Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قتل مسلم ، قصاص و دیت کے مسائل اور قتل خطا ارشاد ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کو لائق نہیں کہ کسی حال میں اپنے مسلمان بھائی کا خون ناحق کرے صحیح میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کسی مسلمان کا جو اللہ کی ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو خون بہانا حلال نہیں مگر تین حالتوں میں ایک تو یہ کہ اس نے کسی کو قتل کر دیا ہو ، دوسرے شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہو ، تیسرے دین اسلام کو چھوڑ دینے والا جماعت سے علیحدہ ہونے والا ۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ جب ان تینوں کاموں میں سے کوئی کام کسی سے واقع ہو جائے تو رعایا میں سے کسی کو اس کے قتل کا اختیار نہیں البتہ امام یا نائب امام کو بہ عہدہ قضا کا حق ہے ، اس کے بعد استثناء منقطع ہے ، عرب شاعروں کے کلام میں بھی اس قسم کے استثناء بہت سے ملتے ہیں ، اس آیت کے شان نزول میں ایک قول تو یہ مروی ہے کہ عیاش بن ابی ربیعہ جو ابو جہل کا ماں کی طرف سے بھائی تھا جس ماں کا نام اسماء بنت مخرمہ تھا اس کے بارے میں اتری ہے اس نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا جسے وہ اسلام لانے کی وجہ سے سزائیں دے رہا تھا یہاں تک کہ اس کی جان لے لی ، ان کا نام حارث بن زید عامری تھا ، حضرت عیاش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں یہ کانٹا رہ گیا اور انہوں نے ٹھان لی کہ موقعہ پا کر اسے قتل کردوں گا اللہ تعالیٰ نے کچھ دنوں بعد قاتل کو بھی اسلام کی ہدایت دی وہ مسلمان ہوگئے اور ہجرت بھی کر لی لیکن حضرت عیاش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ معلوم نہ تھا ، فتح مکہ والے دن یہ ان کی نظر پڑے یہ جان کر کہ یہ اب تک کفر پر ہیں ان پر اچانک حملہ کر دیا اور قتل کر دیا اس پر یہ آیت اتری دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جبکہ انہوں نے ایک شخص کافر پر حملہ کیا تلوار سونتی ہی تھی تو اس نے کلمہ پڑھ لیا لیکن ان کی تلوار چل گئی اور اسے قتل کر ڈالا ، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ واقعہ بیان ہوا تو حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا یہ عذر بیان کیا کہ اس نے صرف جان بچانے کی غرض سے یہ کلمہ پڑھا تھا ، آپ ناراض ہو کر فرمانے لگے کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا ؟ یہ واقعہ صحیح حدیث میں بھی ہے لیکن وہاں نام دوسرے صحابی کا ہے ، پھر قتل خطا کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس میں دو چیزیں واجب ہیں ایک تو غلام آزاد کرنا دوسرے دیت دینا ، اس غلام کے لئے بھی شرط ہے کہ وہ ایماندار ہو ، کافر کو آزاد کرنا کافی نہ ہو گا چھوٹا نابالغ بچہ بھی کافی نہ ہوگا جب تک کہ وہ اپنے ارادے سے ایمان کا قصد کرنے والا اور اتنی عمر کا نہ ہو ، امام ابن جریر کا مختار قول یہ ہے کہ اگر اس کے ماں باپ دونوں مسلمان ہوں تو جائز ہے ورنہ نہیں ، جمہور کا مذہب یہ ہے کہ مسلمان ہونا شرط ہے چھوٹے بڑے کی کوئی قید نہیں ، ایک انصاری سیاہ فام لونڈی کو لے کر حاضر حضور ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے ذمے ایک مسلمان گردن کا آزاد کرنا ہے اگر یہ مسلمان ہو تو میں اسے آزاد کردوں ، آپ نے اس لونڈی سے پوچھا کیا تو گواہی دیتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں؟ اس نے کہا ہاں ، آپ نے فرمایا اس بات کی بھی گواہی دیتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے کہا ہاں فرمایا کیا مرنے کے بعد جی اٹھنے کی بھی تو قائل ہے؟ اس نے کہا ہاں ، آپ نے فرمایا اسے آزاد کردو اس نے اسناد صحیح ہے اور صحابی کون تھے؟ اس کا مخفی رہنا سند میں مضر نہیں ، یہ روایت حدیث کی اور بہت سی کتابوں میں اس طرح ہے کہ آپ نے اس سے پوچھا اللہ کہاں ہے؟ اس نے کہا آسمانوں میں دریافت کیا میں کون ہوں؟ جواب دیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں آپ نے فرمایا اسے آزاد کردو ۔ یہ ایماندار ہے پس ایک تو گردن آزاد کرنا واجب ہے دوسرے خوں بہا دینا جو مقتول کے گھر والوں کو سونپ دیا جائے گا یہ ان کے مقتول کا عوض ہے یہ دیت سو اونٹ ہے پانچ سو قسموں کے ، بیس تو دوسری سال کی عمر کی اونٹنیاں اور بیس اسی عمر کے اونٹ اور بیس تیسرے سال میں لگی ہوئی اونٹنیاں اور بیس پانچویں سال میں لگی ہوئی اور بیس چوتھے سال میں لگی ہوئی یہی فیصلہ قتل خطا کے خون بہا کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا ہے ملاحظہ ہو سنن و مسند احمد ۔ یہ حدیث بروایت حضرت عبداللہ موقوف بھی مروی ہے ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ایک جماعت سے بھی یہی منقول ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دیت چار چوتھائیوں میں بٹی ہوئی ہے یہ خون بہا قاتل کے عاقلہ اور اس کے عصبہ یعنی وارثوں کے بعد کے قریبی رشتہ داروں پر ہے اس کے اپنے مال پر نہیں امام شافعی فرماتے ہیں میرے خیال میں اس امر میں کوئی بھی مخالف نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیت کا فیصلہ انہی لوگوں پر کیا ہے اور یہ حدیث خاصہ میں کثرت سے مذکور ہے امام صاحب جن احادیث کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہ بہت سی ہیں ، بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہذیل قبیلہ کی دو عورتیں آپس میں لڑیں ایک نے دوسرے کو پتھر مارا وہ حاملہ تھی بچہ بھی ضائع ہو گیا اور وہ بھی مر گئی قصہ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس بچہ کے عوض تو ایک لونڈی یا غلام دے اور عورت مقتولہ کے بدلے دیت قاتلہ عورت کے حقیقی وارثوں کے بعد کے رشتے داروں کے ذمے ہے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو قتل عمد خطا سے ہو وہ بھی حکم میں خطاء محض کے ہے ۔ یعنی دیت کے اعتبار سے ہاں اس میں تقسیم ثلث پر ہو گی تین حصے ہونگے کیونکہ اس میں شباہت عمد یعنی بالقصد بھی ہے ، صحیح بخاری شریف میں ہے بنو جذیمہ کی جنگ کے لئے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور نے ایک لشکر پر سردار بنا کر بھیجا انہوں نے جا کر انہیں دعوت اسلام دی انہوں نے دعوت تو قبول کر لی لیکن بوجہ لا علمی بجائے اسلمنا یعنی ہم مسلمان ہوئے کے صبانا کہا یعنی ہم بےدین ہوئے ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں قتل کرنا شروع کر دیا جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے ہاتھ اٹھا کر جناب باری میں عرض کی یا اللہ خالد کے اس فعل میں اپنی بیزاری اور برات تیرے سامنے ظاہر کرتا ہوں ، پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر انہیں بھیجا کہ جاؤ ان کے مقتولوں کی دیت چکاؤ اور جو ان کا مالی نقصان ہوا ہو اسے بھی کوڑی کوڑی چکاؤ ، اس سے ثابت ہوا کہ امام یا نائب امام کی خطا کا بوجھ بیت المال پر ہو گا ۔ پھر فرمایا ہے کہ خوں بہا جو واجب ہے اگر اولیاء مقتول از خود اس سے دست بردار ہو جائیں تو انہیں اختیار ہے وہ بطور صدقہ کے اسے معاف کرسکتے ہیں ۔ پھر فرمان ہے کہ اگر مقتول مسلمان ہو لیکن اس کے اولیاء حربی کافر ہوں تو قاتل پر دیت نہیں ، قاتل پر اس صورت میں صرف آزادگی گردن ہے اور اگر اس کے ولی وارث اس قوم میں سے ہوں جن سے تمہاری صلح اور عہد و پیمان ہے تو دیت دینی پڑے گی اگر مقتول مومن تھا تو کامل خون بہا اور اگر مقتول کافر تھا تو بعض کے نزدیک تو پوری دیت ہے بعض کے نزدیک آدھی بعض کے نزدیک تہائی ، تفصیل کتب احکام میں ملاحظہ ہو اور قاتل پر مومن بردے کو آزاد کرنا بھی لازم ہے اگر کسی کو اس کی طاقت بوجہ مفلسی کے نہ ہو تو اس کے ذمے دو مہینے کے روزے ہیں جو لگاتار پے درپے رکھنے ہوں گے اگر کسی شرعی عذر مثلاً بیماری یا حیض یا نفاس کے بغیر کوئی روزہ بیچ میں سے چھوڑ دیا تو پھر نئے سرے سے روزے شروع کرنے پڑیں گے ، سفر کے بارے میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ یہ بھی شرعی عذر ہے دوسرے یہ کہ یہ عذر نہیں ۔ پھر فرماتا ہے قتل خطا کی توبہ کی یہ صورت ہے کہ غلام آزاد نہیں کر سکتا تو روزے رکھ لے اور جسے روزوں کی بھی طاقت نہ ہو وہ مسکینوں کو کھلا سکتا ہے یا نہیں؟ تو ایک قول تو یہ ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھلا دے جیسے کہ ظہار کے کفارے میں ہے ، وہاں صاف بیان فرما دیا یہاں اس لئے بیان نہیں کیا گیا کہ یہ ڈرانے اور خوف دلانے کا مقام ہے آسانی کی صورت اگر بیان کر دی جاتی تو ہیبت وعظمت اتنی باقی نہ رہتی ، دوسرا قول یہ ہے کہ روزے کے نیچے کچھ نہیں اگر ہوتا تو بیان کے ساتھ ہی بیان کر دیا جاتا ، حاجب کے وقت سے بیان کو موخر کرنا ٹھیک نہیں ( یہ بظاہر قول ثانی ہی صحیح معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم ۔ مترجم ) اللہ علیم وحکیم ہے ، اس کی تفسیر کئی مرتبہ گذر چکی ہے ۔ قتل عمداً اور قتل مسلم قتل خطا کے بعد اب قتل عمداً کا بیان ہو رہا ہے ، اس کی سختی برائی اور انتہائی تاکید والی ڈراؤنی وعید فرمائی جا رہی ہے یہ وہ گناہ جسے اللہ تعالیٰ نے شرک کے ساتھ ملا دیا ہے فرماتا ہے ( وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا ) 25 ۔ الفرقان:68 ) یعنی مسلمان بندے وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود ٹھہرا کر نہیں پکارتے اور نہ وہ کسی شخص کو ناحق قتل کرتے ہیں ، دوسری جگہ فرمان ہے ( قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۚوَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ) 6 ۔ الانعام:151 ) یہاں بھی اللہ کے حرام کئے ہوئے کاموں کا ذکر کرتے ہیں شرک کا اور قتل کا ذکر فرمایا ہے اور بھی اس مضمون کی آیتیں بہت سی ہیں اور حدیث بھی اس باب میں بہت سی منقول ہوئی ہیں ، بخاری مسلم میں ہے کہ سب سے پہلے خون کا فیصلہ قیامت کے دن ہو گا ، ابو داؤد میں ہے ایماندار نیکیوں اور بھلائیوں میں بڑھتا رہتا ہے جب تک کہ خون ناحق نہ کرے اگر ایسا کر لیا تو تباہ ہو جاتا ہے ، دوسری حدیث میں ہے ساری دنیا کا زوال اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل سے کم درجے کا ہے اور حدیث میں ہے اگر تمام روئے زمین کے اور آسمان کے لوگ کسی ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہوں تو اللہ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے ، اور حدیث میں ہے جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمے سے بھی اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حالت میں آئے گا اس کی پیشانی میں لکھاہا ہو گا کہ یہ شخص اللہ کی رحمت سے محروم ہے ، حضرت ابن عباس کا تو قول ہے کہ جس نے مومن کو قصداً قتل کیا اس کی توبہ قبول ہی نہیں ، اہل کوفہ جب اس مسئلہ میں اختلاف کرتے ہیں تو ابن جیبر ابن عباس کے پاس آکر دریافت کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں یہ آخری آیت ہے جسے کسی آیت نے منسوخ نہیں کیا ، اور آپ فرماتے ہیں کہ دوسری ( وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا ) 25 ۔ الفرقان:68 ) جس میں تو یہ ذکر ہے کہ وہ اہل شرک کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، پس جبکہ کسی شخص نے اسلام کی حالت میں کسی مسلمان کو غیر شرعی وجہ سے قتل کیا اس کی سزا جہنم ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی ، حضرت مجاہد سے جب یہ قول عباس بیان ہوا تو فرمانے لگے مگر جو نادم ہو ، سالم بن ابو الجعد فرماتے ہیں ، حضرت ابن عباس جب نابینا ہوگئے تھے ایک مرتبہ ہم ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جو ایک شخص آیا اور آپ کو آواز دے کر پوچھا کہ اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر مار ڈالا آپ نے فرمایا اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اللہ کا اس پر غضب ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے اور اس کے لئے عذاب عظیم تیار ہے ، اس نے پھر پوچھا اگر وہ توبہ کرے نیک عمل کرے اور ہدایت پر جم جائے تو؟ فرمانے لگے اس کی ماں اسے روئے اسے توبہ اور ہدایت کہاں؟ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میرا نفس ہے میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بنا ہے اس کی ماں اسے روئے جس نے مومن کو جان بوجھ مار ڈالا ہے وہ قیامت کے دن اسے دائیں یا بائیں ہاتھ سے تھامے ہوئے رحمن کے عرش کے سامنے آئے گا اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا اور اللہ سے کہے گا کہ اے اللہ اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ اس اللہ عظیم کی قسم جس کے ہاتھ میں عبداللہ کی جان ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک اسے منسوخ کرنے والی کوئی آیت نہیں اتری ، اور روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی وحی اترے گی حضرت زید بن ثابت ، حضرت ابو ہریرہ ، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن ، عبید بن عمیر ، حسن ، قتادہ ، ضحاک بھی حضرت ابن عباس کے خیال کے ساتھ ہیں ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ مقتول اپنے قاتل کو پکڑ کر قیامت کے دن اللہ کے سامنے لائے گا دوسرے ہاتھ سے اپنا سر اٹھائے ہوئے ہو گا اور کہے گا میرے رب اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ قاتل کہے گا پروردگار اس لئے کہ تیری عزت ہو اللہ فرمائے گا پس یہ میری راہ میں ہے ۔ دوسرا مقتول بھی اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے لائے گا اور یہی کہے گا ، قاتل جواباً کہے گا اس لئے کہ فلاں کی عزت ہو اللہ فرمائے گا قاتل کا گناہ اس نے اپنے سر لے لیا پھر اسے آگ میں جھونک دیا جائے گا جس گڑھے میں ستر سال تک تو نیچے چلا جائے گا ۔ مسند احمد میں ہے ممکن ہے اللہ تعالیٰ تمام گناہ بخش دے ، لیکن ایک تو وہ شخص جو کفر کی حالت میں مرا دوسرا وہ جو کسی مومن کا قصداً قاتل بنا ۔ ابن مردویہ میں بھی ایسی ہی حدیث ہے اور وہ بالکل غریب ہے ، محفوظ وہ حدیث ہے جو بحوالہ مسند بیان ہوئی ۔ ابن مردویہ میں اور حدیث ہے کہ جان بوجھ کر ایماندار کو مار ڈالنے والا کافر ہے ۔ یہ حدیث منکر ہے اور اس کی اسناد میں بہت کلام ہے ۔ حمید کہتے ہیں میرے پاس ابو العالیہ آئے میرے دوست بھی اس وقت میرے پاس تھے ہم سے کہنے لگے تم دونوں کم عمر اور زیادہ یادداشت والے ہو آؤ میرے ساتھ بشر بن عاصم کے پاس چلو جب وہاں پہنچے تو بشر سے فرمایا انہیں بھی وہ حدیث سنا دو انہوں نے سنانی شروع کی کہ عتبہ بن مالک لیثی نے کہا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا تھا اس نے ایک قوم پر چھاپہ مارا وہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے ان کے ساتھ ایک شخص بھاگا جا رہا تھا اس کے پیچھے ایک لشکری بھاگا جب اس کے قریب ننگی تلوار لئے ہوئے پہنچ گیا تو اس نے کہا میں تو مسلمان ہوں ۔ اس نے کچھ خیال نہ کیا تلوار چلا دی ۔ اس واقعہ کی خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ بہت ناراض ہوئے اور سخت سست کہا یہ خبر اس شخص کو بھی پہنچی ۔ ایک روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھ رہے تھے کہ اس قاتل نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم اس نے تو یہ بات محض قتل سے بچنے کے لئے کہی تھی آپ نے اس کی طرف سے نگاہ پھیرلی اور خطبہ سناتے رہے ۔ اس نے دوبارہ کہا آپ نے پھر منہ موڑ لیا ، اس سے صبر نہ ہوسکا ، تیسری باری کہا تو آپ نے اس کی طرف توجہ کی اور ناراضگی آپ کے چہرے سے ٹپک رہی تھی ، فرمانے لگے مومن کے قاتل کی کوئی بھی معذرت قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ انکار کرتے ہیں تین بار یہی فرمایا یہ روایت نسائی میں بھی ہے پس ایک مذہب تو یہ ہوا کہ قاتل مومن کی توبہ نہیں دوسرا مذہب یہ کے کہ توبہ اس کے اور اللہ کے درمیان ہے جمہور سلف وخلف کا یہی مذہب ہے کہ اگر اس نے توبہ کی اللہ کی طرف رجوع کیا خشوع خضوع میں لگا رہا نیک اعمال کرنے لگ گیا تو اللہ اس کی توبہ قبول کر لے گا اور مقتول کو اپنے پاس سے عوض دے کر اسے راضی کرلے گا اللہ فرماتا ہے ( اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًـا فَاُولٰۗىِٕكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَــنَّةَ وَلَا يُظْلَمُوْنَ شَـيْــــــًٔا ) 19 ۔ مریم:60 ) یہ خبر اور خبر میں نسخ کا احتمال نہیں اور اس آیت کو مشرکوں کے بارے میں اور اس آیت کو مومنوں کے بارے میں خاص کرنا بظاہر خلاف قیاس ہے اور کسی صاف دلیل کا محتاج ہے واللہ اعلم ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ) 39 ۔ الزمر:53 ) اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم میری رحمت سے مایوس نہ ہو ۔ یہ آیت اپنے عموم کے اعتبار سے ہر گناہ پر محیط ہے خواہ کفر و شرک ہو خواہ شک و نفاق ہو خواہ قتل وفسق ہو خواہ کچھ ہی ہو ، جو اللہ کی طرف رجوع کرے اللہ اس کی طرف مائل ہو گا جو توبہ کرے اللہ اسے معاف فرمائے گا ۔ فرماتا ہے ( اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ) 39 ۔ الزمر:53 ) اللہ تعالیٰ شرک کو بخشتا نہیں اس کے سوا کے تمام گناہ جسے چاہے بخش دے ۔ اللہ اس کی کریمی کے صدقے جائیے کہ اس نے اسی سورت میں اس آیت سے پہلے بھی جس کی تفسیر اب ہم کر رہے ہیں اپنی عام بخشش کی آیت بیان فرمائی اور پھر اس آیت کے بعد ہی اسے دوہرا دیا اسی طرح اپنی عام بخشش کا اعلان پھر کیا تاجکہ بندوں کو اس کی کامل فطرت سے کامل امید بند جائے واللہ اعلم ۔ بخاری مسلم کی وہ حدیث بھی اس موقعہ پر یاد رکھنے کے قابل ہے جس میں ہے کہ ایک بنی اسرائیلی نے ایک سو قتل کئے تھے ۔ پھر ایک عالم سے پوچھتا ہے کہ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے وہ جواب دیتا ہے کہ تجھ میں اور تیری توبہ میں کون ہے جو حائل ہے؟ جاؤ اس بدبستی کو چھوڑ کر نیکوں کے شہر میں بسو چنانچہ اس نے ہجرت کی مگر راستے میں ہی فوت ہو گیا اور رحمت کے فرشتے اسے لے گئے یہ حدیث پوری پوری کئی مرتبہ ہو چکی ہے جبکہ بنی اسرائیل میں یہ ہے تو اس امت مرحومہ کے لئے قاتل کی توبہ کے لئے دروازے بند کیوں ہوں؟ ہم پر تو پہلے بہت زیادہ پابندیاں تھیں جن سب سے اللہ نے ہمیں آزاد کر دیا اور رحمتہ اللعالمین جیسے سردار انبیاء کو بھیج کر وہ دین ہمیں دیا جو آسانیوں اور راحتوں والا سیدھا صاف اور واضح ہے ، لیکن یہاں جو سزا قاتل کی بیان فرمائی ہے اس سے مرادیہ ہے کہ اس کی سزا یہ ہے کہ اسے سزا ضرور دی جائے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ اور سلف کی ایک جماعت بھی یہی فرماتی ہے ، بلکہ اس معنی کی ایک حدیث بھی ابن مردویہ میں ہے لیکن سنداً وہ صحیح نہیں اور اسی طرح ہر وعید کا مطلب یہی ہے کہ اگر کوئی عمل صالح وغیرہ اس کے مقابل میں نہیں تو اس بدی کا بدلہ وہ ہے جو وعید میں واضح بیان ہوا ہے اور یہی طریقہ وعید کے بارے میں ہمارے نزدیک نہایت درست اور احتیاط والا ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب ، اور قاتل کا مقدر جہنم بن گیا ۔ چاہے اس کی وجہ توبہ کی عدم قبولیت کہا جائے یا اس کے متبادل کسی نیک عمل کا مفقود ہونا خواہ بقول جمہور دوسرا نیک عمل نجات دہندہ نہ ہونے کی وجہ سے ہو ۔ وہ ہمیشہ جہنم میں نہ رہے گا بلکہ یہاں خلود سے مراد بہت دیر تک رہنا ہے جیسا کہ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ جہنم میں سے وہ بھی نکل آئیں گے جن کے دل میں رائی کے چھوٹے سے چھوٹے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا ۔ اوپر جو ایک حدیث بیان ہوئی ہے کہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بجز کفر اور قتل مومن کے معاف فرما دے ۔ اس میں عسی ترجی کا مسئلہ ہے ان دونوں صورتوں میں ترجی یعنی امید گو اٹھ جائے پھر بھی وقوع پذیر ہوتا یعنی ایسا ہونا ان دونوں میں سے ایک بھی ممکن نہیں اور وہ قتل ہے ، کیونکہ شرک وکفر کا معاف نہ ہونا تو الفاظ قرآن سے ثابت ہو چکا اور جو حدیثیں گذریں جن میں قاتل کو مقتول لے کر آئے گا وہ بالکل ٹھیک ہیں چونکہ اس میں انسانی حق ہے وہ توبہ سے ٹل نہیں جاتا ۔ بلکہ انسانی حق تو توبہ ہونے کی صورت میں بھی حقدار کو پہنچانا ضروری ہے اس میں جس طرح قتل ہے اسی طرح چوری ہے غضب ہے تہمت ہے اور دوسرے حقوق انسان ہیں جن کا توبہ سے معاف نہ ہونا اجماعاً ثابت ہے بلکہ توبہ کے لئے صحت کی شرط ہے کہ ان حقوق کو ادا کرے ۔ اور جب ادائیگی محال ہے تو قیامت کے روز اس کا مطالبہ ضروری ہے ۔ لیکن مطالبہ سے سزا کا واقع ہونا ضروری نہیں ۔ ممکن ہے کہ قاتل کے اور سب اعمال صالحہ مقتول کو دے دئیے جائیں یا بعض دے دئیے جائیں اور اس کے پاس پھر بھی کچھ رہ جائیں اور یہ بخش دیا جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ قاتل کا مطالبہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اپنے پاس سے اور اپنی طرف سے حور و قصور اور بلند درجات جنت دے کر پورا کر دے اور اس کے عوض وہ اپنے قاتل سے درگذر کرنے پر خوش ہو جائے اور قاتل کو اللہ تعالیٰ بخش دے وغیرہ ۔ واللہ اعلم ۔ جان بوجھ کر مارا ڈالنے والے کے لئے کچھ تو دنیوی احکام ہیں اور کچھ اخروی ۔ دنیا میں تو اللہ نے مقتول کے ولیوں کو اس پر غلیہ دیا ہے فرماتا ہے ( آیت ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا الخ ، ) جو ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے پیچھے والوں کو غلبہ دیا ہے کہ انہیں اختیار ہے کہ یا تو وہ بدلہ لیں یعنی قاتل کو بھی قتل کرائیں یا معاف کر دیں یا دیت یعنی خون بہا یعنی جرمانہ وصول کرلیں اور اس کے جرمانہ میں سختی ہے جو تین قسموں پر مشتمل ہے ۔ تیس تو چوتھے سال کی عمر میں لگے ہوئے اونٹ ، تیس پانچویں سال میں لگے ہوئے ، چالیس حاملہ اونٹنیاں جیسے کہ کتب احکام میں ثابت ہیں ، اس میں ائمہ نے اختلاف کیا ہے کہ اس پر غلام کا آزاد کرنا یا دو ماہ کے پے درپے روزے رکھے یا کھانا کھلانا ہے یا نہیں؟ پس امام شافعی اور ان کے اصحاب اور علماء کی ایک جماعت تو اس کی قائل ہے کہ جب خطا میں یہ حکم ہے تو عمداً میں بطور ادنیٰ یہی حکم ہونا چاہئے اور ان پر جواباً جھوٹی غیر شرعی قسم کے کفارے کو پیش کیا گیا ہے اور انہوں نے اس کا عذر عمداً چھوڑ دی ہوئی دی نماز کو قضا قرار دیا ہے جیسے کہ اس پر اجماع ہے خطا میں ، امام احمد کے اصحاب اور دوسرے کہتے ہیں قتل عمداً ناقابل کفارہ ہے ۔ اس لئے اس یعنی کفارہ نہیں اور اسی طرح جھوٹی قسم اور ان کے لئے ان دونوں صورتوں میں اور عمداً چھوٹی ہوئی نماز میں فرق کرنے کی کوئی راہ نہیں ، اسلئے کہ یہ لوگ حضرت واثلہ بن اسقع کے پاس آئے اور کہا کوئی ایسی حدیث بھی ہے جو مسند احمد میں مروی ہے کہ لوگ حضرت واثلہ بن اسقع کے پاس آئے اور کہا کوئی ایسی حدیث سناؤ جس میں کمی زیادتی نہ ہو تو وہ بہت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے کیا تم قرآن لے کر پڑھتے ہو تو اس میں کمی زیادتی بھی کرتے ہو؟ انہوں نے کہا حضرت ہمارا مطلب یہ ہے کہ خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے جو سنی ہو کہا ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنوں میں سے ایک آدمی کی بابت حاضر ہوئے جس نے بوجہ قتل کے اپنے تئیں جہنمی بنا لیا تھا ۔ تو آپ نے فرمایا اس کی طرف سے ایک غلام آزاد کرو اس کے ایک ایک عضو کے بدلہ اس کا ایک ایک عضو اللہ تعالیٰ جہنم سے آزاد کردے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

92۔ 1 یہ نفی۔ نہی کے معنی میں ہے جو حرمت کی متقاضی ہے یعنی ایک مومن کو قتل کرنا ممنوع اور حرام ہے تمہارے یہ لائق نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچاؤ یعنی حرام ہے۔ 92۔ 2 غلطی کے اسباب و وجوہ متعدد ہوسکتے ہیں مقصد ہے کہ نیت اور ارادہ قتل کا نہ ہو۔ مگر بوجوہ قتل ہوجائے۔ 92۔ 3 یہ قتل خطا کا جرمانہ بیان کیا جا رہا ہے جو دو چزیں ہیں۔ ایک بطور کفارہ و استغفار ہے یعنی مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور دوسری چیز بطور حق العباد کے ہے اور وہ ہے مقتول کے خون کے بدلے میں جو چیز مقتول کے وارثوں کو دی جائے، وہ دیت کی مقدار حدیث کی روح سے سو اونٹ یا اسکے مساوی قیمت سونے چاندی یا کرنسی کی شکل میں ہوگی۔ 92۔ 4 معاف کردینے کو صدقہ سے تعبیر کرنے سے مقصد معافی کی ترغیب دینا ہے۔ 92۔ 5 یعنی اس صورت میں دیت نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ بعض نے یہ بیان کی ہے کہ کیونکہ اس کے وارث حربی کافر ہیں، اس لئے وہ مسلمان کی دیت لینے کے حقدار نہیں اس کی وجہ سے اس کے خون کی حرمت کم ہے (فتح القدیر) 92۔ 6 یہ ایک تیسری صورت ہے اس میں بھی وہی کفارہ اور دیت ہے جو پہلی صورت میں ہے بعض نے کہا ہے کہ اگر مقتول معاہد (ذمی) ہو تو اس کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف ہوگی، کیونکہ حدیث میں کافر کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف بیان کی گئی ہے۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس تیسری صورت میں بھی مقتول مسلمان ہی کا حکم بیان کیا جا رہا ہے۔ 92۔ 7 یعنی اگر گردن آزاد کرنے کی استطاعت نہ ہو تو پہلی صورت اور اس آخری صورت میں دیت کے ساتھ مسلسل لگاتار (بغیر ناغہ کے) دو مہینے کے روزے ہیں۔ اگر درمیان میں ناغہ ہوگیا تو نئے سرے سے روزے رکھنے ضروری ہونگے۔ جیسے حیض، نفاس یا شدید بیماری، جو روزہ رکھنے میں مانع ہو۔ سفر کے عذر شرعی ہونے میں اختلاف ہے۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٧] قتل خطا کی صورتیں اور کفارہ :۔ اس آیت میں قتل خطا کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ قتل خطا کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں مثلاً تیر یا پتھر مارا تو شکار کو تھا لیکن وہ کسی مسلمان کو لگ گیا اور وہ مرگیا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ماری تو کوئی چیز عمداً ہی تھی مگر مارنے والے کو ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ وہ اس ہلکی سی ضرب سے مر ہی جائے گا۔ تیسری یہ کہ لڑائی وغیرہ کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مار ڈالے۔ جیسا کہ جنگ احد میں شکست کے بعد مسلمانوں نے بدحواسی کے عالم میں سیدنا حذیفہ بن یمان (رض) کے والد سیدنا یمان (رض) کو کافر سمجھ کر مار ڈالا تھا۔ حالانکہ سیدنا حذیفہ (رض) یہ کہتے ہی رہے کہ یہ تو میرے والد ہیں مگر اس افراتفری کے عالم میں کسی نے سیدنا حذیفہ (رض) کی آواز کو سنا ہی نہ تھا۔ اور چوتھی صورت جو آج کل بہت عام ہے، یہ کہ ٹریفک کے حادثہ میں کسی گاڑی کے نیچے آ کر، یا اس کی ضرب سے مارا جائے۔۔- قتل خطا کے احکام یا اس کے کفارہ کی صورتیں یہ ہیں :- ١۔ اگر مقتول کے وارث مسلمان ہیں تو ایک غلام مومن (خواہ مرد ہو یا عورت) آزاد کرنا ہوگا اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا بھی ادا کرنا ہوگا۔ خون بہا یا دیت سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے۔ جو قاتل کے وارث مقتول کے وارثوں کو ادا کریں گے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک ادائیگی دیت کی زیادہ سے زیادہ مدت تین سال تک ہے اور یہ دیت مقتول کے وارث چاہیں تو معاف بھی کرسکتے ہیں۔- اور اگر قاتل کو (آزاد کرنے کے لیے) غلام میسر نہ آئے تو وہ متواتر دو ماہ روزے بھی رکھے گا۔- واضح رہے کہ سیدنا حذیفہ (رض) کے والد جنگ احد میں اجتماعی صورت میں کئی مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے جنہیں سیدنا حذیفہ (رض) نے علی الاعلان معاف کردیا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اہل احد کی خطائیں معاف کردی تھیں لہذا وہاں کفارے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔- ٢۔ اگر مقتول تو مومن ہو مگر دشمن قوم سے تعلق رکھتا ہو تو اس کا کفارہ صرف ایک مسلمان غلام آزاد کرنا ہے۔ اور اگر میسر نہ آئے تو دو ماہ کے متواتر روزے ہیں اور اس کی دیت نہ ہوگی۔- ٣۔ اور اگر مومن مقتول کا تعلق کسی معاہد قوم سے ہو تو اس کے وہی احکام ہیں جو پہلی صورت کے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ يَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَــــــًٔـا ۚ۔۔۔ کفار کے ساتھ جنگ کی اجازت نازل ہوئی تو یہ عین ممکن تھا کہ کسی شخص کو کافر حربی ( جس سے جنگ ہو) سمجھ کر مسلمان قتل کردیں اور بعد میں معلوم ہو کہ وہ مسلمان تھا، اس لیے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان کے قتل خطا کے احکام بیان فرما دیے۔ (رازی) آیت میں ” الا “ بمعنی ” لٰکِنْ “ ہے اور مستثنیٰ منقطع ہے، یعنی کسی بھی حال میں مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر غلطی سے مارا جائے تو اس پر کفارہ ہے، جس کا بعد میں ذکر ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کسی آدمی کا خون، جو یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، تین صورتوں میں سے کسی ایک کے سوا حلال نہیں : 1 جان کے بدلے جان۔ 2 شادی شدہ بدکار۔ 3 اسلام کو چھوڑنے والا (مرتد) جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے والا۔ “ [ بخاری، الدیات، باب قول اللہ تعالیٰ : ( أن النفس بالنفس والعین بالعین) : ٦٨٧٨، عن ابن مسعود (رض) ]- وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَــــًٔا فَتَحْرِيْرُ ۔۔ : یعنی جب کوئی مسلمان غلطی سے کسی مسلمان کو قتل کر دے تو اس کے دو حکم ہیں، ایک کفارہ دوسری دیت یعنی خون بہا۔ کفارہ تو یہ ہے کہ وہ ایک مسلمان غلام ( مرد یا عورت) کو آزاد کرے اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے اور اس کے وارثوں کو دیت ادا کرے، کفارہ تو کسی حال میں ساقط نہیں ہوتا، ہاں، دیت اگر وارث معاف کردیں تو ساقط ہوسکتی ہے، مگر یہ اس وقت ہے کہ جب مقتول کے وارث بھی مسلمان ہوں یا کافر ہوں، لیکن ان سے معاہدہ ہو یا ذمی ہوں، جیسے آگے آ رہا ہے۔ - فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ ۔۔ : لیکن اگر اس کے وارث حربی کافر ہوں تو پھر قاتل کے ذمے صرف کفارہ ہے، یعنی ایک مسلمان گردن آزاد کرنا، اگر نہ ہو سکے تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا۔ مقتول کے وارثوں کو خون بہا ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ وہ دشمن ہیں۔ (قرطبی) - وَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۢ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَھُمْ مِّيْثَاقٌ ۔۔ : اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ مقتول مسلمان ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہے جن سے تمہارا معاہدہ ہے، یا ذمی ہیں تو اس صورت میں بھی دو چیزیں واجب ہوں گی، دیت ( خون بہا) ، اور کفارہ۔ یہاں دیت کو کفارہ سے پہلے ذکر فرمایا ہے کہ اسے غیر مسلم قوم کا فرد سمجھ کر دیت کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کی جائے۔ بعض نے لکھا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ مقتول معاہد یا ذمی ہو (مسلمان نہ ہو) تو اس صورت میں بھی کفارہ اور وارثوں کو خون بہا ادا کرنا پڑے گا، مگر زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہاں بھی مسلمان مقتول ہی کی بات ہو رہی ہے۔ - دیت ایک سو اونٹ یا اس کے اندازے کے ساتھ قیمت ہوگی۔ جو خطا کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف ہوگی۔ - شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ ۡ : اگر کوئی کسی شرعی عذر یعنی مرض، حیض، نفاس وغیرہ کے بغیر ایک روزہ بھی چھوڑے گا تو نئے سرے سے دوبارہ دو مہینے روزے رکھنے پڑیں گے۔ (قرطبی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور کسی مومن کی شان نہیں کہ وہ کسی مومن کو (ابتداء) قتل کرے لیکن غلطی سے (ہو جائے تو اور بات ہے) اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس پر (شرعاً ) ایک مسلمان غلام یا لونڈی کا آزاد کرنا (واجب) ہے اور خوں بہا (بھی واجب) ہے جو اس (مقتول) کے خاندان والوں کو (یعنی ان میں جو وارث ہیں بقدر حصص میراث) حوالہ کردی جائے (اور جس کے کوئی وارث نہ ہو تو بیت المال قائم مقام ورثہ کے ہے) مگر یہ کہ وہ لوگ (اس خوں بہا کو) معاف کردیں (خواہ کل یا بعض اتنی ہی معاف ہوجاوے گی) اور اگر وہ (مقتول خطاً ) ایسی قوم سے ہو جو تمہارے مخالف ہیں (یعنی حرب یہیں اور انہی میں کسی وجہ سے رہتا تھا) اور وہ شخص خود مومن ہے تو (فرض) ایک غلام یا لونڈی مسلمان کا آزاد کرنا (پڑے گا اور دیت اس لئے نہیں کہ اگر ورثہ اس مقتول کے مسلمان ہیں تب تو وہ اسلامی حکومت کے ماتحت نہ ہونے کے باعث مستحق نہیں اور اگر کافر ہیں تو اس صورت میں دیت بیت المال کا حق ہوتی اور دارالحرب سے دارالسلام کے بیت المال میں ترکہ لایا نہیں جاتا) اور اگر وہ (مقتول خطائً ) ایسی قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں معاہدہ (صلح یا ذمہ کا) ہو (یعنی ذمی یا مصالح و مستامن ہو) تو خوں بہا (بھی واجب) ہے جو اس (مقتول) کے خاندان والوں کو (یعنی ان میں جو وارث ہیں) حوالہ کردیجیے، (کیونکہ کافر کافر کا وارث ہوتا ہے) اور ایک غلام یا لونڈی مسلمان کا آزاد کرنا (پڑے گا) پھر (جن صورتوں میں غلام لونڈی کا آزاد کرنا واجب ہے) جس شخص کو (غلام لونڈی) نہ ملے (اور نہ اتنے دام ہوں کہ خرید سکے) تو (اس کے ذمہ بجائے اس آزاد کرنے کے) متواتر (یعنی لگاتار) دو ماہ کے روزے ہیں (یہ آزاد کرنا اور وہ نہ ہو سکے تو روزے رکھنا) بطریق توبہ کے (ہے) جو اللہ کی طرف سے مقرر ہوئی ہے (یعنی اس کا یہ طریقہ مشروع ہوا ہے) اور اللہ تعای بڑے علم والے حکمت والے ہیں (اپنے علم و حکمت سے مصلحت کے مناسب احکام مقرر فرمائے ہیں، گو ہر جگہ حکمت بندہ کو معلوم نہ ہو) اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کر ڈالے تو اس کی (اصلی) سزا (تو) جہنم (میں اس طرح رہنا) ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کو اس میں رہتا (لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ یہ اصلی سزا جاری نہ ہوگی، بلکہ ایمان کی برکت سے آخر نجات ہوجائے گی) اور اس پر (ایک میعاد معین تک کے واسطے) اللہ تعالیٰ غضبناک ہوں گے اور اس کو اپنی رحمت (خاصہ) سے دور کریں گے اور اس کے لئے بڑی سزا (یعنی سزاء دوزخ) کا سامان کریں گے۔ )- معارف ومسائل - ربط آیات :۔ - اوپر سے قتل و قتال کا ذکر چلا آ رہا ہے اور کل صورتیں ابتدائً قتل کی آٹھ ہیں، کیونکہ مقتل چار چار حال سے خالی نہیں ہے، یا مومن ہے یا ذمی یا مصالح و مستامن ہے یا حربی یا اور قتل دو طرح کا ہے یا عمداً یا خطاءً پس اس اعتبار سے کل صورتیں قتل کی آٹھ ہوئیں اول مومن کا قتل عمد، دوم مومن کا قتل خطاء سوم ذمی کا قتل عمد، چہارم ذمی کا قتل خطاء پنجم مصالح کا قتل عمد، ششم مصالح کا قتل خطائ، ہفتم حربی کا قتل عمد، ہشتم حربی کا قتل خطا۔- ان صورتوں میں بعض کا حکم تو اوپر معلوم ہوچکا، بعض کا آگے مذکور ہے اور بعض کا حدیث میں موجود ہے، چناچہ صورت اولی کا حکم دنیوی یعنی وجوب قصاص سورة بقرہ میں مذکور ہے اور حکم اخری آگے آیت ومن یقتل میں آتا ہے اور صورت دوم کا بیان قول اللہ تعالیٰ و ما کان لمومن (الی قولہ) وھو مومن فتحریر رقبة میں آتا ہے، اور صورت سوم کا حکم حدیث دار قطنی میں ہے کہ ذمی کے عوض رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمان سے قصاص لیا (اخرجہ الزیلعی فی تخریج الہدایہ) صورت چہارم کا ذکر قول اللہ تعالیٰ وان کان من قوم بینکم وبینھم میثاق میں آتا ہے، صورت پنجم کا ذکر اوپر کے رکوع قول اللہ تعالیٰ فماجعل اللہ لکم علیھم سبیلاً میں آ چکا ہے۔ صورت ششم کا حکم چہارم کے ساتھ ہی مذکور ہے، کیونکہ میثاق عام ہے جو وقتی اور دائمی دونوں کو شامل ہے، پس ذمی و مستامن دونوں آگئے، درمختار کی کتاب الدیات کے شروع میں مستامن کی دیت کے وجوب کی تصحیح کی ہے، صورت ہفتم و ہشتم کا حکم خود جہاد کی مشروعت سے اوپر معلوم ہوچکا، کیونکہ جہاد میں اہل حرب قصداً مقتول ہوتے ہیں اور خطاء کا جواز بدرجہ اولی ثابت ہوگا۔ (بیان القرآن)- قتل کی تین قسمیں اور ان کا شرعی حکم :۔- پہلی قسم : عمد :۔- جو ظاہراً قصد سے ایسے آلہ کے ذریعہ سے واقع ہو جو آہنی یا تفریق اجزاء میں آہنی آلہ کی طرح ہو، جیسے دھار والا بانس یا دھار والا پتھر وغیرہ۔- دوسری قسم :۔ شبہ عمد :۔ جو قصداً تو ہو مگر ایسے آلہ سے نہ ہو جس سے اجزاء میں تفریق ہو سکتی ہو۔ - تیسری قسم :۔ خطائً یا تو قصد ظن میں کہ دو سرے آدمی کو شکاری جانور یا کافر حربی سمجھ کر نشانہ لگا دیا یا فعل میں کہ نشانہ تو جانور ہی کو لگایا لیکن آدمی کو جا لگا اس میں خطاء سے مراد غیر عمد ہے، پس دوسری، تیسری دونوں قسمیں اس میں آگئیں، دونوں میں دیت بھی ہے اور گناہ بھی ہے، مگر ان دونوں امر میں دونوں قسمیں متفاوت ہیں۔ دیت دوسری قسم کی سو اونٹ ہیں، چار قسم کے یعنی ایک ایک قسم کے پچیس پچیس اور دیت تیسری قسم کی سو اونٹ ہیں، پانچ قسم کے یعنی ایک ایک قسم کے بیس بیس، البتہ اگر دیت میں نقد دیا جائے تو دونوں قسموں میں دس ہزار درہم شرعی یا ایک ہزار دینار شرعی ہیں اور گناہ دوسری قسم میں زیادہ ہے بوجہ قصد کے اور تیسری قسم میں کم صرف بےاحتیاطی کا (کذا فی الہدایتہ) چناچہ تحریر رقبہ کا وجوب و نیز لفظ توبہ بھی اس پر دال ہے، اور یہ حقیت ان تینوں کی دنیا میں جاری ہونے والے احکام شرعیہ کے اعتبار سے ہے اور گناہ کے اعتبار سے عمد وغیرہ عمد ہونا، اس کا مدار قلبی قصد و ارادہ پر ہے، جس پر عید آئندہ کا مدار ہے، وہ خدا کو معلوم ہے، ممکن ہے کہ اس اعتبار سے قسم اول غیر عمد ہوجاوے اور قسم ثانی عمد ہوجاوے۔- مسئلہ :۔ یہ مقدار مذکور دیت کی جب ہے کہ مقتول مرد ہو اور اگر عورت ہو تو اس کی نصف ہے (کذا فی الہدایتہ)- مسئلہ :۔ دیت مسلم اور ذمی کی برابر ہے، قول رسول (علیہ السلام) ہی دیة کل ذی عھدفی عھدہ الف دینار، (کذا فی الھدایة اخرجہ ابوداؤد فی مراسیلہ) - مسئلہ :۔ کفارہ یعنی تحریر رقبہ یا روزے رکھنا خود قاتل کو ادا کرنا پڑتا ہے اور دیت قاتل کے اہل نصرت پر ہی جن کے شرع کی اصطلاح میں عاقلہ کہتے ہیں (بیان القرآن) - یہاں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ قاتل کے جرم کا بوجھ اس کے اولیاء اور انصار پر کیوں ڈالا جاتا ہے کیونکہ وہ تو بےقصور ہیں ؟ وجہ دراصل یہ ہے کہ اس میں قاتل کے اولیاء بھی قصور وار ہوتے ہیں کہ انہوں نے اس کو اس قسم کی بےاحتیاطی کرنے سے روکا نہیں اور دیت کے خوف سے آئندہ وہ لوگ اس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کریں گے۔- مسئلہ :۔ کفارہ میں لونڈی غلام برابر ہیں، لفظ رقبہ عام ہے، البتہ ان کے اعضاء سالم ہونے چاہئیں۔- مسئلہ :۔ دیت مقتول کی شرعی ورثہ میں تقسیم ہوگی، اور جو اپنا حصہ معاف کر دے گا اس قدر معاف ہوجائے گی اور اگر سب نے معاف کردیا سب معاف ہوجائے گی۔- مسئلہ :۔ جس مقتول کا کوئی وارث شرعی نہ ہو اس کی دیت بیت المال میں داخل ہوگی، کیونکہ دیت ترکہ ہے اور ترکہ کا یہی حکم ہے۔ (بیان القرآن)- مسئلہ :۔ اہل میثاق (ذمی یا مستائن) کے باب میں جو دیت واجب ہے ظاہر یہ ہے کہ اس وقت ہے جب اس ذمی یا مستامن کے اہل موجود ہوں اور اگر اس کے اہل نہ ہوں، یا وہ اہل مسلمان ہوں اور مسلمان کافر کا وارث ہو نہیں سکتا، اس لئے وہ بجائے نہ ہونے کے ہے، تو اگر وہ ذمی ہے تو اس کی دیت بیت المال میں داخل کی جائیگی، کیونکہ ذمی لاوارث کا ترکہ جس میں دیت داخل ہے، بیت المال میں آتا ہے، (کما فی الدارلمختار) ورنہ واجب نہ ہوگی (بیان القرآن)- مسئلہ :۔ روزے میں اگر مرض وغیرہ کی وجہ سے تسلسل باقی نہ رہا ہو تو از سر نو رکھنے پڑیں گے، البتہ عورت کے حیض کی وجہ سے تسلسل ختم نہیں ہوگا۔- مسئلہ :۔ اگر کسی عذر سے روزہ پر قدرت نہ ہو تو قدرت تک توبہ کیا کرے۔- مسئلہ : قتل عمد میں یہ کفارہ نہیں توبہ کرنا چاہئے۔ (بیان القرآن)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ يَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَــــًٔـا۝ ٠ۚ وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَــــًٔا فَتَحْرِيْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَّدِيَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓى اَھْلِہٖٓ اِلَّآ اَنْ يَّصَّدَّقُوْا۝ ٠ۭ فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَھُوَمُؤْمِنٌ فَتَحْرِيْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ۝ ٠ۭ وَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍؚبَيْنَكُمْ وَبَيْنَھُمْ مِّيْثَاقٌ فَدِيَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓى اَھْلِہٖ وَتَحْرِيْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ۝ ٠ۚ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَہْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ۝ ٠ۡتَوْبَۃً مِّنَ اللہِ۝ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا۝ ٩٢- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة - الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - خطأ - الخَطَأ : العدول عن الجهة، وذلک أضرب :- أحدها : أن ترید غير ما تحسن إرادته فتفعله،- وهذا هو الخطأ التامّ المأخوذ به الإنسان، يقال : خَطِئَ يَخْطَأُ ، خِطْأً ، وخِطْأَةً ، قال تعالی: إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] ، وقال : وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] .- والثاني : أن يريد ما يحسن فعله،- ولکن يقع منه خلاف ما يريد فيقال : أَخْطَأَ إِخْطَاءً فهو مُخْطِئٌ ، وهذا قد أصاب في الإرادة وأخطأ في الفعل، وهذا المعنيّ بقوله عليه السلام : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» «3» وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» «4» ، وقوله عزّ وجلّ : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ النساء 92] .- والثّالث : أن يريد ما لا يحسن فعله - ويتّفق منه خلافه، فهذا مخطئ في الإرادة ومصیب في الفعل، فهو مذموم بقصده وغیر محمود علی فعله، - والخَطِيئَةُ والسّيّئة يتقاربان،- لکن الخطيئة أكثر ما تقال فيما لا يكون مقصودا إليه في نفسه، بل يكون القصد سببا - لتولّد ذلک الفعل منه - ( خ ط ء ) الخطاء - والخطاء ۃ کے معنی صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں - اس کی مختلف صورتیں ہیں - ۔ ( 1 ) کوئی ایسا کام بالا رادہ کرے جس کا ارادہ بھی مناسب نہ ہو ۔- یہ خطا تام ہے جس پر مواخزہ ہوگا ا س معنی میں فعل خطئی یخطاء خطاء وخطاء بولا جا تا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت جرم ہے ۔ وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] اور بلا شبہ ہم خطا کار تھے - ۔ ( 2 ) ارادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے برا کام سرزد ہوجائے ۔- کہا جاتا ہے : ۔ اس میں اس کا ارادہ وہ تو درست ہوتا ہے مگر اس کا فعل غلط ہوتا ہے اسی قسم کی خطا کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» میری امت سے خطا سے خطا اور نسیان اٹھائے گئے ہیں ۔ نیز فرمایا : وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» جس نے اجتہاد کیا ۔ لیکن اس سے غلطی ہوگئی اسے پھر بھی اجر ملے گا قرآن میں ہے : ۔ اور جو غلطی سے مومن کو مار ڈالے تو ایک تو غلام کو ازاد کردے - ۔ ( 3 ) غیر مستحن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحن فعل سرزد ہوجائے ۔- اس صورت میں اس کا فعل تو درست ہے مگر ارادہ غلط ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل بھی قابل ستائس نہیں ہوگا ۔- الخطیتۃ - یہ قریب قریب سیئۃ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ [ البقرة 81] اور اسکے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں گے ۔ لیکن زیادہ تر خطئۃ کا استعمال اس فعل کے متعلق ہوتا ہے جو بزات خود مقصود نہ ہو بلکہ کسی دوسری چیز کا ارادہ اس کے صدر کا سبب بن جائے - تحریرُ- : جعل الإنسان حرّا، فمن الأول : فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] ، ومن الثاني : نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً [ آل عمران 35] ، قيل : هو أنه جعل ولده بحیث لا ينتفع به الانتفاع الدنیوي المذکور في قوله عزّ وجل : بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، بل جعله مخلصا للعبادة، ولهذا قال الشعبي : معناه مخلصا، وقال مجاهد : خادما للبیعة وقال جعفر : معتقا من أمر الدنیا، وكلّ ذلك إشارة إلى معنی واحد، وحَرَّرْتُ القوم : أطلقتهم وأعتقتهم عن أسر الحبس، وحُرُّ الوجه : ما لم تسترقّه الحاجة، وحُرُّ الدّار : وسطها، وأحرار البقل معروف، وقول الشاعر : جادت عليه كلّ بکر حرّةوباتت المرأة بلیلة حرّة كلّ ذلک استعارة، والحَريرُ من الثیاب : ما رقّ ، قال اللہ تعالی: وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر 33] .- التحریرُ کے معنی کسی انسان کو آزاد کرنا کے ہیں چناچہ کریت کے معنی کے پیش نظر فرمایا : فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] تو ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہئے اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً [ آل عمران 35] جو بچہ ) میرے پیٹ میں ہے میں اس کو تیری نزر کرتی ہوں ۔ چناچہ بعض نے اس کے معنی کئے میں کہ وہ اپنے اس لڑکے سے کسی قسم کا دنیوی فائدہ حاصل نہیں کریں گی جس کی طرف آیت : بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اس میں اشارہ پایاجاتا ہے بلکہ یہ خالص عبادت الٰی کے لئے وقف رہے گا ۔ اسی بناء پر شعبی نے محررا کے معنی خادم معبار کئے ہیں امام جعفر نے کہا ہے کہ امور دنیوی سے آزاد ہوگا لیکن مآں کے لحا ظ سے سب کا ماحصل ایک ہی ہے ۔ حررت القوم میں نے انہیں قید خانہ سے رہا کردیا ۔ جرالوجہ وہ شخص جو احتیاج کے پنجہ میں گرفتار نہ ہوا ہو ۔ حرالدار البقل وہ ترکاریاں جو کچی کھائی جاتی ہیں ۔ اور شاعر کا قول ع ( کامل ) (103) جارت علیہ کل بکر حرۃ موسم بہار کی پہلی موسلا دھا ر بارش نے اس پر سخاوت کی ہے ۔ باتت المرءۃ بنیلۃ حرۃ ( سب زفاف کہ شوہر درآں بکارت نتواں لوائل کرو ) یہ سب استعارات ہیں ۔ الحریری ( ریشمی کپڑا ) ہر ایک بار کپڑے کو حریر کیا جاتا ہے فرمایا :۔ وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر 33] وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا ۔- رقب - الرَّقَبَةُ : اسم للعضو المعروف، ثمّ يعبّر بها عن الجملة، وجعل في التّعارف اسما للمماليك، كما عبّر بالرّأس وبالظّهر عنالمرکوب ، فقیل : فلان يربط کذا رأسا، وکذا ظهرا، قال تعالی: وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] ، وقال : وَفِي الرِّقابِ [ البقرة 177] ، أي : المکاتبین منهم، فهم الذین تصرف إليهم الزکاة . ورَقَبْتُهُ :- أصبت رقبته، ورَقَبْتُهُ : حفظته . - ( ر ق ب ) الرقبۃ - اصل میں گردن کو کہتے ہیں پھر رقبۃ کا لفظ بول کر مجازا انسان مراد لیا جاتا ہے اور عرف عام میں الرقبۃ غلام کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے جیسا کہ لفظ راس اور ظھر بول کر مجازا سواری مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے :۔ یعنی فلاں کے پاس اتنی سواریاں میں ۔ قرآن ہیں ہے : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] کہ جو مسلمان کو غلطی سے ( بھی ) مار ڈالے تو ایک مسلمان بردہ آزاد کرائے۔ اور رقبۃ کی جمع رقاب آتی ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ وَفِي الرِّقابِ [ البقرة 177] اور غلام کو آزاد کرنے میں ۔ مراد مکاتب غلام ہیں ۔ کیونکہ مال زکوۃ کے وہی مستحق ہوتے ہیں اور رقبتہ ( ن ) کے معنی گردن پر مارنے یا کسی کی حفاظت کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلا ذِمَّةً [ التوبة 10] کسی مسلمان کے بارے میں نہ تو قرابت کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں اور نہ ہی عہد و پیمان کا ۔- دِيَةٌ- ووَدَيْتُ القتیلَ : أعطیت دِيَتَهُ ، ويقال لما يعطی في الدّم : دِيَةٌ. قال تعالی: فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلى أَهْلِهِ- [ النساء 92] .- اوداہ کے معنی ہلاک کرنے کے ہیں گویا اس کے خون کو بہا دیا اسی سے ودیت القتیل کا محاورہ ہے جس کے معنی کا خو ن بہا ادا کرنے کے ہیں اور دیۃ اس مال کو کہتے ہیں کو مقتول کی جان کے عوض قاتل کی طرف سے دیا جاتا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلى أَهْلِهِ [ النساء 92] تو وراثان مقتول کو خون بہا دینا ۔- یصدقوا - ۔ تصدق یتصدق۔ تصدق ( تفعل) مضارع جمع مذکر غائب۔ وہ معاف کردیں۔ اصل میں یتصدقوا تھا تاء کو صاد میں مدغم کیا۔ اور مدغم فیہ کو شد دی گئی توبۃ۔ مصدر منصوب ۔ یعنی بطور توبہ کے۔ اللہ سے توبہ کرنے کے طور پر۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - وثق - وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] - والمِيثاقُ :- عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] - والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] - ( و ث ق )- وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔- حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔- المیثاق - کے منیق پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔- الموثق - ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- صوم - الصَّوْمُ في الأصل : الإمساک عن الفعل مطعما کان، أو کلاما، أو مشیا، ولذلک قيل للفرس الممسک عن السّير، أو العلف : صَائِمٌ. قال الشاعر :۔ خيل صِيَامٌ وأخری غير صَائِمَةٍ- «1» وقیل للرّيح الرّاكدة : صَوْمٌ ، ولاستواء النهار :- صَوْمٌ ، تصوّرا لوقوف الشمس في كبد السماء، ولذلک قيل : قام قائم الظّهيرة . ومَصَامُ الفرسِ ، ومَصَامَتُهُ : موقفُهُ. والصَّوْمُ في الشّرع : إمساک المکلّف بالنّية من الخیط الأبيض إلى الخیط الأسود عن تناول الأطيبين، والاستمناء والاستقاء، وقوله : إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً- [ مریم 26] ، فقد قيل : عني به الإمساک عن الکلام بدلالة قوله تعالی: فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا [ مریم 26] .- ( ص و م ) الصوم - ( ن ) کے اصل معنی کسی کام سے رک جانا اور باز رہنا کے ہیں خواہ اس کا تعلق کھانے پینے سے ہو یا چلنے پھرنے اور یا گفتگو کرنے سے اس بنا پر گھوڑا چلنے سے رک جائے یا چارہ نہ کھائے اسے بھی صائم کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ( البیط ) ( 280 ) خیل صیام واخرٰ ی غیر صائیمۃ کچھ گھوڑے اپنے تھان پر کھڑے ہیں اور دوسرے میدان جنگ میں ہوں ۔ اور ہوا کے ساکن ہونے اور دوپہر کے وقت پر بھی صوم کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ اس تصور پر کہ اس وقت آفتاب وسط آسمان میں ٹہھر جاتا ہے اسی اعتبار سے قام قائم الظھیرۃ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی دوپہر کے وقت سورج کے خط نصف النہار پر ہونا کے ہیں مصمام الفرس او مصامتہ گھوڑے کے کھڑے ہونے کی جگہ ۔ اصطلاحی شریعت میں کسی مکلف کا روزہ کی نیت کے ساتھ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے منی خارج کرنے اور ۔ عمدا قے کرنے سے رک جانے کا نام صوم ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم 26] کہ میں نے خدا کے لئے روزے کی منت مانی ہے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں صوم سے مراد کلام سے رکنے یعنی خاموش رہنا کے ہیں ۔ جیسا کہ بعد میں فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا [ مریم 26] تو آج میں کسی آدمی سے ہر گز کلام نہ کروں گی ) سے اسکی تفسیر کی گئی ہے ۔- شهر - الشَّهْرُ : مدّة مَشْهُورَةٌ بإهلال الهلال، أو باعتبار جزء من اثني عشر جزءا من دوران الشمس من نقطة إلى تلک النّقطة . قال تعالی: شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185] ، - ( ش ھ ر ) الشھر ( مہینہ ) وہ مدت معینہ جو چاند کے ظہور سے شروع ہوتی ہے ۔ یا دوران شمس کے بارہ - حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے جو ایک نقطہ سے شروع ہو کر دوسرے نقطہ پر ختم ہوجاتا ہے قرآن میں ہے :۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185]( روزوں کا مہینہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل كيا گيا هے۔ - متتابعین : مثنّى متتابع، اسم فاعل من الخماسيّ تتابع، وزنه متفاعل بضمّ المیم وکسر العین .- توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- حكيم - فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر - لحكمة» أي : قضية صادقة- لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قتل خطا کا بیان - قول باری ہے (وماکان لمومن ان یقتل مومنا الاخطا، کسی مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ دوسرے مومن کو قتل کرے الایہ کہ اس سے چوک ہوجائے) ۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس مقام میں لفظ کان کے معنی میں اختلا ف ہے ، قتادہ کا قول ہے کہ فقرے کا مفہوم یہ ہے اللہ کے حکم اور اس کے امر میں یہ نہیں تھا، دوسرے حضرات کا قول ہے اس کے لیے قتل کے جواز کا سبب نہیں تھا۔- کچھ اور حضرات کا قول ہے ، ماضی میں بھی اس کے لیے یہ نہیں تھا جیسا کہ اب نہیں ہے ، اسی طرح لفظ، الا، کے معنی کے بارے میں بھی اختلاف ہے کچھ لوگوں کا قول ہے کہ استثنا ، منقطع ہے اور لکن کے معنوں میں ہے مفہوم یہ ہے لیکن ایک مومن دوسرے مومن کو کبھی خطا اور چوک کی بنا پر قتل کردیتا ہے ، اگر ایساواقعہ وہ ہوجائے تو اس کا حکم یہ ہے ، یہاں، الاکاوہی مفہوم ہے جو نابالغہ کے اس شعر میں ہے۔- وقفت فیھا اصیلا لااسائلھا، عیت جوابا ومالربع من احد،۔ میں محبوبہ کے مسکن کے کھنڈر پر دن ڈھلے جاکھڑا ہوا اور بار بار اس سے پوچھتارہا لیکن یہ کھنڈر میرے سوال کا جواب دینے سے عاجز رہا اور اس مسکن میں اب کوئی بھی نہیں تھا۔- الاالاواری لایاماابینھا، والنوی کالحوض بالمضلومۃ الجلد۔ وہاں جانوروں کو باندھنے کی رسیاں تھیں بڑی دیر تک دیکھتے رہنے کے بعد میں انہیں بمشکل پہچان سکا، اس کے علاوہ اس مسکن کے چاروں طرف چوبچہ کھدا ہوادیکھا، جو اس حوض کے مانند تھاج سے کسی سخت اور پتھریلی زمین بڑی مشکل سے کھودا گیا ہو۔- بعض دوسروں کا قول ہے یہ استثناء صحیح ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بعض حالات میں مومن کے لیے دوسرے مومن کو غلطی اور چوک کی بنا پر قتل کردینے کی گنجائش ہے مثلاایک مومن دوسرے مومن کو ایسی حالت میں پاتا ہے کہ اس پر مشرکین کی نشانیاں ارعلامتیں ہوتی ہیں یا وہ اسے مشرکین کے علاقے میں دیکھتا ہے اور اسے بھی مشرک سمجھ بیٹھتا ہے ایسی صورت میں اگر وہ اسے قتل کردیتا ہے تو یہ قتل خطا شمار ہوگا۔- جیسا کہ زہری نے عروہ بن زبیر سے روایت کی کہ حضرت حذیفہ بن الیمان احد میں حضور کے ہمراہ کافروں سے برسرپیکار تھے مسلمانوں کو ان کے والد کے متعلق غلط فہمی ہوگئی اور انہیں دشمن کا آدمی سمجھ لیا گیا ۔- مسلمانوں نے ان پر تلواروں سے حملہ کردیا حضرت حذیفہ چلاتے رہ گئے کہ یہ میرے والد ہیں لیکن حملہ کرنے والے مسلمان ان کی بات سمجھ نہ سکے اور وہ ان کے ہاتھوں قتل ہوگئے حضرت حذیفہ نے اس موقعہ پر صرف اتنا ہی کہا، اللہ تم لوگوں کو معاف کردے وہ ارحم الراحمین ہے۔ جب حضور کی اس بات کی خبر ہوئی تو آپ کی نظروں میں حضرت حذیفہ کی نیکی کی اور زیادہ قدرومنزلت ہوگئی۔- ایک قول یہ ہے کہ (الاخطا) کے معنی ہیں ، ولاخطا، کیونکہ جنگ اور قتال کی حالت میں ، بھی مومن کا قتل مباح نہیں ہوتا، اس لیے استثناء کو اس کے حقیقی معنوں پر محمول کرنا درست نہیں ہے لیکن اس قول میں کوئی وزن نہیں ہے ، اس کے دو وجوہ ہیں ایک تو یہ عربی زبان کے محاورات میں الاک بھی، ولا، کے معنوں میں استعمال نہیں ہوا۔- دوسری وجہ یہ ہے کہ اس قول کے قائل نے جس بات کا انکار کیا ہے یعنی قتل خطا کی اباحت کا امتناع کہ قتل خطا کی اباحت کا وجود ہی نہیں ہے تو اس کا امتناع کیسا، یہ بات قتل خطا کے حظر یعنی ممانعت میں بھی موجود ہے اس لیی کہ اگر ک - خطا یہ فعل واقع ہوگیا تو اس کی اباحت درست نہیں ہوگی کیونکہ قاتل کے نزدیک اس کا قتل خطا ہوناہی مسلم نہیں ہے جب اس کی اباحت درست نہیں ہوگی تو اس کی ممانعت اور اس سے نہی بھی درست نہیں ہوگی، اور اس طرح کا کوئی مفہوم باقی نہیں رہے گا۔- کسی نے آیت کی تفسیر اس طرح کی ہے کہ قول باری (وماکان لمومن ان یقتل مومنا) قاتل کے لیے سزا کے ایجاب کو متضمن ہے اسلیے کہ فقرے میں نہیں کا اطلاق اس کا تقاضا کرتا ہے نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر قاتل گناہ کا مستحق قرار پائے گا۔- پھر فرمایا (الاخطا) یعنی خطا کی صورت میں اس کے مرتکب کو گناہ نہیں ہوگا، اب حرف استثناء کو صرف گناہ کے استحقاق کے مفہوم پر داخل کرکے قتل خطا کے مرتکب کو اس سے خارج کردیا گیا ہے فقرے میں استثناء اپنی جگہ استعمال ہوا ہے اور اسے اس کے معنی سے ہٹایا نہیں گیا ہے استثناء کا دخول صرف اس گناہ کے استحقاق پر ہوا ہے جو قتل کی بنا پر لازم ہوتا ہے پھر اس سے قتل خطا کے مرتکب کو خارج کردیا گیا ہے استثناء قاتل سے سرزد ہونے والے فعل پر داخل نہیں ہوا اس سے یہ لازم آجائے گا کہ فقرے کے الفاظ میں جس بات کی ممانعت کی گئی تھی ، الا، کے ذریعے اس کی اباحت ہوگئی۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ توجیہ درست ہے اور اس کی گنجائش موجود ہے جن لوگوں نے یہ توجیہ کی ہے کہ استثناء سے اس شخص کو خطا قتل کردینے کی اباحت ظاہر ہوتی ہے جسے قاتل مشرک سمجھتا ہو تو اس سلسلے میں یہ بات واضح ہے کہ اگر اس کا نام اباحت ہے توقاتل کے لیے یہ فعل اس وقت ہی درست ہوگاجب اسے مشروط حالت کے تحت بروئے کار لایاجائے گا اور وہ یہ کہ قاتل بھی اسے قتل خطا سمجھ رہا ہو۔- اب یہ بات قابل غور ہے کہ اس مسلمان کا قتل جو دشمن کے علاقے اور اس کی جگہ میں ہوقصداقتل کہلائے گا قاتل کے نزدیک یہ قتل خطا نہیں ہوگا، بلکہ اس کے نزدیک قتل عمد ہوگاجس کی بنیاد یہ ہوگی کہ ایسے آدمی کو قتل کردینے کا اسے حکم ملا ہے۔- اس لیے یہ درست نہیں ہوگا کہ آیت میں یہ قتل مراد ہو اس لیے کہ اباحت کے قول کے اس قائل کے مطابق اباحت کی شرط نہیں پائی گئی اور وہ شرط یہ ہے کہ قاتل بھی اسے قتل خطا سمجھتا ہو۔- قائل کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ اگر وہ کسی سے یہ کہے، لاتقتلہ عمدا، اسے قصدا قتل نہ کرو) توقاتل یعنی مخاطب کے نزدیک اس فقرے کا مفہوم یہ ہوگا کہ اسے اس قتل کے ارتکاب سے روکا گیا ہے جو صفت عمد کے ساتھ متصف ہو، اسی طرح کسی سے یہ کہاجائے، (اسے تلوار سے مت قتل کرو) تو اس کا یہی مفہوم ہوگا کہ فقرے میں اس قتل کی ممانعت ہے جو تلوار کے ذریعے کیا جائے۔- اسی طرح قول باری (الاخطا) کا مفہوم ہے کہ جب اسے قتل خطا کی اباحت کا مقتضی تسلیم کرلیاجائے تو ضروری ہے اباحت کی شرط بھی پائی جائے اور وہ یہ کہ قاتل بھی اسے قتل خطا سمجھتاہو لیکن اس شرط کا پایاجانامحال ہے اس کے وقوع کا کوئی جواز نہیں کیونکہ قتل خطا ہوتاہی وہ قتل ہے جس میں قاتل کو اس بات کا علم نہیں ہوتا، کہ اس سے خطا ہوئی ہے ، اب جس حالت اور کیفیت کا اسے علم ہی نہ ہو اس کے ساتھ ممانعت اور اباحت کا متعلق ہونادرست ہی نہیں ہوتا۔- ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ قتل کی چار صورتیں ہوتی ہیں، قتل عمد، قتل خطا، قتل شبہ عمد، اور ایسا قتل جو نہ عمد ہو، نہ خطا اور نہ ہی شبہ عمد۔- قتل عمد وہ قتل ہے جس میں کسی ہتھیار سے جان بوجھ کر مقتول پر وار کیا گیا ہو اوروار کرنے والے کو اس وار کے مقصد کا بھی پوری طرح علم ہو۔- قتل خطا کی دوقسمیں ہیں، ایک تو یہ کہ مثلا کسی مشرک یاپرندے وغیرہ پر تیر چلانے کا ارادہ ہو لیکن یہ کسی مسلمان کو جالگے۔ دوسری یہ کہ قاتل مقتول کو مشرک سمجھ کر قتل کرڈالے اور اس غلط فہمی کی وجہ یہ ہو کہ مقتول نے مشرکوں والالباس پہن رکھا ہو یا وہ اہل شرک کے علاقے میں رہتا ہو، پہلی صورت خطا فی الفعل کی ہے اور دوسری صورت خطا فی القصد کی ہے۔- شبہ عمد وہ قتل ہے جس میں ہتھیار کے سوا کسی اور چیز مثلا پتھر، لاٹھی، وغیرہ سے جان بوجھ کروار کرے اور قتل کردے ، فقہاء کا اس بارے میں اختلاف ہے جس کا ذکر ہم انشاء اللہ اس کے مقام پر کریں گے۔- ایساقتل جو نہ عمد ہو، نہ شبہ عمد اورنہ ہی خطا ، وہ بےخیال اور غیر متوجہ انسان نیز سوئے ہوئے انسان کا ارتکاب قتل ہے، اس لیے کہ قتل عمد میں بعینہ ارادہ قتل ہوتا ہے قتل خطا میں بھی فعل قتل مقصود ہوتا ہے لیکن خطا بعض دفعہ فعل اور بعض دفعہ قصد اور ارادے میں واقع ہوجاتی ہے اور بے خیال انسان یعنی ساہی کا ارتکاب قتل قصد اور ارادے سے عادی ہوتا ہے اس لیے وہ عمد اور خطا کے دائرہ میں نہیں آتاتاہم دیت اور کفار کے لحاظ سے اس کا حکم قتل خطا جیسا ہے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قتل کے حکم کے ساتھ اس صورت کو بھی ملحق کردیا گیا ہے جو حقیقت میں قتل کی صورت نہیں ہوتی ، نہ عمد اورنہ ہی غیر عمد مثلا کنواں کھودنے والایا راستے میں پتھر رکھنے والاجس میں گرکریاجس سے ٹکڑا کر کوئی شخص ہلاک ہوجائے یہ شخص حقیقت میں قاتل نہیں ہوتاکیون کہ مرنے والے انسان کی ہلاکت میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا۔- کیونکہ ہم سے سرزد ہونے والافعل یاتوبراہ راست سرزد ہوتا ہے یابالواسطہ وقوع پذیر ہوتا ہے کنواں کھودنے والے اور پتھر رکھنے والے انسان کا کنویں میں گرجانے والے اور پتھر سے ٹکراجانے والے انسان کے سلسلے میں کوئی فعل نہیں ہوتانہ توبلاواسطہ اور نہ ہی بالواسطہ۔ اس لیے وہ حقیقت میں قاتل نہیں ہوتا۔- اس بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اس پر کفارہ عائد نہیں ہوگا، قیاس کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس پر دیت بھی عائد نہ ہو لیکن فقہاء کادیت کے وجوب پر اتفاق ہے ۔ ارشاد باری ہے (ومن قتل مومنا خطاء ف تحریر رقبۃ مومنہ، ودیۃ مسلمۃ الی اھلھا۔ جس نے کسی مومن کو خطا قتل کردیا تو ایک مسلمان مملوک کا آزاد کرنا اور مقتول کے اہل کو دیت حوالے کرنا ہے) آیت میں یہ ذکر نہیں ہے کہ دیت کسی پر واجب ہے قاتل پر یا اس کے عاقلہ پر۔- دیت کی عاقلہ پر ذمہ داری - حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قتل خطا کی دیت کا عاقلہ پر ایجاب کے سلسلے میں متواتر احادیث مروی ہیں اور اس پر فقہاء کا بھی اتفاق ہے حجا ج نے حکم سے روایت کی ہے انہوں نے مقسم اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ حضور نے مہاجرین اور انصار کے درمیان ایک تحریر لکھوائی تھی جس میں مرقوم تھا کہ وہ اپنی اپنی دیتیں ادا کریں گے اور درست طریقے سے اپنے اپنے قیدی چھڑائیں گے اور مسلمان کے درمیان اصلاح کریں گے۔- ابن جریج نے ابوالزبیر سے اور انہوں نے حضڑت جابر سے روایت کی ہے حضور نے تحریری حکمنامہ بھیجاتھا کہ ہر بطن یعنی قبیلے کی شاخ پر اس کی دیت واجب ہے آپ نے پھر یہ مراسلہ بھیجا کہ یہ بات جائز نہیں کہ ایک شخص کا آزاد کردہ غلام آقا کی اجازت کے بغیر اپنی ولاء کا تعلق کسی اور شخص سے جوڑ دے۔- مجالد نے شعبی سے اور انہوں نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ بنوہذیل کی ایک عورت نے اپنے ہی قبیلے کی دوسری عورت کو قتل کردیا ہے، دونوں عوروتوں کے شوہر اور بیٹے موجود تھے حضور نے مقتولہ کی دیت قاتلہ کی عاقلہ پر ڈال دی اور اس کے شوہر اور لڑکے پر کوئی چیز عائد نہ کی اس پر مقتولہ کی عاقلہ نے کہا کہ اس کی میراث ہمیں ملنی چاہیے۔- حضور نے فرمایا (لا، میراثھا الزوجھا ولدھا، نہیں، اس کی میراث اس کے شوہر اور بیٹے کے لیے ہے ، وہ عورت حاملہ تھی، اسے اسقاط ہوگیا قاتلہ کے عاقلہ ڈر گئے کہ کہیں حضور اس بچے کا تاوان بھی ان پر ڈال دیں۔- انہوں نے آپ سے عرض کیا اسقاط کی بنا پر پیدا ہونے والے جنین نے نہ کچھ کھایانہ پیا نہ رویا اور نہ ہی آواز نکالی۔ اس پر حضور نے فرمایا، یہ زمانہ جاہلیت کی سجع بندی ہے آپ نے اس جنبین کے تاوان کے طور پر ایک غرہ یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی دینے کا فیصلہ دیا تھا، جس شخص کے متعلق حضور نے عقل یعنی دیت کے لزوم کا فیصلہ دیا تھا وہ کہنے لگا کہ ہم اس کی بھی دیت ادا کریں جس نے نہ کھایا نہ پیا نہ رویا، نہ ہی کوئی آواز نکالی ، اس جیسا خون باطل ہوگیا۔- حضور نے فرمایا، یہ شاعرانہ بات ہے اس کی دیت ایک غلام یا لونڈی ہے عبدالواحد بن زیاد نے مجالد سے انہوں نے شعبی سے اور انہوں نے حضرت جابر سے روایت کی ہے حضور نے جنین میں قاتل کے عاقلہ پر ایک غزہ یعنی غلام یا لونڈی لازم کردی ۔- اعمش نے ابراہیم سے روایت کی ہے حضور نے عصبہ پر خونبہا کی ادائیگی لازم کردی تھی، ابراہیم نخعی نے روایت کی ہے کہ حضرت صفیہ کے آزاد کردہ غلاموں کی ولاء کے متعلق حضرت علی اور حضرت زبیر اپنا مقدمہ حضرت عمر کے پاس لے کرگئے۔ حضرت عمر نے حضرت زبیر کے حق میں میراث اور حضرت علی پر اس کی دیت کا فیصلہ دیا۔- حضرت عمر اور حضرت علی سے ان لوگوں کے متعلق مروی ہے جنہیں مقتول کی لاش ملی تھی کہ اس کی دیت بیت المال پر ہوگی، حضرت عمر سے ایک مقتول کے متعلق جو وداعہ اور ایک اور قبیلے کے علاقے کے وسط میں پڑا ملاہوا تھا، آپ کے عاقلہ پر دیت کے لزوم کا فیصلہ دیا تھا۔- حضور سے تواتر کے ساتھ روایت منقول ہیں کہ آپ نے قتل خطا میں عاقلہ پر دیت واجب کردی تھی ، فقہاء ، امصار اور سلف کا بھی اس پر اتفاق ہے۔- اگریہ اعتراض کیا جائے کہ قول باری (ولاتکسب کل نفس الاعلیھا ولاتزو وازرۃ اخری، ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہوگا اور کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا) نیز حضور کا ارشاد ہے ، (لایوخذ الرجل بجریرۃ ابیہ ولابجریرۃ اخیہ، کوئی شخص اپنے باپ یا بھائی کے جرم کی بنا پر ماخوذ نہیں ہوگا۔- آپ نے حضرت ابورمثہ سے فرمایا تھا، (لایحبنی علیک ولاتحبنی علیہ، اس کے جرم کی سزا تم نہیں بھگتو گے اور تمہارے جرم کی سزا یہ نہیں بھگتے گا) عقل انسانی کا بھی تقاضا یہی ہے کہ ایک انسان کو کسی اور کے جرم کی بنا پر نہ پکڑا جائے، اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ مذکورہ بالاآیت میں عاقلہ پر وجوب دیت کی نفی نہیں ہے ، اس میں کسی کو کسی دوسرے کے جرم پر پکڑنے کی نفی ہے۔ عاقلہ پر دیت کے ایجاب میں مجرم کے جرم کی بنا پر ان کے ماخوذ ہونے کا مفہوم موجود نہیں ہے ، ہمارے نزدیک دیت تودراصل قائل پر عائد ہوتی تھی لیکن عاقلہ کو قاتل کے ساتھ مل کردیت کا بوجھ اٹھانے کا حکم اس لیے دیا گیا کہ وہ اس کی دست گیری کرسکیں۔ یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ اس کے اس جرم کی سزا اور اس کا گناہ انہیں لازم آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اغنیاء کے اموال میں فقراء کے حقوق رکھے ہیں اس کی یہ وجہ نہیں کہ اغنیاء نے کوئی جرم یا گناہ کیا ہے جس کی پاداش ان پر مالی بوجھ ڈالاگیا ہے بلکہ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ وہ غیربیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرسکیں اور ان کی دست گیری کرسکیں۔- اسی طرح ہر ممکن صورت سے صلہ رحمی اور والدین کے ساتھ نیکی کا حکم دیا گیا ہے ہمدری اور غمخواری کا جذبہ ابھارنے اور آپس کے تعلقات کو بہتر بنانے کی خاطر ان باتوں کی ترغیب دی گئی ہے۔ اسی طرح قاتل کے ساتھ غمخواری کرنے اور اس کو بوجھ بٹانے کی خاطر عاقلہ کی دیت کا بوجھ مل کر برداشت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔- اس میں عاقلہ یاقاتل پر طاقت سے زیادہ بوجھ برداشت کرنے کا کوئی پہلو نہیں ہے ، ہر ایک کو زیادہ سے زیادہ تین یا چار درہم فی کس کے حساب سے دینے پڑتے ہیں ، اگر وظائف حاصل کرنے والوں کے رجسٹروں میں ان کے ناموں کا اندراج ہوگایہ رقم وہیں منہا کرلی جائے گی اور اس کی ادائیگی میں تین سال تک کی مہلت بھی مل جاتی ہے اس طرح جس بات کی انہیں ترغیب دی گئی ہے وہ مکارم اخلاق میں داخل ہے۔- عربوں میں اسلام سے پہلے بھی دیت کا بوجھ مل جل کر برداشت کرنے کارواج تھا، اور یہ چیز ان کے اچھے افعال اور مکارم اخلاق میں شمار ہوتی تھی ، حضور کا ارشاد ہے ، بعثت لاتمم مکارم الاخلاق، دنیا میں میری بعثت کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ میں عمدہ اخلاق کی تکمیل کردوں) اس لیے دیت کا بوجھ مل جل کر برداشت کرنے کا فعل عقلی طور پر بھی مستحسن ہے اور اخلاق کی عادات کی رو سے بھی پسندیدہ ہے۔- عاقلہ پر دیت کے وجوب کی کئی مستحسن اور قابل قبول وجوہات ہیں، اول جس طرح اللہ تعالیٰ نے اغنیاء کے اموال میں فقراء کے لیے صدقات کا وجوب فرمادیا ہے اسی طرح اس کی گنجائش ہے کہ قاتل سے قتل کا فعل سرزد ہوئے بغیر اللہ اس کے عاقلہ پر شروع ہی سے اس کے لیے مال کے ایجاب کا حکم لگادے۔- دوم عاقلہ پر دیت کا بوجھ دستگیری کرنے اور ہاتھ بٹانے کے تصور کی بنیاد پر کیا گیا ہے اسی لیے ہمارے اصحاب نے اس دیت کا بوجھ ان لوگوں پر ڈالا ہے جن کے ناموں کا سرکاری طور پر اندراج اس قاتل کے نام کے ساتھ دیوان یعنی وظائف کے رجسٹر میں ہوگا، دیت کا بوجھ اس کے رشتہ داروں پر نہیں ڈالاجائے گا اس لیے کہ قاتل کے اہل دیوان اس کی مدد کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔- آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جنگ کے موقعہ پر وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ، ایک دوسرے کی حمایت کرتے اور اپنی عزت وآبرو کی مدافعت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں ، چونکہ یہ لوگ جنگ اور دفاع کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، اس لیے انہیں دیت کا بوجھ اٹھانے میں بھی ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کا حکم دیا گیا تاکہ جنگ میں جس طرح ایک دوسرے کی یکساں طور پر مدد کرتے ہیں اسی طرح دیت کا بوجھ بھی یکساں طور پر اٹھائیں۔- تیسری وجہ یہ ہے کہ عاقلہ پر دیت کے وجوب سے ان کے درمیان پہلے سے پیداشدہ بغض و عداوت اور کینہ کا خاتمہ ہوجائے گا اور یہ چیز آپس کی الفت ومحبت اور تعلقات کی بہتری کا سبب بن جائے گی آپ نہیں دیکھتے کہ اگر دو شخصوں کے درمیان نفرت و عداوت موجود ہو اور پھر ایسا ہوجائے کہ ان میں سے ایک شخص دوسرے پر لازم ہونے والی ذمہ داری کو اپنے سر لے لیے تو اس سے دونوں کے درمیان پایاجانے والاکینہ ختم ہوجائے گا، آپ میں محبت پیدا ہوجائے گی اور تعلقات درست ہوجائیں گے۔- مثلا کوئی شخص ان دونوں میں سے کسی کو نقصان پہنچانا چاہیے ، اور دوسرا شخص اس کی پوری حمایت کرے اور اس کی مدافعت کرے تو اس سے دلوں کا کینہ اور بغض ختم ہوکر اس کی جگہ ایک دوسرے کی مدد تعاون اور اچھے تعلقات کا جذبہ پیدا ہوجائے گا۔- چوتھی وجہ یہ ہے کہ اگر اس موقعہ پر ایک شخص قاتل پر عائد ہونے والی دیت کا بوجھ اٹھالیتا ہے تو اس سے اس بات کا امکان پیدا ہوجاتا ہے کہ وقت پڑنے پر قاتل بھی اس پر عائد ہونے والی دیت کا بوجھ اٹھالے گا۔ اس طرح دیت کے سلسلے میں اس شخص کے تعاون کا اقدام ضائع نہیں جائے گا بل کہ اس کا ایک خوش گوار اثریہ ہوگا کہ وقت پڑنے پر قاتل بھی اس شخص کے لیے ایسے ہی اقدامات کرے گا۔- یہ وہ وجوہات ہیں جو عقل کی نظروں میں مستحسن ہیں اور ان کی کوئی تردید نہیں کرسکتا، البتہ ان میں صرف ان لوگوں کو کیڑے نظر آتے ہیں جن کے ذہنوں میں الحاد ہوتا ہے اور نہ صرف قلت علم و معرفت اور تنگ نظری کے شکار ہوتے ہیں بلکہ غور فکر کی نعمت سے بھی محروم ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی توفیق وہدایت سے نوازا ہے اس پر اس کالاکھ لاکھ شکر ہے۔- قتل خطا کی دیت کے وجوب کے لیے تین سالوں کی مدت کے متعلق اختلاف رائے نہیں ہے ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ ہر وہ دیت جو صلح کے بغیر واجب ہوگئی ہو اس کی مدت تین سال ہے۔- اشعث نے شعبی سے اور حکم نے ابراہیم نخعی سے روایت کی ہے کہ سرکاری طور پر وظائف دینے کا کام سب سے پہلے حضرت عمر نے اپنی خلافت کے زمانے میں لازم کردیا۔ اور ان وظائف میں تین سالوں کے دوران دیت کی پوری رقم کی وصولی کو بھی لازم کردیا، آپ نے دوثلث اور نصف دیت کے لیے دو سال کا عرصہ مقرر کیا اور اس سے کم کے لیے ایک سال کا عرصہ ۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت عمر سے یہ بات بکثرت منقول ہوئی ہے اور سلف میں سے کسی نے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا، فقہاء امصار نے بھی اس پر اتفاق کیا اس لیے یہ اجماع بن گیا اور اب اس کے خلاف چلنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔- عاقلہ کے بارے میں فقہاء کی آراء۔- عاقلہ کے متعلق فقہاء امصار کا اختلاف ہے کہ اس کا اطلاق کن لوگوں پر ہوگا، امام ابوحنیفہ اور ہمارے دوسرے تمام اصحاب کا قول ہے کہ قتل خطا میں دیت عاقلہ پر واجب ہوگی، اور اس کی مدت فیصلے کی تاریخ سے لے کر تین سالوں تک ہوگی، اگر قاتل اہل دیوان میں سے ہے تو اہل دیوان اس کے عاقلہ ہوں گے ان کے وظائف میں سے اس حساب سے دیت کی وصولی ہوگی کہ ان میں سے ہر ایک کو پوری دیت میں سے زیادہ سے زیادہ تین یا چار درہم ادا کرنے پڑیں ۔- اگرہرشخص کے حصے میں آنے والی رقم اس سے زائد ہوگی تو اہل دیوان کے ساتھ اس ادائیگی میں ان قبائل کو بھی شامل کرلیاجائے گاجونسب کے لحاظ ان سب سے زیادہ قریب ہوں گے۔ اگر قاتل اہل دیوان میں سے نہیں ہوگا، تو اس کے عاقلہ پر تین سالوں کی مدت کے اندر دیت کی ادائیگی لازم کردی جاے گی، قاتل سے جو سب سے قریب ہوگا، اس کی باری پہلے آئے گی اور بقیہ رشتہ داروں کے لیے بھی الاقرب فالاقرب، کا یہی اصول اپنایاجائے گا، ادائیگی کی مدت کی ابتداء قاضی کے فیصلے سنانے کے دن سے شروع ہوگی۔- دیت کی وصولی کا طریق کار ہوگا کہ ہر سال کے شروع میں تہائی دیت فی کس تین یا چار درہم کے حساب سے وصول کیا جائے گا اس رقم میں اضافہ نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس کی یہ حدقائم رکھنے کے لیے بوقت ضرورت نسب کے لحاظ سے قریب ترین قبائل کو بھی اس کی ادائیگی میں حصہ دار بنالیاجائے گا۔- محمد بن الحسن کا قول ہے حلیف پر لازم ہونے والی دیت اس کے حلفاء ادا کریں گے اور اس کی قوم اس پر عائد ہونے والی دیت ادا نہیں کرے گی۔ عثمان البتی کا قول ہے کہ دیت کی ادائیگی میں اہل دیوان دوسرے تمام عاقلہ سے بڑھ کر ذمہ دار نہیں ہوتے، ابن القاسم نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ دیت کا بوجھ قبائل پر ڈالاجائے گا۔ مالدار پر اس کے حساب سے اور اس سے کم مال رکھنے والے پر اس کے حساب سے حتی کہ ایک شخس کے حصے میں زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سودرہم کی رقم آجائے۔- امام مالک سے منقول ہے کہ یہ رقم ا ن کے سرکاری وظائف سے وصول کی جائے گی، سفیان یہ وصولی مردوں کو وظائف ملنے کے موقعہ پر کی جائے گی، حسن بن صالح کا قول ہے کہ دیت کی ادائیگی کالزوم مردوں پر ان وظائف میں ہوگا، جو لڑائی میں شرکت کے قابل افراد کو دیے جاتے ہیں۔ لیث کا قول ہے کہ عقل یعنی دیت کالزوم قاتل کے ساتھ ساتھ اس قوم پر بھی ہوگا، جن کے ساتھ قاتل سرکاری وظائف حاصل کرتا ہے ، قاتل کی اپنی قوم پر اس کالزوم نہیں ہوگا، اگر اس قوم میں ایسے لوگ موجود نہیں ہوں گے جو دیت کا بوجھ اٹھاسکتے ہوں تو ان کے ساتھ ان کے قریب ترین قبائل کو شامل کرلیاجائے گا۔- المزنی نے اپنی کتاب ، المختصر، میں ، میں امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ دیت کی ادائیگی کا وجوب رشتہ داروں پر ہوتا ہے اہل دیوان ، اور حلیفوں پر نہیں ہوتا، رشتہ داروں میں یہ ترتیب رکھی جائے گی کہ اس کے باپ کی طرف سے ، پھر دادا کی طرف سے ، پھر پردادا کی طرف سے اس کے رشتہ داروں سے الاقرب فالاقرب کے اصول کے تحت رقم وصول کی جائے گی، اگر مذکورہ بالا رشتہ دار بعض حصہ ادا کرنے سے قاصر رہیں تو ان کے موالی یعنی انہیں آزاد کرنے والے یہ باقی ماندہ حصہ ادا کریں گے۔- اگرموالی بھی اس سے عاجز رہیں تو ان کے عاقلہ اگر ہوں گے توادائیگی کریں گے ، اگر ان کے رشتہ دار نہیں ہوں گے ، اور نہ ہی موالی اعلی یعنی آزاد کرنے والے آقا موجود ہوں گے توموالی اسفل یعنی ان کے آزاد کردہ غلام ادائیگی کا بوجھ اٹھائیں گے جو شخص مالدار ہوگاوہ نصف دینار کی ادائیگی کا بوجھ اٹھائے گا، اور جو اس سے کمتر ہوگا وہ ربع دینار کا بوجھ اٹھائے گا کسی پر نصف دینار سے زائد یاربع دینار سے کم رقم لازم نہیں کی جائے گی۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت جابر کی روایت ہے کہ حضور کا ارشاد ہے (علی کل بطن عقولہ) نیز (لایتولی مولی قوم الاباذنھم) الاقرب فالاقرب، کے اعتبار کے سقوط پر دلالت کرتی ہے نیز یہ کہ اس معاملے میں مجرم کے قریب وبعید رشتہ دار سب یکساں ہیں، حضرت عمر سے مروی ہے کہ آپ نے سلمہ بن نعیم سے ، جبکہ ان کے ہاتھوں ایک مسلمان کا کفر کے شبہ میں قتل ہوگیا فرمایا تھا، تم پر اورتمہاری قوم پر دیت ہے۔- حضرت عمر نے اس معاملے میں قریب وبعید کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا، یہ چیز اس معاملے میں قریب وبعید کی یکسانیت نیزا نہیں لازم آنے والے فی کس حصے کے اعتبار سے ان کی یکسانیت پر دلالت کرتی ہے اور اس معاملے مٰں غنی اور فقیر کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔- یہ بات اس پر بھی دال ہے کہ قاتل بھی دیت کی ادائیگی میں عاقلہ کے ساتھ شامل ہوگا، اس لیے حضور نے فرمایا تھا (علیک وعلی قومک الدیہ) زمانہ جاہلیت میں لوگ نصرت اور مدد کی بنیاد پر ایک دوسرے پر عائد ہونے والے دیتیں بھرتے تھے پھر اسلام کا زمانہ آگیا اور یہ معاملہ اسی طرح چلتارہا پھر حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں انتظامی اصلاحات کے تحت دو وین یعنی رجسٹرابنوائے جن میں تمام لوگوں کے ناموں کا اندراج کردیا اور ایک جھنڈے اور فوجی دستے کے تحت آنے والے افراد کو ایک ہاتھ یعنی ایک بازوقرار دیا۔ پھر ان پر یہ ذمہ داری ڈالی کہ ان کے مقابلہ میں آنے والے دشمنوں سے سب مل کر جنگ کریں گے ، اس طرح یہ لوگ جھنڈوں اور دواوین کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مدد کرتے اور ایک دوسرے پر لازم ہونے والی دیت بھرتے ۔ اگر کوئی شخص اہل دیوان میں سے نہ ہوتا توپھردیت کالزوم قبائل پر ہوتا کیونکہ اس صورت میں قبائل کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مدد ہوتی۔- اس لحاظ سے زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام دونوں ایک دوسرے پر لازم ہونے والی دیت کی ادائیگی کا سبب ایک ہی تھا، یعنی نصرت اور مدد، جب زمانہ اسلام میں مدد اور نصرت کی بنیاد جھنڈوں اور دواوین پر رکھی گئی تو لوگ اسی بنیاد پر ایک دوسرے پر لازم ہونے والی دیت بھرتے رہے کیونکہ اس صورت میں ان کی یہ نصرت قبیلے کی بنیاد پر نصرت سے اخص تھی، پھر جھنڈوں اور دواوین کی عدم موجودگی میں قبائل کے ذریعے ایک دوسرے کی مدد کرتے اس لیے اسی بنیاد پر ایک دوسرے پر لازم ہونے والی دیت بھی بھریں گے۔- عقل یعنی دیت کی ادائیگی نصرت کے تابع ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ عورتیں عقل میں داخل نہیں ہوتی کیونکہ ان کی ذات میں نصرت کے معنی نہیں پائے جاتے ، یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ عقل کے سلسلے میں نصرت کا عتبار درست ہے ، رہاحلف کی بنا پر عقل کا اعتبار تو اس سلسلے میں وہ روایت بطور دلیل پیش کی جاتی ہے جسے سعد بن ابراہیم نے حضرت جبیر بن مطعم سے اور انہوں نے حضور سینقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا۔- لاحلف فی الاسلام ویما حلف کان فی الجاھلیۃ، فلم یزدہ الاسلام الاشدۃ ۔ اسلا م میں کوئی حلف نہیں زمانہ جاہلیت میں جو حلف اور معاہدہ ہوا تھا اسلام نے اسے اور پختہ کردیا ہے) اس طرح حضور نے زمانہ جاہلیت کے حلف اور معاہدے کو برقرار رکھا، اہل جاہلیت کے نزدیک نصرت اور عقل کے معاملوں میں حلف کی حیثیت قرابت جیسی ہوتی تھی، پھر اسلام نے اسے اور پختہ کردیا۔- حضور سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (مولی القوم من انفسھم وحلیفہم منھم، کسی قوم کا آزاد کردہ غلام ان میں سے ہی ہے اور ان کا حلیف بھی ان میں سے ہے) ایک دفعہ حضور کے سواروں نے ایک مشرک پر حملہ کرکے اسے پکڑ لیا تھا اور پھر آپ نے اسے مسجد نبوی کے ایک ستون کیس اتھ باندھ دیا تھ اس شخص نے جب یہ پوچھا کہ مجھے کس جرم کی پاداش میں یہاں قید کیا گیا ہے تو آپ نے جواب دیاتھا کہ تمہارے حلیفوں کے جرم کی پاداش میں۔- اگریہ کہاجائے کہ حضور نے حلف اسلام کی نفی کردی ہے کیونکہ آپ کا ارشاد ہے (لاحلف فی الاسلام) تو اس کے جواب میں کہاجائے گا، کہ اس حلف کی نفی کا مفہوم یہ ہے کہ ذوی الارحام کی موجودگی میں حلف کی بنا پر ایک دوسرے کی وراثت حاصل نہیں ہوسکتی کیونکہ حلف کی بنا پر ایک دوسرے کو وارث قرار دیتے تھے اور ذوی الارحام کو نظر انداز کردیتے تھے لیکن نصرت اور عقل کے سلسلے میں حلف کا حکم بحالہ باقی اور ثابت ہے اسی طرح ولا بھی ثابت اور باقی ہے اس کی بنیاد پر ایک دوسرے پر لازم ہونے والی دیت کی ادائیگی کی جائے گی۔- اس کی دلیل وہ روایتیں ہیں جو حضور سے گزشتہ سطور میں نقل کی گئی ہے ہمارے اصحاب نے ہر شخص پر زیادہ سے زیادہ تین یا چار درہم لازم کیے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مقدار کے لزوم پر سب کا اتفاق ہے اس سے زائد مقدار میں اختلاف ہے اس کے لزوم کی کوئی دلیل نہیں ہے اس لیے یہ لازم نہیں ہوگا۔- دیت کی ادائیگی میں عاقلہ کے ساتھ قاتل بھی داخل ہوگا، ہمارے اصحاب ، امام مالک، ابن شبرمہ لیث اور امام شافعی کا یہی قول ہے حسن بن صالح اور اوزاعی کا قول ہے کہ قاتل داخل نہیں ہوگا، حضرت عمر اور حضرت عمر بن عبدالعزیز سے مروی ہے قاتل بھی داخل ہوگا اور عاقلہ کے ساتھ یہ بھی دیت بھرے گا، سلف سے اس قول کی مخالف میں کوئی روایت نہیں ہے ، عقل طور پر بھی یہ ثابت ہوتی ہے کیونکہ دیت کالزوم بنیادی طور پر قاتل پر ہوتا ہے ، اور عاقلہ صرف قاتل کی دستگیری اور اس کی مدد کی بنیاد پر دیت کی ادائیگی کرتے ہیں۔- اس لیے یہ ضروری ہے کہ عاقلہ کو صرف متقین مقدار لازم ہو جب کہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ عاقلہ کو ان کے ایک فرد کے حصے کے سوا باقی حصے لازم ہیں، لیکن اس میں اختلاف ہے کہ دیت کی وہ کون سی مقدار ہے جوان کے ایک فرد کے حصے میں آتی ہے آیا اس حصے کو بھی عاقلہ کو برداشت کرنا ہوگا، اس لیے ضروری ہے کہ وہ حصہ عاقلہ کو لازم نہ ہو، کیونکہ عاقلہ پر اس کے لزوم کی کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔- اسے ایک اور جہت سے دیکھاجائے تو یہ معلوم ہوگا کہ عاقلہ دیت کی ادائیگی صرف قاتل کی طرف سے کرتا ہے اس لیے قاتل کی اپنی ذات کی طرف سے اس کی ادائیگی بطریق اولی ہونی چاہیے ، اس لیے اسے بھی اس میں داخ (رح) ہونا چاہیے نیزاگرمجرم قاتل کے علاوہ کوئی اور ہوتا توقاتل کی دیت کی ادائیگی میں عاقلہ کے ساتھ شامل ہوتا تاکہ عاقلہ کا بوجھ کچھ ہلکا ہوجائے اب جبکہ وہ خود مجرم ہوتوعاقلہ پر بوجھ ہلکا کرنے کی غرض سے ، ان کے ساتھ اسے بطریق اولی داخل ہونا چاہیے کیونکہ ایک دوسرے کی مدد اور دست گیری کے لحاظ سے ان سب کا درجہ یکساں ہے۔- قول باری ہے (فتحریر رقبۃ مومنہ، ایک مومن گردن آزاد کرنا ہے امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف ، امام محمد، زفر، حسن بن زیاد، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے قتل کے کفارہ میں ایک غلام بچے کو آزاد کرنا بھی درست ہے جبکہ اس کے والدین میں سے ایک مسلمان ہو۔- عطاء کا بھی یہی قول ہے حضرت ابن عباس ، حسن ، شعبی ، اور ابراہیم سے منقول ہے کہ صرف اسی غلام کا آزاد کرنا درست ہوگاجو نماز پڑھتا اور روزے رکھتا ہو، یعنی بالغ ہو، کفارہ ظہار میں اس کے جواز پر سب کا اتفاق ہے۔- پہلے قول کی صحت پر قول باری (فتحریر رقبہ مومنہ) دلالت کرتا ہے اس لیے کہ آزاد کیا جانے ولابچہ ، رقبہ مومنہ، حضور کا ارشاد ہے ، (کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ وینصرانہ، ہر پیدا ہونے والابچہ فطرت یعنی فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی اور نصرانی بنادیتے ہیں) ۔- حضور نے بچے کی پیدائش کے وقت اس پر فطرت پر ہونے کا حکم ثابت کردیا، اس لیے لفظ کے مطلق ہونے کی بنا پر اس بچے کا جواز واجب ہوگیا، اس پر قول باری (ومن قتل مومنا خطا) بھی دلالت کرتا ہے آیت میں وارد لفظ بالغ مومن کی طرح نابالغ بچے کو بھی شامل ہے اسل یے ضروری ہے کہ قول باری (فتحریر رقبۃ مومنہ) کا عموم بچے کو بھی شامل ہو۔ اللہ تعالیٰ نے صوم وصلوۃ کی شرط نہیں لگائی ، اس لیے اس مطلق لفظ پر اس شرط کی زیادتی جائز نہیں ہوگی، کیونکہ نص پر زیادتی اس کے نسخ کی موجب ہوتی ہے اگر کوئی غلام مسلمان ہوجاتا اور اس کا آقا اسے نماز اور روزے کے اوقات کی آمد سے پہلے اپنے کفارہ میں آزاد کردیتا تو اس کا کفارہ ادا ہوجاتا کیونکہ اس غلام میں اسم ایمان کا وجود حاصل ہوچکا تھا، اس لیے بچے کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے کیونکہ وہ بھی اسم ایمان کے اطلاق میں داخل ہے۔- اگریہ اعتراض کیا جائے کہ اسلام لانے کے بعد آزاد ہونے والاغلام کفارہ کے لیے اس وقت تک جائز نہیں ہوگا، جب تک وہ نماز نہ پڑھ چکا ہو اورروزے نہ رکھ چکا ہو تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ مسلمانوں کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مسلمان ہونے والے غلام پر نماز یاروزے کے وقت کی آمد سے پہلے ایمان کے اسم کا اطلاق درست ہے ۔- اس لیے معترض نے ایمان کے ساتھ نماز اور روزے کے افعال ادا کرنے کی شرط کہاں سے لگائی جبکہ اللہ تعالیٰ ان دونوں باتوں کی شرط نہیں لگائی ہے نیز معترض آیت میں اس مفہوم کا کیوں اضافہ کررہا ہے جو آیت میں موجود نہیں ہے، اور نص جس چیز کی اباحت کررہا ہے ، معترض اس کی کیوں ممانعت کررہا ہے جب کہ اس کے پاس اس سلسلے میں کوئی نص موجود نہیں جو اس ممانعت کا موجب بن سکتا ہو۔- معترض کے اعتراض سے نسخ قرآن کا ایجاب لازم آتا ہے ایک اور پہلو سے دیکھیے توراث نماز جنازہ اور قاتل پر دیت کے وجوب کے لحاظ سے بچے کا حکم بالغ مرد کے حکم جیسا ہے اس لیے یہ ضروری ہے کفارہ کے جواز کے لحاظ سے اس کا حکم بھی بالغ مرد کے حکم کی طرح ہو کیونکہ بچہ بھی ایس مکمل غلام ہے جس پر ایمان کا حکم لگا ہوا ہے۔- اگریہ کہاجائے کہ قول باری (فتحریر رقبہ مومنۃ، ) حقیقتا ایک ایسے بالغ ، غلام کا مقتضی ہے جو ایمان کا اعتقاد بھی رکھتا ہوای سے غلام کا مقتضی نہیں جس پر ایمان کا حکم تو لگا ہو لیکن اسے ایمان کا کوئی اعتقاد نہ ہو، دوسری طرف اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ، کہ جس غلام کی یہ صفت ہو وہ آیت میں مراد ہے۔- اس لیے اس کے ساتھ آیت کے اندر اس غلام کو دخول نہیں ہوگا، جس پر اس صفت ایمان کا مجازی طور پر اطلاق ہوتا ہو، یعنی ایسا بچہ جس کا ابھی کوئی اعتقاد ہی نہ ہو، اس اعتراض کے جواب میں کہاجائے گا کہ سلف کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قتل خطا کے کفارہ میں غیربالغ غلام کو آزاد کردینا جائز ہے جبکہ وہ نماز پڑھتا اور روزے رکھتا ہو، ایسے غلام میں کسی نے بھی حقیقت کی صورت میں ایمان کے وجود کی شرط کا، اعتبار غلط اور ساقط ہے۔- جب سلف کے اتفاق کی بنا پر یہ بات ثابت ہوگئی توہ میں یہ معلوم ہوگیا کہ ہراس فرد میں ایمان کے وجود کا اعتبار کرنا درست ہوگاج سے ایمان کی علامت اور نشانی لاحق ہوجائے چاہے یہ علامت اسے جس طرح بھی لاحق ہو اس سے کوئی بحث نہیں۔ بچے کے والدین میں سے اگر ایک مسلمان ہوگاتوبچے کو یہ علامت لاحق ہوجائے گی، اس لیے کفارہ میں ایسے غلام بچے کو آزاد کرنا درست ہوگا۔- قول باری ہے (الاان یصدقوا) الایہ کہ مقتول کے وارثین خونبہا معاف کردیں) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مراد یہ ہے ، واللہ اعلم، کہ مقتول کے اولیاء قاتل کو خون بہا اور دیت کی ادائیگی سے بری الذمہ قرار دے دیں، ابراء کے اس عمل کا صدقہ کا نام دیا گیا۔- اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے ، جس شخص کا کسی دوسرے کے ذمہ قرض ہو اور وہ مقروض سے کہہ دے کہ میں نے قرض تجھ پر صدقہ کردیا تو اس سے مقروض قرض کی ادائیگی سے بری الذمہ ہوجائے گا، مقروض کی طرف سے اسے قبول کرنا برات کی صحت کے لیے ضروری نہیں ہوگا۔- اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جب تک مقروض اس پیش کش کو رد نہ کرے اس وقت تک برات کا حکم باقی رہے گا، زفر کا قول ہے کہ جب تک مقروض اسے قبول نہیں کرے گا، اس وقت تک قرض سے اس کی برات نہیں ہوگی۔- زفر کے نزدیک صدقہ کا بھی یہی حکم ہے انہوں نے اسے اعیان کے ہبہ کی حیثیت دی ہے ، کہ جب تک وہ شخص ہبہ کیا جارہا ہے اسے قبول نہ کرلے اس وقت تک کسی عین کا ہبہ درست نہیں ہوگا۔- ظاہر آیت ہمارے اصحاب کے قول کی صحت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اس میں قبول کرلینے کی شرط نہیں ہے نیز یہ کہ دین قرض ، دینے والے کا اپناحق ہوتا ہے اس لیے اپنے حق کا اسقاط اسی طرح درست ہوتا ہے جس طرح قتل عمد میں قاتل کو معاف کردینا اور اپنے غلام کو آزاد کردینادرست ہوتا ہے اور اس کی صحت کے لیے دوسرے فریق کا قبول کرلیناضروری نہیں ہوتا۔- ہمارے اصحاب کا قول کہ اگر مقروض برات کو رد کردے گا اور اسے قبول نہ کرے گا تو اس صورت میں قرض پھر سے اس کے ذمہ عائد ہوجائے گا دوسرے حضرات کے نزدیک قرض پھر سے عائد نہیں ہوگا، انہوں نے اسے عتق اور قتل عمد معاف کردینے کا حکم میں رکھا ہے ، ان دونوں صورتوں میں آزاد کردہ غلام پر پھر سے غلامی لاحق نہیں ہوتی اور قتل عمد میں قاتل قابل گردن زدنی نہیں رہتا۔- ہمارے اصحاب کے قول کی صحت کی دلیل یہ ہے کہ قرض سے برات کو فسخ لاحق ہوسکتا ہے آپ نہیں دیکھتے کہ قرض خواہ مقروض سے کسی چیز مثلا کپڑے وغیرہ پر مصالحت کرلے تومقروض بری الذمہ ہوجائے گا لیکن اگر مقرض کے قبضے میں آنے سے پہلے ہی وہ کپڑا ضائع ہوجائے توبرات باطل ہوجائے گی اور قرض دوبارہ عائدہ ہوجائے گا۔- اس کے برعکس عتق اور خون کی معافی ایک دفعہ واقع ہوجانے کے بعد کسی حالت میں بھی فسخ نہیں ہوتے ، تملیک کے لفط کے ساتھ بھی قرض سے برات واقع ہوجاتی ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ صدقہ بھی تملیک کے الفاظ میں سے ایک لفظ ہے۔- اور آیت میں لفظ صدقہ سے برات کی صحت کا حکم لگایا گیا ہے اس کی حیثیت اعیان جیسی نہیں ہوتی ، جب ابراء کے لفظ کے ساتھ کوئی شخص کسی کو ان اعیان کا مالک بنادیتا ہے تو وہ ان کا مالک نہیں بنتا۔- مثلا کوئی شخص کسی سے یہ کہے، میں نے تمہیں اس غلام سے بری الذمہ قرار دیا ان الفاظ کی بنا پر وہ شخص اس غلام کا مالک نہیں بنے گا، خواہ دوسرا شخص اس برات کو قبول بھی کیوں نہ کرلے، لیکن اگر وہ یہ کہے تم پر میراجوقرض ہے وہ میں نے تمہیں صدقہ کردیا، یایوں کہے تم پر میراجوقرض ہے وہ میں نے تمہیں ہبہ کردیا۔ تو ان فقروں کے ذریعے برات درست ہوجائے گی۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ جس شخص کسی دوسرے کے ذمہ قرض ہو اور وہ مالدار ہوپھروہ مقروض سے کہے میں نے تم پر اپناقرضہ صدقہ کردیا، تومقروض اس قرض سے بری الذمہ ہوجائے گاکیون کہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں غنی اور فقیر کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔- زیر بحث آیت کے سلسلے میں یہ دلالت بھی حاصل ہوتی ہے کہ اولیاء اور ورثاء کو خون بہا ادا کرے ۔ اس کے معنی ہیں خون بہا اسکے ورثاء کو ادا کیا جائے۔- محمد بن الحسن کا قول ہے ، کہ ایک شخص اگر کسی کے اہل کے لیے وصیت کرتا ہے توقیاس کا تقاضا ہے کہ اس سے مراد اس کی بیویاں ہوں لیکن میں نے قیا س کو ترک کرکے اس وصیت ان تمام افراد کے حق میں قرار دیا ہے جو اس شخص کے عیال میں داخل ہوں۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اہل کے اسم کا اطلاق بیوی پر نیز ان پر تمام لوگوں پر ہوتا ہے جو شخص کے گھر میں اس کے ساتھ رہتے ہوں ، اسی طرح ایک شخص کے پیروکاروں اور اس کے رہنے والے لوگوں پر بھی اہل کا اسم محمول ہوتا ہے۔- ارشاد باری ہے (انامنجوک واھلک الامرتک، ہم تمہیں اور تمہارے کو بچانے والے مگر تمہاری بیوی) یہاں لفظ اہل کا اطلاق ان تمام لوگوں پر ہواجولوط (علیہ السلام) کے اہل منزل تھے یعنی آپ کی اولاد اور انکے علاوہ وہ تمام افراد جو آپ کے ساتھ گھر میں سکونت پذیر تھے۔- نیز ارشاد ہے ، (فانجیناہ واھلہ اجمعین، ہم نے انہیں اور ان کے اہل کو سب کو بچالیا) اسی طرح لفظ اہل کا اطلاق ان لوگوں پر بھی ہوتا ہے جو دین کے اندر کسی کے پیرو کار ہوں جیسا کہ قول باری (ونوحا اذ نادی من قبل فاستجبنالہ ونجیناہ من الکرب العظیم) اور نوح کو جب انہوں نے اس سے پہلے پکارا تھا ہم نے ان کی پکار کا جواب دیا اور ایک بڑے کرب سے انہیں رہائی دلائی) اللہ تعالیٰ نے دین کے اندر حضرت نوح (علیہ السلام) کے متبعین کو ان کے اہل کے نام سے موسوم کیا۔- حضرت نوح کے بیٹے کے متعلق فرمایا، انہ لیس من اھلک انہ عمل غیرصالح، وہ تمہارے اہل میں سے نہیں ہے اس کا عمل غیرصالح ہے ) اس لیے اسم اہل مختلف معانی پر محمول ہوتا ہے۔- کبھی اہل کا اطلاق کرکے اس سے آل مراد لیاجاتا ہے اور ال وہ ہوتے ہیں جو اس کے باپ کی طرف سے اس کے رشتہ دار ہوتے ہیں جیسا کہ کہاجاتا ہے ، آل نبی ، اہل بیت نبی صلی اللہ ان دونوں کے معنی ایک ہیں۔- قتل شبہ عمد - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایک اصول یہ ہے ہر وہ قتل جو کسی ہتھیار یا ہتھیار جیسی چیز کے ذریعے ہو مثلا بانس کی چھال یاپتھر کی دھار یا کسی دھار دار چیز کے ذریعے جو ہتھیار کی طرح کام کرتی ہو۔ یا آگ میں جلانے کے ذریعے قتل کی یہ تمام صورتیں خالص قتل عمد ہیں ان میں قصاص واجب ہوگا، اس بارے میں فقہاء کے درمیان کسی اختلاف کا ہمیں علم نہیں ہے۔- امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ ان چیزوں کے ماسوا لاٹھی اور پتھر کی ضرب سے کسی کو قتل کردینا خواہ پتھر چھوٹا ہو یا بڑا وہ شبہ عمد کہلاتا ہے اسی طرح پانی میں ڈبو کر مار دینا بھی شبہ عمد ہے اس میں عاقلہ پر دیت مغلظہ ہے اور قاتل پر کفارہ ہے۔- امام ابوحنیفہ کے نزدیک دیت کو مغلظہ بناناصرف اونٹوں کی عمروں کے لحاظ سے ہوگا ان کی تعداد کے لحاظ سے نہیں۔ نیز جان لینے سے کم درجے کا نقصان شبہ عمد نہیں ہوگا، بلکہ جس چیز سے بھی اس نے ضرب لگاکر نقصان پہنچایا ہوگا، اس پر اس کا قصاص واجب ہوگابشرطی کہ قصاص لینا ممکن ہو۔- اگرقصاص لینا ممکن نہیں ہوگا، تو اس پر دیت مغلظہ واجب ہوگی، اگر دیت اونٹوں کی شکل میں ہوگی توجتنے اونٹ واجب ہوں گے انہیں قسطوں میں ادا کرے گا۔- امام ابویوسف اور امام محمد کا اصول یہ ہے کہ شبہ عمد قتل کی وہ صورت ہے جس کی وجہ سے عام طور پر قتل کا وقوعہ نہیں ہوگا، مثلا ایک طمانچہ مارنا یاکوڑے کی ایک ضرب لگانا وغیرہ، اگر قاتل اس فعل کی تکرار کرتا رہے اور اس کا مجموعہ کسی کو قتل کرنے کے لیے کافی سمجھاجاتا ہوگاتوایسی صورت مین یہ قتل عمد ہوگا اور تلوار کے ذریعے اس کا قصاص لیاجائے گا۔- اسی طرح اگر کسی نے کسی کو پانی میں اس طرح ڈبوئے رکھا ک ہمرنے والے کو اس سے نکالنا ناممکن ہوگاتویہ بھی قتل عمد شمار ہوگا، عثمان البتی کا بھی یہی قول ہے البتہ انہوں نے شبہ عمد کی دیت قاتل کے مال میں واجب کی ہے۔- ابن شبرمہ کا قول ہے جو قتل شبہ عمد کی صورت میں ہوگا، اس کی دیت کا وجوب قاتل کے مال میں ہوگا، دیت کی ابتداء اس کے مال سے کی جائے گی، اور دیت کی مقدار مکمل کرنے کے لیے اس کا سارا مال بھی لیاجاسکے گا، اگر اس کا سارامال کفایت نہیں کرے گا، تودیت کا باقی ماندہ حصہ اس کے عاقلہ پر لازم آئے گا۔- ابن وہب نے امام مالک سے روایت کی ہے جب کوئی شخص کسی کو لاٹھی مارے یا اس پر پتھر پھینکے یاعمداضرب لگائے اگر ان صورتوں کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوجائے گی تو یہ قتل عمد ہوگا اور اس پر قصاص واجب ہوگا۔- قتل عمد کی یہ بھی صورت ہے کہ دو شخصوں کے درمیان گرماگرمی ہوجائے اور ایک کی طرف سے دوسرے کو ضرب لگائی جائے، ضرب لگانے والاجب اس جگہ سے واپس ہو تو اس وقت مضروب زندہ ہو لیکن اس کے بعد مرجائے اس میں قسامہ واجب ہوگا۔- ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کی ہے قتل شبہ عمد باطل ہے ، قتل کی صرف دوقسمیں عمد اور خطا، اشجعی نے سفیان ثوری سے روایت کی ہے کہ شبہ عمد کی صورت یہ ہے کہ کوئی کسی کو لاٹھی یاپتھر یا اپنے ہاتھ سے ضرب لگائے اور مضروب مرجائے تو اس میں دیت مغلظہ لازم آئے گی، قصاص لازم نہیں آئے گا۔- قتل عمد وہ قتل ہے جس کا ارتکاب کسی ہتھیار کے ذریعے کیا جائے اس میں قصاص واجب ہوگا، انسانی جان لینے کی صورتیں قتل عمد، قتل شبہ عمد اور قتل خطا کی شکل میں ہوسکتی ہیں۔ زخم میں یاتوعمد ہوتا ہے یاخطا۔- فضل بن دکین نے سفیان ثوری سے نقل کیا ہے اگر کسی شخص نے لکڑی یاہڈی کی دھار دار نوک بنا کر کسی آزاد آدمی کے پیٹ میں چبھو دی اور اسے زخمی کردیا تو یہ شبہ عمد کی صورت ہوگی اس میں قصاص نہیں ہوگا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ سفیان ثوری سے منقول ہے یہ قول شاذ ہے اور اہل علم کا قول اس کے خلاف ہے اوزاعی کا قول ہے کہ شبہ عمد میں دیت ہے جو مجرم کے مال سے ادا کی جائے گی، اور اگر اس کے مال سے دیت کی مقدار پوری نہیں ہوگی توعاقلہ پر اس کی ادائیگی لازم آئے گی۔ شبہ عمد کی صورت یہ ہے کہ کوئی کسی کو لاٹھی یاکوڑے کی ایک ضرب لگائے اور مضروب مرجائے اگر اس نے دوبارہ ضرب لگائی اور مضروب اسی جگہ مرگیا تو یہ قتل عمد ہوگا، اور اس کے قصاص میں قاتل کو قتل کردیاجائے گا، قتل خطا میں دیت عاقلہ پر لازم آئے گی۔- حسن بن صالح کا قول ہے اگر کسی نے کسی کو لاٹھی سے ایک ضرب لگائی اور پھر لاٹھی بلند کرکے دوسری ضرب لگائی اسی جگہ اسے قتل کردیا تو اس پر قصاص لازم آئے گا، اگر اس نے دوسری ضرب لگائی لیکن مضروب کی فوری موت واقع نہیں ہوئی بلکہ بعد میں اس کی موت واقع ہوگئی تو یہ شبہ عمد ہوگا، اس میں قصاص لازم نہیں آئے گا، بلکہ عاقلہ پر دیت لازم آئے گی۔ قتل خطا میں بھی عاقلہ پر دیت لازم آئے گی۔- لیث بن سعدکاقول ہے قتل عمد وہ قتل ہے جس کا ارتکاب عمدا کیا جائے، اگر کسی نے کسی کو اپنی انگلی سے ضرب لگائی اور اس کی موت واقع ہوگئی توقاتل کو مقتول کے ولی کے حوالے کردیاجائے گا، قتل خطا میں عاقلہ پر دیت لازم ہوگی۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس قول سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لیث کے نزدیک قتل شبہ عمد کی کوئی صورت نہیں ہے قتل یاتوخطا ہوگایاعمدا، مزنی نے اپنی کتاب المختصر میں امام شافعی سے نقل کیا ہے اگر کوئی شخص کسی پر تلوار یاپتھر یانیزے کی نوک یا جسم کو پھاڑ ڈالنے والی کوئی دھاری دار چیز سے ضرب لگائے یا اس کی جلد یاگوشت کو نشانہ بنائے اور اس طرح اسے زخمی کردے خواہ زخم چھوٹا ہو یا بڑا اور اس سے اس کی موت واقع ہوجائے توقاتل پر قصاص لازم آئے گا۔- اگر اس نے پتھر سے سرکچل دیا یا مسلسل اس کا گلادباتارہا یا مسلسل کوڑے برساتارہا یہاں تک کہ اس کی موت واقع ہوگئی یا اسے کسی چیز کے اندر بند کرکے اوپر سے ڈھکنا لگادیا اور کھانے پینے کو کچھ نہ دیا اسے سخت گرمی یاسردی میں اسی شکل میں کوڑے لگاتارہا جس سے اغلبا موت واقع ہوجاتی ہے اور اس طرح مضروب مرگیا توقاتل پر قصاص لازم آئے گا۔- اگر اس نے مقتول کو کسی ستون یعنی خیمے کے بانس، یاپتھر سے مارا ہو جس سے اس کا سر نہ کچلاگیا ہو یا تلوار کی دھار سے ضرب لگائی ہو لیکن مقتول زخمی نہ ہواہویا اسے کنارے سے قریب ہی دریا میں یا سمندر میں پھینک دیا ہو اورا سے اچھی طرح تیرنا آتاہویا کوئی ایسی حرکت کی ہوجواغلبا جان لیوا نہیں ہوتی ان صورتوں میں اگر اس کی موت واقع ہوجائے توقاتل پر قصاص لازم نہیں آئے گا، البتہ عاقلہ پر دیت مغلظہ لازم آئے گی۔- قتل شبہ عمد کی ثبوت کی دلیل وہ روایت ہے جسے ہشیم نے خالد الخداء سے انہوں نے قاسم بن ربیعہ بن جو شن سے انہوں نے عقبہ بن اوس السدی سے ، انہوں نے حضور کے ایک صحابی سے روایت کی ہے کہ آپ نے فتح مکہ کے دن خطبہ دیا اور اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا۔- (الاان قتیل خطا العمد، باخوط والعصا والحجر فیہ الدیۃ مغلظۃ مائتہ من الابل منھا اربعون خلفۃ فی بطونھا اولادھا، لوگوسن لو، خطا عمد شبہ عمد کا مقتول جسے کوڑا یالاٹھی، یاپتھر مار کر قتل کردیاگیا ہو، اس کی دیت مغلظہ ہوگی، یعنی سواونٹ جن میں سے چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں گی۔- ابراہیم نے عبید بن فضلہ خزاعی سے ، انہوں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت کی ہے ایک عورت نے دوسری عورت کو خیمے کے بانس کے ساتھ ضرب لگائی جس سے اس کی موت واقع ہوگئی حضور نے قاتلہ کے عصبہ پر دیت کی ادائیگی اور مقتولہ کے جنین کے بدلے ایک غلام یعنی لونڈی دینے کا فیصلہ سنایا۔- یونس بن شہاب زہری سے انہوں نے سعید بن المسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے قبیلہ ہذیل کی دو عورتیں آپس میں لڑ پڑیں ایک نے دوسری کو ایک پتھر دے ماراجس سے اس کی موت واقع ہوگئی ساتھ ہی اس کا جنین بھی ہلاک ہوگیا، لوگ یہ معاملہ حضور کی خدمت میں لے کر آئے آپ نے فیصلہ دیا کہ مقتولہ کے جنین کی دیت ایک غلام یاباندی ، ہے اور مقتولہ کی دیت قاتلہ کے عاقلہ پر لازم کردی۔- درج بالا روایتوں میں سے ایک کے مطابق خیمے کے بانس سے ضرب لگائی گئی تھی اور دوسری روایت کے مطابق پتھر مارا گیا تھا ابوعاصم نے ابن جریج سے انہوں نے عمرو بن دینار سے انہوں نے طاؤس سے ، انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے حضرت عمر نے لوگوں سے قسم دے کر جنین کی دیت کے متعلق حضور کے فیصلے کے بارے میں پوچھا۔- حمل بن مالک بن نابغہ نے عرض کیا کہ میں اپنی دوبیویوں کے درمیا تھا، ایک نے دوسری کو بیلن یاخیمے کے بانس سے ضرب لگائی اور اس کی موت واقع ہوگئی ساتھ ہی اس کا جنین بھی ہلاک ہوگیا، حضور نے فیصلہ دیا کہ جنین کی دیت میں ایک غلام یا لونڈی دی جائے گی، اور قاتلہ کو قتل کردیاجائے گا۔- حجاج نے محمد بن ابن جریج سے انہوں نے عمرو بن دینار سے انہوں نے طاؤس سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس سے ، انہوں نے حضڑت عمر سے اسی طرح کی روایت کی ہے ابوعاصم اور حجاج نے ابن جریج سے یہ الفاظ نقل کیے ہیں آپ نے اس عورت کو قتل کردینے کا حکم دیا۔- اس حدیث کو ہشام بن سلیمان المخزومی نے ابن جریج سے روایت کی ہے انہوں نے ابن دینار اور سفیان بن عیینہ سے انہوں نے عمرو بن دینار سے ان کی سند کے ساتھ روایت کی ہے اس میں ابن دینار اور سفیان بن عیینہ نے یہ ذکر نہیں کیا کہ حضور نے اس عورت کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔- جبکہ ابوعاصم اور حجاج نے یہ ذکر کیا کہ آپ نے اس عورت کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا، اس طرح اس واقعہ کے سلسلہ میں حضرت ابن عباس کی حدیث مضطرب ہوگئی ہے ، سعید نے قتادہ سے انہوں نے ابوالملیح سے انہوں نے حمل بن مالک سے رایت کی ہے ان کی دوبیویاں تھیں، ایک نے دوسری کو ایک پتھر دے مارا، وہ پتھر اس کے دل پر لگا، وہ حاملہ تھی، اس کا حمل گرگیا اور وہ مرگئی۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک جب یہ معاملہ پہنچا تو آپ نے فیصلہ دیا کہ قاتلہ کے عاقلہ پر دیت واجب ہے اور جنین کی دیت میں ایک غلام یا لونڈی دی جائے، قاتلہ پر قصاص کے ایجاب کے سلسلے میں حمل بن مالک کی روایت میں اختلاف ہے اور تضاد ہے ، حضرت ابن عباس سے بعینہ اسی واقعہ کے سلسلہ میں بعض میں قصاص کا ذکر ہے اور بعض میں نہیں ہے۔- حمل بن مالک جن کی ذات سے اس واقعہ کا تعلق ہے ان کا قول ہے کہ حضور نے قاتلہ کے عاقلہ پر دیت واجب کردی تھی، اس طرح حمل بن مالک کے واقعہ میں روایات کے اندر تضاد پیدا ہوگیا جس کی بنا پر یہ روایات ساقط ہوگئیں۔- اورنفی قصاص کے بارے میں حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حضرت ابوہریرہ کی روایتیں باقی رہ گئیں جن کی کوئی روایت معارض نہیں ہے ابومعاویہ نے حجاج سے ، انہوں نے قتادہ سے انہوں نے حسن سے روایت کی ہے کہ حضور نے فرمایا (قتل السوط والعصا شبہ العمد ، کوڑے اور لاٹھی سے قتل کیا جانے والا مقتول شبہ عمد ہے) ۔- شبہ عمد کو قتل کی ایک ایسی قسم قرار دینا جو قتل خطا کے علاوہ ہے اس پر ہمارے نزدیک سلف کا اتفاق ہے اس بارے میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ، ان کے درمیان صرف شبہ عمد کی کیفیت کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔- امام مالک کا یہ کہنا کہ میں قتل خطا اور قتل عمد کے سوا اور کسی قسم کے قتل کو نہیں جانتا، تو ان کا یہ قول جملہ سلف کے اقوال کے دائرے سے خارج ہے شریک نے ابواسحاق سے انہوں نے عاصم بن ضمرہ سے اور انہوں نے حضڑت علی سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا، شبہ عمد لاٹھی اور بھاری پتھر کے ذریعے وقوع پذیر ہوتا ہے ان دونوں صورتوں میں قصاص نہیں ہے۔- حضرت عمر سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص قصدا اپنے بھائی (گوشت کو کھاجانے والی چیز) یعنی لاٹھی جیسی کسی چیز سے ضرب لگاتا ہے اور پھر کہتا ہے مجھ پر کوئی قصاص نہیں میرے پاس کوئی شخص جس نے یہ حرکت کی ہو جب لایاجائے گا تو میں ا س سے قصاص لے لوں گا، لاٹھی سے ضرب لگاکر ہلاک کردینا حضرت عمر کے نزدیک قتل عمد تھا کیونکہ اس جیسی ضرب سے انسان عموما ہلاک ہوجاتا ہے جیسا کہ امام ابویوسف اور امام محمد کا قول ہے۔- شبہ عمد پر صحابہ کرام کے اجماع کو جو چیز واضح کرتی ہے نیزیہ بتاتی ہے کہ یہ قتل کی تیسری قسم ہے نہ محض عمد ہے اور نہ محض خطا وہ قتل خطا کی دیت میں اونٹوں کی عمروں کے متعلق بھی یہ حضرات مختلف الرائے ہیں نیز یہ کہ شبہ عمد کی دیت قتل خطا کی دیت کے مقابلہ میں زیادہ ثقیل ہے۔- ان حضرات میں حضرت علی ، حضرت عمر، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عثمان، حضرت زید بن ثابت، حضرت ابوموسی اشعری، اور حضرت مغیرہ بن شعبہ شامل ہیں۔- ان تمام حضرات نے شبہ عمد کی دیت میں دیے جانے والے اونٹوں کو قتل خطا کی دیت میں دیے جانے والے اونٹوں کی بہ نسبت میں دیے جانے والے اونٹوں کو قتل خطا کی دیت میں دیے جانے والے اونٹوں کی بہ نسبت زیادہ عمروں والے اونٹ ثابت کیا ہے جیسا کہ ہم اسے انشاء اللہ بعد میں بیان کریں گے ، اس کی بنا پر شبہ عمد کا ثبوت مل گیا۔- جب ہم نے مذکورہ بالاروایات اور اتفاق سلف کے ذریعہ شبہ عمد کا ثبوت مہیا کردیا، اگرچہ اس کی کیفیت میں ان حضرات کا اختلاف ہے تواب اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اس کا اعتبار بھی کریں۔- ہم نے حضڑت علی کو یہ فرماتے ہوئے پایا ہے کہ شبہ عمد لاٹھی اور بڑے پتھر کے ذریعہ وقوع پذیر ہوتا ہے یہ بات سب کے علم میں ہے شبہ عمد ایک شرعی اسم ہے اور توقیف کے سوا اس کے اثبات کا کوئی ذریعہ نہیں ہے ، کیونکہ لغت میں قتل کی کسی نوعیت پر اس اسم کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔- اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ حضرت علی نے توقیف یعنی شریعت کی طرف سے رہنمائی اور آگاہی کے ذریعے ہی بڑے پتھر سے قتل کو شبہ عمد کا نام دیا ہے نیز آپ نے حجر عظیم یعنی بڑے پتھرکا اس لیے ذکر کیا ہے کہ آپ کے نزدیک قصاص کے سقوط میں بڑا اور چھوٹا پتھر دونوں یکساں ہیں۔- اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی ہے انہیں العمری نے ، انہیں عبدالرحمن بن عبداللہ الرقی نے، انہیں ابن المبارک نے سلیمان تیمی اور خالد المخڈا ہے ، انہوں نے قاسم بن ربیعہ سے، انہوں نے عقبہ بن اوس سے ، انہوں نے عبداللہ بن عمر سے اور انہوں نے حضور سے کہ آپ نے فرمایا۔- (قتیل خطا، العمد ، قتیل ، السوط ، والعصافیہ مائۃ من الابل منھا اربعون خلفۃ فی بطونھا، خطاء عمد کا مقتول وہ ہے جو کوڑے اور لا تھی سے قتل کیا گیا ہو اس کی دیت ایک سواونٹ ہیں جن میں سے چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں) اس روایت میں کئی معانی ہیں۔- ایک تو یہ کہ آپ نے خطاء عمد کے قتل ، قتل عمد اورقتل خطا کے علاوہ کوئی اور قسم قرار دیا اور یہ قسم شبہ عمد ہے۔- دوسری یہ کہ کوڑے اور لاٹھی سے قتل کیے جانے والے کی دیت، واجب کردی اور یہ فرق نہیں رکھا کہ اس جیسی لاٹھی یا اس جیسے کوڑے کسی کا قتل ہوسکتا ہے یا نہیں ہوسکتا، نیز یہ فرق بھی نہیں کیا کہ مقتول کو پے درپے ضرب لگا کر قتل کیا گیا ہے یا ایک ہی ضرب سے اس کا کام تمام کردیا گیا ہے۔- تیسری یہ کہ آپ نے کوڑے اور لاٹھی کا ایک ساتھ ذکر فرمایا ہے حالانکہ کوڑے کی مار سے اکثر حالات میں موت واقع نہیں ہوتی جبکہ لاٹھی کی ضرب سے ہوجاتی ہے، یہ بات اس پر، دلالت کرتی ہے کہ دیت کے ایجاب میں ان دونوں کے حکم کا یکساں ہوناواجب ہے۔- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں محمد بن عثمان بن ابی شیبہ نے ، انہیں عقبہ بن مکرم نے ، انہیں یونس بن بکیر نے ، انہیں قیس بن الربیع نے ابوحصین سے، انہوں نے ابراہیم بن بنت النعمان بن بشیر سے انہوں نے حضرت نعمان بن بشیر سے اور انہوں نے حضور سے کہ آپ نے فرمایا (کل شی سوی الحدیدہ خطا ولکل خطا ارش، دھاروالے آلے کے سوا کسی بھی چیز سے کیا جانے والاقتل، قتل خطا ہے اور ہر قتل خطا میں دیت ہے) ۔- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں محمد بن یحییٰ بن سہل بن محمد العسکری نے ، انہیں محمد بن المثنی نے ، انہیں یوسف بن یعقوب ضبعی نے ، انہیں سفیان ثوری اور شعبہ نے جابر جعفی سے ، انہوں نے ابوعازب سے ، انہوں نے نعمان بن بشیر سے کہ حضور نے فرمایا، (کل شی خطا الالسیف ، تلوار کے ساتھ کسی بھی چیز سے کیا جانے والاقتل قتل کطا ہے) نیز فرمایا (وفی کل خطا ارش، اور ہر قتل خطا میں دیت ہے) ۔- ایک اور پہلو سے اس پر غور کیا جائے، سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کسی نے کسی کو چھوٹی چھری سے زخمی کردیا توقصاص کے وجوب کے لحاظ سے اس چھوٹی چھری اور بڑے چھڑے کے حک میں کوئی فرق نہیں ہوگا، اس لیے ضروری ہے کہ قصاص کے سقوط کے لحاظ سے چھوٹے اور بڑے پتھر اور لکڑی کے حکم میں کوئی فرق نہ ہو۔- یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ قصاص کے ایجاب کے سلسلے میں حکم کا تعلق آلہ قتل کے ساتھ ہوتا ہے اور آلہ قتل ہتھیار ہوتا ہے یا وہ چیز ہوتی ہے جو ہتھیار کی طرح کام کرتی ہے اگر یہ کہاجائے کہ ہم نے حضور کے ارشاد (قتیل خطاء العمد) کی گزشتہ سطوریں روایت کی ہے اس سے یہ لازم آتا ہے قتل عمد، قتل خطا ، نہ ہو، اور قتل خطا ، قتل عمد نہ ہو یہ چیز اس حدیث کے فساد پر دلالت کرتی ہے۔- اس کے جواب میں کہاجائے گا، کہ بات ایسی نہیں ہے حضور نے اس قسم کو خطا، العمد کا نام دیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حکم میں قتل خطا ہے لیکن فعل کے لحاظ سے یہ قتل عمد ہے اور یہ ایک درست معنی ہے کیونکہ یہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ عمد ہونے کی بنا پر دیت مغلظہ واجب ہوگی اور قتل خطا کے حکم میں ہونے کی بنا پر قصاص کا حکم ساقط ہوجائے گا۔- اگریہ کہاجائے کہ قول باری (کتب علیکم القصاص فی القتلی، مقتولین کے سلسلے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ہے ، نیز (النفس بالنفس جان کے بدلے جان) اور ایجاب قصاص پر مشتمل دوسری تمام آیتیں بڑے پتھر کے ذریعے قتل کرنے والے مجرم سے قصاص لینے کے حکم کو واجب کرتی ہیں۔- اس کے جواب میں کہاجائے گا، اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ آیات قتل عمد میں قصاص کو واجب کرتی ہیں اور اعتراض میں مزکور صورت قتل عمد نہیں ہے تاہم اس کے باوجود یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ آیات ک اورود بنیادی طور پر قصاص کے ایجاب کے سلسلے میں ہوا ہے ۔ اور ہماری مذکورہ روایات ک اورود قتل کی ان صورتوں کے بارے میں ہوا ہے جن میں قصاص واجب ہوتا ہے اس لیے آیات واحادیث اپنے اپنے مورد کے لحاظ سے الگ الگ دائروں میں قابل عمل ہیں اور ایک کے ذریعے دوسرے پر اعتراض کی گنجائش نہیں ہے۔- نیز قول باری (ومن قتل مومنا خطا ف تحریر رقبہ مومنہ، ودیۃ مسلمۃ الی اھلہ، اور حضور نے شبہ عمد کو خطا عمد کے مقتول کے نام سے موسوم کیا جب آپ نے اس پر خطا کے لفظ کا اطلاق کردیاتوضروری ہوگیا کہ اس میں بھی دیت ہو۔- اگر اختلاف رائے رکھنے والے حضرات حضرت ابن عباس کی اس روایت سے استدلال کریں جس میں کہا گیا ہے کہ دو عورتیں لڑپڑیں، ایک نے دوسری کو خیمے کے ستون سے ضرب لگائی اور اس کی موت واقع ہوگئی، حضور نے قاتلہ پر قصاص واجب کردیاتھاتو اس استدلال کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ ہم نے گزشتہ سطور میں اس حدیث کے الفاظ میں اضطراب کو واضح کردیا تھا نیز یہ بھی بیان کردیا تھا کہ قصاص کی بجائے دیت کے ایجاب کے سلسلے میں حمل بن مالک کی روایت اس کے معارض ہے۔- اگر اس روایت سے قصاص ثابت ہو بھی جائے تو اس کا تعلق صرف ایک خاص واقعہ کے ساتھ ہوگا، اور اس کے حکم کا ڈنڈے کے ذریعے واقع ہونے والے ہر قتل کے لیے عموم نہیں ہوگا، اس روایت میں یہ بھی گنجائش ہے کہ خیمے کے ڈنڈے میں لوہے کی کوئی پتری لگی ہو اورمقتولہ کو لکڑی کی بجائے یہی پتری لگی ہو جس کی بنا پر حضور نے قصاص واجب کردیا ہو۔- اگر ان حضرات کا استدلال اس روایت سے ہو جس میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک یہودی نے ایک لونڈی کا سرایک پتھر سے کچل دیا تھا، حضور نے اس یہودی کا سر بھی پتھر سے کچلنے کا حکم دیا تھا، تو اس کے جواب میں کہاجائے گا یہ ممکن ہے کہ پتھر سخت قسم کا ہو جسے مروہ کہتے ہیں اس کی دھار چاقو کی طرح اثر کرتی ہے اسی بنا پر حضور نے قاتل کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔- نیز عبدالرزاق نے روایت کی ہے انہیں معمر نے ایوب سے یہ روایت بیان کی ہے انہوں نے ابوقلابہ سے اور انہوں نے حضرت انس سے کہ ایک یہودی نے انصار کی ایک لونڈی سے زیور ہتھیانے کے لیے اسے قتل کرکے نہر میں پھینک دیا تھا اور اس کا سر بھی پتھر سے کچل دیا تھا، یہودی پکڑا گیا حضور نے حکم دیا کہ اسے سنگسار کردیاجائے ، چناچہ اسے سنگسار کرکے ہلاک کردیا گیا۔- اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قصاص کے طور پر کسی کو رجم نہیں کیا جاتا، نیز اس میں یہ بھی امکان ہے کہ یہودی امن لے کر اس علاقے میں آیاہو اورپھر لونڈی کو قتل کرکے اپنے علاقے میں بھاگ گیا ہوپھروہ بطور حربی پکڑا گیا ہوکیون کہ یہودیوں کے علاقے مدینہ منورہ سے قریب تھے۔- اسے حرب ہونے کی بنا پر پتھروں سے مار کا قتل کردیا گیا ہو جس طرح بنوعرنہ کے ان لوگوں کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری دی گئی تھیں جو چرواہے کو قتل کرنے کے بعد مسلمانوں کے اونٹ بھگا کرلے گئے تھے ان کے ہاتھ پاؤں بھی کاٹ ڈالے گئے تھے اور تڑپ تڑپ کرمرنے کے لیے انہیں چھوڑ دیا گیا تھا، پھر مثلہ کرکے قتل کرنے کا حکم منسوخ ہوگیا تھا۔- فصل - اگرجان لینے سے کم تر جرم کیا جائے تو اس میں آلہ جرم کی جہت سے شبہ عمد نہیں ہوتا۔ اگر کسی نے کسی کو پتھر یادھار دار چیز سے زخمی کردیا تو اس پر قصاص واجب ہوتا ہے اور اگر قصاص لی ناممکن نہ ہوتودیت کے مغلظ ہونے کی جہت سے ایساجرم شبہ عمد ہوتا ہے۔- جان لینے سے کم ترجرم میں شبہ عمد کا اس لیے ثبوت نہیں ہے کہ قول باری ہے ، والجرح قصاص، اور زخموں میں قصاص ہے ، نیز فرمایا، السن بالسن، دانت کے بدلے دانت ، اس میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا کہ آیایہ زخم کسی دھار دار چیز سے پہنچایا گیا یا اس کے سوا کسی اور چیز سے۔- دوسری طرف حدیث ک اورود قتل کے سلسلے میں صرف خطا عمدشبہ عمد کے اثبات میں ہوا ہے خطا عمد ایک شرعی اسم ہے اس کا اثبات توقیف یعنی شرعیت کی طرف سے رہنمائی ہدایت کے سوا کسی اور زریعے سے جائز نہیں ہوتا، اور جان لینے سے کم ترجرم کے سلسلے میں شریعت کی طرف سے شبہ عمد کی کوئی ہدایت وارد نہیں ہوئی، فقہاء نے اس نوعیت کے جرم میں دیت مغلظہ کا اثبات کیا ہے ، بشرطیکہ قصاص ممکن نہ ہو تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جرم کی حیثیت بھی شبہ عمد جیسی ہے اس لیے کہ ارتکاب جرم میں قصدا اور ارادہ کو دخل ہوتا ہے۔- حضرت عمر اللہ ان کے چہرے کو ہمیشہ شاداب رکھے) سے مروی ہے آپ نے قتادہ مدلجی پر جب کہ اس نے بیٹے کو تلوار پھینک ماری تھی، اور اس طرح اسے قتل کردیا تھا، سواونٹوں کی دیت مغلظہ کے لزوم کا فیصلہ دیا تھا، یہ ایسا عمد تھا جس میں قصاص ساقط ہوگیا تھا اسی طرح جان لینے سے کم ترجرم میں جب کہ وہ عمدا ہو اورقصاص ساقط ہوگیا ہو، اس میں متاثر ہونے والے عضو کی دیت کے حصے کا ایجاب پوری دیت مغلطہ میں سے ہوگا۔- اس کے ساتھ ہی ہمیں ان زخموں میں قصاص کے ایجاب کے متعلق فقہاء کے درمیان کسی اختلاف کا علم نہیں جن میں قصاص ممکن ہو خواہ زخم جس سے چاہے لگایا گیا ہو ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے اس باب میں قتل خطا اور قتل شبہ عمد کا ذکر کیا ہے جبکہ قتل عمد کا ذکرہم سورة بقرہ میں کر آئے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔- اونٹوں میں دیت کی مقدار - دیت کی مقدار کے متعلق حضور سے تواتر کے ساتھ روایات منقول ہیں۔ اور یہ سواونٹ ہیں ، سہل بن ابی حثمہ کی حدیث اس سلسلے کی ایک روایت ہے جو خیبر کے مقام پر پائے جانے والے مقتول کے بارے میں ہے۔ حضور نے اس کی دیت سواونٹ مقرر کی تھی۔- سفیان بن عیینہ نے علی بن زید بن جدعان سے روایت کی ہے انہوں نے قاسم بن ربیعہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر سے کہ حضور نے مکہ مکرمہ میں ہمیں خطبہ دیا تھا آپ نے فرمایا تھا، (الاان قتیل خطا العمد بالسوط والعصا فیہ الدیۃ مغلظہ مائۃ من الابل اربعون خلفۃ فی بطونھا اولادھا) حضرت عمر بن حزم کو حضور نے جو مکتوب تحریر فرمایا تھا، اس میں درج تھا، جان کے اندر سواونٹ ہیں۔- عمرو بن دینار نے طاؤس سے روایت کی ہے کہ حضور نے قتل خطا میں سواونٹوں کی دیت مقرر کی تھی، علی بن موسیٰ القمی نے ذکر کیا ہے کہ ہمیں یعقوب بن شیبہ نے روایت بیان کی ، انہیں قیس بن حفص نے ، انہیں فضل بن سلیمان نمیر نے ، انہیں غالب بن ربیعہ بن قیس نمری نے، انہیں قرہ بن عموص نمیری نے کہ میں اور میرے چچا حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے میں نے عرض کیا۔- حضور اس شخص (میرے چچا) پر میرے باپ کی دیت واجب ہے آپ اسے یہ دیت مجھے دے دینے کا حکم دیں، آپ نے یہ سن کر میرے چچا سے فرمایا، اسے اس کے باپ کی دیت دے دو ، میرے چچا نے میرے والد کو زمانہ جاہلیت میں قتل کردیا تھا، میں نے آپ سے پھر عرض کیا، حضور اس دیت میں میری ماں کا بھی کوئی حق ہے ، آپ نے اثبات میں اس کا جواب دیا، اس کی دیت میں سوانٹ دیے گئے تھے۔- یہ روایت کئی احکام پر مشتمل ہے ، ایک یہ کہ ایک دیت میں مسلمان اور کافروں دونوں یکساں ہیں، کیونکہ اس میں بتایا گیا ہے کہ یہ قتل زمانہ جاہلیت میں وقوع پذیر ہوا تھا، دوسرایہ کہ عورت کو اپنے شوہر کی دیت میں وراثت کا حق ہے ۔ تیسرا حکم یہ ہے کہ دیت سواونٹوں کی ہوتی ہے اس بارے میں سلف اور فقہاء امصار کے درمیان کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ واللہ اعلم - قتل خطا کی دیت میں اونٹوں کی عمریں - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے علقمہ اور اسود نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے کہ قتل خطا کی دیت میں سواونٹوں کی پانچ ٹکڑیاں کی جائیں گی جس کی تفصیل یہ ہے۔- بیس حقے (اونٹنی کا بچہ جو چو تھے سال میں ہو یہ سواری کے قابل ہوتا ہے ) بیس جذعے (اونٹنی کا بچہ جو پانچویں سال میں ہو) بیس بنت مخاض (اونٹنی کا مادہ بچہ جو دوسرے سال میں ہو) بیس ابن مخاض (نر بچہ جو دوسرے سال میں ہو) اور بیس بنت لبون (مادہ بچہ جو تیسرے سال میں ہو) حضرت عمر سے بھی پانچ ٹکڑیوں کے متعلق اسی طرح کی روایت ہے۔- عاصم بن ضمرہ اور ابراہیم نے حضڑت علی سے روایت کی ہے قتل خطا کی دیت میں دیے جانے والے سواونٹوں کی چارٹکڑیاں ہوں گی جس کی تفصیل یہ ہے پچیس حقے ، پچیس جذعے، پچیس بنت مخاض اور پچیس بنت لبون، جس طرح زکوۃ میں ادا کیے جانے والے اونٹوں کی عمروں کے حساب سے چارقسمین ہیں اسی طرح دیت میں ادا کیے جانے والے اونٹوں کی یہی چار قسمین ہیں۔- حضرت عثمان ، اور حضرت زید بن ثابت کا قول ہے کہ قتل خطا میں تیس بنت لبون ، تیس جزعے بیس ابن لبو ن اور بیس بنت مخاض ہیں، ان دونوں حضرات سے جذعہ کی جگہ حقہ بھی مروی ہے ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ فقہاء امصار یعنی ہمارے اصحاب ، امام مالک ، اور امام شافعی اس پر اتفاق ہے کہ قتل خطا کی دیت میں دیے جانے والے اونٹوں کی پانچ صنفیں ہوں گی البتہ ہر صنف کی عمروں کے متعلق اختلاف رائے ہے۔- ہمارے تمام اصحاب کا قول ہے کہ بیس بنت مخاص ، بیس ابن مخاض، بیس بنت لبون بیس حقہ اور بیس جذعہ، امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ بیس بنت مخاض ، بیس بنت لبون اور بیس حقہ اور بیس جذعہ۔- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں احمد بن داؤد بن توبہ التمار نے انہیں عمرو بن محمد الناقد نے، انہیں ابومعاویہ نے ، انہیں حجاج بن ارطاۃ، نے زید بن جبیر سے انہوں نے خشف بن مالک سے ، انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قتل خطا کی دیت پانچ ٹکڑیاں بنائی تھیں۔- اس خبر پر عمل پیرا ہونے کے سلسلے میں فقہاء کا اتفاق اس کی صحت پر دال ہے تاہم اس میں عمروں کی کیفیت بیان نہیں ہوئی، ہمیں منصور نے ابراہیم سے ، انہوں نے حضرت ابن مسعود سے قتل خطا کی دیت کے پانچوں اصناف بیان کرتے ہوئے ان کی عمروں کا بھی ذکر کیا جو ہمارے اصحاب کے قول سے مطابقت رکھتی ہیں۔- یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابن مسعود نے حضور سے دیت کے اونٹوں کے جن پانچ اصناف کا ذکر کیا ہے ان کی عمریں یہی تھیں، کیونکہ اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ حضرت ابن مسعود حضور سے ایک چیز کی روایت کریں اور پھر خود اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی اور چیز پر عمل پیرا ہوجائیں۔- اگریہ اعتراض کیا جائے کہ اس روایت میں ایک راوی خشف بن مالک مجہول ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ اس راوی کی روایت پر فقہاء کا عم پیرا ہونا اور دیت کے سواونٹوں کی پانچ صنفیں مقرر کرنا اس کی سلامت روی اور روایت کے عمل میں اس کی استقامت پر دال ہے نیز قتل خطا کی دیت میں جن لوگوں یعنی ہمارے اصحاب نے تیسرے سال والے نر اور مادہ بچوں بنولبون کی جگہ دوسرے سال والے نر اور مادہ بچے بنومخاض کا قول کیا ہے ا نکاقول اولی ہے کیونکہ ابن لبون کی حیثیت بنت مخاض کی طرح ہے ، اس لیے حضور کا ارشاد ہے ، فان لم توجد ابنۃ مخاض فابن لبون، اگر بنت مخاض میسر نہ ہو تو اس کی جگہ ابن لبون جو امام شافعی اور مام مالک کا مسلک ہے اسکی حیثیت یہ ہوگی گویا انہوں نے چالیس بنت مخاض واجب کردیے ہیں اور یہ بات درست نہیں ہے۔- نیز بنولبون، بنومخاض سے بڑھ کر ہوتے ہیں ، اس لیے بنومخاض کی جگہ بنولبون جو کہ بنات مخاض سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں ان کا ثبات صرف توقیف یعنی نقلی دلیل کے ذریعے ہوسکتا ہے ، نیز حضور کے ارشاد (الدیۃ مائۃ من الابل) کا تقاضا ہے کہ جس تعداد پر اسم ابل کا اطلاق ہوتا ہے وہی جائز ہے اس لیے دلالت کے بغیر اضافے کا اثبات نہیں ہوسکتا۔- ہمارے اصحاب کا مسلک اس بارے میں بیان کردہ اقوال سے کم ازکم قول کے مطابق ہے اسلیے وہ ثابت ہوگیا اور چونکہ اس سے زائد پر دلالت موجود نہیں ہے اس لیے وہ ثابت نہیں ہوگا، نیز عمروں کی کیفیت کے متعلق حضرت ابن مسعود سے ہمارے اصحاب کے قول کی موافقت میں روایت منقول ہے اور جو صحابہ کرام پانچ صنفوں کے قائل ہیں ان میں سے کسی سے بھی اس روایت کے خلاف کوئی روایت منقول نہیں ہے۔- جبکہ امام شافعی اور امام مالک کے قول کی موافقت میں کسی صحابی سے کوئی روایت نہیں ہے اس کی روایت صرف سلیمان بن یسار سے ہے اس لیے ہمارے اصحاب کا قول اولی ہوگا، کیونکہ تمام فقہاء امصار کا ان پانچ صنفوں کے اثبات پر اتفاق ہے اور ان پانچ صفتوں کے متعلق ہمارے اصحاب کا جومسلک ہے اس کی کیفیت حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت کی رو سے ثابت ہے۔- اگریہ کہاجائے کہ تیسرے سال والے نر اور مادہ بچوں بنولبون کا ایجاب دوسرے سال والے نر اور مادہ بچوں بنومخاض کی نسبت اولی ہے ، اس لیے کہ زکوۃ بنولبون لیے جاتے ہیں اور بنومخاض نہیں لیے جاتے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا زکوۃ پر قیاس نہیں کیا جاسکتا آپ نہیں دیکھتے ہمارے مخالف کے نزدیک قتل شبہ عمد کی دیت میں چالیس حاملہ اونٹنیاں واجب ہوتی جبکہ زکوۃ میں ایسی اونٹنیاں واجب نہیں ہوتیں۔- شبہ عمد کی دیت میں اونٹوں کی عمریں - حضرت عبداللہ بن مسعود سے قتل شبہ عمد کی دیت کے متعلق روایت ہے کہ سواونٹوں کی چارصنفیں ہوں گی جس کی تفصیل یہ ہے کہ پچیس بنت مخاض ، پچیس بنت لبون ، پچیس حقے اور پچیس جذعے ، جس طرح زکوۃ میں اونٹوں کی عمروں کی کیفیت ہے یہاں بھی اسی طرح ہے۔- حضرت عمر ، حضڑت علی، حضرت ابوموسی، اور حضرت مغیرہ بن شعبہ سے مروی ہے شبہ عمد میں تیس حقے، تیس جذعے ، اور چالیس گابھن اونٹنیاں جو پانچ سال سے لے کر سات سال تک کی ہوں، حضڑت عثمان اور حضرت زید بن ثابت سے مروی ہے کہ تیس بنت لبون، تیس حقے اور چالیس حاملہ اونٹنیاں جو پانچویں سال میں ہوں - ابواسحاق نے عاصم بن ضمرہ سے اور انہوں نے حضڑت علی سے شبہ عمد کی دیت کے متعلق روایت کی ہے کہ تینتیس حصے ، تینتیس جذعے اور چونتیس گابھن، اونٹنیاں جو عام طور پر پانچ سال سے لے کر سات سال تک کی عمروں والی ہوں، شبہ عمد کی دیت کے متعلق فقہاء امصار میں اختلاف رائے ہے۔- امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف کا قول ہے کہ شبہ عمد کی دیت کی چارٹکڑیاں ہوں گی، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے ، امام محمد کا قول ہے کہ قتل شبہ عمد کی دیت کی، تین ٹکڑیاں ہوں گی تیس حقے ، تیس جذعے ، اور چالیس گابھن اونٹنیاں جو عام طور پر پانچ سال سے لے کر سات سال تک کی ہوں۔- یہی سفیان ثوری کا قول ہے ، حضرت عمر، حضرت زید بن ثابت، اور ان حضرات سے جن کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے ، اسی طرح کی روایت ہے، ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ اس شخص پر دیت مغلظہ لازم آئے گی جو اپنے بیٹے کو تلوار پھینک مارتا ہے، اور اس طرح سے قتل کردیتا ہے اس پر دیت مغلظہ کی صورت میں تیس حقے ، تیس جذعے اور چالیس گابھن اونٹنیاں لازم آئیں گی۔- اگردادا نے اپنے پوتے کو اس طرح قتل کردیا ہو تو اس کا حکم بھی باپ کے حکم کی طرح ہوگا، اگر باپ نے بیٹے کا ہاتھ کاٹ ڈالا ہو اور اس کی موت واقع نہ ہوئی تو اس میں دیت مغلظہ کا نصف لازم آئے گا، امام مالک کا یہ قول بھی ہے کہ سونے چاندی والوں سے بھی دیت مغلظہ وصول کی جائے گی۔ اس کی صورت یہ ہوگی کہ تیس حقوں، تیس جذعوں، اور چالیس گابھن اونٹنیوں کی قیمت اندازہ لگایاجائے گا پھر قتل خطا کی دیت کے اونٹوں کی پانچ صنفوں یعنی بیس بنت مخاض، بیس ابن لبون ، بیس بنت لبون، بیس حقوں اور بیس جذعوں کی قیمت لگائی جائے گی پھر ان دونوں دیتوں کی قیمتوں کا فرق نکالاجائے گا، اور اسی کی مقدار چاندی کا اضافہ کردیاجائیگا۔- امام مالک کا قول ہے تمام جانوروں میں سونے چاندی کی صورت میں دی جانے والی دیت کا تعین اونٹوں کی قیمتوں کی کمی بیشی کے لحاظ سے ہوگا، اگر دیت مغلظہ دیت خطا کے دوگنا ہوجائے گی تو اسی مقدار سے اس پر چاندی کا اضافہ کردیاجائے گا، قتل شبہ عمد کی چاندی کی دیت کے متعلق سفیان ثوری کا قول ہے کہ اونٹوں کی عمروں کے (رح) لحاظ سے قتل خطا اور قتل شبہ عمد کی دیتوں کے مابین فرق کی جو مقدار ہے اس کے مطابق چاندی کی صورت میں دی جانے والی دیت میں اضافہ کردیاجائے گا، جس طرح امام مالک نے فرمایا ہے حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ قتل خطا کی دیت پانچ صنفیں ہیں جیسا کہ ہم نے حضور سے روایت کی ہے اور اس کے حق میں دالائل پیش کیے ہیں اس کے بعد فقہاء کے درمیان قتل شبہ عمد کی دیت کی صنفوں میں اختلاف رائے ہوگیا۔- بعض کا قول ہے کہ اس کی چار صنفیں ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ تین ہیں۔ پہلاقول اولی ہے کیونکہ دوسرے قول میں دیت کسی دلالت کے بغیر اور زیادہ مغلظہ بن جاتی ہے ، حضور کا ارشاد (الدیہ مائتہ من الابل) سب کے جواز کا موجب ہے اب چار صنفیں کرکے دیت کو مغلظہ بنانے پر تو سب کا اتفاق ہے لیکن اس پر تغلظ میں تین صنفیں کرکے اضافہ ثابت نہیں ہے ، اس لیے ظاہری حدیث اس کی نفی کرتا ہے اس بنا پر ہم اس کا اثبات نہیں کریں گے۔- نیز گابھن اونٹنیوں کے اثبات سے تعداد میں اضافے کا اثبات لازم آتا ہے اس لیے یہ جائز نہیں ہوگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ان گابھن اونٹنیوں کے بچے پیدا ہوں گے توتعداد سو سے بڑھ جائے گی۔- اگریہ کہاجائے گا کہ قاسم ابن ربیعہ کی روایت جو انہوں نے حضرت ابن عمرو سے اور انہوں نے حضور سے کی ہے ، اس میں قتل شبہ کی عمد کی دیت سواونٹ مقرر کی گئی ، ہے، جن میں چالیس سے گابھن اونٹنیاں ہوں گی قتل شبہ عمد کے اثبات میں اس سے استدلال کیا گیا ہے کیا اس سے اسنان یعنی اونٹوں کی عمروں کا بھی اثبات نہیں ہوگیا ؟- اس کے جواب میں کہاجائے گا، کہ اس روایت سے ہم نے قتل شبہ عمد کا اس بان پر اثبات کیا ہے کہ صحابہ کرام نے بھی شبہ عمد کے اثبات میں اسی روایت کو استعمال کیا تھا، اگر اونٹوں کی عمروں کا ثبوت ہوتا تو یہ بات مشہور ہوتی ، نیز بات اگر اس طرح ہوتی تو اس بارے میں صحابہ کرام کے درمیان اختلاف رائے نہیں ہوتا، جس طرح شبہ عمد کے اندر اختلاف رائے نہیں ہے۔- اسمیں کوئی متناع نہیں کہ ایک روایت کئی معانی پر مشتمل ہو جن میں سے بعض توثبات ہوجائیں اور بعض اس وجہ سے ثابت نہ ہوسکیں کہ یاتواصل کے لحاظ سے ہی یہ ثابت نہیں یا یہ کہ ان پر نسخ وارد ہوچکا ہے۔- سونے اور چاندی میں ادا کی جانے والی دیت کو مغلظہ بنانے کا جہاں تک تعلق ہے تو اس میں دو باتوں میں ایک ضرورہوگی یاتواصل میں دیت اصل میں سونے ، چاندی یا اونٹوں میں سے کسی ایک کی صورت میں واجب ہوتی تھی، اور اس میں یہ صورت نہیں تھی کہ ان اصناف ثلثہ میں بعض کو بعض کا بدل قرار دیا گیا تھا۔- اگراونٹ ہی دیت میں واجب ہوئے تھے اور دراہم ودنانیر یعنی چاندی سونا اور ان اونٹوں کے بدل کے طور پر قبل کیے گئے ہیں تو اس صورت میں امام مالک کے اس قول کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا، جس کے مطابق دیت شبہ عمد یعنی دیت مغلظہ اور دیت خطا کے مابین فرق کو سونے اور چاندی کی دیت کی صورت میں ان میں اضافہ کرکے واجب کردیاجائے گا۔- بلکہ یہ کہنا ضروری ہوگا کہ دیت دینے والے پر ان اونٹوں کی قیمت واجب ہوگی، جو دیت مغلظہ کے اونٹوں کے عمروں کے حساب سے ہوں گے ، اسی طرح دیت خطا میں بھی ان اونٹوں کی قیمتوں کا اعتبار کرنا چاہیے جو دیت خطا کے اونٹوں کی عمروں کے حساب سے ہوں گے۔- نیز یہ کہ ہم دراہم ودنانیر کی صورت میں دیت کی ادائیگی کے اندر ایک محدود مقدار کا اعتبار نہ کریں یعنی یوں نہ کہاجائے کہ دراہم کی صورت میں دیت کی مقدار دس ہزار درہم یابارہ ہزار درہم ہے اور دینار کی صورت میں ایک ہزار ہے بلکہ ہر زمانے میں اونٹوں کی قیمت کو دیکھا جائے اگر ان کی قیمت چھ ہزار ہو تو اس میں کوئی اضافہ کیے بغیر اتنی ہی رقم دیت دینے والے پر واجب کردی جائے اور اگر پندرہ ہزار ہوتوبندہ ہزار ہی واجب کردی جائے ۔- یہی صورت دینار یاسونے کی دیت میں بھی اختیار کی جانی چاہیے جب سونے چاندی کی صورت میں دیت کی ادائیگی کے متعلق سلف کے دوہی اقوال ہیں یعنی دراہم کی صورت میں دس یابارہ ہزار اور دینار کی صورت میں ایک ہزار توگویاسب کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ اس مقدار میں اضافہ کرنے یا اس میں کمی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔- اس میں یہ دلیل بھی موجود ہے کہ دراہم ودنانیر خود دیتیں ہیں کسی کے بدل نہیں ہیں، جب بات اس طرح ہے توپھردراہم ودنانیر کی صورت میں دیت کو مغلظ دو وجوہ سے درست نہیں ہوگا، ایک تو یہ کہ دیت کو مغلظہ بنانے کی صورت یہ ہے کہ یا تو اس سلسلے میں شریعت کی طرف سے آگاہی اور رہنمائی حاصل ہوچکی ہوج سے توقیف کہاجاتا ہے اس پر سب کا اتفاق ہوچکا ہے۔- اب دراہم ودنانیر کی صورت میں دیت کو مغلظہ بنانے کے لیے درج بالا دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت موجود نہیں ہے یعنی نہ توقیف ہے اور نہ ہی اتفاق ، دوسری وجہ یہ ہے کہ اونٹوں کی صورت میں دیت کو ان اونٹوں کی عمروں کے لحاظ سے مغلظہ بنایاجاتا ہے تعداد کے لحاظ سے مغلظہ نہیں بنایاجاتا، اب اگر دراہم ودنانیر کی صورت میں دیت کو اس طرح مغلظہ بنالیاجائے کہ ان کے اوزان برھادیے جائیں تو اس کی وجہ سے خروج عن الاصول لازم آئے گا۔- ایک اور وجہ بھی موجود ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دراہم ودنانیر کو اونٹوں کی قیمت کے طور پر دیت میں نہیں دیاجاتا ہے وہ یہ کہ عاقلہ اگر دراہم والے ہوتوقاضی انہیں دیت میں دراہم ادا کرنے کا حکم دے گا اگر دنانیر والے ہوں تودینار ادا کرنے کا حکم دے گا، اگر اونٹ ہی اصل ہوتے اور دراہم ودنانیر نیز ان اونٹوں کے بدل ہوتے توقاضی کے لیے یہ فیصلہ دینا، درست نہ ہوتا کہ دراہم یادنانیر دیت میں ادا کیے جائیں اورادائیگی کی مدت تین سال ہوگی۔ کیونکہ یہ دین کے بدلے دین کی شکل ہوگی۔- جب یہ بات جائز ہوگئی تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ دراہم ودنانیر خود دیتیں ہیں اور اونٹوں کے بدل نہیں ہیں دراہم ودنانیر کی صورت میں ادا ہونے والی دیت مغلظہ نہیں ہوسکتی اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ حضرت عمر نے سونے کی صورت میں دیت کی مقدار ایک ہزار دینار مقرر کیا تھا۔- چاندی کی صورت میں روایات کے اندراختلاف ہے، اہل مدینہ کی روایت کے مطابق بارہ ہزار دراہم اور اہل عراق کی روایت کے مطابق دس ہزار درہم ہیں ، حضرت عمر نے یہ مقدار مقرر کرتے وقت دیت شبہ عمد اوردیت خطا میں کوئی فرق نہیں کیا اور صحابہ کرام کے سامنے یہ فیصلہ ہوا اور کسی کی طرف سے بھی اس سے اختلاف کا اظہار نہیں کیا گیا۔- یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ سونے چاندی کی صورت میں ادا کی جانے والی دیت کو مغلظہ بنانے کی بات ساقط اور غلط ہے اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ صحابہ کے درمیان اونٹوں کی عمروں کے لحاظ سے دیت کو مغلظہ بنانے کی کیفیت کے اندر اختلاف ہے کیونکہ اونٹوں کی عمروں کے لحاظ سے دیت کو مغلظہ بنانے کی کیفیت کے اندر تو اختلاف ہے کیونکہ اونٹوں میں عمروں کے لحاظ سے دیت کو مغلظہ بناناواجب ہے اگر سونے اور چاندی میں بھی دیت کو مغلظہ بناناواجب ہوتا ہے تو صحابہ کرام کے درمیان اس بارے میں بھی اختلاف رائے ہوتا جس طرح اونٹوں کی صورت میں ہوا ہے۔- اب جبکہ اس بارے میں ان حضرات کے اختلاف رائے کی کوئی روایت منقول نہیں ہے ، صرف سونے کی دیت کے بارے میں ایک ہزار دینار اور چاندی کی دیت کی متعلق دس ہزار یابارہ ہزار درہم کی روایت منقول ہے جس میں اضافے یاکمی کی کوئی شرط مذکور نہیں ہے تو اس سے گویا یہ بات ثابت ہوگئی کہ صحابہ کرام کا اونٹوں کے سوا کسی اور صورت میں ادا کی جانے والی دیت کو مغلظہ بنانے کی نفی پر اجماع ہے۔- اگریہ کہاجائے کہ ہم نے جو اصول بیان کیا ہے اگر اس کا تعلق اونٹوں سے ہوتاتوعاقلہ پر درہموں کی صورت میں دیت کی ادائیگی کے لیے قاضی کا فیصلہ قرض کے بدلے قرض کا موجب ہوتایہ بالکل اسی طرح جیسے فقہاء کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے ایک متوسط درجے کے غلام کے بدلے نکاح کرلے پھر اگر وہ درہموں کی صورت میں غلام کی قیمت عورت کو پیش کردے۔ توا سے قبول کرلیاجائے گا اور یہ دین کے دین کی بیع نہ ہوگی۔- اس اعتراض کے جواب میں کہاجائے گا کہ اگر کسی نے غلام کے بدلے کسی سے نکاح کرلیا ہو تو ہمارے نزدیک قاضی اسے درہم ادا کرنے کا فیصلہ نہیں سنائے گا بل کہ اس سے یہ کہے گا کہ اگر تم چاہو تو اپنی بیوی کو ایک متوسط درجے کا غلام دے دو اوراگرچاہو تودرہموں کی شکل میں اس کی قیمت دے دو ۔- اس لیے جو بات ہم نے کہی ہے اسمیں دین کے بدلے دین کی بیع لازم نہیں آتی۔ دیت کے سلسلے میں اگر قاضی نے عاقلہ پر درہموں کی شکل میں اس کی قیمت دے دو ۔- اس لیے جو بات ہم نے کہی ہے اس میں دین کے بدلے دین کی بیع لازم نہیں آتی۔ دیت کے سلسلے میں اگر قاضی نے عاقلہ پر درہموں کی شکل میں ادائیگی کا فیصلہ لازم کردیا ہوتوان سے اونٹ قبول نہیں کیے جائیں گے۔- (آیت ھذا کی بقیہ تفسیر اگلی آیت میں)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٢) عیاش بن ربیعہ مومن کو حارث بن زید مومن کا قتل کرنا جائز نہیں اور اگر غلطی سے ایسا ہوجائے تو قاتل پر ایک مسلمان غلام یا باندی کا آزاد کرنا واجب ہے اور مقتول کے وارثوں کو پورا خون بہا دینا بھی واجب ہے مگر یہ کہ اولیاء مقتول (مقتول کے وارث) معاف کردیں۔- اور اگر مقتول تمہاری دشمن قوم سے ہو تو قاتل پر صرف غلام کا آزاد کرنا واجب اور حارث بن یزید (رض) کی قوم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمن تھی اور اگر مقتول کی قوم معاہدہ وصلح والی ہو تو مقتول کے وارثوں کو پوری دیت دینا بھی اور ایک مومنہ باندی یا غلام کا آزاد کرنا بھی واجب ہے اور جسے آزاد کرنے کو نہ ملے تو وہ لگاتار دو ماہ کے روزے اسطرح رکھے کہ ایک دن کا روزہ بھی درمیان میں نہ چھوڑے، یہ غلطی سے قتل کرنیوالے کی منجانب اللہ توبہ ہے، اللہ قتل کی یہ سزا متعین کرنے میں حکمت والا ہے۔- شان نزول : (آیت) وماکان لمومن ان یقتل “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ حارث بن یزید بنی عامر بن لوی سے تھے، یہ ابوجہل کے ساتھ عیاش بن ابی ربیعہ کو سخت تکالیف دیا کرتے تھے، پھر حارث بن یزید ہجرت کرکے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آگئے مقام حرہ میں ان کو عیاش ملے، انہوں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ کافر ہیں قتل کردیا، اس کے بعد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر واقعہ بیان کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور کسی مومن کی شان نہیں کہ وہ کسی مومن کو بلاتحقیق قتل کرے، لیکن غلطی سے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

اب ایک اور معاشرتی مسئلہ آ رہا ہے۔ اس وقت در اصل پورے عرب کے اندر ایک بھٹی دہک رہی تھی ‘ جگہ جگہ جنگیں لڑی جا رہی تھیں ‘ میدان لگ رہے تھے ‘ معرکے ہو رہے تھے۔ تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں تو صرف بڑے بڑے معرکوں اور غزوات کا ذکر ہوا ہے مگر حقیقت میں اس وقت پورا معاشرہ حالت جنگ میں تھا۔ ایک چومکھی جنگ تھی جو مسلسل جاری تھی۔ ان آیات سے اس وقت کے عرب معاشرے کی اصل صورت حال اور اس قبائلی معاشرے کے مسائل کی بہت کچھ عکاسی ہوتی ہے۔ اس طرح کے ماحول میں فرض کریں ‘ ایک شخص نے کسی دوسرے کو قتل کردیا۔ قاتل اور مقتول دونوں مسلمان ہیں۔ قاتل کہتا ہے کہ میں نے عمداً ایسا نہیں کیا ‘ میں نے تو شکار کی غرض سے تیر چلایا تھا مگر اتفاق سے نشانہ چوک گیا اور اس کو جا لگا۔ تو اب یہ مسلمان کا مسلمان کو قتل کرنا دو طرح کا ہوسکتا ہے ‘ قتل عمد یا قتل خطا۔ یہاں اس بارے میں وضاحت فرمائی گئی ہے ۔- آیت ٩٢ (وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا الاَّ خَطَءًاج ) - خطا کے طور پر قتل کیا ہے ؟ نشانہ چوک گیا اور کسی کو جا لگا یاسڑک پر حادثہ ہوگیا ‘ کوئی شخص گاڑی کے نیچے آکر مرگیا۔ آپ تو اسے مارنا نہیں چاہتے تھے ‘ بس یہ سب کچھ آپ سے اتفاقی طور پر ہوگیا۔ چناچہ سعودی عرب میں حادثات کے ذریعے ہونے و الی اموات کے فیصلے اسی قانون قتل خطا کے تحت ہوتے ہیں۔ وہ قانون کیا ہے :- (وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَءًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ ) اور جو شخص کسی مؤمن کو قتل کر دے غلطی سے تو (اس کے ذمہ ہے) ایک مسلمان غلام کی گردن کا آزاد کرانا - (وَّدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ الآی اَہْلِہٖٓ اِلَّآ اَنْ یَّصَّدَّقُوْا ط) “- یعنی قتل خطا کے بدلے میں قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ دیت یعنی خون بہا ادا کیا جائے گا ‘ یہ مقتول کے ورثاء کا حق ہے۔ اور گناہ کے کفّارے کے طور پر ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا ہوگا ‘ یہ اللہ کا حق ہے۔ - (فَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّکُم وَہُوَ مُؤْمِنٌ) (فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ ط) “- کیونکہ کافر قبیلے کا آدمی تھا اور اگر اس کی دیت دی جائے گی تو وہ اس کے گھر والوں کو ملے گی جو کہ کافر ہیں ‘ لہٰذا یہاں دیت معاف ہوگئی ‘ لیکن ایک غلام کو آزاد کرنا جو اللہ کا حق تھا ‘ وہ برقرار رہے گا۔ - (وَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍم بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ) اور اگر وہ (مقتول ) ہو کسی ایسی قوم سے جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے - (فَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ الآی اَہْلِہٖ وَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ ج) - گویا یہ دو حق الگ الگ ہیں۔ ایک تو دیت ہے جو مقتول کے ورثاء کا حق ہے ‘ اس میں یہاں رعایت نہیں ہوسکتی ‘ البتہ جو حق اللہ کا اپنا ہے یعنی گناہ کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے ایک مؤمن غلام کا آزاد کرنا ‘ تو اس میں اللہ نے نرمی کردی ‘ جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :120 یہاں ان منافق مسلمانوں کا ذکر نہیں ہے جن کے قتل کی اوپر اجازت دی گئی ہے ، بلکہ ان مسلمانوں کا ذکر ہے جو یا تو دارالاسلام کے باشندے ہوں ، یا اگر دارالحرب یا دارالکفر میں بھی ہوں تو دشمنان اسلام کی کارروائیوں میں ان کی شرکت کا کوئی ثبوت نہ ہو ۔ اس وقت بکثرت لوگ ایسے بھی تھے جو اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی حقیقی مجبوریوں کی بنا پر دشمن اسلام قبیلوں کے درمیان ٹھیرے ہوئے تھے ۔ اور اکثر ایسے اتفاقات پیش آجاتے تھے کہ مسلمان کسی دشمن قبیلہ پر حملہ کرتے اور وہاں نادانستگی میں کوئی مسلمان ان کے ہاتھ سے مارا جاتا تھا ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں اس صورت کا حکم بیان فرمایا ہے جبکہ غلطی سے کوئی مسلمان کسی مسلمان کے ہاتھ سے مارا جائے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :121 چونکہ مقتول مومن تھا اس لئے اس کے قتل کا کفارہ ایک مومن غلام کی آزادی قرار دیا گیا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :122 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خوں بہا کی مقدار سو اونٹ ، یا دوسو گائیں ، یا دو ہزار بکریاں مقرر فرمائی ہے ۔ اگر دوسری کسی شکل میں کوئی شخص خوں بہا دینا چاہے تو اس کی مقدار انہی چیزوں کی بازاری قیمت کے لحاظ سے معین کی جائے گی ۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نقد خوں بہا دینے والوں کے لیے ۸ سو دینار یا ۸ ہزار درہم مقرر تھے ۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو انہوں نے فرمایا کہ اونٹوں کی قیمت اب چڑھ گئی ہے ، لہٰذا اب سونے کے سکے میں ایک ہزار دینار ، یا چاندی کے سکے میں ۱۲ ہزار درہم خوں بہا دلوایا جائے گا ۔ مگر واضح رہے کہ خوں بہا کی یہ مقدار جو مقرر کی گئی ہے قتل عمد کی صورت کے لیے نہیں ہے بلکہ قتل خطا کی صورت کے لیے ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :123 اس آیت کے احکام کا خلاصہ یہ ہے: اگر مقتول دارالاسلام کا باشندہ ہو تو اس کے قاتل کو خوں بہا بھی دینا ہوگا اور خدا سے اپنے قصور کی معافی مانگنے کے لیے ایک غلام بھی آزاد کرنا ہوگا ۔ اگر وہ دارالحرب کا باشندہ ہو تو قاتل کو صرف غلام آزاد کرنا ہوگا ۔ اس کا خوں بہا کچھ نہیں ہے ۔ اگر وہ کسی ایسے دارالکفر کا باشندہ ہو جس سے اسلامی حکومت کا معاہدہ ہے تو قاتل کو ایک غلام آزاد کرنا ہوگا اور اس کے علاوہ خوں بہا بھی دینا ہوگا ، لیکن خوں بہا کی مقدار وہی ہوگی جتنی اس معاہد قوم کے کسی غیر مسلم فرد کو قتل کردینے کی صورت میں ازروئے معاہدہ دی جانی چاہیے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :124 یعنی روزے مسلسل رکھے جائیں ، بیچ میں ناغہ نہ ہو ۔ اگر کوئی شخص عذر شرعی کے بغیر ایک روزہ بھی بیچ میں چھوڑ دے تو ازسر نو روزوں کا سلسلہ شروع کرنا پڑے گا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :125 یعنی یہ”جرمانہ“نہیں بلکہ”توبہ“ اور ”کفارہ“ ہے ۔ جرمانہ میں ندامت و شرمساری اور اصلاح نفس کی کوئی روح نہیں ہوتی بلکہ عموماً وہ سخت ناگواری کے ساتھ مجبوراً دیا جاتا ہے اور بیزاری و تلخی اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے ۔ برعکس اس کے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ جس بندے سے خطا ہوئی ہو وہ عبادت اور کار خیر اور ادائے حقوق کے ذریعہ سے اس کا اثر اپنی روح پر سے دھودے ، اور شرمساری و ندامت کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرے ، تاکہ نہ صرف یہ گناہ معاف ہو بلکہ آئندہ کے لیے اس کا نفس ایسی غلطیوں کے اعادہ سے بھی محفوظ رہے ۔ کفارہ کے لغوی معنی ہیں”چھپانے والی چیز“ ۔ کسی کار خیر کو گناہ کا ”کفارہ“قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ یہ نیکی اس گناہ پر چھا جاتی ہے اور اسے ڈھانک لیتی ہے ، جیسے کسی دیوار پر داغ لگ گیا ہو اور اس پر سفیدی پھیر کر داغ کا اثر مٹا دیا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

56: غلطی سے قتل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی اِنسان کو قتل کرنا مقصود نہیں تھا، بلکہ یا توبے خیالی میں گولی چل گئی، یا مارنا توکسی جانور کو تھا، مگر نشانہ خطا ہونے کی وجہ سے کوئی اِنسان مرگیا۔ اس کو اصطلاح میں ’’قتلِ خطا‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا حکم آیت نے بتایا ہے کہ ایک توقاتل پرکفارہ واجب ہوتا ہے اور ایک دیت، کفارہ یہ ہے کہ ایک مسلمان غلام آزاد کیا جائے۔ اور اگر غلام میسر نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے جائیں۔ اور دیت کی مقدار احادیث میں سواُونٹ یا دس ہزار دِرہم یا ایک ہزار دینار مقرر کی گئی ہے۔ 57: اس سے مراد وہ مسلمان ہے جو دارالحرب میں رہتا ہو۔ اگر اسے غلطی سے قتل کردیا جائے تو صرف کفارہ واجب ہے، دیت واجب نہیں ہے۔ 58: مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا غیر مسلم غلطی سے قتل ہوجائے جو مسلم ریاست کا شہری بن کر امن سے رہتا ہو (جسے اصطلاح میں ذمی کہتے ہیں) تو اس میں بھی دیت اور کفارہ اسی طرح واجب ہیں جیسے کسی مسلمان کو قتل کرنے پر واجب ہوتے ہیں۔