Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 یعنی پانی جو تمہارے لئے تمہاری روزیوں کا سبب ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے اظہار آیات کو انزال رزق کے ساتھ جمع کردیا اس لئے کہ آیات قدرت کا اظہار، مذا ہب کی بنیاد ہے اور روزیاں اجسام کی بنیاد ہیں، یوں دونوں بنیادوں کو جمع فرما دیا ہے۔ (فتح القدیر) 13۔ 1 اللہ کی اطاعت کی طرف جس سے ان کے دلوں میں آخرت کا خوف پیدا ہوتا ہے اور احکام و فرائض الہی کی پایندی کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦] بارش کے نظام میں اللہ کی نشانیاں :۔ یعنی آسمان سے بارش نازل فرماتا ہے جو زمینی پیداوار اور تمہارے رزق کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس پورے نظام پر اگر غور کیا جائے کہ اس کائنات میں کون سی قوتیں سرگرم عمل ہوتی ہیں جن کے نتیجے میں بارش برستی ہے پھر اس بارش سے رزق حاصل ہونے تک کون کون سی کائناتی اور زمینی قوتیں کام میں لگی رہتی ہیں۔ کس طرح سورج کی حرارت سے سطح سمندر پر سے آبی بخارات اوپر اٹھتے ہیں، پھر کس طرح ہوائیں انہیں اپنے دوش پر اٹھائے پھرتی ہیں اور جس طرف اللہ کا حکم ہوتا ہے، لے جاتی ہیں۔ پھر یہی آبی بخارات کیونکر پھر سے بارش کے قطروں میں منتقل ہوتے ہیں۔ پھر جب کسی خطہ زمین پر بارش برستی ہے تو زمین کی تاریکیوں میں بیج کی پرورش کون کرتا ہے اور کس طرح پودے کی نہایت نرم و نازک کونپل سطح زمین کو چیرتی ہوئی باہر نکل آتی ہے۔ غرضیکہ اس نظام میں بیشمار عجائبات قدرت ہیں۔ پھر ان قوتوں کے باہمی تعاون سے جو مثبت قسم کے نتائج برآمد ہوتے ہیں اس سے از خود معلوم ہوجاتا ہے کہ ان تمام قوتوں پر کنٹرول کرنے والی صرف ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے۔ اگر ہواؤں کا دیوتا الگ ہوتا، سورج کا الگ، بارش کا الگ اور زمین کا کوئی الگ ہوتا تو ان میں ایسا باہمی ارتباط ناممکن تھا کہ ان قوتوں سے ہمیشہ مثبت نتائج ہی حاصل ہوسکیں۔ لیکن یہ باتیں تو صرف وہ لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں جو اللہ کی ان نشانیوں میں کچھ غور و فکر بھی کرتے ہوں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ھو الذی یریکم ایتہ : یعنی اللہ تعالیٰ ہی ہے جو تمہیں اپنے وجود اور اپنی وحدانیت کی بیشمار نشانیاں دکھاتا ہے، جو اس وقت بھی موجود تھیں جب تمہارے بنائے ہوئے معبودوں کا وجود تک نہ تھا۔ اب بھی کوئی داتا یا دستگیر یہ دعویٰ نہیں کرتا اور نہ کرسکتا ہے کہ یہ سب کچھ اس نے پیدا کیا ہے، یا اس کے پیدا کرنے میں اس کا کوئی حصہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بہت سی نشانیوں کا ذکر فرمایا ہے، وہ نشانیاں آفاق (کائنات) میں بھی ہیں اور خود انسان کی ذات میں بھی۔ دیکھیے سورة یونس (٦) رحم السجدہ (٥٣) ، روم (٢٠ تا ٢٧) بقرہ (١٦٤) جاثیہ (٣٥) اور سورة مومن (٧٩، ٨٠) ۔ اللہ تعالیٰ کی آیات سے مراد انبیاء (علیہ السلام) کو عطا کردہ معجزے بھی ہیں اور اس کی قدرت پر دلالت کرنے والے عجیب و غریب واقعات و حوادث بھی، جو وقتاً فوقتاً انسان کے سامنے آتے رہتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کے متعلق فرمایا :(ولقد ارینہ ایتنا کلھما قکذب وابی) (طہ : ٥٦)” اور بلاشبہ یقیناً ہم نے اس (فرعون) کو اپنی تمام آیات (نشانیاں) دکھائیں، پس اس نے جھٹلایا اور انکار کردیا۔ “- وینزل لکم من السمآء و رزقاً : یہ کہنے کے بعد کہ وہی ہے جو تمہیں اپنی آیات (نشانیاں) دکھاتا ہے، اپنی ایک عظیم نشانی کا ذکر فرمایا۔” رزقاً “ سے مراد یہاں بارش ہے، کیونکہ وہ انسان کے رزق کا سبب ہے۔ تمام نباتات اسی سے اگتی ہیں، جنہیں کھا کر وہ تمام جانور پلتے ہیں جو انسان کی خوراک ہیں یا اس کے کام آتے ہیں۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢٢) ، جاثیہ (٥) ، ابراہیم (٣٢) ، ق (٩ تا ١١) اور سورة نحل (١٠، ١١) ۔- ومایتذکر الا من ینیب : یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت کی نشانیاں تو بیشمار ہیں، مگر ان سے نصیحت رجوع کرنے والے ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ اگر آدمی اپنی روزی ہی کو دیکھ لے کہ اسے مہیا کرنے میں قدرت کی کون کون سی چیزیں مصروف عمل ہیں اور کس طرح ایک دوسرے کی موافقت کے ساتھ کام کر رہی ہیں تو کبھی شرک کی جرأت نہ کرے، کیونکہ ان تمام چیزوں کو بنانے اور چلانے والا ایک ہے۔ اگر وہ ایک نہ ہو تو کائنات ایک لمحہ کے لئے بھی باقی نہیں رہ سکتی۔ مگر جو شخص اللہ تعالیٰ سے منہ موڑ لے اور اس کی نشانیوں کی طرف توجہ ہی نہ کرے، وہ بڑی سے بڑی نشانی دیکھ کر بھی کوئی نصیحت حاصل نہیں کرسکتا، کیونکہ اس کی آنکھوں پر تقلید آباء، تعصب اور عناد کے پردے پڑے ہوئے ہوتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - وہی ہے جو تم کو اپنی نشانیاں (قدرت کی) دکھاتا ہے (تا کہ تم ان سے توحید پر استدلال کرو اور وہی ہے جو) آسمان سے تمہارے لئے رزق بھیجتا ہے (یعنی بارش بھیجتا ہے جس سے رزق پیدا ہوتا ہے، یہ بھی منجملہ مذکورہ نشانیوں کے ہے) اور (ان نشانیوں سے) صرف وہی شخص نصیحت قبول کرتا ہے، جو (خدا کی) طرف رجوع (کرنے کا ارادہ) کرتا ہے (کیونکہ ارادہ رجوع سے غور وتامل نصیب ہوتا ہے، اس سے حق تک رسائی ہوجاتی ہے) تو (جب توحید پر دلائل قائم ہیں تو) تم لوگ خدا کو خالص اعتقاد کر کے (یعنی توحید کے ساتھ) پکارو (اور مسلمان ہوجاؤ) اگر کافروں کو ناگوار ہو (اس کی پروا نہ کرو کیونکہ) وہ رفیع الدرجات ہے، وہ عرش کا مالک ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے وحی یعنی اپنا حکم بھیجتا ہے تاکہ وہ (صاحب وحی لوگوں کو) اجتماع کے دن (یعنی قیامت کے دن) سے ڈرائے جس دن سب لوگ (خدا کے) سامنے آموجود ہوں گے (کہ) ان کی بات خدا سے مخفی نہ رہے گی آج کے روز کس کی حکومت ہوگی، بس اللہ ہی کی ہوگی جو یکتا (اور) غالب ہے آج ہر شخص کو اس کے کئے (ہوئے کاموں) کا بدلہ دیا جاوے گا، آج (کسی پر) کچھ ظلم نہ ہوگا اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے والا ہے اور (اس لئے) آپ ایک قریب آنے والی مصیبت کے دن (یعنی روز قیامت) سے ڈرائیے جس وقت کلیجے منہ کو آ جاویں گے (غم سے) گھٹ گھٹ جاویں گے (اس روز) ظالموں (یعنی کافروں) کا نہ کوئی دلی دوست اور نہ کوئی سفارشی ہوگا جس کا کہا مانا جائے (اور) وہ (ایسا ہے کہ) آنکھوں کی چوری کو جانتا ہے اور ان (باتوں) کو بھی جو سینوں میں پوشیدہ ہیں (جن کو دوسرا نہیں جانتا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ بندوں کے تمام کھلے اور چھپے اعمال سے باخبر ہے جن پر سزا اور جزا موقوف ہے) اور اللہ تعالیٰ ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا اور خدا کے سوا جن کو یہ لوگ پکارا کرتے ہیں وہ کسی طرح کا بھی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ (کیونکہ) اللہ ہی سب کچھ جاننے والا سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ (اسی طرح اللہ تعالیٰ تمام صفات کمال سے موصوف اور جھوٹے معبود سب سے عاری ہیں اس لئے فیصلہ خدا تعالیٰ کے سوا کسی کے بس میں نہیں۔ اور یہ لوگ جو ان واضح دلائل کے بعد بھی انکار کرتے ہیں تو) کیا ان لوگوں نے ملک میں چل پھر کر نہیں دیکھا کہ جو (کافر) لوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں (اس کفر کی وجہ سے) ان کا کیسا انجام ہوا۔ وہ لوگ قوت اور ان نشانیوں پر جو زمین پر چھوڑ گئے ہیں (مثل عمارات و باغات وغیرہ کے) ان (موجودین) سے بہت زیادہ تھے سو ان کے گناہوں کی وجہ سے خدا نے ان پر داروگیر فرمائی (یعنی عذاب نازل کیا) اور ان کا کوئی خدا سے بچانے والا نہ ہوا (آگے ان کے گناہوں کی تفصیل ہے کہ) یہ مواخذہ اس سبب سے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلیلیں (یعنی معجزات جو دلائل نبوت ہوتے ہیں) لے کر آتے رہے پھر انہوں نے نہ مانا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر مواخذہ فرمایا بیشک وہ بڑی قوت والا سخت سزا دینے والا ہے (جب ان موجودہ کافروں میں بھی وہی موجبات عذاب جمع ہیں تو یہ مواخذہ سے کیسے بچ سکتے ہیں) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ہُوَالَّذِيْ يُرِيْكُمْ اٰيٰتِہٖ وَيُنَزِّلُ لَكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ رِزْقًا۝ ٠ ۭ وَمَا يَتَذَكَّرُ اِلَّا مَنْ يُّنِيْبُ۝ ١٣- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - تَّذْكِرَةُ- : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] ، أي : القرآن . وذَكَّرْتُهُ - التذکرۃ - جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ مراد قرآن پاک ہے ۔ ذَكَّرْتُهُ كذا - نوب - النَّوْب : رجوع الشیء مرّة بعد أخری. وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر 54] ، مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم 31] - ( ن و ب ) النوب - ۔ کسی چیز کا بار بارلوٹ کر آنا ۔ یہ ناب ( ن ) نوبۃ ونوبا کا مصدر ہے، وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر 54] اپنے پروردگار کی طر ف رجوع کرو ۔ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم 31] ( مومنو) اس خدا کی طرف رجوع کئے رہو ۔ فلان ینتاب فلانا وہ اس کے پاس آتا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے مکہ والو وہی ہے جو تمہیں اپنی وحدانیت اور قدرت کی نشانیاں دکھلاتا ہے کہ مشرکین کے مکانات کو تباہ و برباد کرتا ہے اور تمہارے لیے آسمان سے بارش برساتا ہے مگر قرآن کریم سے صرف وہ ہی شخص نصیحت حاصل کرتا ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے کا ارادہ کرتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ ہُوَ الَّذِیْ یُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ وَیُنَزِّلُ لَکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ رِزْقًا ” وہی ہے جو تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور اتارتا ہے تمہارے لیے آسمان سے روزی۔ “- اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برساتا ہے اور بارش کا پانی زمین سے روزی پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔- وَمَا یَتَذَکَّرُ اِلَّا مَنْ یُّنِیْبُ ” اور نہیں نصیحت حاصل کرتا مگر وہی جو رجوع کرتا ہے (اللہ کی طرف) ۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :19 نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ اس کائنات کا صانع اور مدبر منتظم ایک خدا اور ایک ہی خدا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :20 رزق سے مراد یہاں بارش ہے ، کیونکہ انسان کو جتنی اقسام کے رزق بھی دنیا میں ملتے ہیں ان سب کا مدار آخر کار بارش پر ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنی بے شمار نشانیوں میں سے تنہا اس ایک نشانی کو پیش کر گے لوگوں کو توجہ دلاتا ہے کہ صرف اسی ایک چیز کے انتظام پر تم غور کرو تو تمہاری سمجھ میں آ جائے کہ نظام کائنات کے متعلق جو تصور تم کو قرآن میں دیا جا رہا ہے وہی حقیقت ہے ۔ یہ انتظام صرف اسی صورت میں قائم ہو سکتا تھا جبکہ زمین اور اس کی مخلوقات اور پانی اور ہوا اور سورج اور حرارت و برودت سب کا خالق ایک ہی خدا ہو ۔ اور یہ انتظام صرف اسی صورت میں لاکھوں کروڑوں برس تک پیہم ایک باقاعدگی سے چل سکتا ہے جس نے زمین میں انسان اور حیوانات اور نباتات کو جب پیدا کیا تو ٹھیک ٹھیک ان کی ضروریات کے مطابق پانی بھی بنایا اور پھر اس پانی کو باقاعدگی کے ساتھ روئے زمین پر پہنچانے اور پھیلانے کے لیے یہ حیرت انگیز انتظامات کیے ۔ اب اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خدا کا انکار کرے ، یا اس کے ساتھ کچھ دوسری ہستیوں کو بھی خدائی میں شریک ٹھہرائے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :21 یعنی خدا سے پھرا ہوا آدمی ، جس کی عقل پر غفلت یا تعصب کا پردہ پڑا ہوا ہو ، کسی چیز کو دیکھ کر بھی کوئی سبق نہیں لے سکتا ۔ اس کی حیوانی آنکھیں یہ تو دیکھ لیں گی کہ ہوائیں چلیں ، بادل آئے ، کڑک چمک ہوئی ، اور بارش ہوئی ۔ مگر اس کا انسانی دماغ کبھی یہ نہ سوچے گا کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے ، کون کر رہا ہے اور مجھ پر اس کے کیا حقوق ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani