86۔ 1 تحیۃ اصل میں تحیۃ (تفعلۃ) ہے یا کے یا میں ادغام کے بعد تحیۃ ہوگیا۔ اس کے معنی ہیں۔ درازی عمر کی دعا (الدعاء بالحیاۃ) یہاں یہ سالم کرنے کے معنی میں ہے۔ (فتح القدیر) زیادہ اچھا جواب دینے کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ السلام علیکم کے جواب میں و رحمتہ اللہ کا اضافہ اور السلام علیکم و رحمتہ اللہ کے جواب میں وبرکاتہ کا اضافہ کردیا جائے۔ لیکن کوئی السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہے تو پھر اضافے کے بغیر انہی الفاظ میں جواب دیا جائے، ایک اور حدیث میں ہے کہ صرف السلام علیکم کہنے سے دس نیکیاں اور اس کے ساتھ و رحمتہ اللہ کہنے سے بیس نیکیاں اور برکاتہ کہنے سے تیس نیکیاں ملتی ہیں۔ (مسند احمد، جلد 4 ص 439، 440) یاد رہے کہ یہ حکم مسلمانوں کے لیے ہے، یعنی ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کو سلام کرے۔ لیکن اہل ذمہ یعنی یہود و نصاریٰ کو سلام کرنا ہو تو ایک تو ان کو سلام کرنے میں پہل نہ کی جائے۔ دوسرے اضافہ نہ کیا جائے بلکہ صرف وعلیکم کے ساتھ جواب دیا جائے (صحیح بخاری کتاب الاستیذان۔ مسلم، کتاب السلام)
[١١٩] جب کوئی شخص دوسرے کو سلام کہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے حق میں اللہ تعالیٰ سے سلامتی کی دعا کرتا ہے۔ شرعی نقطہ نظر سے آپس میں سلام کہنا نہایت پسندیدہ عمل ہے کیونکہ اس سے اسلامی معاشرہ میں اخوت پیدا ہوتی ہے۔ چناچہ اس بارے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا کہ بہتر اسلام کونسا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ کہ تم (دوسروں کو) کھانا کھلاؤ اور اسے بھی سلام کرو جسے تم جانتے ہو اور اسے بھی جسے تم نہیں جانتے (بخاری، کتاب الایمان، باب اطعام الطعام من الاسلام۔ الاستیذان، باب السلام للمعرفۃ و غیر المعرفۃ)- ٢۔ سلام کے آداب :۔ سیدنا عمران (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور کہا السلام علیکم تو آپ نے فرمایا دس (یعنی اس کے لیے دس نیکیاں ہیں) پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا السلام علیکم و رحمۃ اللہ تو آپ نے فرمایا بیس پھر ایک اور آدمی آیا اس نے کہا السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ نے فرمایا تیس (ترمذی۔ ابو اب الاستیذان، باب فضل السلام)- ٣۔ آپ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو ملے تو اسے سلام کہے۔ پھر اگر ان دونوں کے درمیان کوئی درخت، دیوار یا پتھر آجائے۔ پھر اس سے ملاقات کرے تو پھر سلام کہے۔ (ابو داؤد، کتاب الادب۔ باب فی الرجل یفارق الرجل ثم یلقاہ ایسلم علیہ)- ٤۔ آپ نے فرمایا چھوٹا بڑے کو سلام کرے، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔ تھوڑے آدمی زیادہ کو سلام کریں۔ سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے اور چلنے والا کھڑے کو سلام کرے۔ (بخاری، کتاب الاستیذان باب تسلیم الصغیر علی الکبیر۔۔ مسلم، کتاب السلام، باب یسلم الراکب علی الماشی۔۔ ترمذی، ابو اب الاستیذان)- ٥۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ چند یہودی آپ کے پاس آئے اور کہا السام علیک (تجھے موت آئے) میں سمجھ گئی وہ کیا کہہ رہے ہیں، تو میں نے کہا علیکم السام واللعنہ آپ نے فرمایا ٹھہرو عائشہ (رض) اللہ ہر کام میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ میں نے جواب دیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے سنا نہیں وہ کیا کہہ رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا میں نے وعلیکم تو کہہ دیا تھا (بخاری، کتاب الاستیذان، باب کیف الرد علی اھل الذمۃ السلام۔ مسلم، کتاب السلام، باب النہی عن ابتداء اہل الکتاب بالسلام و کیف یردعلیھم)- ٦۔ آپ نے فرمایا لوگوں میں سے اللہ سے زیادہ قریب وہ ہے جو ان میں سے پہلے سلام کرتا ہے۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فضل من بدأ بالسلام)- ٧۔ آپ نے فرمایا جب کوئی مجلس میں آئے تو سلام کہے اور جب جانے لگے تو بھی سلام کہے اور یہ دونوں سلام ایک ہی جیسے ضروری ہیں (ابو داؤد، کتاب الادب۔ باب فی السلام اذاقام من المجلس
جہاد کا حکم دینے کے بعد اب صلح کے بعض احکام بیان فرمائے چناچہ فرمایا کہ اگر کفار کی طرف سے جنگ ختم کرنے اور صلح کرنے کی کوئی پیش کش کی جاتی ہے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا کم از کم اتنی پیش کش ضرور قبول کرو۔ دوسری جگہ فرمایا : ( وَاِنْ جَنَحُوْا للسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ ) [ الأنفال : ٦١ ] ” اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تو بھی اس کی طرف مائل ہوجا اور اللہ پر بھروسہ کر۔ “ ایک مصداق اس آیت کا یہ ہے کہ جہاد کے سفر کے دوران کوئی شخص اگر اطاعت کے اظہار کے لیے یا اسلام قبول کرنے کے اظہار کے لیے سلام کہے تو یہ کہہ کر اسے قتل مت کرو کہ تم مومن نہیں۔ (النساء : ٩٤) اور ایک مصداق وہ ہے جو آیت کے صریح الفاظ سے واضح ہو رہا ہے کہ جب کوئی شخص تمہیں سلام کہے تو اسے اس سے بہتر الفاظ میں جواب دو ۔ تحیۃ۔ حیاۃ میں سے باب تفعیل کا مصدر ہے۔ زندگی کی یا سلامتی کی دعا دینا مراد سلام ہے۔ بہتر جواب دینے کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ ” اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ “ کے جواب میں ” وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ “ کا اضافہ اور ” السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ “ کے جواب میں ” وَ بَرَکَاتُہٗ “ کا اضافہ کردیا جائے، لیکن اگر کوئی شخص یہ سارے الفاظ بول دے تو انھی کے ساتھ جواب دیا جائے۔ ” ومغفرتہ یا ورضوانہ “ وغیرہ کا اضافہ صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ ہر لفظ کے اضافے کے ساتھ دس نیکیاں زیادہ ہوتی جائیں گی۔ [ أحمد : ٤؍٤٣٩، ٤٤٠، ١٩٩٧٠ ] گویا کوئی شخص جتنا سلام کہے اتنا جواب دینا فرض ہے، زائد مستحب ہے۔
سلام اور اسلام - واذا حییتم بتحیة فحیوا باحسن منھا الخ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سلام اور اس کے جواب کے آداب بتلائے ہیں :- لفظ تحیہ کی تشریح اور اس کا تاریخی پہلو :۔- تحیہ کے لفظی معنی ہیں کسی کو ” حیاک اللہ “ کہنا، یعنی ” اللہ تم کو زندہ رکھے قبل از اسلام عرب کی عادت تھی کہ جب آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو ” حیاک اللہ “ یا انعم اللہ بک عینا یا ” انعم صباحاً وغیرہ الفاظ سے سلام کیا کرتے تھے، اسلام نے اس طرز تحیہ کو بدل کر السلام علیکم کہنے کا طریقہ جاری کیا، جس کے معنی ہیں ” تم ہر تکلیف اور رنج و مصیبت سے سلامت رہو۔ “- ابن عربی نے احکام القرآن میں فرمایا کہ لفظ سلام اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے اور ” السلام علیم “ کے معنی یہ ہیں کہ ” اللہ رقیب علیکم “ ” یعنی اللہ تعالیٰ تمہارا محافظ ہے۔ “- اسلامی سلام تمام دوسری اقوام کے سلام سے بہتر ہے :۔ دنیا کی ہر مہذب قوم میں اس کا رواج ہے کہ جب آپس میں ملاقات کریں تو کوئی کلمہ آپس کی موانست اور اظہار محبت کے لئے کہیں، لیکن موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلامی سلام جتنا جامع ہے کوئی دوسرا ایسا جامع نہیں، کیونکہ اس میں صرف اظہار محبت ہی نہیں، بلکہ ساتھ ساتھ ادائے حق محبت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ آپ کو تمام آفات اور آلام سے سلامت رکھیں، پھر دعاء بھی عرب کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی نہیں، بلکہ حیات طیبہ کی دعاء ہے، یعنی تمام آفات اور آلام سے محفوظ رہن کی، اسی کے ساتھ اس کا بھی اظہار ہے کہ ہم اور تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں، ایک دوسرے کو کوئی نفع بغیر اس کے اذن کے نہیں پہنچا سکتا، اس معنی کے اعتبار سے یہ کلمہ ایک عبادت بھی ہے اور اپنے بھائی مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی یاد دلانے کا ذریعہ بھی۔- اسی کے ساتھ اگر یہ دیکھا جائے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگ رہا ہے کہ ہمارے ساتھی کو تمام آفات اور تکالیف سے محفوظ فرما دے تو اس کے ضمن میں وہ گیا یہ وعدہ بھی کر رہا ہے کہ تم میرے ہاتھ اور زبان سے مامون ہو، تمہاری جان، مال، آبرو کا میں محافظ ہوں۔- ” یعنی تم جانتے ہو کہ سلام کیا چیز ہے ؟ سلام کرنے والا یہ کہتا ہے کہ تم مجھ سے مامون رہو “- خلاصہ یہ ہے کہ اسلام تحیہ ایک عالمگیر جامعیت رکھتا ہے : (١) اس میں اللہ تعالیٰ کا بھی ذکر ہے (٢) تذکیر بھی (٣) اپنے بھائی مسلمان سے اظہار تعلق و محبت بھی (٤) اس کے لئے بہترین دعا بھی (٥) اور اس سے یہ معاہدہ بھی کہ میرے ہاتھ اور زبان سے آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچنے گی، جیسا کہ حدیث صحیح میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے :- ” یعنی مسلمان تو وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے سب مسلمان محفوظ رہیں، کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ “- کاش مسلمان اس کلمہ کو عام لوگوں کی رسم کی طرح اداء نہ کرے، بلکہ اس کی حقیقت کو سمجھ کر اختیار کرے، تو شاید پوری قوم کی اصلاح کے لئے یہی کافی ہوجائے، یہی وجہ ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کے باہم سلام کو رواج دینے کی بڑی تاکید فرمائی اور اس کو افضل الاعمال قرار دیا اور اس کے فضائل و برکات اور اجر وثواب بیان فرمائے، صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ کی ایک حدیث ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ :- ” تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتے جب تک مومن نہ ہو اور تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو، میں تم کو ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تمہاری آپس میں محبت قائم ہو جائیگی، وہ یہ کہ آپس میں سلام کو عام کرو، یعنی ہر مسلمان کے لئے خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو۔ “- حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ اسلام کے اعمال میں سب سے افضل کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تم لوگوں کو کھانا کھلا دو اور سلام کو عام کرو خواہ تم اس کو پہچانتے ہو یا نہ پہنچانتے ہو (صیحین)- مسند احمد، ترمذی، ابوداؤد نے حضرت ابوامامہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں ابتداء کرے۔- مسند بزار اور معجم کبیر طبرانی میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر اتارا ہے، اس لئے تم آپس میں سلام کو عام کرو، کیونکہ مسلمان آدمی جب کسی مجلس میں جاتا ہے اور ان کو سلام کرتا ہے تو اس شخص کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک فضیلت کا ایک بلند مقام حاصل ہوتا ہے، کیونکہ اس نے سب کو سلام، یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد دلائی، اگر مجلس والوں نے اس کے سلام کا جواب نہ دیا تو ایسے لوگ اس کو جواب دیں گے جو اس مجلس والوں سے بہتر ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے فرشتے - اور ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ بڑا بخیل وہ آدمی ہے جو سلام میں بخل کرے (طبرانی، معجم کبیر عن ابی ہریرہ)- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان ارشادات کا صحابہ کرام پر جو اثر ہوا اس کا اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر اکثر بازار میں صرف اس لئے جایا کرتے تھے کہ جو مسلمان ملے اس کو سلام کر کے عبادت کا ثواب حاصل کریں، کچھ خریدنا یا فروخت کرنا مقصود نہ ہوتا تھا، یہ روایت موطا امام مالک میں طفیل بن ابی بن کعب (رض) سے نقل کی ہے۔- قرآن مجید کی جو آیت اوپر ذکر کی گئی ہے اس میں ارشاد یہ ہے کہ جب تمہیں سلام کیا جائے تو اس کا جواب اس سے بہتر الفاظ میں دو ، یا کم از کم ویسے ہی الفاظ کہہ دو اس کی تشریح رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے عمل سے اس طرح فرمائی کہ ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک صاحب آئے اور کہا ” السلام علیک یا رسول اللہ “ آپ نے جواب میں ایک کلمہ بڑھا کر فرمایا :” وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ۔ “ پھر ایک صاحب آئے اور انہوں نے سلام میں یہ الفاظ کہے :” السلام علیک یا رسول اللہ ور حمتہ اللہ۔ “ آپ نے جواب میں ایک اور کلمہ بڑھا کر فرمایا ” وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ “ پھر ایک صاحب آئے انہوں نے اپنے سلام ہی میں تینوں کلمے بڑھا کر کہا ” السلام علیک یا رسول اللہ و رحمتہ اللہ وبرکاتہ “ آپ نے جواب میں صرف ایک کلمہ ” وعلیک “ ارشاد فرمایا، ان کے دل میں شکایت پیدا ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان پہلے جو حضرات آئے آپ نے ان کے جواب میں کئی کلمات دعاء کے ارشاد فرمائے اور میں نے ان سب الفاظ سے سلام کیا تو آپ نے ” وعلیک “ پر اکتفا فرمایا آپ نے فرمایا کہ تم نے ہمارے لئے کوئی کلمہ چھوڑا ہی نہیں کہ ہم جواب میں اضافہ کرتے، تم نے سارے کلمات اپنے سلام ہی میں جمع کردیئے، اس لئے ہم نے قرآنی تعلیم کے مطابق تمہارے سلام کا جواب بالمثل دینے پر اکتفا کرلیا اس روایت کو ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مختلف اسانید کے ساتھ نقل کیا ہے۔- حدیث مذکور سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ سلام کا جواب اس سے اچھے الفاظ میں دینے کا جو حکم آیت مذکورہ میں آیا ہے اس کی صورت یہ ہے کہ سلام کرنے والے کے الفاظ سے بڑھا کر جواب دیا جائے، مثلاً اس نے کہا :” السلام علیکم “ تو آپ جواب دیں ” وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ۔ “ اور اس نے کہا ” السلام علیکم و رحمتہ اللہ۔ “ تو آپ جواب میں کہیں ” وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ “- دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ یہ کلمات کی زیادتی صرف تین کمالات تک مسنون ہے اس سے زیادہ کرنا مسنون نہیں اور حکمت اس کی ظاہر ہے کہ سلام کا موقع مختصر کلام کرنے کا مقتضی ہے، اس میں اتنی زیادتی مناسب نہیں ہے، جو کسی کام میں مخل یا سننے والے پر بھاری ہوجائے اسی لئے جب ایک صاحب نے اپنے ابتدائی سلام ہی میں تینوں کلمے جمع کردیئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آگے اور زیادتی سے احتراز فرمایا، اس کی مزید توضیح حضرت عبداللہ بن عباس نے اس طرح فرمائی کہ مذکورہ تینوں سے زیادہ کرنے والے کو یہ کہہ کر روک دیا کہ : ان السلام قد انتھی الی البرکة (مظہری عن البغوی) یعنی ” سلام لفظ برکت پر ختم ہوجاتا ہے۔ “ اس سے زیادہ کرنا مسنون نہیں ہے۔ (و مثلہ عن ابن کثیر)- تیسری بات حدیث مذکور سے یہ معلوم ہوئی کہ سلام میں تین کلمے کہنے والے کے جواب میں اگر صرف ایک کلمہ ہی کہہ دیا جائے تو وہ بھی اداء بالمثل کے حکم میں حکم قرآنی (اور دھا) کی تعمیل کے لئے کافی ہے، جیسا کہ اس حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف ایک کلمہ پر اکتفا فرمایا ہے۔ (تفسیر مظہری)- مضمون آیت کا خلاصہ یہ ہوا کہ جب کسی مسلمان کو سلام کیا جائے تو اس کے ذمہ جواب دینا تو واجب ہے، اگر بغیر کسی عذر شرعی کے جواب نہ دیا تو گناہگار ہوگا، البتہ جواب دینے میں دو باتوں کا اختیار ہے، ایک یہ کہ جن الفاظ سے سلام کیا گیا ہے ان سے بہتر الفاظ میں جواب دیا جائے، دوسرے یہ کہ بعینہ انہی الفاظ سے جواب دے دیا جائے۔- اس آیت میں سلام کا جواب دینے کو تو لازم جواب صراحة بتلا دیا گیا ہے، لیکن ابتداءً سلام کرنے کا کیا درجہ ہے، اس کا بیان صراحتا نہیں ہے۔ مگر اذا حییتم میں اس کے حکم کی طرف بھی اشارہ موجود ہے، کیونکہ اس لفظ کو بصیغہ مجہول بغیر تعیین فاعل ذکر کرنے میں اشارہ ہوسکتا ہے کہ سلام ایسی چیز ہے جو عادة سب ہی مسلمان کرتے ہیں۔- مسند احمد، ترمذی، ابوداؤد میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد منقول ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب وہ شخص ہے جو سلام کی ابتداء کرے۔- اور سلام کی تاکید اور فضائل آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات سے ابھی آپ سن چکے ہیں ان سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء سلام کرنا بھی سنت موکدہ سے کم نہیں تفسیر بحر محیط میں ہے کہ ابتدائی سلام تو اکثر علماء کے نزدیک سنت موکدہ ہے اور حضرت حسن بصری نے فرمایا السلام تطوع والرد فریضة یعنی ” ابتداء سلام کرنے میں تو اختیار ہے لیکن سلام کا جواب دینا فرض ہے۔ “- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حکم قرآنی کی مزید تشریح کے طور پر سلام اور جواب سلام کے متعلق اور بھی کچھ تفصیلات بیان فرمائی ہیں وہ بھی مختصر طور پر ملاحظہ کرلیجئے صحیحین کی حدیث میں ہے کہ جو شخص سواری پر ہو اس کو چاہئے کہ پیادہ چلنے والے کو خود سلام کرے اور جو چل رہا ہو وہ بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور جو لوگ تعداد میں قلیل ہوں وہ کسی بڑی جماعت پر گذریں تو ان کو چاہئے کہ سلام کی ابتداء کریں۔- ترمذی کی ایک حدیث میں ہے کہ جب آدمی اپنے گھر میں جائے تو اپنے گھر والوں کو سلام کرنا چاہئے کہ اس سے اس کے لئے بھی برکت ہوگیا ور اس کے گھر والوں کے لئے بھی۔- ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان سے بار بار ملاقات ہو تو ہر مرتبہ سلام کرنا چاہئے اور جس طرح اول ملاقات کے وقت سلام کرنا مسنون ہے اسی طرح رخصت کے وقت بھی سلام کرنا مسنون اور ثواب ہے، ترمذی، ابوداؤد میں یہ حکم بروایت قتادہ و ابوہریرہ (رض) نقل کیا ہے۔- اور یہ حکم جو ابھی بیان کیا گیا ہے کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے، اس سے چند حالات مستثنی ہیں، جو شخص نماز پڑھ رہا ہے اگر کوئی اس کو سلام کرے تو جواب دینا واجب نہیں بلکہ مفسد نماز ہے، اسی طرح جو شخص خطبہ دے رہا ہے یا قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہے، یا اذان یا اقامت کہہ رہا ہے، یا دینی کتابوں کا درس دے رہا ہے۔ یا انسانی ضروریات استنجا وغیرہ میں مشغول ہے اس کو اس حالت میں سلام کرنا بھی جائز نہیں اور اس کے ذمہ جواب دینا بھی واجب نہیں۔- اختتام مضمون پر فرمایا : ان اللہ کان علی کل شیء حسیباً یعنی ” اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والے ہیں۔ “ جن میں انسان اور اسلامی حقوق مثل سلام اور جواب سلام کے سب امور داخل ہیں، ان کا بھی اللہ تعالیٰ حساب لیں گے۔
وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّۃٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا ٠ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا ٨٦- تحیۃ - وقوله عزّ وجلّ : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها - [ النساء 86] ، وقوله تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النور 61] ، فَالتَّحِيَّة أن يقال : حيّاک الله، أي : جعل لک حياة، وذلک إخبار، ثم يجعل دعاء . ويقال : حَيَّا فلان فلانا تَحِيَّة إذا قال له ذلك، وأصل التّحيّة من الحیاة، ثمّ جعل ذلک دعاء تحيّة، لکون جمیعه غير خارج عن حصول الحیاة، أو سبب حياة إمّا في الدّنيا، وأمّا في الآخرة، ومنه «التّحيّات لله» «1» وقوله عزّ وجلّ : وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة 49] ، أي : يستبقونهنّ ، والحَياءُ : انقباض النّفس عن القبائح وترکه - اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها[ النساء 86] اور جب تم کو کوئی دعا دے تو ( جواب ) میں تم اس سے بہتر ( کلمے ) سے ( اسے ) دعا دیا کرو یا انہی لفظوں سے دعا دو ۔ نیز : ۔ فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النور 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھروں والوں کو ) سلام کیا کرو ( یہ خدا کی طرف سے ۔۔۔ تحفہ ہے ۔ میں تحیۃ کے معنی کسی کو حیاک اللہ کہنے کے ہیں یعنی اللہ تجھے زندہ رکھے ۔ یہ اصل میں جلہ خبر یہ ہے لیکن دعا کے طور پر استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے حیا فلان فلانا تحیۃ فلاں نے اسے کہا ۔ اصل میں تحیۃ حیات سے مشتق ہے ۔ پھر دعائے حیات کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ کیونکہ جملہ اقسام تحۃ حصول حیاۃ یا سبب حیا ۃ سے خارج نہیں ہیں خواہ یہ دنیا میں حاصل ہو یا عقبی میں اسی سے اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة 49] اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے ۔ کے معنی عورتوں کو زندہ چھوڑ دینے کے ہیں - احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔
سلام اور اس کا جواب۔- قول باری ہے (واذاحییتم بتحیۃ فحیوا باحسن منھا اور دوھا، اور جب کوئی احترام کے ساتھ تمہیں سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ جواب ددو یا کم ازکم اسی طرح) اہل لغت کے نزدیک تحیت کے معنی ملک یعنی سلطنت اور مالک بنانے کے ہیں شاعر کا یہ شعر اس معنی میں ہے۔- اسیر بہ الی النعمان حتی، انیح علی تحیتہ بجند۔ میں اس اونٹ پر بادشاہ نعمان کی طرف جارہا ہوں یہاں تک کہ میں اس کی سلطنت کے اندرجند کے مقام پر اپنااونٹ بٹھاؤں گا یعنی قیام کروں گا۔- شاعر نے ، علی تحتیہ، کہہ کرنعمان کی سلطنت مراد لی ہے اہل عرب کے قول ، حیاک اللہ کے معنی ، ملک اللہ ، اللہ تجھے مالک بنادے ) کے ہیں ، سلام کو بھی تحیت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے کیونکہ عرب کے لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے تھے توحیاک اللہ کہتے تھے پھر اسلام آنے کے بعد اس کی بجائے سلام کا لفظ استعمال ہونے لگا اور سلام کا لفظ حیاک اللہ ، کے قائم مقام ہوگیا۔- حضرت ابوذر کا قول ہے کہ میں پہلا شخص تھا جس نے حضور کو تحیۃ اسلام کے الفاظ میں سلام کیا تھا میں نے آپ سے کہا تھا، السلام علیکم و (رح) ، نابغہ ذیبانی کا ایک مصرعہ ہے، یحیون بالریحان یوم السباسب۔- سیاسب (عیسائیوں کی عید) کے دن انہیں گلدستے پیش کرکے سلام کیا جاتا ہے یعنی انہیں گلدستے پیش کیے جاتے ہیں اور کہاجاتا ہے ، حیاکم اللہ ، اس کے معنی وہ ہیں جو ہم نے بیان کیے ہیں یعنی ملک اللہ۔- اگرہم قول باری (واذاحییتم بتحیہ فحیوا باحسن منھا اور دوھا، کو اس کے حقیقی معنوں پر محمول کریں تو اس سے ایک چیز کو اس وقت تک واپس لے سکتا ہے جب تک بدلے کے طور پر اسے کچھ نہ دے دیاجائے۔- یہ چیز ہمارے اصحاب کے قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے اگر کوئی شخص کسی کو جو اس کا محرم رشتہ دار نہ ہوبطور ہبہ کوئی چیز دے دے تو اس کا بدلہ ملنے سے پہلے پہلے اسے واپس لے سکتا ہے لیکن اس کے بعد وہ واپس نہیں لے سکتا کیونکہ اس نے ہبہ کرکے دو باتوں میں سے ایک واجب کردی تھی ، ثواب یعنی بدلہ یادی ہوئی چیز کی واپسی۔- حضور سے ہبہ کرکے واپس لے لینے کے متعلق روایت ہے جسے ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ہے ، انہیں ابوداؤد نے، انہیں سلیمان بن داؤد المہری نے ، انہیں ، ابن وہب نے ، انہیں اسامہ بن زید نے ، انہیں عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے انہوں نے عمرو کے دادا حضرت عبداللہ بن عمرو سے ، انہوں نے حضور سے کہ آپ نے فرمایا :- اس شخص کی مثال جو اپنی ہبہ کی ہوئی چیز واپس مانگ لیتا ہے اس کتے جیسی ہے جو پہلے قے کرتا ہے اور پھر اپنی قے کو چاٹ جاتا ہے اگر ہبہ کرنے والااپنی چیز واپس مانگے تو پہلے اس حرکت کی کراہت سے واقف کر ایاجائے اور اس کے علم میں یہ بات لائی جائے اس کے بعد اس کی دی ہوئی چیز اسے واپس کردی جائے۔- ابوبکر بن ابی شیبہ نے روایت کی ہے کہ انہیں وکیع نے ابراہیم بن اسمعیل نے مجمع سے انہوں نے عمرو بن دینار سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ حضور نے فرمایا (الرجل احق بھبتہ مالم یثب منھا ، ہبہ کرنے والاہبہ میں دی ہوئی چیز کا سب سے بڑھ کر حق دار ہوتا ہے جب تک اسے اس کا بدلہ نہ مل جائے) ۔- حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر نے روایت کی ہے کہ حضور نے فرمایا، کسی شخص کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ کوئی چیز عطیہ کرے یاہبہ کرے اور واپس لے لے ، البتہ باپ اپنے بیٹے کو دی ہوئی چیز واپس لے سکتا ہے جو شخص عطیہ دے کر واپس لے لیتا ہے اس کی مثال اس کتے کی طرح ہے جو کھاتارہتا ہے یہاں تک کہ جب شکم سیر ہوجاتا ہے توقے کردیتا ہے اور پھر اپنی قے کو چاٹ لیتا ہے) ۔- یہ حدیث دو باتوں پر دلالت کرتی ہے ایک توہبہ کے رجوع کی صحت پر اور دوسری اس حرکت کی کراہت پر نیز اس پر بھی یہ حرکت انتہائی بداخلاقی اور کمینگی کی بات ہے کیو کہ آپ نے اس حرکت کے مرتکب کو اس کتے کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو اپنے قے کو چاٹ جاتا ہے۔- یہ چیز ہماری بیان کردہ بات پر دوطرح سے دلالت کرتی ہے ایک تو یہ کہ ایسے شخص کو کتے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جب وہ اپنی قے کو چاٹ لے اور یہ بات واضح ہے کتے کے لیے یہ حرکت حرام نہیں ہے ، اس لیی اس کے ساتھ جس شخص کو تشبیہ دی ہے اس کے لیے بھی یہ حرکت حرام نہیں ہوگی۔- دوسری یہ کہ اگر رجوع فی الہبہ کسی حال میں بھی درست نہ ہوتا تورجوع کرنے والے کوس کتے کے مشابہ قرار نہ دیاجاتا جو اپنی قے کو چاٹ لیتا ہے کیونکہ ایسی چیز کو جو کسی حال میں بھی وقوع پذیر نہیں ہوتی کسی ایسی چیز کے ساتھ تشبیہ دینا درست نہیں ہوتاجس کا وجود میں آنا صحیح ہوتا ہے یہ بات رجوع فی الہیہ کی صحت پر دلالت کرتی ہے اگرچہ یہ حرکت انتہائی قبیح اور مکروہ ہے ۔- غیر ذی رحم محرم کو ہبہ کرکے واپس لے لینے کی روایت حضرت علی، حضرت عمر، اور حضرت فضالہ بن عبید سے منقول ہے جس کی مخالفت میں کسی صحابی سے کوئی روایت منقول نہیں ہے سلف کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ آیت زیربحث سلام کا جواب دینے کے بارے میں ہے انمیں حضرت جابر بن عبداللہ شامل ہیں۔- حسن کا قول ہے السلام علیکم کہنا تطوع یعنی نفل ہے لیکن سلام کا جواب دینا فرض ہے ، پھر حسن نے اس موقعہ پر زیر بحث آیت کا ذکر کیا تھا پھر اس بارے میں اختلاف رائے سے کہ یہ صرف اہل اسلام کے لیے ہے یا اہل اسلام اور اہل کفر سب کے لیے عام ہے عطاء کا قول ہے کہ یہ ـصرف اہل اسلام کے لیے خاص ہے ، حضرت ابن عباس، اور ابراہیم نخعی اور قتادہ کا قول ہے کہ یہ دونوں کے لیے عام ہے۔- حسن کا قول ہے کہ کافر کے سلام کے جواب میں صرف لفظ، وعلیکم ، کہاجائے گا، اورو (رح) ، نہیں کہاجائے گاکیون کہ کافر کے لیے بخشش کی دعا کرنا جائز نہیں ہے۔ حضور سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا یہود کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو۔ اگر وہ تمہیں سلام کرنے میں پہل کریں تو جواب میں صرف وعلیکم کہہ دو ۔- ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ سلام کا جواب دینا فرض کفایہ ہے اگر پوری جماعت سے ایک شخص سلام کا جواب دے دے تو یہ کافی ہوجائے گا۔- قول باری (باحسن منھا) سے اگر سلام کا جواب دینا مراد ہو تو اس کا مطلب دعا میں اضافہ ہوگا یعنی جب کوئی شخص کسی کو السلام علیکم کہے گا تو جواب میں یہ شخص اسے وعلیکم السلام و (رح) کہے گا اور اگر سلام کرنے والا السلام علیکم و (رح) کہے گا تو جواب دینے والاوعلیکم السلام و (رح) وبرکاتہ کہے گا۔
(٨٦) اور جس وقت تمہارے مذہب والا تمہیں سنت کے مطابق سلام کرے تو اس سے بہترین اور اچھے الفاظ میں اس کو سلام کا جواب دو اور جب کوئی غیر مذہب والا سلام کرے تو ان ہی الفاظ میں اس کا سلام کا جواب دے دو ۔- اللہ کی جانب سے سلام اور اس کے جواب پر جزا دی جائے گی، یہ آیت کریمہ ایسے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو سلام کرنے میں بخل کرتے تھے۔- اللہ تعالیٰ قیامت کے روز (جس کے واقع ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں) میدان حشر میں سب کو جمع کریں گے۔
آیت ٨٦ (وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْہَآ اَوْرُدُّوْہَا ط) ۔- ہر معاشرے میں کچھ ایسے دعائیہ کلمات رائج ہوتے ہیں جو معاشرے کے افراد باہمی ملاقات کے وقت ‘ استعمال کرتے ہیں۔ جیسے مغربی معاشرے میں گڈ مارننگ اور گڈایوننگ وغیرہ۔ عربوں کے ہاں صباح الخیر اور مساء الخیر کے علاوہ سب سے زیادہ رواج حَیَّاک اللّٰہ کہنے کا تھا۔ یعنی اللہ تمہاری زندگی بڑھائے۔ جیسے ہمارے ہاں سرائیکی علاقے میں کہا جاتا ہے حیاتی ہو وے۔ درازئ عمر کی اس دعا کو تَحِیَّہ کہا جاتا ہے۔ سلام اور اس کے ہم معنی دوسرے دعائیہ کلمات بھی سب اس کے اندر شامل ہوجاتے ہیں۔ عرب میں جب اسلامی معاشرہ وجود میں آیا تو دیگر دعائیہ کلمات بھی باقی رہے ‘ البتہ السَّلَامُ عَلَیْکُمْکو ایک خاص اسلامی شعار کی حیثیت حاصل ہوگی۔ اس آیت میں ہدایت کی جا رہی ہے کہ جب تمہیں کوئی سلامتی کی دعا دے تو اس کے جواب کا اعلیٰ طریقہ یہ ہے کہ اس سے بہتر طریقے پر جواب دو ۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْکے جواب میں وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُکے ساتھ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاُتہٗ کا اضافہ کر کے اسے لوٹائیں۔ اگر یہ نہیں تو کم از کم اسی کے الفاظ اس کی طرف لوٹا دو ۔- (اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا ) - یہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں جو ہیں انسانی زندگی میں ان کی بھی اہمیت ہے۔ ان معاشرتی آداب سے معاشرتی زندگی کے اندر حسن پیدا ہوتا ہے ‘ آپس میں محبت و مودت پیدا ہوتی ہے۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :114 اس وقت مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات نہایت کشیدہ ہو رہے تھے ، اور جیسا کہ تعلقات کی کشیدگی میں ہو اکرتا ہے ، اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں مسلمان دوسرے لوگوں کے ساتھ کج خلقی سے نہ پیش آنے لگیں ۔ اس لیے انہیں ہدایت کی گئی کہ جو تمہارے ساتھ احترام کا برتاؤ کرے اس کے ساتھ تم بھی ویسے ہی بلکہ اس سے زیادہ احترام سے پیش آؤ ۔ شائستگی کا جواب شائستگی ہی ہے ، بلکہ تمہارا منصب یہ ہے کہ دوسروں سے بڑھ کر شائستہ بنو ۔ ایک داعی و مبلغ گروہ کے لیے ، جو دنیا کو راہ راست پر لانے اور مسلک حق کی طرف دعوت دینے کے لیے اٹھا ہو ، درشت مزاجی ، ترش روئی اور تلخ کلامی مناسب نہیں ہے ۔ اس سے نفس کی تسکین تو ہو جاتی ہے مگر اس مقصد کو الٹا نقصان پہنچتا ہے جس کے لیے وہ اٹھا ہے ۔
52: سلام بھی چونکہ اﷲ تعالیٰ کے حضور ایک سفارش ہے، اس لئے سفارش کا حکم بیان کرنے کے ساتھ سلام کا حکم بھی بیان فرما دیا گیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ پسندیدہ بات تو یہ ہے کہ جن الفاظ میں کسی شخص نے سلام کیا ہے اس سے بہتر الفاظ میں اس کا جواب دیا جائے، مثلا اگر اس نے صرف ’’السلام علیکم‘‘ کہا ہے تو جواب میں ’’و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کہا جائے، اور اگر اس نے ’’السلام علیکم ورحمۃ اﷲ‘‘ کہا ہے تو جواب میں ’’وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ‘‘ کہا جائے، لیکن اگر بعینہٖ اسی کے الفاظ میں جواب دے دیا جائے تو یہ بھی جائز ہے، البتہ کسی مسلمان کے سلام کا بالکل جواب نہ دینا گناہ ہے۔