مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا قتل ناقابل معافی جرم ہے ترمذوی وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ بنو سلیم کا ایک شخص بکریاں چراتا ہوا صحابہ کی ایک جمات کے پاس سے گذرا اور سلام کیا تو صحابہ آپس میں کہنے لگے یہ مسلمان تو ہے نہیں صرف اپنی جان بچانے کے لئے سلام کرتا ہے چنانچہ اسے قتل کر دیا اور بکریاں لے کر چلے آئے ، اس پر یہ آیت اتری ، یہ حدیث تو صحیح ہے لیکن بعض نے اس میں علتیں نکالی ہیں کہ سماک راوی کے سوائے اس طریقے کا اور کوئی مخرج ہی اس کا نہیں ، اور یہ کہ عکرمہ سے اس کے روایت کرنے کے بھی قائل ہے ، اور یہ کہ اس آیت کے شان نزول میں اور واقعات بھی مروی ہیں ، بعض کہتے ہیں محکم بن جثامہ کے بارے میں اتری ہے بعض کہتے ہیں اسامہ بن زید کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں ، لیکن میرے خیال میں یہ سب ناقابل تسلیم ہے سماک سے اسے بہت سے ائمہ کبار نے روایت کیا ہے ، عکرمہ سے صحیح دلیل لی گئی ہے ، یہی روایت دوسرے طریق سے حضرت ابن عباس سے صحیح بخاری میں مروی ہے ، سعید بن منصور میں یہی مروی ہے ، ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص کو اس کے والد اور اس کی قوم نے اپنے اسلام کی خبر پہنچانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ، راستے میں اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے ایک لشکر سے رات کے وقت ملاقات ہوئی اس نے ان سے کہا کہ میں مسلمان ہوں لیکن انہیں یقین نہ آیا اور اسے دشمن سمجھ کر قتل کر ڈالا ان کے والد کو جب یہ علم ہوا تو یہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ بیان کیا چنانچہ آپ نے انہیں ایک ہزار دینار دئیے اور دیت دی اور انہیں عزت کے ساتھ رخصت کیا ، اس پر یہ آیت اتری ، محکم بن جثامہ کا واقعہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک چھوٹا سا لشکر اخسم کی طرف بھیجا جب یہ لشکر بطل اخسم میں پہنچا تو عامر بن اضبط اشجعی اپنی سواری پر سوار مع اسباب کے آرہے تھے پاس پہنچ کر سلام کیا سب تو رک گئے لیکن محکم بن جثامہ نے آپس کی پرانی عداوت کی بنا پر اس پر جھپٹ کر حملہ کر دیا ، انہیں قتل کر ڈالا اور ان کا اسباب قبضہ میں کر لیا پھر ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور آپ یہ واقعہ بیان کیا اس پر یہ آیت اتری ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ عامر نے اسلامی طریقہ کے مطابق سلام کیا تھا لیکن جاہلیت کی پہلی عداوت کے باعث محکم نے اسے تیر مار کر مار ڈالا یہ خبر پا کر عامر کے لوگوں سے محکم بن جثامہ نے مصالحانہ گفتگو کی لیکن عینیہ نے کہا نہیں نہیں اللہ کی قسم جب تک اس کی عورتوں پر بھی وہی مصیبت نہ آئے جو میری عورتوں پر آئی ۔ چنانچہ محکم اپنی دونوں چادریں اوڑھے ہوئے آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے اس امید پر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے استغفار کریں لیکن آپ نے فرمایا اللہ تجھے معاف نہ کرے یہ یہاں سے سخت نادم شرمسار روتے ہوئے اُٹھے اپنی چادروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے سات روز بھی نہ گذرنے پائے تھے انتقال کر گئے ۔ لوگوں نے انہیں دفن کیا لیکن زمین نے ان کی نعش اگل دی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا تمہارے اس ساتھی سے نہایت بدتر لوگوں کو زمین سنبھال لیتی ہے لیکن اللہ کا ارادہ ہے کہ وہ تمہیں مسلمان کی حرمت دکھائے چنانچہ ان کے لاشے کو پہاڑ پر ڈال دیا گیا اور اُوپر سے پتھر رکھ دئے گئے اور یہ آیت نازل ہوئی ( ابن جریر ) صحیح بخاری شریف میں تعلیقاً مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مقداد سے فرمایا جبکہ انہوں نے قوم کفار کے ساتھ جو مسلمان مخفی ایمان والا تھا اسے قتل کر دیا تھا باوجودیکہ اس نے اپنے سلام کا اظہار کر دیا تھا کہ تم بھی مکہ میں اسی طرح ایمان چھپائے ہوئے تھے ۔ بزار میں یہ واقعہ پورا اس طرح مرودی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا تھا جس میں حضرت مقداد بھی تھے جب دشمنوں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ سب تو اِدھر اُدھر ہوگئے ہیں ایک شخص مالدار وہاں رہ گیا ہے اس نے انہیں دیکھتے ہی اشھد ان لا اللہ الا اللّٰہ کہا ۔ تاہم انہوں نے حملہ کر دیا اور اسے قتل کر ڈالا ، ایک شخص جس نے یہ واقعہ دیکھا تھا وہ سخت برہم ہوا اور کہنے لگا مقداد نے اسے قتل کر ڈالا جس نے کلمہ پڑھا تھا ؟ میں اس کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کروں گا ، جب یہ لشکر واپس پہنچا تو اس شخص نے یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا آپ نے حضرت مقداد کو بلوایا اور فرمایا تم نے یہ کیا کیا ؟ کل قیات کے دن تم لا الٰہ الا اللّٰہ کے سامنے کیا جواب دو گے؟ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور آپ نے فرمایا کہ اے مقداد وہ شخص مسلمان تھا جس طرح تو مکہ میں اپنے ایمان کو مخفی رکھتا تھا پھر تو نے اس کے اسلام ظاہر کرنے کے باوجود اسے مارا ؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس غنیمت کے لالچ میں تم غفلت برتتے ہو اور سلام کرنے والوں کے ایمان میں شک وشبہ کرکے انہیں قتل کر ڈالتے ہو یاد رکھو وہ غنیمت اللہ کی طرف سے ہے اس کے پاس بہت سے غنیمتیں ہیں جو وہ تمہیں حلال ذرائع سے دے گا اور وہ تمہارے لئے اس مال سے بہت بہتر ہوں گے ۔ تم بھی اپنا وہ وقت یاد کرو کہ تم بھی ایسے ہی لاچار تھے اپنے ضعف اور اپنی کمزوری کی وجہ سے ایمان ظاہر کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے تھے قوم میں چھپے لگے پھرتے تھے آج اللہ خالق کل نے تم پر احسان کیا تمہیں قوت دی اور تم کھلے بندوں اپنے اسلام کا اظہار کر رہے ہو ، تو جو بے اسباب اب تک دشمنوں کے پنجے میں پھنسے ہوئے ہیں اور ایمان کا اعلان کھلے طور پر نہیں کر سکے جب وہ اپنا ایمان ظاہر کریں تمہیں تسلیم کر لینا چاہئے اور آیت میں ہے ( وَاذْكُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِي الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَاَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهٖ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ) 8 ۔ الانفال:26 ) یاد کرو جبکہ تم کم تھے کمزور تھے ۔ الغرض ارشاد ہوتا ہے کہ جس طرح یہ بکری کا چرواہا اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا اسی طرح اس سے پہلے جبکہ بےسرو سامانی اور قلت کی حالت میں تم مشرکوں کے درمیان تھے ایمان چھپائے پھرتے تھے ، یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ تم بھی پہلے اسلام والے نہ تھے اللہ نے تم پر احسان کیا اور تمہیں اسلام نصیب فرمایا ، حضرت اسامہ نے قسم کھائی تھی کہ اس کے بعد بھی کسی لا الہ الا اللّٰہ کہنے والے کو قتل نہ کروں گا کیونکہ انہیں بھی اس بارے میں پوری سرزنش ہوئی تھی ۔ پھر تاکیداً دوبارہ فرمایا کہ بخوبی تحقیق کر لیا کرو ، پھر دھمکی دی جاتی ہے کہ اللہ جل شانہ کو اپنے اعمال سے غافل نہ سمجھو ، جو تم کر رہے ، وہ سب کی پوری طرح خبر رکھتا ہے ۔
94۔ 1 احادیث میں آتا ہے کہ بعض صحابہ کسی علاقے سے گزر رہے تھے جہاں ایک چرواہا بکریاں چرا رہا تھا، مسلمان کو دیکھ کر چروا ہے نے سلام کیا۔ بعض صحابہ نے سمجھا کہ شاید وہ جان بچانے کے لئے اپنے کو مسلمان ظاہر کر رہا ہے۔ چناچہ انہوں نے بغیر تحقیق کئے اسے قتل کر ڈالا اور بکریاں (بطور مال غنیمت) لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی، بعض روایات میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا کہ مکہ میں پہلے تم بھی چرواہے کی طرح ایمان چھپانے پر مجبور تھے، مطلب یہ تھا کہ قتل کا کوئی جواز نہیں تھا۔ 94۔ 2 یعنی تمہیں چند بکریاں اس مقتول سے حاصل ہوگیئں، یہ کچھ بھی نہیں، اللہ کے پاس اس سے کہیں زیادہ بہتر نعمتیں ہیں جو اللہ رسول کی اطاعت کی وجہ سے تمہیں دنیا میں مل سکتی ہیں اور آخرت میں تو ان کا ملنا یقینی ہے۔
[١٢٩] جنگ کے دوران قتل خطا : ابتدائے اسلام میں السلام علیکم کا لفظ مسلمانوں کے لیے شعار اور فریقین کے مسلمان ہونے کی علامت سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس دور میں عرب کے نو مسلموں اور کافروں کے درمیان لباس، زبان یا کسی دوسری چیز میں نمایاں امتیاز نہ تھا جس کی بنا پر ایک مسلمان سرسری طور پر دوسرے مسلمان کو پہچان سکتا ہو لیکن کافروں سے لڑائی کے دوران یہ پیچیدگی پیش آجاتی کہ جس قوم پر مسلمان حملہ آور ہوتے ان میں سے کوئی شخص السلام علیکم یا لا الہ الا اللہ کہنے لگتا جس سے مسلمانوں کو یہ مغالطہ ہوتا کہ وہ حقیقتاً مسلمان نہیں بلکہ محض اپنی جان بچانے کے لیے یہ کلمہ زبان سے ادا کر رہا ہے تو وہ اپنے اسی گمان کی بنا پر اسے قتل کردیتے اور اس کا مال لوٹ لیتے۔ چناچہ درج ذیل احادیث میں اسی قسم کے دو واقعات کا ذکر ہے :- ١۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص تھوڑی سی بکریاں لیے ہوئے مسلمانوں کو ملا اور السلام علیکم کہا۔ مسلمانوں نے اسے (بہانہ خور سمجھ کر) مار ڈالا۔ اور اس کی بکریاں لے لیں (اسامہ بن زید (رض) نے اسے قتل کیا) اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ (بخاری، کتاب التفسیر)- ٢۔ جنگ کے دوران کلمہ اسلام کہنے والے کافر کا قتل جرم عظیم ہے :۔ سیدنا اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم نے ہمیں حرقات (قبیلہ جہینہ) کی طرف بھیجا۔ ہم نے علی الصبح ان پر حملہ کیا اور انہیں شکست دی۔ اور میں اور ایک انصاری ان کے ایک آدمی سے ملے اور جب ہم نے اس پر قابو پا لیا تو اس نے لا الـٰہ الا اللہ کہا۔ اب انصاری تو اس سے رک گیا مگر میں نے نیزہ چلا دیا حتیٰ کہ وہ مرگیا۔ جب ہم واپس آئے تو یہ بات نبی اکرم کو پہنچی تو آپ نے مجھے کہا اسامہ کیا تو نے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد اسے قتل کیا ؟ میں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس نے پناہ چاہنے کے لیے یہ کہا تھا۔ آپ نے پھر فرمایا کیا تو نے اسے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کیا ؟ آپ یہ الفاظ کئی بار دہراتے رہے حتیٰ کہ میں نے خواہش کی کہ میں آج سے پہلے اسلام ہی نہ لایا ہوتا۔ (بخاری، کتاب الدیات۔ باب قول اللہ ومن احیاھا)- ٣۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ سیدنا خالد بن ولید (رض) نے (بنی ہدبہ کی جنگ میں) کافروں کو مارنا شروع کیا (حالانکہ وہ کہتے جاتے تھے کہ ہم نے دین بدلا ہم نے دین بدلا) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ حال سنا تو فرمایا یا اللہ میں خالد کے کام سے بیزار ہوں۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب اذا قالوا صبانا ولم یحسنوا اسلمنا) اور بعض روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعد میں ایسے مقتولوں کی دیت بھی بیت المال سے ادا کردی تھی۔- اور بعض دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے سیدنا اسامہ (رض) سے پوچھا کہ کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ وہ محض اپنی جان بچانے کی خاطر لا الہ الا اللہ کہہ رہا ہے۔ - ٤۔ مقداد بن اسود (رض) سے روایت ہے کہ میں نے آپ سے پوچھا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھلا دیکھیے اگر میں کسی کافر سے لڑائی کروں اور وہ مجھ سے لڑائی کرے اور اپنی تلوار سے میرا ایک ہاتھ کاٹ دے پھر مجھ سے بچ کر ایک درخت میں چلا جائے اور کہنے لگے میں اللہ کے لیے اسلام لایا تو اس کے یہ کہنے کے بعد میں اسے قتل کرسکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا اسے مت قتل کر۔ میں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس نے میرا ہاتھ کاٹنے کے بعد ایسا کہا تھا۔ پھر بھی میں اسے قتل نہ کروں ؟ آپ نے فرمایا : اسے مت قتل کر اگرچہ تجھے اس سے تکلیف پہنچی۔ ورنہ وہ اس مقام پر آجائے گا جو تیرے قتل کرنے سے پہلے تیرا مقام تھا (یعنی وہ ظالم تھا اور تم حق پر تھے) اور اگر تو نے کلمہ اسلام کہنے کے بعد اسے قتل کیا تو تم اس کے مقام پر آجاؤ گے (یعنی تم ظالم اور وہ مظلوم ہوگا) (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب تحریم قتل الکافر بعد قول لا الہ الا اللہ )- اس حدیث سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شریعت کے احکام ظاہر کے مطابق جاری ہوتے ہیں اور باطن کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔- چونکہ ایسا گمان شرعی نقطہ نظر سے غلط ہے لہذا اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے واقعہ کی پوری طرح چھان بین کا حکم دیا۔ تحقیق کے بغیر چھوڑ دینے میں اگر یہ امکان ہے کہ ایک کافر جھوٹ بول کر اپنی جان بچا لے تو قتل کرنے میں اس کا بھی امکان ہے کہ ایک بےگناہ مومن تمہارے ہاتھ سے مارا جائے اور تمہارا ایک کافر کو چھوڑ دینے میں غلطی کرنا اس سے بدرجہا بہتر ہے کہ تم ایک مومن کو قتل کرنے میں غلطی کرو۔ - واضح رہے کہ آیت نمبر ٩٢ میں اللہ تعالیٰ نے کسی مومن کے قتل خطا کے احوال و ظروف کے لحاظ سے تین صورتیں اور ان کے کفارے کا یوں بیان فرمایا :- ١۔ مسلمان مقتول مسلمانوں ہی میں موجود ہو۔ اس کا کفارہ مسلمان غلام آزاد کرنا ہے اور دیت بھی۔ غلام نہ ملنے کی صورت میں متواتر دو ماہ کے روزے۔- ٢۔ مسلمان مقتول جو غیر مسلموں میں رہتا ہو۔ اس کا کفارہ صرف مسلمان غلام آزاد کرنا یا متبادل صورت میں روزے رکھنا ہے اس کے وارثوں کو دیت نہیں دی جائے گی اس لیے کہ اس سے اسلام کے دشمنوں کو ہی فائدہ پہنچے گا۔- ٣۔ اور اگر مسلمان مقتول ایسے غیر مسلموں سے ہو جن کے درمیان معاہدہ امن ہوچکا ہو تو اس کا کفارہ وہی ہوگا جو نمبر (١) کی صورت میں ہے۔- اب دیکھئے ان تینوں صورتوں میں مسلمان غلام آزاد کرنا لازم قرار دیا گیا ہے وہ اس لیے کہ جس طرح اس نے بےاحتیاطی سے ایک مسلمان کو مار ڈالا ہے تو اس کے کفارہ میں مسلمان غلام آزاد کرنے کا مطلب یہ ہوا، کہ مسلمان غلام کو آزاد کردینا گویا ایک مسلمان کو زندہ کردینے کے مترادف ہے کیونکہ غلامی انسان کی صفت ملکیت اور آزادی کو، جسے اللہ نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے اور یہی اس کی زندگی کا مقتضٰی ہے، زائل کرتی ہے اور اس کفارہ میں نوع انسان پر احسان بھی ہے۔ دوسری قابل وضاحت بات یہ ہے کہ قتل کی کل پانچ قسمیں ہیں :- ١۔ قتل کی پانچ اقسام :۔ مسلمان کا قتل عمد۔ اس کی اخروی سزا یہاں مذکور ہوئی ہے اور دنیا میں اس کی سزا قصاص ہے یا اس کے متبادل دیت اور مقتول کے وارثوں کی طرف سے معافی وغیرہ جس کا ذکر سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٧٨، ١٧٩ کے حواشی نمبر ٢٢٢ تا ٢٢٥ میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔- ٢۔ قتل خطا جبکہ خطا سمجھنے میں ہو جیسے کسی کو کافر سمجھ کر مار ڈالے جس کا بیان اوپر گزر چکا ہے۔- ٣۔ قتل خطا جبکہ خطا فعل میں ہو جیسے گولی یا تیر مارا تو کسی شکار کو تھا اور وہ لگ جائے کسی مسلمان کو جس سے اس کی موت واقع ہوجائے۔- ٤۔ قتل خطا جبکہ خطا اتفاقاً واقع ہوجائے جیسے کوئی آدمی گاڑی کے نیچے آ کر مرجائے۔- ٥۔ قتل شبہ عمد۔ یعنی کسی شخص کی ایسی چیز سے موت واقع ہوجائے جس سے عموماً موت واقع نہ ہوتی ہو جیسے کسی کو مکا یا چھڑی ماری جائے جس سے وہ مرجائے۔- ان پانچ صورتوں میں پہلی صورت کے سوا باقی سب قتل خطا کے ضمن میں آتی ہیں اور ان میں قصاص نہیں دیت ہوتی ہے جو قاتل کے ان رشتہ داروں پر پڑتی ہے جو اس کے نفع و نقصان میں شریک ہوتے اور جنہیں عاقلہ کہتے ہیں اور دیت کی ادائیگی کی زیادہ سے زیادہ مدت تین سال تک ہے۔- [١٣٠] قتل اور دوسرے جرائم کی تحقیق ضروری ہے خواہ سفر ہو یا حضر :۔ اس آیت میں تحقیق کا حکم سفر کے ساتھ اس لیے متعلق کیا گیا ہے کہ ایسا واقعہ سفر جہاد میں ہوا تھا ورنہ تحقیق کا حکم حضر میں بھی ایسے ہی ہے جیسے سفر میں۔ تحقیق کے بغیر کسی السلام علیکم کہنے والے کو جلدی سے قتل کردینے کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کچھ لوٹ کا مال بھی ہاتھ لگ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہارے لیے بہت سے ایسے مواقع پیش آنے والے ہیں جن سے اموال غنیمت تمہیں بکثرت حاصل ہوں گے لہذا لوٹ مار کی ہوس کی بنا پر ایسے کام ہرگز نہ کرو۔ - [١٣١] ایک وقت وہ بھی تھا جب تم خود بھی کفار کے تشدد کی وجہ سے اپنے ایمان کو چھپایا کرتے تھے اور اپنا ایمان کسی دوسرے مسلمان پر صرف السلام علیکم کہہ کر ہی ظاہر کیا کرتے تھے اب اگر اللہ کی مہربانی سے تمہیں اسلامی ریاست میسر آگئی ہے اور تم اسلامی شعائر بجا لانے میں آزاد ہو تو کم از کم تمہیں ایسے لوگوں کا ضرور احساس کرنا چاہیے جو تمہارے والی ہی سابقہ منزل سے گزر رہے ہیں۔ لہذا ایسے موقع پر تحقیق انتہائی ضروری ہے۔
فَتَبَيَّنُوْا وَلَا تَقُوْلُوْا : ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص اپنی اپنی تھوڑی سے بکریوں کے پاس تھا، کچھ مسلمان وہاں سے گزرے، اس نے ” السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ “ کہا لیکن مسلمانوں نے اسے قتل کر ڈالا اور اس کی بکریاں لے لیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، جس میں ہے : ( تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۡ ) ” تم دنیا کا سامان چاہتے ہو ؟ “ اس سے مراد وہ تھوڑی سی بکریاں ہیں۔ [ بخاری، التفسیر، سورة النساء : ٤٥٩١ ] - فَتَبَيَّنُوْا : یہاں تبین یعنی تحقیق کرلینے کا حکم سفر کے ساتھ ذکر کیا ہے، مگر یہاں سفر کی قید بیان واقعہ کے لیے ہے، یعنی یہ حادثہ، جس سے متعلق آیت نازل ہوئی ہے، سفر میں پیش آیا تھا، ورنہ تحقیق کا حکم جس طرح سفر میں ہے اسی طرح حضر میں بھی ہے۔ (قرطبی) - كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ : یعنی یہی حالت پہلے تمہاری تھی، تم کافروں کے شہر میں رہتے تھے اور اپنے ایمان کو چھپاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے دین کو غالب کر کے تم پر احسان کیا۔ (قرطبی)
خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو جب تم اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد کے لئے) سفر کیا کرو تو ہر کام کو (قتل یا اور کچھ ہو) تحقیق کر کے کیا کرو اور ایسے شخص کو جو کہ تمہارے سامنے (علامات) اطاعت (کی) ظاہر کرے (جیسا کلمہ پڑھنا یا مسلمانوں کے طرز پر سلام کرنا) یوں مت کہہ دیا کرو کہ تو (دل سے) مسلمان نہیں (محض اپنی جان بچانے کو جھوٹ موٹ اظہار اسلام کرتا ہے) اس طور پر کہ تم دنیوی زندگی کے سامان کی خواہش کرتے ہو، کیونکہ خدا کے پاس (یعنی ان کے علم وقدرت میں تمہارے لئے) بہت غنیمت کے مال ہیں (جو تم کو جائز طریقوں سے ملیں گے اور یاد تو کرو کہ) پہلے (ایک زمانہ میں) تم بھی ایسے ہی تھے (کہ تمہارے اسلام کے قبول کا مدار صرف تمہارا دعوی و اظہار تھا) پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا (کہ اس ظاہری اسلام پر اکتفا کیا گیا اور باطنی جستجو پر موقوف نہ رکھا) سو (ذرا) غور (تو) کرو بیشک اللہ تمہارے اعمال کی پوری خبر رکھتے ہیں (کہ بعد اس حکم کے کون اس پر عمل کرتا ہے کون نہیں کرتا ثواب میں) برابر نہیں وہ مسلمان جو بلا کسی عذر کے گھر میں بیٹھے رہیں (یعنی جہاد میں نہ جاویں) اور وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے (یعنی مالوں کو خرچ کر کے اور جانوں کو حاضر کر کے) جہاد کریں (بلکہ) اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا درجہ بہت زیادہ بنایا ہے جو اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں بہ نسبت گھر میں بیٹھنے والوں کے اور (یوں بوجہ فرض عین نہ ہونے کے گناہ ان بیٹھنے والوں پر بھی نہیں بلکہ بوجہ ایمان اور دوسرے فرائض عین کے بجا لانے کے) سب سے (یعنی مجاہدین سے بھی قاعدین سے بھی) اللہ تعالیٰ نے اچھے گھر کا (یعنی جنت کا آخرت میں) وعدہ کر رکھا ہے اور (اوپر جو اجمالاً کہا گیا ہے کہ مجاہدین کا بڑا درجہ ہے اس کی تعیین یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے مجاہدین (مذکورین) کو بمقابلہ گھر میں بیٹھنے والوں کے لیے بڑا اجر عظیم دیا ہے، (وہ درجہ یہی اجر عظیم ہے اس اجمال کی تفصیل فرماتے ہیں) یعنی (بوجہ اعمال کثیرہ کے جو مجاہد سے صادر ہوتے ہیں ثواب کے) بہت سے درجے جو خدا کی طرف سے ملیں گے اور (گناہوں کی، مغفرت اور رحمت (یہ سب اجر عظیم کی تفصیل ہوئی) اور اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت والے بڑے رحمت والے ہیں۔- معارف ومسائل - ربط آیات :۔- پچھلی آیات میں قتل مومن پر سخت وعید فرمائی ہے، آگے یہ فرماتے ہیں کہ احکام شرعیہ کے جاری ہونے میں مومن کے مومن ہونے کے لئے صرف ظاہری اسلام کافی ہے، جو شخص اسلام کا اظہار کرے اس کے قتل سے ہاتھ روکنا واجب ہے اور محض شک و شبہ کی وجہ سے باطن کی تفتیش کرنا اور احکام اسلامیہ کے جاری کرنے میں اس کے یقینی ایمان کے ثبوت کا منظر رہنا جائز نہیں، جیسا بعض صحابہ سے بعض غزوات میں اس قسم کی لغزش واقع ہوئی کہ بعض لوگوں نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا، لیکن بعض حضرات صحابہ نے ان کی علامات اسلام کو کذب پر محمول کر کے قتل کر ڈالا اور مقتول کا مال غنیمت میں لے لیا، اللہ تعالیٰ نے اس کا انسداد فرمایا اور چونکہ اس وقت تک صحابہ کو یہ مسئلہ واضح طور پر معلوم نہ تھا اسلئے صرف فہمائش پر اکتفا کیا اور اس فعل پر ان کے لئے کوئی وعید نازل نہیں فرمائی (بیان القرآن)- مسلمان سمجھنے کے لئے علامات اسلام کافی ہیں باطن کی تفتیش کرنا جائز نہیں :۔ - مذکورہ تین آیتوں میں سے پہلی آیت میں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ جو شخص اپنا مسلمان ہونا ظاہر کرے تو کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ بغیر تحقیق کے اس کے قول کو نفاق پر محمول کرے، اس آیت کے نزول کا سبب کچھ ایسے واقعات ہیں جن میں بعض صحابہ کرام سے اس بارے میں لغزش ہوگئی تھی۔- چنانچہ ترمذی اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ قبیلہ بنو سلیم کا ایک آدمی صحابہ کرام کی ایک جماعت سے ملا جب کہ یہ حضرات جہاد کے لئے جا رہے تھے یہ آدمی اپنی بکریاں چرا رہا تھا، اس لئے حضرات صحابہ کو سلام کیا، جو عملاً اس چیز کا اظہار تھا کہ میں مسلمان ہوں، صحابہ کرام نے سمجھا کہ اس وقت اس نے محض اپنی جان و مال بچانے کے لئے یہ فریب کیا ہے کہ مسلمانوں کی طرح سلام کر کے ہم سے بچ نکلے، چناچہ انہوں نے اس کو قتل کردیا اور اس کی بکریوں کو مال غنیمت قرار دے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جو شخص آپ کو اسلامی طرز پر سلام کرے تو بغیر تحقیق کے یہ نہ سمجھو کہ اس نے فریب کی وجہ سے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا ہے اور اس کے مال کو مال غنیمت سمجھ کر حاصل نہ کرو۔ (ابن کثیر)- اور حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک دوسری روایت ہے جس کو بخاری نے مختصراً اور بزار نے مفصلاً نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دستہ مجاہدین کا بھیجا جن میں حضرت مقداد بن اسود بھی تھے، جب وہ موقع پر پہنچے تو سب لوگ بھاگ گئے، صرف ایک شخص رہ گیا جس کے پاس بہت مال تھا، اس نے صحابہ کرام کے سامنے کہا : اشھدان لا الہ الا اللہ، مگر حضرت مقداد نے یہ سمجھ کر کہ دل سے نہیں کہا بلکہ محض جان و مال بچانے کے لئے کلمہ اسلام پڑھ رہا ہے اس کو قتل کردیا، حاضرین میں سے ایک صحابی نے کہا کہ آپ نے برا کیا کہ ایک ایسے شخص کو قتل کردیا جس نے لا الہ ہوگیا تو اس واقعہ کا ضرور ذکر کروں گا، جب یہ لوگ مدینہ واپس آئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ واقعہ سنایا، آپ نے حضرت مقداد کو بلا کر سخت تنبیہ فرمائی اور فرمایا کہ بروز قیامت تمہارا کیا جواب ہوگا، جب کلمہ لا الہ الا اللہ تمہارے مقابلہ میں دعویدار ہوگا اس واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی، لاتقولوا لمن القی الیکم السلم لست ممناً - مذکورہ آیت کے بارے میں ان دو واقعات کے علاہ دوسرے واقعات بھی منقول ہیں، لیکن محققین اہل تفسیر نے فرمایا کہ ان روایات میں تعارض نہیں ہوسکتا کہ یہ چند واقعات مجموعی حیثیت سے نزل کا سبب ہوئے ہوں۔- آیت کے الفاظ میں القی الیکم السلم ارشاد ہے، اس میں لفظ ” سلام “ سے اگر اصطلاحی سلام مراد لیا جائے تب تو پہلا واقعہ اس کے ساتھ زیادہ چسپاں ہے اور اگر سلام کے لفظی معنی سلامت اور اطاعت کے لئے جائیں تو یہ سب واقعات اس میں برابر ہیں اسی لئے اکثر حضرات نے ” سلام “ کا ترجمہ اس جگہ اطاعت کا کیا ہے۔- واقعہ کی تحقیق کے بغیر فیصلہ کرنا جائز نہیں :۔ اس آیت کے پہلے جملہ میں ایک عام ہدایت ہے کہ مسلمان کوئی کام بےتحقیق محض گمان پر نہ کریں، ارشاد ہے اذاضربتم فی سبیل اللہ فتبینوا، ” یعنی جب تم اللہ کی راہ میں سفر کیا کرو تو ہر کام تحقیق کے ساتھ کیا کرو “ محض خیال اور گمان پر کام کرنے سے بسا اوقات غلطی ہوجاتی ہے، اس میں سفر کی قید بھی اس وجہ سے ذکر کی گئی کہ یہ واقعات سفر ہی میں پیش آئے یا اس وجہ سے کہ شبہات عموماً سفر میں پیش آتے ہیں، اپنے شہر میں ایک دوسرے کے حالات سے عموماً واقفیت ہوتی ہے، ورنہ اصل حکم عام ہے، سفر میں ہو یا حضر میں بغیر تحقیق کے کسی عمل پر اقدام جائز نہیں، ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :” سوچ سمجھ کر کام کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے۔ “ (بحر محیط)- دوسرے جملہ یعنی تبتغون الحیوة الدین اس میں اسی روگ کی اصلاح ہے، جو اس غلطی پر اقدام کرنے کا باعث ہوا، یعنی دنیا کی دولت مال غنیمت حاصل ہونے کا خیال - آگے یہ بھی بتلا دیا کہ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے اموال غنیمت بہت سے مقرر اور مقدر کر رکھے ہیں، تم اموال کی فکر میں نہ پڑو، اس کے بعد ایک اور تنبیہ فرمائی کہ ذرا اسپر بھی تو نظر ڈالو کہ پہلے تم میں بھی تو بہت سے حضرات ایسے ہی تھے کہ مکہ مکرمہ میں اپنے اسلام و ایمان کا اعلان نہیں کرسکتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا کہ کفار کے نرغہ سے نجات دیدی، تو اسلام کا اظہار کیا تو کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ شخص جو لشکر اسلام کو دیکھ کر کلمہ پڑھ رہا ہے وہ حقیقتً پہلے سے اسلام کا معتقد ہو مگر کفار کے خوف سے اسلام کا اظہار نہیں کرنے پایا تھا، اس وقت اسلام لشکر کو دیکھ کر اظہار کیا، یا کہ شروع میں جب تم نے کلمہ اسلام کو پڑھ کر اپنے آپ کو مسلمان کہا تو اس وقت تمہیں مسلمان قرار دینے کے لئے شریعت نے یہ قید نہیں لگائی تھی کہ تمہارے دلوں کو ٹٹولیں، اور دل میں اسلام کا ثبوت ملے، تب تمہیں مسلمان قرار دیں، بلکہ صرف کلمہ اسلام پڑھ لینے کو تمہارے مسلمان قرار دینے کے لئے کافی سمجھا گیا تھا اسی طرح اب جو تمہارے سامنے کلمہ پڑھتا ہے اس کو بھی مسلمان سمجھو۔ - اہل قبلہ کافر نہ کہنے کا مطلب :۔ اس آیت کریمہ سے یہ اہم مسئلہ معلوم ہوا کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان بتلاتا خواہ کلمہ پڑھ کر یا کسی اور اسلامی شعار کا اظہار کر کے مثلاً اذان، نماز وغیرہ میں شرکت کرے تو مسلمان پر لازم ہے کہ اس کو مسلمان سمجھیں اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کریں، اس کا انتظار نہ کریں کہ وہ دل سے مسلمان ہوا ہے یا کسی مصلحت سے اسلام کا اظہار کیا ہے۔- نیز اس معاملہ میں اس کے اعمال پر بھی مدار نہ ہوگا، فرض کرلو کہ وہ نماز نہیں پڑھتا روزہ نہیں رکھتا اور ہر قسم کے گناہوں میں ملوث ہے، پھر بھی اس کو اسلام سے خارج کہنے کا یا اس کے ساتھ کافروں کا معاملہ کرنے کا کسی کو حق نہیں، اسی لئے امام اعظم نے فرمایا لانکفراھل القبلة بذنب ” یعنی ہم اہل قبلہ کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہیں کہتے “ بعض روایات حدیث میں بھی اسی قسم کے الفاظ مذکور ہیں کہ اہل قبلہ کو کافر نہ کہو۔ خواہ وہ کتنا ہی گنہگار بدعمل ہو۔ - مگر یہاں ایک بات خاص طور پر سمجھنے اور یاد رکھنے کی ہے کہ قرآن و حدیث سے یہ ثابت ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے اس کو کافر کہنا یا سمجھنا جائز نہیں، اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جب تک اس سے کسی ایسے قول و فعل کا صدور نہ ہو جو کفر کی یقینی علامت ہے اس وقت تک اس کے اقرار اسلام کو صحیح قرار دے کر اس کو مسلمان کہا جائے گا اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کیا جائے، اس کی قلبی کیفیات اخلاص یا نفاق سے بحث کرنے کا کسی کو حق نہ ہوگا۔- لیکن جو شخص اظہار اسلام اور اقرار ایمان کے ساتھ ساتھ کچھ کلمات کفر بھی بکتا ہے، یا کسی بت کو سجدہ کرتا ہے، یا اسلام کے کسی ایسے حکم کا انکار کرتا ہے جس کا اسلامی حکم ہونا قطعی اور بدیہی ہے یا کافروں کے کسی مذہبی شعار کو اختیار کرتا ہے، جیسے گلے میں زنار وغیرہ ڈالنا وغیرہ وہ بلاشبہ اپنے اعمال کفر یہ کے سبب کافر قرار دیا جائے گا آیت مذکورہ میں لفظ تبینوا سے اس کی طرف اشارہ موجود ہے، ورنہ یہود و نصاری تو سب ہی اپنے آپ کو مومن مسلمان کہتے تھے اور مسیلمہ کذاب جس کو باجماعت صحابہ کافر قرار دے کر قتل کیا گیا وہ تو صرف کلمہ اسلام کا اقرار ہی نہیں بلکہ اسلامی شعائر نماز اذان وغیرہ کا بھی پابند تھا اپنی اذان میں اشھدان لا الہ اللہ کے ساتھ اشھد ان محمد ارسول اللہ بھی کہلواتا تھا، مگر اس کے ساتھ وہ اپنے آپ کو بھی نبی اور رسول صاحب وحی کہتا تھا جو نصوص قرآن و سنت کا کھلا ہوا انکار تھا، اسی کی بناء پر اس کو مرتد قرار دیا گیا اور اس کے خلاف باجماع صحابہ جہاد کیا گیا۔- خلاصہ مسئلہ کیا ہوگیا کہ ہر کلمہ گو اہل قبلہ کو مسلمان سمجھو اس کے باطن اور قلب میں کیا ہے ؟ اس کی تفتیش انسان کا کام نہیں، اس کو اللہ تعالیٰ کے حوالہ کرو، البتہ اظہار ایمان کے ساتھ خلاف ایمان کوئی بات سر زد ہو تو اس کو مرتد سمجھو، بشرطیکہ اس کا خلاف ایمان ہونا قطعی اور یقینی ہو اور اس میں کوئی دوسرے احتمال یا تاویل کی راہ نہ ہو۔ - اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ لفظ ” کلمہ گو “ یا ” اہل قبلہ “ یہ اصطلاحی الفاظ ہیں جن کا مصداق صرف وہ شخص ہے جو مدعی اسلام ہونے کے بعد کسی کافرانہ قول و فعل کا مرتکب نہ ہو۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ فَتَبَيَّنُوْا وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓي اِلَيْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا ٠ۚ تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا ٠ۡفَعِنْدَ اللہِ مَغَانِمُ كَثِيْرَۃٌ ٠ۭ كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللہُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوْا ٠ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا ٩٤- ضَّرْبُ ( چلنا)- والضَّرْبُ في الأَرْضِ : الذّهاب فيها وضَرْبُهَا بالأرجلِ. قال تعالی: وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء 101] ، وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران 156] ، وقال : لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة 273]- ضرب فی الارض کے معنی سفر کرنے کے ہیں ۔ کیونکہ انسان پیدل چلتے وقت زمین پر پاؤں رکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء 101] اور جب سفر کو جاؤ ۔ وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران 156] اور ان کے مسلمان بھائی جب خدا کی راہ میں سفر کریں ۔۔۔۔ تو ان کی نسبت کہتے ہیں ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة 273] اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اور یہی معنی آیت : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه 77] کے ہیں یعنی انہیں سمندر میں ( خشک راستے سے لے جاؤ ۔- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] - ( ب غ ی ) البغی - الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- عرض - أَعْرَضَ الشیءُ : بدا عُرْضُهُ ، وعَرَضْتُ العودَ علی الإناء، واعْتَرَضَ الشیءُ في حلقه : وقف فيه بِالْعَرْضِ ، واعْتَرَضَ الفرسُ في مشيه، وفيه عُرْضِيَّةٌ. أي : اعْتِرَاضٌ في مشيه من الصّعوبة، وعَرَضْتُ الشیءَ علی البیع، وعلی فلان، ولفلان نحو : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] ،- ( ع ر ض ) العرض - اعرض الشئی اس کی ایک جانب ظاہر ہوگئی عرضت العود علی الاناء برتن پر لکڑی کو چوڑی جانب سے رکھا ۔ عرضت الشئی علی فلان اولفلان میں نے فلاں کے سامنے وہ چیزیں پیش کی ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا ۔ - غنم - الغَنَمُ معروف . قال تعالی: وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما [ الأنعام 146] . والغُنْمُ : إصابته والظّفر به، ثم استعمل في كلّ مظفور به من جهة العدی وغیرهم . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنفال 41] ، فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالًا طَيِّباً [ الأنفال 69] ، والمَغْنَمُ : ما يُغْنَمُ ، وجمعه مَغَانِمُ. قال : فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثِيرَةٌ [ النساء 94] .- ( غ ن م ) الغنم - بکریاں ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما [ الأنعام 146] اور گائیوں اور بکریوں سے ان کی چربی حرام کردی تھی ۔ الغنم کے اصل معنی کہیں سے بکریوں کا ہاتھ لگنا ۔ اور ان کو حاصل کرنے کے ہیں پھر یہ لفظ ہر اس چیز پر بولا جانے لگا ہے ۔ جو دشمن یا غیر دشمن سے حاصل ہو ۔ قرآن میں ہے : وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنفال 41] اور جان رکھو کہ جو چیز تم کفار سے لوٹ کر لاؤ ۔ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالًا طَيِّباً [ الأنفال 69] جو مال غنیمت تم کو ہے اسے کھاؤ کہ تمہارے لئے حلال طیب ہے ۔ المغنم مال غنیمت اس کی جمع مغانم آتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثِيرَةٌ [ النساء 94] سو خدا کے پاس بہت سی غنیمتں ہیں ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- منن - والمِنَّةُ : النّعمة الثّقيلة، ويقال ذلک علی وجهين : أحدهما : أن يكون ذلک بالفعل، فيقال : منَّ فلان علی فلان : إذا أثقله بالنّعمة، وعلی ذلک قوله : لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 164]- والثاني : أن يكون ذلک بالقول،- وذلک مستقبح فيما بين الناس إلّا عند کفران النّعمة، ولقبح ذلک قيل : المِنَّةُ تهدم الصّنيعة «4» ، ولحسن ذكرها عند الکفران قيل : إذا کفرت النّعمة حسنت المنّة . وقوله : يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات 17] فالمنّة منهم بالقول، ومنّة اللہ عليهم بالفعل، وهو هدایته إيّاهم كما ذكر، - ( م ن ن ) المن - المن کے معنی بھاری احسان کے ہیں اور یہ دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ایک منت بالفعل جیسے من فلان علیٰ فلان یعنی فلاں نے اس پر گرا انبار احسان کیا ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 164] خدا نے مومنوں پر بڑا احسان گیا ہے ۔- اور دوسرے معنی منۃ بالقول - یعنی احسان جتلانا گو انسانی معاشرہ میں معیوب سمجھا جاتا ہے مگر جب کفران نعمت ہو رہا ہو تو اس کے اظہار میں کچھ قباحت نہیں ہے اور چونکہ ( بلاوجہ اس کا اظہار معیوب ہے اس لئے مشہور ہے ، المنۃ تھدم الصنیعۃ منت یعنی احسان رکھنا احسان کو بر باد کردیتا ہے اور کفران نعمت کے وقت چونکہ اس کا تذکرہ مستحن ہوتا ہے اس لئے کسی نے کہا ہے : جب نعمت کی ناشکری ہو تو احسان رکھنا ہیں مستحن ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات 17] یہ لوگ تم احسان رکھتے ہیں ۔ کہ مسلمان ہوگئے ہیں ، کہدو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو ۔ بلکہ خدا تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا رستہ دکھایا ۔ میں ان کی طرف سے منت بالقوم یعنی احسان جتلانا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے منت بالفعل یعنی انہیں ایمان کی نعمت سے نواز نامراد ہے۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - خبیر - والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم،- ( خ ب ر ) الخبر - کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔
قول باری ہے (یا ایھالذین آمنوا اذاضربتم فی سبیل اللہ ۔۔۔ تا۔۔۔۔۔ مغانم کثیرہ۔ اے ایمان لانے والو، جب تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلو تودوست دشمن میں تمیز کرو اورجوتمہاری طرف سلام سے تقدیم کرے اسے فورا نہ کہہ دو کہ تو مومن نہیں ہے ، اگر تم دنیوی فائدہ چاہتے ہو تو اللہ کے پاس تمہارے لیے بہت سے اموال غنیمت ہیں تاآخر آیت۔- روایت کے مطابق اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ حضور کی طرف سے اک مہم پر بھیجے ہوئے فوجی دستے نے ایک شخص کو دیکھا جس کے ساتھ کچھ بھیڑ بکریاں تھیں، اس شخص نے سلام کرنے سے کے بعد کلمہ طیبہ ، لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ، پڑھا لیکن ایک مسلمان نے اس کا سرتن سے جدا کردیا، جب یہ دستہ واپس آیا تو حضور کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی آپ نے اس شخص سے پوچھا کہ تم نے اسے کیوں قتل کیا جبکہ وہ مسلمان ہوچکا تھا۔- اس نے عرض کیا کہ مقتول نے صرف اپنی جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا، اس پر آپ نے فرمایا، تم نے اس کا دل پھاڑ کر کیوں نہیں دیکھ لیا، اسکے بعد آپ نے اس کی دیت اس کے وارثوں کو بھجوادی، اور اس کی بھیڑ بکریاں بھی واپس کردیں، حضرت ابن عمر اور عبداللہ بن ابی حدرد کا قول ہے کہ یہ شخص محلم بن جثامہ تھے جنہوں نے عامر بن اضبط اشجفعی کو قتل کردیا تھا۔- ایک روایت میں ہے کہ قاتل کی چند دنوں بعد موت واقع ہوگئی تھی، جب انہیں دفن کیا گیا تو زمین نے انہیں باہر پھینک دیا تین مرتبہ اسی طرح ہوا، حضور کو جب اس کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا، زمین تو ان لوگوں کو بھی قبول کرلیتی ہے جو اس سے بھی بدتر ہوتے ہیں لیکن اللہ تعایل نے تمہیں یہ دیکھاناچاہا کہ اس کے نزدیک خون کی کس درجہ اہمیت اور قدروقیمت ہے پھر آپ نے حکم دیا کہ لاش پر پتھر ڈال دیے جائیں۔- محلم بن جثامہ کے متعلق یہ واقعہ مشہور ہے کہ ہم نے حضرت اسامہ بن زید سے مروی ہے حدیث کا پچھلے صفحات میں ذکر کیا تھا، جس میں ہے کہ انہوں نے ایک مہم کے دوران ایک شخص کو قتل کردیا تھا، جس نے اپنی زبان سے کلمہ طیبہ ادا کیا تھا، جب حضور کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے فرمایا تھا :- کلمہ طیبہ پڑھ لینے کے بعد تم نے اسے قتل کردیا جب انہوں نے عرض کیا کہ اسنے صرف اپنی جان بچانے کے لیے کلمہ کا اقرار کیا تھا تو آپ نے فرمایا پھر تم نے اس کا دل پھاڑ کر کیوں نہیں دیکھا، قیامت کے دن اس کے پڑھے ہوئے کلمے کا تمہاری طرف سے کون ذمہ دار ہوگا۔- اسی طرح ہم نے حضرت عقبہ بن مالک لیثی کی روایت کردہ حدیث کا بھی زکر کیا ہے جو اسی مفہوم پر مشتمل ہے مقتول نے کہا تھا کہ میں مسلمان ہوں لیکن اسکے باوجود اسے قتل کردیا گیا، حضور نے اس بات کو انتہائی طور پر ناپسند کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ ان اللہ ابی ان اقتل مومنا، اللہ تعالیٰ کو ہرگز یہ بات پسند نہیں کہ میں کسی مسلمان کی جان لے لوں۔- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ، انہیں ابوداؤد نے ، انہیں قتبیہ بن سعید نے انہیں لیث نے ابن شہاب سے ، انہوں نے عطاء بن یزید لیثی سے ، انہوں نے عبیداللہ بن عدی بن الخیار سے، انہوں نے حضرت مقداد بن الاسود سے ک ہ انہوں نے حضور سے دریافت کیا کہ حضور اگر کسی کافر سے میری مڈ بھیڑ ہوجائے، اور وہ اپنی تلوار سے میرا ایک ہاتھ کاٹ ڈالے پھر ایک درخت کی آڑ میں میری زد سے نکل جائے اور کہے کہ میں اللہ کے سامنے جھک گیا، کیا اس کے بعد میں اسے قتل کرسکتا ہوں، آپ نے جواب میں فرمایا، اسے قتل نہیں کرسکتے ، میں نے عرض کیا، حضور اس نے میرا ہاتھ کاٹ ڈالا تھا، آپ نے فرمایا، اسے قتل نہ کرو اگر تم اسے قتل کردو گے تو اس صورت میں اقرار اسلام سے پہلے جس مقام پر وہ تھا وہاں تم پہنچ جاؤ گے اور وہ تمہارے مقام پر آجائے گا۔- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے کہ انہیں حارث بن ابی اسامہ نے انہیں ابولنصر ہاشم بن القاسم نے ، انہیں المسعودی نے قتادہ سے ، انہوں نے ابومجلز سے ، انہوں نے ابوعبیدہ سے کہ حضور نے فرمایا (اذاشرع احدکم الرمح الی الرجل فان کان سنانہ عندثغرۃ نحرہ فقال لاالہ الا اللہ فلیرجع عنہ الرمح۔- تم میں سے جب کوئی شخص کسی کافر کی طرف نیزہ بلند کرے اور نیزے کی انی اس کے حلقوم تک پہنچ جائے اور وہ شخص کلمہ پڑھ لے توا سے اپنانیزہ اس سے ہٹالینا چاہیے۔- حضرت ابوعبیدہ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے اس کلمہ طیبہ کو ایک مسلمان کے لیے امان کا ذریعہ اور اس کی جان اور مال کے لیے بچاؤ اور حفاظت کا سبب بنادیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے جزیہ کو کافر کے لیے امان کا ذریعہ اور اس کے جان ومال کے لیے بچاؤ کا سبب قرار دیا ہے ۔ یہ روایت ان احادیث کے ہم معنی ہے جو حضور سے تواتر سے مروی ہیں۔- مجھے اس وقت تک لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ کلمہ طیبہ کا اقرار نہ کرلیں بعض حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں اور جب تک وہ یہ اقرار نہ کرلیں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ جب وہ کلمہ کا اقرار کرلیں گے تو وہ مجھ سے اپنی جان اور اپنے مال محفوظ کرلیں گے البتہ ان کی جان ومال پر اگر کوئی حق عائد ہوجائے تو وہ الگ بات ہے اور ان کا حساب وکتاب اللہ کے ذمے ہوگا) ۔- اس حدیث کی روایت حضرت عمر، حضرت جریر بن عبداللہ ، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت انس بن مالک اور حضڑت ابویرہ نے کی ہے کہ حضور کی وفات کے لیے بعد جب عرب کے کچھ لوگوں نے زکوۃ ادا کرنے سے انکار کردیا، اور حضرت ابوبکر نے یہ سن کر فرمایا کہ حدیث میں ، الابحقھا، کے الفاظ بھی ہیں اور ان مانعین زکوۃ کے خلاف اقدامات ، الابحقھا، کے ذیل میں آتے ہیں۔ اس حدیث کی صحت پر صحابہ کرام کا اتفاق ہوگا اور یہ حدیث اس قول باری (ولاتقولوا لمن القی الیکم السلم لست مومنا، اور جو شخص فرمانبرداری اختیار کرلے اسے یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے ، کے ہم معنی ہے۔- اللہ تعالیٰ نے اسلام کا اظہار کرنے والے کے ایمان کی صحت کا فیصلہ کردیا ہے اور ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم ایسے شخص پر مسلمانوں کے احکام جاری کریں خواہ اس کے دل میں اس کے خلاف عقیدہ کیوں نہ ہو، اس سے زندیق کی توبہ قبول ہونے پر جب وہ اسلام کا اظہار کرے استدلال کیا جاتا ہے کیونکہ اس حکم میں اللہ تعالیٰ نے زندیق اور غیر زندیق میں جب ان کی طرف سے اسلام کا اظہار ہوجائے کوئی فرق نہیں رکھا۔- نیز یہ اس بات کا بھی موجب ہے کہ جب کوئی شخص کلمہ طیبہ پڑھ لے یا اپنی زبا ن سے کہے کہ میں مسلمان ہوں تو پھر اس پر حکم اس لام جاری کیا جائے گا، اس لیی کہ قول باری (لمن القی الیکم السلام) کا مفہوم ہے کہ جو شخص اسلام کی طرف دعوت کے جواب میں فرمانبرداری اختیار کرتے ہوئے سرتسلیم خم کردے اسے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے۔- لیکن اگر، السلام، کی قرات کی جائے تو مفہوم ہوگا ، جو شخص تحیۃ اسلام یعنی السلام علیکم، کہے اسلامی سلام کا اظہار ایک شخص کے اسلام میں داخل ہونے کی علامت سمجھی جاتی تھی، حضور نے اس شخص سے جس نے اسلام کا اقرار کرنے والے شخص کو قتل کردیاتھا فرمایا تھا، تم نے اس کے اسلام لانے کے بعد اسے قتل کردیا۔- یہی بات آپ نے اس شخص سے بھی فرمائی تھی جس نے کلمہ طیبہ پڑھنے والے شخص کو ہلاک کردیا تھا آپ نے اسلامی سلام کا اظہار کرنے والے پر مسلمان ہونے کا حکم لگادیا تھا۔- امام محمد بن الحسن نے ، السیر الکبیر ، میں لکھا ہے کہ اگر ایک یہودی یاعیسائی یہ کہہ دے کہ میں مسلمان ہوں تو ایسا کہنے وہ مسلمان نہیں ہوجائے گا، کیونکہ یہ سب لوگ یہی کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ہم مومن ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارا دین بھی ایمان یعنی اسلام ہے، اس ان کے اس قول میں یہ دلیل نہیں ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔- امام محمد نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی مشرک کو قتل کرنے کے لیے اس پر حملہ آور ہوجائے اور اس وقت وہ مشرک یہ کہے کہ میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ، تو یہ مسلمان سمجھاجائے گا، کیونکہ اس کا کلمہ پڑھنا اس کے مسلمان ہونے کی دلیل ہے البتہ اگر وہ اس قول سے پھرجائے تو اس صورت میں اس کی گرد ن اڑادی جائے گی۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ امام محمد نے یہودی کو اس کے اس قول پر کہ میں مسلمان یا مومن ہوں مسلمان قرار نہیں دیا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہود اسی طرح کہتے ہیں کہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اصل ایمان اور اسلام وہ ہے جس پر ہم عمل پیرا ہیں۔ اس لیے ان کا یہ کہنا ان کے مسلمان ہونے کی دلیل نہیں ہے۔- یہود ونصاری کی حیثیت ان مشرکین جیسی نہیں ہے جو حضور کے زمانے میں موجود تھے، اس لیے کہ وہ سب کے سب بت پرست تھے اس لیے ان کا اقرار توحید اور ان میں سے کسی کا یہ کہنا کہ میں مسلمان ہوں یا میں مومن ہوں ، گویا بت پرستی چھوڑ کر اسلام میں داخل ہونے کی علامت اور نشان ہوتا تھا، اس لیے ان کے اس اقرار واظہار کو کافی سمجھ لیا جاتاتھاکیون کہ ایک مشرک کو اسی وقت اس اقرار واظہار کا حوصلہ ہوتا تھا جب وہ حضور کی تصدیق کرتے ہوئے آپ پر امان لے آتا اسی بنا پر حضور کا یہ ارشاد ہے کہ :- (امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لاالہ الا اللہ، فاذا قالوھا عصموا منی دماء ھم واموالھم) اس قول سے آپ کی مراد مشرکین تھے یہود نہیں تھے کیونکہ یہود ، لاالہ اللہ کا کلمہ پڑھا کرتے تھے اسی طرح عیسائی بھی اس کلمہ توحید کے قائل تھے۔- اگرچہ تفصیل میں جاکر توحید کے برعکس بات کرتے ہوئے ایک میں تین کے عقیدے کا اظہار کرتے ، اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ ، لاالہ الا اللہ، کا قول عرب کے مشرکین کے اسلام کانشان تھا، کیونکہ وہ لوگ حضور کی دعوت اسلام کو قبول کرتے ہوئے نیز آپ کی دعوت کی تصدیق کرتے ہوئے اعتراف توحید کرتے تھے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ ارشاد باری ہے (انھم اذاقیل لھم لاالہ الاللہ یستکبرون، اور یہ لوگ ایسے ہیں کہ جب ان سے کہاجاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں توبڑائی اور تکبر کا اظہار کرتے ہیں، یہود ونصاری کلمہ توحید کے اطلاق میں مسلمانوں کی موافقت کرتے تھے لیکن حضور کی نبوت کے سلسلے میں مسلمانوں کی مخالفت کرتے تھے۔ اس لیے اگر یہود یاعیسائی حضور پر ایمان کا اظہار کرے گا تو وہ مسلمان سمجھا جائے گا۔- حسن بن زیاد نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے کہ اگر کوئی یہودی یا نصرانی اللہ کی وحدانیت اور حضور کی رسالت کی گواہی دے لیکن یہ اقرار نہ کرے کہ میں اسلام میں داخل ہوں اور نہ ہی یہودیت یاعیسائیت سے اپنی برات کا اظہار کرے تو صرف گواہی دینے کی بنا پر وہ مسلمان نہیں ہوگا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں : میراخیال ہے کہ میں نے امام محمد کی بھی اسی قسم کی تحریر کہیں دیکھی ہے البتہ امام محمد نے ، السیرالکبیر، میں جو کچھ لکھا ہے وہ حسن بن زیاد کی اس روایت کے خلاف ہے۔- حسن کی اس روایت میں کہی گئی بات کی وجہ یہ ہے کہ ان یہود ونصاری میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جوا سکے قائل ہیں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں لیکن وہ تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں کچھ توا سکے قائل ہیں کہ بیشک محمد اللہ کے رسول ہیں، لیکن ان کی ابھی تک بعثت نہیں ہوئی ہے عنقریب ہونے والی ہے۔- اس لیے اگر ان میں سے کوئی شخص یہودیت یانصرانیت پر قائم رہتے ہوئے اللہ کی وحدانیت اور حضور کی رسالت کی گواہی دے گا تو اس کی یہ گواہی اس کے مسلمان ہونے کی دلیل نہیں بن سکے گی جب تک وہ یہ نہ کہے کہ میں اسلام میں داخل ہوتاہوں یا میں یہودیت یاعیسائیت سے اپنی برات کا اظہار کرتا ہوں۔- اگرہم قول باری (ولاتقولوا لمن القی الیکم السلام لست مومنا) کو اس کے ظاہر پر رہنے دیں تو اس کی اس بات پر دلالت نہیں ہوگی کہ اطاعت وفرمانبرداری کا اظہار کرنے والے پر مسلمان ہونے کا حکم لگادیاجائے کیونکہ اس سے یہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ ایسے شخص سے نہ اسلام کی نفی کرو اورنہ ہی اثبات لیکن اس بارے میں تحقیق کرکے معلوم کرو کہ اس قول سے اس کی کیا مراد ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ ارشاد باری ہے (واذاضربتم فی سبیل اللہ فتبینوا ولاتقولوا لمن القی الیکم السلام لست مومنا، جب تم اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلوا تودوست دشمن میں تمیز کرلیاکرو اور جو شخص سلام میں سبقت کرے اسے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے ظاہرلفظ جس کا امر کا مقتضی ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں تحقیق وتفتیش کا حکم دیا گیا ہے اور علامت ایمان کی نفی کرنے سے روکا گیا ہے ایمان کی علامت کی نفی کی ممانعت میں ایمان کے اثبات اور اس کے حکم کا وجود نہیں ہوتا۔- آپ نہیں دیکھتے کہ جب ہمیں کسی شخص کے ایمان کے بارے میں جس کے حالات سے ہم ناواقف ہوں شک ہوجاتا ہے تو ہمارے لیے اس پر ایمان یا کفر کا حکم لگانا جائز نہیں ہوتا، الایہ کہ تحقیق وتفتیش کرکے ہم اس کی اصلیت معلوم کرلیں، اسی طرح اگر کوئی شخص ہمیں ایسی کوئی خبر سنائے جس کی صداقت یاعدم کا ہمیں کوئی علم نہ ہو تو ہمارے لیے اس کی تکذیب جائز نہیں ہوگی۔- لیکن ہماری ترک تکذیب ہماری طرف سے اس کی تصدیق کی علامت نہیں ہوگی آیت کے مقتضی کی بھی یہی صورت ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ اس میں نہ تو ایمان کا اثبات ہے اور نہ ہی کفر کا اس میں تو صرف تحقیق وتفتیش کا حکم ہے ، یہاں تک کہ ہمیں اس کی اصلیت معلوم ہوجائے۔- البتہ جن روایات کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ ایسے شخص پر ایمان کا حکم لگاناواجب کررہی ہیں کیونکہ حضور کا ارشاد ہے (اقتلت مسلما وقتلتلہ، بعد مااسلم، تم نے ایک مسلمان کو قتل کردیا تم نے اسے اس کے اسلام لانے کے بعد قتل کردیا۔- نیز آپ کا ارشاد ہے ، (امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لاالہ الا اللہ فاذاقالوھا عصمو منی دماء ھم واموالھم الابحقھا) آپ نے کلمہ توحید کے اظہار کرنے والے پر اسلام یعنی مسلمان ہونے کا حکم لگادیا، اسی طرح حضرت عقبہ بن مالک لیثی کی روایت میں آپ کے الفاظ ہیں۔ (ان اللہ تعالیٰ ابی علی ان اقتل مومنا) ۔- آپ نے اس کلمہ طیبہ کے اظہار پر اس شخص کو مومن قرار دے دیا، روایت میں ہے کہ زیر بحث آیت کا نزول بھی اسی جیسے کسی واقعہ کے سلسلے میں ہوا تھا، یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ آیت کی مراد یہ ہے کہ جو شخص اس کلمہ کا اظہار کرے ، اس پر ایمان کے اثبات کا حکم دیاجائے۔- منافقین بھی اس کلمہ کے اظہار کے ذریعے اپنی جان ومال کے بچاؤ کا سامان کرلیتے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ کو ان کے اعتقاد کفر کا علم تھا اور حضور بھی ان میں سے بہت سوں کے نفاق سے واقف تھے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ زیر بحث آیت اسلامی سلام کہنے والے پر سلام کا حکم لگانے کی مقتضی ہے۔- قول باری ہے (تبتغون عرض الحیوۃ الدنیا) اس سے مراد مال غنیمت ہے ، دنیاوی متاع یعنی سازوسامان کو عرض کا نام دیا گیا اس لیے اس سازوسامان کی بقاء کی مدت بہت قلیل ہوتی ہے جیسا کہ اس شخص کے متعلق مروی ہے جس نے اظہار اسلام کرنے والے شخص کو قتل کرکے اس کا سارامال لے لیا تھا۔- قول باری ہے (اذا ضربتم فی سبیل اللہ) اس سے اللہ کے راستے میں سفر مراد ہے ، قول باری (فتثبتوا کی قرات تاء اور نون کے ساتھ ہوئی ہے (یعنی فتبنیوا۔- ایک قول ہے کہ تاء اور نون کے ساتھ قرات ہی مختار قرات ہے کیونکہ تثبیت یعنی تحقیق وجستجوا یعنی حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے ہوتی ہے اور یہ تثبت اس کا سبب ہوتا ہے۔- قول باری ہے (کذالک کنتم من قبل) تم بھی اس سے پہلے ایسے ہی تھے، حسن کا قول ہے ان جیسے کافر، سعید بن جبیر کا قول ہے تم بھی اپنی قوم کے اندر رہتے ہوئے اپنادین مخفی رکھنے پر مجبور تھے جس طرح یہ لوگ اپنادین مخفی رکھنے پر مجبور ہیں۔- قول باری ہے (فمن اللہ علیکم ، اللہ نے تم پر احسان کیا) یعنی دین اسلام عطا کرکے ، جس طرح یہ قول باری ہے (بل اللہ یمن علیکم ان ھداکم للایمان، بلکہ اللہ تعایل تم پر یہ احسان جتلاتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت دی ، ایک قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں غلبہ عطا کرکے تم پر احسان کیا حتی کہ اپنادین ظاہر کرنے کے قابل ہوگئے۔
(٩٤) یہ آیت اسامہ بن زید (رض) کے بارے میں نازل ہوئی جب کہ انہوں نے لڑائی میں مرد ان بن نھیک فراری کو (غلط فہمی کی بنا پر) کافر سمجھ کر مار دیا تھا اور یہ مومن تھے، چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جہاد میں کسی کے اس طرح مل جانے پر تحقیق کرلیا کرو تاکہ معلوم ہوجائے کہ کون مومن ہے اور کون کافر اور جو تمہارے سامنے کلمہ طیبہ پڑھ لیا کرے یا جہاد میں مسلمانوں کے طریقہ پر سلام کرلیا کرے تو اسے مال غنیمت کی امید میں کافر سمجھ کر قتل مت کرو۔- اللہ کی ہاں اسے شخص کے لیے جو کسی مسلمان کے قتل سے کنارہ کش ہو، بہت بڑا ثواب ہے۔- ہجرت سے پہلے تم بھی ایک زمانہ میں اپنی قوم میں مسلمانوں اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کلمہ طیبہ پڑھ کر امن حاصل کیا کرتے تھے، پھر ہجرت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا، لہٰذا مسلمانوں کے قتل نہ کرنے پر جمے رہو اور اپنی پچھلی حالت پر غور کرو۔- شان نزول : (آیت) ” یایھا الذین امنوا اذا ضربتم “۔ (الخ)- امام بخاری (رح) ، ترمذی (رح) اور حاکم وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے بنی سلیم کے ایک آدمی کا گزر صحابہ کرام (رض) کی جماعت پر سے ہوا۔ وہ اپنی بکریاں لے کر جارہا تھا، اس نے صحابہ کرام (رض) کو سلام کیا، صحابہ کرام (رض) میں سے چند ایک نے کہا کہ اس نے اس لیے سلام کیا ہے۔ (یعنی کوئی مسلمان تمہارے ہاتھوں غلط فہمی سے بھی نہ مارا جائے، تم صرف برسر مقابلہ یا فتنہ گر کافروں کو ہی قتل کرو، جو ظاہرا بھی کسی وجہ سے کلمہ پڑھ لے تو بنا تحقیق وتفتیش اس پر ہاتھ نہ اٹھاؤ) (مترجم) تاکہ ہم اس سے کسی قسم کا کوئی تعرض نہ کریں، چناچہ صحابہ کرام (رض) نے اس کو پکڑ کر کفر کے شبہہ میں قتل کردیا اور اس کی بکریاں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے کر آئے، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ ایمان والو جب تم جہاد کے لیے روانہ ہو، الخ۔- اور بزاز نے ابن عباس (رض) سے دوسرے طریقہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک چھوٹا سا لشکر روانہ کیا، اس میں مقداد بھی تھے، جب یہ لوگ کافروں کی قوم کے پاس آئے تو وہ سب متفرق ہوگئے اور ایک آدمی باقی رہ گیا، جس کے پاس بہت مال تھا وہ صحابہ کرام (رض) کو دیکھ کر کہنے لگا، اشھد ان الا الا اللہ “۔ اسکی ظاہری حالت زبان حال اسلام سے مناسبت نہ رکھتی تھی اس لیے اسے کافر ہی سمجھتے ہوئے مقداد نے قتل کردیا۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ قیامت کے دن کلمہ لا الہ الا اللہ “۔ کے مقابلے میں کیا جواب دو گے اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- اور امام احمد اور طبرانی وغیرہ نے عبداللہ بن ابی الدرداء اسلمی (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کی ایک جماعت میں بھیجا جس میں ابوقتادہ اور محکم بن جثامہ بھی تھے، ہمارے پاس سے عامر بن احبط اشجعی گزرے، انہوں نے ہمیں سلام کیا، محکم نے اس سلام کو ان کا حیلہ سمجھا اور اسے کافر گردانتے ہوئے ان پر حملہ کیا اور ان کو قتل کردیا۔- جب ہم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو واقعہ کی اطلاع دی تو ہمارے بارے میں قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی۔- ابن جریر (رح) نے ابن عمر (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور ثعلبی نے بواسطہ کلبی، ابوصالح، ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے، کہ مقتول کا نام مرداس بن لہیک تھا اور یہ اہل فدک سے تھے اور قاتل کا نام اسامۃ بن زید (رض) تھا اور اس لشکر کے امیر غالب بن فضالۃ تھے کیوں کہ مرداس (رض) کی قوم جب شکست کھاگئی تو صرف مرداس باقی رہ گئے اور یہ اپنی بکریوں کو ایک پہاڑ پر سے لے جارہے تھے جب صحابہ کرام (رض) ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے کلمہ طیبہ پڑھا اور کہا اسلام علیکم مگر اسامۃ بن زید نے غلط فہمی سے ان کو قتل کردیا، جب صحابہ کرام (رض) مدینہ منورہ آئے، تب یہ آیت نازل ہوئی ،- نیز ابن جریر (رح) نے سدی (رح) اور عبد نے قتادہ (رح) کے واسطہ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور ابن ابی حاتم (رح) نے بواسطہ ابن بعیعہ، ابو زبیر، جابر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جو اطاعت ظاہر کرے اسے یہ نہ کہہ دیا کرو کہ تم مومن نہیں مرداس (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یہ روایت حسن ہے، ابن مندہ نے جزء بن حدرجان (رض) سے روایت کیا ہے کہ میرے بھائی قداد (رض) یمن سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے، راستہ میں انھیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک لشکر کا سامنا ہوا انہوں نے لشکر سے کہا کہ میں مسلمان ہوں مگر لشکر نے کچھ قرائن کے سبب اس بات کو درست خیال نہ کیا اور ان کو قتل کردیا۔- مجھے اس چیز کی اطلاع ملی میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں فورا روانہ ہوا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے میرے بھائی کی دیت دی۔
آیت ٩٤ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوْا) (وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقآی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا ج) - تم اس کی باطنی کیفیت معلوم نہیں کرسکتے۔ ایمان کا تعلق چونکہ دل سے ہے اور دل کا حال سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں جان سکتا ‘ لہٰذا دنیا میں تمام معاملات کا اعتبار زبانی اسلام (اقرارٌ باللّسان) پر ہی ہوگا۔ اگر کوئی شخص کلمہ پڑھ رہا ہے اور اپنے اسلام کا اظہار کر رہا ہے تو آپ کو اس کے الفاظ کا اعتبار کرنا ہوگا۔ اس آیت کے پس منظر کے طور پر روایات میں ایک واقعے کا ذکر ملتا ہے جو حضرت اسامہ (رض) کے ساتھ پیش آیا تھا۔ کسی سریہّ میں حضرت اسامہ (رض) کا ایک کافر سے دو بدو مقابلہ ہوا۔ جب وہ کافر بالکل زیر ہوگیا اور اس کو یقین ہوگیا کہ اس کے بچنے کا کوئی راستہ نہیں تو اس نے کلمہ پڑھ دیا : اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا ‘ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۔ اب ایسی صورت حال میں جو کوئی بھی ہوتا یہی سمجھتا کہ اس نے جان بچانے کے لیے بہانہ کیا ہے۔ حضرت اسامہ (رض) نے بھی یہی سمجھتے ہوئے اس پر نیزے کا وار کیا اور اسے قتل کردیا۔ لیکن دل میں ایک خلش رہی۔ بعد میں انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَقَالَ لَا اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ وَقَتَلْتَہٗ ؟ ) اس نے لا الٰہ الاّ اللہ کہہ دیا اور تم نے پھر بھی اسے قتل کردیا ؟ حضرت اسامہ (رض) نے جواب دیا : یارسول اللہ اس نے تو ہتھیار کے خوف سے کلمہ پڑھا تھا “۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہٖ حَتّٰی تَعْلَمَ اَقَالَھَا اَمْ لَا ؟ ) تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ جان لیا کہ اس نے کلمہ دل سے پڑھا تھا یا نہیں ؟ حضرت اسامہ (رض) ‘ کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات مجھ سے بار بار فرمائی ‘ یہاں تک کہ میں خواہش کرنے لگا کہ کاش میں آج ہی مسلمان ہوا ہوتا (١) بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اے اسامہ ‘ اس دن کیا جواب دو گے جب وہ کلمہ شہادت تمہارے خلاف مدعی ہو کر آئے گا ؟ - (تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاز) - کہ ایسے شخص کو کافر قرار دیں ‘ قتل کریں اور مال غنیمت لے لیں۔ - (فَعِنْدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیْرَۃٌ ط) ۔- تمہارے لیے بڑی بڑی مملکتوں کے اموال غنیمت آنے والے ہیں۔ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے حدود اللہ سے تجاوز نہ کرو۔- (کَذٰلِکَ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ ) تم خود بھی تو پہلے ایسے ہی تھے ‘ تو اللہ نے تم پر احسان فرمایا ہے “ ۂ آخر ایک دور تم پر بھی تو ایسا ہی گزرا ہے۔ تم سب بھی تو نو مسلم ہی ہو اور ایک وقت میں تم میں سے ہر شخص کافر یا مشرک ہی تو تھا پھر اللہ ہی نے تم لوگوں پر احسان فرمایا کہ تمہیں کلمہ شہادت عطا کیا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت و تبلیغ سے بہرہ مند ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ لہٰذا اللہ کا احسان مانو اور اس طریقے سے لوگوں کے معاملے میں اتنی سخت روش اختیار نہ کرو۔- (فَتَبَیَّنُوْاطاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا ) - اگلی آیت مبارکہ میں جہاد کا لفظ بمعنی قتال آیا ہے۔ جہاں تک جہاد کی اصلی روح کا تعلق ہے تو ایک مؤمن گویا ہر وقت جہاد میں مصروف ہے۔ دعوت و تبلیغ بھی جہاد ہے ‘ اپنے نفس کے خلاف اطاعت الٰہی بھی جہاد ہے۔ ازروئے حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : (اَلمُجَاہِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہٗ ) (٢) بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا : اَیُّ الْجِہَادِ اَفْضَلُ ؟ سب سے افضل جہاد کون سا ہے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَنْ تُجَاہِدَ نَفْسَکَ وَھَوَاکَ فِیْ ذَات اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ) (٣) یہ کہ تم اپنے نفس اور اپنی خواہشات کے خلاف جہاد کرو انہیں اللہ کا مطیع بنانے کے لیے “۔ چناچہ جہاد کی بہت سی منازل ہیں ‘ جن میں سے آخری منزل قتال ہے۔ تاہم جہاد اور قتال کے الفاظ قرآن میں ایک دوسرے کی جگہ پر بھی استعمال ہوئے ہیں۔ قرآن میں الفاظ کے تین ایسے جوڑے ہیں جن میں سے ہر لفظ اپنے جوڑے کے دوسرے لفظ کی جگہ اکثر استعمال ہوا ہے۔ ان میں سے ایک جوڑا تو یہی ہے ‘ یعنی جہاد اور قتال کے الفاظ ‘ جبکہ دوسرے دو جوڑے ہیں مؤمن و مسلم اور نبی و رسول “۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :126 ابتدائے اسلام میں”السلام علیکم“ کا لفظ مسلمانوں کے لیے شعار اور علامت کی حیثیت رکھتا تھا اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دیکھ کر یہ لفظ اس معنی میں استعمال کرتا تھا کہ میں تمہارے ہی گروہ کا آدمی ہوں ، دوست اور خیر خواہ ہوں ، میرے پاس تمہارے لیے سلامتی و عافیت کے سوا کچھ نہیں ہے ، لہٰذا نہ تم مجھ سے دشمنی کرو اور نہ میری طرف سے عداوت اور ضرر کا اندیشہ رکھو ۔ جس طرح فوج میں ایک لفظ شعار ( ) کے طور پر مقرر کیا جاتا ہے اور رات کے وقت ایک فوج کے آدمی ایک دوسرے کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے اس غرض کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ فوج مخالف کے آدمیوں سے ممیز ہوں ، اسی طرح سلام کا لفظ بھی مسلمانوں میں شعار کے طور پر مقرر کیا گیا تھا ۔ خصوصیت کے ساتھ اس زمانہ میں اس شعار کی اہمیت اس وجہ سے اور بھی زیادہ تھی کہ اس وقت عرب کے نو مسلموں اور کافروں کے درمیان لباس ، زبان اور کسی دوسری چیز میں کوئی نمایاں امتیاز نہ تھا جس کی وجہ سے ایک مسلمان سرسری نظر میں دوسرے مسلمان کو پہچان سکتا ہو ۔ لیکن لڑائیوں کے موقع پر ایک پیچیدگی یہ پیش آتی تھی کہ مسلمان جب کسی دشمن گروہ پر حملہ کرتے اور وہاں کوئی مسلمان اس لپیٹ میں آجاتا تو وہ حملہ آور مسلمانوں کو یہ بتانے کے لیے کہ وہ بھی ان کا دینی بھائی ہے ” السلام علیکم“ یا ”لا الٰہ الا اللہ“ پکارتا تھا ، مگر مسلمانوں کو اس پر یہ شبہہ ہوتا تھا کہ یہ کوئی کافر ہے جو محض جان بچانے کے لیے حیلہ کر رہا ہے ، اس لیے بسا اوقات وہ اسے قتل کر بیٹھتے تھے اور اس کی چیزیں غنیمت کے طور پر لوٹ لیتے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہر موقع پر نہایت سختی کے ساتھ سرزنش فرمائی ۔ مگر اس قسم کے واقعات برابر پیش آتے رہے ۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس پیچیدگی کو حل کیا ۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے اس کے متعلق تمہیں سرسری طور پر یہ فیصلہ کر دینے کا حق نہیں ہے کہ وہ محض جان بچانے کے لیے جھوٹ بول رہا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ سچا ہو اور ہو سکتا ہے کہ جھوٹا ہو ۔ حقیقت تو تحقیق ہی سے معلوم ہو سکتی ہے ۔ تحقیق کے بغیر چھوڑ دینے میں اگر یہ امکان ہے کہ ایک کافر جھوٹ بول کر جان بچالے جائے ، تو قتل کر دینے میں اس کا امکان بھی ہے کہ ایک مومن بے گناہ تمہارے ہاتھ سے مارا جائے ۔ اور بہرحال تمہارا ایک کافر کو چھوڑ دینے میں غلطی کرنا اس سے بدرجہا زیادہ بہتر ہے کہ تم ایک مومن کو قتل کرنے میں غلطی کرو ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :127 یعنی ایک وقت تم پر بھی ایسا گزر چکا ہے کہ انفرادی طور پر مختلف کافر قبیلوں میں منتشر تھے ، اپنے اسلام کو ظلم و ستم کے خوف سے چھپانے پر مجبور تھے ، اور تمہارے پاس ایمان کے زبانی اقرار کے سوا اپنے ایمان کا کوئی ثبوت موجود نہ تھا ۔ اب یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے تم کو اجتماعی زندگی عطا کی اور تم اس قابل ہوئے کہ کفار کے مقابلہ میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے اٹھے ہو ۔ اس احسان کا یہ کوئی صحیح شکریہ نہیں ہے کہ جو مسلمان ابھی پہلی حالت میں مبتلا ہیں ان کے ساتھ تم نرمی و رعایت سے کام نہ لو ۔
59: اللہ کے راستے میں سفر کرنے سے مراد جہاد کے لئے سفر کرنا ہے، ایک واقعہ ایسا پیش آیا تھا کہ ایک جہاد کے دوران کچھ غیر مسلموں نے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرنے کے لئے صحابہ کرامؓ کو سلام کیا۔ وہ صحابہ یہ سمجھے کہ ان لوگوں نے صرف اپنی جان بچانے کے لئے سلام کیا ہے، اور حقیقت میں وہ مسلمان نہیں ہوئے، چنانچہ انہوں نے ایسے لوگوں کو قتل کردیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں یہ اصول بیان کردیا گیا کہ اگر کوئی شخص ہمارے سامنے اسلام لائے اور اسلام کے تمام ضروری عقائد کا اقرار کرلے تو ہم اسے مسلمان ہی سمجھیں گے، اور اس کے دل کا حال اللہ پر چھوڑیں گے۔ لیکن یہ سمجھ لینا چاہئے کہ آیت کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کھلے کھلے کفریہ عقائد رکھتا ہو، تو صرف ’’السلام علیکم‘‘ کہہ دینے کی بنا پر اسے مسلمان سمجھا جائے گا۔ 60: یعنی شروع میں تم بھی غیر مسلم ہی تھے، اﷲ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور تم مسلمان ہوئے، مگر تمہارے زبانی اقرار کے سوا تمہارے سچا مسلمان ہونے کی کوئی اور دلیل نہیں تھی، تمہارے ظاہری اقرار ہی کی بنا پر تمہیں مسلمان مانا گیا۔