Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٨] یہاں ربط مضمون کے لحاظ سے اچھی سفارش سے مراد یہ ہے کہ جو شخص مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دے گا اس کے جہاد میں اس کا بھی حصہ ہوگا اور جو منافق حوصلہ شکنی کرتے ہیں تو اس صورت میں ان کا بھی حصہ ہے تاہم اس کا حکم عام ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے :- خ سفارش کرنے والے کا اجر :۔ سیدنا ابو موسیٰ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم کے پاس جب کوئی سائل آتا یا آپ سے کسی چیز کا سوال کیا جاتا تو آپ صحابہ سے فرماتے تم سفارش کرو اس کا تمہیں ثواب ملے گا اور اللہ جو چاہتا ہے اسے نبی کی زبان سے جاری کرا دیتا ہے یا فیصلہ کرا دیتا ہے۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب التحریض علی الصدقۃ و الشفاعۃ فیہا۔۔۔ مسلم، کتاب البر والصلۃ والادب۔ باب استحباب الشفاعہ فیما لیس بحرام) اسی طرح اگر کوئی شخص چور کی سفارش کر کے اسے چھڑاتا ہے جو پھر چوریاں کرتا ہے تو سفارش کرنے والے کو بھی اس کے گناہ سے حصہ ملتا رہے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

مَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً ۔۔ : اوپر کی آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ مومنوں کو جہاد کی ترغیب دو ، جو اعمال حسنہ میں سے ہے، یہاں بتایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس پر اجر عظیم ملے گا۔ پس یہاں شفاعت حسنہ سے ترغیب جہاد مراد ہے اور شفاعتِ سیۂ سے مراد اس کارخیر سے روکنا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم سفارش کرو تمہیں اجر دیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی زبان پر جو چاہے گا فیصلہ فرمائے گا۔ “ [ بخاری، الزکاۃ، باب التحریض علی الصدقۃ : ١٤٣٢، عن ابی موسیٰ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - جو شخص اچھی سفارش کرے (یعنی جس کا طریق مقصود دونوں مشروع ہوں) اس کی اس (سفارش) کی وجہ سے (ثواب کا) حصہ ملے گا اور جو شخص بری سفارش کرے (یعنی جس کا طریق و غرض غیر مشروع ہو) اس کو اس (سفارش) کی وجہ سے (گناہ کا) حصہ ملے گا، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والے ہیں ( وہ اپنی قدرت سے نیکی پر ثواب اور بدی پر عذاب دے سکتے ہیں) اور جب تم کو کوئی (مشروع طور پر) سلام کرے تو تم اس (سلام) سے اچھے الفاظ میں سلام کرو، (یعنی جواب دو ) یا (جواب میں) ایسے ہی الفاظ کہہ دو (تم کو دونوں اختیار دیئے جاتے ہیں) بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر (یعنی ہر عمل پر حساب لیں گے (یعنی ان کا قانون یہی ہے اور یوں اپنے فضل سے معاف کردیں وہ اور بات ہے) اللہ ایسے ہیں کہ ان کے سوا کوئی معبود ہونے کے قابل نہیں، وہ ضرور تم سب کو جمع کریں گے قیامت کے دن، اس میں کوئی شبہ نہیں اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کس کی بات سچی ہوگی (جب وہ خبر دے رہے ہیں تو بالکل ٹھیک ہی ہے۔ )- معارف مسائل - سفارش کی حقیقت اس کے احکام اور اقسام :۔- من یشفع شفاعة حسنة الخ اس آیت میں شفاعت یعنی سفارش کو اچھی اور بری دو قسموں میں تقسیم فرما کر اس کی حقیقت کو بھی واضح کردیا اور یہ بھی بتلا دیا کہ نہ ہر سفارش بری ہے اور نہ ہر سفارش اچھی، ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا کہ اچھی سفارش کرنے والے کو ثواب کا حصہ ملے گا اور بری سفارش کرنیوالے کو عذاب کا، آیت میں اچھی سفارش کے ساتھ نصیب کا لفظ آیا ہے، اور بری سفارش کے ساتھ کفل کا اور لغت میں دونوں کے معنی ایک ہی ہیں یعنی کسی چیز کا ایک حصہ لیکن عرف عام میں لفظ نصیب اچھے حصہ کے لئے بولا جاتا ہے اور لفظ کفل اکثر برے حصہ کے لئے استعمال کرتے ہیں، اگرچہ کہیں کہیں اچھے حصہ کے لئے بھی لفظ کفل استعمال ہوا ہے، جیسے قرآن کریم میں کفلین من رحمتہ ارشاد ہے۔- شفاعت کے لفظی معنے ملنے یا ملانے کے ہیں اسی وجہ سے لفظ شفعہ عربی زبان میں جوڑے کے معنی میں آتا ہے اور اس کے بالمقابل لفظ وتر بمعنے طاق استعمال کیا جاتا ہے اس لئے شفاعت کے لفظی معنی یہ ہوئے کہ کسی کمزور طالب حق کے ساتھ اپنی قوت ملا کر اس کو قوی کردیا جائے، یا بیکس اکیلے شخص کے ساتھ خو دمل کر اس کو جوڑا بنادیا جائے۔- اس سے معلوم ہوا کہ جائز شفاعت سفارش کے لئے ایک تو یہ شرط ہے کہ جس کی سفارش کی جائے اس کا مطالبہ حق اور جائز ہو، دوسرے یہ کہ وہ اپنے مطالبہ کو بوجہ کمزوری خود بڑے لوگوں تک نہیں پہنچا سکتا، آپ پہنچا دیں، اس سے معلوم ہوا کہ خلاف حق سفارش کرنا یا دوسروں کو اس کے قبول پر مجبور کرنا شفاعت سیہ یعنی بری سفارش ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ سفارش میں اپنے تعلق یا وجاہت سے طریقہ دباؤ اور اجبار کا استعمال کیا جائے تو وہ بھی ظلم ہونے کی وجہ سے جائز نہیں، اسیلئے وہ بھی شفاعت سیہ میں داخل ہے۔- اب خلاصہ مضمون آیت مذکورہ کا یہ ہوگیا کہ جو شخص کسی شخص کے جائز حق اور جائز کام کے لئے جائز طریقہ پر سفارش کرے تو اس کو ثواب کا حصہ ملے گا اور اسی طرح جو کسی ناجائز کام کے لئے یا ناجائز طریقہ پر سفارش کرے گا اس کو عذاب کا حصہ ملے گا۔- حصہ ملنے کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص سے سفارش کی گئی ہے وہ جب اس مظلوم یا محروم کا کام کر دے تو جس طرح اس کام کرنے والے افسر کو ثواب ملے گا، اسی طرح سفارش کرنے والے کو بھی ثواب ملے گا۔- اسی طرح کسی ناجائز کام کی سفارش کرنے والا بھی گنہگار ہوگا اور یہ پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ سفارش کرنے والے کا ثواب یا عذاب اس پر موقوف نہیں کہ اس کی سفارش مؤ ثر اور کامیاب بھی ہو بلکہ اس کو بہرحال اپنا حصہ ملے گا۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے الدال علے الخیر کفاعلہ (رواہ البزار عن ابن مسعود والطبرانی عنہ وعن سہل بن سعد بحوالہ مظہری) ” یعنی جو شخص کسی نیکی پر کسی کو آمادہ کر دے اس کو بھی ایسا ہی ثواب ملتا ہے جیسا اس نیک عمل کرنے والے کو “- اسی طرح ابن ماجہ کی ایک حدیث میں حضرت ابوہریرہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔- ” یعنی جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں ایک کلمہ سے بھی مدد کی تو وہ قیامت میں حق تعالیٰ کی پیشی میں اس طرح لایا جائے گا کہ اس کی پیشانی پر یہ لکھا ہوگا کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم و مایوس ہے۔ “- اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح نیکی پر کسی کو آمادہ کرنا نیک عمل اور برابر کا ثواب رکھتا ہے اسی طرح بدی اور گناہ پر کسی کو آمادہ کرنا یا سہارا دینا بھی برابر کا گناہ ہے۔- آخر آیت میں ارشاد فرمایا : وکان اللہ علی کلی شی مقیتاً لفظ ” مقیت “ کے معنی لغت کے اعتبار سے قادر مقتدر کے بھی ہیں اور حاضر و نگراں کے بھی اور روزی تقسیم کرنے والے کے بھی اور اس جملہ میں تینوں معنی مراد ہو سکتے ہیں، پہلے معنی کے اعتبار سے تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، عمل کرنے والے اور سفارش کرنیوالے کی جزاء یا سزا اس کے لئے دشوار نہیں۔- اور دوسرے معنی کے اعتبار سے مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر نگران و حاضر ہے اس کو سب معلوم ہے کہ کون کس نیت سے سفارش کر رہا ہے، محض بوجہ اللہ کسی بھائی کی امداد کرنا مقصود ہے یا کوئی اپنی غرض بطور رشوت کے اس سے حاصل کرنا ہے۔- اور تیسرے معنی کے اعتبار سے مطلب یہ ہوگا کہ رزق و روزی کی تقسیم کا تو اللہ تعالیٰ طور متکفل ہے، جتنا کسی کے لئے لکھ دیا ہے وہ اس کو مل کر رہے گا کسی کی سفارش کرنے سے وہ مجبور نہیں ہوجائے گا بلکہ جس کو جتنی چاہے روزی عطا فرمائے گا، البتہ سفارش کرنے والے کو مفت میں ثواب مل جاتا ہے کہ وہ ایک کمزور کی اعانت ہے۔- حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :- ” یعنی اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندہ کی امداد میں لگا رہتا ہے جب تک وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کی امداد میں لگا رہے۔ “- اسی بناء پر صحیح بخاری کی ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :- ’ یعنی تم سفارش کیا کرو تمہیں ثواب ملے گا، پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے ذریعہ جو فیصلہ فرمائیں اس پر راضی رہو۔ “- اس حدیث میں جہاں سفارش کا موجب ثواب ہونا بیان فرمایا ہے وہیں یہ بھی بتلایا کہ سفارش کی حد یہی ہے کہ کمزور آدمی جو خود اپنی بات کسی بڑے تک پہونچانے اور اپنی حاجت صحیح طور پر بیان کرنے پر قادر نہ ہو تم اس کی بات وہاں تک پہنچا دو ، آگے وہ سفارش مانی جائے یا نہ مانی جائے اور اس شخص کا مطلوبہ کام پورا ہو یا نہ ہو، اس میں آپ کا کوئی دخل نہ ہونا چاہئے اور اس کے خلاف ہونے کی صورت میں آپ پر کوئی ناگواری نہ ہونی چاہئے، حدیث کے آخری جملہ میں ویقضی اللہ علی لسان نبیہ ماشاء کا یہی مطلب ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ میں اس طرف اشارہ موجود ہے کہ سفارش کا ثواب یا عذاب اس پر موقوف نہیں کہ وہ سفارش کامیاب ہو، بلکہ اس ثواب و عذاب کا تعلق مطلق سفارش کردینے سے ہے، آپ نے شفاعت حسنہ کردی تو ثواب کے مستحق ہوگئے اور شفاعت سیسہ کردی تو عذاب کے مستوجب بن گئے، خواہ آپ کی سفارش پر عمل ہو یا نہ ہو۔ - تفسیر بحر محیط اور بیان القرآن وغیرہ میں من یشفع میں لفظ منھا کو سببیہ قرار دے کر اس کی طرف اشارہ بتلایا ہے اور تفسیر مظہری میں امام تفسیر مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ سفارش کرنے والے کو سفارش کا ثواب ملے گا، اگرچہ اس کی سفارش قبول نہ کی گئی ہو، اور یہ بات صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص نہیں، کسی دوسرے انسان کے پاس جو سفارش کی جائے، اس کا بھی یہی اصول ہونا چاہئے کہ سفارش کر کے آدمی فارغ ہوجائے اس کے قبول کرنے پر مجبور نہ کرے، جیسا کہ خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ صدیقہ کی آزاد کردہ کنیز سے یہ سفارش فرمائی کہ اس نے جو اپنے شوہر مغیث سے طلاق حاصل کرلی اور وہ اس کی محبت میں پریشان پھرتے ہیں دوبارہ انہی سے نکاح کرلے۔- بریرہ (رض) نے عرض کیا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر یہ آپ کا حکم ہے تو سر آنکھوں پر اور اگر سفارش ہے تو میری طبیعت اس پر بالکل آمادہ نہیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حکم نہیں سفارش ہی ہے، بریرہ جانتی تھیں کہ رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خلاف اصول کوئی ناگواری نہ ہوگی، اسلئے صاف عرض کردیا کہ تو پھر میں یہ سفارش قبول نہیں کرتی، آپ نے خوش دلی کے ساتھ ان کو ان کے حال پر رہنے دیا۔- یہ تھی حقیقت سفارش کی جو شرعاً باعث اجر وثواب تھی، آج کل لوگوں نے جو اس کا حلیہ بگاڑا ہے وہ درحقیقت سفارش نہیں ہوتی، بلکہ تعلقات یا وجاہت کا اثر اور دباؤ ڈالنا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اگر ان کی سفارش نہ مانی جائے تو ناراض ہوتے ہیں بلکہ دشمنی پر آمادہ ہوجاتے ہیں حالانکہ کسی ایسے شخص پر ایسا دباو ڈالنا کہ وہ ضمیر اور مرضی کے خلاف کرنے پر مجبور ہوجائے اکراہ و اجبار میں داخل اور سخت گناہ ہے اور ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسی کے مال یا کسی کے حق پر زبردستی قبضہ کرلے، وہ شخص شرعاً اور قانوناً آزاد خود مختار تھا، آپ نے اس کو مجبور کر کے اس کی آزادی سلب کرلی اس کی مثال تو ایسی ہوگی کہ کسی محتاج کی حاجت پوری کرنے کے لئے کسی دوسرے کا مال چرا کر اس کو دے دیا جائے۔- سفارش پر کچھ معاوضہ لینا رشوت ہے اور حرام ہے :۔- جس سفارش پر کوئی معاوضہ لیا جائے وہ رشوت ہے، حدیث میں اس کو سخت حرام فرمایا ہے، اس میں ہر طرح کی رشوت داخل ہے، خواہ وہ مالی ہو یا یہ کہ اس کا کام کرنے کے عوض اپنا کوئی کام اس سے لیا جائے۔- تفسیر کشاف وغیرہ میں ہے کہ شفاعت حسنہ وہ ہے جس کا منشاء کسی مسلمان کے حق کو پورا کرنا ہو، یا اس کو کوئی جائز نفع پہونچانا یا مضرت اور نقصان سے بچانا ہو اور یہ سفارش کا کام بھی کسی دنیی جوڑ توڑ کے لئے نہ ہو، بلکہ محض اللہ کے لئے کمزور کی رعایت مقصود ہو اور اس سفارش پر کوئی رشوت مالی یا جانی نہ لی جائے اور یہ سفارش کسی ناجائز کام میں بھی نہ ہو، نیز یہ سفارش کسی ایسے ثابت شدہ جرم کی معافی کے لئے نہ ہو جن کی سزا قرآن میں معین و مقرر ہے۔- تفسیر بحر محیط اور مظہری میں ہے کہ کسی مسلمان کی حاجت روائی کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا بھی شفاعت حسنہ میں داخل ہے اور دعا کرنے والے کو بھی اجر ملتا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ جب کوئی شخص اپنے بھائی مسلمان کے لئے کوئی دعاء خیر کرتا ہے، فرشتہ کہتا ہے ” ولک بمثل “ یعنی اللہ تعالیٰ تیری بھی حاجت پوری فرمائیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَـنَۃً يَّكُنْ لَّہٗ نَصِيْبٌ مِّنْھَا۝ ٠ۚ وَمَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَيِّئَۃً يَّكُنْ لَّہٗ كِفْلٌ مِّنْھَا۝ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيْتًا۝ ٨٥- شَّفَاعَةُ- : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم 87] ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» - الشفاعۃ - کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ اور اسی کا فرمان ہے «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی - حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - نَّصِيبُ :- الحَظُّ المَنْصُوبُ. أي : المُعَيَّنُ. قال تعالی: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء 53]- ( ن ص ب ) نصیب - و النصیب کے معنی معین حصہ کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء 53] کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے ۔ - سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - كفل - الْكَفَالَةُ : الضّمان، تقول : تَكَفَّلَتْ بکذا، وكَفَّلْتُهُ فلانا، وقرئ : وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا - [ آل عمران 37] «3» أي : كفّلها اللہ تعالی، ومن خفّف «4» جعل الفعل لزکريّا، المعنی: تضمّنها . قال تعالی: وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل 91] ، والْكَفِيلُ : الحظّ الذي فيه الکفاية، كأنّه تَكَفَّلَ بأمره . نحو قوله تعالی: فَقالَ أَكْفِلْنِيها[ ص 23] أي : اجعلني کفلا لها، والکِفْلُ : الكفيل، قال : يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید 28] أي : كفيلين من نعمته في الدّنيا والآخرة، وهما المرغوب إلى اللہ تعالیٰ فيهما بقوله : رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة 201]- ( ک ف ل ) الکفالۃ - ضمانت کو کہتے ہیں اور تکفلت بکذا کے معنی کسی چیز کا ضامن بننے کے ہیں ۔ اور کفلتہ فلانا کے معنی ہیں میں نے اسے فلاں کی کفالت میں دے دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا[ آل عمران 37] اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا ۔ بعض نے کفل تخفیف فاء کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں اس کا فاعل زکریا (علیہ السلام) ہوں گے یعنی حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ان کو پانی کفالت میں لے لیا ۔ اکفلھا زیدا اسے زید کی کفالت میں دیدیا ) قرآن میں ہے : ۔ أَكْفِلْنِيها[ ص 23] یہ بھی میری کفالت مٰن دے دو میرے سپرد کر دو الکفیل اصل میں بقدر ضرورت حصہ کو کہتے ہیں ۔ گویا وہ انسان کی ضرورت کا ضامن ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل 91] اور تم خدا کو اپنا کفیل بنا چکے ہو ۔ اور الکفل کے معنی بھی الکفیل یعنی حصہ کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید 28] وہ تمہیں اپنی رحمت سے اجر کے دو حصے عطا فرمائیگا ۔ یعنی دنیا اور عقبیی دونون جہانوں میں تمہیں اپنے انعامات سے نوزے گا ۔ اور یہی دوقسم کی نعمیتں ہیں جن کے لئے آیت رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة 201- مقت - المَقْتُ : البغض الشدید لمن تراه تعاطی القبیح . يقال : مَقَتَ مَقاتَةً فهو مَقِيتٌ ، ومقّته فهو مَقِيتٌ ومَمْقُوتٌ. قال تعالی: إِنَّهُ كانَ فاحِشَةً وَمَقْتاً وَساءَ سَبِيلًا [ النساء 22] وکان يسمّى تزوّج الرّجل امرأة أبيه نکاح المقت، وأما المقیت فمفعل من القوت، وقد تقدّم - ( م ق ت ) المقت کے معنی کسی شخص کو فعل قبیح کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھ کر اس سے بہت بغض رکھتے کے ہیں ۔ یہ مقت مقاتۃ فھو مقیت ومقتہ فھو مقیت وممقوت سے اسم سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُ كانَ فاحِشَةً وَمَقْتاً وَساءَ سَبِيلًا یہ نہایت بےحیائی اور ( خدا کی ) ناخوشی کی بات تھی اور بہت برا دستور تھا ۔ جاہلیت میں اپنے باپ کی بیوہ سے شادی کرنے کو نکاح المقیت کہا جاتا تھا ۔ المقیت کی اصل قوۃ ہے جس کی تشریح پہلے گزر چکی ہے ۔- مقیتا - الْقُوتُ : ما يمسک الرّمق، وجمعه : أَقْوَاتٌ. قال تعالی: وَقَدَّرَ فِيها أَقْواتَها [ فصلت 10] وقَاتَهُ يَقُوتُهُ قُوتاً : أطعمه قوته، وأَقَاتَهُ يُقِيتُهُ : جعل له ما يَقُوتُهُ ، وفي الحدیث : «إنّ أكبر الکبائر أن يضيّع الرّجل من يقوت» ، ويروی: «من يقيت» . قال تعالی: وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ مُقِيتاً [ النساء 85] قيل : مقتدرا . وقیل : حافظا . وقیل : شاهدا، وحقیقته : قائما عليه يحفظه ويقيته . ويقال : ما له قُوتُ ليلة، وقِيتُ ليلة، وقِيتَةُ ليلة، نحو الطعم والطّعمة، قال الشاعر في صفة نار : فقلت له ارفعها إليك وأحيها ... بروحک واقْتَتْهُ لها قِيتَةً قدرا - ( ق و ت ) القوت غذا جس سے سدرحق ہوسکے اس کی جمع اقوات ہے ۔ قرآن پاک میں ہے :۔ وَقَدَّرَ فِيها أَقْواتَها [ فصلت 10] اور اس میں سب سامان معشیت مقرر کیا ۔ قاتہ یقوتہ قوتاکے معنی غذا کھلانے کے ہیں اوراقاتہ یقیتہ کے معنی ایسی چیز دینے کے ہیں جس سے قوت حاصل کرسکے ، حدیث میں ہے ۔ ان اکبر الکبائر ایضیع الرجل من یقوت ) کہ جس کی قوت انسان کے ذمہ ہوا اسے ضائعکرنا سب سے بڑا گناہ ہے ایک روایت میں من یقیت ( افعال ) بھی ہے قرآن پاک میں ہے وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ مُقِيتاً [ النساء 85] اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔ بعض نے اس کے معنی مقتدر لینی قدرت رکھنے والا کئے ہیں اور بعض نے محافظ اور بعض نے شاہد یعنی حاضر رہنے والا ۔ لیکن اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ ہر چیز کی حفاظت کرتا ہے اور اسے روزی دیتا ہے ۔ اور اس میں قوت قیت وقیتہ تین لغات ہیں جیسے طعموطعم وطعمۃ چناچہ محاورہ ہے ۔ مالہ قوت لیلۃ وقیت لیلۃ وقیتۃ لیلۃ : اس کے پاس ایک رات کا بھی کھانا نہیں ہے ، شاعر نے آگ کی صفت میں کہا ہے کہ ( الطویل ) ( 323 ) فقلت لہ ارفعھا الیک واحیھا بروحک اقتتہ لھا قدرا میں نے اسے کہا کہ اسے اپنی طرف اٹھاؤ اور اس پر تھوڑا تھوڑا ایندھن لگا نرم بھونک سے اسے سلگاؤ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٥) چناچہ جو شخص توحید کا قائل ہو اور خیر خواہی وعدل کے ساتھ دو آدمیوں میں صلح کرائے تو اسے اس نیکی کا ثواب ملے گا اور جو شرک کرے اور اس کا مقصد بھی غلط ہو اسے اس کا گناہ ملے گا اور اللہ تعالیٰ ہر ایک نیکی و برائی کا بدلہ دینے پر یا یہ کہ ہر ایک چیز کو روزی دینے پر قادر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

منافقین سے خطاب کے بعد اب پھر کچھ تمدنی آداب کا ذکر ہو رہا ہے۔ منافقین سے خطاب میں دو باتوں کو نمایاں کیا گیا۔ ایک اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو ان پر بہت شاق گزرتی تھی اور ایک قتال فی سبیل اللہ جو ان کے لیے بہت بڑا امتحان بن جاتا تھا۔ اب پھر اہل ایمان سے خطاب آ رہا ہے ۔- آیت ٨٥ (مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنْ لَّہٗ نَصِیْبٌ مِّنْہَا ج) ۔- انسانی معاشرے کے اندر کسی کے لیے سفارش کرنا بھی بعض اوقات ضروری ہوجاتا ہے۔ کوئی شخص ہے ‘ اس کی کوئی احتیاج ہے ‘ آپ جانتے ہیں کہ صحیح آدمی ہے ‘ بہروپیا نہیں ہے۔ دوسرے شخص کو آپ جانتے ہیں کہ وہ اس کی مدد کرسکتا ہے تو آپ کو دوسرے شخص کے پاس جا کر اس کے حق میں سفارش کرنی چاہیے کہ میں اس کو جانتا ہوں ‘ یہ واقعتا ضرورت مند ہے۔ اس طرح اس کی ضرورت پوری ہوجائے گی اور اس نیکی کے ثواب میں آپ بھی حصہ دار ہوں گے۔ اسی طرح کسی پر کوئی مقدمہ قائم ہوگیا ہے اور آپ کے علم میں اس کی بےگناہی کے بارے میں حقائق اور شواہد ہیں تو آپ کو عدالت میں پیش ہو کر یہ حقائق اور شواہد پیش کرنے چاہئیں ‘ تاکہ اس کی گلوخلاصی ہو سکے۔ اس آیت کی رو سے نیکی ‘ بھلائی ‘ خیر اور عدل و انصاف کی خاطر اگر کسی کی سفارش کی جائے تو اللہ تعالیٰ اس کا اجرو ثواب عطا فرمائے گا۔- (وَمَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّءَۃً یَّکُنْ لَّہٗ کِفْلٌ مِّنْہَا ط) ۔- کسی نے کسی کی جھوٹی اور غلط سفارش کی ‘ حقائق کو توڑا مروڑا تو وہ بھی اس کے جرم میں شریک ہوگیا اور وہ اس جرم کی سزا میں بھی حصہ دار ہوگا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :113 یعنی یہ اپنی اپنی پسند اور اپنا اپنا نصیب ہے کہ کوئی خدا کی راہ میں کوشش کرنے اور حق کو سربلند کرنے کے لیے لوگوں کو ابھارے اور اس کا اجر پائے ، اور کوئی خدا کے بندوں کو غلط فہمیوں میں ڈالنے اور ان کی ہمتیں پست کرنے اور انہیں اعلائے کلمۃ اللہ کی سعی و جہد سے باز رکھنے میں اپنی قوت صرف کرے ، اور اس کی سزا کا مستحق بنے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

51: پچھی آیت میں آنحضرتﷺ کو جو حکم دیا گیا تھا کہ آپ مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دیں، اس کے بعد یہ آیت لاکر اِشارہ کردیا گیا کہ آپ کی ترغیب کے نتیجے میں جو لوگ جہاد کریں گے، ان کے ثواب میں آپ بھی شریک ہوں گے۔ کیونکہ جب کوئی شخص اچھی سفارش کے نتیجے میں کوئی نیک کام کرے توجوثواب کام کرنے والے کو ملتا ہے، اس میں سفارش کرنے والے کو بھی حصہ ملتا ہے۔ اسی طرح اگر بُری سفارش کے نتیجے میں کوئی غلط کام ہوجائے توجتنا گناہ غلط کام کرنے والے کو ملے گا، بُری سفارش کرنے والا بھی اس کے گناہ میں شریک ہوگا۔