Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 یعنی زندہ ہو کر قبروں سے نکل کھڑے ہونگے۔ 16۔ 1 یہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ پوچھے گا جب سارے انسان اس کے سامنے میدان محشر میں جمع ہوں گے اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں اور آسمان کو اپنے دا‏ئیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا اور کہے گا میں بادشاہ ہوں زمین کے بادشاہ کہاں ہیں ؟ (صحیح بخاری) ، 16۔ 1 جب کوئی نہیں بولے گا تو یہ جواب اللہ تعالیٰ خود ہی دے گا بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک فرشتہ منادی کرے گا جس کے ساتھ ہی تمام کافر اور مسلمان بیک آواز یہی جواب دیں گے۔ فتح القدیر

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢١] قیامت کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ کا دنیا کے بادشاہوں سے خطاب :۔ قیامت کے دن ایک وقت ایسا آئے گا جب ہر ایک کو اپنی اپنی ہی پڑی ہوگی۔ سب قیامت کی ہولناکیوں سے دہشت زدہ ہوں گے کسی کو کلام کرنے کی نہ فرصت ہوگی اور نہ جرأت۔ ہر طرف مکمل سکوت اور سناٹا چھایا ہوگا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ سب کو مخاطب کرکے پوچھے گا۔ آج دنیا کے بادشاہ کہاں ہیں ؟ جابر کہاں ہیں اور متکبرین کہاں ہیں ؟ بولو آج کے دن بادشاہی کس کی ہے ؟ اس سوال کا کوئی جواب نہ دے گا۔ حتیٰ کہ چالیس برس ایسے ہی سناٹے میں گزر جائیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ خود ہی اس سوال کا جواب دیں گے کہ آج بادشاہی صرف اکیلے اللہ کی ہے۔ جو ہر چیز کو دبا کے رکھے ہوئے ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) یوم ھم یرزون…یعنی ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہر وقت ظاہر ہے، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں۔ اگرچہ دنیا میں کچھ لوگ اپنے خیال کے مطابق اپنے آپ کو کسی مکان یا غار وغیرہ میں یا کپڑوں میں چھپالیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ چھپ گئے ہیں جیسا کہ فرمایا :(الا انھم یشون صدورھم لیستخفوا منہ، الاحین یستغشون فیابھم یعلم مایسرون ومایعلنون، انہ علیم بذات الصدور) (مرد : ٥)” سن لو بلاشبہ وہ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں، تاکہ اس سے اچھی طرح چھپے رہیں، سن لو جب وہ اپنے پکڑے اچھی طرح لپیٹ لیتے ہیں وہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ بیشک وہ سینوں والی بات کو خوب جاننے والا ہے۔ “ مگر قیامت کے دن زمین پر کوئی اوٹ نہیں رہے گی، جس میں وہ چھپ سکیں ، بلکہ سب کے سب صاف ظاہر ہوں گے، جیسا کہ فرمایا :(ویسئلونک عن الجبال فقد ینسفھا ربی نسفا فیذرھا قاعاً صفصفاً لاتری فیھا عوجاً ولا امنا) (طہ : ١٠٥ تا ١٠٨)- ” اور وہ تجھ سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں تو تو کہہ دے میرا رب انہیں اڑا کر بکھیر دے گا۔ پھر انہیں ایک چٹیل میدان بنا کر چھوڑے گا۔ جس میں تو نہ کوئی کجی دیکھے گا اور نہ کوئی ابھری جگہ۔ “ اس دن تو کسی کے جسم پر کوئی کپڑا بھی نہیں ہوگا۔ ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(انکم ملاقو اللہ خفاۃ غراۃ مشاہ غرلاً ) (بخاری، الرفاق، باب کیف الحشر :6563)” تم اللہ تعالیٰ سے ننگے پاؤں، ننگے بدن، پیدل چلنے والے، بغیر ختنہ کئے ہوئے ملو گے۔ “ مزید دیکھیے سورة ابراہیم (٢١، ٤٨) اور سورة حاقہ (١٣ تا ١٨)- (٢) لمن الملک الیوم : یعنی دنیا میں بہت سے لوگ اپنی بادشاہی اورب ڑائی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے اور بہت سے لوگ ان کی بادشاہی اور کبریائی مانتے رہے، مگر اب بتاؤ کہ آج ساری بادشاہی کا مالک کون ہے ؟ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ نے فرمایا :(یقبض الا الارض، ویطوی السموات بیمینہ، ثم یقول انا الملک، ابن ملوک الارض) (بخاری، التفسیر، باب قولہ :(ولارض جمیعاً فیضتہ): ٣٨١٢)” اللہ تعالیٰ زمین کو مٹھی میں لے گا اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر فرمائے گا میں ہی بادشاہ ہوں ، کہاں ہیں زمین کے بادشاہ ؟ “- (٣) للہ الواحد القھار : جب کوئی جواب دینے والا نہیں ہوگا تو اللہ تعالیٰ خود ہی یہ بات فرمائے گا، جیسا کہ پچھلے فائدے میں حدیث گزری۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ آیت میں اس وقت کا ذکر ہے جب سب لوگ میدان حشر میں صاف ظاہر ہوں گے، ان کی کوئی چیز اللہ پر چھپی نہ ہوگی، اس وقت اللہ تعالیٰ پوچھے گا :(لمن الملک الیوم)” آج کس کی بادشاہی ہے ؟ “ ظاہر ہے اس وقت وہ سب لوگ جو وہاں جمع ہوں گے وہی یہ جواب دیں گے۔ نیک لوگ خوشی سے اور برے لوگ یہ بات بادل ناخواستہ کہیں گے، کیوں کہ کسی کے پاس اس کے سوا چارہ نہیں ہوگا۔ رہی حدیث، تو وہ اس موقع کی بات ہے جب اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کو لپیٹے گا اور یہ بات فرمائے گا۔ گویا اللہ تعالیٰ اکیلے کی بادشاہت کا اظہار و اقرار متعدد بار ہوگا ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) يَوْمَ هُمْ بٰرِزُوْنَ ڬ لَا يَخْـفٰى عَلَي اللّٰهِ مِنْهُمْ ۔ بارزون سے مراد یہ ہے کہ میدان حشر کی زمین چونکہ ایک سطح مستوی بنادی جائے گی جس میں کوئی پہاڑ یا غار یا عمارت اور درخت نہ ہوگا، جس کی آڑ ہو سکے اس لئے سب کھلے میدان میں جمع ہوں گے۔- (آیت) لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۭ۔ یہ کلمہ آیات مذکورہ میں یوم التلاق اور یوم ھم بارزون کے بعد آیا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ یوم التلاق ملاقات و اجتماع کا دن نفخہ ثانیہ کے بعد ہوگا اسی طرح یوم ہم بارزون کا واقعہ بھی اس وقت ہوگا جب نفخہ ثانیہ کے بعد نئی زمین ایک سطح مستوی کی صورت میں بنادی جائے گی، جس پر کوئی آڑ پہاڑ نہ ہوگا۔ اس کے بعد یہ کلمہ لمن الملک لانے سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ کا یہ ارشاد نفخہ ثانیہ سے تمام خلائق کے دوبارہ پیدا ہونے کے بعد ہوگا۔ اس کی تائید قرطبی نے بحوالہ نحاس ایک حدیث سے پیش کی ہے جو ابو وائل نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے، وہ یہ کہ تمام آدمی ایک صاف زمین پر جمع کئے جائیں گے جس پر کسی نے کوئی گناہ نہیں کیا ہوگا۔ اس وقت ایک منادی کو حکم ہوگا جو یہ ندا کرے گالِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۭ یعنی آج کے دن ملک کس کا ہے۔ اس پر تمام مخلوقات مومنین و کافرین یہ جواب دیں گے کہ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ۔ مومن تو اپنے اعتقاد کے مطابق خوشی و تلذذ کی صورت میں کہیں گے اور کافر مجبور و عاجز ہونے کی بنا پر رنج و غم کے ساتھ اس کا اقرار کریں گے۔- لیکن دوسری بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ارشاد حق تعالیٰ خود ہی اس وقت فرمائیں گے جبکہ نفخہ اولیٰ کے بعد ساری مخلوقات فنا ہوجاویں گی۔ اور سوائے ذات حق سبحانہ و تعالیٰ کے کوئی نہ ہوگا اس وقت حق تعالیٰ فرمائے گا لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۭ۔ اور چونکہ اس وقت جواب دینے والا کوئی نہ ہوگا تو خود ہی جواب دیں گے لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ۔ حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ اس میں سوال کرنے والا اور جواب دینے والا صرف ایک اللہ ہی ہے۔ محمد بن کعب قرظی کا بھی یہی قول ہے اور اس کی تائید حضرت ابوہریرہ اور ابن عمر کی اس حدیث سے ہوتی ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ساری زمینوں کو بائیں ہاتھ میں اور آسمانوں کو داہنے ہاتھ میں لپیٹ کر فرمائیں گے۔ انا الملک این الجبارون این المتکبرون۔ یعنی میں ہی ملک اور مالک ہوں، آج جبارین اور متکبرین کہاں ہیں۔ تفسیر درمنثور میں اس طرح کی دونوں روایتیں نقل کر کے کہا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ کلمہ دو مرتبہ دہرایا جائے ایک نفخہ اولیٰ اور فنائے عالم کے وقت دوسرا نفخہ ثانیہ اور تمام خلائق کے دوبارہ زندہ ہونے کے وقت۔ بیان القرآن میں فرمایا کہ قرآن کریم کی تفسیر اس پر موقوف نہیں کہ دو ہی مرتبہ قرار دیا جائے بلکہ ہوسکتا ہے کہ آیات مذکورہ میں اس واقعہ کا ذکر ہو جو نفخہ اولیٰ کے بعد ہوا تھا۔ اس کو اس وقت حاضر فرض کر کے یہ کلمہ فرمایا گیا ہو۔ واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ ہُمْ بٰرِزُوْنَ۝ ٠ۥۚ لَا يَخْـفٰى عَلَي اللہِ مِنْہُمْ شَيْءٌ۝ ٠ ۭ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ۝ ٠ ۭ لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ۝ ١٦- يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - برز - البَرَاز : الفضاء، وبَرَزَ : حصل في براز، وذلک إمّا أن يظهر بذاته نحو : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً- [ الكهف 47] تنبيها أنه تبطل فيها الأبنية وسكّانها، ومنه : المبارزة للقتال، وهي الظهور من الصف، قال تعالی: لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] ، وقال عزّ وجلّ : وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة 250] ، وإمّا أن يظهر بفضله، وهو أن يسبق في فعل محمود، وإمّا أن ينكشف عنه ما کان مستورا منه، ومنه قوله تعالی: وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم 48] ، وقال تعالی: يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر 16] ، وقوله : عزّ وجلّ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] تنبيها أنهم يعرضون عليها، ويقال : تَبَرَّزَ فلان، كناية عن التغوّط «1» . وامرأة بَرْزَة «2» ، عفیفة، لأنّ رفعتها بالعفة، لا أنّ اللفظة اقتضت ذلك .- ( ب رز ) البراز - کے معنی فضا یعنی کھلی جگہ کے ہیں ۔ اور برزرن کے معنی ہیں کھلی جگہ میں چلے جانا اور برود ( ظہور ) کئی طرح پر ہوتا ہے - ( 1) خود کسی چیز کا ظاہر ہوجانا - جیسے فرمایا : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً [ الكهف 47] اور تم زمین کو صاف یہاں دیکھو گے ۔ اس میں تنبیہ ہے کہ زمین پر سے عمارات اور ان کے ساکنین سب ختم ہوجائیں گے اسی سے مبارزۃ ہے جسکے معنی صفوف جنگ سے آگے نکل کر مقابلہ کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] تو جن کی تقدیر میں مارا جانا لکھا تھا وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرور نکل آتے ۔ وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة 250] اور جب وہ لوگ جالوت اور اس کے لشکر کے بالمقابل میں آئے - ۔ ( 2) دوم بروز کے معنی فضیلت ظاہر ہونے کے ہیں - جو کسی محمود کام میں سبقت لے جانے سے حاصل ہوتی ہے - ۔ ( 3 ) کسی مستور چیز کا منکشف ہو کر سامنے آجانا - جیسے فرمایا : وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم 48] اور سب لوگ خدائے یگا نہ زبردست کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے ۔ وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا ( سورة إِبراهيم 21) اور قیامت کے دن سب لوگ خدا کے سامنے کھڑے ہونگے ۔ يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر 16] جس روز وہ نکل پڑیں گے ۔ اور آیت کریمہ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے کہ انہیں دو زخ کے سامنے لایا جائیگا محاورہ ہے تبرز فلان کنایہ از قضائے حاجت اور پاکدامن عورت کو امراءۃ برزۃ کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی رفعت پاک دامنی اور عفت میں مضمر ہوتی ہے نہ یہ کہ برزۃ کا لفظ اس معنی کا مقتضی ہے ۔- خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- ملك - المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور، وذلک يختصّ بسیاسة الناطقین، ولهذا يقال : مَلِكُ الناسِ ، ولا يقال : مَلِك الأشياءِ ، وقوله : مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة 3] فتقدیره : الملک في يوم الدین، وذلک لقوله : لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [ غافر 16]- ( م ل ک ) الملک - ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے یہی وجہ ہے کہ ملک امن اس تو کہا جاتا ہے لیکن ملک الاشیاء کہنا صحیح نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة 3] انصاف کے دن کا حاکم ۔ میں ملک کی اضافت یوم کی طرف نہیں ہے بلکہ یہ اسل میں ملک الملک فی یوم دین ہے ۔ یعنی قیامت کے دن اسی کی بادشاہت ہوگی ۔ جسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [ غافر 16] آج کسی کی بادشاہت ہے ۔ خدا کی کو اکیلا ادر غالب ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- قهر - القَهْرُ : الغلبة والتّذلیل معا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقال : وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد 16] - ( ق ھ ر ) القھر ۔- کے معنی کسی پر غلبہ پاکر اسے ذلیل کرنے کے ہیں اور ان دنوں ( یعنی غلبہ اور تذلیل ) میں ستے ہر ایک معنی میں علیدہ علیدہ بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد 16] اور وہ یکتا اور زبردست ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

جس دن سب لوگ قبروں سے نکل پڑیں گے کہ ان کے اعمال میں سے کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گی پھر نفخہ موت کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا آج کے دن کس کی حکومت ہوگی تو کوئی بھی جواب نہ دے سکے گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا بس اللہ ہی کی ہوگی جو کہ وحدہ لاشریک ہے اور اپنی مخلوق کے مارنے پر غالب ہے آج یعنی قیامت کے دن ہر نیک و بد کو جو بھی اس نے نیکی یا بدی کی ہے اس کا بدلہ دیا جائے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ یَوْمَ ہُمْ بٰـرِزُوْنَج لَا یَخْفٰی عَلَی اللّٰہِ مِنْہُمْ شَیْئٌ ” جس روز یہ سامنے نکل کھڑے ہوں گے ‘ ان کی کوئی چیز بھی اللہ سے مخفی نہیں ہوگی۔ “- لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَط ” (اُس روز پوچھاجائے گا : ) کس کے لیے ہے بادشاہی آج کے دن ؟ - لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ ” (جواب ملے گا : ) اکیلے اللہ کے لیے ہے جو تمام کائنات پر چھایا ہوا ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :27 یعنی دنیا میں تو بہت سے بر خود غلط لوگ اپنی بادشاہی و جباری کے ڈنکے پیٹتے رہے ، اور بہت سے احمق ان کی بادشاہیاں اور کبریائیاں مانتے رہے ، اب بتاؤ کہ بادشاہی فی الواقع کس کی ہے؟ اختیارات کا اصل مالک کون ہے؟ اور حکم کس کا چلتا ہے؟ یہ ایسا مضمون ہے جسے اگر کوئی شخص گوش ہوش سے سنے تو خواہ وہ کتنا ہی بڑا بادشاہ یا آمر مطلق بنا بیٹھا ہو ، اس کا زہرہ آب ہو جائے اور ساری جباریت کی ہوا اس کے دماغ سے نکل جائے ۔ اس موقع پر تاریخ کا یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ سامانی خاندان کا فرمانروا انصر بن احمد ( 331 ۔ 301 ) جب نیشاپور میں داخل ہوا تو اس نے ایک دربار منعقد کیا اور تخت پر بیٹھنے کے بعد فرمائش کی کہ کاروائی کا افتتاح قرآن مجید کی تلاوت سے ہو ۔ یہ سن کر ایک بزرگ آگے بڑھے اور انہوں نے یہی رکوع تلاوت کیا ۔ جس وقت وہ اس آیت پر پہنچے تو نصر پر ہیبت طاری ہو گئی ۔ لرزتا ہوا تخت سے اترا ، تاج سر سے اتار کر سجدے میں گر گیا اور بولا اے رب ، بادشاہی تیری ہی ہے نہ کہ میری ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani