Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

78۔ 1 ایسے کمزور مسلمانوں کو سمجھانے کے لئے کہا جا رہا ہے کہ ایک تو یہ دنیا فانی ہے اور اس کا فائدہ عارضی ہے جس کے لئے تم کچھ مہلت طلب کر رہے ہو۔ اس کے مقابلے میں آخرت بہت بہتر اور پائیدار ہے جس کے اطاعت الٰہی کے صلے میں تم سزاوار ہوگے۔ دوسرے یہ جہاد کرو یا نہ کرو، موت تو اپنے وقت پر آکر رہے گی چاہے تم مضبوط قلعوں میں بند ہو کر بیٹھ جاؤ پھر جہاد سے گریز کا کیا فائدہ ؟ مضبوط برجوں سے مراد مضبوط اور بلند وبالا فصیلوں والے قلعے ہیں۔ 78۔ 2 یہاں سے پھر منافقین کی باتوں کا ذکر ہو رہا ہے۔ سابقہ امت کے منکرین کی طرح انہوں نے بھی کہا کہ بھلائی (خوش حالی، غلے کی پیداوار، مال اولاد کی فروانی وغیرہ) اللہ کی طرف سے ہے اور برائی (قحط سالی، مال و دولت میں کمی وغیرہ) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیری طرف سے ہے یعنی تیرے دین اختیار کرنے کے نتیجے میں آئی ہے۔ جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور قوم فرعون کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب انہیں بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں، یہ ہمارے لئے ہے، یعنی ہم اس کے مستحق ہیں اور جب کوئی برائی پہنچتی ہے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے پیروکاروں سے بدشگوفی پکڑتے ہیں یعنی نعوز باللہ ان کی نحوست کا نتیجہ بتلاتے ہیں۔ (الاعراف۔ 131) 78۔ 3 یعنی بھلائی اور برائی دونوں اللہ کی طرف سے ہی ہے لیکن یہ لوگ قلت فہم و علم اور کثرت جہل اور ظلم کی وجہ سے اس بات کو سمجھ نہیں پاتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٨] موت اپنے وقت پر ہی آئے گی اور آ کے رہے گی : یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا مسلمان تو درکنار کوئی کافر بھی انکار نہیں کرتا۔ یہاں اس حقیقت کے ذکر کا مقصود یہ ہے کہ اگر یہ کمزور دل مسلمان اس حقیقت کو ہر وقت سامنے رکھیں تو لڑائی سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ موت کا وقت بھی مقرر ہے اور جگہ بھی۔ لہذا اگر وہ تمہارا مقدر ہوچکی ہے تو گھر پر بھی یقینا آ کے رہے گی اور اگر تمہاری زندگی ابھی باقی ہے تو پھر میدان جنگ میں بھی یقینا موت نہیں آئے گی۔ اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ خطاب منافقین کو ہے جو جنگ احد میں شکست دیکھ کر اپنے بھائی بندوں سے کہتے تھے کہ اگر تم ہماری بات مان لیتے تو تمہارے عزیز اس لڑائی میں نہ مارے جاتے۔ اور یہ قول اس لحاظ سے درست معلوم ہوتا ہے کہ اسی آیت میں آگے منافقوں سے ہی خطاب ہے۔- [١٠٩] مصیبت کو رسول کی طرف منسوب کرنے والے :۔ یہ خطاب منافقوں سے ہے جس میں ان کے ساتھی یہود بھی شامل تھے۔ اگر انہیں کوئی راحت اور سکون کے لمحات میسر آتے اور خوشی نصیب ہوتی جیسے غلہ کی ارزانی یا جنگ میں مال غنیمت ہاتھ آتا تو اسے تو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے کہتے کہ یہ اللہ کا فضل و کرم ہے اور اگر کوئی دکھ یا مصیبت پہنچے، تو پھر یہ الزام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لگاتے اور کہتے کہ یہ آپ کی بےتدبیری یا غلط تدبیر کا نتیجہ ہے۔ جیسا کہ جنگ احد کے موقعہ پر شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اور خود اپنے آپ کو ہر طرح سے بری الذمہ قرار دیتے۔ اگر منافق یوں سمجھتے کہ اگر فتح ہوتی ہے تو وہ بھی آپ کی حسن تدبیر سے آپ کے ذریعہ اور آپ کی برکت سے ہوتی ہے تب بھی بات کسی حد تک درست بن جاتی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ فائدہ ہو یا نقصان سب کچھ اللہ کی ہی طرف سے ہوتا ہے اور یہ مسلمانوں کے عقیدہ کا ایک اہم جزو ہے اور اس پر واضح دلیل یہی آیت ہے۔ نیز فرمایا ( وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ 96؀) 37 ۔ الصافات :96) اللہ نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور ان اعمال کو بھی جو تم کرتے ہو یعنی اگر فائدہ یا تکلیف کو اعمال ہی کا نتیجہ قرار دیا جائے تب بھی چونکہ تمہارے اعمال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے لہذا نفع و نقصان بھی اللہ ہی کی طرف سے ہوا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ایک عبرت ناک واقعہ :- این ماتکونوا یدرککم الموت الخ اللہ تعالیٰ نے اس آیت جہاد سے رکنے والوں کے اس شبہ کا ازالہ کردیا کہ شاید جہاد سے جان بچا کر موت سے بھی بچ سکتے ہیں، اس لئے فرمایا کہ موت ایک دن آ کر رہے گی، خواہ تم جہاں کہیں بھی ہو وہیں موت آئے گی، جب یہ بات ہے تو تمہارا جہاد سے منہ پھیرنا بیکار ہے۔ - حافظ ابن کثیر نے اس آیت کے ذیل میں ایک عبرت ناک واقعہ بروایت ابن جریرو ابن ابی حاتم عن مجاہد لکھا ہے کہ پہلی امتوں میں ایک عورت تھی، اس کو جب وضع حمل کا وقت شروع ہوا اور تھوڑی دیر کے بعد بچہ پیدا ہوا تو اس نے اپنے ملازم کو آگ لینے کے لئے بھیجا، وہ دروازہ سے نکل ہی رہا تھا کہ اچانک ایک آدمی ظاہر ہوا اور اس نے پوچھا کہ یہ عورت کیا جنتی ہے ؟ ملازم نے جواب دیا کہ ایک لڑکی ہے، تو اس آدمی نے کہا کہ آپ یاد رکھئے یہ لڑکی سو مردوں سے زنا کرے گی اور آخر ایک مکڑی سے مرے گی، ملازم یہ سن کر واپس ہوا اور فوراً ایک چھری لے کر اس لڑکی کا پیٹ چاک کردیا اور سوچا کہ اب یہ مر گئی ہے تو بھاگ گیا، مگر پیچھے لڑکی کی ماں نے ٹانکے لگا کر اس کا پیٹ جوڑ دیا، یہاں تک کہ وہ لڑکی جوان ہوگئی اور خوب صورت اتنی تھی کہ اس شہر میں وہ بےمثال تھی اور اس ملازم نے بھاگ کر سمندر کی راہ لی، اور کافی عرصہ تک مال و دولت کماتا رہا اور پھر شادی کرنے کے لئے واپس شہر آیا اور یہاں اس کو ایک بڑھیا ملی تو اس سے ذکر کیا کہ میں ایسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں جس سے زیادہ خوبصورت اس شہر میں اور کوئی نہ ہو، اس عورت نے کہ کہا کہ فلاں لڑکی سے زیادہ کوئی خوبصورت نہیں ہے، آپ اسی سے شادی کرلیں، آخر کار کوشش کی اور اس سے شادی کرلی، تو اس لڑکی نے مرد سے دریافت کیا کہ تم کون ہو ؟ اور کہاں رہتے ہو ؟ اس نے کہا کہ میں اسی شہر کا رہنے والا ہوں، لیکن ایک لڑکی کا میں پیٹ چاک کر کے بھاگ گیا تھا، پھر اس نے پورا واقعہ سنایا، یہ سن کر وہ بولی کہ وہ لڑکی میں ہی ہوں یہ کہہ کر اس نے اپنا پیٹ دکھایا جس پر نشان موجود تھا، یہ دیکھ کر اس مرد نے کہا کہ اگر تو وہی عورت ہے تو تیرے متعلق دو باتیں بتلاتا ہوں، ایک یہ کہ تو سو مردوں سے زنا کرے گی، اس پر عورت نے اقرار کیا کہ ہاں مجھ سے ایسا ہوا ہے، لیکن تعداد یاد نہیں، مرد نے کہا تعداد سو ہے، دوسری بات یہ کہ تو مکڑی سے مرے گی۔- مرد نے اس کے لئے ایک عالی شان محل تیار کرایا جس میں مکڑی کے جالے کا نام تک نہ تھا ایک دن اسی میں لیٹے ہوئے تھے کہ دیوار پر ایک مکڑی نظر آئی عورت بولی کیا مکڑی یہی ہے جس سے تو مجھے ڈراتا ہے ؟ مرد نے کہا ہاں اس پر وہ فوراً اٹھی، اور کہا کہ اس کو تو میں فوراً مار دوں گی، یہ کہہ کر اس کو نیچے گرایا اور پاؤں سے مسل کر ہلاک کردیا۔- مکڑی تو ہلاک ہوگئی لیکن اس کے زہر کی چھینٹیں اس کے پاؤں اور ناخنوں پر پڑگئیں، جو اس کی موت کا پیغام بن گئیں۔ (ابن کثیر)- یہ عورت صاف سھترے شاندار محل میں اچانک ایک مکڑی کے ذریعہ ہلاک ہوگئی اسکے بالمقابل کتنے ایسے آدمی ہیں کہ عمر بھر جنگوں اور معرکوں میں گذار دی وہاں موت نہ آئی، حضرت خالد بن ولید جو اسلام کے سپاہی اور جرنیل معروف و مشہور ہیں اور سیف اللہ ان کا لقب ہے پوری عمر شہادت کی تمنا میں جہاد میں مصروف رہے اور ہزاروں کافروں کو تہہ تیغ کیا، ہر خطرے کی وادی کو بےخوف و خطر عبور کیا اور ہمیشہ یہی دعا کرتے تھے کہ میری موت عورتوں کی طرح چارپائی پر نہ ہو، بلکہ ایک نڈر سپاہی کی طرح میدان جہاد میں ہو، لیکن آخر کار ان کی موت بستر پر ہی ہوئی، اس سے معلوم ہوا کہ زندگی اور موت کا نظام قادر مطلق نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھا ہے، جب وہ چاہے تو آرام کے بستر پر ایک مکڑی کے ذریعہ مار دے اور بچانا چاہے تو تلواروں کی چھاؤں میں بچا لے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَـيَّدَۃٍ۝ ٠ۭ وَاِنْ تُصِبْھُمْ حَسَـنَۃٌ يَّقُوْلُوْا ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِ اللہِ۝ ٠ۚ وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَيِّئَۃٌ يَّقُوْلُوْا ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِكَ۝ ٠ۭ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللہِ۝ ٠ۭ فَمَالِ ہٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَہُوْنَ حَدِيْثًا۝ ٧٨- أين - أَيْنَ لفظ يبحث به عن المکان، كما أنّ «متی» يبحث به عن الزمان، والآن : كل زمان مقدّر بين زمانین ماض ومستقبل، نحو : أنا الآن أفعل کذا، وخصّ الآن بالألف واللام المعرّف بهما ولزماه، وافعل کذا آونة، أي : وقتا بعد وقت، وهو من قولهم : الآن .- وقولهم : هذا أوان ذلك، أي : زمانه المختص به وبفعله .- قال سيبويه رحمه اللہ تعالی: الآن آنك، أي : هذا الوقت وقتک .- وآن يؤون، قال أبو العباس رحمه اللہ :- ليس من الأوّل، وإنما هو فعل علی حدته .- والأَيْنُ : الإعياء، يقال : آنَ يَئِينُ أَيْناً ، وکذلك : أنى يأني أينا : إذا حان .- وأمّا بلغ إناه فقد قيل : هو مقلوب من أنى، وقد تقدّم .- قال أبو العباس : قال قوم : آنَ يَئِينُ أَيْناً ، والهمزة مقلوبة فيه عن الحاء، وأصله : حان يحين حينا، قال : وأصل الکلمة من الحین .- این ( ظرف ) یہ کلمہ کسی جگہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے جیسا کہ لفظ متی ، ، زمانہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے ( ا ی ن ) الاین ( ض) کے معنی تھک کر چلنے سے عاجز ۔ ہوجانا کے ہیں آن یئین اینا اور انیٰ یانی ان یا کے معنی کسی چیز کا موسم یا وقت آجانا کے ہیں اور محاورہ میں بلغ اناہ کے متعلق بعض نے کہا ہے کہ انیٰ ( ناقص) سے مقلوب ہے جیسا کہ پہلے گزچکا ہے ۔ ابوالعباس نے کہا ہے کہ آن مقلوب ( بدلاہوا ) ہے اور اصل میں حان یحین حینا ہے اور اصل کلمہ الحین ہے ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - برج - البُرُوج : القصور، الواحد : بُرْج، وبه سمّي بروج السماء لمنازلها المختصة بها، قال تعالی:- وَالسَّماءِ ذاتِ الْبُرُوجِ [ البروج 1] ، وقال تعالی: تَبارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّماءِ بُرُوجاً [ الفرقان 61] ، وقوله تعالی: وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ [ النساء 78] يصح أن يراد بها بروج في الأرض، وأن يراد بها بروج النجم، ويكون استعمال لفظ المشیدة فيها علی سبیل الاستعارة، - ( ب ر ج ) البروج - یہ برج کی جمع ہے جس کے معنی قصر کے بین اسی مناسبت سے ستاروں کے مخصوص منازل کو بروج کہا گیا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَالسَّماءِ ذاتِ الْبُرُوجِ [ البروج 1] آسمان کی قسم جس میں برج ہیں ۔ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّماءِ بُرُوجاً [ الفرقان 61] جس نے آسمان میں برج بنائے ۔ اور یہ آیت کریمہ ؛۔ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ [ النساء 78] خواہ بڑے بڑے محلوں میں ہو ۔ میں بروج سے مضبوط قلعے اور محلات بھی مراد ہوسکتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ستاروں کی برجیں مراد ہوں اور صورت میں بروج کے ساتھ فقط مشیدۃ کا استعمال بطور استعارہ ہوگا - شيد - قال عزّ وجل : وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج 45] ، أي : مبنيّ بِالشِّيدِ. وقیل : مطوّل، وهو يرجع إلى الأوّل . ويقال : شَيَّدَ قواعده : أحكمها، كأنه بناها بِالشِّيدِ ، والْإِشَادَةُ : عبارة عن رفع الصّوت .- ( ش ی د ) المشید ( پلستر کیا ہوا ، بلند ) قرآن میں ہے : ۔ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج 45] اور بہت سے بلند محل ہیں ۔ تو مشید کے معنی یا تو پلستر کی ہوئی عمارت کے ہیں اور یا مطول یعنی بلند کے ہیں اگر چہ یہ بھی مآل کے لحاظ سے پہلے معنی کی طرف راجع ہے محاورہ ہے شید قواعدہ اس کی بنیادوں کو اسی طرح محکم بنایا جیسے گچ کی ہوئی ہوتی ہیں ۔ الاشادۃ ( افعال ) کے معنی ( بلند آواز سے شعر پڑھنا یا گانا ) کے ہیں ۔- حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - كَادَ- ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء 73] ، تَكادُ السَّماواتُ- [ مریم 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال - قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس .- ( ک و د ) کاد - ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے - - فقه - الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] - ( ف ق ہ ) الفقہ - کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔- حدیث - وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ- [يوسف 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه،- حدیث - ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔- أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٨) اے گروہ مومنین اور اے منافقین خواہ تم خشکی میں ہو یا تری میں، سفر میں ہو یا حضر میں خواہ مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ ہوں، موت سے بچاؤ کی کوئی صورت نہیں موت ضرور آئے گی، یہود اور منافقین کہتے تھے کہ جب سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اصحاب مدینہ منورہ آئے ہیں ہمارے پھلوں اور کھیتوں میں کمی ہو وہی ہے، اللہ تعالیٰ ان کا قول نقل کرکے ان کی تردید فرماتے ہیں۔- یعنی اگر منافقین اور یہودیوں کو پیداوار اور بارش کی بہتات نظر آتی ہے تو بذعم خود کہنے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر نیکی دیکھتا ہے اور اگر قحط اور تنگی اور نرخ وغیرہ میں گرانی ہوتی ہے تو العیاذ باللہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام سے شگون لیتے ہوئے انکی طرف منسوب کرتے ہیں۔- اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان یہودیوں اور منافقین سے فرما دیجیے کہ فراخی اور تنگی یہ سب اللہ کے خاص قانون اور اس کی حکمت ہے انکو کیا ہوا کہ یہ بات بھی نہیں سمجھتے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو جو کچھ فراخی پیداوار کی کثرت اور نرخ میں کمی آتی ہے۔ ، یہ سب اللہ تعالیٰ کے انعامات ہیں۔- اس مقام پر مخاطب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں مگر مراد تمام انسان ہیں اور جب آپ کو قحط سالی اور تنگی اور نرخ کی گرانی کا سامنا ہوتا ہے، یہ آپ کے نفس کی پاکیزگی کی وجہ سے ہے کہ اس آزمایش کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی جانب سے اہل ایمان کے نفس کو پاک کیا جاتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٨ (اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ ) - ظاہر ہے قتال سے جی چرانے کا اصل سبب موت کا خوف تھا۔ چناچہ ان کے دلوں کے اندر جو خوف تھا اسے ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ان پر واضح کیا جا رہا ہے کہ موت سے کوئی مفر نہیں ‘ تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمہیں پالے گی۔- (وَلَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ط) ۔- اگرچہ تم بہت مضبوط ( ) قلعوں کے اندر اپنے آپ کو محصور کرلو۔ پھر بھی موت سے نہیں بچ ‘ سکتے۔- (وَاِنْ تُصِبْہُمْ حَسَنَۃٌ یَّقُوْلُوْا ہٰذِہِ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ج) ۔- منافقین کا ایک طرز عمل یہ بھی تھا کہ اگر مسلمانوں کو کوئی کامیابی حاصل ہوجاتی ‘ فتح نصیب ہوجاتی ‘ کوئی اور بھلائی پہنچ جاتی ‘ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تدبیر کے اچھے نتائج نکل آتے تو اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب نہیں کرتے تھے ‘ بلکہ کہتے تھے کہ یہ اللہ کا فضل و کرم ہوا ہے ‘ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔- (وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّءَۃٌ یَّقُوْلُوْا ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِکَ ط) - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ غلط اقدام کیا تو اس کے نتیجے میں ہم پر یہ مصیبت آگئی۔ یہ آپ کا فیصلہ تھا کہ کھلے میدان میں جا کر جنگ کریں گے ‘ ہم نے تو آپ کو مشورہ دیا تھا کہ مدینے کے اندر محصور ہو کر جنگ کریں۔- (قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ ط ) ۔- یہ سب چیزیں ‘ خیر ہو ‘ شر ہو ‘ تکلیف ہو ‘ آسانی ہو ‘ مشکل ہو ‘ جو بھی صورتیں ہیں سب اللہ کی طرف سے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :109 یعنی جب فتح و ظفر اور کامیابی و سرخروئی نصیب ہو تی ہے تو اسے اللہ کا فضل قرار دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے ان پر یہ فضل نبی ہی کے ذریعہ سے فرمایا ہے ۔ مگر جب خود اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کے سبب سے کہیں شکست ہوتی ہے اور بڑھتے ہوئے قدم پیچھے پڑنے لگتے ہیں تو سارا الزام نبی کے سر تھوپتے ہیں اور خود بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani