83۔ 1 یہ بعض کمزور اور جلدباز مسلمانوں کا رویہ، ان کی اصلاح کی غرض سے بیان کیا جا رہا ہے۔ امن کی خبر سے مراد مسلمانوں کی کامیابی اور دشمن کی ہلاکت و شکست کی خبر ہے۔ (جس کو سن کر امن اور اطمینان کی لہر دوڑ جاتی ہے اور جس کے نتیجے میں بعض دفعہ ضرورت سے زیادہ پر اعتمادی پیدا ہوتی ہے جو نقصان کا باعث بن سکتی ہے) اور خوف کی خبر سے مراد مسلمانوں کی شکست اور ان کے قتل و ہلاکت کی خبر ہے (جس سے مسلمانوں میں افسردگی پھیلنے اور ان کے حوصلے پست ہونے کا امکان ہوتا ہے) اس لئے انہیں کہا جا رہا ہے کہ اس قسم کی خبریں، چاہے امن کی ہوں یا خوف کی انہیں سن کر عام لوگوں میں پھیلانے کے بجائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچا دو یا اہل علم و تحقیق میں انہیں پہنچا دو تاکہ وہ دیکھیں کہ یہ خبر صحیح ہے یا غلط ؟ اگر صحیح ہے تو اس وقت اس سے مسلمانوں کا باخبر ہونا مفید ہے یا بیخبر رہنا یہ اصول ویسے تو عام حالات میں بھی بڑا اہم ہے لیکن حالت جنگ میں تو اس کی اہمیت و افادیت بہت ہی زیادہ ہے۔ استنباط کا مادہ نبط ہے نبط اس پانی کو کہتے ہیں جو کنواں کھودتے وقت سب سے پہلے نکلتا ہے۔ اسی لیے استنباط تحقیق اور بات کی تہہ تک پہنچنے کو کہا جاتا ہے۔ (فتح القدیر)
[١١٥] افواہوں کی تخلیق کا حکم :۔ غزوہ احد اور غزوہ خندق کا درمیانی دور مسلمانوں کے لیے ابتلا کا دور تھا جبکہ غزوہ احد میں ایک دفعہ مسلمانوں کی شکست کی وجہ سے یہودیوں، مشرکوں، قریش مکہ اور قبائل عرب، غرض سب اسلام دشمن طاقتوں کے حوصلے بڑھے ہوئے تھے اور مدینہ پر ہر طرف ایک ہنگامی قسم کی فضا چھائی ہوئی تھی اس صورتحال سے اسلام دشمن لوگ خوب فائدہ اٹھاتے اور کبھی تو مسلمانوں کو مرعوب اور دہشت زدہ بنانے کے لیے ایسی افواہیں پھیلا دیتے کہ فلاں مقام پر مسلمانوں کے خلاف بڑا بھاری لشکر جمع ہوچکا ہے اور عنقریب وہ مدینہ پر چڑھائی کرنے والا ہے۔ اور کبھی ایسا ہوتا کہ خطرہ کی بات فی الواقع موجود ہوتی لیکن غلط بیانی اور افواہوں کی بنا پر مسلمانوں کو غافل رکھا جاتا۔ اور یہ بات صرف منافقوں یا یہودیوں تک ہی محدود نہ تھی۔ یا اس کی وجہ محض اسلام دشمنی ہی نہ ہوتی تھی بلکہ بعض لوگ ازراہ دلچسپی ایسی افواہوں کے پھیلانے میں حصہ دار بن جاتے تھے۔ اسی سلسلہ میں مسلمانوں کو تنبیہہ کی جا رہی ہے کہ وہ ایسی افواہوں میں ہرگز حصہ دار نہ بنیں بلکہ اگر کوئی افواہیں سن پائیں تو اسے حکام بالا تک پہنچا دیں تاکہ وہ صورتحال کی تحقیق کرسکیں۔- ربط مضمون کے لحاظ سے اگرچہ اس آیت کی وہی تشریح مناسب معلوم ہوتی ہے جو اوپر کردی گئی ہے۔ تاہم اس کا حکم عام ہے اور ہر موقعہ پر افواہوں کے بارے میں یہی رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ چناچہ سیدنا عمر (رض) اس آیت کا شان نزول بالکل الگ بیان کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ لوگ مسجد نبوی کے صحن میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے اور جب میں نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر اس کی تحقیق کی تو آپ نے بتایا کہ آپ نے طلاق نہیں دی۔ یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی۔ (مسلم، کتاب الطلاق۔ باب فی الایلاء نیز آپ نے فرمایا کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کی یہی دلیل کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کر دے (مسلم، مقدمہ، باب النھی عن الحدیث بکل ماسمع - [١١٦] یعنی اگر اللہ تعالیٰ تمہیں ایسی ہدایات وقت پر نہ دیتا تو تم افواہوں کی رو میں بہہ جاتے اور دینی اور دنیوی دونوں لحاظ سے نقصان اٹھاتے۔ ضمناً اس سے یہ معلوم ہوا کہ افواہوں کی تحقیق کیے بغیر انہیں آگے بیان کردینا شیطان کی اطاعت ہے جس سے طرح طرح کے فتنے رونما ہوسکتے ہیں۔
وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ ۔۔ : امن کی خبر یہ کہ مسلمانوں کو فتح ہوئی، یا دشمن کا لشکر واپس چلا گیا، جس سے مسلمان بےفکر ہو کر تیاری کم کردیں وغیرہ اور خوف کی خبر یہ کہ فلاں مقام پر مسلمانوں کو شکست ہوئی، یا دشمن بہت بڑی تعداد میں حملہ آور ہونے والا ہے، جس سے مسلمانوں میں خوف و ھر اس پھیلے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کے مختلف سرایا (جنگی دستے) لڑائی کے لیے بھیجتے رہتے تھے، اس لیے اس قسم کی افواہیں مدینہ میں اکثر پہنچتی رہتی تھیں، لیکن منافقین اور بےاحتیاط قسم کے مسلمان بجائے اس کے کہ انھیں سب سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے دار اصحاب تک پہنچائیں، از خود ان افواہوں کی تشہیر شروع کردیتے، ان کے اسی طرز عمل کی یہاں مذمت کی جا رہی ہے۔ (فتح القدیر۔ قرطبی) - 2 یستنبطونہ : اس کا مادہ ” نَبْطٌ“ ہے۔ ” نَبْطٌ“ وہ پانی ہے جو کنواں کھودتے وقت سب سے پہلے نکلتا ہے، اس لیے ” استنباط “ تحقیق اور بات کی تہ تک پہنچنے کو کہا جاتا ہے، اسی طرح مخفی بات کی حقیقت معلوم اور ظاہر کرنے کو بھی ” نَبْطٌ“ اور ” اِسْتِنْبَاطٌ“ کہا جاتا ہے۔ کان کی گہرائی سے کوئی معدن نکالنے کو بھی ” اِسْتِنْبَاطٌ“ کہتے ہیں۔ ( لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ ) مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ اگر امن یا خوف کی وہ خبر بلاتحقیق پھیلانے کے بجائے اللہ کے رسول اور مسلمانوں کے امراء کو پہنچاتے تو سب سے پہلے وہ غور و خوض اور تحقیق کر کے معلوم کرتے کہ خبر صحیح بھی ہے یا غلط، کیونکہ بلا تحقیق آگے بات کرنے کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جھوٹ قرار دیا ہے، چناچہ فرمایا : (کَفٰی بالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَّا سَمِعَ ) [ مسلم، المقدمۃ، باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع : ٥ ]” آدمی کو جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ جو کچھ سنے ( بلا تحقیق) آگے بیان کر دے۔ “ پھر وہ ذمے دار حضرات فیصلہ کرتے کہ اس خبر کی اشاعت کرنی چاہیے یا نہیں، اس کے بعد اگر وہ قابل اشاعت ہوتی تو اسے نشر کرتے، ورنہ روک دیتے۔ انفرادی زندگی میں عموماً اور اجتماعی زندگی میں خصوصاً اس ہدایت پر عمل نہایت ضروری ہے، ورنہ اس بےاحتیاطی کے بیحد نقصانات ہوسکتے ہیں، بالخصوص جنگ کے ایام میں، جب جبکہ خبریں اور افواہیں فوجی کاروائیوں سے بڑھ کر تاثیر رکھتی ہیں، خبروں کے محاذ کو بھی جنگ کا زبردست محاذ سمجھ کر اس کے مطابق معاملہ کرنا چاہیے۔ - 3 اِلَّا قَلِيْلًا شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں کہ یہ جو فرمایا : ” اگر اللہ کا فضل تم پر نہ ہوتا تو شیطان کے پیچھے چلتے مگر تھوڑے “ یعنی ہر وقت احکام تربیت کے نہ پہنچتے رہیں تو کم لوگ ہدایت پر قائم رہیں۔ (موضح)
خلاصہ تفسیر - اور جب ان کو کسی امر (جدید) کی خبر پہنچتی ہے خواہ (وہ امر موجب) امن ہو یا (موجب) خوف (مثلاً کوئی لشکر مسلمانوں کا کسی جگہ جہاد کے لئے گیا، اور ان کے غالب ہونے کی خبر آئی، یہ امن کی خبر ہوئی، یا انکے مغلوب ہونے کی خبر آئی یہ خوف کی خبر ہے) تو اس (خبر) کو فوراً مشہور کردیتے ہیں (حالانکہ بعض اوقات وہ غلطی نکلتی ہے اور اگر صحیح بھی ہوئی تب بھی بعض اوقات اس کا مشہور کرنا مصلحت انتظامیہ کے خلاف ہوتا ہے اور اگر (بجائے خود مشہور کرنے کے) یہ لوگ اس (خبر) کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور جو (حضرات اکابر صحابہ) ان میں ایسے امور کو سمجھتے ہیں ان (کی رائے) کے اوپر حوالہ رکھتے (اور خود کچھ دخل نہ دیتے) تو اس (خبر کی صحت و غلط اور قابل تشہیر ہونے نہ ہونے) کو وہ حضرات تو پہچان ہی لیتے جو ان میں اس کی تحقیق کرلیا کرتے ہیں (جیسا ہمیشہ پہچان ہی لیتے ہیں پھر جیسا یہ حضرات عمل درآمد کرتے ویسا ہی ان خبر اڑانے والوں کو کرنا چاہئے تھا، ان کو دخل دینے کی کیا ضرورت ہوئی، اور نہ دخل دیتے تو کونسا کام اٹک رہا تھا ؟ آگے احکام مذکورہ سنانے کے بعد جو سر تا سر متضمن مصالح دنیویہ واخرویہ ہیں بطور منت کے مسلمانوں کو ارشاد ہے) اور اگر تم لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا (یہ خاص) فضل اور رحمت (کہ تم کو قرآن دیا اپنا پیغمبر بھیجا یہ اگر) نہ ہوتا تو تم سب کے سب) ضرر دنیوی و اخروی اختیار کر کے) شیطان کے پیرو ہوجاتے بجز تھوڑے سے آدمیوں کے (جو بدولت عقل سلیم خدا داد کے کہ وہ بھی ایک خاص فضل و رحمت ہے اس سے محفوظ رہتے ورنہ زیادہ تباہی ہی میں پڑتے، پس تم کو ایسے پیغمبر اور ایسے قرآن کو جن کی معرفت ایسے مصالح کے احکام آتے ہیں برخلاف مذکورہ منافقین کے بہت غنیمت سمجھنا چاہئے اور پوری اطاعت کرنا چاہئے۔ )- معارف و مسائل - شان نزول :۔- واذا جآءھم امرمن الامن اوالخوف اذاعوابہ، ابن عباس، ضحاک اور ابو معاذ (رض) کے نزدیک یہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی اور حضرت حسن اور دوسرے اکثر حضرات کے نزدیک یہ آیت ضعیف اور کمزور مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے (روح المعانی)- علامہ ابن کثیر نے اس آیت سے متعلق واقعات نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ اس آیت کے شان نزول میں حضرت عمر بن خطاب کی حدیث کو ذکر کرنا چاہئے، وہ یہ کہ حضرت عمر (رض) کو یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے تو وہ اپنے گھر سے مسجد کی طرف آئے جب دروازہ پر پہنچے تو آپ نے سنا کہ مسجد کے اندر لوگوں میں بھی یہی ذکر ہو رہا ہے، یہ دیکھ کر آپ نے کہا کہ اس خبر کی تحقیق کرنی چاہئے، چناچہ آپ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے اور پوچھا کہ کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دی ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں حضرت عمر فرماتے ہیں کہ یہ تحقیق کرنے کے بعد میں مسجد کی طرف واپس آیا اور دروازہ پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کو طلاق نہیں دی، جو آپ لوگ کہہ رہے ہیں غلط ہے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی : واذا جآءھم امر الخ (تفسیر ابن کثیر)- بے تحقیق باتوں کا اڑانا گناہ اور بڑا فتنہ ہے :۔ - اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے بیان نہیں کرنا چاہئے، چناچہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں فرمایا : کفی بالمرء کذباً ان یحدث بکل ماسمع، ” یعنی کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنی ہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بغیر تحقیق کے بیان کر دے۔ “- ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا : من حدث بحدیث وھویری انہ کذب فھوا احد الکاذبین۔” یعنی جو آدمی کوئی ایسی بات بیان کرے جس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ یہ جھوٹی ہے تو دو جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا وہ بھی ہے۔ “ (تفسیر ابن کثیر) ولو ردوہ الی الرسول والی اولی الامرمنھم لعلمہ کہتے ہیں، کنواں کھودنے میں جو پانی پہلی مرتبہ نکلتا ہے اس کو ماء مستنبط کہتے ہیں، مگر یہاں مراد یہ ہے کہ کسی بات کی تہہ تک پہنچ کر اس کی صحیح حقیقت معلوم کرنا (قرطبی)- اول الامر کی تعیین میں متعدد اقوال ہیں، حضرت حسن، قتادہ اور ابن ابی لیلی رحمہم اللہ کے نزدیک علماء اور فقہاء مراد ہیں، حضرت سدی (رح) فرماتے ہیں کہ امراء اور حکام مراد ہیں، ابوبکر حصاص ان دونوں اقوال کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ دونوں مراد ہیں، اس لئے کہ اولی الامر کا اطلاق ان سب پر ہوتا ہے، البتہ اس پر بعض لوگ یہ شبہ کرتے ہیں کہ اولی الامر سے مراد فقہاء نہیں ہو سکتے، کیونکہ اولی الامر اپنے لفظی معنی کے اعتبار سے وہ لوگ ہیں جن کا حکم چلتا ہو اور ظاہر ہے کہ فقہاء کا یہ کام نہیں حقیقت یہ ہے کہ حکم چلنے کی دو صورتیں ہیں ایک جبر و تشدد سے وہ تو صرف اہل حکومت ہی کرسکتے ہیں دوسری صورت اعتقاد و اعتماد کی وجہ سے حکم ماننے کی ہے، وہ حضرات فقہاء ہی کو حاصل ہے جس کا مشاہدہ عام مسلمانوں کے حالات سے ہر دور میں ہوتا رہا ہے کہ دین کے معاملات میں ام مسلمان اپنے اختیار سے علماء ہی کے حکم کو واجب العمل قرار دیتے ہیں اور ازروئے شروع ان پر ان کے احکام کی اطاعت واجب بھی ہے، لہٰذا اس وجہ سے ان پر بھی اولی الامر کا اطلاق صحیح ہے (احکام القرآن للحصاص) - اس بحث کی مزید تفصیل آیت اطیعواللہ واطیعوالرسول واولی الامر منکم کے تحت بھی گذر چکی ہے۔- مسائل جدیدہ میں قیاس و اجتہاد عوام کے لئے تقلید ائمہ کا ثبوت ہے :۔- اس آیت سے معلوم ہوا کہ جن مسائل میں کوئی نصف نہ ہو ان کے احکام اجتہاد قیاس کے اصول پر قرآنی حیثیت سے نکالے جائیں، کیونکہ اس آیت میں اس بات کا حکم دیا گیا کہ مسائل جدیدہ کے حل میں اگر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں تو ان کی جانب رجوع کرو، اور اگر وہ موجود نہ ہوں تو علماء اور فقہاء کی طرف رجوع کرو، کیونکہ وہ احکام کو مستنبط کرنے کی صلاحیت تام رکھتے ہیں۔- اس بیان سے چند امور مستفاد ہوئے ہیں :- ایک یہ کہ فقہاء اور علماء کی جانب عدم نص کی صورت میں رجوع کیا جائے گا۔- دوسرے یہ کہ احکام اللہ کی دو قسمیں ہیں :- بعض وہ ہیں جو منصوص اور صریح ہیں اور بعض وہ ہیں جو غیر صریح اور مبہم ہیں جن کو آیات کی گہرائیوں میں اللہ تعالیٰ نے ودیعت کر رکھا ہے۔- تیسرے یہ کہ علماء کا یہ فریضہ ہے کہ وہ ایسے معانی کو اجتہاد اور قیاس کے ذریعے استنباط کریں۔- چھٹے یہ کہ عوام کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان مسائل میں علماء کی تقلید کریں۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی استنباط و استدلال کے مکلف تھے :۔ لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم، اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی دلائل کے ذریعہ احکام کے استنباط کے مکلف تھے، اس لئے کہ پہلی آیت میں دو آدمیوں کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا، ایک رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اور دوسرے اولوالامر کی طرف، اس کے بعد فرمایا لعلمہ الذین یستنبطونہ اور یہ حکم عام ہے، جس میں مذکورہ فریقین میں سے کسی کی تخصیص نہیں ہے، لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ آپ کی ذات بھی استنباط احکام کی مکلف تھی۔ (احکام القرآن للخصاص)- فوائد مہمہ :۔ اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ اس آیت سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ دشمن سے امن اور خوف کے بارے میں تم خود بخود خبریں نہ اڑاؤ، بلکہ جو اہل علم اور ذی رائے ہیں ان کی طرف رجوع کرو، پھر و غور و فکر کر کے جو بات بتلائیں اس پر عمل کرو، ظاہر ہے کہ مسائل حوادث سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔- تو جواب یہ ہے کہ آیت واذا جآءھم امرمن الامن اوالخوف میں دشمن کا کوئی ذکر نہیں ہے، لہٰذا امن اور خوف عام ہے، جس طرح ان کا تعلق دشمن سے ہے، اسی طرح مسائل حوادث سے بھی ہے، کیونکہ جب کوئی جدید مسئلہ عامی کے سامنے آتا ہے جس کی حلت اور حرمت کے بارے میں کوئی نص نہیں ہے، تو وہ فکر میں پڑجاتا ہے کہ کونسا پہلو اختیار کرے اور دونوں صورتوں میں نفع، نقصان کا احتمال رہتا ہے تو اس کا بہترین حل شریعت نے یہ نکالا کہ تم اہل استنباط کی طرف رجوع کرو، وہ جو بات بتلائیں اس پر عمل کرو۔ (احکام القرآن للحصاص ملخصاً )- اجتہاد و استنباط غلبہ ظن کا فائدہ دیتا ہے علم یقینی کا نہیں :۔ ٢۔ استنباط سے جو حکم فقہاء نکالیں گے اس کے بارے میں قطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ کے نزدیک قطعی طور پر یہی حق ہے، بلکہ اس حکم کے خطاء ہونے کا بھی احتمال باقی رہتا ہے، ہاں اس کے صحیح ہونے کا ظن غالب حاصل ہوجاتا ہے، جو عمل کے لئے کافی ہے۔ (احکام القرآن للحصاص و تفسیر کبیری)
وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ ٠ۭ وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ ٠ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُہٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا ٨٣- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- أمن - أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، - ( ا م ن ) الامن ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - (أذاعوا)- ، فيه إعلال بالقلب أصله أذيعوا نقلت الحرکة إلى الذال قبل الیاء فقلبت ألفا لتحرک الیاء في الأصل . اذاعوا بہ۔ وہ مشہور کردیتے ہیں ۔ اس کا تذکرہ عام کردیتے ہیں۔ اس کو شہرت دیدتے ہیں اشاعت کردیتے ہیں۔ افشا کردیتے ہیں۔ اذاعوا۔ اذاعۃ سے بمعنی شہرت دینا۔ خبر پھیلانا۔ راز ظاہر کرنا۔ ذیع مادہ۔- نبط - قال تعالی: وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ- [ النساء 83] أي : يستخرجونه منهم وهو استفعال من : أَنْبَطْتُ كذا، والنَّبْطُ : الماء المُسْتَنْبَطُ ، وفرس أَنْبَطُ : أبيض تحت الإبط، ومنه النَّبْطُ المعروفون .- ( ن ب ط ) الا ستنباط کے معنی استخراج کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ [ النساء 83] اور اس کو پیغمبر اور اپنے سرداروں کے پاس پہچاتے تو مخحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کرلیتے اور یہ انبطت کذا اسے استفعال کا صیغہ ہے جس کے اصل معنی پانی نکالنے کے ہیں اور کنواں کھودنے کے بعد جو پہلی دفعہ پانی نکالا جاتا ہے اسے نبط کہا جاتا ہے ۔ فرس انبط اسپ سفید بغل اسی سے نبط ایک مشہور قوم کا نام ہے ۔- «لَوْلَا»- يجيء علی وجهين :- أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] .- والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن .- ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو
قول باری ہے (ولوکان من عندغیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا۔ اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو لوگ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے) اختلاف کی تین صورتیں ہیں تناقض ، کی صورت میں اختلاف جس میں ایک چیز کا ثبوت دوسری چیز کے فساد کو لازم کردے۔- تفاوت کی صورت میں اختلاف جس میں ایک حصہ توفصاحت و بلاغت کی بلندیوں کو چھورہا ہو اور دوسرا حصہ انتہائی گھٹیا اور پست ہو۔ اختلاف کی یہ دونوں صورتیں قرآن سے منفی ہیں ، اور یہ چیز اس کے اعجاز کے دلائل سے ایک دلیل ہے۔- کیونکہ جب فصحاء اور بلغاء کا کوئی کلام طویل ہوتاجائے جس طرح قرآن کی طویل سورتیں ہیں تو ایسی صورت میں اس طویل کلام میں فصاحت اور بلاغت کا یکساں معیار برقرار نہیں رہتا، اور اس میں عدم یکسانیت کی بنا پر وہ تفاوت پیدا ہوجاتا ہے جس کا ہم نے ابھی ابھی ذکر کیا ہے تلاوم کی صورت میں اختلاف جس میں پورے کا پورے کلام لفظی اور معنی حسن کے لحاظ سے ایک دوسرے کے متناسب ہو۔- مثلا ق راتوں اور آیات کی مقداروں کے لحاظ سے اختلاف نیز ناسخ اور منسوخ کے احکام میں اختلاف ، اس آیت میں استدلال بالقرآن پر ابھارا گیا ہے اور اس کی ترغیب دی گئی ہے کیونکہ اس میں اس حق پر مختلف پیرایوں میں دلائل موجود ہیں جس کا اعتقاد رکھنا اور جس پر عمل کرنا ہم سب کے لیے ضروری ہے۔- مسائل پر اجتہاد واستنباط۔- قول باری ہے (ولوردوہ الی الرسول والی اولی الامر منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم، اگر یہ اس خبر کو رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائیں ، جوان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں) ۔- حسن اور قتادہ اور ابن ابی لیلی کا قول ہے کہ اولوالامر سے مراد اہل علم وفقہ ہیں سدی کا قول ہے کہ اس سے مراد مراء وعمال ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس سے دونوں مذکورہ بالاگروہ مراد لینا درست ہے کیونکہ اولوالامر کا اسم ان دونوں پر واقع ہوتا ہے۔- اگریہ کہاجائے کہ اولوالامر تو وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں لوگوں کے معاملات کو سنبھالنے اور انہیں درست رکھنے کے اختیارات ہوتے ہیں اہل علم کے ہاتھوں میں اس قسم کے اختیارات نہیں ہوتے تو ان کا شمار اولوالامر میں کیسے ہوسکے گا۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اولوالامر وہ لوگ ہیں جو لوگوں پر اختیارات رکھنے کی بنا پر ان کے معاملات کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔- فقہاء کو بھی اولوالامر کہا جاسکتا ہے کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کا علم ہوتا ہے اور دوسروں پر ان کے قول کو تسلیم کرنا لازم ہوتا ہے اس بنا پر انہیں اولوالامر کے نام سے موسوم کرنا درست ہے۔- جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہے (لیتفقھوا فی الدین ۔۔۔ تا۔۔۔۔ یحذرون۔ تاکہ باقی لوگ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتے رہیں اور تاکہ اپنی قوم والوں کو جب وہ ان کے پاس واپس آئیں ڈراتے رہیں عجیب کیا کہ وہ محتاط رہیں) ۔ اللہ تعالیٰ نے فقہاء کے انذار پر محتاط رویہ اختیار کرنا لازم قرار دیا ہے اور جنہیں انذار کیا جارہا ہے ان پر ان کے قول کو قبول کرنا ضروری قرار دیا اس بنا پر ان حضرات پر اولوالامر کے اسم کا اطلاق درست ہوگیا۔- امراء اور اعیان سلطنت کو بھی اولوالامر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اس لیے کہ یہ ان لوگوں پر اپنے احکامات نافذ کرنے کے اختیارات رکھتے ہیں جن پر انہیں بالادستی اور حکومت حاصل ہوتی ہے۔- قول باری ہے (لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم، استنباط استخراج کو کہتے ہیں ، اسی سے استنباط المیاہ والعیون (پانی نکالنا چشمے کھودنا) ماخوذ ہے اس لیے استنباط کا اسم ہراس چیز پر محمول ہوتا ہے جو کہیں سے اس طرح نکالی جائے کہ آنکھوں سے نظر آجائے یا دلوں میں اس کی معرفت حاصل ہوجائے۔- شریعت میں استنباط استدلال اور استعلام کی نظیر ہے ، اس آیت کے اندر حوادث یعنی پیش آنے والے نئے امور کے احکامات معلوم کرنے کے لیے قیاس سے کام لینے اور اپنی رائے اور اجتہاد کو بروئے کار لانے کے وجوب پر دلالت موجود ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں پیش آمدہ واقعات کو حضور کی زندگی اور صحابہ کرام کی موجودگی میں آپ کی طرف لوٹانے کا اور آپ کی وفات کے بعد یا صحابہ کرام کی آپ سے دوری کی صورت میں علماء کی طرف لوٹانے کا حکم دیا۔ لوٹانے کا یہ حکم لامحالہ ان امور سے تعلق رکھتا ہے جو منصوص نہیں ہیں کیونکہ منصوص احکامات اور امور میں کسی استنباط کی ضرورت اور حاجت پیش نہیں آتی۔- اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ کے احکامات میں سے کچھ تو وہ ہیں جو منصوص طریقے سے بیان ہوئے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو نصوص کے اندر موجود ہیں اور ہمیں اس بات کا مکلف بنایا گیا ہے کہ ہم استدلال واستنباط کے ذریعے ان احکامات کے علم تک رسائی حاصل کریں۔- اس طرح اس آیت میں کئی معانی اور احکامات موجود ہیں ، ایک یہ کہ پیش امدہ مسائل میں سے بہت سے ایسے ہوت ہیں جن کے احکام منصوص صورتوں میں موجود ہوتے ہیں اور بہت سے مسائل کے احکامات مدلول یعنی دلالت کی صورتوں میں ہوتے ہیں۔- دوم یہ کہ علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ جس مسئلے کا حکم منصوص نہ ہوا سے اس کے نظائر کی طرف لوٹا کر جومنصوص ہوں حکم کا استنباط کریں اور اس کی معرفت تک رسائی حاصل کریں۔ سوم یہ کہ عوام الناس پر یہ لازم ہے کہ پیش آمدہ مسائل کے احکام کے سلسلے میں علماء کی تقلید کریں۔- چہارم یہ کہ حضور احکام کے استنباط اور ان کے دلائل سے استدلال کے مکلف تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے معاملات کو آپ کی طرف نیز اولوالامر کی طرف لوٹانے کا حکم دیا، پھر فرمایا (لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم) اس میں استنباط واستدلال کے حکم کے ساتھ صرف اولوالامر کو مخصوص نہیں کیا بلکہ حضور کی ذات اقدس بھی اس حکم میں شامل تھی ، اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ استنباط کرنے اور استدلال کے ذریعے احکام کی معرفت تک رسائی حاصل کرنے کا کام سب کے ذمے لگایا گیا تھا۔- اگریہ کہاجائے کہ آیت میں استنباط کے سلسلے میں دیا گیا حکم پیش آمدہ مسائل کے احکام کے استنباط سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس کا تعلق صرف دشمن سے خوف اور امن کے معاملے تک محدود ہے کیونکہ قول باری ہے۔- واذاجاء ھم امر من الامن اوالخوف۔۔۔ تا۔۔۔۔۔ منھم۔ اس کا تعلق صرف ان افواہوں سے ہے جو منافقین پھیلایا کرتے تھے۔ اللہ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان افواہوں پر کان نہ دھریں اور انہیں حضور اور سمجھدار لوگوں تک پہنچادیں تاکہ خوف وہراس کی افواہوں کی صورت میں یہ افواہیں مسلمانوں کے اعصاب پر سوار ہوجائیں اور امن وسکون کی افواہوں کی صورت میں مسلمان مطمئن ہوکربیٹھ نہ رہیں اور جہاد کی تیاری نیز کافروں سے ہوشیار رہنے کے عمل کو ترک نہ کردیں۔- اس لیے آیت میں احکام حوادث کے استنباط کے جواز کے سلسلے میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے اس اعتراض کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ قول باری (واذاجاء ھم امر من الامن اوالخوف) صرف دشمنوں کے معاملے تک محدود نہیں ہے۔ کیونکہ امن اور خوف کا تعلق ان احکامات سے بھی ہوسکتا ہے جن پر مسلمان عمل پیرا ہوتے ہیں کہ ان میں مباحات کیا ہیں اور ممانعت کیا ہیں اور ان میں جائز کون کون سے احکامات ہیں اور ناجائز کون سے ہیں۔- ان تمام باتوں کا امن اور خوف سے تعلق ہے اور آیت مٰں امن اور خوف کے ذکر سے یہ دلالت حاصل نہیں ہوتی کہ ان کا دائرہ صرف ان افواہوں تک محدود ہے جو دشمن کی طرف سے امن اور خوف کے سلسلے میں اڑائی جاتی تھیں، بلکہ ان کا تمام معاملات سے تعلق ہونا درست ہے ، اس حکم کے ذریعے عوام الناس پر پابندی لگادی گئی کہ وہ پیش آمدہ مسائل کے احکام کے سلسلے میں اپنی طرف سے اباحت یا ممانعت یا ایجاب یانفی وغیرہ کی کوئی بات نہ کریں ، بلکہ ان پر ان امور کو اللہ کے رسول اور اولوالامر کی طرف لوٹا دینالازم کردیا گیا ہے تاکہ وہ منصوص احکام کے نظائر کے ذریعے استدلال کرکے ان امور کے احکامات مستنبط کرلیں۔- ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں اگر ہم معترض کی یہ بات تسلیم کرلیں کہ آیت کا نزول دشمن سے تعلق رکھنے والے امن اور خوف کے معاملے تک محدود ہے پھر بھی ہماری ذکر کردہ بات پر اس کی دلالت قائم رہے گی۔- وہ اس طرح جب جہاد کے لیے نیز دشمن کی چالوں کی توڑ کے لیے حکمت عملی استنباط کرنے کا جواز ہے کہ حالات کے مطابق کبھی صرف احتیاطی تدابیر اختیار کرلی جائیں کبھی حملہ کرنے میں پہل کرلی جائے اور کبھی پیچھے ہٹ کردفاعی مورچوں کو مضبوط بنالیاجائے اور یہ ساری کاروائیاں اس بناپر کی جائیں کہ اللہ نے ہمیں ان کا حکم دیا ہے اور اس سلسلے میں سوچ بچار کا معاملہ اولوالامر کی آراء سے اور اجتہاد کے حوالے کردیا ہے ۔- تو اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ان معاملات کے احکام ومعلوم کرنے کے لیے اجتہاد سے کام لیاجانا بھی واجب ہے جو جنگی تدبیروں ، کافروں کے خلاف جنگی کاروائیوں اور دشمن کی چالوں کے توڑ کے سلسلے میں پیش آسکتی ہیں۔ ان احکامات کے سلسلے میں اجتہاد اور عبادات نیز فروعی مسائل کے سلسلے میں پیش آمدہ واقعات کے احکام معلوم کرنے کے لیے اجتہاد اور نظائر سے استدلال میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ ان تمام کا اللہ کے احکام سے تعلق ہے۔- البتہ اجتہاد واستنباط کی ممانعت اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ مثلا ایک شخص صرف بیع وشراء کے مسائل میں اجتہاد واستنباط سے کام لینے کو تومباح سمجھتا ہو لیکن نکاح وطلاق کے مسائل میں اس کے جواز کا قئل نہ ہو نماز کے مسائل میں اس کا قائل ہو اورحج ومناسک کے مسائل میں اس سے کام لینادرست نہ سمجھتاہو اصطلاح میں اسے خلف القول کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔- اور کوئی یہ کہے کہ استنباط کا دائرہ صرف قیاس اور اجتہاد رائے تک محدود نہیں بلکہ اس میں اس دلیل سے استدلال بھی داخل ہے جس میں لغت کے لحاظ سے صرف ایک معنی کا احتمال ہو، اس کے جواب میں کہاجائیگا کہ جو دلیل ایسی ہو جس میں لغت کے لحاظ سے صرف ایک معنی کا احتمال ہو، اس کے بارے میں اہل لغت کے درمیان کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوسکتا کیونکہ صرف لفظ کے ذریعے اس کا مفہوم اخذ کیا جاسکتا ہے اس لیے یہ استنباط کے ذیل میں نہیں آتی بلکہ یہ شریعت کے خطاب سے سمجھ میں آجانے والی بات اور مفہوم کے ضمن میں آتی ہے۔- ہم بھی اسے تسلیم کرتے ہیں ، مثلا قول باری (ولاتقل لھمااف، ماں باپ کو اف تک بھی نہ کہو) اس میں ماں باپ کو مار پیٹ کرنے، برابھلا کہنے اور ان کی جان لینے ، وغیرہ کی نہی پر دلالت موجود ہے ، یہ صورت ایسی ہے کہ اس میں کوئی اختلاف رائے پیدا نہیں ہوسکتا۔- اگرمعترض کے نزدیک صرف ایک معنی کی عامل دلیل سے مراد اس قسم کے دلائل کطاب مراد ہیں تو ایسی دلیل میں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوسکتا، اور نہ ہی اسمیں استنباط کی ضرورت پیش آتی ہے۔- اگر دلیل سے معترض کی مراد یہ ہو کہ ایک چیز کا خصوصیت کے ساتھ جب ذکر ہوجائے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ اس چیز کے ماسوا دوسری تمام چیزوں کا حکم مذکورہ حکم ہے مختلف ہوگاتوا سے ہم دلیل تسلیم نہیں ہم نے اصول فقہ میں اس بحث پر پوری روشنی ڈالی ہے۔- اگر مذکورہ بالاصورت میں دلیل نام کی کوئی چیز ہوتی تو صحابہ کرام کی نظروں سے یہ پوشیدہ نہ رہتی اور پیش آمدہ واقعات کے احکام معلوم کرنے کے سلسلے میں اس سے ضرور استدلال کیا جاتا اگر صحابہ کرام ، یہ طریق کار اختیار کرتے تو ان سے یہ چیز بکثرت منقول ہوتی اور اس میں کوئی خفا باقی نہ رہتا۔- لیکن چونکہ صحابہ کرام سے اس سلسلے میں کوئی بات منقول نہیں ہے اس لیے یہ چیز معترض کے قول کے بطلان اور سقوط پر دلالت کرتی ہے۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھیے اگر معترض کی ذکر کردہ صورت استدلال کی کوئی صورت ہوتی تو بھی یہ ان احکامات میں استنباط کے ایجاب سے مانع نہ ہوتی جن تک رسائی کا ذریعہ صرف رائے اور قیاس ہے۔- کیونکہ یہ واقعہ اور پیش آمدہ مسئلہ کے اندرمعترض کی بیان کردہ دلالت کا جود نہیں ہوتا جبکہ ہمیں ایسے تمام واقعات اور مسائل کے احکامات معلوم کرنے کا حکم دیا گیا ہے جن کے بارے میں نص موجود نہیں ہوتی اس لیے جن حوادث یعنی پیش آمدہ واقعات میں ہم معترض کی بیان کردہ دلیل کی صورت نہیں پائیں گے ہم پر قیاس اور اجتہاد کے ذریعے ان کے احکامات معلوم کرنا لازم ہوگا کیونکہ ہمیں ان احکامات تک رسائی کا قیاس اور اجتہاد کے سوا اور کوئی ذریعہ ہاتھ نہیں آئے گا۔- اگریہ اعتراض کیا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمادیا (لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم) اور دوسری دلیل قیاس اپنے مدلول کے علم تک ہمیں نہیں پہنچاسکتی کیونکہ قیاس کرنے والااپنے بارے میں غلطی اور خطا کے جواز کو تسلیم کرتا ہے اور قطعی علم کے حصول کا قائل نہیں ہوتا کہ جو حکم اس نے اپنے قیاس اور اجتہاد کے ذریعے اخذ کیا ہے اللہ کے نزدیک بھی وہی حق ہے۔- تو اس پورے بیان سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ آیت میں جس استنباط کا ذکر ہے وہ قیاس اور اجتہاد کے ذریعے کیا جانے والااستنباط نہیں ہے اس اعتراض کا یہ جواب دیاجائے گا کہ معترض کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ قیاس کرنے والے کو اس بات کی قطعیت حاصل نہیں ہوتی کہ اس کا قیا س عنداللہ حق ہے ہم اس کے قائل نہیں ہیں۔- اس کی یہ وجہ کہ جس حکم تک رسائی کا ذریعہ اجتہاد ہو اس کے متعلق مجتہد کی قطعی رائے یہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اجتہاد کے نتیجے میں جس حکم تک پہنچا ہے اللہ کے نزدیک بھی وہی حق ہے۔- ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ مجتہد کے علم میں یہ بات ہوتی ہے کہ اجتہاد کے ذریعے حکم تک رسائی کا فرمان اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے۔ اس لیے پیش آمدہ واقعات کے احکامات کے استنباط کا یہ طریق کار اس علم کا موجب ہے کہ وہ اپنے اجتہاد کے ذریعے جس نیتجے پر پہنچتا ہے اور جو حکم لازم ہوا ہے وہ درست ہے۔- یہ آیت امامت کا عقیدہ رکھنے والوں کے مذہب کے بطلان پر بھی دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ دین کا ہر حکم منصوص ہوتا تو امام معصوم اس سے آگاہ ہوتا اور استنباط کی ضرورت ہی ختم ہوجاتی اور معاملات کو اولوالامر کی طرف لوٹانے کی بات بھی ساقط ہوجاتی بلکہ ان معاملات کو امام کی طرف لوٹانا واجب ہوتا جو نص کی بنا پر ان کی صحت اور عدم صحت کی پرکھ کرلیتا۔
(٨٣) اور ان منافقین کی خیانت اور بددیانتی کا یہ حال ہے کہ جب کسی لشکر کی کامیابی اور غنیمت ملنے کی ان کو اطلاع ملتی ہے تو حسد میں اسے چھپا لیتے ہیں اور اگر مجاہدین کے لشکر کے بارے میں کسی پریشان مثلا شکست کھاجانے وغیرہ کی خبران کو پہنچتی ہے تو سب جگہ اس کی تشہیر کرتے پھرتے ہیں۔- اور اگر یہ اس لشکر کی خبر کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) وغیرہ کے حوالے کردیتے ہیں، جو ایسی باتوں کو پوری گہرائی کے ساتھ سمجھتے ہیں تو اس خبر کے غلط و صحیح ہونے کو وہ حضرات پہچان ہی لیتے ہیں جو ان اہل ایمان میں ان امور کی تحقیق کرلیا کرتے ہیں تو پھر صحیح خبر ان لوگوں کو بھی معلوم ہوجاتی اور اگر اللہ کی طرف سے یہ توفیق خاص نہ ملی ہوتی تو چند لوگوں کے سوا سب ہی اس فتنہ میں گرفتار ہوجاتے۔- شان نزول : (آیت) ” واذا جآء ھم “۔ (الخ)- امام مسلم (رح) نے حضرت عمر فاروق (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ازواج مطہرات سے علیحدگی اختیار فرمائی تو میں مسجد نبوی میں گیا، وہاں صحابہ کرام (رض) کو دیکھا کہ وہ کنکریوں سے کھیل رہے ہیں (یہ اضطراب اور پریشانی کے اظہار کا ایک اضطراری طریقہ ہے) اور یہ کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازواج مطہرات کو طلاق دے دی، چناچہ میں نے مسجد کے دروازہ پر کھڑے ہو کر بہت باآواز بلند کہا کہ آپ نے اپنی ازواج کو طلاق نہیں دی اور تب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور جب ان لوگوں کو کسی امر کی خبر پہنچتی ہو، خواہ امن ہو یا خوف تو اسے مشہور کردیتے ہیں، عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں اہل ایمان کو میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے اس راز کو پہچانا۔
آیت ٨٣ ( وَاِذَا جَآءَ ہُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ ط) - منافقین کی ایک روش یہ بھی تھی کہ جوں ہی کوئی اطمینان بخش یا خطرناک خبر سن پاتے اسے لے کر پھیلا دیتے۔ کہیں سے خبر آگئی کہ فلاں قبیلہ چڑھائی کرنے کی تیاری کر رہا ہے ‘ اس کی طرف سے حملے کا اندیشہ ہے تو وہ فوراً اسے عام کردیتے ‘ تاکہ لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہوجائے۔ اِذَاعَۃکا لفظ آج کل نشریاتی ( ) اداروں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور مِذْیَاعریڈیو سیٹ کو کہا جاتا ہے۔- (وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَاِلآی اولی الْاَمْرِ مِنْہُمْ ) (لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْہُمْ ط) - اگر یہ لوگ ایسی خبروں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک یا ذمہ دار اصحاب تک پہنچاتے ‘ مثلاً اوس کے سردار سعد بن عبادہ (رض) اور خزرج کے سردار سعد بن معاذ (رض) ‘ تو یہ ان کی تحقیق کرلیتے کہ بات کس حد تک درست ہے اور اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے اور پھر جائزہ لیتے کہ ہمیں اس ضمن میں کیا قدم اٹھانا چاہیے۔ لیکن ان کی روش یہ تھی کہ محض سنسنی پھیلانے اور سراسیمگی پیدا کرنے کے لیے ایسی خبریں لوگوں میں عام کردیتے۔- (وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ ) اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :112 وہ چونکہ ہنگامہ کا موقعہ تھا اس لیے ہر طرف افواہیں اڑ رہی تھیں ۔ کبھی خطرے کی بے بنیاد مبالغہ آمیز اطلاعیں آتیں اور ان سے یکایک مدینہ اور اس کے اطراف میں پریشانی پھیل جاتی ۔ کبھی کوئی چالاک دشمن کسی واقعی خطرے کو چھپانے کے لیے اطمینان بخش خبریں بھیج دیتا اور لوگ انہیں سن کر غفلت میں مبتلا ہوجاتے ۔ ان افواہوں میں وہ لوگ بڑی دلچسپی لیتے تھے جو محض ہنگامہ پسند تھے ، جن کے لیے اسلام اور جاہلیت کا یہ معرکہ کوئی سنجیدہ معاملہ نہ تھا ، جنہیں کچھ خبر نہ تھی کہ اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ افواہیں پھیلانے کے نتائج کس قدر دور رس ہوتے ہیں ۔ ان کے کان میں جہاں کوئی بھنک پڑجاتی ہے اسے لے کر جگہ جگہ پھونکتے پھرتے تھے ۔ انہی لوگوں کو اس آیت میں سرزنش کی گئی ہے اور انہیں سختی کے ساتھ متنبہ فرمایا گیا ہے کہ افواہیں پھیلانے سے باز رہیں اور ہر خبر جو ان کو پہنچے اسے ذمہ دار لوگوں تک پہنچا کر خاموش ہو جائیں ۔
50: بعض لوگ مدینہ منورہ میں بلا تحقیق افواہیں پھیلادیا کرتے تھے جس سے معاشرہ میں بڑا نقصان ہوتا تھا یہ آیت ایسی بے تحقیق افواہوں پر یقین کرلینے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی ممانعت کررہی ہے