ہے ( كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ) 3 ۔ آل عمران:185 ) ہر ہر جاندار مرنے والا ہے فرماتا ہے ( وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ) 21 ۔ الانبیآء:34 ) تجھ سے اگلے لوگوں میں سے بھی کسی کے لئے ہم نے ہمیشہ کی زندگی مقرر نہیں کی ۔ مقصد یہ ہے کہ خواہ جہاد کر لے یا نہ کرے ذات اللہ کے سوا موت کا مزا تو ایک نہ ایک روز ہر کسی کو چکھنا ہی پڑے گا ۔ ہر ایک کا ایک وقت مقرر ہے اور ہر ایک کی موت کی جگہ معین ہے ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس قوت جبکہ آپ بستر مرگ پر ہیں فرماتے ہیں اللہ کی قسم فلاں جگہ فلاں جگہ غرض بیسیوں لڑائیوں میں سینکڑوں معرکوں میں گیا ثابت قدمی پامردی کے ساتھ دلیرانہ جہاد کئے آؤ دیکھ لو میرے جسم کا کوئی عضو ایسا نہ پاؤ گے جہاں کوئی نہ کوئی نشان نیزے یا برچھے یا تیر یا بھالے کا تلوار اور ہتھیار کا نہ ہو لیکن چونکہ میدان جنگ میں موت نہ لکھی تھی اب دیکھو اپنے بسترے پر اپنی موت کے پنجے سے بلند و بالا مضبوط اور مضبوظ قلعے اور محل بھی بچا نہیں سکتے ۔ بعض نے کہا مراد اس سے آسمان کے برج ہیں ، لیکن یہ قول ضعیف ہے صحیح یہی ہے کہ مراد محفوظ مقامات ہیں یعنی کتنی ہی حفاظت موت سے کی جائے ۔ لیکن وہ اپنے وقت سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتی زہیر کا شعر ہے کہ موت سے بھاگنے والا گو زینہ لگا کر اسباب آسمانی بھی جمع کر لے تو بھی اسے کوئی نفع نہیں پہنچ سکتا ، ایک قول ہے مشیدہ بہ تشدید مشید بغیر تشدید ایک ہی معنی میں ہیں اور بعض ان دونوں میں فرق کے قائل ہیں کہتے ہیں کہ اول کا معنی مطول دوسرے کا معنی مزین یعنی چونے سے ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں اس موقعہ پر ایک مطول قصہ بزبان حضرت مجاہد مروی ہے کہ اگلے زمانے میں ایک عورت حاملہ تھی جب اسے درد ہونے لگے اور بچی تولد ہوئی تو اس نے اپنے ملازم سے کہا کہ جاؤ کہیں سے آگ لے آؤ وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ دروازے پر ایک شخص کھڑا ہے پوچھتا ہے کہ کیا ہوا لڑکی یا لڑکا ؟ اس نے کہا لڑکی ہوئی ہے کہا سن یہ لڑکی ایک سو آدمیوں سے زنا کرائے گی پھر اس کے ہاں اب جو شخص ملازم ہے اسی سے اس کا نکاح ہوگا اور ایک مکڑی اس کی موت کا باعث بنے گی ۔ یہ شخص یہیں سے پلٹ آیا اور آتے ہی ایک تیز چھری لے کر اس لڑکی کے پیٹ کو چیر ڈالا اور اسے مردہ سمجھ کر وہاں سے بھاگ نکلا اس کی ماں نے یہ حال دیکھ کر اپنی بچی کے پیٹ کو ٹانکے دئیے اور علاج معالجہ شروع کیا جس سے اس کا زخم بھر گیا اب ایک زمانہ گزر گیا ادھر یہ لڑکی بلوغت کو پہنچ گئی اور تھی بھی اچھی شکل و صورت کی بدچلنی میں پڑگئی ادھر ملازم سمندر کے راستے کہیں چلا گیا کام کاج شروع کیا اور بہت رقم پیدا کی کل مال سمیٹ کر بہت مدت بعد یہ پھر اسی اپنے گاؤں میں آ گیا ایک بڑھیا عورت کو بلا کر کہا کہ میں نکاح کرنا چاہتا ہوں گاؤں میں جو بہت خوبصورت عورت ہو اس سے میرا نکاح کرا دو ، یہ عورت گئی اور چونکہ شہر بھر میں اس لڑکی سے زیادہ خوش شکل کوئی عورت نہ تھی یہیں پیغام بھیجا ، منظور ہو گیا ، نکاح بھی ہو گیا اور وداع ہو کر یہ اس کے ہاں آ بھی گئی دونوں میاں بیوی میں بہت محبت ہو گئی ، ایک دن ذکر اذکار میں اس عورت نے اس سے پوچھا آپ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں یہاں کیسے آ گئے؟ وغیرہ اس نے اپنا تمام ماجرا بیان کر دیا کہ میں یہاں ایک عورت کے ہاں ملازم تھا اور وہاں سے اس کی لڑکی کے ساتھ یہ حرکت کرکے بھاگ گیا تھا اب اتنے برسوں کے بعد یہاں آیا ہوں تو اس لڑکی نے کہا جس کا پیٹ چیر کر تم بھاگے تھے میں وہی ہوں یہ کہہ کر اپنے اس زخم کا نشان بھی اسے دکھایا تب تو اسے یقین ہو گیا اور کہنے لگا جب تو وہی ہے تو ایک بات تیری نسبت مجھے اور بھی معلوم ہے وہ یہ کہ تو ایک سو آدمیوں سے مجھ سے پہلے مل چکی ہے اس نے کہا ٹھیک ہے یہ کام تو مجھ سے ہوا ہے لیکن گنتی یاد نہیں ۔ اس نے کہاکہ مجھے تیری نسبت ایک اور بات بھی معلوم ہے وہ یہ کہ تیری موت کا سبب ایک مکڑی بنے گی ، خیر چونکہ مجھے تجھ سے بہت زیادہ محبت ہے میں تیرے لئے ایک بلند وبالا پختہ اور اعلیٰ محل تعمیر کرادیتا ہوں اسی میں تو رہ تاکہ وہاں تک ایسے کیڑے مکوڑے پہنچ ہی نہ سکیں چنانچہ ایسا ہی محل تیار ہوا اور یہ وہاں رہنے لگی ، ایک مدت کے بعد ایک روز دونوں میاں بیوی بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک چھت پر ایک مکڑی دکھائی دی اسے دیکھتے ہیں اس شخص نے کہادیکھو آج یہاں مکڑی دکھائی دی عورت بولی اچھا یہ میری جان لیوا ہے ؟ تو میں اس کی جان لوں گی غلاموں کو حکم دیا کہ اسے زندہ پکڑ کر میرے سامنے لاؤ نوکر پکڑ کر لے آئے اس نے زمین پر رکھ کر اپنے پیر کے انگوٹھے سے اسے مل ڈالا اس کی جان نکل گئی لیکن اس میں سے پیپ کا ایک آدھ قطرہ اس کے انگوٹھے کے ناخن اور گوشت کے درمیان اڑ کر چپک گیا اس کا زہر چڑھا پیر سیاہ پڑ گیا اور اسی میں آخر مر گئی ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جب باغی چڑھ دوڑے تو آپ نے امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خیر خواہی اور ان کے اتفاق کی دعا کے بعد دو شعر پڑھے جن کا مطلب بھی یہی ہے کہ موت کو ٹالنے والی کوئی چیز اور کوئی حیلہ کوئی قوت اور کوئی چالاکی نہیں ، حضر کے بادشاہ ساطرون کو کسرفی شاپور ذوالا کناف نے جس طرح قتل کیا وہ واقعہ بھی ہم یہاں لکھتے ہیں ، ابن ہشام میں ہے جب شاہ پور عراق میں تھا تو اس کے علاقہ یر ساطرون نے چڑھائی کی تھی اس کے بدلے میں جب اس نے چڑھائی کی تو یہ قلعہ بند ہو گیا دو سال تک محاصرہ رہا لیکن قلعہ فتح نہ ہو سکا ایک روز ساطرون کی بیٹی نضیرہ اپنے باپ کے قلعہ کا گشت لگا رہی تھی اچانک اس کی نظر شاہ پور پر پڑھ گئی یہ اس وقت شاہانہ پر تکلف ریشمی لباس میں تاج شاہی سر پر رکھے ہوئے تھا نضیرہ کے دل میں آیا کہ اس سے میری شادی ہو جائے تو کیا ہی اچھا ہو؟ چنانچہ اس نے خفیہ پیغام بھیجنے شروع کیے اور وعدہ ہو گیا کہ اگر یہ لڑکی اس قلعہ پر شاہ پور کا قبضہ کرا دے تو شاہ پور اس سے نکاح کر لیگا اس کا باپ ساطرون بڑا شرابی تھا اس کی ساری رات نشہ میں کٹتی تھی اس کی لڑکی نے موقعہ پا کر رات کو اپنے باپ کو نشہ میں مد ہوش دیکھ کر اس کے سرہانے سے قلعہ کے دروازے کی کنجیاں چپکے سے نکال لیں اور اپنے ایک با اعتماد غلام کے ہاتھ ساطرون تک پہنچا دیں جس سے اس نے دروازہ کھول لیا اور شہر میں قتل عام کرایا اور قابض ہو گیا یہ بھی کہا گیا کہ اس قلعہ میں ایک جادو تھا جب تک اس طلسم کو توڑا نہ جائے قلعہ کا فتح ہونا ناممکن تھا اس لڑکی نے اس کے توڑنے کا گر اسے بتا دیا کہ ایک چت کبرا کبوتر لے کر اس کے پاؤں کسی باکرہ کے پہلے حیض کے خون سے رنگ لو پھر اس کبوتر کو چھوڑو وہ جا کر قلعہ کی دیوار پر بیٹھے تو فوراً وہ طلسم ٹوٹ جائے گا اور قلعہ کا پھاٹک کھل جائے گا چنانچہ شاہ پور نے یہی کیا اور قلعہ فتح کر کے ساطرون کو قتل کر ڈالا تمام لوگوں کو تیغ کیا اور تمام شہر کو اجاڑ دیا اور اس لڑکی کو اپنے ہمراہ لے گیا اور اس سے نکاح کر لیا ۔ ایک رات جبکہ لڑکی نضیرہ اپنے بسترے پر لیٹی ہوئی تھی اسنے نیند نہ آ رہی تھی سلملا رہی تھی اور بےچینی سے کروٹیں بدل رہی تھی تو شاہ پور نے پوچھا کیا بات ہے اس نے کہا میرے بستر میں کچھ ہے جس سے مجھے نید نہیں آ رہی ، شمع جلائی گئی بستر ٹٹولا گیا تو گل آس کی ایک بتی نکلی شاہ پور اس نزاکت پر حیران رہ گیا کہ ایک اتنی چھوٹی سی بتی بستر میں ہونے پر اسے نیند نہیں آئی؟ پوچھا تیرے والد کے ہاں تیرے لئے کیا ہوتا تھا ؟ اس نے کہا نرم ریشم کا بسترا تھا صرف باریک نرم ریشمی لباس تھا صرف نلیوں کا گودا کھایا کرتی تھی اور صرف انگوری خالص شراب پیتی تھی ۔ یہ انتظام میرے باپ نے میرے لئے کر رکھا تھا ۔ یہ تھی بھی ایسی کہ اس کی پنڈلی کا گودا تک باہر سے نظر آتا تھا ۔ ان باتوں سے شاہ پور پر ایک اور رنگ چڑھا دیا اور اس نے کہا جس باپ نے تجھے اس طرح پالا پوسا اس کے ساتھ تو نے یہ سلوک کیا کہ میرے ہاتھوں اسے قتل کرایا اس کے مالک کو تاخت و تاراج کرایا پھر مجھے تجھ سے کیا امید رکھنی چاہیے؟ اللہ جانے میرے ساتھ تو کیا کرے؟ اسی وقت حکم دیا کہ اس کے سر کے بال گھوڑے سے باندھ دیئے جائیں اور گھوڑے کو بےلگام چھوڑ دیا جائے ، چنانچہ یہی ہوا گھوڑا بد کا بھاگا اچھلنے کودنے لگا اور اس کی ٹاپوں سے زمین پر پچھاڑیں کھاتے ہوئے اس کے جسم کا چورا چورا ہوگیا ۔ چنانچہ اس واقعہ کو عرب شعراء نے نظم بھی کیا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر انہیں خوش حالی پھلواری اولاد و کھیتی ہاتھ لگے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر قحط سالی پڑے تنگ روزی ہو موت ہونے کا یہ پھل ہے صاحب ایمان بننے کا ، فرعونی بھی اسی طرح برائیوں کو حضرت موسیٰ اور مسلمانوں سے منسوب بد شگونی لیا کرتے تھے جیسے کہ قرآن نے اس کا ذکر کیا ہے ایک آیت میں ہے ( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَيْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِهٖ ۚ وَاِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُۨ انْقَلَبَ عَلٰي وَجْهِهٖ ڗ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةَ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ ) 22 ۔ الحج:11 ) یعنی بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ایک کنارے کھڑے رہ کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں یعنی اگر بھلائی ملی تو باچھیں کھل جاتی ہیں اور اگر برائی پہنچے تو الٹے پیروں پلٹ جاتے ہیں ۔ یہ ہیں جو دونوں جہان میں برباد ہوں گے پس یہاں بھی ان منافقوں کی جو بظاہر مسلمان ہیں اور دل کے کھوٹے ہیں برائی بیان ہو رہی ہے ۔ کہ جہاں کچھ نقصان ہوا اور بہک گئے کہ اسلام لانے کی وجہ سے ہمیں نقصان ہوا ۔ سدی فرماتے ہیں کہ حسنہ سے مراد یہاں بارشوں کا ہونا جانوروں میں زیادتی ہونا بال بچے بہ کثرت ہونا خوشحالی میسر آنا وغیرہ ہے اگر یہ ہوا تو کہتے کہ یہ سب من جانب اللہ ہے اور اگر اس کے خلاف ہو تو اس بےبرکتی کا باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتاتے اور کہتے یہ سب تیری وجہ سے ہے یعنی ہم نے اپنے بڑوں کی راہ چھوڑ دی اور اس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تابعداری اختیار کی اس لئے اس مصیبت میں پھنس گئے اور اس بلا میں گرفتار ہوئے پس پروردگار ان کے ناپاک قول اور اس پلید عقیدے کی تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے ، اس کی قضا و قدر ہر بھلے برے فاسق فاجر نیک بد مومن کافر پر جاری ہے ، بھلائی برائی سب اس کی طرف سے ہے پھر ان کے اس قول کی جو محض شک و شبہ کم علمی بےوقوفی جہالت اور ظلم کی بنا پر ہے تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ انہیں کیا ہو گیا ہے؟ بات سمجھنے کی قابلیت بھی ان سے جاتی رہی ۔ ایک غریب حدیث جو ( آیت کل من عند اللہ ) کے متعلق ہے اسے بھی سنئے بزار میں ہے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے کہ کچھ لوگوں کے ہمراہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے ان دونوں کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب آ کر دونوں صاحب بیٹھ گئے توحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت کیا کہ بلند آواز گفتگو کیا ہو رہی تھی؟ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو کہہ رہے تھے ؟ حضرت عمر نے کہا میں کہہ رہا تھا کہ دونوں باتیں اللہ جل شانہ کی طرف سے ہیں آپ نے فرمایا یہی بحث اول اول حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل وہی کہتے تھے جو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم کہ رہے ہو ۔ پس آسمان والوں میں جب اختلاف ہوا تو زمین والوں میں تو ہونا لازمی تھا ، آخر حضرت اسرافیل کی طرف فیصلہ گیا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ حسنات اور سیات دونوں اللہ مختار کل کی طرف سے ہیں ، پھر آپ نے دونوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا میرا فیصلہ سنو اور یاد رکھو اگر اللہ تعالیٰ اپنی نافرمانی کے عمل کو نہ چاہتا تو ابلیس کو پیدا ہی نہ کرتا ، لیکن شیخ الاسلام امام تقی الدین ابو العباس حضرت ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ حدیث موضوع ہے اور تمام ان محدثین کا جو حدیث کی پرکھ رکھتے ہیں اتفاق ہے کہ یہ روایت گھڑی ہوئی ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب فرماتے ہیں جس سے مراد عموم ہے یعنی سب سے ہی خطاب ہے کہ تمہیں جو بھلائی پہنچتی ہے وہ اللہ کا فضل لطف رحمت اور جو برائی پہنچتی ہے وہ خود تمہاری طرف سے تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے ، جیسے اور آیت میں ہے ( وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ ) 42 ۔ الشوری:30 ) یعنی جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے ۔ وہ تمہارے بعض اعمال کی وجہ سے اور بھی تو اللہ تعالیٰ بہت سی بد اعمالیوں سے دو گزر فرماتا رہتا ہے ( مَآ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ۡ وَمَآ اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ ۭوَاَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا ۭ وَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًا ) 4 ۔ النسآء:79 ) میں فَمِنْ نَّفْسِكَ سے مراد بسبب گناہ ہے یعنی شامت اعمال آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص کا ذرا سا جسم کسی لکڑی سے جل جائے یا اس کا قدم پھسل جائے یا اسے ذرا سی محنت کرنی پڑے جس سے پسینہ آ جائے تو وہ بھی کسی نہ کسی گناہ پر ہوتا ہے اور ابھی تک تو اللہ تعالیٰ جن گناہوں سے چشم پوشی فرماتا ہے جنہیں معاف کر دیتا ہے وہ بہت سارے ہیں ، اس مرسل حدیث کا مضمون ایک متصل حدیث میں بھی ہے حضور فرماتے ہیں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ایمان دار کو رنج یا جو بھی تکلیف و مشقت پہنچتی ہے یہاں تک کہ جو کانٹا بھی لگتا ہے اسے اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کا کفارہ بنا دیتا ہے ، ابو صالح فرماتے ہیں مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ جو برائی تجھے پہنچتی ہے اس کا باعث تیرا گناہ ہے ہاں اسے مقدر کرنے والا اللہ تعالیٰ آپ ہے ، حضرت مطرف بن عبداللہ فرماتے ہیں تم تقدیر کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ کیا تمہیں سورہ نساء کی یہ آیت کافی نہیں ، پھر اس آیت کو پڑھ کر فرماتے ہیں اللہ سبحانہ کی قسم لوگ اللہ سبحانہ کی طرف سونپ نہیں دئیے گئے انہیں حکم دیئے گئے ہیں اور اسی کی طرف وہ لوٹتے ہیں یہ قول بہت قوی اور مضبوط ہے قدریہ اور جبریہ کی پوری تردید کرتا ہے ، تفسیر اس بحث کا موضوع نہیں ، پھر فرماتا ہے کہ تیرا کام اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شریعت کی تبلیغ کرنا ہے اس کی رضامندی اور ناراضگی کے کام کو اس کے احکام اور اس کی ممانعت کو لوگوں تک پہنچا دینا ہے ، اللہ کی گواہی کافی ہے کہ اس نے تجھے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنا کر بھیجا ہے ، اسی طرح کی گواہی اس امر پر بھی کافی ہے کہ تو نے تبلیغ کر دی تیرے ان کے درمیان جو ہو رہا ہے کہ اسے بھی وہ مشاہدہ کر رہا ہے یہ جس طرح کفار عناد اور تکبر تیرے ساتھ برتتے ہیں اسے بھی وہ دیکھ رہا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

77۔ 1 مکہ میں مسلمان چونکہ تعداد اور وسائل کے اعتبار سے لڑنے کے قابل نہیں تھے اس لئے مسلمانوں کی خواہش کے باوجود انہیں قتال سے روکے رکھا گیا اور دو باتوں کی تاکید کی جاتی رہی، ایک یہ کہ کافروں کے ظالمانہ رویے کو صبر اور حوصلے سے برداشت کریں اور عفو و درگزر سے کام لیں۔ دوسرے یہ کہ نماز، زکوٰۃ اور دیگر عبادات وتعلیمات پر عمل کا اہتمام کریں تاکہ اللہ تعالیٰ سے ربط وتعلق مضبوط بنیادوں پر استوار ہوجائے۔ لیکن ہجرت کے بعد جب مدینہ میں مسمانوں کی طاقت مجتمع ہوگئی تو پھر انہیں قتال کی اجازت دے دی گئی اور جب اجازت دے دی گئی تو بعض لوگوں نے کمزوری اور پست ہمتی کا اظہار کیا۔ اس پر آیت میں مکی دور کی ان کی آرزو یاد دلا کر کہا جا رہا ہے کہ اب یہ مسلمان حکم جہاد سن کر خوف زدہ کیوں ہو رہے ہیں جب کہ یہ حکم جہاد خود ان کی اپنی خوہش کے مطاپق ہے۔ آیات قرآن میں تحریف : آیت کا پہلا حصہ جس میں کف ایدی (لڑائی سے ہاتھ روکے رکھنے) کا حکم ہے۔ 77۔ 2 اس کا دوسرا ترجمہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ اس حکم کو کچھ اور مدت کے لئے مؤخر کیوں نہ کردیا یعنی اجلٍ قَریبٍ سے مراد موت یا فرض جہاد کی مدت ہے (ابن کثیر) ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٦] مکہ میں جہاد پر بندش :۔ مکہ میں مسلمانوں پر قریش مکہ نے جو ظلم و ستم ڈھائے تھے ان کا نشانہ صرف غلام مسلمان ہی نہ تھے، بلکہ آزاد اور معزز قسم کے مسلمانوں کا بھی ان لوگوں نے طرح طرح سے عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ حتیٰ کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان لوگوں کے ہاتھوں متعدد بار ایذائیں پہنچیں۔ اس وقت بعض جرأت مند مسلمانوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان لوگوں کے ساتھ جنگ کی اجازت چاہی، تو آپ نے فرمایا کہ ابھی مجھے جنگ کی اجازت نہیں دی گئی۔ لہذا تم بھی ان مصائب کو صبر سے برداشت کیے جاؤ اور اپنی تمام تر توجہ نماز کے قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی پر صرف کرو۔ چناچہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف (رض) جو السابقون الاولون میں سے تھے انہی لوگوں میں سے تھے جو جنگ کی اجازت چاہ رہے تھے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے :- سیدنا ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف (رض) اور ان کے ساتھی مکہ میں نبی اکرم کے پاس آئے اور کہا اللہ کے رسول ہم عزت والے تھے جبکہ ہم مشرک تھے پھر جب ایمان لائے تو ذلیل ہوگئے آپ نے فرمایا ( ابھی) مجھے درگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے لہذا جنگ نہ کرو۔ پھر جب اللہ نے ہمیں مدینہ منتقل کردیا تو ہمیں جنگ کا حکم دیا گیا اور بعض لوگ جنگ سے رک گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (نسائی۔ کتاب الجہاد، باب وجوب الجہاد)- یہاں چند امور کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ سورة نساء مدنی دور میں غزوہ احد اور غزوہ احزاب کے درمیانی عرصہ میں نازل ہوئی تھی اور اس آیت کے الفاظ (قِيْلَ لَھُمْ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ 77؀) 4 ۔ النسآء :77) سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مکی دور میں مسلمانوں کو ہاتھ اٹھانے سے روک دیا گیا تھا۔ حالانکہ قرآن کی مکی سورتوں میں ایسا کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ اب دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی خفی کوئی ایسا حکم ملا ہو جس کی بعد میں مدنی دور میں اس آیت کے ذریعہ توثیق کردی گئی۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ یہ آپ کا ذاتی اجتہاد ہو کہ اس انقلابی تحریک کے آغاز میں مسلمانوں کو قطعاً ہاتھ نہ اٹھانا چاہئے۔ آپ کے اس اجتہاد پر چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نکیر وارد نہیں ہوئی لہذا یہ اجتہاد وحی تقریری کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ وحی تمام تر قرآن میں محصور ہے اور وحی خفی یا وحی تقریری کی کچھ حیثیت نہیں سمجھتے۔ اور دوسرے یہ بھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات بھی ویسے ہی واجب الاتباع ہیں جیسے قرآن کے احکام۔ - مکی دور میں ہاتھ نہ اٹھانے یا عدم تشدد کے فوائد :۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس تیرہ سالہ طویل دور میں، جبکہ مسلمانوں پر کفار انتہائی شدید قسم کے مظالم ڈھا رہے تھے مسلمانوں کو ہاتھ اٹھانے یا مدافعت کرنے سے کیوں روک دیا گیا تھا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام ایک انقلابی تحریک ہے۔ عرب کے تمام تر معاشرتی، سیاسی اور تمدنی نظام کی بنیاد بت پرستی پر قائم تھی۔ اور اسلام نے اسی بت پرستی کے خلاف ہی سب سے پہلے آواز بلند کی۔ تو اس باطل نظام میں جو لوگ معاشی، تمدنی یا سیاسی فائدے اٹھا رہے تھے وہ سب اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے دشمن بن گئے۔ اور ان پر سختیاں شروع کردیں۔ اس مرحلہ پر مسلمانوں کو تاکیدی حکم یہ دیا گیا کہ اپنی مدافعت میں ہاتھ تک نہ اٹھائیں بلکہ جیسے بھی ظلم و ستم ان پر ہو رہے ہیں وہ برداشت کرتے جائیں۔ اس عدم تشدد کے حکم یا پالیسی سے تین قسم کے فوائد حاصل ہوئے۔ پہلا یہ کہ اگر مسلمان اس مرحلہ پر مقابلہ شروع کردیتے تو مشرکین کو جو قوت، قدرت میں مسلمانوں سے بدرجہا بڑھ کر تھے اس تحریک کو شدت کے ساتھ کچل دینے کا اخلاقی جواز ہاتھ آجاتا۔ اس عدم تشدد کی پالیسی کی وجہ سے تبلیغ کا کام جاری رہا اور یہ اسی صورت میں ممکن تھا۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کو مصائب برداشت کرنے اور قائد تحریک نبی اکرم کا ہر حال میں حکم ماننے کی تربیت دی جارہی تھی۔ اور تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ غیر جانبدار قسم کے لوگوں کی خاموش اکثریت کی ہمدردیاں مسلمانوں سے وابستہ ہوگئیں۔ کیونکہ ہر انسان ناروا ظلم سے طبعاً نفرت کرتا ہے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ گھبرائے ہوئے گھر آئے تو سیدہ خدیجہ آپ کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے ہاں لے گئیں جنہوں نے تمام ماجرا سن کر کہا : کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکال دے گی ورقہ کی یہ بات سن کر آپ کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جو قوم آج تک مجھے اپنی آنکھوں کا تارا سمجھتی ہے وہ کل کو مجھے مکہ سے نکال دے گی ؟ چناچہ آپ نے نہایت تعجب سے ورقہ سے یہی سوال کیا تو اس نے کہا کہ جو نبی بھی ایسی دعوت لے کر آیا، اس کی قوم نے اس سے ایسا ہی سلوک کیا، (بخاری۔ کتاب الوحی)- ورقہ کی اس اطلاع کا آپ پر یہ اثر ہوا کہ آپ نے اپنی دعوت کو ناکامی سے بچانے کی خاطر اپنی دعوت کا آغاز نہایت خفیہ طریق سے اور اپنے گھر سے کیا اور گھر کے درج ذیل افراد فوراً آپ پر ایمان لے آئے :- (١) آغازوحی کے وقت اسلام لانے والے :۔ آپ کی جان نثار بیوی سیدہ خدیجۃ جن کی عمر اس وقت ٥٥ سال تھی۔- (٢) آپ کے غلام زید بن حارثہ جو فی الحقیقت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ کے غلام تھے۔ لیکن انہوں نے اسے آپ کو دے دیا تھا۔- (٣) سیدنا علی (رض) بن ابی طالب جو آپ کے چچا ابو طالب کے بیٹے تھے۔ آپ کے زیر کفالت اور آپ ہی کے گھر میں رہتے تھے۔ اس وقت ان کی عمر ایک روایت کے مطابق ٨ سال اور دوسری کے مطابق ١٠ سال تھی۔ بہرحال اس وقت وہ ایسا شعور ضرور رکھتے تھے۔- آپ کی اولاد میں سے ایسا کوئی بھی نہ تھا جو اس وقت آپ پر ایمان لاتا۔ آپ کی پہلونٹی کی بیٹی سیدہ زینب (رض) تھیں جن کا نکاح ابو العاص بن ربیع سے ہوچکا تھا۔ سیدہ زینب تو بعد میں جلد ہی ایمان لے آئیں مگر ابو العاص فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تاہم ابو العاص کے سیدہ زینب اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے اور اپنے داماد سے خوش رہے۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب ذکر اصہار النبی)- دوسرے نمبر پر آپ کے بیٹے سیدنا قاسم تھے۔ اسی نام کی بنا پر آپ کی کنیت ابو القاسم تھی۔ یہ بعثت سے پہلے وفات پاچکے تھے۔ تیسرے نمبر پر آپ کی بیٹی رقیہ تھیں۔ بعثت نبوی کے وقت ان کی عمر صرف چھ سات برس تھی۔ بعد میں ان کا نکاح سیدنا عثمان (رض) سے ہوا اور جس دن مسلمانوں کو مدینہ میں فتح بدر کی خوشخبری ملی اسی دن آپ نے وفات پائی۔ چوتھے نمبر پر ام کلثوم تھیں۔ سیدہ رقیہ کی وفات کے بعد ان کا سیدنا عثمان (رض) سے نکاح ہوا۔ پانچویں نمبر پر آپ کے بیٹے عبداللہ تھے جنہیں طیب اور طاہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سن بلوغ کو پہنچنے سے قبل ہی فوت ہوگئے۔ چھٹے نمبر پر آپ کی سب سے چھوٹی بیٹی سیدہ فاطمہ تھیں جن کی عمر اس وقت صرف ایک سال تھی۔ پندرہ برس کی عمر میں آپ کا سیدنا علی (رض) سے نکاح ہوا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے وقت آپ کی اولاد میں سے صرف یہی زندہ تھیں۔ چھ ماہ بعد یہ بھی فوت ہوگئیں۔- گھر کے باہر کے لوگوں میں سے سب سے پہلے سیدنا ابوبکر (رض) ایمان لائے۔ آپ ماہر انساب، صاحب الرائے، دولت مند اور فیاض انسان تھے۔ آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دلی دوست، آپ کے اخلاق سے متاثر اور بعثت نبوی سے پہلے ہی شرکیہ اعمال و عقائد سے متنفر تھے۔ مکہ میں آپ کا خاصا اثر و رسوخ تھا۔ آپ ہی کی درپردہ کوششوں سے سیدنا عثمان بن عفان (رض) عبدالرحمن بن عوف (رض) ، سعد بن ابی وقاص (رض) زبیر بن العوام (رض) اور طلحہ (رض) ایمان لائے۔ پھر ان سب حضرات کی مشترکہ کوششوں اور رازدارانہ تبلیغ سے درج ذیل حضرات ایمان لائے :- سیدنا عمار بن یاسر (رض) ۔ پھر ان کی تبلیغ سے ان کے والد یاسر (رض) اور والدہ سمیہ (رض) بھی اسلام لے آئے یہ لوگ ابو جہل کے قبیلہ بنو مخزوم کے غلام تھے۔ سیدنا بلال بن رباح (رض) جو امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سفارش پر سیدنا ابوبکر (رض) نے خرید کر آزاد کردیا۔ سیدنا خباب (رض) بن ارت، سیدنا ارقم، سیدنا سعید (رض) بن زید (سیدنا عمر (رض) کے بہنوئی) عبداللہ بن مسعود (رض) ، عثمان بن مظعون (رض) ، ابو عبیدہ بن جراح (رض) ، صہیب رومی (رض) ہیں۔- خفیہ تبلیغ کے تین سال :۔ ابتدائی تین سال تبلیغ یونہی سینہ بہ سینہ ہوتی رہی حتیٰ کہ مسلمانوں کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی۔ یہ اصحاب عبادت بھی چھپ چھپا کر کرتے تھے اور دارارقم کو مرکز بنا لیا گیا تھا۔ اسی دور میں قائد تحریک حضور اکرم کو کفار نے اپنی طنز، تشنیع اور تضحیک کا نشانہ بنایا تھا۔ کبھی وہ آپ کو کاہن کہتے، کبھی شاعر، کبھی دیوانہ، کبھی اللہ کی آیات کا تمسخر اڑاتے اور کبھی آنکھوں ہی آنکھوں میں آپ کو مرعوب بنا کر آپ کے عزم اور ہمت کو شکست دینا چاہتے تھے۔ اس دور میں مشرکین مکہ کا مسلمانوں پر دباؤ کتنا تھا اور کسی کا اسلام لانا کس قدر کٹھن اور جان جوکھوں کا کام تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے جسے سیدنا ابو ذرغفاری (رض) نے اپنے اسلام لانے سے متعلق خود بیان کیا ہے اور جسے ہم نے صحیح بخاری سے سورة انفال کے حاشیہ نمبر ٢٦ میں درج کیا ہے۔- ایسا ہی ایک واقعہ صحیح مسلم میں مذکور ہے۔ سیدنا عمرو بن عبسہ (رض) نے بھی انہی ایام میں اسلام قبول کیا تھا۔ عمرو ایام جاہلیت میں ہی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ تمام لوگ مشرک اور گمراہ ہیں۔ جب انہوں نے سنا کہ مکہ میں ایک شخص آسمانی خبریں بیان کرتا ہے تو فوراً سوار ہو کر آپ کی خدمت میں پہنچے اور فوراً اسلام لے آئے۔ آپ نے انہیں ضروری احکام کی تعلیم دی اور مشورہ دیا کہ فی الحال اپنے وطن واپس چلے جاؤ اور جب تم سنو کہ اسلام کو غلبہ ہوگیا ہے تو پھر تم میرے پاس چلے آنا۔ (مسلم۔ کتاب الصلٰوۃ۔ باب الاسلام عمرو بن عبسہ) اور یہ وہی مشورہ تھا جو اس سے پہلے آپ نے سیدنا ابوذر غفاری (رض) کو بھی دیا تھا اور یہ مشورہ آپ ان نو مسلموں سے ہمدردی کی خاطر دیتے تھے مکہ میں تو یہ حال تھا کہ جس شخص کے متعلق پتہ چل جاتا کہ وہ مسلمان ہوگیا ہے، اس کی شامت آجاتی تھی۔ پھر ان سب مسلمانوں کو جتنا دکھ پہنچتا تھا، اکیلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اتنا دکھ پہنچ جاتا تھا۔ کیونکہ آپ رحمۃ للعالمین تھے اور دردمند دل رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں معاشی مسئلہ بھی پیدا ہوجاتا تھا جس کے حل کرنے پر اس وقت مسلمان کچھ قدرت نہ رکھتے تھے۔- نبوت کے پہلے تین سال تبلیغ کا یہی انداز رہا پھر جب ( وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ٢١٤؀ۙ ) 26 ۔ الشعراء :214) اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ کا فرمان باری نازل ہوا تو آپ نے یکے بعد دیگرے تین بار اپنے قبیلہ والوں کو اکٹھا کیا اور ان پر اسلام پیش کیا۔ مگر ہر بار ابو لہب ہی آڑے آتا اور مخالفت میں پیش پیش رہتا تھا جس کا تفصیلی ذکر اسی مندرجہ آیت کے تحت اور سورة لہب میں آئے گا اس کے بعد اب پہلا سا خفیہ طریقہ تبلیغ نہ رہا اور مشرکین کو کسی نہ کسی حد تک یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ کون کون شخص اسلام لا چکا ہے۔ لہذا انہوں نے اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو سختی سے کچل ڈالنے کے مشن کو پہلے سے تیز تر کردیا۔ جو منصوبے پیغمبر اسلام کو ختم کرنے کے لئے بنائے گئے اور سازشیں کی گئیں ان کا ذکر تو (وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ 67؀) 5 ۔ المآئدہ :67) کے تحت سورة مائدہ کے حاشیہ نمبر ١١٣ میں آئے گا۔ یہاں ہم صرف ان مظالم کا اجمالاً ذکر کریں گے جو اس دور میں مسلمانوں پر ڈھائے گئے۔- عرب معاشرہ میں غلاموں کا طبقہ بھی معاشرہ کا ایک معتدبہ حصہ تھا۔ جنہیں انسان سمجھا ہی نہیں جاتا تھا۔ مالک اپنے غلام پر جتنا بھی ظلم روا رکھے، حتیٰ کہ جان سے بھی مار ڈالے تو اسے کوئی پوچھنے والا نہ تھا بلکہ آزاد معاشرہ کو اسی کی تائید و حمایت حاصل تھی اور غلاموں میں اپنے مالک کے سامنے نہ چوں و چرا کرنے کی ہمت تھی اور نہ بھاگ جانے کی۔ لہذا زیادہ تشدد کا یہی طبقہ شکار ہوا۔- ابو جہل کے آل یاسر پر مظالم :۔ ابو جہل کا مسلمانوں پر جبر و ستم ڈھانے کا طریقہ کار یہ تھا کہ اگر اسلام لانے والا کوئی آزاد، معزز اور طاقتور آدمی ہوتا تو اسے برا بھلا کہنے، ذلیل و رسوا کرنے اور اس کے مال و جاہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا اور عرب کے قبائلی نظام میں وہ اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہ سکتا تھا۔ اور اگر اسلام لانے والا کوئی غلام یا کمزور آدمی ہوتا تو اسے خود بھی مارتا اور دوسروں کو بھی ایذا رسانی پر اکساتا رہتا۔ اور اس معاملہ میں نہایت سنگدل واقع ہوا تھا۔ آل یاسر یعنی سیدنا عمار (رض) ، ان کے والد یاسر اور والدہ سمیہ اسلام لاچکے تھے۔ یہ قبیلہ بنومخزوم (یعنی ابو جہل کے اپنے قبیلے کے) غلام تھے۔ ان پر ابو جہل نے خوب مشق ظلم و ستم کی اور اس قدر مظالم ڈھائے کہ یاسر ان کی تاب نہ لا کر راہی ملک عدم ہوئے۔ ان کی بیوی سمیہ کو اس بدبخت نے شرمگاہ میں نیزہ مار کر ہلاک کردیا۔ اسلام میں یہ پہلی شہیدہ ہیں جو اس بیدردی اور بےرحمی سے شہید کی گئیں۔ رہے عمار (رض) خود تو انہیں کبھی کڑکتی دوپہر میں پتھریلی زمین پر ننگا لٹا کر اوپر سرخ اور وزنی پتھر رکھ دیا جاتا اور کبھی پانی میں غوطے دیئے جاتے۔ ایک دفعہ آپ کو ننگے بدن دوپہر کو پتھریلی زمین پر لٹا کر اذیتیں دی جارہی تھیں کہ ادھر سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ہوا۔ وہ ہستی جو سارے جہان کے لئے رحمت بن کر مبعوث ہوئی تھی، یہ نظارہ دیکھ کر آپ کے دل پر جو بیتی ہوگی وہ اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ صبر و استقامت کے عظیم پیکر بھی تھے۔ پھر بھی آپ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور انہیں دلاسا دیتے ہوئے فرمایا :- (اصبروا ال یاسر فان موعد کم الجنۃ) آل یاسر صبر پر قائم رہنا، تمہارے لئے جنت کا وعدہ ہے - امیہ بن خلف کے سیدنا بلال (رض) پر مظالم : سیدنا بلال بن رباح (رض) (حبشی) امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ امیہ سیدنا بلال (رض) کے گلے میں رسی ڈال کر انہیں گلی محلے کے اوباش لڑکوں کے حوالے کردیتا اور وہ انہیں مکہ کے پہاڑوں کی وادیوں میں گھسیٹتے پھرتے جس سے بدن زخمی ہوجاتا اور گلے میں رسی کا نشان پڑجاتا۔ خود امیہ انہیں رسی سے باندھ کر ڈنڈے مارا کرتا۔ کبھی چلچلاتی دھوپ میں بٹھائے رکھتا اور کھانے پینے کو کچھ نہ دیتا اور سینہ پر بھاری پتھر رکھ دیتا۔ پھر کہتا : اللہ کی قسم تو اسی طرح پڑا رہے گا تاآنکہ تو مرجائے یا پھر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر کرے۔ لیکن ایمان کا مزا بھی کچھ عجیب ہی قسم کا ہوتا ہے۔ آپ (رض) یہ سب تکلیفیں برداشت کرتے مگر زبان سے احد احد ہی پکارتے تھے۔ (سیرۃ النبی ج ١ ص ٢٣٢)- ایک دن آپ (رض) کو ایسی ہی اذیتیں دی جارہی تھیں کہ ادھر سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ہوا۔ آپ سیدنا بلال (رض) پر یہ ظلم برداشت نہ کرسکے۔ لہذا سیدنا ابوبکر (رض) سے کہا کہ وہ بلال (رض) کو اس مصیبت سے نجات دلائیں۔ چناچہ سیدنا ابوبکر (رض) نے امیہ بن خلف کو سیدنا بلال (رض) کی منہ مانگی قیمت ادا کرکے خریدا، پھر آزاد کردیا۔ ایک روایت کے مطابق یہ قیمت ایک کلو سے زائد چاندی تھی۔ (ابن ہشام ٩: ٣١٧-٣١٨ رحمۃ للعالمین ١: ٥٧)- سیدنا بلال (رض) کے ذریعہ امیہ بن خلف کی دردناک موت :۔ اب حالات نے یوں پلٹا کھایا کہ جنگ بدر میں میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ جاہلیت کے دور میں امیہ بن خلف اور عبدالرحمن بن عوف (رض) میں دوستی تھی۔ جب مسلمان کافروں کو گرفتار کر رہے اور مال غنیمت اکٹھا کر رہے تھے اس وقت سیدنا عبدالرحمن بن عوف (رض) چند زرہیں سنبھالے جارہے تھے۔ امیہ نے انہیں دیکھ لیا اور پکار کر کہا : تمہیں میری ضرورت ہے ؟ میں تمہاری ان زر ہوں سے بہتر ہوں۔ امیہ کا مطلب یہ تھا کہ اگر عبدالرحمن بن عوف مجھے قیدی بنا کر اپنی پناہ میں لے لیں تو میں کم از کم جان سے تو بچ جاؤں گا اور اگر زندہ رہا تو انہیں اس کام کا اتنا معاوضہ دوں گا جو ان زر ہوں سے کہیں بہتر ہوگا۔- عبدالرحمن بن عوف (رض) خود فرماتے ہیں کہ میں امیہ بن خلف اور اس کے بیٹے علی دونوں کو گرفتار کرکے آگے بڑھا ہی تھا کہ اتفاق سے سیدنا بلال (رض) کی نظر امیہ بن خلف پر پڑگئی۔ امیہ کو دیکھتے ہی انہیں وہ زمانہ یاد آگیا جب امیہ ان پر مشق ستم کیا کرتا تھا۔ وہ فوراً پکار اٹھے اوہ کفر کا سر امیہ بن خلف آج یا میں زندہ رہوں گا یا یہ زندہ رہے گا میں نے سیدنا بلال (رض) کو بہتیرا سمجھایا کہ یہ میرا قیدی ہے مگر وہ کسی صورت نہ مانے اور انصار کو بلا کر وہی بات کہی کہ آج یا میں زندہ رہوں گا یا یہ کفر کا سر چناچہ ان لوگوں نے ہمیں گھیرے میں لے لیا۔ میں ان کا بچاؤ کر رہا تھا بلکہ اپنے آپ کو امیہ پر ڈال رہا تھا۔ مگر ہجوم کے سامنے میری کچھ پیش نہ گئی۔ ان لوگوں نے امیہ کو میرے نیچے سے نکال کر باپ اور بیٹے دونوں کو بیدردی سے قتل کردیا۔ مرنے سے پہلے امیہ نے ایسی دردناک چیخ ماری جیسی میں نے پہلے کبھی نہ سنی تھی۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف (رض) کہا کرتے تھے اللہ تعالیٰ بلال (رض) پر رحم فرمائے۔ جنگ بدر کے دن میری زرہیں بھی گئیں اور میرے قیدی کے بارے میں مجھے تڑپا بھی دیا۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد باب دعاء النبی علی المشرکین)- ابو فکیہہ پر امیہ کے مظالم :۔ سیدنا ابو فکیہہص، صفوان بن امیہ کے غلام تھے۔ سیدنا بلال (رض) کے ساتھ اسلام لائے۔ امیہ کو جب یہ معلوم ہوا تو ان کے پاؤں میں رسی باندھی اور لوگوں سے کہا : اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں اور تپتی ہوئی زمین پر لٹا دیں۔ ایک گبریلا راہ میں جارہا تھا۔ امیہ نے ان سے کہا۔ کیا یہی تو تیرا خدا نہیں ؟ ابو فکیہہ نے جواب دیا : میرا اور تمہارا دونوں کا خدا اللہ تعالیٰ ہے اس پر امیہ نے اس زور سے ان کا گلا گھونٹا کہ لوگ سمجھے کہ دم نکل گیا۔ ایک دفعہ ان کے سینے پر اتنا بھاری پتھر رکھ دیا کہ زبان باہر نکل آئی۔ (سیرۃ النبی، ج ١ ص ٢٣٤)- خباب بن ارت پر مظالم :۔ سیدنا خباب صبن ارت نہایت شریف الطبع انسان تھے اور قبیلہ بنو خزاعہ کی ایک عورت ام انمار کے غلام تھے۔ مشرکین ان کے سر کے بال نوچتے۔ سختی سے گردن مروڑتے۔ ایک دفعہ دہکتے کوئلوں پر آپ (رض) کو چت لٹا دیا گیا اور ایک شخص چھاتی پر پاؤں رکھے کھڑا رہا۔ تاکہ کروٹ نہ بدل سکیں۔ یہاں تک کہ پشت کے نیچے کے کوئلے ٹھنڈے پڑگئے۔ خباب (رض) نے مدتوں بعد یہ واقعہ سیدنا عمر (رض) کے سامنے بیان کیا اور پیٹھ کھول کر دکھائی جو برص کے داغ کی طرح سفید ہوگئی تھی۔ (سیرۃ النبی، ج ١ ص ٢٣٢)- کنیزوں پر مظالم :۔ عورتیں بھی ایسے مظالم سے بچ نہ سکیں۔ سیدہ لبینہ ایک کنیز تھیں۔ سیدنا عمر (رض) اسے مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے کہ میں نے تمہیں رحم کھا کر نہیں بلکہ اس لئے چھوڑا ہے کہ میں تھک گیا ہوں اور ذرا دم لے لوں وہ نہایت استقلال سے جواب دیتیں کہ اگر تم اسلام نہ لاؤ گے تو اللہ اس کا انتقام لے گا۔ (حوالہ ایضاً )- سیدہ زنیرہ سیدنا عمر (رض) کے گھرانے کی کنیز تھیں۔ اس وجہ سے وہ اسے بہت تکلیفیں پہنچاتے تھے۔ ابو جہل نے انہیں اس قدر مارا کہ ان کی آنکھیں جاتی رہیں۔ اسی طرح نہدیہ اور ام عبیس دونوں کنیزیں تھیں اور اسلام لانے کے جرم میں سخت مصیبتیں جھیلتی رہیں۔ (سیرۃ النبی، ج ١ ص ٢٣٢)- سیدنا ابوبکر صدیق (رض) پر مظالم :۔ اگرچہ مسلمانوں پر مشرکین کے مظالم و شدائد کا اصل ہدف لونڈی غلام قسم کے لوگ تھے تاہم آزاد اور معزز مسلمانوں پر مظالم کی فہرست بھی خاصی طویل ہے۔ سب سے زیادہ مظالم تو انبیاء پر ہی ڈھائے جاتے ہیں۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مظالم کا قصہ دوسرے کئی مقامات پر مذکور ہے۔ یہاں ہم صحابہ پر مظالم کے چند واقعات مختصراً ذکر کریں گے۔ ان میں سرفہرست تو سیدنا ابوبکر (رض) کو لیجئے۔ آپ کا جس قدر مکہ میں اثر و رسوخ تھا اس کا کچھ ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ آپ نے کئی مسلمان غلاموں اور لونڈیوں کو خرید کر انہیں مشرکین کے مظالم سے نجات دلائی تھی۔ سیدنا بلال (رض)، عامر بن فہیرہ (رض) (جو ہجرت نبوی کے موقعہ پر آپ کے ساتھ تھے) لبینہ، زنیرہ، نہدیہ اور ام عبیس کو آپ نے مالکوں کی منہ مانگی قیمت دے کر آزاد کردیا تھا۔ اور ان ایام میں آپ کے آزاد کردہ لونڈی، غلاموں کی تعداد سترہ تک پہنچ گئی تھی لیکن ان کا اپنا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ قریش نے آپ کو بری طرح مارا۔ عتبہ بن ربیعہ نے آپ کو دو پیوند لگے جوتوں سے اس قدر مارا کہ چہرہ اور ناک کا پتا نہیں چلتا تھا۔ ان کے قبیلے بنوتمیم کے لوگ انہیں کپڑے میں لپیٹ کر گھر لے گئے ان کا یہی خیال تھا کہ اب زندہ نہ بچیں گے۔ کچھ دیر بعد انہیں ہوش آیا تو پہلی بات جو آپ نے زبان سے نکالی یہ تھی کہ اللہ کے رسول کس حال میں ہیں ؟ اور جب تک انہیں ان کی خیریت معلوم نہ ہوئی انہوں نے کھانے پینے سے بھی انکار کردیا اور اپنی ماں کو اس بات پر مجبور کردیا کہ جیسے بھی بن پڑے وہ آپ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں لے چلے۔ چناچہ ان کی ماں انہیں آپ کے پاس لے گئیں اور جب ان کو معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول بخیرو عافیت ہیں، تب جاکر انہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ (البدایہ والنہایہ، ٣: ٣٠)- قریش مکہ کی ایسی ہی سختیوں سے تنگ آکر آپ بھی حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور برک غماد تک جا بھی پہنچے تھے کہ قبیلہ قارہ کا سردار ابن دغنہ انہیں اپنی پناہ میں لے کر واپس مکہ لے آیا۔ (بخاری۔ کتاب احادیث الانبیاء۔ باب ہجرۃ النبی )- سیدنا عمر کا گھر میں محصور ہونا :۔ سیدنا عمر (رض) جیسے بہادر شخص کا یہ حال تھا کہ جب مشرکوں میں ان کے ایمان کی خبر پھیل گئی تو انہوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور آپ کو اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوگیا اور آپ اپنے ہی گھر میں محصور ہوگئے۔ آخر عاص بن وائل سہمی نے، جو آپ کے قبیلہ کا حلیف تھا، سیدنا عمر (رض) کو اپنی پناہ میں لے کر ہجوم کو منتشر کردیا۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب اسلام عمر بن الخطاب) سیدنا عثمان غنی بن عفان (رض) صاحب عزوجاہ تھے مگر جب اسلام لائے تو ان کے چچا نے انہیں باندھ کر مارا تھا۔ (طبقات ترجمہ عثمان بن عفان)- سیدنا سعید بن زید بن عمرو بن نفیل سیدنا عمر (رض) کے چچازاد بھائی بھی تھے اور بہنوئی بھی۔ بہن اور بہنوئی دونوں اسلام لے آئے تو سیدنا عمر (رض) جو ان کے بہت بعد اسلام لائے، ان دونوں کو رسیوں سے باندھ کر مارا کرتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب اسلام سعید بن زیدص)- دوسرے آزاد مسلمانوں پر اکفر کے مظالم :۔ سیدنا ابو ذرغفاری (رض) نے اسلام لانے کے بعد کعبہ میں کلمہ شہادت پکارا تو اس جرم میں ان کی دو بار پٹائی ہوئی۔ سیدنا عباس انہیں مشرکوں سے چھڑاتے رہے ان کا قصہ تفصیل سے سورة انفال کے حاشیہ نمبر ٢٦ میں مذکور ہے۔- سیدنا زبیر بن عوام کا مسلمان ہونے والوں میں پانچواں نمبر تھا۔ جب اسلام لائے تو ان کے چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کر ان کی ناک میں دھواں دیتے تھے۔ (سیرۃ النبی، ج ١ ص ٢٣٥)- سیدنا مصعب بن عمیر (رض) اسلام لائے تو انکی ماں نے ان کا دانہ پانی بند کردیا اور گھر سے باہر نکال دیا۔ (رحمۃ للعالمین ١: ٥٨)- سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) اسلام لائے تو آپ نے ارادہ کیا کہ کعبہ میں جاکر قرآن کریم بلند آواز سے پڑھیں۔ لوگوں نے منع کیا۔ لیکن آپ (رض) باز نہ آئے اور مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہو کر بلند آواز سے سورة الرحمن کی تلاوت شروع کردی۔ قریش رحمان کے لفظ سے ہی چڑ گئے۔ ہر طرف سے آپ پر پل پڑے اور آپ کے منہ پر طمانچے مارنا شروع کردئے۔ آپ مار کھاتے رہے لیکن جہاں تک پڑھنا چاہتے تھے پڑھ کر دم لیا۔ (طبری، ج ٣ ص ١١٨٨)- حبشہ کی طرف ہجرت :۔ غرض کوئی بھی مسلمان خواہ وہ کیسے عزوجاہ کا مالک تھا، مشرکین مکہ کے جورو ستم سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اس طرح جب مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تو آپ نے انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ چناچہ پہلی دفعہ سیدنا عثمان (رض) کی سر کردگی میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے ہجرت کی۔ عورتوں میں سیدنا عثمان (رض) کی بیوی یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی رقیہ بھی موجود تھیں۔ اس موقعہ پر آپ نے فرمایا : سیدنا ابراہیم کے بعد یہ پہلا جوڑا ہے جو اللہ کی راہ میں ہجرت کے لئے نکلا۔ (رحمۃ للعالمین، ج ٢ باب بنات النبی) ہجرت حبشہ کا ذکر سورة مائدہ کے حاشیہ نمبر ١٣٩ میں تفصیل سے مذکور ہے۔- ہجرت حبشہ کے بعد بھی کفار کے تشدد کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ بلکہ کفار کی طرف سے تشدد اور مسلمانوں کی طرف سے صبر و برداشت اور ہاتھ نہ اٹھانے کا یہ مرحلہ پورے مکی دور میں یعنی تیرہ سال پر محیط ہے۔ جس میں مسلمانوں کو نماز اور زکوٰۃ کے ذریعہ اپنے نفوس کا تزکیہ کرنے، مصائب پر صبر کرنے، اپنے قائد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل طور پر اطاعت کرنے کی تربیت دی جارہی تھی۔ کئی مسلمانوں نے جان کا نذرانہ پیش کردیا مگر نہ زبان سے کسی کو برا بھلا کہا اور نہ ہاتھ اٹھائے۔ حالانکہ موت کے وقت تو آقائی اور غلامی کے سب امتیازات اٹھ جاتے ہیں اور مرنے والا یہ چاہتا ہے کہ اسے مرنا ہی ہے تو دو چار کو مار کر مرے۔ بلکہ بلی بھی جب عاجز ہوتی ہے تو شیر پر حملہ کردیتی ہے۔ یہ بس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تربیت اور مسلمانوں کی طرف سے مکمل اطاعت کا ہی اثر تھا کہ اسلام کی انقلابی تحریک ناکام ہونے سے محفوظ رہی اور ترقی کے مراحل طے کرتی گئی۔ پھر جب مسلمانوں کو مدینہ میں آزاد فضا میسر ہوگئی تو ہاتھ اٹھانے کی اجازت بھی مل گئی۔[١٠٧] اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ بات کہنے والے معاذ اللہ منافق تھے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہر قسم کے معاشرہ میں تمام لوگ ایک ہی جیسے جرأت والے نہیں ہوتے، کچھ ناتواں اور کم ہمت ہوتے ہیں اور پورے مومن ہونے کے باوجود ہر ایک کی استعداد الگ ہوتی ہے۔ کوئی کسی کام کے لیے زیادہ موزوں ہوتا ہے اور کوئی دوسرا کسی اور کام کے لیے۔ لہذا جن کمزور دل لوگوں نے یہ بات کہی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کی ڈھارس بندھاتے ہوئے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو بھی پامردی دکھانا چاہیے کیونکہ یہ دنیا کی زندگی اور اس کے مفادات تو چند روزہ ہیں لہذا انہیں آخرت پر نظر رکھنی چاہیے جو ہر لحاظ سے بہتر ہے اور اگر ان کا عمل تھوڑا بھی ہوا تب بھی انہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَھُمْ ۔۔ : یعنی جب تک مسلمان مکہ میں تھے اور کافر انھیں ایذا دیتے تھے اللہ تعالیٰ نے انھیں لڑنے سے روکے رکھا اور صبر کا حکم فرمایا، اب جو ( مدینہ منورہ) میں لڑائی کا حکم آیا ہے تو ان کو سمجھنا چاہیے کہ ہماری مراد ملی، لیکن کچے مسلمان کنارہ کرتے ہیں اور موت سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے برابر آدمیوں سے خطرہ کرتے ہیں۔ (موضح) متعدد روایات میں ہے کہ مسلمانوں نے مکی زندگی میں کئی دفعہ چاہا کہ ظالموں سے دو بدو نمٹیں مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو حکم ہوتا کہ ابھی نماز اور زکوٰۃ (مال خرچ کرنے) کا جو تمہیں حکم ہوا ہے اس کی خوب عادت ڈالو، تاکہ تمہاری تربیت ہوجائے، مدینہ منورہ میں بھی ہجرت کے ابتدائی برسوں میں مسلمانوں کی خواہش یہی تھی، لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے لڑائی کی اجازت آگئی تو اب بعض خام قسم کے مسلمان اس سے ہچکچانے لگے، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر۔ قرطبی) - لَوْلَآ اَخَّرْتَنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ ۭ : شاہ عبد القادر (رض) کا ترجمہ یہ ہے : ” کیوں نہ جینے دیا ہم کو تھوڑی سی عمر “ جو اب آگے ہے۔ بعض نے ترجمہ کیا ہے : ” قتال کی فرضیت کا یہ حکم نازل کرنے میں تو نے ہمیں کچھ مہلت کیوں نہ دی ؟ “ - قُلْ مَتَاع الدُّنْيَا قَلِيْلٌ ۚ : لڑائی سے ہچکچانے والے کمزور ایمان والوں اور منافقین کا حوصلہ دو باتوں سے بلند فرمایا ہے، پہلی تو یہ کہ دنیا کی بےثباتی کا ذکر کر کے جہاد کی ترغیب دی ہے، دنیا جتنی بھی ہو فانی ہے اور فانی جتنی بھی ہو قلیل (بہت تھوڑی) ہے۔ فانی اور باقی کا مقابلہ ہی کیا ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس طرح کوئی شخص سمندر میں انگلی ڈبو کر نکالے اور اس کی انگلی میں تھوڑی سی نمی رہ جائے، ایسی ہی مثال دنیا اور آخرت کی ہے۔ “ [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمہا، باب قتاء الدنیا ۔۔ : ٢٨٥٨، عن المستورد الفھری ] اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میری اور دنیا کی مثال ایک مسافر کی سی ہے، جو ایک درخت کے سائے میں آرام کرتا ہے اور پھر اسے چھوڑ کر روانہ ہوجاتا ہے۔ “ [ ترمذی، الزھد، باب منہ حدیث ” ما الدنیا۔۔ الخ “ : ٢٣٧٧، عن ابن مسعود ]- اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ : ” بروج “ یہ ” بُرْجٌ“ کی جمع ہے، مضبوط عمارت، قلعہ۔ ” مشیدۃ “ جو ” اَلشِّیْدُ “ یعنی چونے سے بنے ہوئے ہوں۔ یہ جہاد کے لیے حوصلہ بڑھانے والی دوسری بات ہے کہ جب موت سے تمہیں کسی حال میں چھٹکارا نہیں تو پھر اللہ کی راہ میں جہاد سے کیوں ہچکچاتے ہو۔ اس مطلب کی آیات قرآن کریم میں بہت ہیں، چناچہ فرمایا : ( قُلْ لَّنْ يَّنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ اِنْ فَرَرْتُمْ مِّنَ الْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ ) [ الأحزاب : ١٦] ” کہہ دے تمہیں بھاگنا ہرگز نفع نہ دے گا اگر تم مرنے یا قتل ہونے سے بھاگو۔ “ اور فرمایا : ( قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِيْ تَفِرُّوْنَ مِنْهُ فَاِنَّهٗ مُلٰقِيْكُمْ ) [ الجمعۃ : ٨ ] ” کہہ دے بلاشبہ وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو سو یقیناً وہ تم سے ملنے والی ہے۔ “ اور فرمایا : (كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ) [ آل عمران : ١٨٥ ] ” ہر جان موت کو چکنے والی ہے۔ “- وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَيِّئَةٌ ۔۔ : اوپر منافقین کی دو مذموم خصلتیں بتائیں، ایک جہاد سے جی چرانا دوسری موت سے ڈرنا، اب یہاں ان کی ایک اور مذموم خصلت کا ذکر فرمایا جو پہلی دونوں سے بری ہے، یعنی نحوست کی نسبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کرنا۔ یہاں ” حسنۃ “ (بھلائی) سے مراد فتح، نصرت، غلبہ اور خوش حالی وغیرہ ہے اور ” سیءۃ “ سے مراد لڑائی میں نقصان، مصیبت، قتل اور ہزیمت وغیرہ ہے۔ - قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭ : یہ ان کے کلام کا جواب ہے کہ برائی اور بھلائی دونوں اسی کی طرف سے اور اسی کے حکم سے ہیں، ہر چیز کا پیدا کرنے والا وہی ہے، بلا اور مصیبت کو کسی کی نحوست قرار دینا قطعی غلط اور پہلے کافروں کا طریقہ ہے، جیسا کہ قوم ثمود کا کہنا : ( قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَنْ مَّعَكَ ۭ ) [ النمل : ٤٧ ]” انھوں نے کہا ہم نے تیرے ساتھ اور ان لوگوں کے ساتھ جو تیرے ہمراہ ہیں، بد شگونی پکڑی ہے۔ “ اور سورة یٰسٓ میں ہے : ” اور اگر انھیں کوئی تکلیف پہنچتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں کے ساتھ نحوست پکڑتے۔ “ اور فرعون کی قوم کے بدلے میں ہے : ( وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰي وَمَنْ مَّعَهٗ ۭ ) [ الأعراف : ١٣١ ] ( ا اِنَّا تَــطَيَّرْنَا بِكُمْ ۚ ) [ یٰسٓ : ١٨ ] ” بیشک ہم نے تمہیں منحوس پایا ہے۔ “ - شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” یہ منافقوں کا ذکر ہے کہ اگر تدبیر جنگ درست آئی اور فتح اور غنیمت ملی تو کہتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے ہوئی، یعنی اتفاقاً بن گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تدبیر کے قائل نہ ہوتے تھے اور اگر بگڑ گئی تو الزام رکھتے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تدبیر پر۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سب اللہ کی طرف سے ہے، یعنی پیغمبر کی تدبیر اللہ کا الہام ہے، غلط نہیں اور اگر بگڑی تو اس کو بگڑا نہ بوجھو، یہ اللہ تم کو سدھاتا ہے تمہاری تقصیر پر۔ اگلی آیت میں کھول کر بیان فرما دیا۔ (موضح) - فَمَالِ هٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ ۔۔ : یعنی تعجب ہے کہ کسی غور و فکر کے بغیر سمجھ میں آنے والی حقیقت بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ (رازی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (اے مخاطب) کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا (قبل نزول حکم جہاد تو جنگ کرنے کا ایسا تقاضا تھا کہ) ان کو (منع کرنے کے لئے) یہ کہا گیا تھا کہ (ابھی) اپنے ہاتھوں کو (لڑنے سے) روکے رہو اور (جو حکم تم کو ہوچکے ہیں اس میں لگے رہو مثلاً ) نمازوں کی پابندی رکھو اور زکوة دیتے رہو (یا تو یہ حالت تھی اور یا) پھر ان پر جہاد کرنا فرض کردیا گیا تو کیا حال ہوا کہ ان میں سے بعض بعض آدمی (مخالف) لوگوں سے (طبعا) ایسا ڈرنے لگے (کہ ہم کو قتل کردیں گے) جیسا (کوئی) اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ ڈرنا (زیادہ ڈرنے کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ اکثر اللہ تعالیٰ سے ڈرنا عقلاً ہوتا ہے اور دشمن کا ڈر طبعی ہے اور قاعدہ ہے کہ طبعی حالت عقلی حالت سے شدید ہوتی ہے، دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ سے جیسا خوف ہے ویسی امید رحمت بھی تو ہے اور کافر دشمن سے تو ضرر کا خوف ہی خوف ہے اور چونکہ یہ خوف طبعی تھا اس لئے گناہ نہیں ہوا) اور (یا حکم قتال کو ملتوی کرنے کی تمنا میں) یوں کہنے لگے (خواہ زبان سے یا دل سے اور اللہ تعالیٰ کے علم میں قول نفسی قول لسانی کے برابر ہے) کہ اے ہمارے پروردگار آپ نے (ابھی سے) ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا ہم کو (اپنی عنایت سے) اور تھوڑی مدت مہلت دے دیہوتی (ذرا بےفکری سے اپنی ضروریات پوری کرلیتے اور چونکہ یہ عرض کرنا بطور اعتراض یا انکار کے نہیں تھا اس لئے گناہ نہیں ہوا، آگے جواب ارشاد ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیجئے کہ دنیا سے فائدہ اٹھانا (جس کے لئے تم مہلت کی تمنا کرتے ہو) محض چند روزہ ہے اور آخرت (جس کے حصول کا اعلی ذریعہ جہاد ہے) ہر طرح سے بہتر ہے (مگر وہ) اس شخص کے لئے (ہے) جو اللہ تعالیٰ کی مخالفت سے بچے (کیونکہ اگر کفر کے طور پر مخالفت کی تب تو اس کے لئے سامان آخرت کچھ بھی نہیں اور اگر معصیت کا مرتکب ہوا تو اعلی درجہ سے محروم رہے گا) اور تم پر ذرا بھی ظلم نہ کیا جائے گا (یعنی جتنے اعمال ہوں گے ان کا پورا پورا ثواب ملے گا، پھر جہاد جیسے عمل کے ثواب سے کیونکہ خالی رہتے ہو اور اگر جہاد بھی نہ کیا تو وقت معین پر موت سے بچ جاؤ گے ؟ ہرگز نہیں، کیونکہ موت کی تو یہ حالت ہے کہ) تم چاہے کہیں بھی ہو وہاں موت آ دبائے گی اگرچہ پختہ مضبوط قلعوں ہی میں (کیوں نہ) ہو (غرض جب موت اپنے وقت پر ضرور آئے گی اور مر کر دنیا کو چھوڑنا ہی پڑے گا تو آخرت میں خالی ہاتھ کیوں جاؤ بلکہ عقل کی بات یہ ہے کہ ” چند روزے جہد کن باقی بخند۔ “ ) اور اگر ان (منافقین) کو کوئی اچھی حالت پیش آتی ہے (جیسے فتح و کامیابی) تو کہتے ہی کہ یہ منجانب اللہ (اتفاقاً ) ہوگئی (ورنہ مسلمانوں کی بےتدبیری میں تو کوئی کسر تھی ہی نہیں) اور اگر ان کی کوئی بری حالت پیش آتی ہے (جیسے جہاد میں موت و قتل) تو (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نعوذ باللہ آپ کی نسبت) کہتے ہیں کہ یہ آپ (کی اور مسلمانوں کی بےتدبیری) کے سبب سے ہے (ورنہ چین سے گھروں میں بیٹھے رہتے تو کیوں اس مصیبت میں پڑتے) آپ فرما دیجئے کہ (میرا تو اس میں ذرا بھی دخل نہیں بلکہ) سب کچھ (نعمت و نقمت) اللہ ہی کی طرف سے ہے (گو ایک بلاواسطہ اور ایک بواسطہ جیسا کہ عنقریب اس کی تفصیل آتی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ نعمت تو محض اللہ کے فضل سے بلاواسطہ اعمال ہے اور نقمت یعنی مصیبت اللہ کے عدل سے بواسطہ اعمال سینہ عباد کے ہے پس تم جو مصیبت میں میرا دخل سمجھتے ہو واقع میں اعمال سیہ کا اس میں دخل ہے، جیسا احد میں شکست کے اسباب گزر چکے ہیں اور یہ بات نہایت ہی ظاہر ہے، اگر آدمی ذرا بھی غور کرے تو خوش حالی کے قبل کوئی نیک عمل اس درجہ کا نہ پاوے گا محض فضل ہی ثابت ہوا اور بدحالی کے قبل ضرور کوئی عمل بدپائے گا، جس کی سزا اس سے زیادہ ہوتی جب یہ ایسی ظاہر بات ہے) تو ان (حماقت شعار) لوگوں کو کیا ہوا کہ بات سمجھنے کے پاس کو بھی نہیں نکلتے (اور سمجھیں گے تو کیا اور وہ تفصیل اس اجمالی جواب مذکور کی یہ ہے کہ) اے انسان تجھ کو جو کوئی خوش حالی پیش آتی ہے وہ محض اللہ تعالیٰ کی جانب سے (فضل) ہے، اور جو کوئی بدحالی پیش آوے وہ تیرے ہی (اعمال بد کے) سبب سے ہے (پس اس بدحالی کو شریعت کے احکام پر عمل کرنے کا نتیجہ کہنا یا شارع کی طرف اس کی نسبت کرنا پوری جہالت ہے، جیسا منافقین جہاد اور امام الجہاد کی طرف اس کی نسبت کرتے تھے) اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور (اگر کوئی منافق، کافر انکار کرے تو اس کے انکار سے نفی نبوت کی کب ہو سکتی ہے، کیونکہ) اللہ تعالیٰ (آپ کی رسالت کے) گواہ کافی ہیں (جنہوں نے قولی اور فعلی شہادت دی ہے، قولی تو مثلاً یہی کلمہ وارسلنک اور فعلی یہ کہ معجزات جو دلیل اثبات نبوت میں آپ کو عطا فرمائے۔ )- معارف ومسائل - شان نزول :۔ الم ترا الی الذین قیل لھم کو فوا ایدیکم الخ مکہ میں ہجرت کرنے سے پہلے کافر مسلمانوں کو بہت ستایا کرتے تھے، مسلمان آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر شکایت کرتے اور رخصت مانگتے کہ ہم کفار سے مقاتلہ کریں اور ان سے ظلم کا بدلہ لیں، آپ مسلمانوں کو لڑائی سے روکتے تھے کہ مجھ کو مقاتلہ کا حکم نہیں، بلکہ صبر اور در گزر کرنے کا حکم ہے اور فرماتے کہ نماز اور زکوة کا جو حکم تم کو ہوچکا ہے اس کو برابر کئے جاؤ کیونکہ جب تک آدمی اطاعت خداوندی میں اپنے نفس پر جہاد کرنے کا اور تکالیف جسمانی کا خوگر نہ ہو اور اپنے مال خرچ کرنے کا عادی نہ ہو تو اس کو جہاد کرنا اور اپنی جان دینا بہت دشوار ہوتا ہے، اس بات کو مسلمانوں نے قبول کرلیا تھا، پھر ہجرت کے بعد جب مسلمانوں کو جہاد کا حکم ہوا تو ان کو خوش ہونا چاہئے تھا کہ ہماری درخواست قبول ہوئی، مگر بعضے کچے مسلمان کافروں کے مقاتلہ سے ایسے ڈرنے لگے جیسا کہ اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے، یا اس سے بھی زیادہ اور آرزو کرنے لگے کہ تھوڑی مدت اور بھی قتال کا حکم نہ آتا اور ہم زندہ رہتے تو خوب ہوتا، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔- حکم جہاد نازل ہونے پر مسلمانوں کی طرف سے التواء حکم کی تمنا کس وجہ سے ہوئی :۔ حکم جہاد پر مسلمانوں کی طرف سے مہلت کی تمنا درحقیقت کوئی اعتراض نہ تھا، بلکہ ایک لطف آمیز شکایت تھی، جس کی وجہ یہ تھی کہ عادة ہوتا یہ ہے کہ جب آدمی کو اتنہائی تنگی و تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں، اس لئے ایسے وقت میں انتقام لینا زیادہ آسان ہوتا ہے، لیکن آرام و راحت کے وقت اس کی طبیعت لڑائی کی طرف آمادہ نہیں ہوتی، یہ ایک بشری تقاضا ہے، چناچہ یہ تھے لیکن مدینہ میں آ کر جب ان کو سکون و آرام نصیب ہوا تو ایسی صورت میں جب قتال کا حکم ہوا تو اس وقت ان کا پرانا جذبہ کم ہوچکا تھا اور ان کے دلوں میں وہ جوش و خروش باقی نہیں رہا تھا، اس لئے انہوں نے محض ایک تمنا کی کہ اگر اس وقت جہاد کا حکم نہ ہوتا تو بہتر تھا، اس تمنا کو اعتراض پر محمول کر کے ان مسلمانوں کی طرف معصیت کی نسبت کرنا صحیح نہیں ہے، یہ تقریر اس صورت میں ہے جب کہ انہوں نے شکایت کا اظہار زبان سے بھی کیا ہو، لیکن اگر زبان سے نہیں کیا محض ان کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا ہو تو وساوس قلبی کو شریعت نے معصیت ہی شمار نہیں کیا، یہاں یہ دونوں احتمال ہیں اور آیت کے لفظ قالوا سے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ انہوں نے زبان سے اظہار کردیا تھا، کیونکہ اس کے یہ معنی ہو سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دل میں کہا ہو (بیان القرآن ملخصاً ) بعض مفسرین کے نزدیک آیات کا تعلق مؤمنین سے نہیں ہے بلکہ منافقین سے ہے، اس صورت میں کسی قسم کا اشکال نہیں (تفسیر کبیر) - اصلاح ملک سے اصلاح نفس مقدم ہے :۔ - اقیموا الصلوة واتوالزکوة، اللہ تعالیٰ نے پہلے نماز اور زکوة کے احکام کو بیان فرمایا جو اصلاح نفس کا سبب ہیں اور اس کے بعد جہاد کا حکم دیا جو اصلاح ملک کا سبب ہے یعنی اس کے ذریعہ سے ظلم و ستم کا استیصال کیا جاتا ہے اور ملک میں امن وامان قائم ہوتا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کو دوسروں کی اصلاح سے پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہئے، چناچہ درجہ کے اعتبار سے بھی قسم اول کا حکم فرض عین ہے اور ثانی کا فرض کفایہ ہے جس سے اصلاح نفس کی اہمیت اور اس کا مقدم ہونا ظاہر ہے (مظہری) - دنیا اور آخرت کی نعمتوں میں فرق :۔- آیت میں دنیا کی نعمتوں کے مقابلہ میں آخرت کی نعمتوں کو افضل اور بہتر کہا گیا ہے، اس کی مندرجہ ذیل چند وجوہ ہیں۔- ١۔ دنیا کی نعمتیں قلیل ہیں اور آخرت کی نعمتیں کثیر ہیں۔- ٢۔ دنیا کی نعمتیں ختم ہونے والی ہیں اور آخرت کی باقی رہنے والی ہیں۔- ٣۔ دنیا کی نعمتوں کے ساتھ طرح طرح کی پریشانیاں بھی ہیں اور آخرت کی نعمتیں ان کدورتوں سے پاک ہیں۔- ٤۔ دنیا کی نعمتوں کا حصول یقینی نہیں ہے اور آخرت کی نعمتیں ہر متقی کو یقیناً ملیں گی (تفسیر کبیر) من اللہ فی دارالقمام نصیب متاع قلیل و لازوال قریب - ” یعنی اس ناپائیدار دنیا میں ایسے شخص کے لئے کچھ بھلائی نہیں ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پائیدار گھر یعنی آخرت میں کوئی جگہ نہ ہو، پھر اگر دنیا کچھ لوگوں کو فریفتہ کرے تو آگاہ رہیں کہ یہ دنیا تو متاع قلیل ہے اور اس کا زوال و ناپید ہونا بہت قریب ہے، یعنی ادھر آنکھ بند ہوئی اور ادھر آخرت سامنے آئی۔ “

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَھُمْ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ۝ ٠ۚ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْہِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْـيَۃِ اللہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَۃً۝ ٠ۚ وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ۝ ٠ۚ لَوْلَآ اَخَّرْتَنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ۝ ٠ۭ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ۝ ٠ۚ وَالْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى۝ ٠ۣ وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا۝ ٧٧- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6]- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، - الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے - کفوا - ۔ امر ۔ جمع مذکر حاضر۔ اصل میں اکففوا بروزن انصروا۔ تھا ۔ تم روکو۔ کیف یکف۔ کفوا ایدکم ( عن القتال) امام قرطبی (رح) عنہ کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت عبد الرحمن بن عوف الزہری۔ المقداد بن الاسود الکندی۔ قدامہ بن مظعون ۔ سعد بن ابی وقاص (رض) اور دیگر صحابہ کی ایک جماعت کے متعلق نازل ہوئی۔- يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے - صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - زكا - أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة .- يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] ،- إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] - ( زک و ) الزکاۃ - : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ - - كتب ( فرض)- ويعبّر عن الإثبات والتّقدیر والإيجاب والفرض والعزم بِالْكِتَابَةِ ، ووجه ذلك أن الشیء يراد، ثم يقال، ثم يُكْتَبُ ، فالإرادة مبدأ، والکِتَابَةُ منتهى. ثم يعبّر عن المراد الذي هو المبدأ إذا أريد توكيده بالکتابة التي هي المنتهى، قال : كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي - [ المجادلة 21] ، وقال تعالی: قُلْ لَنْ يُصِيبَنا إِلَّا ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا [ التوبة 51] ، لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] - نیز کسی چیز کے ثابت کردینے اندازہ کرنے ، فرض یا واجب کردینے اور عزم کرنے کو کتابہ سے تعبیر کرلیتے ہیں اس لئے کہ پہلے پہل تو کسی چیز کے متعلق دل میں خیال پیدا ہوتا ہے پھر زبان سے ادا کی جاتی ہے اور آخر میں لکھ جاتی ہے لہذا ارادہ کی حیثیت مبداء اور کتابت کی حیثیت منتھیٰ کی ہے پھر جس چیز کا ابھی ارادہ کیا گیا ہو تاکید کے طورپر اسے کتب س تعبیر کرلیتے ہیں جو کہ دراصل ارادہ کا منتہیٰ ہے ۔۔۔ چناچہ فرمایا : كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي[ المجادلة 21] خدا کا حکم ناطق ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب رہیں گے ۔ قُلْ لَنْ يُصِيبَنا إِلَّا ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا [ التوبة 51] کہہ دو کہ ہم کو کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی بجز اس کے کہ جو خدا نے ہمارے لئے مقدر کردی ہے ۔ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] تو جن کی تقدیر میں مار جانا لکھا تھا ۔ وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرو ر نکل آتے ۔ - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- فریق - والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین،- قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] - ( ف ر ق ) الفریق - اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ - خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ - خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ - شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - «لَوْلَا»- يجيء علی وجهين :- أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] .- والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن .- ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ - أخر ( تاخیر)- والتأخير مقابل للتقدیم، قال تعالی: بِما قَدَّمَ وَأَخَّرَ [ القیامة 13] ، ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ [ الفتح 2] ، إِنَّما يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم 42] ، رَبَّنا أَخِّرْنا إِلى أَجَلٍ قَرِيبٍ [إبراهيم 44] - ( اخ ر ) اخر - التاخیر یہ تقدیم کی ضد ہے ( یعنی پیچھے کرنا چھوڑنا ۔ چناچہ فرمایا :۔ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ ( سورة القیامة 13) جو عمل اس نے آگے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑے ۔ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ ( سورة الفتح 2) تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ ( سورة إِبراهيم 42) وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ دہشت کے سبب آنکھیں کھلی کی کھلی ۔ رہ جائیں گی ۔ رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ ( سورة إِبراهيم 44) اسے ہمارے پروردگار ہمیں تھوڑی سی مہلت عطا کر - أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، وقوله : وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] . وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] . وفي الحظوة : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] ، وقال في عيسى: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45] ، عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] ، فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] ، قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114] ، وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] . ويقال للحظوة : القُرْبَةُ ، کقوله : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] ، تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] . وفي الرّعاية نحو : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] ، وقوله : فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] - وفي القدرة نحو : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] . قوله وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ [ الواقعة 85] ، يحتمل أن يكون من حيث القدرة- ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] اور مجھے معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو ۔۔۔ اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا کے متعلق فرمایا : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] اور نہ مقرب فرشتے ( عار ) رکھتے ہیں ۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45]( اور جو ) دنیا اور آخرت میں آبرو اور ( خدا کے ) خاصوں میں سے ہوگا ۔ عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے ( خدا کے ) مقرب پئیں گے ۔ فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] پھر اگر وہ خدا کے مقربوں میں سے ہے : قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114]( فرعون نے ) کہا ہاں ( ضرور ) اور اس کے علاوہ تم مقربوں میں داخل کرلئے جاؤ گے ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] اور باتیں کرنے کے لئے نزدیک بلایا ۔ اور القربۃ کے معنی قرب حاصل کرنے کا ( ذریعہ ) کے بھی آتے ہیں جیسے فرمایا : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] اس کو خدا کی قربت کا ذریعہ ۔ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] دیکھو وہ بےشبہ ان کے لئے ( موجب ) قربت ہے۔ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں ۔ اور رعایت ونگہبانی کے متعلق فرمایا : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے ۔ فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] میں تو تمہارے پاس ہوں ۔ جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اسکی دعا قبول کرتا ہوں ۔ اور قرب بمعنی قدرہ فرمایا : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔- متع ( سامان)- وكلّ ما ينتفع به علی وجه ما فهو مَتَاعٌ ومُتْعَةٌ ، وعلی هذا قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] أي : طعامهم، فسمّاه مَتَاعاً ، وقیل : وعاء هم، وکلاهما متاع، وهما متلازمان، فإنّ الطّعام کان في الوعاء .- ( م ت ع ) المتوع - ہر وہ چیز جس سے کسی قسم کا نفع حاصل کیا جائے اسے متاع ومتعۃ کہا جاتا ہے اس معنی کے لحاظ آیت کریمہ : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ میں غلہ کو متاع کہا ہے اور بعض نے غلہ کے تھیلے بابور یاں مراد لئے ہیں اور یہ دونوں متاع میں داخل اور باہم متلا زم ہیں کیونکہ غلہ ہمیشہ تھیلوں ہی میں ڈالا جاتا ہے - قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٧) یہاں سے اللہ تعالیٰ جہاد کے مشکل گزرنے اور بدر صغری میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلنے کو گراں گزرنے کا ذکر فرماتے ہیں، چناچہ عبدالرحمن بن عوف (رض) سعدبن ابی وقاص (رض) زبیر (رض) قدامۃ بن مظعون (رض) ، مقداد بن اسود کندی (رض) طلحۃ بن عبید اللہ (رض) وغیرہ جب یہ حضرات مکہ مکرمہ میں کفار کی تکالیف سے پریشان ہورہے تھے تو ان سے کہا گیا تھا کہ ابھی لڑنے سے رکے رہو، کیوں کہ مجھے (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابھی اللہ کی طرف سے جہاد کا حکم نہیں ہوا اور ایسے حالات میں مکہ مکرمہ کے ان مظلوم مسلمانوں کو یہ تلقین کی جارہی ہے کہ وہ پانچوں نمازوں کو اوقات کی پابندی کے ساتھ رکوع و سجود کے ساتھ ادا کرتے رہیں، نیز زکوٰۃ بھی دیتے رہیں۔- اور جب مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد اللہ کی طرف ان پر جہاد فرض ہوگیا تو طلحۃ بن عبیداللہ والی جماعت اہل مکہ سے ڈرنے لگی جیسے کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ اور دل میں کہنے لگے اے اللہ ابھی جہاد فرض کردیا (یعنی ہم کمزور اور کم تعداد میں ہیں) موت تک ذرا عافیت و اطمینان کے ساتھ رہ لیتے۔- اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرما دیجیے کہ دنیاوی منافع آخرت کے بےپایاں اجر اعتبار سے بہت کم ہے اور آخرت کے منافع اس شخص کے لیے ہیں جو کفر وشرک اور فحش چیزوں سے بچے ایسی چیزوں سے گریز وبچاؤ ہر اعتبار سے بہتر ہے۔- اور وہاں اللہ کے پاس تمہاری نیکیوں میں دھاگے کے برابر بھی کمی نہیں کی جائے گی، فتیل گٹھلی کے بیچ میں جو لکیر ہوتی ہے یا یہ کہ انگلیوں کے جوڑوں میں جو میل کی لکیر سی ہوجاتی ہے کو کہتے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” الم تر الی الذین قیل۔ (الخ)- امام نسائی اور حاکم نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) اور ان کے ساتھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ہم جب شرک کرتے تھے تو ظاہرا عزت دار تھے اور جب ہم ایمان لے آئے تو مختلف دینی پابندیوں کے سبب کفار کے ہاتھوں ذلیل ہوگئے ، (لہذا جہاد کا حکم دیجیے) آپ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اللہ کی طرف سے ابھی معاف اور درگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے لہٰذا اپنی قوم سے مت لڑو، چناچہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو مدینہ منورہ منتقل کردیا، تب جہاد کا حکم دیا تو بعض کو دشوار محسوس ہوا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا کہ ان کو یہ کہا گیا تھا الخ۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٧ (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَہُمْ کُفُّوْآ اَیْدِیَکُمْ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ ج) - مکہ مکرمہ میں بارہ برس تک مسلمانوں کو یہی حکم تھا کہ اپنے ہاتھ بندھے رکھو۔ اس دور میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے ‘ انہیں بہت بری طرح ستایا جا رہا تھا ‘ تشدد و تعذیب کی نئی تاریخ رقم کی جا رہی تھی۔ اس پر مسلمانوں کا خون کھولتا تھا اور بہت سے مسلمان یہ چاہتے تھے کہ ہمیں اجازت دی جائے تو ہم اپنے بھائیوں پر ہونے والے اس ظلم و ستم کا بدلہ لین ‘ آخر ہم نامرد نہیں ہیں ‘ بےغیرت نہیں ہیں ‘ بزدل نہیں ہیں۔ لیکن انہیں ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ منہج انقلاب نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صبر محضکا مرحلہ تھا اس وقت حکم یہ تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو۔ ؂- نغمہ ہے بلبل شوریدہ تیرا خام ابھی - اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی - ایک وقت آئے گا کہ تمہارے ہاتھ کھول دیے جائیں گے۔ - یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَہُمْ کُفُّوْآ اَیْدِیَکُمْ ) فعل مجہول ہے۔ یہ کہا کس نے تھا ؟ مکی قرآن میں تو کُفُّوْآ اَیْدِیَکُمْکا حکم موجود نہیں ہے۔ یہ حکم تھا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل ایمان کو ہاتھ اٹھانے سے روکا تھا۔ یہ آیت سورة النساء میں نازل ہو رہی ہے جو مدنی ہے۔ کہ اس وقت بھی وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم تھا ‘ جس کو اللہ نے اپنا حکم قرار دیا۔ گویا یہ اللہ ہی کی طرف سے تھا۔ وحی جلی تو یہ قرآن ہے۔ اس کے علاوہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی خفی بھی نازل ہوتی تھی۔ تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکی دور میں وحی خفی کے ذریعے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا ہو جو یہاں نقل ہوا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا اجتہاد ہو جسے اللہ نے برقرار رکھا ہو ‘ اسے قبول ( ) کیا ہو۔- اب یہ بات یہاں محذوف ہے کہ اس وقت تو کچھ لوگ بڑے جوش و جذبہ سے اور بڑے زور شور سے کہتے تھے کہ ہمیں اجازت ہونی چاہیے کہ ہم جنگ کریں ‘ لیکن اب کیا حال ہوا :- (فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَۃً ج) تو ان میں سے ایک فریق کا حل یہ ہے کہ وہ لوگوں سے اس طرح ڈر رہے ہیں جیسے اللہ سے ڈرنا چاہیے ‘ بلکہ اس سے بھی زیادہ ڈر رہے ہیں۔- ظاہر بات ہے کہ یہ مکہ کے مہاجرین نہیں تھے ‘ بلکہ یہ حال منافقین مدینہ کا تھا ‘ لیکن فرق و تفاوت واضح کرنے کے لیے مکی دور کی کیفیت سے تقابل کیا گیا کہ اصل ایمان تو وہ تھا ‘ اور یہ جو صورت حال ہے یہ کمزور ایمان اور نفاق کی علامت ہے۔- (وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَج ) (لَوْلَآ اَخَّرْتَنَآ اِلآی اَجَلٍ قَرِیْبٍ ط) - اس حکم کو کچھ دیر کے لیے مزید مؤخر کیوں نہ کیا ؟- (قُلْ مَتَاع الدُّنْیَا قَلِیْلٌ ج) (وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰیقف) (وَلاَ تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً ) - تمہاری حق تلفی قطعاً نہیں ہوگی اور تمہارے جو بھی اعمال ہیں ‘ انفاق ہے ‘ قتال ہے ‘ اللہ کی راہ میں ایثار ہے ‘ اس کا تمہیں بھرپور اجرو ثواب دے دیا جائے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :107 اس آیت کے تین مفہوم ہیں اور تینوں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں: ایک مفہوم یہ ہے کہ پہلے یہ لوگ خود جنگ کے لیے بے تاب تھے ۔ بار بار کہتے تھے کہ صاحب ہم پر ظلم کیا جا رہا ہے ، ہمیں ستایا جاتا ہے ، مارا جاتا ہے ، گالیاں دی جاتی ہیں ، آخر ہم کب تک صبر کریں ، ہمیں مقابلہ کی اجازت دی جائے ۔ اس وقت ان سے کہا جاتا تھا کہ صبر کرو اور نماز و زکوٰۃ سے ابھی اپنے نفس کی اصلاح کرتے رہو ، تو یہ صبر و برداشت کا حکم ان پر شاق گزرتا تھا ۔ مگر اب جو لڑائی کا حکم دے دیا گیا تو انہی تقاضا کرنے والوں میں سے ایک گروہ دشمنوں کا ہجوم اور جنگ کے خطرات دیکھ دیکھ کر سہما جا رہا ہے ۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب تک مطالبہ نماز اور زکوٰۃ اور ایسے ہی بے خطر کاموں کا تھا اور جانیں لڑانے کا کوئی سوال درمیان میں نہ آیا تھا یہ لوگ پکے دیندار تھے ۔ مگر اب جو حق کی خاطر جان جوکھوں کا کام شروع ہوا تو ان پر لرزہ طاری ہونے لگا ۔ تیسرا مفہوم یہ ہے کہ پہلے تو لوٹ کھسوٹ اور نفسانی لڑائیوں کے لیے ان کی تلوار ہر وقت نیام سے نکلی پڑتی تھی اور رات دن کا مشغلہ ہی جنگ و پیکار تھا ۔ اس وقت انہیں خونریزی سے ہاتھ روکنے اور نماز و زکوٰۃ سے نفس کی اصلاح کرنے کے لیے کہا گیا تھا ۔ اب جو خدا کے لیے تلوار اٹھانے کا حکم دیا گیا تو وہ لوگ جو نفس کی خاطر لڑنے میں شیر دل تھے ، خدا کی خاطر لڑنے میں بزدل بنے جاتے ہیں ۔ وہ دست شمشیر زن جو نفس اور شیطان کی راہ میں بڑی تیزی دکھاتا تھا اب خدا کی راہ میں شل ہوا جاتا ہے ۔ یہ تینوں مفہوم مختلف قسم کے لوگوں پر چسپاں ہوتے ہیں اور آیت کے الفاظ ایسے جامع ہیں کہ تینوں پر یکساں دلالت کرتے ہیں ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :108 یعنی اگر تم خدا کے دین کی خدمت بجا لاؤ اور اس کی راہ میں جانفشانی دکھاؤ تو یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا کے ہاں تمہارا اجر ضائع ہو جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

47: مکہ مکرَّمہ میں جب مسلمان کفار کے سخت ظلم وستم کا سامنا کررہے تھے، اس وقت بہت سے حضرات کے دِل میں یہ جذبہ پیدا ہوتا تھا کہ وہ ان کافروں سے انتقام لینے کے لئے جنگ کریں، لیکن اُس وقت اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جہاد کا حکم نہیں آیا تھا، اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کی مصلحت اس میں تھی کہ وہ صبر وضبط کی بھٹی سے گذر کر اعلی اخلاق سے آراستہ ہوں، اور پھر جہاد کریں تو وہ محض ذاتی انتقام کے جذبے سے نہ ہو بلکہ اللہ کی رضا کی خاطر ہو۔ لہٰذا اس وقت جب کچھ مسلمان جہاد کی تمنا کرتے ان سے یہی کہا جاتا تھا کہ ابھی اپنے ہاتھ روک کر رکھو اور جہاد کے بجائے نماز اور زکوٰۃوغیرہ کے احکام پر عمل کرتے رہو۔ بعد میں جب یہ حضرات ہجرت کرکے مدینہ منوّرہ آئے توجہاد فرض ہوا۔ اُس وقت چونکہ ان کی پرانی تمنا پوری ہوگئی تھی، اس لئے انہیں خوش ہونا چاہئے تھا، لیکن ان میں سے بعض حضرات کے دِل میں یہ خیال آیا کہ تقریبا تیرہ سال کی صبر آزما تکلیفوں کے بعد اب ذرا سکون اور عافیت کی زندگی میسر آئی ہے اس لئے جہاد کا حکم کچھ مزید موخر ہوجاتا تو اچھا تھا۔ ان کی یہ خواہش اﷲ تعالیٰ کے حکم پر کوئی اعتراض نہیں تھا، بلکہ بشریت کا ایک تقاضا تھا ،لیکن اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں اس پر تنبیہ فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ کے برگزیدہ صحابہ کا مقام اس بات سے بلند ہونا چاہئے کہ وہ کسی وقت دُنیاوی راحت وآرام کو اتنی اہمیت دیں کہ اس کے خاطر آخرت کے فوائد کو کچھ عرصے کے لئے ہی سہی موخر کرنے کی آرزو کرنے لگیں۔