Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مجاہد اور عوام میں فرق صحیح بخاری میں ہے کہ جب اس آیت کے ابتدائی الفاظ اترے کہ گھروں میں بیٹھ رہنے والے جہاد کرنے والے مومن برابر نہیں ، تو آپ اسے حضرت زید کو بلوا کر لکھوا رہے تھے اس وقت حضرت ابن ام مکتوم نابینا آئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو نابینا ہوں معذور ہوں اس پر الفاظ غیر اولی الضرر نازل ہوئے یعنی وہ بیٹھ رہنے والے جو بےعذر ہوں ان کا ذکر ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت زید اپنے ساتھ قلم دوات اور شانہ لے کر آئے تھے اور حدیث میں ہے کہ ام مکتوم نے فرمایا تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مجھ میں طاقت ہوتی تو میں ضرور جہاد میں شامل ہوتا اس پر وہ آیت اتری اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ران حضرت زید کی ران پر تھی ان پر اس قدر بوجھ پڑا قریب تھا کہ ران ٹوٹ جائے ۔ وہ حدیث میں ہے کہ جس وقت ان آیات کی وحی اتری اور اس کے بعد طمانیت آپ پر نازل ہوئی میں آپ کے پہلو میں تھا اللہ کی قسم مجھ پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کا ایسا بوجھ پڑا کہ میں نے اس سے زیادہ بوجھل چیز زندگی بھر کوئی اٹھائی پھر وحی ہٹ جانے کے بعد آپ نے عظیما تک آیت لکھوائی اور میں نے اسے شانے کی ہڈی پر لکھ لیا اور حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ابھی تو ابن ام مکتوم کے الفاظ ختم بھی نہ ہوئے تھے جو آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہوئی ، حضرت زید فرماتے ہیں وہ منظر اب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ بعد میں اترے ہوئے الفاظ کو میں نے ان کی جگہ پر اپنی تحریر میں بعد میں بڑھایا ہے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مراد بدر کی لڑائی میں جانے والے اور اس میں حاضر نہ ہونے والے ہیں ، غزوہ بدر کے موقعہ پر حضرت عبداللہ بن جعش اور حضرت عبداللہ بن ام مکتوم آکر حضور سے کہنے لگے ہم دونوں نابینا ہیں کیا ہمیں رخصت ہے؟ تو انہیں آیت قرآنی میں رخصت دی گئی ، پس مجاہدین کو جس قسم کے بیٹھ رہنے والوں پر فضلیت دی گئی ہے وہ وہ ہیں جو صحت و تندرستی والے ہوں ، پس پہلے تو مجاہدین کو جس قسم کے بیٹھ رہنے والوں پر فضلیت دی گئی ہے وہ وہ ہیں جو صحت وتندرستی والے ہوں ، پس پہلے تو مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر مطلقاً فضلیت تھی لیکن اسی وحی میں جو الفاظ اترے اس نے ان لوگوں کو جنہیں مباح عذر ہوں عام بیٹھ رہنے والوں سے مستثنیٰ کر دیا جیسے اندھے لنگڑے لولے اور بیمار ، یہ مجاہدین کے درجے میں ہیں ۔ پھر مجاہدین کی جو فضلیت بیان ہوئی ہے وہ ان لوگوں پر بھی ہے جو بےوجہ جہاد میں شامل نہ ہوئے ہوں ، جیسے کہ ابن عباس کی تفسیر گذری اور یہ ہونا بھی چاہئے بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ تم جس جہاد کے لئے سفر کرو اور جس جنگل میں کوچ کرو وہ تمہارے ساتھ اجر میں یکساں ہیں ، صحابہ نے کہا باوجودیکہ وہ مدینے میں مقیم ہیں ، آپ نے فرمایا اس لئے کہ انہیں عذر نے روک رکھا ہے اور روایت میں ہے کہ تم جو خرچ کرتے ہو اس کا ثواب بھی جو تمہیں ملتا ہے انہیں بھی ملتا ہے ، اسی مطلب کو ایک شاعر نے ان الفاظ میں یارا حلین الی البیت العتیق لقد سر تم جسو ماو سرنا نحن ارواحا انا اقمنا علی عذروعن قدر ومن اقام علی عذر فقدراحا یعنی اے اللہ کے گھر کے حج کو جانے والو اگر تم اپنے جسموں سمیت اس طرف چل رہے ہو لیکن ہم بھی اپنی روحانی روش سے اسی طرف لپکے جا رہے ہیں ، سنو ہماری جسمانی کمزوری اور عذر نے ہمیں روک رکھا ہے اور ظاہر ہے کہ عذر سے رک جانے والا کچھ جانے والے سے کم نہیں پھر فرمایا ہے ہر ایک سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ جنت کا اور بہت بڑے اجر کا ہے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے ، پھر ارشاد ہے ، مجاہدین کو غیر مجاہدین پر بڑی فضلیت ہے ۔ پھر ان کے بلند درجات ان کے گناہوں کی معافی اور ان پر جو برکت و رحمت ہے اس کا بیان فرمایا اور اپنی عام بخشش اور عام رحم کی خبر دی ۔ بخاری مسلم میں ہے جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے راہ کے مجاہدین کے لئے تیار کیا ہے ہر دو درجوں میں اس قدر فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین میں ، اور حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ کی راہ میں تیر چلائے اسے جنت کا درجہ ملتا ہے ایک شخص نے پوچھا درجہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ تمہارے یہاں کے گھروں کے بالا خانوں جتنا نہیں بلکہ دو درجوں میں سو سال کا فاصلہ ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

95۔ 1 جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور گھروں میں بیٹھ رہنے والے برابر نہیں تو حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم (نابینا صحابی) وغیرہ نے عرض کیا کہ ہم تو معذور ہیں جس کی وجہ سے ہم جہاد میں حصہ لینے سے مجبور ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ گھر میں بیٹھ رہنے کی وجہ سے جہاد میں حصہ لینے والوں کے برابر ہم اجر وثواب حاصل نہیں کرسکیں گے، اس پر اللہ تعالیٰ نے (غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ ) "004:095 بغیر عذر کے " کا استثناء نازل فرما دیا یعنی عذر کے ساتھ بیٹھ رہنے والے، مجاھدین کے ساتھ اجر میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ انہیں عذر نے روکا ہوا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد) 95۔ 2 یعنی جان و مال سے جہاد کرنے والوں کو جو فضیلت حاصل ہوگی، جہاد میں حصہ نہ لینے والے اگرچہ اس سے محروم رہیں گے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے دونوں کے ساتھ ہی بھلائی کا وعدہ کیا ہوا ہے اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ عام حالات میں جہاد فرض عین نہیں، فرض کفایہ ہے یعنی اگر بقدر ضرورت آدمی جہاد میں حصہ لے لیں تو اس علاقے کے دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی یہ فرض ادا شدہ سمجھا جائے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣٢] اس آیت کے شان نزول کے بارے میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :- براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ جب یہ آیت ( لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ غَيْرُ اُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجٰهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ 95؀ۙ ) 4 ۔ النسآء :95) اتری تو آپ نے زید بن ثابت (رض) کو بلایا انہوں نے یہ آیت لکھی۔ اتنے میں ابن ام مکتومص آئے اور شکوہ کیا کہ میں تو اندھا ہوں (میرا کیا قصور ؟ ) اس وقت اللہ تعالیٰ نے غیر اولی الضرر کے الفاظ نازل فرمائے (بخاری۔ کتاب التفسیر) - گویا اللہ تعالیٰ نے سیدنا عبداللہ (رض) بن ام مکتوم کے عذر کو قبول فرما لیا لیکن اس رخصت کے باوجود آپ کا جذبہ جہاد اتنا بلند تھا کہ نابینا ہونے کے باوجود آپ مشقت اٹھا کر بھی کئی غزوات میں شریک ہوئے۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان جنگ بدر میں شریک ہوئے اور جو نہیں ہوئے یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ (حوالہ ایضاً )- جہاد فرض عین نہیں :۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جہاد فرض عین نہیں اور اس کے کئی پہلو ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ معاشرہ میں کئی افراد بوڑھے، ناتواں، کمزور، اندھے، لنگڑے، لولھے، بیمار وغیرہ ہوتے ہیں جو جہاد پر جا ہی نہیں سکتے۔ جیسا کہ حدیث بالا سے ظاہر ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کچھ لوگ ملک کے اندرونی دفاع، مجاہدوں کے گھروں کی حفاظت، ان کے اہل و عیال کی دیکھ بھال کے لیے بھی ضرور پیچھے رہنے چاہئیں۔ اور اس لیے بھی کہ مجاہدین کو بروقت کمک مہیا کرتے رہیں، خواہ یہ رسد اور سامان خوردو نوش سے متعلق ہو یا افرادی قوت سے۔ پھر کچھ لوگ زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے بھی ضروری ہوتے ہیں اور ایسے سب لوگ بھی درجہ بدرجہ جہاد میں شامل سمجھے جاتے ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- خ جہاد سے معذور لوگ :۔ سیدنا انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم جب غزوہ تبوک سے واپس ہوئے اور مدینہ کے قریب پہنچے تو فرمایا مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جب تم کوئی سفر کرتے ہو یا کوئی وادی طے کرتے ہو تو وہ تمہارے ساتھ ہوتے ہیں صحابہ کرام نے پوچھا باوجود اس کے کہ وہ مدینہ میں ہوتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کسی عذر نے روک لیا ہے۔ (بخاری، کتاب المغازی۔ باب غزوہ تبوک۔۔ مسلم۔ کتاب الامارۃ، باب ثواب من حبسہ عن الغزو مرض او عذر آخر)- اور جہاد کے فرض عین نہ ہونے پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے ( وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّةً ١٢٢؀ ) 9 ۔ التوبہ :122) (مومنوں کے لیے ممکن ہی نہیں کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں) اور آج کل تو حکومتوں نے محکمہ دفاع ہی الگ بنا رکھا ہے۔ البتہ اگر ایک اسلامی حکومت جہاد کا اعلان کر کے عام لوگوں کو جہاد کے لیے کہے تو اس صورت میں عام لوگوں پر بھی جہاد فرض ہوجائے گا لیکن پھر بھی یہ فرض کفایہ ہی ہوگا۔ فرض عین نہیں ہوگا۔ تاہم جہاد ایک اہم فرض کفایہ ہے جس سے غفلت کا نتیجہ قوم کی موت کی صورت میں نکلتا ہے اور یہ تاقیامت جاری رہے گا۔- خ مجاہدین کے درجے :۔ دوسری بات جو اس آیت سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے والوں کے ہی دوسروں کی بہ نسبت درجات بلند ہوتے ہیں اور وہی اجر عظیم کے مستحق ہوتے ہیں۔ کیونکہ جان اور مال سے ہی انسان کو سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے پھر جس نے اللہ کی راہ میں ان دونوں چیزوں کی قربانی دے دی اس سے بڑھ کر کس کا درجہ ہوسکتا ہے۔ چناچہ سیدنا ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا لوگوں میں سب سے افضل کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرے۔ (بخاری، کتاب الجہاد۔ باب افضل الناس مومن یجاہد بنفسہ ومالہ اور سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے تیار کیا ہے اور ہر درجہ کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان ہے۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ )- خ صوفیاء کا جہاد اصغر اور جہاد اکبر کا نظریہ :۔ اس مقام پر ایک عوامی عقیدہ کا جائزہ لینا ضروری معلوم ہوتا ہے جس کا صوفیہ کے طبقہ نے ریاضت و مجاہدہ کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے خوب خوب پرچار کیا ہے اور وہ عقیدہ یہ ہے کہ جہاد بالسیف جہاد اصغر ہے اور نفس سے جہاد کرنا جہاد اکبر ہے اور جہاد اصغر سے جہاد اکبر بہتر ہے۔ اس سلسلہ میں اس حدیث کا سہارا لیا جاتا ہے والْمُجَاھِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہُ فِیْ طَاعَۃِ اللّٰہِ مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کرے۔- اس حدیث میں فی طاعۃ اللہ کے الفاظ اس گمان باطل کو رد کرنے کے لیے کافی ہیں۔ کیونکہ ان کے ریاضت و مجاہدہ میں بیشمار ایسی چیزیں ہیں جو صریحاً کتاب و سنت کے خلاف ہیں مثلاً ترک نکاح، چلے کاٹنا اور اپنے جسم کی تعذیب اور اسے مختلف طریقوں سے مضمحل کر کے کمزور بنانا وغیرہ اور حقیقت یہ ہے کہ ان کے ایسے کام مجاہدہ نفس نہیں بلکہ نفس کشی ہوتی ہے اور فی طاعۃ اللہ کے بجائے فی معصیۃ اللہ ہوتی ہے اور اللہ کی اطاعت اور اسلامی نقطہ نگاہ سے ان چیزوں کا دور کا بھی تعلق نہیں۔- یہ حدیث بیہقی نے شعب الایمان میں فضالہ سے روایت کی ہے کہ جس کے پورے الفاظ یہ ہیں اور مجاہد وہ ہے جس نے اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کیا اور مہاجر وہ ہے جس نے چھوٹے اور بڑے گناہوں کو چھوڑا۔ ظاہر ہے کہ اس حدیث میں جہاد اور ہجرت کے اس پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے جس طرف ذہن عموماً منتقل نہیں ہوتا۔ بتایا یہ گیا ہے کہ جہاد اور ہجرت کا ایک پہلو یہ بھی ہے۔ ورنہ جس طرح ہجرت وہی ہے جو مسلمانوں نے فتح مکہ سے پہلے کی ہے یا ایسے حالات میں مسلمان اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کریں۔ اسی طرح جہاد حقیقتاً وہی ہے جسے جہاد بالسیف کہا جاتا ہے اور ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔- اس آیت میں صوفیاء کے اس نظریہ کی پرزور تردید موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دوبارہ فرمایا کہ جو لوگ اپنی جانوں اور اپنے اموال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں وہ بیٹھنے والوں سے افضل ہیں اور یہ تو ظاہر ہے کہ نفس سے خواہ کوئی کس انداز سے مجاہدہ کرے وہ بیٹھنے والوں میں ہی شامل رہے گا۔ مجاہدین فی سبیل اللہ میں شامل نہیں ہوسکتا۔- علاوہ ازیں ارشادات نبوی سے بھی یہی بات صراحت سے ثابت ہوتی ہے کہ جہاد کو آپ نے افضل الاعمال قرار دیا ہے۔- صوفیاء نے اپنے اس نظریہ کو درست ثابت کرنے کے لیے ایک موضوع حدیث بھی گھڑ رکھی ہے جو یہ ہے کہ آپ نے ایک دفعہ جہاد سے واپسی پر فرمایا کہ رجعنا من الجھاد الا صغر الی الجھاد الاکبر ہم چھوٹے جہاد (یعنی جہاد بالسیف) سے بڑے جہاد (یعنی جہاد بالنفس) کی طرف لوٹ آئے ہیں۔- اس حدیث کے متعلق مولانا حسین احمد مدنی کہتے ہیں کہ صوفیاء اس کو حدیث کہتے ہیں لیکن امام عسقلانی کہتے ہیں کہ امام نسائی نے اسے ابراہیم بن عیلہ کا قول بتایا ہے۔ الفاظ کی رکاکت زبردست قرینہ ہے کہ یہ نبی اکرم کا قول نہیں ہوسکتا اور نہ حدیث کی کتابوں میں شاہ عبدالعزیز جیسے معتبر محدث نے دیکھا ہے۔ ایسی احادیث کا فیصلہ محدثین کے اصول و قواعد کی رو سے کیا جائے گا بیچارے صوفیاء جن پر حسن ظن کا غلبہ رہتا ہے۔ ان حضرات کو تنقید و تفتیش کی فرصت کہاں ؟ ان کے حسن ظن سے کسی قول کا حدیث رسول ہونا تو ثابت نہیں ہوجائے گا۔ (مکتوبات شیخ الاسلام ٣٠٧۔ ٣٠٨ بحوالہ اسلامی تصوف یوسف سلیم چشتی ١٢٣)- صوفیہ کے اس نظریہ نے مسلمانوں کو جتنا نقصان پہنچایا شاید ہی کسی اور وجہ سے پہنچا ہو اس نظریہ نے مسلمانوں سے جہاد کی روح کو ختم کر کے دنیا میں ذلیل اور رسوا بنادیا اور ایسے افعال سے مجاہدہ نفس شروع کیا جس سے انسانیت کو بھی شرم آنے لگے۔ دسویں صدی ہجری کے اواخر تک اس نظریہ نے مسلمانوں کو اس قدر مفلوج، کاہل اور بےفہم بنادیا تھا کہ فرانسیسی فاتحین کے حملوں کا دفاع جامعہ ازہر میں بیٹھ کر اور ادو وظائف کے ذریعے کر رہے تھے۔ نابلیوں کا انتخاب کر کے انہیں صوفیاء کی گودڑی پہنائی گئی اور اس کی رہنمائی میں ذکر و فکر کی مجالس قائم کی گئیں۔ بخاری شریف کا ختم بھی کرایا گیا۔ لیکن ان سب باتوں کا کچھ بھی فائدہ نہ ہوا اور مسلمان مار ہی کھاتے رہے۔ بالآخر جب مسلمان مجاہدین نے یورپ کی سرزمین میں لوگوں سے جنگیں کیں تب جا کر حالات نے پلٹا کھایا۔ (مقدمہ الفکرا لصوفی ٦)- اس گوشہ نشینی کا جو اثر ان صوفیاء کی ذات پر مترتب ہوتا ہے وہ ابوبکر شبلی کی زبانی ملاحظہ فرمائیے۔ روایت ہے کہ کچھ عرصہ شبلی اپنے مقام سے غائب رہے۔ ہرچند تلاش کیا پتہ نہ چلا۔ ایک روز محفلوں کے گروہوں میں دیکھے گئے۔ لوگوں نے پوچھا اے شیخ یہ کیا بات ہے ؟ فرمایا : یہ گروہ (صوفیہ) دنیا میں نہ مرد ہیں نہ عورت۔ میں بھی اسی حالت میں گرفتار ہوں نہ مرد ہوں نہ عورت پس ناچار میری جگہ انہی میں ہے۔ (خزینۃ الاصفیاء ص ١٤٧)- خ شیخ جنید کے مریدوں کا جہاد بالسیف :۔ شبلی کے پیر و مرشد جنید بغدادی کے مریدوں کو ایک دفعہ جہاد بالسیف کا شوق چرایا یہ داستان اس طرح ہے کہ شیخ جنید کے آٹھ مرید تھے جو سب کے سب کامل و اکمل تھے۔ ایک روز انہوں نے خدمت شیخ میں عرض کی کہ اے شیخ شہادت ایک عجیب نعمت جان فزا ہے اس لیے شہادت کے لیے جہاد کرنا چاہیے شیخ نے ان کی تائید کی اور ان کے ساتھ ملک روم کی طرف جہاد کے لیے چل پڑے۔ ایک جگہ کفار سے مقابلہ ہوگیا۔ ایک گبر (آتش پرست) کے ہاتھوں شیخ کے آٹھوں مرید ایک ایک کر کے شہید ہوگئے۔ شیخ فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت ہوا میں نو کجاوے معلق دیکھے۔ میرے ساتھیوں میں سے جو شہید ہوتا تھا، اس کی روح ایک کجاوے میں رکھتے اور آسمان کی طرف لے جاتے۔ آخر ایک کجاوہ باقی رہ گیا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ کجاوہ میرے لیے ہے اور جنگ میں مشغول ہوگیا دوران جنگ وہی گبر جس نے میرے ساتھیوں کو شہید کیا تھا میرے پاس آیا اور کہا : ابو القاسم یہ آخری کجاوہ میرے لیے ہے۔ تو واپس بغداد چلا جا اور اپنی قوم کی قیادت و سیادت کر اور اپنا مذہب میرے سامنے پیش کر۔ میں نے اسے تلقین کی وہ مسلمان ہوا اور کفار سے لڑتا ہوا شہید ہوگیا۔ میں نے دیکھا کہ اس آخری کجاوے میں اس کی روح کو آسمان کی طرف لے گئے ہیں (خزینۃ الاصفیاء ص ١٤٢)- خ جہاد اکبر کے اس نظریہ کے اثرات :۔ خزینۃ الاصفیاء کی اس روایت سے درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں :- ١۔ اللہ تعالیٰ نے ابتداًء ایمان کا یہ معیار بتایا تھا کہ ایک مومن دس کافروں پر غالب ہونا چاہیے۔ بعد ازاں اس میں تخفیف کر کے یہ معیار مقرر ہوا کہ کم از کم ایک مومن کو دو کافروں پر ضرور بھاری ہونا چاہیے۔ مگر یہاں یہ صورت حال ہے کہ شیخ جنید کے آٹھ کامل و اکمل مرید ایک کافر کے ہاتھوں شہید ہو رہے ہیں چاہیے تو یہ تھا کہ اگر انہیں شہادت کا اتنا ہی شوق تھا تو بیس پچیس کافروں کو مار کر خود شہید ہوتے۔ مگر یہ سب ایک کافر کے ہاتھوں یوں مارے جا رہے ہیں جیسے قصاب بکروں کو ذبح کرتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ معیار کے مطابق ان میں ایمان کا جتنا حصہ تھا وہ آپ خود ہی اندازہ فرما لیجئے۔ یہی وہ قباحت ہے جس کی بنا پر اسلام نے رہبانیت یا طریقت کو مذموم قرار دیا۔- ٢۔ شیخ جنید بغدادی کو خود اپنی شہادت کا بھی خطرہ لاحق ہو چلا تھا۔ وہ تو خیریت گزری کہ اس گبر کا نور فراست شیخ جنید کے نور فراست سے زیادہ تھا اور اس گبر کو شیخ جنید سے پہلے معلوم ہوگیا کہ نواں کجا وہ شیخ کے لیے نہیں بلکہ میرے لیے ہے۔- ٣۔ اسلام لانے کا یہ بھی کیسا انوکھا طریقہ ہے کہ کافر خود کسی مسلمان کو کہے کہ میرے سامنے اسلام پیش کر تاکہ میں اسلام لاؤں۔ بہرحال ولایت کی دنیا الگ ہے اور بمصداق رموز مملکت خویش خسرواں دانند یہ بات بھی تسلیم کر ہی لینی چاہیے۔- ٤۔ البتہ اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ روم تو سارا عہد فاروقی اور عہد عثمانی میں فتح ہوچکا تھا اور شیخ جنید کے زمانہ میں بغداد سے لے کر روم تک سارا علاقہ اسلامی مملکت میں شامل تھا تو روم کے راستے میں ان کو کفار کا لشکر کہاں ملا تھا ؟- ٥۔ اس قصہ سے بہرحال یہ ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ صوفیہ کے اس نظریہ جہاد اکبر کے نظریہ نے مسلمانوں کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے۔- [١٣٣] اور تیسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ جنت میں داخلہ کے لیے جہاد لازمی شرط نہیں ہے بلکہ توحید پر ثابت قدم رہنے والے اور دوسرے احکام الہی بجا لانے والے مسلمان بھی جنت میں ضرور جائیں گے اگرچہ انکے درجات مجاہدین فی سبیل اللہ سے کم ہوں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ۔۔ : جہاد کے فرض عین ہونے کی صورت میں تو کسی شخص کو بلا عذر گھر میں بیٹھے رہنے کی اجازت ہی نہیں بلکہ ایسی صورت میں جہاد میں شامل نہ ہونا صریح نفاق ہے، مگر جب نفیر عام (سب کے نکلنے) کا حکم نہ ہو اور امام کی طرف سے یہ اعلان کیا جائے کہ جو شخص جہاد کے لیے نکل سکتا ہو نکلے اور جو اپنے کام کی وجہ سے نہیں نکل سکتا اسے اپنے گھر میں بیٹھے رہنے کی اجازت ہے۔ ایسی صورت میں جو شخص جہاد کے لیے نکلے اس آیت میں اس کی فضیلت کا ذکر ہے یعنی جہاد کے لیے نکلنا لازم نہ ہونے کے باوجود جو لوگ جہاد کے لیے نکلتے ہیں اور جو گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بلایا، میں کتابت کے لیے حاضر ہوا تو عبداللہ بن ام مکتوم، جو نابینا تھے، آگئے اور کہنے لگے، اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول اگر میں آپ کے ساتھ جہاد کرسکتا ہوتا تو ضرور کرتا، تو اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل فرمائی اور ” غیر اولی الضرر “ ( جو کسی تکلیف والے نہیں) کا کلمہ نازل ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے لکھوا دیا۔ [ بخاری التفسیر، باب : ( لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ) : ٤٥٩٢ ] معلوم ہوا کہ جس شخص کی نیت جہاد کی ہو مگر اسے کوئی تکلیف ہو اور وہ کسی عذر کی بنا پر جہاد میں شریک نہ ہو سکے وہ مجاہدین کے برابر ہوسکتا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مدینہ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ تم نے جس قدر سفر کیا اور جتنی وادیاں طے کیں وہ تمہارے ساتھ تھے۔ “ صحابہ نے عرض کیا : ” اے اللہ کے رسول وہ تو مدینہ میں ہیں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” (ہاں) اگرچہ وہ مدینہ میں ہیں، لیکن انھیں کسی عذر نے جہاد میں شرکت سے روکا ہے۔ “ [ بخاری، المغازی، بابٌ : ٤٤٢٣، عن أنس ] کئی دوسری روایات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمانوں میں سے کسی شخص کو بھی اس کے جسم میں کوئی آزمائش آتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان محافظ فرشتوں کو حکم دیتا ہے جو اس کی حفاظت کرتے ہیں کہ میرے بندے کے لیے اسی طرح عمل لکھ دو جس طرح وہ اس وقت عمل کرتا تھا جب وہ تندرست تھا جب تک وہ میری گرفت میں رہے۔ [ احمد، ٢؍٢٠٥ ح : ٦٩٣٠ صحیح علی شرط مسلم۔ بخاری : ٢٩٩٦ ]- وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰي ۭ : یعنی جان و مال سے جہاد کرنے والوں کو جو فضیلت حاصل ہوگی، جہاد میں حصہ نہ لینے والے اگرچہ اس سے محروم رہیں گے، تاہم اللہ تعالیٰ نے دونوں کے ساتھ ہی بھلائی کا وعدہ کیا ہے۔ اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ عام حالات میں جہاد کے لیے نکلنا فرض عین نہیں، فرض کفایہ ہے، یعنی اگر بقدر ضرورت آدمی جہاد میں حصہ لے لیں تو اس علاقے کے دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی یہ فرض ادا شدہ سمجھا جائے گا، لیکن اگر بقدر ضرورت نہ نکلیں تو تمام لوگ گناہ گار ہوں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

جہاد سے متعلقہ چند احکام :۔ دوسری آیت یعنی لایستوی القعدون من المومنین میں چند احکام جہاد کو بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ بغیر کسی معذوری کے شریک جہاد نہیں ہوتے وہ ان لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جو اللہ کی راہ میں اپنے جان و مال سے جہاد کرتے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو غیر مجاہدین پر درجہ میں فضیلت اور برتری دی ہے، ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں فریق یعنی مجاہدین وغیر مجاہدین سے اچھی اجزاء کا وعدہ کیا ہوا ہے، جنت و مغفرت دونوں کو حاصل ہوں گی، فرق درجات کا رہے گا۔- علماء تفسیر نے فرمایا کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے کہ بعض لوگ اس کو ادا کریں تو باقی مسلمان سبکدوش ہوجاتے ہیں، بشرطیکہ جو لوگ جہاد میں مشغول ہیں وہ اس جہاد کے لئے کافی ہوں اور اگر وہ کیا نہیں تو ان کے قرب و جوار کے مسلمانوں پر فرض عین ہوجائے گا کہ مجاہدین کی مدد کریں۔- فرض کفایہ کی تعریف :۔ فرض کفایہ شریعت میں ایسے ہی فرائض کو کہا جاتا ہے جن کی ادائیگی ہر فرد مسلم پر ضروری نہیں بلکہ بعض کا کرلینا کافی ہے اور عموماً قومی اور اجتماعی کام اسی درجہ میں ہیں، علوم دینیہ کی تعلیم و تبلیغ بھی ایسا ہی فرض ہے کہ چھ لوگ اس میں مشغول رہیں اور وہ کافی بھی ہوں تو دوسرے مسلمان اس فریضہ سے سبکدوش ہوجاتے ہیں لیکن جہاں کوئی بھی مشغول نہ ہو تو سب گنہگار ہوتے ہیں۔- نماز جنازہ اور تجہیز و تکفین بھی ایک قومی چیز ہے کہ ایک بھائی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کا حق ادا کرتا ہے اور اس کا حکم بھی یہی ہے مساجد اور مدارس بنانا اور دوسرے رفاہ عامہ کے کام سر انجام دینا اسی حکم میں داخل ہیں، یعنی بعض مسلمان کرلیں تو باقی سبکدوش ہوجاتے ہیں۔- عام طور پر وہ احکام جو اجتماعی اور قومی ضرورتوں سے متعلق ہیں ان کو شریعت اسلام نے فرض کفایہ ہی قرار دیا ہے، تاکہ تقسیم عمل کے اصول پر تمام فرائض کی ادائیگی ہو سکے، کچھ لوگ جہاد کا کام انجام دیں، کچھ تعلیم و تبلیغ کا، کچھ دوسری اسلامی یا انسانی ضروریات مہیا کرنے کا۔- اس آیت میں وکلاً وعد اللہ الحسنی فرما کر ان لوگوں کو بھی مطمئن فرما دیا ہے جو جہاد کے علاوہ اسلام کے دشمنوں کی مدافعت کے لئے کافی ہو اور اگر ان کا جہاد کافی نہ رہے ان کو مزید کمک کی ضرورت ہو تو اول قرب و جوار کے مسلمانوں پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے وہ بھی کافی نہ ہو تو ان کے آس پاس کے لوگوں پر فرض عین ہوجاتا ہے اور وہ بھی کافی نہ رہیں تو دوسرے مسلمانوں پر یہاں تک کہ مشرق و مغرب کے ہر مسلمان کا یہ فرض ہوجاتا ہے کہ اس میں شریک ہو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ غَيْرُ اُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجٰہِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ۝ ٠ۭ فَضَّلَ اللہُ الْمُجٰہِدِيْنَ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ عَلَي الْقٰعِدِيْنَ دَرَجَۃً۝ ٠ۭ وَكُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰي۝ ٠ۭ وَفَضَّلَ اللہُ الْمُجٰہِدِيْنَ عَلَي الْقٰعِدِيْنَ اَجْرًا عَظِيْمًا۝ ٩٥ۙ- استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے - قعد - القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] ، والمَقْعَدُ :- مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له .- نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ- [ المائدة 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] أي :- ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه .- قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج :- خشباته الجارية مجری قواعد البناء .- ( ق ع د ) القعود - یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معیں کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - جهد - الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال :- جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب :- مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان .- ومجاهدة النفس .- وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» - ( ج ھ د ) الجھد - والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور - جہا دتین قسم پر ہے - ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔- - ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- درج - الدّرجة نحو المنزلة، لکن يقال للمنزلة : درجة إذا اعتبرت بالصّعود دون الامتداد علی البسیطة، کدرجة السّطح والسّلّم، ويعبّر بها عن المنزلة الرفیعة : قال تعالی: وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة 228] - ( د ر ج ) الدرجۃ - : کا لفظ منزلہ ميں اترنے کی جگہ کو درجۃ اس وقت کہتے ہیں جب اس سے صعود یعنی اوپر چڑھتے کا اعتبار کیا جائے ورنہ بسیط جگہ پر امدیاد کے اعتبار سے اسے درجۃ نہیں کہتے جیسا کہ چھت اور سیڑھی کے درجات ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا اطلاق مزدلہ رفیع یعنی - بلند مرتبہ پر بھی ہوجاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة 228] البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے ۔ - حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

شوق جہا دمیں سرشار ہونے کی فضیلت - قول باری ہے (لایستوی القاعدون من المومنین غیراولی الضرر والمجاھدون فی سبیل اللہ، ماسواے معذوروں کے گھربیٹھ رہنے والے اہل ایمان اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مسلمان یکساں نہیں ہیں) تاآخر آیت۔- اس سے مراد یہ ہے کہ مجاہدین کو قاعدین پر فضیلت حاصل ہے ، اس میں جہاد کی ترغیب وتحریص ہے مجاہدین فی سبیل اللہ کو اجر وثواب کا جو مرتبہ حاصل ہے ، وہ جہاد سے بیٹھ رہنے والوں کو حاصل نہیں ہوگا، اس میں یہ دلالت بھی ہے کہ اجروثواب کی بلندی کا دارومدار عمل کی بلندی پر ہے ۔ آیت کے ابتداء میں یہ بیان فرمایا کہ یہ دونوں گروہ مرتبے میں یکساں نہیں ہیں پھر اس فضیلت کی تفصیل اس ارشاد کے ذریعے واضح کردی کہ (فضل اللہ المجاھدون باموالھم وانفسھم علی القاعدین درجہ، اللہ تعالیٰ نے بیٹھ رہنے والوں کی بہ نسبت جان ومال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑارکھا ہے ) آیت۔- آیت میں لفظ ، غیر، کو مرفوع اور منصوب پڑھا گیا ہے ، مرفوع تو اس بنا پر کہ ، یہ القاعدین کی صفت ہے اور منصوب اس بنا پر یہ حال ہے ایک قول کہ اس میں رفع مختار قرات ہے اس لیے کہ لفظ غیر میں استثناء کے معنی کے مقابلے مین صفت کے معنی زیادہ غالب ہوتے ہیں ، اگرچہ اس میں دونوں صورتیں جائز ہوتی ہیں۔- ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ استثناء کی صورت میں، غیر، کا لفظ کل سے بعض کے اخراج کا موجب ہوتا ہے مثلا ، جانی القوم غیرزید، میرے پاس زید کے سوا ساری قوم آئی، صفت کی صورت میں یہ بات نہیں ہوتی، اس لیے آپ یہ کہتے ہیں ، جاءنی رجل غیر زید، میرے پاس ایک شخص آیاجوزید نہیں تھا۔ اس جملے میں، غیر، صفت واقع ہوا ہے جبکہ پہلے جملے میں یہ استثناء کے معنی دے رہا ہے اگرچہ دونوں صورتوں میں یہ نفی کے معنوں کی تخصیص کررہا ہے۔- قول باری ہے (وکلاوعداللہ الحسنی، اگرچہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے (یعنی ، واللہ اعلم، اہل ایمان میں سے مجاہدین اور قاعدین دونوں کو، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کافروں سے جہاد فرض کفاریہ ہے ہر شخص پر یہ فرض نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قاعدین کے ساتھ بھی بھلائی کا وعدہ فرمایا ہے جس طرح مجاہدین کے ساتھ اس کا وعدہ کیا ہے اگرچہ مجاہدین کو ملنے والاثواب زیادہ عظیم وجلیل ہے۔- اگر ایک گروہ کی طرف سے فریضہ جہاد ادا کرنے کی صورت میں باقی ماندہ لوگوں کے لیے جہاد سے بیٹھ رہنا مباح نہ ہوتا توقاعدین سے ثواب کا وعدہ نہ ہوتا، اس میں ہماری مذکورہ بات کی دلیل موجود ہے کہ فریضہ جہاد ہر شخص پر ذاتی لحاظ سے متعین نہیں ہے۔- قول باری ہے (وفضل اللہ المجاھدین علی القاعدین اجراعظیما، درجات منہ ، مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھ رہنے والوں سے بہت زیادہ ہے ان کے لیے اللہ کی طرف سے بڑے درجے ہیں، یہاں اللہ تعالیٰ نے درجات منہ ، فرمایا اور آیت کی ابتداء میں درجۃ فرمایا۔- اس سلسلے میں ابن جریج سے مروی ہے مجاہدین کو اہل الضرر یعنی معذوروں پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے اور غیراہل الضرر پر انہیں کئی درجے فضیلت ہے اور ان کے لیے اجرعظیم بھی ہے ۔ ایک قول ہے کہ پہلے صورت جہاد بالنفس کی ہے کہ اس میں مجاہدین کو ایک درجہ فضیلت حاصل ہوتی ہے اور دوسری صورت جہاد بالنفس والمال کی ہے کہ اس میں کئی درجے فضیلت ہے ، ایک قول یہ بھی ہے کہ پہلی صورت میں مدح، تعظیم، اور دینی لحاظ سے شرف اور بلندی کا درجہ مراد ہے اور دوسری صورت میں جنت کے درجے مراد ہیں۔- اگریہ کہاجائے کہ کیا آیت میں یہ دلالت موجود ہے کہ اہل ضرر اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے ہم پلہ ہیں اس لیے کہ آیت میں استثناء کا معنی بھی مووجد ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ آیت میں دونوں گروہوں کی یکسانیت پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔- کیونکہ استثناء ک اورود اس موقعہ پر ہوا ہے جس میں آیت ک اورود جہاد کی ترغیب وتحریض کے لیے ہوا تھا، اہل ضرر کو اس سے مستثنی کردیا گیا کیونکہ ایسے لوگوں کو جہاد کا حکم ہی نہیں دیا گیا ان کا استثناء ، اس لحاظ سے نہیں ہوا کہ مجاہدین کے ساتھ ان کا الحاق کردیا گیا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٥۔ ٩٦) یہاں سے اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے ثواب کو بیان کر رہے ہیں یعنی معذورین جن کو تنگی اور ضعف بدن اور ضعف بصر کی شکایت ہو، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم اور حضرت عبداللہ بن بخش اسدی ان کے علاوہ اور حضرات ان لوگوں کے برابر نہیں جو اپنی جان ومال سے جہاد کرتے ہیں۔- اور مجاہدین اور قاعدین (کی وجہ سے جہاد میں نہ جانے والے ہر ایک کو ایمان پر جنت ملے گی، مگر مجاہدین کو، بغیر عذر کے جہاد نہ کرنے والوں پر جنت میں بہت بلند مقام ملے گا اور ان کو ثواب ومغفرت کے عظیم درجات ملیں گے اور جو جہاد کے لیے روانہ ہو اور نہ روانہ ہونے پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے اور اسی حالت ندامت و استغفار میں انتقال کر جائے تو اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” لا یستوی القاعدون “۔ (الخ)- بشارت خداوندی امام بخاری (رح) نے براء بن عازب (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جس وقت (آیت) ” لا یستوی القاعدون “۔ (الخ) یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، فلان کو بلاؤ، چناچہ وہ آئے اور ان کے ساتھ دوات، تختی اور قلم تھا، آپ نے ارشاد فرمایا، کہ آیت لکھو (آیت) ” لایستوی القاعدون من ال مومنین “۔ (الخ) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے ابن ام مکتوم موجود تھے، انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نابینا ہوں تو پھر اللہ کی جانب سے (آیت) ” غیر اولی الضرر “۔ لفظ بھی نازل ہوگیا۔- نیز امام بخاری (رح) نے زید بن ثابت (رض) سے اور طبرانی نے زید بن ارقم سے اور ابن حبان نے فلتان بن عاصم سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور امام ترمذی (رح) نے ابن عباس (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے مگر اس میں اتنا اضافہ ہے کہ عبداللہ بن جحش (رض) اور ابن ام مکتوم (رض) نے عرض کیا کہ ہم دونوں نابینا ہیں۔- اور ابن جریر (رح) نے بہت سے طریقوں سے اسی طرح مرسل روایتیں نقل کی ہیں۔- یہاں سے اللہ تعالیٰ مجاہدین کے ثواب کو بیان کررہے ہیں یعنی معذورین جن کو تنگی اور ضعف بدن اور ضعف بصر کی شکایت ہو، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم اور حضرت عبداللہ بن جحش اسدی ان کے علاوہ اور حضرات ان لوگوں کے برابر نہیں جو اپنی جان ومال سے جہاد کرتے ہیں۔- اور مجاہدین اور قاعدین (کی وجہ سے جہاد میں نہ جانے والے ہر ایک کو ایمان پر جنت ملے گی، مگر مجاہدین کو، بغیر عذر کے جہاد نہ کرنے والوں پر جنت میں بہت بلند مقام ملے گا اور ان کو ثواب ومغفرت کے عظیم درجات ملیں گے، اور جو جہاد کے لیے روانہ ہو اور نہ روانہ ہونے پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے اور اسی حالت ندامت و استغفار میں انتقال کرجائے تو اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٥ (لَایَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ ط ) (فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰہِدِیْنَ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَۃً ط) دَرَجَۃً کی تنکیر تفخیم کے لیے ہے ‘ یعنی بہت بڑا درجہ۔ یہاں قتال فی سبیل اللہ کے لیے نکلنے کی بات ہو رہی ہے کہ جو کسی معقول عذر کے بغیر قتال کے لیے نہیں نکلتاوہ اس کے برابر ہرگز نہیں ہوسکتا جو قتال کر رہا ہے۔ اگر کوئی اندھا ہے ‘ دیکھنے سے معذور ہے یا کوئی لنگڑا ہے ‘ چل نہیں سکتا ‘ ایسے معذور قسم کے لوگ اگر قتال کے لیے نہ نکلیں تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن ایسے لوگ جن کو کوئی ایسا عذر نہیں ہے ‘ پھر بھی وہ بیٹھے رہیں ‘ یہاں انہی لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ درجے میں مجاہدین کے برابر ہرگز نہیں ہوسکتے۔ اور یہ بھی نوٹ کرلیجئے کہ یہ ایسے قتال کی بات ہو رہی ہے جس کی حیثیت اختیاری ( ) ہو ‘ لازمی قرار نہ دیا گیا ہو۔ جب اسلامی ریاست کی طرف سے قتال کے لیے نفیر عام ہوجائے تو معذورین کے سوا سب کے لیے نکلنا لازم ہوجاتا ہے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ قتال کے لیے پہلی دفعہ نفیر عام غزوۂ تبوک (سن ٩ ہجری) میں ہوئی تھی۔ اس سے پہلے قتال کے بارے میں صرف ترغیب ( ) تھی کہ نکلو اللہ کی راہ میں ‘ حکم نہیں تھا۔ لہٰذا کوئی جواب طلبی بھی نہیں تھی۔ کوئی چلا گیا ‘ کوئی نہیں گیا ‘ کوئی گرفت نہیں تھی۔ لیکن غزوہ ‘ تبوک کے لیے نفیر عام ہوئی تھی ‘ باقاعدہ ایک حکم تھا ‘ لہٰذا جو لوگ نہیں نکلے ان سے وضاحت طلب کی گئی ‘ ان کا مؤاخذہ کیا گیا اور ان کو سزائیں بھی دی گئیں۔ تو یہاں چونکہ اختیاری قتال کی بات ہو رہی ہے اس لیے یہ نہیں کہا جا رہا کہ ان کو پکڑو اور سزا دو ‘ بلکہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ قتال کرنے والے مجاہدین اللہ کی نظر میں بہت افضل ہیں۔ اس سے پہلے ایسے قتال کے لیے اسی سورة (آیت ٨٤) میں (وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ ) کا حکم ہے ‘ یعنی مومنین کو قتال پر اکسائیے ‘ ترغیب دیجئے ‘ آمادہ کیجئے۔ لیکن یہاں واضح انداز میں بتایا جا رہا ہے کہ قتال کرنے والے اور نہ کرنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ - ( وَکُلاًّ وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی ط) ۔- چونکہ ابھی قتال فرض نہیں تھا ‘ نفیر عام نہیں تھی ‘ سب کا نکلنا لازم نہیں کیا گیا تھا ‘ اس لیے فرمایا گیا کہ تمام مؤمنین کو ان کے اعمال کے مطابق اچھا اجر دیا جائے گا۔ قتال کے لیے نہ نکلنے والوں نے اگر اتنی ہمت نہیں کی اور وہ کمتر مقام پر قانع ہوگئے ہیں تو ٹھیک ہے ‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سلسلے میں ان پر کوئی گرفت نہیں ہوگی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :128 یہاں ان بیٹھنے والوں کا ذکر نہیں ہے جن کو جہاد پر جانے کا حکم دیا جائے اور وہ بہانے کر کے بیٹھ رہیں ، یا نفیر عام ہو اور جہاد فرض عین ہو جائے پھر بھی وہ جنگ پر جانے سے جی چرائیں ۔ بلکہ یہاں ذکر ان بیٹھنے والوں کا ہے جو جہاد کے فرض کفایہ ہونے کی صورت میں میدان جنگ کی طرف جانے کے بجائے دوسرے کاموں میں لگے رہیں ۔ پہلی دو صورتوں میں جہاد کے لیے نہ نکلنے والا صرف منافق ہی ہو سکتا ہے اور اس کے لیے اللہ کی طرف سے کسی بھلائی کا وعدہ نہیں ہے اِلّا یہ کہ وہ کسی حقیقی معذوری کا شکار ہو ۔ بخلاف اس کے یہ آخری صورت ایسی ہے جس میں اسلامی جماعت کی پوری فوجی طاقت مطلوب نہیں ہوتی بلکہ محض اس کا ایک حصہ مطلوب ہوتا ہے ۔ اس صورت میں اگر امام کی طرف سے اپیل کی جائے کہ کون سرباز ہیں جو فلاں مہم کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں ، تو جو لوگ اس دعوت پر لبیک کہنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں وہ افضل ہیں بہ نسبت ان کے جو دوسرے کاموں میں لگے رہیں ، خواہ وہ دوسرے کام بھی بجائے خود مفید ہی ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

61: یہ اس حالت کا ذکر ہے جب جہاد ہر شخص کے ذمے فرض عین نہ ہو۔ ایسے میں جو لوگ جہاد میں جانے کے بجائے گھر میں بیٹھ گئے، اگرچہ ان پر کوئی گناہ نہیں ہے اور ان کے ایمان اور دوسرے نیک کاموں کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے ان سے جنت کا وعدہ کیا ہوا ہے، لیکن جو لوگ جہاد میں گئے ہیں ان کا درجہ گھر بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے۔ البتہ جہاں جہاد فرض عین ہوجائے، یعنی جب مسلمانوں کا امیر تمام مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیدے یا جب کوئی دُشمن مسلمانوں پر چڑھ آئے، تو پھر گھر بیٹھنا حرام ہے۔