91۔ 1 یہ ایک تیسرے گروہ کا ذکر ہے جو منافقین کا تھا یہ مسلمانوں کے پاس آتے تو اسلام کا اظہار کرتے تاکہ مسلمانوں سے محفوظ رہیں، اپنی قوم میں جاتے شرک بت پرستی کرتے تاکہ وہ انہیں اپنا ہی مذہب سمجھیں اور یوں دونوں سے مفادات حاصل کرتے۔ 91۔ 2 الفِتْنۃ سے مراد شرک بھی ہوسکتا ہے اسی شرک میں لوٹا دیئے جاتے۔ یا الفتنۃُ سے مراد قتال ہے کہ جب انہیں مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کی طرف بلایا یعنی لوٹایا جاتا ہے تو وہ اس پر آمادہ ہوجاتے ہیں، 91۔ 3 اس بات پر کہ واقعی ان کے دلوں میں نفاق اور ان کے سینوں میں تمہارے خلاف بغض وعناد ہے، تب ہی وہ یہ ادنیٰ کوشش دوبارہ فتنے (شرک) یا تمہارے خلاف آمادہ قتال ہونے میں مبتلا ہوگئے۔
[١٢٦] بدترین منافق :۔ ایسے منافق بدترین قسم کے منافق ہیں جو ڈھنڈورا تو اپنی امن پسندی کا پیٹیں اور جب داؤ لگ جائے تو اسلام دشمنی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں۔ ان کی امن پسندی کی تین ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمانوں سے صلح کرلیں۔ دوسرے یہ کہ لشکر کفار میں شامل نہ ہوں۔ اور تیسرے یہ کہ اگر انہیں مجبوراً شامل ہونا ہی پڑے تو پھر اپنے ہاتھ روکے رکھیں یعنی عملاً لڑائی میں شامل نہ ہوں۔ اور اگر یہ تینوں باتیں نہ پائی جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی نیت میں فتور ہے اور وہ امن پسندی کی آڑ میں دھوکہ دے کر مسلمانوں سے انتقام لینا چاہتے ہیں لہذا ایسے منافقوں کا علاج یہ ہے کہ جب بھی موقع ملے سب سے پہلے انہیں قتل کر کے ختم کرو۔ دوسرے کافروں سے جنگ بعد میں کرو۔
سَتَجِدُوْنَ اٰخَرِيْنَ ۔۔۔۔۔ اس آیت کریمہ میں ایک تیسری قسم کے لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے، جو بہت ہی بد ترین قسم کے منافق ہیں، جو ڈھنڈورا تو اپنی امن پسندی کا پیٹتے ہیں مگر جب داؤ لگ جائے تو اسلام دشمنی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ ان کا امن پسندی کا دعویٰ سچا ہونے کی تین ہی صورتیں ممکن ہیں، ایک یہ کہ مسلمانوں سے صلح کرلیں، دوسرے یہ کہ لشکر کفار میں شامل نہ ہوں اور تیسرے یہ کہ اگر انھیں مجبوراً شامل ہونا ہی پڑے تو پھر اپنے ہاتھ روکے رکھیں، یعنی عملاً لڑائی میں شامل نہ ہوں۔ جیسا کہ جنگ بدر میں عباس (رض) کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ انھیں قتل نہ کیا جائے کیونکہ وہ مجبور کر کے لائے گئے ہیں۔ اگر یہ تینوں باتیں نہ پائی جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کی نیتوں میں فتور ہے اور وہ امن پسندی کی آڑ میں دھوکا دے کر مسلمانوں سے انتقام لینا چاہتے ہیں، لہٰذا ایسے منافقوں کا علاج یہ ہے کہ انھیں پکڑو اور جہاں ملیں قتل کر دو ۔
سَتَجِدُوْنَ اٰخَرِيْنَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّاْمَنُوْكُمْ وَيَاْمَنُوْا قَوْمَھُمْ ٠ۭ كُلَّمَا رُدُّوْٓا اِلَى الْفِتْنَۃِ اُرْكِسُوْا فِيْھَا ٠ۚ فَاِنْ لَّمْ يَعْتَزِلُوْكُمْ وَيُلْقُوْٓا اِلَيْكُمُ السَّلَمَ وَيَكُفُّوْٓا اَيْدِيَھُمْ فَخُذُوْھُمْ وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ ٠ۭ وَاُولٰۗىِٕكُمْ جَعَلْنَا لَكُمْ عَلَيْہِمْ سُلْطٰنًا مُّبِيْنًا ٩١ۧ- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - أمن - أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، - ( ا م ن ) الامن ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - ركس - الرَّكْسُ : قَلْبُ الشیء علی رأسه، وردّ أوّله إلى آخره . يقال : أَرْكَسْتُهُ فَرُكِسَ وارْتَكَسَ في أمره، قال تعالی: وَاللَّهُ أَرْكَسَهُمْ بِما كَسَبُوا[ النساء 88] ، أي : ردّهم إلى كفرهم .- ( ر ک س ) الرکس کے معنی کسی چیز کو اس کے سر پر الٹا کردینا اس کے اول سرے کو موڑ کر پچھلے سرے کے ساتھ ملا دینا کے ہیں محاورہ : ۔ ارکستہ میں نے اسے الٹا کردیا اور رکس اس کا مطاوع آتا ہے ۔ اور ارتکس فی امرہ کے معنی کسی معاملہ میں الجھ جانے کے ہیں ( یعنی کسی مصیبت سے رہائی کے بعد اس میں پھنس جانا ) قرآن میں ہے : ۔ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُمْ بِما كَسَبُوا[ النساء 88] حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر کفر میں پلٹا دیا ہے - عزل - الاعْتِزَالُ : تجنّب الشیء عمالة کانت أو براءة، أو غيرهما، بالبدن کان ذلک أو بالقلب، يقال : عَزَلْتُهُ ، واعْتَزَلْتُهُ ، وتَعَزَّلْتُهُ فَاعْتَزَلَ. قال تعالی: وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَما يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ الكهف 16] - ( ع ز ل ) الا عتزال - کے معنی ہیں کسی چیز سے کنارہ کش ہوجانا عام اس سے کہ وہ چیز کوئی پیشہ ہو یا کوئی بات وغیرہ ہو جس سے بری ہونے کا اعلان کیا جائے نیز وہ علیحدہ گی بذریعہ بدن کے ہو یا بذریعہ دل کے دنوں قسم کی علیحگی پر بولا جاتا ہے عزلتہ واعتزلتہ وتعزلتہ میں نے اس کو علیحہ فاعتزل چناچہ وہ علیحہ ہ ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَما يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ الكهف 16] اور جب تم نے ان مشرکوں سے اور جن کی یہ خدا کے سوا عبادت کرتے ہیں ان سے کنارہ کرلیا ۔ - لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- حيث - حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة 149] .- ( ح ی ث ) حیث - ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] اور تم جہاں ہوا کرو - ثقف - الثَّقْفُ : الحذق في إدراک الشیء وفعله، ومنه قيل : رجل ثَقِفٌ ، أي : حاذق في إدراک الشیء وفعله، ومنه استعیر : المُثَاقَفَة ورمح مُثَقَّف، أي : مقوّم، وما يُثَقَّفُ به : الثِّقَاف، ويقال : ثَقِفْتُ كذا : إذا أدركته ببصرک لحذق في النظر، ثم يتجوّز به فيستعمل في الإدراک وإن لم تکن معه ثِقَافَة . قال اللہ تعالی: وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ [ البقرة 191] ، وقال عزّ وجل : فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ [ الأنفال 57] ، وقال عزّ وجل : مَلْعُونِينَ أَيْنَما ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا [ الأحزاب 61] .- ( ث ق ف ) الثقف ( س ک ) کے معنی ہیں کسی چیز کے پالینے یا کسی کام کے کرنے میں حذا وقت اور مہارت سی کام لینا ۔ اسی سے المثاقفۃ کا لفظ مستعار ہے ( جس کے معنی ہتھیاروں کے ساتھ باہم کھیلنے کے ہیں اور سیدھے نیزے کو رمح مثقف کہا جاتا ہو ۔ اور الثقاف اس آلہ کو کہتے ہیں جس سے نیزوں کو سیدھا کیا جاتا ہے ثقفت کذا کے اصل معنی مہارت نظر سے کسی چیز کا نگاہ سے اور اک کرلینا کے ہیں ۔ پھر مجاذا محض کسی چیز کے پالینے پر بولا جاتا ہے خواہ اسکے ساتھ نگاہ کی مہارت شامل ہو یا نہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ [ البقرة 191] اور ان کو جہان پاؤ قتل کردو ۔ فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ [ الأنفال 57] اگر تم ان کو لڑائی میں پاؤ ۔ مَلْعُونِينَ أَيْنَما ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا [ الأحزاب 61] . پھٹکارے ہوئے جہاں پائے گئے پکڑے گئے ۔ اور جان سے مار ڈالے گئے ۔- سلط - السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] ،- ( س ل ط ) السلاطۃ - اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔- مبین بَيَان - والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : - البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] .- وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] .- البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔
قول باری ہے (ستجدون اخرین یریدون ان یامنوکم ویامنواقومھم، ایک اور قسم کے لوگ تمہیں ملیں گے جو چاہتے ہیں کہ تم سے بھی امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی۔- مجاہد کا قول ہے یہ آیت مکہ کے کچھ لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جب یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے تو مسلمان ہوجاتے اور پھر قریش کے پاس واپس جاکربتوں کے سامنے جھک جاتے ، اس سے ان کا مقصد یہ ہوتا کہ یہاں بھی امن میں رہیں اور وہاں بھی ، مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا اگر یہ اس رویے سے کنارہ کشی اختیار نہ کریں اور اپنی اصلاح نہ کرلیں۔- اسباط نے سدی سے ذکر کیا کہ یہ آیت نعیم بن مسعود اشجعی کے بارے میں نازل ہوئی وہ مسلمانوں اور مشرکین دونوں کے اندر امن میں رہتا اورادھر کی باتیں ادھر اورادھر کی باتیں ادھر پہنچاتا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- ظاہر آیت اس پر دلالت کرتی ہے یہ لوگ جب حضور کے پاس آتے تو ایمان کا اظہار کرتے اور جب اپنی قوم میں واپس جاتے تو کفر کا اظہار کرتے کیونکہ قول باری ، مگر جب کبھی فتنہ کا موقع پائیں گے اس میں کود پڑیں گے ) فتنہ سے یہاں مراد شرک ہے اور قول باری (ارکسوافیھا) اس پر دلالت کرتا ہے یہ لوگ اس سے پہلے اسلام کا اظہار کرتے تھے۔- اللہ نے اہل ایمان کو ان لوگوں سے بھی ہاتھ روک لینے کا حکم دیاجب یہ مسلمانوں سے الگ تھلگ رہ کر ان کی طرف صلح وآشنی کا ہاتھ بڑھائیں جس طرح اللہ نے ہمیں ان لوگوں پر بھی ہاتھ اٹھانے سے روک دیاجوایسی قوم سے جاملیں جن کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہوا اور ان لوگوں سے بھی جو لڑائی سے دل برداشتہ ہوکر ہمارے پاس آجائیں۔- جس طرح اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں فرمایا، (لاینھاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم۔ اللہ تعالیٰ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا۔- نیز ارشاد ہوا (وقاتلوافی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم۔ اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں) اللہ نے صرف ان لوگوں کے خلاف جنگ کرنے کے حکم کو مخصوص کردیاجو ہمارے خلاف جنگ کرتے ہیں ان لوگوں کے خلاف نہیں جو ہمارے خلاف جنگ نہیں کرتے۔- پھر اس حکم کو اپنے اس قول (اقتلوالمشرکین حیث وجدتموھم، مشرکین کو جہاں کہیں بھی پاؤ قتل کرو) سے منسوخ کردیا، جیسا کہ ہم نے حضرت ابن عباس سے اس روایت کا پہلے ذکر کیا ہے۔- بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ آیات منسوخ نہیں ہوئیں اور مسلمانوں کے لیے یہ جائز ہے کہ جو کفار ان کے خلاف جنگ نہ کریں وہ بھی ان کے خلاف ہتھیارنہ اٹھائیں کیونکہ جو لوگ ہم سے الگ تھلگ رہ کر ہمارے خلاف جنگ کرنے سے باز رہیں ان کے خلاف ان آیات میں جنگ کرنے کی نہی کے حکم کے منسوخ ہونے کی بات ثابت نہیں ہوتی۔- جن لوگوں سے جہاد کی فرضیت کے حکم کے باقی نہ رہنے کی روایت منقول ہے ۔ ان میں ابن شبرمہ اور سفیان ثوری شامل ہیں، اس بحث پر ہم اس کے مقام پر پہنچ کر انشاء للہ۔ روشنی ڈالیں، یہاں تو صرف اتنی بات ہے کہ ان آیات میں ان کافروں کے خلاف جنگ کرنی کی ممانعت ہے جو ہمارے خلاف جنگ کرنے سے باز رہیں۔- ہمیں فقہاء میں سے کسی کے متعلق، یہ معلوم نہیں کہ وہ ان مشرکین کے خلاف جنگ کی ممانعت کے قائل ہوں جو ہمارے خلاف جنگ کرنے سے کنارہ کش ہوں۔ اختلاف صرف ان کے خلاف ترک قتال کے جواز کے اندر ہے ممانعت کے اندر نہیں۔- اس لیے سب کا اس پر اتفاق ہوگیا ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف قتال کی ممانعت منسوخ ہوچکی ہے جن کی خصوصیات کا ہم نے اوپرذکر کیا ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب۔
(٩١) اور قوم ہلال، غطفان اور اسد کے علاوہ ایسے بھی لوگ ہیں کہ وہ تم سے بھی تمہارے حامی بن کر جان ومال کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اور اپنی قوم سے بھی کفر کا اظہار کرتے ہیں مگر جب ان لوگوں کو شرک اور کسی شرارت کی طرف بلایا جاتا ہے تو فورا اس میں شریک ہوجاتے ہیں۔- سو اگر یہ لوگ فتح مکہ کے دن تم سے نہ کنارہ کش ہوں اور نہ صلح کو باقی رکھیں اور نہ تمہارے قتال سے اپنے ہاتھوں کو روکیں، تو ان کو حل وحرم ہر جگہ قید کرو اور قتل کر دو اور ایسے لوگوں کے قتل کے لیے ہم نے تمہیں واضح حجت دی ہے۔ (حدود حرم کے اندر کی جگہ کو بھی حرم کہتے ہیں، یہاں بہت سے جائز و حلال امور بھی حرام ہوجاتے ہیں جو باہر حلال ہیں، سو مراد ہے کہ یہ فتنہ گر لوگ حدود حرم کے اندر ہوں یا باہر ان کے ساتھ سختی کا معاملہ روا رکھو) ۔ (مترجم )
آیت ٥٨ (سَتَجِدُوْنَ اٰخَرِیْنَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّاْمَنُوْکُمْ وَیَاْمَنُوْا قَوْمَہُمْ ط) (کُلَّمَا رُدُّوْآ اِلَی الْفِتْنَۃِ اُرْکِسُوْا فِیْہَاج ) - جب بھی آزمائش کا وقت آتا ہے تو اس میں اوندھے منہ گرتے ہیں۔ جب دیکھتے ہیں کہ اپنی قوم کا پلڑا بھاری ہے تو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں کہ اب تو ہماری فتح ہونے والی ہے اور ہمیں مال غنیمت میں سے حصہ مل جائے گا۔- (فَاِنْ لَّمْ یَعْتَزِلُوْکُمْ وَیُلْقُوْآ اِلَیْکُمُ السَّلَمَ وَیَکُفُّوْآ اَیْدِیَہُمْ ) (فَخُذُوْہُمْ وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْہُمْ ط) ( وَاُولٰٓءِکُمْ جَعَلْنَا لَکُمْ عَلَیْہِمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا ) ۔- ایسے لوگوں کے معاملے میں ہم نے تمہیں کھلا اختیار دے دیا ہے کہ تم ان کے خلاف اقدام کرسکتے ہو۔
55: اوپر کی آیت میں تیسری قسم کے لوگوں کا ذکر تھا جو واقعۃ جنگ سے بیزار تھے اور مسلمانوں سے لڑنا نہیں چاہتے تھے، اس آیت میں منافقین کی چوتھی قسم کا ذکر ہے جو جنگ سے بیزار ہونے کے معاملہ میں بھی منافقت سے کام لیتے تھے، ظاہر تو یہ کرتے تھے کہ ہم مسلمانوں سے جنگ نہیں چاہتے ؛ لیکن یہ جھوٹا اعلان صرف اس لئے تھا تاکہ مسلمان انہیں قتل کرنے سے بازر ہیں ؛ چنانچہ جب دوسرے کفار انہیں مسلمانوں کے خلاف کسی سازش کی دعوت دیتے تو یہ اس سازش میں بےدھڑک شریک ہوجاتے تھے۔