Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 اس لئے کہ اسے بندوں کی طرح غورو فکر کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٢] ظلم کی ممکنہ صورتیں :۔ ظلم کی کئی صورتیں ممکن ہیں۔ مثلاً پہلی یہ کہ کسی نے ظلم نہ کیا ہو لیکن اسے خواہ مخواہ سزا دے دی جائے۔ دوسری یہ کہ جرم تو تھوڑا ہو مگر اسے سزا زیادہ دے دی جائے۔ تیسری یہ کہ آدمی مستحق تو اجر کا ہوگا مگر اسے سزا دے دی جائے۔ چوتھی یہ کہ جرم تو زید نے کیا ہو مگر اس کی سزا بکر کو دے دی جائے پانچویں یہ کہ آدمی جتنے اجر کا مستحق ہو اسے اس سے کم دیا جائے۔ چھٹی یہ کہ آدمی سزا کا مستحق ہو مگر اسے سزا نہ دی جائے اور مظلوم منہ دیکھتا رہ جائے۔ غرضیکہ ظلم کی جتنی بھی صورتیں ممکن ہیں ان میں کسی بھی صورت کا ظلم اللہ کی عدالت میں ہونے نہ پائے گا۔- [٢٣] فیصلہ میں دیر لگنے کی وجہ :۔ اللہ تعالیٰ کو ساری مخلوق کا حساب چکانے اور فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ اس لئے کہ دیر لگنے کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں ایک یہ کہ انصاف کے تقاضے پورے نہ ہورہے ہوں جیسے یہاں دنیا کی عدالتوں میں ہوتا ہے کہ کبھی مدعی حاضر نہیں ہوتا اور کبھی مدعا علیہ، کبھی گواہ غیر حاضر ہوتے ہیں اور بار بار کے نوٹسوں کے باوجود عدالت میں حاضر ہی نہیں ہوتے اور اس طرح انصاف کے تقاضے پورے کرتے کرتے ہی سالہا سال لگ جاتے ہیں۔ اللہ کی عدالت میں یہ بات نہ ہوگی۔ وہاں مدعی، مدعا علیہ اور گواہ سب موجود اور اللہ کے علم میں ہونگے اور جس کی ضرورت ہوگی وہ فوراً حاضر ہوجائے گا یا حاضر کرلیا جائے گا۔ دیر کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ دنیا میں قاضی ایک وقت میں ایک ہی مقدمہ کی سماعت کرسکتا ہے لیکن اللہ کے ہاں یہ معاملہ نہیں۔ وہ جس طرح بیک وقت ہر ایک کو دیکھتا، ہر ایک کی سنتا، ہر ایک کی داد رسی کرتا اور ہر ایک کو رزق دے رہا ہے۔ اسی طرح وہ بیک وقت اپنی تمام مخلوق کے مقدمات کی سماعت بھی کرسکتا ہے اور ان کے فیصلے بھی کرسکتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) لاظلم الیوم : آج کسی قسم کا ظلم نہیں ہوگا کہ کسی کا ثواب کم کردیا جائے ، یا کسی کو اس سے زیادہ عذاب دیا جائے جس کا وہ مستحق ہے۔- (٢) ان اللہ سریع الحساب : اللہ تعالیٰ کو تمام جن و انس کا حساب لینے میں کوئی دیر نہیں لگتی، اس کے لئے تمام انسانوں کا حساب ایسے ہی ہے جیسے ایک آدمی کا حساب لینا، کیونکہ اسے ہر چیز کا علم ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ مخلوق کی طرح عاجز نہیں کہ ایک وقت میں ایک ہی مقدمہ سن سکے، یا اصل حقیقت کا علم نہ ہونے کی وجہ سے جلدی فیصلہ نہ کرسکے۔ انسان اپنے نہیں کہ ایک وقت میں ایک ہی مقدمہ سن سکے، یا اصل حقیقت کا علم نہ ہونے کی وجہ سے جلدی فیصلہ نہ کرسکے۔ انسان اپنے عجز کی وجہ سے فیصلے میں دیر کرتا ہے، جب کہ فیصلے میں دیر بھی ایک طرح کا ظلم ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ ہر طرح کے عجز سے پاک عجز کی وجہ سے فیصلے میں دیر کرتا ہے، جب کہ فیصلے میں دیر بھی ایک طرح کا ظلم ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ ہر طرح کے عجز سے پاک عجز کی وجہ سے فیصلے میں دیر کرتا ہے، جب کہ فیصلے میں دیر بھی ایک طرح کا ظلم ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ ہر طرح کے عجز سے پاک ہے، اس لئے وہ ایک ہی وقت میں سب کا حساب کر کے جنت والوں کو جنت میں اور جہنم والوں کو جہنم میں بھیج دے گا، فرمایا ہے، اس لئے وہ ایک ہی وقت میں سب کا حساب کر کے جنت والوں کو جنت میں اور جہنم والوں کو جہنم میں بھیج دے گا، فرمایا ہے، اس لئے وہ ایک ہی وقت میں سب کا حساب کر کے جنت والوں کو جنت میں اور جہنم والوں کو جہنم میں بھیج دے گا، فرمایا :(ماخلقکم ولابعثکم الا کنفس واحدۃ) (لقمان : ٢٨) ” نہیں ہے تمہارا پیدا کرنا اور نہ تمہارا اٹھانا مگر ایک جان کی طرح۔ “ اور فرمایا :(وما امرنا الا واحدۃ کلمح بالبصر) (القمر : ٥٠)” اور ہمارا حکم تو صرف ایک بار ہوتا ہے، جیسے آنکھ کی ایک جھپکے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلْيَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍؚبِمَا كَسَبَتْ۝ ٠ۭ لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ۝ ١٧- جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - سرع - السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو :- أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] - ( س ر ع ) السرعۃ - اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ - حسب - الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] - ( ح س ب ) الحساب - کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

آج کسی پر ظلم نہ ہوگا یعنی کسی کی نیکیوں میں سے کچھ کمی نہ کی جائے گی اور نہ ان کی برائیوں میں اضافہ کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ جب حساب لینا شروع فرمائیں تو بہت جلد حساب لینے والے ہیں یا یہ کہ جس وقت سزا دیں تو پھر سخت سزا دینے والے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ اَلْیَوْمَ تُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍم بِمَا کَسَبَتْ ” آج ہر جان کو وہی بدلہ دیا جائے گا جو اس نے کمایا۔ “- لَا ظُلْمَ الْیَوْمَط اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ” آج کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ یقینا اللہ جلد حساب چکا دینے والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :28 یعنی کسی نوعیت کا ظلم بھی نہ ہو گا ۔ واضح رہے کہ جزاء کے معاملہ میں ظلم کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ آدمی اجر کا مستحق ہو اور وہ اس کو نہ دیا جائے ۔ دوسرے یہ کہ وہ جتنے اجر کا مستحق ہو اس سے کم دیا جائے ۔ تیسرے یہ کہ وہ سزا کا مستحق نہ ہو مگر اسے سزا دے ڈالی جائے ۔ چوتھے یہ کہ جو سزا کا مستحق ہو اسے سزا نہ دی جائے ۔ پانچویں یہ کہ جو سزا کا مستحق ہو اسے زیادہ سزا دے دی جائے ۔ چھٹے یہ کہ مظلوم کا منہ دیکھتا رہ جائے اور ظالم اس کی آنکھوں کے سامنے صاف بری ہو کر نکل جائے ۔ ساتویں یہ کہ ایک کے گناہ میں دوسرا پکڑ لیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ ان تمام نوعیتوں میں سے کسی نوعیت کا ظلم بھی اس کی عدالت میں نہ ہونے پائے گا ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :29 مطلب یہ ہے کہ اللہ کو حساب لینے میں کوئی دیر نہیں لگے گی ۔ وہ جس طرح کائنات کی ہر مخلوق کو بیک وقت رزق دے رہا ہے اور کسی کی رزق رسانی کے انتظام میں اس کو ایسی مشغولیت نہیں ہوتی کہ دوسروں کو رزق دینے کی اسے فرصت نہ ملے ، وہ جس طرح کائنات کی ہر چیز کو بیک وقت دیکھ رہا ہے ، ساری آوازوں کو بیک وقت سن رہا ہے ، تمام چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے معاملات کی بیک وقت تدبیر کر رہا ہے ، اور کوئی چیز اس کی توجہ کو اس طرح جذب نہیں کر لیتی کہ اسی وقت وہ دوسری چیزوں کی طرف توجہ نہ کر سکے ، اسی طرح وہ ہر ہر فرد کا بیک وقت محاسبہ بھی کر لے گا اور ایک مقدمے کی سماعت کرنے میں اسے ایسی مشغولیت لاحق نہ ہو گی کہ اسی وقت دوسرے بے شمار مقدمات کی سماعت نہ کر سکے ۔ پھر اس کی عدالت میں اس بنا پر بھی کوئی تاخیر نہ ہو گی کہ واقعات مقدمہ کی تحقیق اور اس کے لیے شہادتیں فراہم ہونے میں وہاں کوئی مشکل پیش آئے ۔ حاکم عدالت براہ راست خود تمام حقائق سے واقف ہو گا ۔ ہر فریق مقدمہ اس کے سامنے بالکل بے نقاب ہو گا ۔ اور واقعات کی کھلی کھلی ناقابل انکار شہادتیں چھوٹی سے چھوٹی جزئی تفصیلات تک کے ساتھ بلا تاخیر پیش ہو جائیں گی ۔ اس لیے ہر مقدمے کا فیصلہ جھٹ پٹ ہو جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani