اللہ علیم پر ہر چیز ظاہر ہے ۔ ازفہ قیامت کا ایک نام ہے ۔ اس لئے وہ بہت ہی قریب ہے جیسے فرمان ہے ( اَزِفَتِ الْاٰزِفَةُ 57ۚ ) 53- النجم:57 ) یعنی قریب آنے والی قریب ہو چکی ہے ، جس کا کھولنے والا بجز اللہ کے کوئی نہیں اور جگہ ارشاد ہے ( اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ Ǻ ) 54- القمر:1 ) قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا اور فرمان ہے ( اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ Ǻۚ ) 21- الأنبياء:1 ) لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ گیا اور فرمان ہے ( امر اللہ فلا تستعجلوہ ) اللہ کا امر آ چکا اس میں جلدی نہ کرو اور آیت میں ہے ( فَلَمَّا رَاَوْهُ زُلْفَةً سِيْۗـــــَٔتْ وُجُوْهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَقِيْلَ هٰذَا الَّذِيْ كُنْتُمْ بِهٖ تَدَّعُوْنَ 27 ) 67- الملك:27 ) جب اسے قریب دیکھ لیں گے تو کافروں کے چہرے سیاہ پڑ جائیں گے ۔ الغرض اسی نزدیکی کی وجہ سے قیامت کا نام ازفہ ہے ۔ اس وقت کلیجے منہ کو آ جائیں گے ۔ وہ خوف و ہراس ہو گا کہ کسی کا دل ٹھکانے نہ رہے گا ۔ سب پر غضب کا سناٹا ہو گا ۔ کسی کے منہ سے کوئی بات نہ نکلے گی ۔ کیا مجال کہ بے اجازت کوئی لب ہلا سکے ۔ سب رو رہے ہوں گے اور حیران و پریشان ہوں گے ۔ جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ شرک کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ان کا آج کوئی دوست غمگسار نہ ہو گا جو انہیں کام آئے ۔ نہ شفیع اور سفارشی ہو گا جو ان کی شفاعت کے لئے زبان ہلائے ۔ بلکہ ہر بھلائی کے اسباب کٹ چکے ہوں گے ، اس اللہ کا علم محیط کل ہے ۔ تمام چھوٹی بڑی چھپی کھلی باریک موٹی اس پر یکساں ظاہر باہر ہیں ، اتنے بڑے علم والے سے جس سے کوئی چیز مخفی نہ ہو ہر شخص کو ڈرنا چاہئے اور کسی وقت یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ اس وقت وہ مجھ سے پوشیدہ ہے اور میرے حال کی اسے اطلاع نہیں ۔ بلکہ ہر وقت یہ یقین کر کے وہ مجھے دیکھ رہا ہے اس کا علم میرے ساتھ ہے اس کا لحاظ کرتا رہے اور اس کے رو کے ہوئے کاموں سے رکا رہے ۔ آنکھ جو خیانت کے لئے اٹھتی ہے گو بظاہر وہ امانت ظاہر کرے ۔ لیکن رب علیم پر وہ مخفی نہیں سینے کے جس گوشے میں جو خیال چھپا ہو اور دل میں جو بات پوشیدہ اٹھتی ہو اس کا اسے علم ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں اس آیت سے مراد وہ شخص ہے جو مثلاً کسی گھر میں گیا وہاں کوئی خوبصورت عورت ہے یا وہ آ جا رہی ہے یا تو یہ کن اکھیوں سے اسے دیکھتا ہے جہاں کسی کی نظر پڑی تو نگاہ پھیرلی اور جب موقعہ پایا آنکھ اٹھا کر دیکھ لیا پس خائن آنکھ کی خیانت کو اور اس کے دل کے راز کو اللہ علیم خوب جانتا ہے کہ اس کے دل میں تو یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو پوشیدہ عضو بھی دیکھ لے ۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں اس سے مراد آنکھ مارنا اشارے کرنا اور بن دیکھی چیز کو دیکھی ہوئی یا دیکھی ہوئی چیز کو ان دیکھی بتانا ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ۔ نگاہ جس نیت سے ڈالی جائے اللہ پر روشن ہے ۔ پھر سینے میں چھپا ہوا خیال کہ اگر موقعہ ملے اور بس ہو تو آیا یہ بدکاری سے باز رہے گا یا نہیں ۔ یہ بھی وہ جانتا ہے ۔ سدی فرماتے ہیں دلوں کے وسوسوں سے وہ آگاہ ہے ، وہ عدل کے ساتھ حکم کرتا ہے قادر ہے کہ نیکی کا بدلہ نیکی دے اور برائی کی سزا بری دے ۔ وہ سننے دیکھنے والا ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ وہ بروں کو ان کی کرنے کی سزا اور بھلوں کو ان کی بھلائی کی جزا عنایت فرمائے گا ۔ جو لوگ اس کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں خواہ وہ بت اور تصویریں ہوں خواہ اور کچھ وہ چونکہ کسی چیز کے مالک نہیں ان کی حکومت ہی نہیں تو حکم اور فیصلے کریں گے ہی کیا ؟ اللہ اپنی مخلوق کے اقوال کو سنتا ہے ۔ ان کے احوال کو دیکھ رہا ہے جسے چاہے راہ دکھاتا ہے جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اس کا اس میں بھی سرا سر عدل و انصاف ہے ۔
18۔ 1 َ اَزِفَۃ کے معنی ہیں قریب آنے والی۔ یہ قیامت کا نام ہے، اس لئے کہ وہ بھی قریب آنے والی ہے۔ 18۔ (2) یعنی اس دن خوف کی وجہ سے دل اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے کا ظمین غم سے بھرے ہوئے یا روتے ہوئے یا خاموش اس کے تینوں معنی کیے گئے ہیں۔
[٢٤] اَزِفَ کا لغوی مفہوم : اٰزِفَہ۔ اَزِفَ میں وقت کی تنگی کا مفہوم پایا جاتا ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ گاڑی یا جہاز کے روانہ ہونے میں وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ لہذا جلدی کرو۔ اسی طرح قیامت کا دن جو یقینی طور پر آنے والا ہے اسے بس آیا ہی سمجھو اور اس کے لئے جو کچھ سامان کرنا ہے جلدی جلدی کرلو۔ - [٢٥] کَظَم کا لغوی مفہوم :۔ کَاظِمِیْنَ ۔ کظم سانس کی نالی کو کہتے ہیں اور کظم السقائ بمعنی مشک کو (پانی سے لبالب بھر کر اس کا منہ بند کردینا ہے اور کا ظم، کظیم اور مکظوم اس شخص کو کہتے ہیں جو غم و غصہ سے سانس کی نالی تک بھرا ہوا ہو مگر اسکا اظہار نہ کرے اور اسے دبا جائے۔ یعنی مجرموں کو اپنی دنیا کی زندگی کی کرتوتوں پر اس قدر غم ہوگا جس کی گھبراہٹ کی وجہ سے ان کے کلیجے منہ کو آرہے ہوں گے۔- [٢٦] سفارش کا عوامی عقیدہ :۔ شفاعت کے متعلق مشرکوں نے جو غلط سلط عقیدے گھڑ رکھے ہیں، بالکل بےکار ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مثلاً فلاں حضرت کا دامن پکڑ لیا جائے اور اس کی بیعت کرلی جائے تو بس بیڑا پارا ہے۔ وہ اللہ کے حضور سفارش کرکے ہمیں چھڑا لیں گے۔ حالانکہ قرآن کی صراحت کے مطابق یہ معلوم کرنا بھی مشکل ہے کہ جن حضرات کو وہ شفیع سمجھ رہے ہیں وہ خود کس حال میں ہوں گے۔ نیز انہیں شفاعت کی اجازت بھی ملے گی یا نہیں اور اگر بفرض محال یہ تسلیم کرلیا جائے کہ انہیں اجازت مل جائے گی تو پھر بھی یہ کب لازم آتا ہے کہ اس کی بات مان بھی لی جائے گی۔ لہذا کسی کی شفاعت پر انحصار کرنا بالکل عبث ہے۔
(١) وانذرھم یوم الازفۃ :” الازفۃ “” ازف یارف “ (س) سے اسم فاعل ہے۔ مونث اس لئے ہے کہ یہ ” الشاعۃ “ کی صفت ہے۔ چناچہ قیامت کے متعلق اکثر الفاظ مونث اسعتمال ہئے ہیں، مثلاً ” الحآقۃ، القارعۃ، الضآختہ “ اور ” الطآمۃ “ وغیرہ۔ قیامت کو ” الازقۃ “ اس لئے فرمایا کہ اس کا آنا بہت قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر قیامت کے قریب آنے سے لوگوں کو خبردار فرمایا ہے، چناچہ فرمایا :(ازقت الازقۃ لیس لھامن دون اللہ کاشفۃ) (النجم : ٥٨، ٥٨)” قریب آگئی وہ قریب آنے والی ہے۔ جسے اللہ کے سوا کوئی ہٹانے والا نہیں۔ “ قیامت کے قریب آنے کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة انبیاء کی آیت (١):(اقترب للناس حسابھم) کی تفسیر۔- (٢) اذا القلوب لدی الحناجر کظلمین :” الحناجر “” خنجرۃ “ کی جمع ہے، حلق ہے۔ ” کظلمین “ (” کظلم السقائ “ کا معنی مشکیزے کو پانی سے بھر کر اس کا من بند کردینا۔ یعنی شدید خوف اور غم کی وجہ سے مجرموں کے دل حلق کو پہنچے ہوئے ہوں گے، پھر وہ نہ تو اپنی جگہ واپس جائیں گے کہ انہیں کچھ آرام ملے اور نہ ہی ان کے بدن سے باہر نکلیں گے کہ موت آنے کے بعد ان کی جان چھوٹے۔- (٣) ماللظلمین من حمیم :” حم یحم “ (ن) گرم کرنا۔ دلی دوست یا رشتہ دار کو ” حمیم “ اس لئے کہتے ہیں کہ اسے اپنے دوست یا رشتہ دار کی وجہ سے دل میں گرمی آتی ہے۔ قیامت کے دن ظالموں کا کوئی دلی دوست نہیں ہوگا، جیسا کہ فرمایا :- (الاخلآء یومیذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین) (الزخرف : ٦٨) ” سب ذی دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر متقی لوگ۔ “- (٤) ولا شفیع :” ظلامین “ سے مراد کفار و مشرکین۔ (دیکھیے انعام : ٨٢۔ لقمان : ١٣) ان کے حق میں کوئی بھی سفارش نہیں کرے گا، کیونکہ اس دن جو سفارش کی اجازت دی جائے گی وہ انبیاء فرشتوں اور نیک بندوں کو دی جائے گی اور وہ بھی صرف ایمان والوں کے لئے کفار و مشرکین کا سفارشی اس دن کوئی نہیں ہوگا۔ مزید دیکھیے سورة بقرہ (٤٨)- (٥) یطلع :” جس کی بات مانی جائے “ یعنی اول تو کفار کے حق میں کوئی شفاعت کی جرأت ہی نہیں کرے گا۔ (دیکھیے انبیائ : ٣٨) اگر لاعلمی یا کسی شبہ کی وجہ سے سفارش کی اجازت سمجھ کر کوئی نبی یا ولی کسی کافر کے حق میں سفارش کر بھی دے گا تو اس کی سفارش نہیں مانی جائے گی۔ ہاں، سفارش قبول نہ ہونے کی وجہ بتادی جائے گی، جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) قیامت کے دچن اپنے والد کے حق میں سفارش کریں گے، مگر وہ قبول نہیں ہوگی، اسی طرح حوض کوثر پر آنے والے بعض لوگوں کے حق میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفارش کریں گے مگر آپ کو بتایاجائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا نیا کام کیا تھا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفارش سے دست بردار ہوجائیں گے۔
وَاَنْذِرْہُمْ يَوْمَ الْاٰزِفَۃِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَى الْحَـنَاجِرِ كٰظِمِيْنَ ٠ۥۭ مَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ حَمِيْمٍ وَّلَا شَفِيْعٍ يُّطَاعُ ١- نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- أزف - قال تعالی: أَزِفَتِ الْآزِفَةُ [ النجم 57] أي : دنت القیامة . وأزف وأفد يتقاربان، لکن أزف يقال اعتباراً بضیق وقتها، ويقال : أزف الشخوص، والأَزَفُ : ضيق الوقت، وسمّيت به لقرب کو نها، وعلی ذلک عبّر عنها بالسّاعة، وقیل : أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، فعبّر عنها بالماضي لقربها وضیق وقتها، قال تعالی: وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ [ غافر 18] .- ا زف ) قرآن میں ہے :۔ أَزِفَتِ الْآزِفَةُ ( سورة النجم 57) یعنی قیامت قریب آپہنچی ازف وافد دونوں قریب المعنی ہیں قیامت کو ازف کہنا بلحاظ ضیق وقت کے ہے جیسے کہا جاتا ہے ازف الشخوص ( کوچ کا وقت قریب آپہنچا ) اور ازف کے معنی ضیق وقت کے ہے جیسے کہا جاتا ہے ازف کے معنی ضیق وقت کے ہیں اور قیامت کو ازفۃ کہنا اس کے قرب وقت کے اعتبار سے ہے اور اسی بنا پر اس کو ساعۃ کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے ۔ اور نیز آیت کریمہ :۔ أَتَى أَمْرُ اللهِ ( سورة النحل 1) خدا کا حکم ( یعنی عذاب گو یا ) آہی پہنچا ۔ میں قیامت کو لفظ ماضی کے ساتھ تعبیر کیا ہے نیز فرمایا ۔ وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ ( سورة غافر 18) اور ان کو قریب آنے والے دن سے ڈراو۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - لدی - لَدَى يقارب لدن . قال تعالی: وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] .- ( ل د ی ) لدی یہ تقریبا لدن کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا - حنجر - قال تعالی: لَدَى الْحَناجِرِ كاظِمِينَ [ غافر 18] ، وقال عزّ وجلّ : وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَناجِرَ [ الأحزاب 10] ، جمع حَنْجَرَة، وهي رأس الغلصمة من خارج .- ( ح ن ج ر) الحنجرۃ ( نرخرہ ) نائے گلو یعنی بیرونی جانب سے حلقوم کا سرا س کی جمع حناجر آتی ہے قرآن میں ہے ؛ لَدَى الْحَناجِرِ كاظِمِينَ [ غافر 18] غم سے بھر کر گلو تک آرہے ہوں گے ۔ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَناجِرَ [ الأحزاب 10] اور دل ( مارے دہشت کے ) گلوں تک پہنچ گئے ۔- كظم - الْكَظْمُ : مخرج النّفس، يقال : أخذ بِكَظَمِهِ ، والْكُظُومُ : احتباس النّفس، ويعبّر به عن السّكوت کقولهم : فلان لا يتنفّس : إذا وصف بالمبالغة في السّكوت، وكُظِمَ فلان : حبس نفسه . قال تعالی: إِذْ نادی وَهُوَ مَكْظُومٌ [ القلم 48] ، وكَظْمُ الغَيْظِ : حبسه، قال :- وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران 134] - ( ک ظ م ) الکظم - اصل میں مخروج النفس یعنی سانس کی نالي کو کہتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ احذ بکظمہ اس کی سانس کی نالي کو پکڑ لیا یعنی غم میں مبتلا کردیا ۔ الکظوم کے معنی سانس رکنے کے ہیں اور خاموش ہوجانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ انتہائی خا موشی کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے فلان لا یتنفس کہا جاتا ہے ۔ فلاں سانس نہین لیتا یعنی خا موش ہے ۔ کظم فلان اس کا سانس بند کردیا گیا ( مراد نہایت غمگین ہونا ) چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِذْ نادی وَهُوَ مَكْظُومٌ [ القلم 48] کہ انہوں نے خدا کو پکارا اور وہ غم) غصہ میں بھرے تھے ۔ اور کظلم الغیظ کے معنی غصہ روکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ - وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران 134] اور غصے کو در کتے ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - حم - الحمیم : الماء الشدید الحرارة، قال تعالی: وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] ، إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ 25] ، وقال تعالی: وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام 70] ، وقال عزّ وجل : يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج 19] ، ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات 67] ، هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص 57] ، وقیل للماء الحارّ في خروجه من منبعه :- حَمَّة، وروي : «العالم کالحمّة يأتيها البعداء ويزهد فيها القرباء» «6» ، وسمي العَرَق حمیما - علی التشبيه، واستحمّ الفرس : عرق، وسمي الحمّام حمّاما، إمّا لأنه يعرّق، وإمّا لما فيه من الماء الحارّ ، واستحمّ فلان : دخل الحمّام، وقوله عزّ وجل : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ- [ الشعراء 100- 101] ، وقوله تعالی: وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج 10] ، فهو القریب المشفق، فكأنّه الذي يحتدّ حماية لذويه، وقیل لخاصة الرّجل : حامّته، فقیل :- الحامّة والعامّة، وذلک لما قلنا، ويدلّ علی ذلك أنه قيل للمشفقین من أقارب الإنسان حزانته أي : الذین يحزنون له، واحتمّ فلان لفلان : احتدّ وذلک أبلغ من اهتمّ لما فيه من معنی الاحتمام، وأحمّ الشّحم : أذابه، وصار کالحمیم، وقوله عزّ وجل : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة 43] ، للحمیم، فهو يفعول من ذلك، وقیل : أصله الدخان الشدید السّواد ، وتسمیته إمّا لما فيه من فرط الحرارة، كما فسّره في قوله : لا بارِدٍ وَلا كَرِيمٍ [ الواقعة 44] ، أو لما تصوّر فيه من لفظ الحممة فقد قيل للأسود يحموم، وهو من لفظ الحممة، وإليه أشير بقوله : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر 16] ، وعبّر عن الموت بالحمام، کقولهم : حُمَّ كذا، أي : قدّر، والحُمَّى سمّيت بذلک إمّا لما فيها من الحرارة المفرطة، وعلی ذلک قوله صلّى اللہ عليه وسلم : «الحمّى من فيح جهنّم» «4» ، وإمّا لما يعرض فيها من الحمیم، أي :- العرق، وإمّا لکونها من أمارات الحِمَام، لقولهم : «الحمّى برید الموت» «5» ، وقیل : «باب الموت» ، وسمّي حمّى البعیر حُمَاماً «6» بضمة الحاء، فجعل لفظه من لفظ الحمام لما قيل : إنه قلّما يبرأ البعیر من الحمّى. وقیل : حَمَّمَ الفرخ «7» : إذا اسودّ جلده من الریش، وحمّم - ( ح م م ) الحمیم کے معنی سخت گرم پانی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا ۔ إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ 25] مگر گرم پانی اور یہی پیپ ۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام 70] اور جو کافر ہیں ان کے پینے کو نہایت گرم پانی ۔ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج 19]( اور ) ان کے سروں پر جلتا ہوا پانی دالا جائیگا ۔ ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات 67] پھر اس ( کھانے ) کے ساتھ ان کو گرم پانی ملا کردیا جائے گا ۔ هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص 57] یہ گرم کھولتا ہوا پانی اور پیپ ( ہے ) اب اس کے مزے چکھیں ۔ اور گرم پانی کے چشمہ کو حمتہ کہا جاتا ہے ایک روایت میں ہے ۔ کہ عالم کی مثال گرم پانی کے چشمہ کی سی ہے جس ( میں نہانے ) کے لئے دور دور سے لوگ آتے ہیں ( اور شفایاب ہوکر لوٹتے ہیں ) اور قرب و جوار کے لوگ اس سے بےرغبتی کرتے ہیں ( اس لئے اس کے فیض سے محروم رہتے ہیں ) اور تشبیہ کے طور پر پسینہ کو بھی حمیم کہا جاتا ہے اسی سے استحم الفرس کا محاورہ ہے جس کے معنی گھوڑے کے پسینہ پسینہ ہونے کے ہیں اور حمام کو حمام یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ پسینہ آور ہوتا ہے اور یا اس لئے کہ اس میں گرم پانی موجود رہتا ہے ۔ استحم فلان ۔ حمام میں داخل ہونا ۔ پھر مجازا قریبی رشتہ دار کو بھی حمیم کہا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ انسان اپنے رشتہ داروں کی حمایت میں بھٹرک اٹھتا ہے اور کسی شخص کے اپنے خاص لوگوں کو حامتہ خاص وعام کا محاورہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ [ الشعراء 100- 101] تو ( آج ) نہ کوئی ہمارا سفارش کرنے والا ہے اور نہ گرم جوش دوست نیز فرمایا ۔ وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج 10] اور کوئی دوست کسیز دوست کا پر سان نہ ہوگا ۔ اور اس کی دلیل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انسان کے قریبی مہر بانوں کو حزانتہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اس کے غم میں شریک رہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ احتم فلان لفلان فلاں اس کے لئے غمگین ہوا یا اس کی حمایت کے لئے جوش میں آگیا ۔ اس میں باعتبار معنی اھم سے زیادہ زور پایا جاتا ہے کیونکہ اس میں غم زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ جوش اور گرمی کے معنی بھی پائے جاتے ہیں ۔ احم الشحم چربی پگھلا ۔ یہاں تک کہ وہ گرم پانی کی طرح ہوجائے اور آیت کریمہ : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة 43] اور سیاہ دھوئیں کے سایے میں ۔ میں یحموم حمیم سے یفعول کے وزن پر ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے اصل معنی سخت سیاہ دھوآں کے ہیں اور اسے یحموم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں شیت حرارت پائی جاتی ہے جیسا کہ بعد میں سے اس کی تفسیر کی ہے اور یا اس میں حممتہ یعنی کوئلے کی سی سیاہی کا تصور موجود ہے ۔ چناچہ سیاہ کو یحموم کہا جاتا ہے اور یہ حممتہ ( کوئلہ ) کے لفظ سے مشتق ہے چناچہ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر 16] ان کے اوپر تو اگ کے سائبان ہوں گے اور نیچے ( ان ) کے فرش پونگے اور حمام بمعنی موت بھی آجاتا ہے جیسا کہ کسی امر کے مقدر ہونے پر حم کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور بخار کو الحمی کہنا یا تو اس لئے ہے کہ اس میں حرارت تیز ہوجاتی ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا : کہ بخار جہنم کی شدت ست ہے اور یا بخار کو حمی اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں پسینہ اترتا ہے اور یا اس لئے کہ یہ موت کی علامات میں سے ایک علامت ہے ۔ جیسا کہ عرب لوگ کہتے ہیں الحمی بریدالموت ( کہ بخار موت کا پیغام پر ہے ) اور بعض اسے باب الموت یعنی موت کا دروازہ بھی کہتے ہیں اور اونٹوں کے بخار کو حمام کہا جاتا ہے یہ بھی حمام ( موت ) سے مشتق ہے کیونکہ اونٹ کو بخار ہوجائے تو وہ شازو نادر ہی شفایاب ہوتا ہے ۔ حمم الفرخ پرندے کے بچہ نے بال وپر نکال لئے کیونکہ اس سے اس کی جلد سیاہ ہوجاتی ہے ۔ حمم وجھہ اس کے چہرہ پر سبزہ نکل آیا یہ دونوں محاورے حممتہ سے موخوز ہیں ۔ اور حمحمت الفرس جس کے معنی گھوڑے کے ہنہنانے کے ہیں یہ اس باب سے نہیں ہے ۔- شَّفَاعَةُ- : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً- [ مریم 87] ، لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه 109] ، لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم 26] ، وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء 28] ، فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر 48] ، أي : لا يشفع لهم، وَلا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفاعَةَ [ الزخرف 86] ، مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر 18] ، مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً- [ النساء 85] ، وَمَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً سَيِّئَةً [ النساء 85] ، أي : من انضمّ إلى غيره وعاونه، وصار شَفْعاً له، أو شَفِيعاً في فعل الخیر والشّرّ ، فعاونه وقوّاه، وشارکه في نفعه وضرّه .- وقیل : الشَّفَاعَةُ هاهنا : أن يشرع الإنسان للآخر طریق خير، أو طریق شرّ فيقتدي به، فصار كأنّه شفع له، وذلک کما قال عليه السلام : «من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» «1» أي : إثمها وإثم من عمل بها، وقوله : ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس 3] ، أي :- يدبّر الأمر وحده لا ثاني له في فصل الأمر إلّا أن يأذن للمدبّرات، والمقسّمات من الملائكة فيفعلون ما يفعلونه بعد إذنه . واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، وشَفَّعَهُ : أجاب شفاعته، ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» «2» والشُّفْعَةُ هو : طلب مبیع في شركته بما بيع به ليضمّه إلى ملكه، وهو من الشّفع، وقال عليه السلام : «إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ»- الشفاعۃ - کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه 109] اس روز کسی کی شفارش فائدہ نہ دے گی ۔ مگر اس شخص کی جسے خدا اجازت دے ۔ لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم 26] جن کی شفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی ۔ وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء 28] وہ اس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کرسکتے مگر اس شخص کی جس سے خدا خوش ہو ۔ فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر 48]( اس حال میں ) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ یعنی جن معبودوں کو یہ اللہ کے سو سفارش کیلئے پکارتے ہیں ۔ وہ ان کی سفارش نہیں کرسکیں گے ۔ مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر 18] کوئی دوست نہیں ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات قبول کی جائے ۔ مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء 85] جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس ( کے ثواب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس ( کے عذاب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ یعنی جو شخص اچھے یا برے کام میں کسی کی مدد اور سفارش کرے گا وہ بھی اس فعل کے نفع ونقصان میں اس کا شریک ہوگا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں شفاعت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے لئے کسی اچھے یا برے مسلک کی بنیاد رکھے اور وہ اس کی اقتداء کرے تو وہ ایک طرح سے اس کا شفیع بن جاتا ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا :«من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» کہ جس شخص نے اچھی رسم جاری کی اسے اس کا ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی اسے اجر ملے گا اور جس نے بری رسم جاری کی اس پر اس کا گناہ ہوگا ۔ اور جو اس پر عمل کرے گا اس کے گناہ میں بھی وہ شریک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ ؛ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس 3] کوئی ( اس کے پاس ) اس کا اذن لیے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اکیلا ہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے اور نظام کائنات کے چلانے میں کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے ۔ ہاں جب وہ امور کی تدبیر و تقسیم کرنے والے فرشتوں کو اجازت دیتا ہے تو وہ اس کی اجازت سے تدبیر امر کرتے ہیں ۔ واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، میں نے فلاں سے مدد طلب کی تو اس نے میری مدد لی ۔ وشَفَّعَهُ : ۔ کے معنی کسی کی شفارش قبول کرنے کے ہیں ۔ اور اسی سے (علیہ السلام) کافرمان ہے (196) «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ الشُّفْعَةُ کے معنی ہیں کسی مشترکہ چیز کے فروخت ہونے پر اس کی قیمت ادا کر کے اسے اپنے ملک میں شامل کرلینا ۔ یہ شفع سے مشتق ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا :«إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» جب حدود مقرر ہوجائیں تو حق شفعہ باقی نہیں رہتا ۔- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» .- قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے - وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے
اور محمد ان کو آزفہ کے دن سے ڈرایے جس روز تیزی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ چپٹے گا اور یہ قیامت کا دن ہے جس وقت کلیجے منہ کو آجائیں گے غم اور پریشانی سے گھٹ گھٹ جائیں گے۔- کافروں کے لیے کوئی دوست بھی نہ ہوگا جو ان کے کام آسکے اور نہ کوئی سفارشی ہوگا جس سے سفارش کا وہم بھی ہوسکے۔
آیت ١٨ وَاَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَۃِ ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) انہیں خبردار کر دیجئے اس نزدیک آجانے والے دن سے “- اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَی الْحَنَاجِرِکٰظِمِیْنَ ” جبکہ دل حلق میں آ پھنسیں گے اور وہ غم کو دبا رہے ہوں گے۔ “- مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّلَا شَفِیْعٍ یُّطَاعُ ” ان ظالموں کا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی ایسا سفارشی ہوگا جس کی بات مانی جائے۔ “
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :30 قرآن مجید میں لوگوں کو بار بار یہ احساس دلایا گیا ہے کہ قیامت ان سے کچھ دور نہیں ہے بلکہ قریب ہی لگی کھڑی ہے اور ہر لمحہ آسکتی ہے ۔ کہیں فرمایا اَتیٰ اَمْرُ اللہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ ( النحل:1 ) ۔ کہیں ارشاد ہوا اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ ( الانبیاء :1 ) کہیں متنبہ کیا گیا اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ( القمر:1 ) ۔ کہیں فرمایا گیا اَزِفَتِ الْاٰزِفَۃُ لَیْسَ لَھَا مِنْ دُوْنِ اللہِ کَاشِفَۃٌ ( النجم:57 ) ۔ ان ساری باتوں سے مقصود لوگوں کو متنبہ کرنا ہے کہ قیامت کو دور کی چیز سمجھ کر بے خوف نہ رہیں اور سنبھلنا ہے تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر سنبھل جائیں ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :31 اصل میں لفظ حَمَیْم استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد کسی شخص کا ایسا دوست ہے جو اس کو پٹتے دیکھ کر جوش میں آئے اور اسے بچانے کے لیے دوڑے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :32 یہ بات برسبیل تنزل ، کفار کے عقیدہ شفاعت کی تردید کرتے ہوئے فرمائی گئی ہے ۔ حقیقت میں تو وہاں ظالموں کا کوئی شفیع سرے سے ہو گا ہی نہیں ، کیونکہ شفاعت کی اجازت اگر مل بھی سکتی ہے تو اللہ کے نیک بندوں کو مل سکتی ہے ، اور اللہ کے نیک بندے کبھی کافروں اور مشرکوں اور فساق و فجار کے دوست نہیں ہو سکتے کہ وہ انہیں بچانے کے لیے سفارش کا خیال بھی کریں ۔ لیکن چونکہ کفار و مشرکین اور گمراہ لوگوں کا بالعموم یہ عقیدہ رہا ہے ، اور آج بھی ہے ، کہ ہم جن بزرگوں کے دامن گرفتہ ہیں وہ کبھی ہمیں دوزخ میں نہ جانے دیں گے بلکہ اڑ کر کھڑے ہو جائیں گے اور بخشوا کر ہی چھوڑیں گے ، اس لیے فرمایا گیا کہ وہاں ایسا شفیع کوئی بھی نہ ہو گا جس کی بات مانی جائے اور جس کی سفارش اللہ کو لازماً قبول ہی کرنی پڑے ۔