Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 جمہور مفسرین کی تفسیر کے مطابق دو موتوں میں سے پہلی موت تو وہ نطفہ ہے کو باپ کی پشت میں ہوتا ہے یعنی انسان کے وجود سے پہلے اس کے عدم وجود کو موت تے تعبیر کیا گیا ہے اور دوسری موت وہ ہے جس سے انسان اپنی زندگی گزار کر ہمکنار ہوتا اور اس کے بعد قبر میں دفن ہوتا ہے اور دو زندگیوں میں سے پہلی زندگی یہ دنیاوی زندگی ہے جس کا آغاز ولادت سے اور اختتام وفات پر ہوتا ہے اور دوسری زندگی وہ ہے جو قیامت والے دن قبروں سے اٹھنے کے بعد حاصل ہوگی انہی دو موتوں اور دو زندگیوں کا تذکرہ وکنتم امواتا فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم البقرۃ میں بھی کیا گیا ہے۔ 11۔ 2 یعنی جہنم میں اعتراف کریں گے، جہاں اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں اور وہاں پشیمان ہونگے جہاں پیشمانی کی کوئی حیثیت نہیں۔ 11۔ 3 یہ وہی خواہش ہے جس کا تذکرہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے کہ ہمیں دوبارہ زمین پر بھیج دیا جائے تاکہ ہم نیکیاں کما کر لائیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤] زندگی اور موت کے چار مراحل :۔ موت وحیات کے یہ وہی چار مراحل ہیں جن کا ذکر سورة بقرہ کے آغاز میں آچکا ہے۔ یعنی وہ مردہ تھے اللہ نے انہیں زندگی بخشی اور وہ اپنے والدین کے گھر پیدا ہوئے پھر اس زندگی کے بعد موت کے بعد چوتھا مرحلہ دوبارہ قیامت کو جی اٹھنا۔ ان میں سے پہلے تین مراحل کو سب لوگ ہی جانتے ہیں کیونکہ وہ ہر ایک کے مشاہدہ میں آتے رہتے ہیں۔ انکار صرف بعث بعد الموت کا ہوتا ہے جو کسی کے مشاہدہ میں نہیں آیا۔ اور یہ بات ہمیں وحی کے ذریعہ معلوم ہوئی پھر بہت سے عقلی دلائل بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ یوم آخرت کو دیکھ کر کافر کہیں گے کہ آج ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ رسولوں کا کہنا برحق تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آج ہمیں جو اپنا برا انجام نظر آرہا ہے اس سے بچنے کی بھی کوئی راہ ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قالوا ربنا امثنا اثنتین…جہنمی لوگ نہایت عاجزی اور ادب کے ساتھ ” ربنا “ کہہ کر اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے کہ اے ہمارے رب تو نے ہمیں دو دفعہ موت دی اور دو دفعہ زندگی عطا کی، اب ہم اپنے تمام گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے تیرے ساتھ شرک کر کے اور قیامت کا انکار کر کے سخت غلطی کی، تو کیا اس بات کا کوئی امکان ہے کہ اب جب کہ ہم نے اپنے گناہوں کا اقرار کرلیا ہے، ہمارا عذر قبول کرلیا جائے اور ہمیں دوبارہ عمل کرنے کے لئے پہلی زندگی کی طرف لوٹا دیا جائے ؟ یہ بات وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے کہیں گے۔ کفار کی اس درخواست اور اس کے جواب کے لئے دیکھیے سورة انعام (٢٧) ، سجدہ (١٢) ، اور سورة نساء (١٨) دو موتوں اور دو زندگیوں کی تفسیر کے لئے دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (٢٨) (کیف تکفرون باللہ وکنتم امواتاً فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَاَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَہَلْ اِلٰى خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِيْلٍ۝ ١١- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - ثنی - الثَّنْي والاثنان أصل لمتصرفات هذه الکلمة، ويقال ذلک باعتبار العدد، أو باعتبار التکرير الموجود فيه ويقال للاوي الشیء : قد ثَناه، نحو قوله تعالی: أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ [هود 5] ، وقراءة ابن عباس : (يَثْنَوْنَى صدورهم) - ( ث ن ی ) الثنی والاثنان - ۔ یہ دونوں ان تمام کلمات کی اصل ہیں جو اس مادہ سے بنتے ہیں یہ کبھی معنی عدد کے اعتبار سے استعمال ہوتے ہیں اور کبھی تکرار معنی کے لحاظ سے جو ان کے اصل مادہ میں پایا جاتا ہے۔ ثنا ( ض) ثنیا ۔ الشئی کسی چیز کو موڑنا دوسرا کرنا لپیٹنا قرآن میں ہے :۔ أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ [هود 5] دیکھو یہ اپنے سینوں کو دوہرا کرتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس کی قرآت یثنونیٰ صدورھم ہے ۔ - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- اعْتِرَافُ- والاعْتِرَافُ : الإقرارُ ، وأصله :إظهار مَعْرِفَةِ الذّنبِ ، وذلک ضدّ الجحود . قال تعالی: فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِهِمْ [ الملک 11] ، فَاعْتَرَفْنا بِذُنُوبِنا[ غافر 11] .- الاعتراف ( افتعال ) کے معنی اقرار کے میں اصل میں اس کے معنی گناہ کا اعتراف کرنے کے ہیں ۔ اس کی ضد جحود یعنی انکار کرنا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ؛ فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِهِمْ [ الملک 11] پس وہ اپنے گناہ کا اقرار کریں گے ۔ فَاعْتَرَفْنا بِذُنُوبِنا[ غافر 11] ہم کو اپنے گناہوں کا اقرار ہے - ذنب - والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] ،- الذنب ( ض )- کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

وہ کفار دوزخ میں کہیں گے اے ہمارے رب آپ نے ہمیں دوبارہ مردہ رکھا ایک بار تو جس وقت ہماری روحیں قبض کیں اور دوسری مرتبہ جبکہ قبروں میں ہم سے منکر نکیر نے سوال کیا اور دوبارہ زندگی دی ایک مرتبہ تو قبروں میں منکر کے سوال سے پہلے اور دوسری مرتبہ حشر کے لیے سو ہم اپنے شرک و کفر کا اور ایمان لانے سے انکار کرنے کا انکار کرتے ہیں تو کیا اب پھر دنیا میں واپس جانے کی کوئی صورت ہے کہ ہم وہاں پہنچ کر آپ پر ایمان لے آئیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١ قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَاَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ ” وہ فریاد کریں گے : اے ہمارے رب تو نے ہمیں دو دفعہ مارا اور دو دفعہ زندہ کیا “- فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَہَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ ” تو اب ہم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرلیا ہے ‘ تو کیا اب یہاں سے نکلنے کی بھی کوئی راہ ہے ؟ “- یعنی اگر ہم اس سے پہلے اتنے مراحل سے گزر آئے ہیں تو اب اس مرحلے سے بھی گزرنے کا کوئی طریقہ تو ہوگا۔ تو اے پروردگار ایک دفعہ ہمیں اس عذاب سے جان چھڑانے کا موقع بھی فراہم کر دے۔ - تخلیق ِانسانی اور حیات انسانی کی حقیقت کے ضمن میں اس آیت کا مضمون پورے قرآن میں ذروہ سنام کا درجہ رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ مضمون قرآن میں متعدد بار آچکا ہے لیکن اس قدر واضح انداز میں اور کہیں نہیں آیا۔ مثلاً سورة البقرۃ میں فرمایا گیا : کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتاً فَاَحْیَاکُمْْج ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ۔ ” تم کیسے کفر کرتے ہو اللہ کا ‘ حالانکہ تم مردہ تھے تو اس نے تمہیں زندہ کیا ‘ پھر وہ تمہیں مارے گا ‘ پھر زندہ کرے گا ‘ پھر تم اسی کی طرف لوٹا دیے جائو گے “۔ اگرچہ سورة البقرۃ کی اس آیت میں بھی دو احیاء اور دو اموات کا ذکر ہے مگر مختلف مفسرین نے ان الفاظ کی تاویل مختلف انداز میں کی ہے۔ البتہ آیت زیر مطالعہ اپنے مفہوم میں اس قدر واضح ہے کہ اس کی وضاحت کے لیے کسی تعبیر اور تاویل کی ضرورت نہیں۔ چناچہ اس آیت کے حوالے سے یہاں حیات انسانی کے مختلف ادوار کو اچھی طرح سے سمجھ لیجیے۔- ہر انسان کی پہلی تخلیق اس وقت عمل میں آئی جب عالم ارواح میں اس کی روح پیدا کی گئی۔ عالم ارواح کی یہ زندگی پورے شعور کے ساتھ تھی۔ اسی لیے تو وہاں تمام ارواح سے وہ عہد لیا گیا تھا جس کا ذکر سورة الاعراف کی آیت ١٧٢ میں اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْط قَالُوْا بَلٰیج کے الفاظ کے ساتھ ہوا ہے۔ اس عہد کے وقت حضرت آدم (علیہ السلام) کی روح سے لے کر دنیا کے آخری انسان کی روح تک تمام ارواح حاضر و موجود تھیں۔ عالم ارواح میں ارواح کے اس عظیم الشان اجتماع کی کیفیت ایک حدیث میں ” جُنُوْدٌ مُّجَنَّدَۃ “ (١) (لشکروں کے لشکر) کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ مذکورہ عہد لینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح کو موت کی نیند سلا دیا۔ یہ ہر انسان کی پہلی موت (اماتہ اولیٰ ) تھی جو عالم ارواح میں اس پر وارد ہوئی۔ اس طرح تمام ارواح کو گویا ایک کو لڈ سٹوریج میں محفوظ کردیا گیا۔ چناچہ جو ارواح ابھی تک دنیا میں نہیں آئیں وہ ابھی تک اسی کیفیت میں ہیں۔ علامہ اقبال ؔ نے اس کیفیت کا عجیب نقشہ کھینچا ہے مگر یہ ایسی تفصیل کا موقع نہیں۔ - پھر جب عالم خلق (ماں کے پیٹ) میں کسی انسان کے جسم کا لوتھڑا تیار ہوجاتا ہے تو اس کی روح کو عالم ارواح سے اس لوتھڑے میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ اس جسم میں منتقل ہونے کے بعد جب روح ” آنکھ “ کھولتی ہے تو یہ اس روح کا ” احیائے اوّل “ ہے۔ اس کے بعد وہ انسان ماں کے پیٹ سے دنیا میں وارد ہوتا ہے۔ ایک معین عرصے تک دنیا میں زندگی بسر کرتا ہے اور اس کے بعد مرجاتا ہے۔ چناچہ دنیوی زندگی کی یہ موت اس انسان یا روح کی دوسری موت (اماتہ ثانیہ) ہے۔ اس موت کے بعد وہ روح عالم برزخ میں چلی جاتی ہے ‘ جبکہ جسم اپنی اصل کی طرف لوٹ جاتا ہے یعنی مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے۔ اسی طرح پوری نوع انسانی کی ارواح اپنی اپنی باری پر زندہ ہو کر دنیا میں آتی جائیں گی اور یہاں اپنے اپنے جسم کے ساتھ زندگی گزار کر ” دوسری موت “ کے بعد عالم برزخ کو سدھارتی جائیں گی۔- اس کے بعد جب قیامت برپا ہوگی تو ہر انسان کی روح کو ایک دفعہ پھر اس کے دنیوی جسم سے ملا کر زندہ کردیا جائے گا۔ یہ تمام انسانوں کا ” احیائے ثانی “ ہوگا۔ چناچہ جب میدانِ حشر میں اللہ کی عدالت لگے گی تو مجرم لوگ آیت زیر مطالعہ کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہمیں دو مرتبہ موت دی اور دو دفعہ زندہ کیا۔ عالم ارواح سے دنیا کی زندگی تک اور دنیا کی موت کے بعد قیامت کے اس دن تک کئی ادوار ہم پر گزر چکے ‘ تو اے ہمارے پروردگار اب ایک دور اور سہی۔ ایک مرتبہ پھر ہم پر کرم فرمایا جائے اور ہمیں ایک موقع اور دے دیا جائے۔ یعنی وہ لوگ اپنی سابقہ زندگی کے مختلف ادوار کو دلیل بنا کر ایک اور دور کی رعایت حاصل کرنے کی درخواست کریں گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :15 دو دفعہ موت اور دو دفعہ زندگی سے مراد و ہی چیز ہے جس کا ذکر سورہ بقرہ ، آیت 28 میں کیا گیا ہے کہ تم خدا کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو جبکہ تم بے جان تھے ، اس نے تمہیں زندگی بخشی ، پھر وہ تمہیں موت دے گا اور پھر دوبارہ زندہ کر دے گا ۔ کفار ان میں سے پہلی تین حالتوں کا تو انکار نہیں کرتے ، کیونکہ وہ مشاہدے میں آتی ہیں اور اس بنا پر ناقابل انکار ہیں ، مگر آخری حالت پیش آنے کا انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے مشاہدے میں ابھی تک نہیں آئی ہے اور صرف انبیاء علیہم السلام ہی نے اس کی خبر دی ہے ۔ قیامت کے روز جب عملاً وہ چوتھی حالت بھی مشاہدے میں آ جائے گی تب یہ لوگ اقرار کریں گے کہ واقعی وہی کچھ پیش آگیا جس کی ہمیں خبر دی گئی تھی ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :16 یعنی ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس دوسری زندگی کا انکار کر کے ہم نے سخت غلطی کی اور اس غلط نظریے پر کام کر کے ہماری زندگی گناہوں سے لبریز ہو گئی ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :17 یعنی کیا اب اس کا کوئی امکان ہے کہ ہمارے اعتراف گناہ کو قبول کر کے ہمیں عذاب کی اس حالت سے نکال دیا جائے جس میں ہم مبتلا ہو گئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: ایک مرتبہ کی موت سے مراد تو پیدائش سے پہلے کا وہ وقت ہے جب اِنسان وجود ہی میں نہیں آیا تھا، اور اُس وقت گویا مردہ تھا، اور دُوسری موت سے مراد وہ موت ہے جو زندگی کے آخر میں آئی۔ کافروں کی اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ہم دُنیا میں اِس بات کے تو قائل تھے کہ ہم پیدائش سے پہلے موجود نہیں تھے، اور آخر میں ہمیں موت آنے والی ہے، لیکن دو مرتبہ زندگی کے قائل نہیں تھے۔ اب ہمیں اس دوسری زندگی کا بھی یقین آگیا ہے۔