90۔ 1 یعنی جن سے لڑنے کا علم دیا جا رہا ہے۔ اس سے دو قسم کے لوگ مستثنٰی ہیں۔ ایک وہ لوگ جو ایسی قوم سے ربط وتعلق رکھتے ہیں۔ یعنی ایسی قوم کے فرد ہیں یا اس کی پناہ میں ہیں جس قوم سے تمہارا معاہدہ ہے۔ دوسرے وہ جو تمہارے پاس اس حال میں آتے ہیں کہ ان کے سینے اس بات سے تنگ ہیں کہ وہ اپنی قوم سے مل کر تم سے یا تم سے مل کر اپنی قوم سے جنگ کریں یعنی تمہاری حمایت میں لڑنا پسند کرتے ہیں نہ تمہاری مخالفت میں۔ 90۔ 2 یعنی یہ اللہ کا احسان ہے کہ ان کو لڑائی سے الگ کردیا ورنہ اگر اللہ تعالیٰ ان کے دل میں بھی اپنی قوم کی حمایت میں لڑنے کا خیال پیدا کردیتا تو یقینا وہ بھی تم سے لڑتے۔ اس لئے اگر واقعی یہ لوگ جنگ سے کنارہ کش رہیں تو تم بھی ان کے خلاف کوئی اقدام مت کرو۔ 90۔ 3 کنارہ کش رہیں، نہ لڑیں، تمہاری جانب صلح کا پیغام ڈالیں، سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔ تاکید اور وضاحت کے لئے تین الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ تاکہ مسلمان ان کے بارے میں محتاط رہیں کیونکہ جو جنگ و قتال سے پہلے ہی علیحدہ ہیں اور ان کی یہ علیحدگی مسلمانوں کے مفاد میں بھی ہے، اسی لئے اس کو اللہ تعالیٰ نے بطور احسان کے ذکر کیا ہے۔ اس لئے جب وہ مزکورہ حال پر قائم رہیں ان سے مت لڑو اس کی مثال وہ جماعت بھی ہے جس کا تعلق بنی ہاشم سے تھا، یہ جنگ بدر والے دن مشریکین مکہ کے ساتھ میدان جنگ میں تو آئے تھے، لیکن یہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑنا پسند نہیں کرتے تھے، جیسے حضرت عباس (رض) عم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وغیرہ جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، اسی لیے ظاہر طور پر کافروں کے کیمپ میں تھے۔ اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عباس (رض) کو قتل کرنے سے روک دیا اور انہیں صرف قیدی بنانے پر اکتفا کیا۔ سلم یہاں مسالمۃ یعنی صلح کے معنی میں ہے
[١٢٣] کن لوگوں سے جنگ جائز نہیں :۔ البتہ اس حکم قتل سے دو قسم کے لوگ مستثنیٰ ہیں۔ ایک وہ لوگ جو کسی ایسی قوم میں چلے جائیں جن سے تمہارا معاہدہ ہوچکا ہے کہ وہ اتنی مدت تک مسلمانوں سے جنگ نہ کریں گے تو ان کا تعاقب نہیں کیا جائے گا (جیسا کہ صلح حدیبیہ کے دوران کفار مکہ سے معاہدہ ہوا تھا) یا ایسے منافق بھی مستثنیٰ ہیں جو فی الحقیقت غیر جانبدار رہنا چاہتے ہیں۔ نہ وہ اپنی قوم سے تمہارے ساتھ مل کر لڑنا چاہتے ہیں اور نہ ان کے ساتھ مل کر تم سے لڑنا چاہتے ہیں۔ خواہ وہ اپنی قوم کے ساتھ مل کر آ ہی گئے ہوں۔ مگر مسلمانوں کے خلاف لڑنے سے دل میں تنگی محسوس کر رہے ہوں جیسے میدان بدر میں مشرکین کے ساتھ سیدنا عباس (رض) اور بنی ہاشم کے کئی لوگ آ تو گئے تھے مگر لڑائی کے وقت علیحدہ رہے۔- [١٢٥] یعنی اگر ایسے لوگ مسلمانوں کے ساتھ لڑنے سے دل برداشتہ نہ ہوتے اور کفار کا ساتھ دے کر ان کی قوت بڑھاتے تو ممکن ہے یہی لوگ تم پر غالب آجاتے۔ لہذا جو منافقین یا دوسرے لوگ امن پسند ہیں لڑائی سے گریز کرتے ہیں۔ تمہاری راہ میں حائل بھی نہیں ہوتے یا صلح کرنے پر آمادہ ہیں تو ایسے لوگوں سے تمہیں تعرض نہ کرنا چاہیے۔
اِلَّا الَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ اِلٰى قَوْمٍۢ منافقین کے سلسلے میں جو اوپر حکم بیان ہوا اس سے دو قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مستثنیٰ کردیا اور فرمایا کہ انھیں نہ قید کرو اور نہ ان سے قتال ( لڑائی) کرو۔ ایک تو وہ منافقین جو کسی ایسی قوم کے پاس جا کر پناہ لے لیں یا حلیف بن جائیں جن کے ساتھ مسلمانوں کا صلح اور امن کا معاہدہ ہو تو وہ انھی کے حکم میں ہوجائیں گے، ورنہ عہد ٹوٹ جائے گا اور جنگ چھڑ جائے گی اور دوسرے وہ لوگ جو اپنی صلح جوئی کی وجہ سے نہ مسلمانوں سے جنگ کرنا چاہتے ہیں اور نہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر اپنی قوم سے جنگ کرنا چاہتے ہیں۔
اِلَّا الَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ اِلٰى قَوْمٍؚبَيْنَكُمْ وَبَيْنَھُمْ مِّيْثَاقٌ اَوْ جَاۗءُوْكُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُھُمْ اَنْ يُّقَاتِلُوْكُمْ اَوْ يُقَاتِلُوْا قَوْمَھُمْ ٠ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَسَلَّطَھُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقٰتَلُوْكُمْ ٠ۚ فَاِنِ اعْتَزَلُوْكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ وَاَلْقَوْا اِلَيْكُمُ السَّلَمَ ٠ۙ فَمَا جَعَلَ اللہُ لَكُمْ عَلَيْہِمْ سَبِيْلًا ٩٠- وصل - الِاتِّصَالُ : اتّحادُ الأشياء بعضها ببعض کاتّحاد طرفي الدائرة، ويضادّ الانفصال، ويستعمل الوَصْلُ في الأعيان، وفي المعاني .- يقال : وَصَلْتُ فلاناً. قال اللہ تعالی: وَيَقْطَعُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ [ البقرة 27]- ( و ص ل ) الا تصال - کے معنی اشیاء کے باہم اس طرح متحد ہوجانے کے ہیں جس طرح کہ قطرہ دائرہ کی دونوں طرفین ملی ہوئی ہوتی ہیں اس کی ضد انفعال آتی ہے اور وصل کے معنی ملائے کے ہیں اور یہ اسم اور معنی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے چناچہ وصلت فلانا صلہ رحمی کے معنی میں آتا ہے قرآن میں ہے وَيَقْطَعُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ [ البقرة 27] اور جس چیز ( یعنی رشتہ قرابت ) کے جوڑے رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے اسی کو قطع کئے ڈالتے ہیں - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - وثق - وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] - والمِيثاقُ :- عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] - والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] - ( و ث ق )- وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔- حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔- المیثاق - کے منی پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔- الموثق - ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔- حصر - الحَصْر : التضييق، قال عزّ وجلّ : وَاحْصُرُوهُمْ [ التوبة 5] ، أي : ضيقوا عليهم، وقال عزّ وجل : وَجَعَلْنا جَهَنَّمَ لِلْكافِرِينَ حَصِيراً [ الإسراء 8] ، أي : حابسا . قال الحسن : معناه : مهادا «5» ، كأنه جعله الحصیر المرمول کقوله : لَهُمْ مِنْ جَهَنَّمَ مِهادٌ [ الأعراف 41] - ( ح ص ر ) الحصر - ( ن ) کے معنی تضییق یعنی تنگ کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا :۔ اور گھیر لو یعنی انہیں تنگ کرو ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ وَجَعَلْنا جَهَنَّمَ لِلْكافِرِينَ حَصِيراً [ الإسراء 8] اور ہم نے جہنم کو کافروں کیلئے قید خانہ بنا رکھا ہے ۔ میں حصیر کے معنی روکنے والا کے ہیں ۔ حسن نے کہا ہے کہ حصیر کے معنی مھاد یعنی بچھونے کے ہیں گویا ان کے نزدیک اس سے حصیر مرموں یعنی چنائی مراد ہے اور چٹائی کو حصیر اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے ریشے ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں ۔ - صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] - ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] - ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے - ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ - ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ - سلط - السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] ،- ( س ل ط ) السلاطۃ - اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔- عزل - الاعْتِزَالُ : تجنّب الشیء عمالة کانت أو براءة، أو غيرهما، بالبدن کان ذلک أو بالقلب، يقال : عَزَلْتُهُ ، واعْتَزَلْتُهُ ، وتَعَزَّلْتُهُ فَاعْتَزَلَ. قال تعالی: وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَما يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ الكهف 16] - ( ع ز ل ) الا عتزال - کے معنی ہیں کسی چیز سے کنارہ کش ہوجانا عام اس سے کہ وہ چیز کوئی پیشہ ہو یا کوئی بات وغیرہ ہو جس سے بری ہونے کا اعلان کیا جائے نیز وہ علیحدہ گی بذریعہ بدن کے ہو یا بذریعہ دل کے دنوں قسم کی علیحگی پر بولا جاتا ہے عزلتہ واعتزلتہ وتعزلتہ میں نے اس کو علیحہ فاعتزل چناچہ وہ علیحہ ہ ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَما يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ الكهف 16] اور جب تم نے ان مشرکوں سے اور جن کی یہ خدا کے سوا عبادت کرتے ہیں ان سے کنارہ کرلیا ۔ - سِّلْمُ صلح - والسَّلَامُ والسِّلْمُ والسَّلَمُ : الصّلح قال : وَلا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقى إِلَيْكُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِناً [ النساء 94] ، وقیل : نزلت فيمن قتل بعد إقراره بالإسلام ومطالبته بالصّلح وقوله تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] ، وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ [ الأنفال 61] ، وقرئ لِلسَّلْمِ بالفتح، وقرئ : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ وقال : يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سالِمُونَ [ القلم 43] ، أي : مُسْتَسْلِمُونَ ، وقوله : ورجلا سالما لرجل وقرئ سلما و ( سَلَماً ) وهما مصدران، ولیسا بوصفین کحسن ونکد . يقول : سَلِمَ سَلَماً وسِلْماً ، وربح ربحا وربحا . وقیل : السِّلْمُ اسم بإزاء حرب،- السلام والسلم والسلم کے معنی صلح کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَلا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقى إِلَيْكُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِناً«1» [ النساء 94] جو شخص تم سے سلام علیک کہے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت اس شخص کے حق میں نازل ہوئی ہے جسے باوجود اظہار اسلام اور طلب صلح کے قتل کردیا گیا تھا اور فرمایا : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] مؤمنوں اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ ۔ وَإِنْ جَنَحُوا لِلسِّلْمِ [ الأنفال 61] اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں ۔ اس میں ایک قرآت سلم ( بفتحہ سین ) بھی ہے ۔ وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ «4»اور اس دن خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سالِمُونَ [ القلم 43] ( اس وقت ) سجدے کے لئے بلائے جاتے تھے ۔ جب صحیح وسالم تھے ۔ اور آیت کریمہ :۔ ورجلا سالما لرجل «5»اور ایک آدمی خاص ایک شخص کا ( غلام ) ہے ۔ میں ایک قراءت سلما وسلم ا بھی ہے اور یہ دونوں مصدر ہیں اور حسن و نکد کی طرح صفت کے صیغے نہیں ہیں کہا جاتا ہے ۔ سلم سلما و سلما جیسے ربح ربحا و ربحا اور بعض نے کہا ہے کہ سلم اسم ہے اور اس کی ضد حرب ہے ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔
قول باری ہے (الاالذین یصلون الی قوم بینکم وبینھم میثاق ، البتہ وہ منافق اس حکم سے مستثنی ہیں جو کسی ایسی قوم سے جاملیں جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے) ۔- ابوعبید کا قول ہے کہ (یصلون ) کے معنی ہیں ، ینتسبون الیھم، ان کی طرف نسبت بیان کرتے ہوں) جیسا کہ اعشی کا شعر ہے۔- اذاتصلت قالت ابوبکر بن وائل، وبکر سب تھا والانوف روغم۔- جب اپنی نسبت بیان کرتی ہے توبکر بن وائل قبیلے کا نام لیتی ہے ، حالانکہ اسی قبیلے نے اسے گرفتار کیا تھا، اور اس کے لوگوں کو ذلت سے دوچار ہوناپڑا۔ زید انجیل کا شعر ہے ۔ اذاتصلت تنادی یال قیس، وخصت بالدعاء بنی کلاب۔ جب اپنی نسبت بیان کرتی ہے توآل قیس کی دہائی دیتی ہے اور بنوکلاب کو خصوصیت کے ساتھ پکارتی ہے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں انتساب کبھی رشتہ داری کی بنا پر اور کبھی معاہدہ اور رولاء کی بنا پر، اس انتساب میں ایسے شخص کا داخل ہونا بھی درست ہے جو معاہدے میں شریک ہوگیا ہو۔ جیسا کہ حضور اور قریش کے درمیان صلح کے معاہدے کے اندر ہواتھا کہ بنوخزاعہ حضور کے ساتھ اور بنوکنانہ قریش کے ساتھ معاہدے میں داخ (رح) ہوگئے تھے ایک قول ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے۔- ہمیں جعفر بن محمد واسطی نے روایت بیان کی ، انہیں جعفر بن محمد الیمان ، نے انہیں ابوعبید نے ، انہیں حجاج نے ابن جریج اور عثمان بن عطاء خراسانی سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ قول باری (الاالذین یصلون الی قوم بینکم وبینھم میثاق) تاقول باری (فماجعل اللہ لکم علیھم سبیلا، لو اللہ نے تمہارے لیے ان پر دست درازی کی کوئی سبیل نہیں رکھی ہے) ۔- نیز قول باری (لاینھاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم وتقسطوا الیھم، اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا) پھر ان آیات کو قول باری (براء ۃ من اللہ ورسولہ الی الذین عاھدتم من المشرکین، اعلان برات ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے) تاقول باری (ونفصل الایات لقوم یعلمون ۔ اور ہم جاننے والوں کے لیے اپنے احکام واضح کیے دیتے ہیں) ۔- سدی کا قول ہے (الالذین یصلون الی قوم بینکم وبینھم میثاق) کا مفہوم ہے مگر وہ لوگ جو ایسی قوم میں جاکرداخل ہوجاتے ہیں کہ ان کے اور تمہارے درمیان امان کا معاہدہ ہوتا ہے اس صورت میں ان لوگوں کو بھی امان حاصل ہوجائے گی۔- حسن کا قول ہے یہ بنومدلج کے لوگ تھے ان کے اور قریش کے درمیان معاہدہ تھا، ادھر حضور اور قریش کے درمیان جب معاہدہ ہوگیا تو اللہ نے مسلمانوں کو بنومدلج کے سلسلے میں ان تمام باتوں سے روک دیا، جو قریش کے سلسلے میں منوع تھیں۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب اما المسلمین کسی کافر قوم کے ساتھ کوئی معاہدہ کرے گا تولامحالہ اس معاہدے میں وہ تمام لوگ از خود داخل ہوجائیں گے جو اس قوم کے علاقے میں ہوں گے اور اس کے ساتھ رشتہ داری یا معاہدہ یاولاء کی بناپر ان کی نسبت ہوگی اور ان کی طرف سے اسے مدد بھی دی جاتی ہوگی۔- لیکن جن لوگوں کا تعلق کسی دوسری قوم سے ہوگا تو وہ اس معاملے میں اس وقت تک داخل نہیں ہوں گے جب تک معاہدے میں اس کی شرط نہیں رکھی جائے گی، اگر معاہدے میں کسی اور قبیلے یا قوم کے داخلے کی شرط رکھی جائے تومعاہدہ طے پاجانے کے بعد وہ قبیلہ بھی اسی میں داخل شمار کیا جائے گا۔ جس طرح قریش کے معاہدے میں بنوکنانہ داخل ہوگئے تھے۔- جولوگ اس حکم کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں ان کی مراد یہ ہے کہ مشرکین سے معاہدہ اور صلح کی بات اب منسوخ ہوچکی ہے کیونکہ قول باری ہے (فاقتلوالمشرکین حیث وجدتموھم ، مشرکین کو جہاں کہیں پاؤ قتل کردو) اور بات بھی اس طرح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام اور اہل اسلام کو غلبہ عطا کردیا تھ اس لیے انہیں یہ حکم دیا گیا کہ مشرکین عرب سے اسلام یا تلوار کے سوا اور کوئی چیز قبول نہ کریں۔- قول باری ہے (قاتلوالذین لایومنون باللہ والیوم الاخر، ان لوگوں کے ساتھ قتل کروجو اللہ اور یوم آخر پر ایمان نہیں رکھتے) تاقول باری (حتی یعطوالجزیۃ عن یدوھم صاغرون یہاں تک وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں ) اور چھوٹے بن کررہیں) اس لیے امام کو یہ جائز نہیں ہوگا، کہ وہ دوسرے ادیان کے پیروکاروں کو جزیہ لیے بغیر کفر پر برقرار رہنے دے۔- جہاں تک مشرکین عرب کا تعلق ہے تو وہ صحابہ کرام کے کے زمانے تک مسلمان ہوچکے تھے اور جو مرتد ہوگئے تھے ان میں سے مسلمانوں کے ہاتھوں کچھ قتل ہوگئے تھے اور باقی ماندہ لوگ اسلام کی طرف لوٹ آئے تھے اہل کفر سے جزیہ کی شرط کے بغیر نیز مسلمانوں کی ذمہ داری کے تحت اس شرط کے ساتھ آئے بغیر کہ ان پر ہمارے احکامات کانفاذ ہوگا معاہدہ کرنے کے حکم کی منسوخی کے متعلق یہی درست توجیہ ہے۔- یہ حکم اس صورت حال کے بعد بھی باقی رہے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا کردیا تھا اور اہل اسلام کے ہاتھوں تمام مشرکین کو مغلوب کردیا تھا جس کی بنا پر مسلمانوں کو اب معاہدہ کرنے اور صلح کے لیے اقدام اٹھانے کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔- البتہ اگر کوئی ایسا وقت آپڑے کہ مسلمان کافروں کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہوجائیں یا کافروں کی طرف سے انہیں اپنی یا اپنے اہل وعیال کی جانوں کا خطرہ لاحق ہوجائے تو اس میں ان کے ساتھ صلح کرنے اور جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرنے کا اقدام جائز ہوگا بشرطیکہ انہیں اس سلسلے میں کافروں کو جزیہ وغیرہ کی صورت میں کچھ دینا نہ پڑے کیونکہ صلح اور معاہدہ کرنے کی ممانعت اس وجہ سے تھی کہ دشمن کے مقابلہ میں ان کا پلہ بھاری تھا اور انہیں غلبہ حاصل تھا۔- امن کا معاہدہ کرنے کی اباحت اسلام کے ابتدائی دور میں موجود تھی، اور درج بالا سبب کی بنا پر اس کی ممانعت ہوگئی تھی اس لیے جب یہ سبب باقی نہیں رہے گا اور دشمن سے ان کی جان ومال کو خطرہ لاحق ہوجائے گا تو اس صورت میں کافروں سے امن کا معاہدہ کرنے کے جواز کا حکم لوٹ آئے گا۔- اس حکم کی مثال ذوی الارحام کی بنا پر دوستی کے معاہدہ کے تحت تورات کے منسوخ ہوجائے کے حکم جیسی ہے جس کا ہم پہلے ذکر آئے ہیں کہ مرنے ولااگر کوئی پیچھے نہ چھوڑے تودوستی کے معاہدے کی بنا پر توارث کا حکم لوٹ آئے گا۔- قول باری ہے (او جاء وکم حصرت صدورھم ان یقاتلوا او یقاتلوا قومھم، اسی طرح وہ لوگ بھی مستثنی ہیں جو تمہارے پاس آتے ہیں اور لڑائی سے دل برداشتہ ہیں نہ تم سے لڑناچاہتے ہیں نہ اپنی قوم سے ) ۔- حسن اور سدی نے کہا : ان کا سینہ تمہارے خلاف جنگ کرنے سے تنگ ہوگیا تھا، حصر کے معنی تنگی کے ہیں اسی سے ، الحصر فی القراۃ (تلاوت کرتے کرتے رک جانا) ماخوذ ہے اس لیے کہ اس کے لیے تلاوت کے راستے تنگ ہوجاتے ہیں یعنی اسے معلوم نہیں ہوتا کہ آگے کیسے چلوں اور کہاں سے چلو۔ المحصور فی حبس، (قید خانے وغیرہ میں بند پڑا ہواشخص) بھی اسی سے بنا ہے۔- ابن ابی نجیح نے مجاہد سے روایت کی ہے ہلال بن عویمر اسلمی وہ شخص تھا جو لڑائی سے دلی برداشتہ ہوگیا تھا نہ مسلمانوں سے لڑناچاہتا تھا نہ اپنی قوم سے ، اس نے حضور سے معاہدہ کررکھا تھا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت اس پر دلالت کرتا ہے کہ جو لوگ لڑائی سے دل برداشتہ ہوگئے تھے وہ حضور سے دوستی کا معاہدہ کرنے والے مشرکین تھے ، وہ اپنی قوم کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے سے دل برداشتہ تھے کیونکہ حضور کے ساتھ ان کا معاہدہ تھا۔- دوسری طرف وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر اپنے عزیزوں اور ہم قبیلہ لوگوں کے خلاف تلوار اٹھانا بھی نہیں چاہتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ای سے لوگوں سے اپنے ہاتھ روک لینے کا حکم دیا جب یہ مشرکین سے الگ تھلگ رہیں اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک نہ ہوں خواہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر مشرکین کے خلاف جنگ نہ بھی کریں۔- بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ مسلمان لوگ تھے جو مشرکین کے خلاف ان کے ساتھ رشتہ داری کی بنا پر جنگ میں شریک ہونا پسند نہیں کرتے تھے لیکن ظاہر آیت اور اس کی تفسیر میں مروی اقوال اس تاویل کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ حضور کے زمانے میں مسلمانوں نے کبھی مسلمانوں کے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیا تھا، اور نہ ہی انہیں کبھی اپنے ہم عقیدہ لوگوں کے خلاف جنگ کرنے کا حکم ہی دیا گیا تھا البتہ یہ ہوا تھ ا کہ بعض دفعہ مسلمان مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگی کاروائیوں میں حصہ نہیں لے سکے تھے اور پیچھے رہ گئے تھے۔- قول باری ہے (ولو شاء اللہ لسلطھم علیکم فلقاتلوکم ، اللہ چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردیتا اور وہ بھی تم لڑتے) یعنی اگر تم ان کے خلاف جنگ کرتے اور تمہاری طرف سے ان پر ظلم ہوتا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ لوگ مسلمان نہیں تھے۔- قول باری ہے (فان اعتزلوکم فلم یقاتلوکم والقوا الیکم السلم فماجعل اللہ علیھم سبیلا۔ لہذا اگر وہ تم سے کنارہ کش ہوجائیں اور لڑنے سے باز رہیں اور تمہاری طرف صلح وآشتی کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ نے تمہارے لیے ان پر درست درازی کی کوئی سبیل نہیں رکھی ہے) ۔- یہ آیت اس بات کی مقتضی ہے کہ یہ لوگ مشرک تھے کیونکہ اہل اسلام کی یہ باتیں نہیں ہوسکتیں ، اس لیے یہ اس پر دلات کرتی ہے یہ لوگ مشترک تھے، ان کا حضور سے معاہدہ تھا، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا کہ اگر یہ لوگ مسلمانوں اور مشرکین کے خلاف جنگ کرنے سے کنارہ کش رہیں تو ان پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے نیز انہیں اپنی مشرک قوم کے خلاف جنگ کرنے پر مجبور بھی نہ کیا جائے۔- آیت میں تسلیط یعنی مسلط کردینے کا جو ذکر آیا ہے ، اس کی دوتوج ہیں ہیں ایک تو یہ کہ ان کے دلوں کو تقویت دی جاتی تاکہ وہ تم سے قتال کرتے ، دوسری یہ کہ اپنی مدافعت میں ان کے لیے قتال کی اباحت کردی جاتی۔
(٩٠) اور اگر وہ ایمان اور ہجرت سے اعراض کریں تو ہر حالت میں ان کو پکڑو اور قتل کرو اور ان کو کسی سطح پر بھی اپنی ساتھی اور مددگار مت بناؤ ،- مگر ان دس منافقین میں سے جو ہلال بن عویمر اسلمی کی قوم کے ساتھ جاملے ہیں کہ جن سے تمہارا عہد و صلح ہے یا ہلال بن عویمر کی قوم تمہارے پاس ایسی حالت میں آئے کہ ان کا دل عہد کی بنا پر تم سے اور اپنی قوم سے قرابت کی وجہ سے لڑنے پر آمادہ نہ ہو تو انکا معاملہ جدا ہے۔- اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو فتح مکہ کے دن ہلال بن عویمر کی قوم کو تم پر مسلط کردیتا اور وہ اپنی قوم کے ساتھ تم سے لڑتے اور اگر وہ تم سے دور رہیں اور فتح مکہ کے دن اپنی قوم کے ساتھ ہو کر تم سے نہ لڑیں اور تم سے صلح اور سلامتی رکھیں، تو پھر ایسی حالت میں ان کو قتل وقید کرنے کی کوئی اجازت نہیں۔- شان نزول : (آیت) ” الا الذین یصلون الی قوم “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) اور ابن مردویہ (رح) نے حسن (رض) سے روایت کیا ہے کہ سراقہ بن مالک مدلجی نے ان سے بیان کیا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بدر واحد کے کفار پر غلبہ حاصل ہوگیا اور اطراف کے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا، (سراقہ بیان کرتے ہیں) تو مجھے یہ اطلاع ملی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری قوم بنی مدلج کی طرف حضرت خالد بن ولید کو بھیج رہے ہیں اور میں اس حوالے سے بات کرنے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں آپ کو رب کی قسم دیتا ہوں مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آپ میری قوم کی طرف خالد (رض) کو روانہ کررہے ہیں اور میری مرضی یہ ہے کہ ابھی آپ ان کو رہنے دیں کیوں کہ اگر آپ کی قوم اسلام لے آئے گی تو وہ سب اسلام لے آئیں گے اور اسلام میں داخل ہوجائیں گے اور اگر انہوں نے اسلام قبول نہ کیا تو آپ کی قوم کا غلبہ ان کے اوپر سود مند نہ ہوگا، یہ سن کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد (رض) کا ہاتھ کر فرمایا سراقہ کے ساتھ جاؤ اور جو ان کی مرضی ہو ویسا کرو۔- چناچہ اسی صلحہ نامہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی، (آیت) ” الا الذین یصلون “۔ (الخ) ۔ مگر جو لوگ ایسے ہیں جو کہ ایسے لوگوں سے جاملتے ہیں الخ چناچہ جو شخص ان کے پاس چلا جاتا تھا وہ بھی ان کے عہد میں شریک ہوجاتا تھا۔- اور ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ہلال بن عویمر اسلمی (رح) ، سراقہ بن مالک مدلجی (رح) اور بنی جذیمہ بن عامر بن عبد مناف کے بارے میں نازل ہوئی ہے، نیز مجاہد سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ہلال بن عویمر اسلمی کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیوں کہ ان کے اور مسلمانوں کے درمیان عہد وصلح تھی اور ان کی قوم کے کچھ لوگوں نے اس عہد وصلح کے خلاف کرنا چاہا تھا تو انہوں نے اس بات کو اچھا نہیں سمجھا کہ اپنا عہد و پیمان توڑ کر مسلمانوں کے ساتھ قتال کیا جائے اور پھر جواب اسی طرح ان کی قوم کے ساتھ بھی قتال ہو۔
آیت ٩٠ (اِلاَّ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ اِلٰی قَوْمٍم بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ) - یعنی اس حکم سے صرف وہ منافقین مستثنیٰ ہیں جو کسی ایسے قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں جس کے ساتھ تمہارا صلح کا معاہدہ ہے۔ اس معاہدے سے انہیں بھی تحفظ حاصل ہوجائے گا۔ - (اَوْجَآءُ وْکُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُہُمْ ) (اَنْ یُّقَاتِلُوْکُمْ اَوْ یُقَاتِلُوْا قَوْمَہُمْ ط) - یعنی ان میں اتنی جرأت نہیں رہی کہ وہ تمہارے ساتھ ہو کر اپنی قوم کے خلاف لڑیں یا اپنی قوم کے ساتھ ہو کر تمہارے خلاف لڑیں۔ انسانی معاشرے میں ہر سطح کے لوگ ہر دور میں رہے ہیں اور ہر دور میں رہیں گے۔ لہٰذا واضح کیا جا رہا ہے کہ انقلابی جدوجہد کے دوران ہر طرح کے حالات آئیں گے اور ہر طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑے گا۔ اس طرح کے کم ہمت لوگ جو کہتے تھے بھئی ہمارے لیے لڑنا بھڑنامشکل ہے ‘ نہ تو ہم اپنی قوم کے ساتھ ہو کر مسلمانوں سے لڑیں گے اور نہ مسلمانوں کے ساتھ ہو کر اپنی قوم سے لڑیں گے ‘ ان کے بارے میں بھی فرمایا کہ ان کی بھی جان بخشی کرو۔ چناچہ ہجرت نہ کرنے والے منافقین کے بارے میں جو یہ حکم دیا گیا کہ (فَخُذُوْہُمْ وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْص) پس ان کو پکڑو اور قتل کرو جہاں کہیں بھی پاؤ اس سے دو استثناء بیان کردیے گئے۔- (وَلَوْ شَآء اللّٰہُ لَسَلَّطَہُمْ عَلَیْکُمْ فَلَقٰتَلُوْکُمْ ج) ۔- یہ بھی تو ہوسکتا تھا کہ اللہ انہیں تمہارے خلاف ہمت عطا کردیتا اور وہ تمہارے خلاف قتال کرتے۔- (فَاِنِ اعْتَزَلُوْکُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ ) (وَاَلْقَوْا اِلَیْکُمُ السَّلَمَ لا) (فَمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ عَلَیْہِمْ سَبِیْلاً ) - تو اس بات کو سمجھ لیجیے کہ جو منافق ہجرت نہیں کر رہے ‘ ان کے لیے قاعدہ یہ ہے کہ اب ان کے خلاف اقدام ہوگا ‘ انہیں جہاں بھی پاؤ پکڑو اور قتل کرو ‘ وہ حربی کافروں کے حکم میں ہیں۔ اِلاّ یہ کہ (ا) ان کے قبیلے سے تمہارا صلح کا معاہدہ ہے تو وہ ان کو تحفظ فراہم کر جائے گا۔ (ب) وہ آکر اگر یہ کہہ دیں کہ ہم بالکل غیر جانبدار ہوجاتے ہیں ‘ ہم میں جنگ کی ہمت نہیں ہے ‘ ہم نہ آپ کے ساتھ ہو کر اپنی قوم سے لڑ سکتے ہیں اور نہ ہی آپ کے خلاف اپنی قوم کی مدد کریں گے ‘ تب بھی انہیں چھوڑ دو ۔ اس کے بعد اب منافقین کے ایک تیسرے گروہ کی نشان دہی کی جا رہی ہے ۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :119 یہ استثناء اس حکم سے نہیں ہے کہ”انہیں دوست اور مددگار نہ بنایا جائے“ ، بلکہ اس حکم سے ہے کہ ”انہیں پکڑا اور مارا جائے“ ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ واجب القتل منافق کسی ایسی کافر قوم کے حدود میں جا پناہ لیں جس کے ساتھ اسلامی حکومت کا معاہدہ ہو چکا ہو ، تو اس کے علاقے میں ان کا تعاقب نہیں کیا جائے گا اور نہ یہی جائز ہوگا کہ دارالاسلام کا کوئی مسلمان غیر جانبدار ملک میں کسی واجب القتل منافق کو پائے اور اسے مار ڈالے ۔ احترام دراصل منافق کے خون کا نہیں بلکہ معاہدے کا ہے ۔
54: پچھلی آیت میں ایسے منافقین سے جنگ کرنے اور انہیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا تھا جن کا کفر ظاہر ہوچکا ہو، البتہ اس حکم سے دو قسم کے لوگ مستثنی کئے گئے ہیں، ایک وہ لوگ جو کسی ایسی غیر مسلم قوم کے ساتھ جاملے ہوں جن سے مسلمانوں نے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر رکھا ہو اور دوسرے وہ لوگ جو جنگ سے بالکل بیزار ہوں نہ مسلمانوں سے لڑنا چاہتے ہوں نہ اپنی قوم سے اور چونکہ ان کو اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر وہ مسلمانوں سے نہیں لڑیں گے تو خود ان کی قوم ان سے لڑے گی، اس لئے وہ مسلمانوں کے پاس آجاتے ہیں، ان کے بارے میں بھی مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان کے خلاف کاروائی نہ کریں، یہاں تک منافقین کی تین قسمیں ہوگئیں۔