حکم جہاد امتحان ایمان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ تنہا اپنی ذات سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کریں چاہیے کوئی بھی آپ کا ساتھ نہ دے ، ابو اسحاق حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان اکیلا تنہا ہو اور دشمن ایک سو ہوں تو کیا وہ ان سے جہاد کرے؟ آپ نے فرمایا ہاں تو کہا پھر قرآن کی اس آیت سے تو ممانعت تاکید ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اپنے ہاتھوں آپ ہلاکت میں نہ پڑو تو حضرت براء نے فرمایا اللہ تعالیٰ اسی آیت میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے اللہ کی راہ میں لڑ تجھے فقط تیرے نفس کی تکلیف دی جاتی ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ مومنوں کو بھی اس سے مراد اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے رکنے والا ہے اور روایت میں ہے کہ جب یہ آیت ہلاکت اتری تو آپ نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا مجھے میرے رب نے جہاد کا حکم دیا ہے پس تم بھی جہاد کرو یہ حدیث غریب ہے ۔ پھر فرماتا ہے مومنوں کو دلیری دلا اور انہیں جہاد کی رغبت دلا ، چنانچہ بدر والے دن میدان جہاد میں مسلمانوں کی صفیں درست کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا اٹھو اور بڑھو اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان و زمین ہے ، جہاد کی ترغیب کی بہت سی حدیثیں ہیں ، بخاری میں ہے جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے ، صلوۃ قائم کرے ، زکوٰۃ دیتا رہے ، رمضان کے روزے رکھے اللہ پر اس کا حق ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ہو جہاں پیدا ہوا ہے وہیں ٹھہرا رہا ہو ، لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا لوگوں کو اس کی خوشخبری ہم نہ دے دیں؟ آپ نے فرمایا سنو جنت میں سو درجے ہیں جن میں سے ایک درجے میں اس قدر بلندی ہے جتنی زمین و آسمان میں اور یہ درجے اللہ نے ان کے لئے تیار کیے ہیں جو اس کی راہ میں جہاد کریں ۔ پس جب تم اللہ سے جنت مانگو تو جنت الفردوس طلب کرو وہ بہترین جنت ہے اور سب سے اعلیٰ ہے اس کے اوپر رحمٰن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی سب نہریں جاری ہوتی ہیں ، مسلم کی حدیث میں ہے جو شخص رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول و نبی ہونے پر راضی ہو جائے اس کے لئے جنت واجب ہے حضرت ابو سعید اسے سن کر خوش ہو کر کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ ارشاد ہو آپ نے دوبارہ اسی کو بیان فرما کر کہا ایک اور عمل ہے جس کے باعث اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے سو درجے بلند کرتا ہے ایک درجے سے دوسرے درجے تک اتنی بلندی ہے جتنی آسان و زمین کے درمیان ہے پوچھا وہ عمل کیا ہے؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد ۔ ارشاد ہے جب آپ جہاد کے لئے تیار ہو جائیں گے مسلمان آپ کی تعلیم سے جہاد پر آمادہ ہو جائیں گے تو پھر اللہ کی مدد شامل حال ہو گی اللہ تعالیٰ کفر کی کمر توڑ دے گا کفار کی ہمت پست کر دے گا ان کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے پھر کیا مجال کہ دنیا میں بھی انہیں مغلوب کرے اور یہیں انہیں عذاب بھی دے اسی طرح آخرت میں بھی اسی کو قدرت حاصل ہے ، جیسے اور آیت میں ہے ۔ ( وَلَوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ لَانْتَـصَرَ مِنْهُمْ وَلٰكِنْ لِّيَبْلُوَا۟ بَعْضَكُمْ بِبَعْـضٍ ) 47 ۔ محمد:4 ) اگر اللہ چاہے ان سے از خود بدلہ لے لے ، لیکن وہ ان کو اور تمہیں آزما رہا ہے ۔ جو شخص کسی امر خیر میں کوشش کرے تو اسے بھی اس خیر بھلائی کا ثواب ملے گا ، اور جو اس کے خلاف کوشش کرے اور بد نتیجہ برآمد کرے اس کی کوشش اور نیت کا اس پر بھی ویسا ہی بوجھ ہوگا ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں سفارش کرو اجر پاؤ گے اور اللہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پر وہ جاری کرے گا جو چاہے ، یہ آیت ایک دوسرے کی سفارش کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، اس مہربانی کو دیکھئے فرمایا محض شفاعت پر ہی اجر مل جائے گا خواہ اس سے کام بنے یا نہ بنے ، اللہ ہر چیز کا حافظ ہے ، ہر چیز پر حاضر ہے ، ہر چیز کا حساب لینے والا ہے ، ہر چیز پر قادر ہے ، ہر چیز کو دوام بخشنے والا ہے ، ہر ایک کو روزی دینے والا ہے ، ہر انسان کے اعمال کا اندازہ کرنے والا ہے ۔ سلام کہنے والے کو اس سے بہتر جواب دو : مسلمانو جب تمہیں کوئی مسلمان سلام کرے تو اس کے سلام کے الفاظ سے بہتر الفاظ سے اس کا جواب دو ، یا کم سے کم انہی الفاظ کو دوہرا دو پس زیادتی مستحب ہے اور برابری فرض ہے ، ابن جریر میں ہے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا السلام علیکم یا رسول اللہ آپ نے فرمایا وعلیک السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ پھر ایک صاحب آئے انہوں نے السلام علیک ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آپ نے جواب میں فرمایا وعلیک تو اس نے کہا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلاں اور فلاں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے جواب دیا کچھ زیادہ دعائیہ الفاظ کے ساتھ دیا جو مجھے نہیں دیا آپ نے فرمایا تم نے ہمارے لئے کچھ باقی ہی نہ چھوڑا اللہ کا فرمان ہے جب تم پر سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا اسی کو لوٹا دو اس لئے ہم نے وہی الفاظ لوٹا دئیے یہ روایت ابن ابی حاتم میں بھی اسی طرح مروی ہے ، اسے ابو بکر مردویہ نے بھی روایت کیا مگر میں نے اسے مسند میں نہیں دیکھا واللہ اعلم اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سلام کے کلمات میں سے زیادتی نہیں ، اگر ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس آخری صحابی کے جواب میں وہ لفظ کہہ دیتے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص حضور کے پاس آئے اور السلام علیکم یارسول اللہ کہہ کر بیٹھ گئے آپ نے جواب دیا اور فرمایا دس نیکیاں ملیں ، دوسرے آئے اور السلام علیکم ورحمتہ اللہ یا رسول اللہ کہہ کر بیٹھ گئے آپ نے فرمایا بیس نیکیاں ملیں ، پھر تیسرے صاحب آئے انہوں نے کہا السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ آپ نے فرمایا تیس نیکیاں ملیں ، امام ترمذی اسے حسن غریب بتاتے ہیں ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کو عام لیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ خلق اللہ میں سے جو کوئی سلام کرے گا اسے جواب دو گو وہ مجوسی ہو ، حضرت قتادہ فرماتے ہیں سلام کا اس سے بہتر جواب دینا تو مسمانوں کے لئے ہے اور اسی کو لوٹا دینا اہل ذمہ کے لئے ہے ، لیکن اس تفسیر میں ذرا اختلاف ہے جیسے کہ اوپر کی حدیث میں گزر چکا ہے مراد یہ ہے کہ اس کے سلام سے اچھا جواب دیں اور اگر مسلمان سلام کے سبھی الفاظ کہہ دے تو پھر جواب دینے والا انہی کو لوٹادے ، ذمی لوگوں کو خود کریں تو جواب میں اتنے ہی الفاظ کہدے ، بخاری و مسلم میں ہے جب کوئی یہودی تمہیں سلام کرے تو خیال رکھو یہ کہ دیتے ہیں السام علیک تو تم کہ دو و علیک صحیح مسلم میں ہے یہود و نصاری کو تم پہلے سلام نہ کرو اور جب راستے میں مڈ بھیڑ ہو جائے تو انہیں تنگی کی طرف مضطر کر ، امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں سلام نفل ہے اور جواب سلام فرض ہے اور علماء کرام کا فرمان بھی یہی ہے ، پس اگر جواب نہ دے گا تو گنہگار ہو گا اس لئے کہ جواب سلام کا اللہ کا حکم ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی توحید بیان فرماتا ہے اور الوہیت اور اپنا یکتا ہونا ظاہر کرتا ہے اور اس میں ضمنی مضامین بھی ہیں اسی لئے دوسرے جملے کو لام سے شروع کیا جو قسم کے جواب میں آتا ہے ، تو اگلا جملہ خبر ہے اور قسم بھی ہے کہ وہ عنقریب تمام مقدم و موخر کو میدان محشر میں جمع کرے گا اور وہاں ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا ، اس اللہ سمیع بصیر سے زیادہ سچی بات والا اور کوئی نہیں ، اس کی خبر اس کا وعدہ اس کی وعید سب سچ ہے ، وہی معبود برحق ہے ، اس کے سوا کوئی مربی نہیں ۔
[١١٧] یعنی اگر آپ ہر قت اللہ کی راہ میں لڑنے کو تیار رہیں گے اور مسلمانوں کو بھی ترغیب دیتے رہیں گے تو مسلمان یقینا آپ کے ساتھ مل کر جہاد پر کمر بستہ ہوجائیں گے۔ جس کا اثر یہ ہوگا کہ دشمن آپ کی حرکات اور سکنات دیکھ کر خود ہی لڑائی کے ارادہ سے رک جائے گا اور اگر ایسا نہ ہوا اور انہوں نے حملہ کی ٹھان لی تو اللہ ان سے نمٹنے پر قادر ہے اور انہیں خوب سزا دے سکتا ہے (جیسا کہ جنگ خندق میں فی الواقع ہوا تھا) بہرحال آپ کو جہاد کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہنا چاہیے۔
فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ ۔۔ : اوپر کی آیات میں جہاد کی ترغیب دی، اس کے بعد منافقین کی سر گرمیوں کا ذکر کیا اور اب اس آیت میں فرمایا کہ آپ ان منافقین کے ساتھ ہونے یا نہ ہونے کی پروا نہ کریں، آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ خود جہاد کے لیے نکلیں اور دوسرے مومنوں کو بھی ترغیب دیں۔ ابو اسحاق بیان کرتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے پوچھا : ” جو شخص مشرکوں پر حملہ کرتا ہے تو کیا وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتا ہے ؟ “ انھوں نے جواب دیا : ” نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مبعوث کیا اور ان سے فرمایا : ( فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ ) اور جس آیت کا آپ حوالہ دے رہے ہیں : ( وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ) [ البقرۃ : ١٩٥ ] اس کا تعلق تو اللہ کے رستے میں خرچ کرنے ( اور نہ کرنے) سے ہے۔ “ [ مسند أحمد : ٤؍٢٨١، ح : ١٨٥٠٦ ] اس سے معلوم ہوا کہ جہاد کے لیے کئی شرطیں لوگ اپنے پاس ہی سے بنا لی ہیں۔ - 2 عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ : اللہ تعالیٰ کے لیے ” عسٰی “ کا لفظ یقین کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، پس آیت میں وعدہ کیا جا رہا ہے کہ عنقریب کفار کا زور ٹوٹ جائے گا اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب ہوگا۔
خلاصہ تفسیر - (جب جہاد کی ضرورت معلوم ہوئی) پس آپ (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی راہ میں (کفار سے) قتال کیجئے (اور اگر فرضاً کوئی آپ کے ساتھ نہ ہو تو کچھ فکر نہ کیجئے کیونکہ) آپ کو بجز آپ کے ذاتی فعل کے (دوسرے شخص کے فعل کا) کوئی حکم نہیں اور (اس کے ساتھ) مسلمانوں کو (صرف) ترغیب دیدیجئے (پھر اگر کوئی ساتھ نہ دے تو آپ بری الذمہ ہیں نہ تو باز پرس کی فکر کیجئے جس کی وجہ مذکور ہوچکی اور نہ تنہا رہ جانے کا غم کیجئے جس کی وجہ یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ سے امید ہے ( اور یہ امید دلانا وعدہ ہے) کہ کافروں کے زور جنگ کو روک دیں گے (اور ان کو مغلوب کردیں گے) اور (گو یہ بڑے زور دار نظر آتے ہیں لیکن) اللہ تعالیٰ اور جنگ میں (ان سے بمداح بےشمار) زیادہ شدید (اور قوی) ہیں اور (مخالف کو) سخت سزا دیتے ہیں۔- معارف و مسائل - شان نزول :۔ جب غزوہ احد شوال میں ہوچکا تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذیقعدہ میں کفار کے وعدہ کے موافق بدر میں مقابلہ کے لئے جانا چاہا (جس کو مورخین بدر صغری کے نام سے تعبیر کرتے ہیں) اس وقت بعض لوگوں نے تازہ زخمی ہونے کی وجہ سے اور بعض نے افواہیں خبروں کی وجہ سے جانے میں کچھ تامل کیا، تو اللہ پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، جس میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت کی گئی کہ اگر یہ کچے مسلمان لڑائی سے ڈرتے ہیں تو اسے رسول تم تنہا اپنی ذات سے جہاد کرنے میں توقف مت کرو اللہ تعالیٰ تمہارا مددگار ہے، اس ہدایت کو پاتے ہی آپ ستر ہمراہیوں کے ساتھ بدر صغری کو تشریف لے گئے، جس کا وعدہ ابوسفیان کے ساتھ غزوہ احد کے بعد ہوا تھا، حق تعالیٰ نے ابوسفیان اور کفار قریش کے دل میں رعب اور خوف ڈال دیا اور کوئی مقابلہ میں نہ آیا اور وہ اپنے وعدے سے جھوٹے ہوئے، اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد کے موافق کافروں کی لڑائی کو بند کردیا اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں سمیت سلامتی کے ساتھ واپس تشریف لے آئے۔ (قرطبی، مظہری)- قرآنی احکام کا حسن اسلوب :۔ - فقاتل فی سبیل اللہ الخ اس آیت کے پہلے جملہ میں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا گیا ہے کہا آپ تن تنہا جہاد و قتال کے لئے تیار ہوجائیے، کوئی دوسرا آپ کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو یا نہ ہو، مگر ساتھ ہی دوسرے جملہ میں یہ بھی ارشاد فرما دیا کہ دوسرے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دینے کا کام بھی چھوڑیں نہیں، ترغیب کے بعد بھی وہ تیار نہ ہوں تو آپ اپنا فرض ادا کرچکے، ان کے فعل کی آپ سے بازپرس نہ ہوگی۔- اسی کے ساتھ تن تنہا جنگ کرنے میں جو خطرہ ہوسکتا تھا اس کے ازالہ کے لئے فرمایا کہ اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کی جنگ کو روک دے اور ان کو مرعوب و مغلوب کر دے اور آپ کو تنہا ہی کامیاب کر دے، پھر اس کے بعد اس کامیاب ہونے پر دلیل بیان فرمائی کہ جب اللہ تعالیٰ کی مدد آپ کے ساتھ ہے جس کی قوت جنگ اور زور جنگ ان کافروں سے بدر جہا زیادہ ہے تو پھر کامیابی بھی یقینا آپ ہی کی ہے، پھر اسی شدت باس کے ساتھ اپنی سزا کی شدت بھی بیان فرمائی، یہ سزا خواہ قیامت میں ہو جیسا کہ ظاہر ہے، یا دنیا میں ہو جیسا کہ بعض نے کہا، بہرحال جس طرح جنگ کرنے میں ہماری قوت و طاقت بڑھی ہوئی ہے اسی طرح سزا دینے میں بھی ہماری سزا بہت سخت ہے۔
فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ ٠ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ ٠ۚ عَسَى اللہُ اَنْ يَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ٠ۭ وَاللہُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّاَشَدُّ تَنْكِيْلًا ٨٤- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- كلف - وصارت الْكُلْفَةُ في التّعارف اسما للمشقّة، والتَّكَلُّفُ : اسم لما يفعل بمشقّة، أو تصنّع، أو تشبّع، ولذلک صار التَّكَلُّفُ علی ضربین :- محمود : وهو ما يتحرّاه الإنسان ليتوصّل به إلى أن يصير الفعل الذي يتعاطاه سهلا عليه، ويصير كَلِفاً به ومحبّا له، وبهذا النّظر يستعمل التَّكْلِيفُ في تكلّف العبادات .- والثاني : مذموم، وهو ما يتحرّاه الإنسان مراء اة، وإياه عني بقوله تعالی: قُلْ ما أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَما أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ [ ص 86] وقول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا وأتقیاء أمّتي برآء من التّكلّف» وقوله : لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة 286] أي : ما يعدّونه مشقّة فهو سعة في المآل . - ( ک ل ف ) التکلف ۔ کوئی کام کرتے وقت شیفتگی ظاہر کرنا باوجودیکہ اس کے کرنے میں شفقت پیش آرہی ہو اس لئے عرف میں کلفت مشقت کو کہتے ہیں اور تکلف اس کام کے کرنے کو جو مشقت تصنع یا اوپرے جی سے دکھلادے کے لئے کہا جائے - اس لئے تکلیف دو قسم پر ہے - محمود اور مذموم اگر کسی کا م کو اس لئے محنت سے سر انجام دے کہ وہ کام اس پر آسان اور سہل ہوجائے اور اسے اس کام کے ساتھ شیفتگی اور محبت ہوجائے تو ایسا تکلف محمود ہے چناچہ اسی معنی میں عبادات کا پابند بنانے میں تکلیف کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اور اگر وہ تکلیف محض ریا کاری کے لئے ہو تو مذموم ہے ۔ چناچہ آیت : قُلْ ما أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَما أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ [ ص 86] اور اے پیغمبر ) کہہ دو کہ میں تم سے اس کا صلہ نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں میں ہوں ۔ میں تکلیف کے یہی معنی مراد ہیں اور حدیث میں ہے (99) انا واتقیاء امتی برآء من التکلف کہ میں اور میری امت کے پرہیز گار آدمی تکلف سے بری ہیں اور آیت ؛لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة 286] خدا کسی شخص کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ جن احکام کو یہ مشقت سمجھتے ہیں وہ مآل کے لحاظ سے ان کے لئے وسعت کا باعث ہیں - حرض - الحَرَض : ما لا يعتدّ به ولا خير فيه، ولذلک يقال لما أشرف علی الهلاك : حَرِضَ ، قال عزّ وجلّ : حَتَّى تَكُونَ حَرَضاً [يوسف 85] ،- ( ح ر ض ) الحرض - اس چیز کو کہتے ہیں جو نکمی ہوجائے اس لئے جو چیز قریب بہ ہلاکت ہوجائے اس کے متعلق حرض کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ حَتَّى تَكُونَ حَرَضاً [يوسف 85] یا تو قریب بہ ہلاکت - ہوجاؤ گے ۔- عسی - عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] ، أي : کونوا راجین - ( ع س ی ) عسیٰ- کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے - كف - الْكَفُّ : كَفُّ الإنسان، وهي ما بها يقبض ويبسط، وكَفَفْتُهُ : أصبت كَفَّهُ ، وكَفَفْتُهُ : أصبته بالکفّ ودفعته بها . وتعورف الکفّ بالدّفع علی أيّ وجه کان، بالکفّ کان أو غيرها حتی قيل : رجل مَكْفُوفٌ لمن قبض بصره، وقوله تعالی: وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ 28] أي : كافّا لهم عن المعاصي، والهاء فيه للمبالغة کقولهم : راوية، وعلّامة، ونسّابة، وقوله :- وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة 36] قيل : معناه : كَافِّينَ لهم كما يقاتلونکم کافّين «2» ، وقیل : معناه جماعة كما يقاتلونکم جماعة، وذلک أن الجماعة يقال لهم الکافّة، كما يقال لهم الوازعة لقوّتهم باجتماعهم، وعلی هذا قوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] ، وقوله : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] فإشارة إلى حال النادم وما يتعاطاه في حال ندمه . وتَكَفَّفَ الرّجل : إذا مدّ يده سائلا، واسْتَكَفَّ : إذا مدّ كفّه سائلا أو دافعا، واسْتَكَفَّ الشمس : دفعها بكفّه، وهو أن يضع کفّه علی حاجبه مستظلّا من الشمس ليرى ما يطلبه، وكِفَّةُ المیزان تشبيه بالکفّ في كفّها ما يوزن بها، وکذا كِفَّةُ الحبالة، وكَفَّفْتُ الثوب : إذا خطت نواحيه بعد الخیاطة الأولی.- ( ک ف ف ) الکف - کے معنی ہاتھ کی ہتھیلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ الکف کے معنی ہاتھ کی ہتھلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ کففتہ کے اصل معنی کسی کی ہتھیلیپر مارنے یا کسی کو ہتھلی کے ساتھ مار کر دو ر ہٹا نے اور روکنے کے ہیں پھر عرف میں دور ہٹانے اور روکنے کے معنی میں استعمال ہونے لگانے خواہ ہتھلی سے ہو یا کسی اور چیز سے رجل مکفو ف البصر جس کی مینائی جاتی رہی ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ 28] اور ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے تم کو گناہوں سے روکنے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ میں کافۃ کے معنی لوگوں کو گناہوں سے روکنے والا کے ہیں ۔ اس میں ہا مبالغہ کے لئے ہے ۔ جیسا کہ روایۃ وعلامۃ اور نشابۃ میں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة 36] اور تم سب کے سب مشرکون سے لڑو جیسے وہسب کے سب تم سے لڑتے ہیں میں بعض نے دونوں جگہوں میں کا فۃ کے معنیکا فین یعنی روکنے والے کیے ہیں ۔ اور بعض نے یہ معنی کیا ہے ۔ کہ جماعۃ یعنی اجتماعی قوت کی وجہ سے اسے کافۃ بھی کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] مومنوں اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ میں بھی کافۃ بمعنی جماعت ہی ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ پشمان ہونے والے کی حالت کی طرف اشارہ ہے ۔ کیونکہ انسان پشمانی کی حالت میں ہاتھ ملتا ہے ۔ تکفف الرجل سوال کے لئے ہاتھ پھیلانا استکف سوال یا مدافعت کیلئے ہاتھ پھیلانا استکف الشمس ہتھلی کے ذریعہ دھوپ کو دفع کرتا اور وہ اس طرح کہ دھوپ کی شعا عوں کو روکنے کے لئے ابرؤں پر بطور سایہ ہاتھ رکھ لے تاکہ جس چیز کو دیکھنا مطلوب ہو آسانی سے دیکھی جا سکے ۔ کفۃ المیزان ترازو کا پلڑا ۔ کیونکہ وہ بھی موزوں چیز کو روک لینے میں ہتھیلی کے مشابہ ہوتا ہے ۔ ایسے ہی کفۃ الحبالۃ ہے جس کے معنی شکاری کے پھندا کے ہیں ۔ کففت التوب ۔ کچی سلائی کے بعد کپڑے کے اطراف کو سینا ۔- بؤس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ : الشدة والمکروه، إلا أنّ البؤس في الفقر والحرب أكثر، والبأس والبأساء في النکاية، نحو : وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْساً وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا [ النساء 84] ، فَأَخَذْناهُمْ بِالْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ [ الأنعام 42] ، وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ [ البقرة 177] ، وقال تعالی: بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، وقد بَؤُسَ يَبْؤُسُ ، وبِعَذابٍ بَئِيسٍ [ الأعراف 165] ، فعیل من البأس أو من البؤس، فَلا تَبْتَئِسْ [هود 36] ، أي : لا تلزم البؤس ولا تحزن،- ( ب ء س) البؤس والباس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ ۔ تینوں میں سختی اور ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں مگر بؤس کا لفظ زیادہ تر فقرو فاقہ اور لڑائی کی سختی پر بولاجاتا ہے اور الباس والباساء ۔ بمعنی نکایہ ( یعنی جسمانی زخم اور نقصان کیلئے آتا ہے قرآن میں ہے وَاللهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا ( سورة النساء 84) اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ ( سورة الأَنعام 42) پھر ( ان کی نافرمانیوں کے سبب ) ہم انہیوں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ( سورة البقرة 177) اور سختی اور تکلیف میں اور ( معرکہ ) کا رزا ر کے وقت ثابت قدم رہیں ۔۔ بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ( سورة الحشر 14) ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ بؤس یبوس ( باشا) بہادر اور مضبوط ہونا ۔ اور آیت کریمہ ۔ بِعَذَابٍ بَئِيسٍ ( سورة الأَعراف 165) بروزن فعیل ہے اور یہ باس یابوس سے مشتق ہے یعنی سخت عذاب میں اور آیت کریمہ ؛۔ فَلَا تَبْتَئِسْ ( سورة هود 36) کے معنی یہ ہیں کہ غمگین اور رنجیدہ رہنے کے عادی نہ بن جاؤ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- نكل - يقال : نَكَلَ عَنِ الشَّيْءِ : ضَعُفَ وعَجَزَ ونَكَلْتُهُ : قَيَّدْتُهُ ، والنِّكْلُ : قَيْدُ الدَّابَّةِ ، وحدیدةُ اللِّجَامِ ، لکونهما مانِعَيْنِ ، والجمْعُ : الأَنْكَالُ. قال تعالی: إِنَّ لَدَيْنا أَنْكالًا وَجَحِيماً [ المزمل 12] ونَكَّلْتُ به : إذا فَعَلْتُ به ما يُنَكَّلُ به غيرُه، واسم ذلک الفعل نَكَالٌ. قال تعالی: فَجَعَلْناها نَكالًا لِما بَيْنَ يَدَيْها وَما خَلْفَها[ البقرة 66] ، وقال : جَزاءً بِما كَسَبا نَكالًا مِنَ اللَّهِ [ المائدة 38] وفي الحدیث : «إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ النَّكَلَ عَلَى النَّكَلِ» أي : الرَّجُلَ القَوِيَّ عَلَى الفَرَسِ القَوِيِّ.- ( ن ک ل ) نکل عن الشئی ۔ کسی کام سے کمزور اور عاجز ہوجانا ۔ نکلتہ ۔ کسی کے پاوں میں بیڑیاں ڈال دینا ۔ اور نکل ۔ جانور کی بیڑی اور لگام کے لوہے کو کہتے ہیں ۔ کیوں کہ یہ بھی چلنے سے مانع ہوتے ہیں ۔ اس کی جمع انکال ہے ۔ قرآن پاک میں ہے :إِنَّ لَدَيْنا أَنْكالًا وَجَحِيماً [ المزمل 12] کچھ شک نہیں کہ ہمارے پاس بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی آگ ہی ۔ نکلتہ ۔ کسی کو عبرت ناک سزا دینا ۔ اس سے اسم نکال سے ۔ جس کے معنی عبرت ناک سزا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : فَجَعَلْناها نَكالًا لِما بَيْنَ يَدَيْها وَما خَلْفَها[ البقرة 66] اور اس قصے کو اس وقت کے لوگوں کے لئے اور جوان کے بعد آنے والے تھے ۔ عبرت بنادیا ۔ جَزاءً بِما كَسَبا نَكالًا مِنَ اللَّهِ [ المائدة 38] ان کے فعلوں کی سزا اور خدا کی طرف سے عبرت ہے ۔ اور حدیث میں ہے (133) ان اللہ یحب النکل علی النکل کہ قوی آدمی جو طاقت ور گھوڑے پر سوار ہو اللہ تعالیٰ کو پیارا لگتا ہے ۔
(٨٤) اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ تو بدر صغری کی طرف اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لیے روانہ ہونے کی ترغیب بھی دیجیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے بہت امید ہے کہ وہ کفار مکہ زور جنگ کو اپنی تدبیر خاص سے روک دیں گے اور اللہ تعالیٰ بہت سخت سزا دیتے ہیں۔
آیت ٨٤ (فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ج ) - قتال کے ضمن میں یہ قرآن مجید کی غالباً سخت ترین آیت یہ ہے ‘ لیکن اس میں سختی لفظی نہیں ‘ معنوی ہے۔- (لاَ تُکَلَّفُ الاَّ نَفْسَکَ ) (وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ ج) - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل ایمان کو قتال فی سبیل اللہ کے لیے جس قدر ترغیب و تشویق دے سکتے ہیں دیجیے۔ انہیں اس کے لیے جوش دلایے ‘ ابھاریے۔ لیکن اگر کوئی اور نہیں نکلتا تو اکیلے نکلئے جیسے حضرت ابوبکر (رض) کا قول بھی نقل ہوا ہے جب ان سے کہا گیا کہ مانعین زکوٰۃ کے بارے میں نرمی کیجیے تو آپ (رض) نے فرمایا تھا کہ اگر کوئی میرا ساتھ نہیں دے گا تو میں اکیلا جاؤں گا ‘ عزیمت کا یہ عالم ہے تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو تو یہ کام کرنا ہے ‘ آپ کا تو یہ فرض منصبی ہے۔ آپ کو ہم نے بھیجا ہی اس لیے ہے کہ روئے ارضی پر اللہ کے دین کو غالب کردیں۔ - (عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّکُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ط) ۔- کفار و مشرکین کی جنگی تیاریاں ہو رہی ہیں ‘ بڑی چلت پھرت ہو رہی ہے ‘ یہ تو کچھ عرصے کی بات ہے وہ وقت بس آیا چاہتا ہے کہ ان میں دم نہیں رہے گا کہ آپ کا مقابلہ کریں۔ اور وہ وقت جلد ہی آگیا کہ مشرکین کی کمر ٹوٹ گئی۔ سورة النساء کی یہ آیت ٤ ہجری میں نازل ہوئی اور ٥ ہجری میں غزوۂ احزاب پیش آیا۔ جس کے بعد محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل ایمان سے فرمایا کہ (لن تغزوکم قریش بعد عامکم ھذا ولکنکم تغزونھم ) (١) اس سال کے بعد قریش تم پر حملہ آور ہونے کی جرأت نہیں کریں گے ‘ بلکہ اب تم ان پر حملہ آور ہو گے۔ “ غزوۂ احزاب کے فوراً بعد سورة الصف نازل ہوئی۔ جس میں اہل ایمان کو فتح و نصرت کی بشارت دی گئی۔ (وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ) اس سے اگلے سال ٦ ہجری میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرے کا سفر کیا ‘ جس کے نتیجے میں صلح حدیبیہ ہوگئی ‘ جسے اللہ تعالیٰ نے فتح مبین قرار دیا (اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا) ۔ اس کے بعد ساتویں سال اللہ تعالیٰ نے فتح خیبر عطا فرما دی اور آٹھویں سال میں مکہ فتح ہوگیا۔ اس طرح ایک کے بعد ایک ‘ سارے بند دروازے کھلتے چلے گئے۔