منافقوں سے ہوشیار رہو اس میں اختلاف ہے کہ منافقوں کے کس معاملہ میں مسلمانوں کے درمیان دو قسم کے خیالات داخل ہوئے تھے ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب میدان احد میں تشریف لے گئے تب آپ کے ساتھ منافق بھی تھے جو جنگ سے پہلے ہی لوٹ آئے تھے ان کے بارے میں بعض مسلمان تو کہتے تھے کہ انہیں قتل کر دینا چاہیے اور بعض کہتے تھے نہیں یہ بھی ایماندار ہیں ، اس پر یہ آیت اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ شہر طیبہ ہے جو خود بخود میل کچیل کو اس طرح دور کر دے گا جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو چھانٹ دیتی ہے ۔ ( بخاری و مسلم ) ابن اسحاق میں ہے کہ کل لشکر جنگ احد میں ایک ہزار کا تھا ، عبداللہ بن ابی سلول تین سو آدمیوں کو اپنے ہمراہ لے کر واپس لوٹ آیا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پھر سات سو ہی رہ گئے تھے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مکہ سے نکلے ، انہیں یقین تھا کہ اصحاب رسول سے ان کی کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی کیونکہ بظاہر کلمہ کے قائل تھے ادھر جب مدنی مسلمانوں کو اس کا علم ہوا تو ان میں سے بعض کہنے لگے ان نامرادوں سے پہلے جہاد کرو یہ ہمارے دشمنوں کے طرف دار ہیں اور بعض نے کہا سبحان اللہ جو لوگ تم جیسا کلمہ پڑھتے ہیں تم ان سے لڑو گے؟ صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے ہجرت نہیں کی اور اپنے گھر نہیں چھوڑے ، ہم کس طرح ان کے خون اور ان کے مال اپنے اوپر حلال کر سکتے ہیں؟ ان کا یہ اختلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہوا آپ خاموش تھے جو یہ آیت نازل ہوئی ( ابن ابی حاتم ) حضرت سعید بن معاذ کے لڑکے فرماتے ہیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جب تہمت لگائی گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کوئی ہے جو مجھے عبداللہ بن ابی کی ایذاء سے بچائے اس پر اوس و خزرج کے درمیان جو اختلاف ہوا اس کی بابت یہ آیت نازل ہوئی ہے ، ان کی ہدایت کی کوئی راہ نہیں ۔ یہ تو چاہتے ہیں کہ سچے مسلمان بھی ان جیسے گمراہ ہو جائیں ان کے دلوں میں اس قدر عداوت ہے ، تو تمہیں ممانعت کی جاتی ہے کہ جب تک یہ ہجرت نہ کریں انہیں اپنا نہ سمجھو ، یہ خیال نہ کرو کہ یہ تمہارے دوست اور مددگار ہیں ، بلکہ یہ خود اس لائق ہیں کہ ان سے باقاعدہ جہاد کیا جائے ۔ پھر ان میں سے ان حضرات کا استثنا کیا جاتا ہے جو کسی ایسی قوم کی پناہ میں چلے جائیں جس سے مسلمانوں کا عہد و پیمان صلح و سلوک ہو تو ان کا حکم بھی وہی ہو گا جو معاہدہ والی قوم کا ہے ، سراقہ بن مالک مدلجی فرماتے ہیں جب جنگ بدر اور جنگ احد میں مسلمان غالب آئے اور آس پاس کے لوگوں میں اسلام کی بخوبی اشاعت ہو گئی تو مجھے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارادہ ہے کہ خالد بن ولید کو ایک لشکر دے کر میری قوم بنو مدلج کی گوشمالی کے لئے روانہ فرمائیں تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا میں آپ کو احسان یاد دلاتا ہوں لوگوں نے مجھ سے کہا خاموش رہ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسے کہنے دو ، کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ میری قوم کی طرف لشکر بھیجنے والے ہیں میں چاہتا ہوں کہ آپ ان سے صلح کرلیں اس بات پر کہ اگر قریش اسلام لائیں تو یہ بھی مسلمان ہو جائیں گے اور اگر وہ اسلام نہ لائیں تو ان پر بھی آپ چڑھائی نہ کریں ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا ان کے ساتھ جاؤ اور ان کے کہنے کے مطابق ان کی قوم سے صلح کر آؤ پس اس بات پر صلح ہو گئی کہ وہ دشمنان دین کی کسی قسم کی مدد نہ کریں اور اگر قریش اسلام لائیں تو یہ بھی مسلمان ہو جائیں پس اللہ نے یہ آیت اتاری کہ یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی کفر کرو جیسے وہ کفر کرتے ہیں پھر تم اور وہ برابر ہو جائیں پس ان میں سے کسی کو دوست نہ جانو ، یہی روایت ابن مردویہ میں ہے کہ تم بھی کفر کرو جیسے وہ کفر کرتے ہیں پھر تم وہ برابر ہو جاؤ پس ان میں سے کسی کو دوست نہ جانو ، یہی روایت ابن مردویہ میں ہے اور ان میں ہی آیت ( اِلَّا الَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ اِلٰى قَوْمٍۢ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَھُمْ مِّيْثَاقٌ اَوْ جَاۗءُوْكُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُھُمْ اَنْ يُّقَاتِلُوْكُمْ اَوْ يُقَاتِلُوْا قَوْمَھُمْ ) 4 ۔ النسآء:90 ) نازل ہوئی پس جو بھی ان سے مل جاتا وہ انہی کی طرح پر امن رہتا کلام کے الفاظ سے زیادہ مناسبت اسی کو ہے ، صحیح بخاری شریف میں صلح حدیبیہ کے قصے میں ہے کہ پھر جو چاہتا ہے کہ کفار کی جماعت میں داخل ہو جاتا ہے اور امن پالیتا ہے جو چاہتا ہے مدنی مسلمانوں سے ملتا اور عہد نامہ کی وجہ سے مامون ہو جاتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ اس حکم کو پھر اس آیت نے منسوخ کر دیا کہ ( فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 9 ۔ التوبہ:5 ) یعنی جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکین سے جہاد کرو جہاں کہیں انہیں پاؤ ۔ ایک دوسری جماعت کا ذکر ہو رہا ہے جسے مستثنیٰ کیا ہے جو میدان میں لائے جاتے ہیں لیکن یہ بیچارے بےبس ہوتے ہیں وہ نہ تو تم سے لڑنا چاہتے ہیں نہ تمہارے ساتھ مل کر اپنی قوم سے لڑنا پسند کرتے ہیں بلکہ وہ ایسے بیچ کے لوگ ہیں جو نہ تمہارے دشمن کہے جاسکتے ہیں نہ دوست ۔ یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ اس نے ان لوگوں کو تم پر مسلط نہیں کیا اگر وہ جاہتا تو انہیں زور و طاقت دیتا اور ان کے دل میں ڈال دیتا کہ وہ تم سے لڑیں پس اگر یہ تمہاری لڑائی سے باز رہیں اور صلح و صفائی سے یکسو ہو جائیں تو تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت نہیں ، اسی قسم کے لوگ تھے جو بدر والے دن بنو ہاشم کے قبیلے میں سے مشرکین کے ساتھ آئے تھے جو دل سے اسے ناپسند رکھتے تھے جیسے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل کو منع فرما دیا تھا اور حکم دیا تھا کہ انہیں زندہ گرفتار کر لیا جائے ۔ پھر ایک اور گروہ کا ذکر کیا جاتا ہے جو بظاہر تو اوپر والوں جیسا ہے لیکن دراصل نیت میں بہت کھوٹ ہے یہ لوگ منافق ہیں حضور کے پاس آکر اسلام ظاہر کر کے اپنے جان و مال مسلمانوں سے محفوظ کرا لیتے ہیں ادھر کفار میں مل کر ان کے معبودان باطل کی پرستش کر کے ان میں سے ہونا ظاہر کر کے ان سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں تاکہ ان کے ہاتھوں سے بھی امن میں رہیں ، دراصل یہ لوگ کافر ہیں ، جیسے اور جگہ ہے اپنے شیاطین کے پاس تنہائی میں جا کر کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں یہاں بھی فرماتا ہے کہ جب کبھی فتنہ انگیزی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تو جی کھول کر پوری سرگرمی سے اس میں حصہ لیتے ہیں جیسے کوئی اوندھے منہ گرا ہوا ہو ۔ فتنہ سے مراد یہاں شرک ہے حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ یہ لوگ بھی مکہ والے تھے یہاں آ کر بطور ریا کاری کے اسلام قبول کرتے تھے وہاں جا کر ان کے بت پوجتے تھے تو مسلمانوں کو فرمایا جاتا ہے کہ اگر یہ اپنی دوغلی روش سے باز نہ آئیں ایذاء رسانی سے ہاتھ نہ روکیں صلح نہ کریں تو انہیں امن امان نہ دو ان سے بھی جہاد کرو ، انہیں بھی قیدی بناؤ اور جہاں پاؤ قتل کردو ، بیشک ان پر ہم نے تمہیں ظاہر غلبہ اور کھلی حجت عطا فرمائی ہے ۔
88۔ 1 یہ استفہام انکار کے لئے ہے یعنی تمہارے درمیان ان منافقین کے بارے میں اختلاف نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ان منافقین سے مراد وہ ہیں جو احد کی جنگ میں مدینہ سے کچھ دور جا کر واپس آگئے تھے، ہماری بات نہیں مانی گئی (صحیح بخاری سورة ، نساء صحیح مسلم، کتاب المنافقین) جیسا کہ تفصیل میں پہلے گزر چکی ہے۔ ان منافقین کے بارے میں اس وقت مسلمانوں کے دو گروہ بن گئے، ایک گروہ کا کہنا ہے کہ ہمیں ان منافقین سے (بھی) لڑنا چاہئے، دوسرا گروہ اسے مصلحت کے خلاف سمجھتا تھا۔ 88۔ 2 کَسَبُوا (اعمال) سے مراد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور جہاد سے اعراض ہے۔ ارکَسھُمْ ۔ اوندھا کردیا یعنی جس کفر و ضلالت سے نکلے تھے، اسی میں مبتلا کردیا، یا اس کے سبب ہلاک کردیا۔ 88۔ 3 جس کو اللہ گمراہ کر دے یعنی مسلسل کفر وعناد کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دے، انہیں کوئی راہ یاب نہیں کرسکتا۔
[١٢١] منافقوں کے بارے میں دو گروہ :۔ اس آیت کا شان نزول درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے :- زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ : جب نبی اکرم احد کی طرف نکلے تو کچھ لوگ (منافقین) آپ کو چھوڑ کر مدینہ واپس آگئے۔ ان واپس ہونے والوں کے بارے میں صحابہ کے دو گروہ ہوگئے۔ ایک کہتا تھا کہ ہم ان سے (بھی) لڑائی کریں گے اور دوسرا کہتا تھا کہ ہم ان سے لڑائی نہ کریں گے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، نیز کتاب المغازی، باب غزوہ احد۔۔ مسلم، کتاب صفۃ المنافقین)- [١٢٢] یعنی ان منافقوں نے واپس جا کر اپنی منافقت کا ثبوت مہیا کردیا ہے۔ اب اگر تم یہ چاہو کہ ہمیں ان سے لڑائی نہ کرنی چاہیے شاید کہ وہ راہ راست پر آجائیں تو یہ بات تمہارے بس میں نہیں۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ ایسے منافقین واجب القتل ہیں کیونکہ حقیقتاً ان کے ارادے یہ ہیں کہ تمہیں بھی اپنے جیسا بنا کے چھوڑیں۔
یعنی تم ان منافقین کے بارے میں دو گروہ کیوں ہوگئے، تمہیں تو ان کے متعلق ایک رائے پر متفق ہونا چاہیے۔ زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوۂ احد کے لیے نکلے تو کچھ لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ کر راستے ہی سے واپس ہوگئے، ان کے بارے میں مسلمانوں کے دو گروہ ہوگئے، ایک گروہ کہنے لگا، آپ انھیں قتل کریں اور دوسرا گروہ اس کے خلاف تھا، تو یہ آیت اتری : ( فمالکم فی المنافقین فئتین ) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ طیبہ ہے، یہ گند کو اس طرح دور کردیتا ہے جیسے آگ چاندی کے گند کو۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب : ( فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنٰفِقِيْنَ ۔۔ ) : ٤٥٨٩ ] شوکانی (رض) نے فرمایا، یہ حدیث اس آیت کے اسباب نزول میں سب سے زیادہ صحیح ہے۔
خلاصہ تفسیر - تین مختلف گروہوں کا بیان اور ان کے احکام - پہلے فرقہ کا بیان :۔ (جب تم ان مرتدین کی حالت دیکھ چکے) پھر تم کو کیا ہوا کہ ان منافقین کے باب میں تم (اختلاف رائے کر کے) دو گروہو ہوگئے (کہ ایک گروہ ان کو اب بھی مسلمان کہتا ہے) حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو (ان کے علانیہ کفر کی طرف) الٹا پھیر دیا ان کے (بد) عمل کے سبب (وہ بدعمل اور تداداً دارالسلام کو باوجود قدرت کے چھوڑ دینا ہے، جو کہ اس وقت نہ ہوئے تھے اور اسی وجہ سے ان کو منافق کہا) کیا تم لوگ (اے وہ گروہ جن کو اس ترک دارالاسلام کا علامت کفر ہونا معلم نہیں) اس کا ارادہ رکھتے ہو کہ ایسے لوگوں کو ہدایت کرو جن کو اللہ تعالیٰ نے (جبکہ ان لوگوں نے گمراہی اختیار کی) گمراہی میں ڈال رکھا ہے (جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی عادت ہے کہ عزم فعل کے وقت اس فعل کو پیدا کردیتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ غیر مومن میں گمراہ کو جو ہدایت یافتہ مومن کہتے ہو یہ تمہارے لئے جائز نہیں) اور جس کو ان لوگوں کو مومن نہ کہنا چاہئے اور بھلا وہ خود کیا مومن ہوں گے ان کے غلوفی الکفر کی تو یہ حالت ہے کہ) وہ اس تمنا میں ہیں کہ جیسے وہ کافر ہیں تم بھی (خدا نہ کرے) کافر بن جاؤ، جس میں تم اور وہ سب ایک طرح ہوجاؤ سو (ان کی جب یہ حالت ہے تو) ان میں سے کسی کو دوست مت بنانا (یعنی کسی کے ساتھ مسلمانوں کیساتھ ایسا برتاؤ مت کرنا، کیونکہ دوستی کے جواز کے لئے اسلام شرط ہے) جب تک وہ اللہ کی راہ میں (یعنی تکمیل اسلام کے لیے) ہجرت نہ کریں (کیونکہ اس وقت ہجرت کا وہ حکم تھا جو اب اقرار بالشہادتین کا ہے اور تکمیل اسلام کی قید اسلئے ہے کہ خالی دارالسلام میں آنا کافی نہیں، یوں تو کفار اہل تجارت بھی آجاتے ہیں، بلکہ اسلامی حیثیت سے آویں، یعنی اسلام بھی ظاہر کریں، تاکہ جامع اقرار و ہجرت کے ہوجاویں اور رہی قلبی تصدیق تو اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہوسکتا ہے مسلمانوں کو اس کی تفتیش ضروری نہیں) اور اگر وہ (اسلام سے) اعراض کریں (اور کافر ہی رہیں) تو ان کو پکڑو اور قتل کرو جس جگہ ان کو پاؤ (یہ پکڑنا یا تو قتل کے لئے ہے یا غلام بنانے کے لئے) اور نہ ان میں کسی کو دوست بناؤ اور نہ مددگار بناؤ (مطلب یہ کہ کسی حالت میں ان سے کوئی تعلق نہ رکھو، نہ امن میں دوستی نہ خوف میں استعانت بلکہ الگ تھلگ رہو۔ )- دوسرے فرقہ کا بیان :۔ - مگر (ان کفار میں) جو لوگ ایسے ہیں جو کہ (تمہارے ساتھ مصالحت سے رہنا چاہتے ہیں، جس کے دو طریقے ہیں ایک تو یہ کہ بواسطہ صلح ہو یعنی) ایسے لوگوں سے جاملتے ہیں (یعنی ہم عہد ہوجاتے ہیں) کہ تمہارے اور ان کے درمیان عہد (صلح) ہے، (جیسے بنو مدلج، کہ ان سے صلح ہوئی تو ان کے ہم عہد بھی اس استثناء میں آگئے تو بنو مدلج بدرجہ اولی مستثنی ہوئے) یا (دوسرے طریقہ یہ ہے کہ بلا واسطہ صلح ہو اس طرح سے کہ) خود تمہارے پاس اس حال سے آویں کہ ان کا دل تمہارے ساتھ اور نیز اپنی قوم کے ساتھ بھی لڑنے سے منقبض ہو (اس لئے نہ تو اپنی قوم کے ساتھ ہو کہ تم سے لڑیں اور نہ تمہارے ساتھ ہو اپنی قوم سے لڑیں بلکہ (ان سے بھی صلح رکھیں اور تم سے بھی، پس دونوں طریقوں میں جس طریق سے کوئی مصالحت رکھے وہ حکم مذکور پکڑنے اور قتل سے مستثنی ہیں) اور (تم ان لوگوں کی) درخواست صلح میں اللہ تعالیٰ کا احسان مانو کہ ان کے دل میں تمہاری ہیبت ڈال دی ورنہ) اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کو تم پر مسلط (اور لدیر) کردیتا پھر وہ تم سے لڑنے لگتے (مگر اللہ تعالیٰ نے تم کو اس پریشانی سے بچا لیا) پھر اگر (صلح کر کے) وہ تم سے کنارہ کش رہیں یعنی تم سے نہ لڑیں اور تم سے معاملہ سلامت روی کا رکھیں (ان سب الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ صلح سے رہیں کوئی لفظ تاکید کے لئے فرما دیئے) تو (اس حالت صلح میں) اللہ تعالیٰ نے تم کو ان پر (قتل یا قید وغیرہ کی) کوئی راہ نہیں دی (یعنی اجازت نہیں دی)- تیسرے فرقہ کا بیان :۔ - بعضے ایسے بھی تم کو ضرور ملیں گے (یعنی ان کی یہ حالت معلوم ہوگی) کہ (براہ دھوکہ) وہ یہ (بھی) چاہتے ہیں کہ تم سے بھی بےخطر ہو کر رہیں اور اپنی قوم سے بھی بےخطر ہو کر رہیں (اور ساتھ ہی اس کے) جب کبھی ان کو (صریح مخالفین کی طرف سے) شرارت (و فساد) کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے (یعنی ان سے مسلمانوں سے لڑنے کے لئے کہا جاتا ہے) تو وہ (فوراً ) اس (شرارت) میں جاگرتے ہیں (یعنی مسلمانوں سے لڑنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور وہ دھوکہ کی صلح توڑ دیتے ہیں) سو یہ لوگ اگر (صلح توڑدیں اور) تم سے (یعنی تمہاری لڑائی سے) کنارہ کش نہ ہوں اور نہ تم سے سلامت روی رکھیں اور نہ اپنے ہاتھوں کو (تمہارے مقابلہ سے) روکیں (سب کا مطلب مثل سابق کے ایک ہی ہے کہ صلح توڑ دیں) تو تم (بھی) ان کو پکڑو اور قتل کرو جہاں کہیں ان کو پاؤ اور ہم نے تم کو ان پر صاف حجت دی ہے (جس سے ان کا قتل کرنا ظاہر ہے اور وہ حجت ان کا نقص عہد ہے)- معارف و مسائل - مذکورہ آیات میں تین فرقوں کا بیان ہے، جن کے متعلق دو حکم مذکور ہیں، واقعات ان فرقوں کے مندرجہ روایات سے واضح ہوں گے۔- پہلی روایت :۔ - عبد بن حمید نے مجاہد سے روایت کیا کہ بعض مشرکین مکہ سے مدینہ آئے اور ظاہر کیا کہ ہم مسلمان اور مہاجر ہو کر آئے ہی، پھر مرتد ہوگئے اور حضرت رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسباب تجارت لانے کا بہانہ نہ کرے کے پھر مکہ چل دیئے اور پھر نہ آئے ان کے بارے میں مسلمانوں کی رائے مختلف ہوئی، بعض نے کہا یہ کافر ہیں بعض نے کہا یہ مومن ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کا کافر ہونا آیت فما لکم فی المنفقین فئتین میں بیان کردیا اور ان کے قتل کا حکم دیا۔- حضرت حکیم الامت تھانوی نے فرمایا کہ ان کا منافق کہنا بایں معنی ہے کہ جب اسلام کا دعویٰ کیا تھا جب بھی منافق تھے دل سے ایمان نہ لائے تھے اور منافقین گو قتل نہ کئے جاتے تھے لیکن جب تک ہی کہ اپنا کفر چھپاتے تھے اور ان لوگوں کا ارتداد ظاہر ہوگیا تھا اور جنہوں نے مسلمان کہا شاید حسن ظن کی وجہ سے کہا ہو، اور ان کے دلائل ارتداد میں کچھ تاویل کرلی ہوگی اور اس تاویل کی بنیاد رائے محض ہوگی جس کی تائید دلیل شرعی سے نہ ہوگیا اس لئے معتبر نہیں رکھی گئی۔- دوسری روایت :۔- ابن ابی شیبہ نے حسن سے رایت کیا کہ سراقہ بن مالک مدلجی نے بعد واقعہ بدر و احد کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضور میں آ کر درخواست کی کہ ہماری قوم بنی مدلج سے صلح کرلیجئے، آپ نے حضر خالد کو تکمیل صلح کے لئے وہاں بھیج دیا، مضمون صلحیہ تھا :- ” ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کسی کی مدد نہ کریں گے اور قریش مسلمان ہوجائیں گے تو ہم بھی مسلمان ہوجائیں گے اور جو قومیں ہم سے متحد ہوں گی وہ بھی اس معاہدہ میں ہمارے شریک ہیں۔ “- اس پر یہ آیت ودوالوتکفرون الی قولہ الا الذین یصلون الخ نازل ہوئی۔- تیسری روایت :۔ حضرت ابن عباس سے روایت کیا گیا کہ آیتہ ستجدون اخرین الخ میں جن کا ذکر ہے مراد ان سے قبیلہ اسد اور غطفان ہیں کہ مدینہ میں آئے اور ظاہراً اسلام کا دعویٰ کرتے اور اپنی قوم سے کہتے کہ ہم تو بندر اور عقرب (بچھو) پر ایمان لائے ہیں اور مسلمانوں سے کہتے کہ ہم تمہارے دین پر ہیں۔- اور ضحاک نے ابن عباس سے یہی حالت بنی عبدالدار کی نقل کی ہے، پہلی اور دوسری روایت روح المعانی اور تیسری معالم میں ہے۔- حضرت تھانوی نے فرمایا کہ اس تیسری روایت والوں کی حالت مثل پہلی روایت والوں کے ہوئی، کہ دلیل سے ان کا پہلے ہی سے مسلمان نہ ہونا ثابت ہوگیا، اسی لئے ان کا حکم مثل عام کفار کے ہے، یعنی مصالحت کی حالت میں ان سے قتال نہ کیا جائے اور مصالحت نہ ہونے کی صورت میں قتال کیا جائے، چناچہ پہلی روایت والوں کے باب میں دوسری آیت یعنی فان تولو فخذوم واقتلوھم میں گرفتار کرنے اور قتل کا حکم اور تیسری آیت الا الذین یصلون الخ میں مصالحت میں ان کا استثناء موجودہ جن کی مصالحت کا ذکر دوسری روایت میں ہے اور تاکید استثناء کے لئے پھر فان اعتزالوکم کی تصریح کردی۔- اور تیسری روایت والوں کے باب میں چوتھی آیت یعنی ستجدون اخرین الخ میں بیان فرما دیا کہ اگر یہ لوگ تم سے کنارہ کش نہیں ہوتے بلکہ مقاتلہ کرتے ہیں تو تم ان سے جہاد کرو، اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اگر وہ صلح کریں تو ان سے قتال نہ کیا جائے۔ (بیان القرآن)- خلاصہ یہ کہ یہاں تین فرقوں کا ذکر فرمایا گیا :- ١۔ جو ہجرت کہ شرط اسلام کے زمانہ میں باوجود قدرت کے ہجرت نہ کریں یا کرنے کے بعد دارالاسلام سے نکل کر دارالحرب میں چلے جائیں۔- ٢۔ مسلمانوں سے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ خود کرلیں یا ایسا معاہدہ کرنے والوں سے معاہدہ کرلیں۔- ٣۔ جو دفع الوقتی کی غرض سے صلح کرلیں اور جب مسلمانوں کے خلاف جنگ کی دعوت دی جائے تو اس میں شریک ہوجائیں اور اپنے عہد پر قائم نہ رہیں۔- پہلے فریق کا حکم عام کفار کی مانند ہے، دوسرا فریق قتل اور پکڑ دھکڑ سے مستثنی ہے، تیسرا فریق اسی سزا کا مستحق ہے جس کا پہلا فریق تھا، ان آیتوں کے کل دو حکم مذکور ہیں، یعنی عدم صلح کے وقت قتال اور مصالحت کے وقت قتال نہ کرنا۔
فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنٰفِقِيْنَ فِئَتَيْنِ وَاللہُ اَرْكَسَھُمْ بِمَا كَسَبُوْا ٠ۭ اَتُرِيْدُوْنَ اَنْ تَہْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللہُ ٠ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ سَبِيْلًا ٨٨- نِّفَاقُ- ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] - نفاق جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ - فئة- الفَيْءُ والْفَيْئَةُ : الرّجوع إلى حالة محمودة . قال تعالی: حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ- [ الحجرات 9] ، وقال : فَإِنْ فاؤُ [ البقرة 226] ، ومنه : فَاءَ الظّلُّ ، والفَيْءُ لا يقال إلّا للرّاجع منه . قال تعالی: يَتَفَيَّؤُا ظِلالُهُ [ النحل 48] . وقیل للغنیمة التي لا يلحق فيها مشقّة : فَيْءٌ ، قال : ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ [ الحشر 7] ، وَما مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ [ الأحزاب 50] ، قال بعضهم : سمّي ذلک بِالْفَيْءِ الذي هو الظّلّ تنبيها أنّ أشرف أعراض الدّنيا يجري مجری ظلّ زائل، قال الشاعر - أرى المال أَفْيَاءَ الظّلال عشيّة- «2» وکما قال :- 361-- إنّما الدّنيا كظلّ زائل - «3» والفِئَةُ : الجماعة المتظاهرة التي يرجع بعضهم إلى بعض في التّعاضد . قال تعالی:- إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] ، كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] ، فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] ، فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] ، مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] ، فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] .- ( ف ی ء )- الفیئی والفیئۃ کے معنی اچھی حالت کی طرف لوٹ آنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ [ الحجرات 9] یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے پس جب وہ رجوع لائے ۔ فَإِنْ فاؤُ [ البقرة 226] اور اسی سے فاء الظل ہے جس کے معنی سیایہ کے ( زوال کے بعد ) لوٹ آنے کے ہیں اور فئی اس سایہ کو کہا جاتا ہے ۔ ( جو زوال کے ) بعد لوت کر آتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَتَفَيَّؤُا ظِلالُهُ [ النحل 48] جنکے سائے ۔۔۔۔۔۔ لوٹتے ہیں ۔ اور جو مال غنیمت بلا مشقت حاصل ہوجائے اسے بھی فیئ کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ [ الحشر 7] جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو ۔۔۔۔۔ دلوایا ۔ مِمَّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ [ الأحزاب 50] جو خدا نے تمہیں ( کفار سے بطور مال غنیمت ) دلوائی ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مال غنیمت کوئی بمعنی سایہ کے ساتھ تشبیہ دے کر فے کہنے میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ دنیا کا بہترین سامان بھی بمنزلہ ظل زائل کے ہے شاعر نے کہا ہے ( اما دی المال افیاء الظلال عشیۃ اے مادی ماں شام کے ڈھلتے ہوئے سایہ کیطرح ہے ۔ دوسرے شاعر نے کا ہ ہے ( 349 ) انما الدنیا اظل زائل کہ دنیا زائل ہونے والے سایہ کی طرح ہے ۔ الفئۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد تعاون اور تعاضد کے لئے ایک دوسرے کیطرف لوٹ آئیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے ۔۔۔۔۔ بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ۔ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] دو گر ہوں میں جو ( جنگ بدد میں ) آپس میں بھڑ گئے ۔ فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گر وہ ۔ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] جب یہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آر ہوئیں ۔- ركس - الرَّكْسُ : قَلْبُ الشیء علی رأسه، وردّ أوّله إلى آخره . يقال : أَرْكَسْتُهُ فَرُكِسَ وارْتَكَسَ في أمره، قال تعالی: وَاللَّهُ أَرْكَسَهُمْ بِما كَسَبُوا[ النساء 88] ، أي : ردّهم إلى كفرهم .- ( ر ک س ) الرکس کے معنی کسی چیز کو اس کے سر پر الٹا کردینا اس کے اول سرے کو موڑ کر پچھلے سرے کے ساتھ ملا دینا کے ہیں محاورہ : ۔ ارکستہ میں نے اسے الٹا کردیا اور رکس اس کا مطاوع آتا ہے ۔ اور ارتکس فی امرہ کے معنی کسی معاملہ میں الجھ جانے کے ہیں ( یعنی کسی مصیبت سے رہائی کے بعد اس میں پھنس جانا ) قرآن میں ہے : ۔ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُمْ بِما كَسَبُوا[ النساء 88] حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر کفر میں پلٹا دیا ہے - كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- ( ضل)إِضْلَالُ- والإِضْلَالُ ضربان : أحدهما : أن يكون سببه الضَّلَالُ ، وذلک علی وجهين : إمّا بأن يَضِلَّ عنک الشیءُ کقولک : أَضْلَلْتُ البعیرَ ، أي : ضَلَّ عنّي، وإمّا أن تحکم بِضَلَالِهِ ، والضَّلَالُ في هذين سبب الإِضْلَالِ.- والضّرب الثاني :- أن يكون الإِضْلَالُ سببا لِلضَّلَالِ ، وهو أن يزيّن للإنسان الباطل ليضلّ کقوله : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء 113] ، أي يتحرّون أفعالا يقصدون بها أن تَضِلَّ ، فلا يحصل من فعلهم ذلك إلّا ما فيه ضَلَالُ أنفسِهِم، وقال عن الشیطان : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء 119] ، وقال في الشّيطان : وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس 62] ، وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 60] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص 26] ،- وإِضْلَالُ اللهِ تعالیٰ للإنسان علی أحد وجهين :- أحدهما - أن يكون سببُهُ الضَّلَالَ ، وهو أن يَضِلَّ الإنسانُ فيحكم اللہ عليه بذلک في الدّنيا، ويعدل به عن طریق الجنّة إلى النار في الآخرة، وذلک إِضْلَالٌ هو حقٌّ وعدلٌ ، فالحکم علی الضَّالِّ بضَلَالِهِ والعدول به عن طریق الجنّة إلى النار عدل وحقّ.- والثاني من إِضْلَالِ اللهِ :- هو أنّ اللہ تعالیٰ وضع جبلّة الإنسان علی هيئة إذا راعی طریقا، محمودا کان أو مذموما، ألفه واستطابه ولزمه، وتعذّر صرفه وانصرافه عنه، ويصير ذلک کالطّبع الذي يأبى علی الناقل، ولذلک قيل : العادة طبع ثان «2» . وهذه القوّة في الإنسان فعل إلهيّ ، وإذا کان کذلک۔ وقد ذکر في غير هذا الموضع أنّ كلّ شيء يكون سببا في وقوع فعل۔ صحّ نسبة ذلک الفعل إليه، فصحّ أن ينسب ضلال العبد إلى اللہ من هذا الوجه، فيقال : أَضَلَّهُ اللهُ لا علی الوجه الذي يتصوّره الجهلة، ولما قلناه جعل الإِضْلَالَ المنسوب إلى نفسه للکافر والفاسق دون المؤمن، بل نفی عن نفسه إِضْلَالَ المؤمنِ فقال : وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ- [ التوبة 115] ، فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد 4- 5] ، وقال في الکافروالفاسق : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد 8] ، وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة 26] ، كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر 74] ، وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم 27] ، وعلی هذا النّحو تقلیب الأفئدة في قوله : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام 110] ، والختم علی القلب في قوله : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] ، وزیادة المرض في قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] .- الاضلال ( یعنی دوسرے کو گمراہ کرنے ) کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا سبب خود اپنی ضلالت ہو یہ دو قسم پر ہے ۔ (1) ایک یہ کہ کوئی چیز ضائع ہوجائے مثلا کہاجاتا ہے اضللت البعیر ۔ میرا اونٹ کھو گیا ۔ (2) دوم کہ دوسرے پر ضلالت کا حکم لگانا ان دونوں صورتوں میں اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کی پہلی کے برعکس ہے یعنی اضلال بذاتہ ضلالۃ کا سبب بنے اسی طرح پر کہ کسی انسان کو گمراہ کرنے کے لئے باطل اس کے سامنے پر فریب اور جاذب انداز میں پیش کیا جائے جیسے فرمایا : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء 113] ، ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد کرچکی تھی اور یہ اپنے سوا کسی کو بہکا نہیں سکتے۔ یعنی وہ اپنے اعمال سے تجھے گمراہ کرنے کی کوشش میں ہیں مگر وہ اپنے اس کردار سے خود ہی گمراہ ہو رہے ہیں ۔ اور شیطان کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء 119] اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا ۔ اور شیطان کے بارے میں فرمایا : ۔ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس 62] اور اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا ۔ وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 60] اور شیطان تو چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے ۔ وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں خدا کے رستے سے بھٹکادے گی ۔ اللہ تعالیٰ کے انسان کو گمراہ کرنے کی دو صورتیں ہی ہوسکتی ہیں ( 1 ) ایک یہ کہ اس کا سبب انسان کی خود اپنی ضلالت ہو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف اضلال کی نسبت کے یہ معنی ہوں گے کہ جب انسان از خود گمرہ ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں اس پر گمراہی کا حکم ثبت ہوجاتا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخرت کے دن اسے جنت کے راستہ سے ہٹا کر دوزخ کے راستہ پر ڈال دیا جائے گا ۔ ( 2 ) اور اللہ تعالٰ کی طرف اضلال کی نسببت کے دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے انسان کی جبلت ہی کچھ اس قسم کی بنائی ہے کہ جب انسان کسی اچھے یا برے راستہ کو اختیار کرلیتا ہے تو اس سے مانوس ہوجاتا ہے اور اسے اچھا سمجھنے لگتا ہے اور آخر کا اس پر اتنی مضبوطی سے جم جاتا ہے کہ اس راہ سے ہٹا نایا اس کا خود اسے چھوڑ دینا دشوار ہوجاتا ہے اور وہ اعمال اس کی طبیعت ثانیہ بن جاتے ہیں اسی اعتبار سے کہا گیا ہے کہ عادت طبعہ ثانیہ ہے ۔ پھر جب انسان کی اس قسم کی فطرت اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے اور دوسرے مقام پر ہم بیان کرچکے ہیں کہ فعل کی نسبت اس کے سبب کی طرف بھی ہوسکتی ہے لہذا اضلال کی نسبت اللہ تعالیٰ کیطرف بھی ہوسکتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گمراہکر دیا ور نہ باری تعالیٰ کے گمراہ کر نیکے وہ معنی نہیں ہیں جو عوام جہلاء سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اللہ تعالیٰ کی طرف گمراہ کرنے کینسبت اسی جگہ کی ہے جہاں کافر اور فاسق لوگ مراد ہیں نہ کہ مومن بلکہ حق تعالیٰ نے مومنین کو گمراہ کرنے کی اپنی ذات سے نفی فرمائی ہے چناچہ ارشاد ہے ۔ وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة 115] اور خدا ایسا نہیں ہے کہ کسی قومکو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کردے ۔ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد 4- 5] ان کے عملوں کر ہر گز ضائع نہ کریگا بلکہ ان کو سیدھے رستے پر چلائے گا ۔ اور کافر اور فاسق لوگوں کے متعلق فرمایا : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد 8] ان کے لئے ہلاکت ہے اور وہ ان کے اعمال کو برباد کردیگا : وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة 26] اور گمراہ بھی کرتا ہے تو نافرمانوں ہی کو ۔ كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر 74] اسی طرح خدا کافررں کو گمراہ کرتا ہے ۔ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم 27] اور خدا بےانصافوں کو گمراہ کردیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام 110] اور ہم ان کے دلوں کو الٹ دیں گے ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے انکے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ان کے دلوں میں ( کفر کا ) مرض تھا خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ میں دلوں کے پھیر دینے اور ان پر مہر لگا دینے اور ان کی مرض میں اضافہ کردینے سے بھی یہی معنی مراد ہیں ۔- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔
منافقین کے بارے میں رویہ - قول باری ہے (فمالکم فی المنافقین فئتین واللہ ارکسھم بماکسبوا، پھر یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ منافقین کے بارے میں تمہارے درمیان دورائیں پائی جاتی ہیں ، حالانکہ جو برائیاں انہوں نے کمائی ہیں ان کی بدولت اللہ انہیں الٹا پھیر چکا ہے) ۔- حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ یہ آیت ایک گروہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی جس نے مکہ میں اسلام کا اظہار کیا تھا لیکن یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف مشرکین کی امدا د کرتے تھے قتادہ سے بھی اسی قسم کی روایت ہے حسن اور مجاہد کا قول ہے کہ ایت کا نزول ایک گروہ کے بارے میں ہوا تھا، جس نے مدینہ منورہ پہنچ کر اسلام کا اظہار کیا تھاپھرم کہ واپس جاکر شرک کا اعلان کردیا تھا۔- زید بن ثابت کا قول ہے یہ آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی تھی جو جنگ احد میں حضور کے ساتھ نہیں گئے تھے اور پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے یہ کہا تھا اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ کوئی جنگ ہونے والی ہے توہم تمہارے ساتھ چلتے۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ سلسلہ آیت میں اس آخری تاویل کے خلاف دلالت موجود ہے اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ لوگ مکہ کے رہنے والے تھے کیونکہ قول باری ہے (فلاتتخذوا منھم اولیاء حتی یھاجروا فی سبیل اللہ ) جب تک یہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرکے نہ آجائیں ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ) ۔- قول باری (ارکسھم ) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس کا قول ہے ، ردھم (اللہ نے انہیں پھیر دیا) قتادہ کا قول ہے کہ اللہ نے انہیں ہلاک کردیا، دوسرے حضرات کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اوندھا یعنی ذلیل کردیا کسائی کا قول ہے ، ارکسھم اور رکسھم دونوں ہم معنی ہیں اور مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے انہیں کفر کے حکم یعنی ذلت و رسوائی کی طرف واپس کردیا۔- ایک قول ہے کہا نہیں گرفتاری اور قتل کی طرف لوٹا دیا کیونکہ انہوں نے نفاق پر رہنے کے بعد ارتداد کا اظہار کیا تھا، اسلام سے ارتداد کے اظہار کے باوجود انہیں نفاق کی صفت سے اس لیے موصوف کیا گیا کہ انہیں دراصل اس بات کی طرف منسوب کیا گیا جس پر وہ پہلے سے قائم تھے یعنی انہوں نے اپنے دلوں میں کفر چھپارکھا تھا، اس تفسیر کی روایت حسن کی گئی ہے نحویوں کا قول ہے کہ ایک چیز کو حرف تعریف یعنی الف اور لام کے ساتھ معرفہ کی صورت میں اس حالت کے ساتھ موصوف کرنا درست ہوتا ہے جس پر چیز کبھی تھی ، مثلا آپ یہ کہتے ہیں کہ ھذہ العجوزھی الشابہ، تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ بڑھیا وہ ہے جو کبھی جوان تھی، اس موقعہ پر ھذہ شابہ، کہنا درست نہیں ہوگا۔- اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے گروہ منافقین کے احوال مسلمانوں کے سامنے کھول کر رکھ دیے کہ یہ لوگ تمہارے سامنے تو اسلام کا اظہار کرتے ہیں لیکن جب اپنے لوگوں میں جاتے ہیں تو کفر اور ارتداد کا اعلان کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے متعلق حسن ظن رکھنے اور ان کے دفاع میں، جھگڑنے سے منع کردیا۔
(٨٨۔ ٨٩) مسلمانو تم ان مرتدین کے باب میں دو گروہ کیوں ہوگئے، ایک گروہ تو ان کے اموال اور خون کو حلال سمجھتا ہے اور دوسرا گروہ اس کو حرام کہتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے نفاق اور نیت کے فتور کی وجہ سے کفر کی طرف واپس پھیر دیا ہے۔- کیا تم ایسے گمراہوں کو دین الہی کی طرف ہدایت کرنا چاہتے ہو، جس کو اللہ تعالیٰ اس کے اعمال بد کے سبب گمراہ کر دے اس کو نہ پھر کوئی دین ملتا ہے اور نہ کوئی دلیل ، (اللہ تعالیٰ جسے گمراہ کردے، یعنی اللہ گمراہ اسے ہی کرتا جو ہدایت کے باب میں اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں کو اپنی بدکرداری وبداعمالی کے سبب ضائع کردے۔ فرمایا (سو جب ان کے دل ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے بھی ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا) (مترجم) وہ منافق تو اس تمنا میں ہیں کہ تم بھی ان کے ساتھ شرک میں شرک ہوجاؤ، ان میں سے دین اور مدد میں کوئی دوستی مت کرنا تاوقتیکہ دوبارہ ایمان نہ لے آئیں اور راہ اللہ میں ہجرت نہ کریں۔- شان نزول : (آیت) ” فمالکم فی المنافقین “۔ (الخ)- امام بخاری (رح) ومسلم (رح) وغیرہ نے زید بن ثابت سے روایت کیا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احد کے لیے تشریف لے گئے کچھ لوگ جو آپ کے ساتھ روانہ ہوئے تھے، وہ واپس لوٹ گئے تو ان لوٹنے والوں کے بارے میں صحابہ کرام کی دو جماعتیں ہوگئیں، ایک جماعت کہتی تھی کہ ہم ان کو قتل کریں گے اور دوسری جماعت ان کے قتل کی منکر تھی، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی پھر تمہیں کیا ہوا، کہ ان منافقین کے بارے میں تم میں اختلاف رائے ہوا۔- سعید بن منصور اور ابن ابی حاتم نے سعد بن معاذ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) کے درمیان خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا کہ جو شخص مجھے تکلیف دیتا ہے اس کی کون سرکوبی کرے گا، یہ سن کر حضرت سعد بن معاذ (رض) کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ اگر وہ قبیلہ اوس سے ہوگا تو ہم اس کی گردن اڑا دیں گے اور اگر ہمارے بھائیوں خزرج سے ہوگا تو آپ حکم دیں ہم آپ کی اطاعت کریں گے، یہ سن کر سعد بن عبادہ کھڑے ہوئے اور بولے ابن معاذ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت میں کیا باتیں کررہے ہو، میں تمہارا مقصد جان چکا ہوں، پھر اسید بن حضیر کھڑے ہوئے اور فرط جذبات میں بولے ابن عبادہ (رض) تم منافق ہو اور منافقین سے محبت رکھتے ہو ،- اس کے بعد محمد بن سلمہ نے کھڑے ہو کر کہا، لوگو خاموش ہوجاؤ ہمارے درمیان رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں، آپ جیسا حکم دیں گے، ہم وہ کریں گے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ،- اور امام احمد نے عبدالرحمن بن عوف (رض) سے روایت کیا ہے کہ مدینہ منورہ میں عرب کی ایک جماعت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اسلام قبول کیا ان کو مدینہ منورہ کی آب وہوا سے بخار چڑھ گیا، وہ بیعت توڑ کر مدینہ منورہ سے چلے گئے، صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت نے ان کا تعاقب کیا اور ان سے لوٹنے کا سبب دریافت کیا وہ بولے ہمیں مدینہ منورہ کی وباء لگ گئی ہے، صحابہ کرام (رض) نے فرمایا کیا تمہارے لیے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات بابرکت میں بہترین نمونہ موجود نہیں، غرض کہ ان لوگوں کے بارے میں حضرات کا اختلاف ہوگیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی کہ تم لوگ دو گروہ کیوں ہوگئے۔- اس روایت کی سند میں تدلیس اور انقطاع ہے۔
آیت ٨٨ (فَمَا لَکُمْ فِی الْْمُنٰفِقِیْنَ فِءَتَیْنِ وَاللّٰہُ اَرْکَسَہُمْ بِمَا کَسَبُوْا ط) - بات آگے واضح ہوجائے گی کہ یہ کن منافقین کا تذکرہ ہے ‘ جن کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان دو رائیں پائی جاتی تھیں۔ اہل ایمان میں سے بعض کا خیال تھا کہ ان کے ساتھ نرمی ہونی چاہیے ‘ آخر یہ ایمان تو لائے تھے نا ‘ اب نہیں ہجرت کرسکے۔ جبکہ کچھ لوگ اللہ کے حکم کے معاملے میں ان سے سخت رویہ اختیار کرنے کے حق میں تھے۔ چناچہ ارشاد ہوا کہ اے مسلمانو تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم ان کے بارے میں دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے ہو ؟- (وَاللّٰہُ اَرْکَسَہُمْ بِمَا کَسَبُوْا ط) ۔- ان کا ہجرت نہ کرنا درحقیقت اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ الٹے پھیر دیے گئے ہیں۔ یعنی ان کا ایمان سلب ہوچکا ہے۔ ہاں کوئی مجبوری ہوتی ‘ عذر ہوتا تو بات تھی۔ - (اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَہْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰہُ ط) - جن کی گمراہی پر اللہ کی طرف سے مہر تصدیق ثبت ہوچکی ہے۔- (وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ سَبِیْلاً ) - جس کی گمراہی پر اللہ کی طرف سے آخری مہر تصدیق ثبت ہوچکی ہو اس کے لیے پھر کون سا راستہ باقی رہ جاتا ہے ؟
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :116 یہاں ان منافق مسلمانوں کے مسئلہ سے بحث کی گئی ہے جو مکہ میں اور عرب کے دوسرے حصوں میں اسلام تو قبول کر چکے تھے ، مگر ہجرت کر کے دارالاسلام کی طرف منتقل ہونے کے بجائے بدستور اپنی کافر قوم ہی کے ساتھ رہتے بستے تھے ، اور کم و بیش ان تمام کارروائیوں میں عملاً حصہ لیتے تھے جو ان کی قوم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کرتی تھی ۔ مسلمانوں کے لیے یہ مسئلہ سخت پیچیدہ تھا کہ ان کے ساتھ آخر کیا معاملہ کیا جائے ۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ کچھ بھی ہو ، آخر یہ ہیں تو مسلمان ہی ۔ کلمہ پڑھتے ہیں ، نماز ادا کرتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں ، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں ۔ ان کے ساتھ کفار کا سا معاملہ کیسے کیا جا سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس رکوع میں اسی اختلاف کا فیصلہ فرمایا ہے ۔ اس موقع پر ایک بات کو واضح طور پر سمجھ لینا ضروری ہے ، ورنہ اندیشہ ہے کہ نہ صرف اس مقام کو ، بلکہ قرآن مجید کے ان تمام مقامات کو سمجھنے میں آدمی ٹھوکر کھائے گا جہاں ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں کو منافقین میں شمار کیا گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی اور ایک چھوٹا سا خطہ عرب کی سرزمین میں ایسا بہم پہنچ گیا جہاں ایک مومن کے لیے اپنے دین و ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنا ممکن تھا ، تو عام حکم دے دیا گیا کہ جہاں جہاں ، جس جس علاقے اور جس جس قبیلےمیں اہل ایمان کفار سے دبے ہوئے ہیں اور اسلامی زندگی بسر کرنے کی آزادی نہیں رکھتے ، وہاں سے وہ ہجرت کریں اور مدینہ کے دارالاسلام میں آجائیں ۔ اس وقت جو لوگ ہجرت کی قدرت رکھتے تھے اور پھر صرف اس لیے اٹھ کر نہ آئے کہ انہیں اپنے گھر بار ، اعزہ و اقربا اور اپنے مفادات اسلام کی بہ نسبت عزیز تر تھے ، وہ سب منافقین قرار دیے گئے ۔ اور جو لوگ حقیقت میں بالکل مجبور تھے ، ان کو ” مُسْتَضْعَفِین“ میں شمار کیا گیا ، جیسا کہ آگے رکوع ۱٤ میں آرہا ہے ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ دارالکفر کے رہنے والے کسی مسلمان کو محض ہجرت نہ کرنے پر منافق صرف اس صورت میں کہا جاسکتا ہے جبکہ دارالاسلام کی طرف سے ایسے تمام مسلمانوں کو یا تو دعوت عام ہو ، یا کم از کم اس نے ان کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے ہوں ۔ اس صورت میں بلاشبہ وہ سب مسلمان منافق قرار پائیں گے جو دارالکفر کو دارالاسلام بنانے کی کوئی سعی بھی نہ کر رہے ہوں ، اور استطاعت کے باوجود ہجرت بھی نہ کریں ۔ لیکن اگر دارالاسلام کی طرف سے نہ تو دعوت ہی ہو اور نہ اس نے اپنے دروازے ہی مہاجرین کے لیے کھلے رکھے ہوں ، تو اس صورت میں صرف ہجرت نہ کرنا کسی شخص کو منافق نہ بنا دے گا بلکہ وہ منافق صرف اس وقت کہلائے گا جبکہ فی الواقع کوئی منافقانہ کام کرے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :117 یعنی جس دو رنگی اور مصلحت پرستی اور ترجیح دنیا بر آخرت کا اکتساب انہوں نے کیا ہے اس کی بدولت اللہ نے انہیں اسی طرف پھیر دیا ہے جس طرف سے یہ آئے تھے ۔ انہوں نے کفر سے نکل کر اسلام کی طرف پیش قدمی کی تو ضرور تھی ، مگر اس سرحد میں آنے اور ٹھیرنے کے لیے یکسو ہو جانے کی ضرورت تھی ، ہر اس مفاد کو قربان کردینے کی ضرورت تھی جو اسلام و ایمان کے مفاد سے ٹکراتا ہو ، اور آخرت پر ایسے یقین کی ضرورت تھی جس کی بنا پر آدمی اطمینان کے ساتھ اپنی دنیا کو قربان کرسکتا ہو ۔ یہ ان کو گوارا نہ ہوا اس لیے جدھر سے آئے تھے الٹے پاؤں ادھر ہی واپس چلے گئے ۔ اب ان کے معاملہ میں اختلاف کا کونسا موقع باقی ہے؟
53: ان آیتوں میں چار قسم کے منافقین کا تذکرہ ہے، اور ان میں سے ہر قسم کا حکم الگ بیان کیا گیا ہے۔ اس آیت۸۸ میں منافقین کی پہلی قسم کا ذکر ہے، یہ مکہ مکرَّمہ کے کچھ لوگ تھے جو مدینہ منوَّرہ آئے اور ظاہری طور پر مسلمان ہوگئے، اور مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرلی، کچھ عرصے کے بعد انہوں نے حضور اقدس ﷺ سے تجارت کے بہانے مکہ مکرَّمہ جانے کی اجازت لی، اور واپس چلے گئے۔ ان کے بارے میں بعض مسلمانوں کی رائے یہ تھی کہ یہ سچے مسلمان تھے، اور بعض انہیں منافق سمجھتے تھے۔ لیکن جب وہ مکہ مکرَّمہ جاکر واپس نہ لوٹے توان کا کفر ظاہر ہوگیا، کیونکہ اس وقت مکہ مکرَّمہ سے ہجرت کرنا ایمان کا لازمی حصہ تھا، اور جو شخص قدرت کے باوجود ہجرت نہ کرے، اسے مسلمان قرار نہیں دیا جاسکتا تھا، لہٰذا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اب جبکہ ان کا نفاق ظاہر ہوچکا ہے، توان کے بارے میں کسی اختلاف رائے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔