فرعون کا بدترین حکم ۔ اللہ تعالیٰ اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینے کے لئے سابقہ رسولوں کے قصے بیان فرماتا ہے کہ جس طرح انجام کار فتح و ظفر ان کے ساتھ رہی اسی طرح آپ بھی ان کفار سے کوئی اندیشہ نہ کیجئے ۔ میری مدد آپ کے ساتھ ہے ۔ انجام کار آپ ہی کی بہتری اور برتری ہو گی جیسے کہ حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کا واقعہ آپ کے سامنے ہے کہ ہم نے انہیں دلائل و براہین کے ساتھ بھیجا ، قبطیوں کے بادشاہ فرعون کی طرف جو مصر کا سلطان تھا اور ہامان کی طرف جو اس کا وزیر اعظم تھا اور قارون کی طرف جو اس کے زمانے میں سب سے زیادہ دولت مند تھا اور تاجروں کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا ۔ ان بدنصیبوں نے اللہ کے اس زبردست رسول کو جھٹلایا اور ان کی توہین کی اور صاف کہہ دیا کہ یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے ۔ یہی جواب سابقہ امتوں کے بھی انبیاء علیہم السلام کو دیتے ہے ۔ جیسے ارشاد ہے ( كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ 52ۚ ) 51- الذاريات:52 ) ، یعنی اس طرح ان سے پہلے بھی جتنے رسول آئے سب سے ان کی قوم نے یہی کہا کہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے ۔ کیا انہوں نے اس پر کوئی متفقہ تجویز کر رکھی ہے؟ نہیں بلکہ دراصل یہ سب کے سب سرکش لوگ ہیں ، جب ہمارے رسول موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس حق لائے اور انہوں نے اللہ کے رسول کو ستانا اور دکھ دینا شروع کیا اور فرعون نے حکم جاری کر دیا اس رسول پر جو ایمان لائے ہیں ان کے ہاں جو لڑکے ہیں انہیں قتل کر دو اور جو لڑکیاں ہوں انہیں زندہ چھوڑ دو ، اس سے پہلے بھی وہ یہی حکم جاری کر چکا تھا ۔ اس لئے کہ اسے خوف تھا کہ کہیں موسیٰ پیدا نہ ہو جائیں یا اس لئے کہ بنی اسرائیل کی تعداد کم کر دے اور انہیں کمزور اور بےطاقت بنا دے اور ممکن ہے دونوں مصلحتیں سامنے ہوں اور ان کی گنتی نہ بڑھے اور یہ پست و ذلیل رہیں بلکہ انہیں خیال ہو کہ ہماری اس مصیبت کا باعث حضرت موسیٰ ہیں ۔ چنانچہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ آپ کے آنے سے پہلے بھی ہمیں ایذاء دی گئی اور آپ کے تشریف لانے کے بعد بھی ہم ستائے گئے ۔ آپ نے جواب دیا تم جلدی نہ کرو بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کو برباد کر دے اور تمہیں زمین کا خلیفہ بنائے پھر دیکھے ۔ کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ فرعون کا یہ حکم دوبارہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار کا فریب اور ان کی یہ پالیسی کہ بنی اسرائیل فنا ہو جائیں بےفائدہ اور فضول تھی ۔ فرعون کا ایک بدترین قصد بیان ہو رہا ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ کے قتل کا ارادہ کیا اور اپنی قوم سے کہا مجھے چھوڑو میں موسیٰ کو قتل کر ڈالوں گا وہ اگرچہ اپنے اللہ کو بھی اپنی مدد کے لئے پکارے مجھے کوئی پرواہ نہیں ۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر اسے زندہ چھوڑا گیا تو وہ تمہاے دین کو بدل دے گا تمہاری عادت و رسومات کو تم سے چھڑا دے گا اور زمین میں ایک فساد پھیلا دے گا ۔ اسی لئے عرب میں یہ مثل مشہو رہو گئی صار الرعن مذاکرا یعنی فرعون بھی واعظ بن گیا ۔ بعض قرأتوں میں بجائے ان یطھر کے یطھر ہے ، حضرت موسیٰ کو جب فرعون کا یہ بد ارادہ ملعوم ہوا تو آپ نے فرمایا میں اس کی اور اس جیسے لوگوں کی برائی سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں ۔ اے میرے مخاطب لوگو میں ہر اس شخص کی ایذاء رسانی سے جو حق سے تکبر کرنے والا اور قیامت کے دن پر ایمان نہ رکھنے ولا ہو ، اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی قوم سے خوف ہوتا تو آپ یہ دعا پڑھتے یعنی اے اللہ ان کی برائی سے ہم تیری پناہ میں آتے ہیں اور ہم تجھ پر ان کے مقابلے میں بھروسہ کرتے ہیں ۔
23۔ 1 آیات سے مراد وہ نشانیاں بھی ہوسکتی ہیں جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے یا عصا اور ید بیضا والے دو بڑے واضح معجزات بھی سلطان مبین سے مراد قوی دلیل اور حجت واضحہ جس کا کوئی جواب ان کی طرف سے ممکن نہیں تھا بجز ڈھٹائی اور بےشرمی کے۔
[٣١] سلطان کا مطلب :۔ سلطان کا معنی ایسی دلیل ہے جو سند یا دستاویز کی حیثیت رکھتی ہو اور جس سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہو کہ یہ شخص جو کچھ کر رہا ہے وہ صرف اپنی ہی نہیں کسی دوسری قوت کے بل بوتے پر کر رہا ہے۔ اور ایسے حالات و واقعات موسیٰ کی زندگی میں بارہا پیش آئے تھے۔ پہلی بات تو یہی تھی کہ موسیٰ فرعون کی حکومت کے مفرور مجرم تھے۔ اس کے باوجود آپ خود ہی سیدھے اس کے دربار میں پہنچ گئے اور اسے اللہ کا پیغام سنا کر اپنی اطاعت کی دعوت دی اور یہ بھی کہا کہ بنی اسرائیل کو آزاد کرکے میرے ہمراہ روانہ کردے۔ اور یہ دونوں باتیں ایسی تھیں جن سے وہ جل بھن گیا تھا۔ مگر اس کے باوجود آپ پر ہاتھ اٹھانے یا آپ کو کوئی تکلیف پہنچانے کی جرأت نہ کرسکا اور کہا تو بس یہی کہا کہ اگر تم واقعی اللہ کے رسول ہو تو کوئی معجزہ ہے تو وہ پیش کرو۔ پھر جب بھی مصر پر کوئی عذاب نازل ہوتا تو فرعون سیدنا موسیٰ سے التجا کرتا ہے اگر یہ مصیبت دور ہوجائے تو میں ایمان لے آؤں گا۔ پھر جب سیدنا موسیٰ دعا کرتے تو وہ مصیبت ٹل بھی جاتی تھی۔ ایسی تمام باتوں سے صاف واضح ہوتا تھا کہ سیدنا موسیٰ کی پشت پر کوئی غیبی طاقت موجود ہے۔ جس سے فرعون اور اس کے سب درباری خائف تھے اور یہی سلطان مبین کا مطلب ہے۔
(١) ولقد ارسلنا موسیٰ … پچھلی آیات میں پہلے انبیاء کو جھٹلانے والی اقوام کے انجام کے ذکر میں جہاں موجود جھٹلانے والوں کے لئے عبرت اور ڈرانے کا سامان ہے وہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ایمان والوں کے لئے تسلی اور بشارت بھی ہے۔ اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کی مزید تسلی کے لئے موسیٰ اور فرعون کا واقعہ ذکر فرمایا، جس میں فرعون کا موسیٰ (علیہ السلام) اور ایمان والوں کو ڈرانا دھمکانا خاص طور پر نمایاں کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں موسیٰ (علیہ السلام) اور الہ ایمان کی شجاعت، ثابت قدمی اور پیش آنے والی مصیبتوں پر صبر کی تفصیل بیان فرمائی ہے، ساتھ ہی فرعون اور اس کے ساتھیوں کے عبرتناک انجام کا ذکر فرمایا ہے۔ مقصد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حوصلہ دلانا ہے کہ آپ ان کفار کے جھٹلانے سے فکر مند نہ ہوں، آخر کار موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح آپ ہی کامیاب ہوں گے، میری مدد آپ کے ساتھ ہے۔- (٢) بایتنا :” آیات “ سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) کے نو (٩) معجزے ہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھیے سورة بنی اسرائیل (١٠١) ۔- (٣) وسلطن نبی ن :” سلطن “ سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ وہ ہیبت و رعب ہے جس کی وج سے فرعون اپنی فوجوں اور تمام تر قوت کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) پر ہاتھ نہ اٹھا سکا، جیسا کہ فرمایا :(ونجعل لکما سلطناً فلایصلون الیکما) (القصص : ٣٥)” اور ہم تم دونوں کے لئے غلبہ رکھیں گے، سو وہ تم تک نہیں پہنچیں گے۔ “
خلاصہ تفسیر - اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے احکام اور کھلی دلیل (یعنی معجزہ) دے کر فرعون اور ہامان اور قارون کے پاس بھیجا تو ان لوگوں (میں سے بعض نے یا کل) نے کہا کہ (نعوذ باللہ) یہ جادوگر (اور) جھوٹا ہے (جادوگر معجزہ میں کہا اور کذاب دعویٰ نبوت و احکام میں کہا۔ یہ قول فرعون، ہامان اور قارون تین کی طرف منسوب کیا گیا ہے مگر قارون چونکہ بنی اسرائیل میں سے تھا اور بظاہر موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان رکھتا تھا اس کا ان کو ساحر کہنا بظاہر مستبعد ہے۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ یہ اس وقت بھی منافق ہو موسیٰ (علیہ السلام) پر ظاہر میں ایمان کا دعویٰ کرتا ہو حقیقتاً نہ ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ قول صرف فرعون و ہامان کا ہو تغلیباً تینوں کی طرف نسبت کردی گئی ہو) پھر (اس کے بعد) جب وہ (عام) لوگوں کے پاس دین حق جو ہماری طرف سے تھا لے کر آئے (جس پر بعض لوگ مسلمان بھی ہوگئے) تو ان (مذکورہ) لوگوں نے (بطور مشورہ کے) کہا کہ جو لوگ ان کے ساتھ (ہو کر) ایمان لے آئے ہیں ان کے بیٹوں کو قتل کر ڈالو (تا کہ ان کی جمعیت اور قوت نہ بڑھ جائے جس سے اندیشہ زوال و سلطنت کا ہے) اور (چونکہ عورتوں سے ایسا) اندیشہ نہیں و نیز ہمارے گھروں میں خدمت گاری کے لئے ان کی ضرورت ہے اس لئے) ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دو (غرض انہوں نے موسیٰ کے غلبہ کا خطرہ محسوس کر کے انسداد کی یہ تدبیر کی) اور ان کافروں کی تدبیر محض بےاثر رہی (چنانچہ آخر میں موسیٰ (علیہ السلام) غالب آئے۔ بنی اسرائیل کے نوزائیدہ لڑکوں کے قتل کا حکم ایک تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت سے پہلے دیا گیا تھا جس کے نتیجہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا میں ڈالنے کی نوبت آئی اور قدرت نے اس بچہ کو خود فرعون کے گھر میں پلوایا۔ یہ دوسرا فیصلہ ان کے لڑکوں کو قتل کرنے کا موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش اور نبوت کے بعد اس وقت کا ہے جبکہ ان کے معجزات دیکھ کر آل فرعون نے یہ خطرہ محسوس کیا کہ ان کا جتھا بڑھ گیا تو ہماری سلطنت کی خیر نہیں پھر یہ کسی روایت میں سے نظر سے نہیں گزرا کہ اس وقت یہ قتل غلمان کا قانون نافذ ہوا یا نہیں۔ پھر اس کے بعد خود موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کے بارے میں گفتگو ہوئی) اور فرعون نے (اہل دربار سے) کہا کہ مجھ کو چھوڑو میں موسیٰ کو قتل کر ڈالوں اور اس کو چاہئے کہ اپنے رب کو (مدد کے لئے) پکارے۔ مجھ کو اندیشہ ہے کہ وہ (کہیں) تمہارا دین (نہ) بدل ڈالے یا ملک میں کوئی فساد (نہ) پھیلا دے (کہ ایک ضرر دین کا ہے اور دوسرا ضرر دنیا کا۔ اور فرعون کا یہ کہنا کہ مجھ کو چھوڑو، یا تو اس وجہ سے ہے کہ اہل دربار نے شاید اس لئے قتل کی رائے نہ دی ہوگی کہ اس کو مصلحت ملکی کے خلاف سمجھا ہوگا کہ عام چرچا ہوگا کہ ایک بےسروسامان شخص سے ڈر گئے اور یا یہ کہنا بطور تمویہ کے ہے کہ عام سننے والے یہ سمجھیں کہ اب تک ان کے قتل میں تاخیر مشیروں کے روکنے کے سبب سے ہوئی، گو واقع میں قتل پر خود اس کو جرأت نہ تھی۔ کیونکہ دل میں تو معجزات سے یقین ہو ہی گیا تھا۔ اس لئے اس کو خطرہ تھا کہ ان کو قتل کیا تو کسی آسمانی عذاب وبلا میں مبتلا ہوجاؤں گا مگر اپنے خوف کو درباریوں کے سر ڈالنے کے لئے ایسا کہا۔ اور اسی طرح (آیت) ولیدع ربہ، کہنا بھی لوگوں پر اپنی بہادری جتلانے کے لئے ہوگا، اگرچہ دل اندر سے تھرا رہا ہو) اور موسیٰ (علیہ السلام نے جو یہ بات سنی خواہ بالمشافہ سنی ہو یا بالواسطہ تو انہوں) نے کہا میں اپنے اور تمہارے (یعنی سب کے) پروردگار کی پناہ لیتا ہوں، ہر خر دماغ شخص (کے شر) سے جو روز حساب پر یقین نہیں رکھتا (اور اس لئے حق کا مقابلہ کرتا ہے) اور (اس مجلس مشورہ میں) ایک مومن شخص نے جو کہ فرعون کے خاندان میں سے تھے (اور اب تک) اپنا ایمان پوشیدہ رکھتے تھے (یہ مشورہ سن کر لوگوں سے) کہا کیا تم ایک شخص کو (محض) اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے، حالانکہ وہ تمہارے رب کیطرف سے (اس دعوے پر) دلیلیں (بھی) لے کر آیا ہے (یعنی معجزات بھی دکھلاتا ہے جو دلیل ہے صدق دعویٰ نبوت کی اور دلیل موجود ہوتے ہوئے صاحب دلیل کی مخالفت کرنا اور مخالفت بھی اس درجہ کی کہ قتل کا قصد کیا جاوے نہایت نازیبا ہے) اور اگر (بالفرض) وہ جھوٹا ہی ہو تو اس کا جھوٹ اسی پر پڑے گا (اور آپ ہی اللہ کی طرف سے رسوا ہوجائے گا۔ قتل کرنے کی کیا ضرورت) اور اگر وہ سچا ہوا تو وہ جو کچھ پیشین گوئی کر رہا ہے (کہ ایمان نہ لانے کی صورت میں ایسا ایسا عذاب ہوگا) اس میں سے کچھ تو تم پر (ضرور ہی) پڑے گا (تو اس صورت میں قتل کرنے سے اور زیادہ بلا اپنے سر پر لینا ہے۔ غرض اس کے کذب کی صورت میں قتل فضول اور صدق کی صورت میں مضر ہے پھر ایسا فعل کیوں کیا جاوے اور قاعدہ کلیہ ہے کہ) بیشک اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو مفقود تک نہیں پہنچاتا جو (اپنی) حد سے گزر جانے والا (اور) بہت جھوٹ بولنے والا ہو۔ (یعنی برائے چندے اس کی بات چل جاوے تو ممکن ہے مگر انجام کار اس کی ناکامی یقینی ہے۔ پس اس قاعدہ کلیہ کے اعتبار سے اگر موسیٰ (علیہ السلام) بالفرض کاذب ہوں تو بوجہ اس کے کہ جھوٹا دعویٰ نبوت کا بہت بڑا گناہ ہے اور سخت جرأت ہے، ایسے کاذب مفتری کو بھی اگر مقہور وہلاک نہ کیا جاوے تو مخلوق کو خود شبہ اور التباس میں مبتلا کرنا لازم آتا ہے۔ اور یہ عقلاً حق تعالیٰ سے نہیں ہوسکتا اس لئے ضروری ہے کہ یہ مغلوب و رسوا ہوں گے، پھر حاجت قتل کیا ہے ؟ اور اگر صادق ہیں تو تم لوگ بالیقین کاذب ہو اور کذب میں مسرف بھی ہو کہ فرعون کی خدائی کے دعویدار ہو اور مسرف کذاب کو کامیابی ہوتی نہیں۔ پس تم لوگ قتل میں کامیاب نہ ہوگے یا تو قدرت نہ ہوگی یا اس کا خیر نتیجہ برا ہوگا۔ بہرحال دونوں شقوں کا مقتضی یہی ہوا کہ ان کو قتل نہ کیا جاوے۔ جواب یہ ہے کہ یہ تقریر اس صورت میں ہے جہاں کاذب ہونے یا صادق ہونے میں شبہ ہو اور معجزات سے اقل درجہ احتمال صدق ضرور تھا اور جہاں دلائل قطعیہ سے کذب متیقن ہو وہاں ایسا نہیں ہوگا۔ اور گو اس مومن کو موسیٰ (علیہ السلام) کے صدق کا پورا یقین تھا مگر اس طرز سے گفتگو کرنا لوگوں کی طبیعت کی رعایت سے تھا کہ وہ کچھ غور کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ آگے بھی اسی قتل سے روکنے کے متعلق مضمون ہے کہ) اے میرے بھائیو آج تو تمہاری سلطنت ہے کہ اس سر زمین میں تم حاکم ہو سو خدا کے عذاب میں ہماری کون مدد کرے گا اگر (ان کے قتل کرنے سے) وہ ہم پر آ پڑا (جیسا کہ ان کے سچے ہونے کی صورت میں اس کا احتمال ہے) فرعون نے (یہ تقریر سن کر جواب میں) کہا کہ میں تو تم کو وہی رائے دوں گا جو خود سمجھ رہا ہوں (کہ ان کا قتل ہی مناسب ہے) اور میں تم کو عین طریق مصلحت بتلاتا ہوں اور اس مومن نے (جب دیکھا کہ نصیحت میں نرمی اور رعایت خیال مخاطب سے کام نہیں چلتا تو اب تہدید و تخویف سے کام لیا اور) کہا صاحبو مجھے تمہاری نسبت دوسری امتوں کے سے روز بد کا اندیشہ ہے، جیسا کہ قوم نوح اور عاد اور ثمود اور بعد والوں (یعنی قوم لوط وغیرہ) کا حال ہوا تھا اور خدا تعالیٰ تو بندوں پر کسی طرح کا ظلم کرنا نہیں چاہتا (لیکن جب تم حرکتیں ہی ایسی کرو گے تو ضرور ہی اپنی سزا کو پہنچو گے) اور (یہ ڈرانا تھا عذاب دنیا سے آگے تہدید ہے عذاب آخرت سے کہ) صاحبو مجھ کو تمہاری نسبت اس دن کا اندیشہ ہے جس میں کثرت سے ندائیں ہوں گی (یعنی وہ دن مشتمل ہے، واقعات عظیمہ پر کیونکہ نداؤں کی کثرت یعنی ایک دوسرے کو آواز دینا واقعات کے عظیم ہونے میں ہوتا ہے۔ چناچہ سب سے اول آواز صور پھونکنے کی ہوگی جس سے مردے زندہ ہوں گے۔ قال تعالیٰ (آیت) یوم یناد المناد من مکان قریب یوم یسمعون الصیحة بالحق۔ ایک ندا حساب کے لئے ہوگی۔ قال تعالیٰ (آیت) یوم ندعوا کل اناس بامامھم ایک منادی یعنی ایک دوسرے کو نداء کرنا باہم اہل جنت واہل نار میں ہوگا۔ قال تعالیٰ فی الاعراف (آیت) ونادی اصحب الجنة۔ الخ۔ ونادی اصحب الاعراف الخ۔ ونادی اصحب النار الخ۔ ایک نداء خیر میں موت کو بشکل دنبہ ذبح کرنے کے وقت ہوگی جیسا حدیث میں ہے۔ یا اہل الجنة خلود لاموت ویا اہل النار خلود لاموت۔ اور آگے اس دن کی ایک حالت بیان کی گئی ہے کہ) جس روز (موقف حساب سے) پشت پھیر کر ( دوزخ کی طرف) لوٹو گے (کذا فسر البغوی اور اس وقت) تم کو خدا (کے عذاب) سے کوئی بچانے والا نہ ہوگا (اور اس مضمون کا تقاضا ہدایت قبول کرنے کا ہے لیکن) جس کو خدا ہی گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت کرنے والا نہیں اور (آگے توبیخ و تنبیہ ہے اس پر کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے ایک اور پیغمبر کی بھی تکذیب کرچکے ہیں یعنی) اس سے قبل تم لوگوں کے پاس یوسف (علیہ السلام) دلائل (توحید و نبوت کے) لے کر آ چکے ہیں (یعنی اسی قوم قبط میں جن میں تم بھی ہو اور آباء سابقین سے تم تک بھی ان کی خبر متواتراً پہنچتی ہے) سو تم ان امور میں بھی برابر شک (و انکار) ہی میں رہے جو وہ تمہارے پاس لے کر آئے تھے، حتیٰ کہ جب ان کی وفات ہوگئی تو تم کہنے لگے کہ بس اب اللہ کسی رسول کو نہ بھیجے گا (یہ قول بطور شرارت کے تھا، مطلب یہ کہ اول تو یوسف بھی رسول نہ تھے اور اگر بالفرض تھے بھی تو جب ایک کو نہ مانا تو اللہ میاں کہیں گے کہ دوسرے کو بھیجنے سے کیا فائدہ، تو ہمیشہ کے لئے یہ جھگڑا پاک ہوگیا مقصود اصلی اس سے نفی مسئلہ رسالت کی ہے جیسا کہ اگلے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اس مسئلہ میں تم غلط کار ہو) اسی طرح اللہ تعالیٰ آپے سے باہر ہوجانے والے (اور) شبہات میں گرفتار رہنے والوں کو غلطی میں ڈالے رکھتا ہے جو بلاکسی سند کے جو ان کے پاس موجود ہو خدا کی آیتوں میں جھگڑے نکالا کرتے ہیں۔ اس (کج بحثی) سے خدا تعالیٰ کو بڑی نفرت ہے اور مومنین کو بھی اور (جس طرح تمہارے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے) اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر مغرور و جابر کے پورے قلب پر مہر کردیتا ہے۔ (کہ اس میں اصلاً گنجائش حق فہمی کی نہیں رہتی۔ یہ تقریر تھی ان مومن بزرگ کی جو فرعون کے خاندان میں سے ہیں اور اب تک ایمان کا اظہار نہیں کیا تھا اور اس تقریر سے ان بزرگ کا کتمان ایمان جاتا رہا، خواہ اول تقریر سے خواہ بعد کی تقریر سے یعنی (آیت) ۔ یقوم انی اخاف علیکم مثل یوم الاحزاب اور ظاہر شق اول ہے لقولہ تعالیٰ (آیت) وقد جاء کم بالبینت الخ) اور فرعون نے (جو تقریر لاجواب سنی تو اس مومن کو کچھ جواب نہ دے سکا۔ اپنی جہالت قدیمہ پر بزعم خود حجت قائم کرنے کے لئے ہامان سے) کہا اے ہامان میرے لئے ایک بلند عمارت بنواؤ (میں اس پر چڑھ کر دیکھوں گا) شاید میں آسمان پر جانے کی راہوں تک پہنچ جاؤں پھر (وہاں جا کر) موسیٰ کے خدا کو دیکھوں بھالوں اور میں تو موسیٰ کو (اس کے دعویٰ میں) جھوٹا سمجھتا ہوں (آگے فرعون کی مزید بدکرداری کا ذکر ہے) اور اسی طرح فرعون کی (اور) بدکرداریاں (بھی) اس کو مستحسن معلوم ہوئی تھیں اور (سیدھے) رستہ سے رک گیا اور (موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں بڑی بڑی تدبیریں کیں مگر) فرعون کی ہر تدبیر غارت ہی گئی (کسی میں کامیاب نہ ہوا) اور اس مومن نے (جب دیکھا کہ فرعون سے کوئی معقول جواب نہیں بن پڑا تو پھر مکرر) کہا کہ اے بھائیو تم میری راہ پر چلو میں تم کو ٹھیک ٹھیک راستہ بتلاتا ہوں (یعنی فرعون نے جو کہا تھا کہ میں تمہیں سبیل الرشاد کی طرف ہدایت کرتا ہوں اس کا بتایا ہوا راستہ ہرگز سبیل الرشاد یعنی ہدایت کا راستہ نہیں، بلکہ سبیل الرشاد میرا بتلایا ہوا راستہ ہے) اے بھائیو یہ دنیوی زندگی محض چند روزہ ہے اور (اصل) ٹھہرنے کا مقام تو آخرت ہے (جہاں بدلہ دینے کا یہ قانون ہے کہ) جو شخص گناہ کرتا ہے تو اس کو برابر سرابر ہی بدلہ ملتا ہے اور جو نیک کام کرتا ہے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ مومن ہو ایسے لوگ جنت میں جاویں گے (اور) وہاں ان کو بےحساب رزق ملے گا اور (اس تقریر کے وقت اس مومن آل فرعون کو یہ محسوس ہوا کہ یہ لوگ میری باتوں پر تعجب کر رہے ہیں اور بجائے میری بات ماننے کے مجھ کو ہی اپنے طریق کفر کی طرف بلانا چاہتے ہیں، اس لئے یہ بھی کہا کہ) اے میرے بھائیو یہ کیا بات ہے کہ میں تو تم کو (طریق) نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھ کو (طریق) دوزخ کی طرف بلاتے ہو (یعنی) تم مجھ کو اس بات کی طرف بلاتے ہو کہ (معاذ اللہ) میں خدا کے ساتھ کفر کروں اور ایسی چیز کو اس کا ساجھی بناؤں جس کے (ساجھی ہونے کی) میرے پاس کوئی دلیل بھی نہیں اور میں تم کو خدائے زبردست خطا بخش کی طرف بلاتا ہوں یقینی بات ہے کہ تم جس چیز (کی عبادت) کی طرف مجھ کو بلاتے ہو وہ نہ تو دنیا ہی میں (کسی دنیوی حاجت کے لئے) پکارے جانے کے لائق ہے اور نہ (دفع عذاب کے لئے) آخرت ہی میں اور (یقینی بات ہے کہ) ہم سب کو خدا کے پاس جانا ہے اور (یقینی بات ہے کہ) جو لوگ دائرہ (عبودیت) سے نکل رہے ہیں (جیسے غیر اللہ کی پرستش کرنے والے) وہ سب دوزخی ہوں گے سو (اب تو میرا کہنا تمہارے جی کو نہیں لگتا مگر) آگے چل کر تم میری بات کو یاد کرو گے اور (چونکہ اس مومن کو یہ احتمال پہلے سے ہے کہ یہ لوگ اس نصیحت پر میرے خلاف ہوجائیں اور تکلیف پہنچائیں اور ممکن ہے کہ اس وقت کچھ آثار و علامت دھمکی کے بھی ان کی طرف سے سامنے آئے ہوں اس لئے یہ بھی کہا کہ) میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، خدا تعالیٰ ان سب بندوں کا (خود) نگران ہے (میں تم سے بالکل نہیں ڈرتا) پھر خدا تعالیٰ نے اس (مومن) کو ان کی مضر تدبیروں سے محفوظ رکھا (چنانچہ وہ ان کی ایذاؤں سے محفوظ رہا اور حضرت قتادہ کے قول کے مطابق اس کو بھی موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ غرق سے نجات ہوئی (کذا فی الدر المنثور) اور فرعون والوں پر (مع فرعون کے) تکلیف دینے والا عذاب نازل ہوا (جس کا بیان یہ ہے کہ) وہ لوگ (برزخ میں) صبح و شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں (اور ان کو بتلایا جاتا ہے کہ تم قیامت کے روز اس میں داخل ہو گے) اور جس روز قیامت قائم ہوگی (حکم ہوگا) کہ فرعون والوں کو (مع فرعون کے) نہایت سخت عذاب میں داخل کرو۔
وَلَـقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ٢٣ۙ- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- سلط - السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] ،- ( س ل ط ) السلاطۃ - اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔- مبینبَيَان - والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : - البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] .- وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] .- البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔
(٢٣۔ ٢٤) اور ہم نے حضرت موسیٰ کو نو نشانیاں اور واضح دلیل دے کر فرعون اور اس کے وزیر ہامان اور ان کے چچا زاد بھائی قارون کی طرف بھیجا تو ان لوگوں نے کہا یہ تو جادوگر ہیں دو کے درمیان تفریق کرنے والے اور اللہ تعالیٰ پر بہتان لگانے والے ہیں۔
اب آئندہ آیات میں ” مومن ِآلِ فرعون “ کا واقعہ بیان ہو رہا ہے جو اس سورت کا خاص مضمون ہے۔ وہ فرعون کے دربار میں بہت بڑے مرتبے پر فائز تھے۔ ظاہر ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ ان تک بھی پہنچی ہوگی۔ اس دعوت کے جواب میں اللہ نے ان کا سینہ کھول دیا اور وہ ایمان لے آئے۔ البتہ مصلحت کے تحت انہوں نے اپنے ایمان کا اظہار نہ کیا۔ پھر ایک موقع پر جب فرعون نے اپنی کابینہ کے سامنے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کی تجویز رکھی تو اس مرد حق سے خاموش نہ رہا گیا۔ چناچہ فرعون کی اس تجویز کے جواب میں انہوں نے بھرے دربار میں ایک بہت مدلل ّاور موثر تقریر کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس ” حق گوئی و بےباکی “ کی پذیرائی یوں فرمائی کہ ان کی پوری تقریر کو قرآن کا حصہ بنا دیا۔ وہ نہ نبی تھے اور نہ رسول ‘ لیکن ان کی طویل تقریر جس شان سے اللہ تعالیٰ نے نقل فرمائی ہے اس کی کوئی مثال قرآن میں کسی نبی یا رسول کے حوالے سے بھی نہیں ملتی۔ ان کے اس خصوصی اعزاز سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس شان سے اپنے بندوں کی قدر افزائی فرماتا ہے۔- آیت ٢٣ ‘ ٢٤ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ ’ اور ہم نے بھیجا تھا موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کو اپنی نشانیوں اور کھلی سند کے ساتھ ‘
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :35 حضرت موسیٰ کے قصے کی دوسرے تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو جلد اول صفحات 75تا 79 ۔ 425 ۔ 459 ۔ جلد دوم 64 تا 88 ۔ 301 تا 310 ۔ 330 365 366 ۔ 370 ۔ 382 ۔ 383 ۔ 471 تا 474 ۔ 642 تا 649 ۔ جلد سوم ، 34 تا 40 ۔ 71 ۔ 72 ۔ 85 ۔ 88 تا 121 279 ۔ 280 ۔ 480 تا 498 ۔ 557 تا 560 ۔ 610 ۔ 613 تا 639 ۔ جلد چہارم ، سورہ احزاب ، آیت 69 ۔ الصافات ، آیات 114 تا 122 ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :36 یعنی ایسی صریح علامات کے ساتھ جن سے یہ امر مشتبہ نہیں رہ جاتا تھا کہ وہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں اور ان کی پشت پر اللہ رب العٰلمین کی طاقت ہے ۔ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ کے قصے کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں ان پر ایک غائر نگاہ ڈالنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کونسی علامات تھیں جن کو یہاں ان کے مامور من اللہ ہونے کی کھلی سند قرار دیا جا رہا ہے ۔ اول تو یہ عجیب بات تھی کہ جو شخص چند سال پہلے فرعون کی قوم کے ایک آدمی کو قتل کر کے ملک سے فرار ہو گیا تھا اور جس کے وارنٹ نکلے ہوئے تھے وہ اچانک ایک لاٹھی لیے ہوئے سیدھا فرعون کے بھرے دربار میں درّانہ چلا آتا ہے اور دھڑلے کے ساتھ بادشاہ اور اس کے اعیان سلطنت کو مخاطب کر کے دعوت دیتا ہے کہ وہ اسے اللہ رب العا لمین کا نمائندہ تسلیم کر کے اس کی ہدایات پر عمل کریں ، اور کسی کو اس پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں ہوتی ۔ حالانکہ حضرت موسیٰ جس قوم سے تعلق رکھتے تھے وہ اس بری طرح غلامی کے جوتے تلے پس رہی تھی کہ اگر الزام قتل کی بنا پر ان کو فوراً گرفتار کر لیا جاتا تو اس بات کا کوئی اندیشہ نہ تھا کہ ان کی قوم بغاوت تو درکنار ، احتجاج ہی کے لیے زبان کھول سکے گی ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عصا اور ید بیضاء کے معجزے دیکھنے سے بھی پہلے فرعون اور اس کے اہل دربار محض حضرت موسیٰ کی آمد ہی سے مرعوب ہو چکے تھے اور پہلی نظر ہی میں انہیں محسوس ہو گیا تھا کہ یہ شخص کسی اور ہی طاقت کے بل بوتے پر آیا ہے ۔ پھر جو عظیم الشان معجزے پے در پے ان کے ہاتھ سے صادر ہوئے ان میں سے ہر ایک یہ یقین دلانے کے لیے کافی تھا کہ یہ جادو کا نہیں ، خدائی طاقت ہی کا کرشمہ ہے ۔ آخر کس جادو کے زور سے ایک لاٹھی فی الواقع اژدہا بن سکتی ہے؟ یا ایک پورے ملک میں قحط پڑ سکتا ہے؟ یا لاکھوں مربع میل کے علاقے میں ایک نوٹس پر طرح طرح کے طوفان آسکتے ہیں اور ایک نوٹس پر وہ ختم ہو سکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے بیان کے مطابق فرعون اور اس کی سلطنت کے تمام ذمہ دار لوگ ، زبان سے چاہے انکار کرتے رہے ہوں ، مگر دل ان کے پوری طرح جان چکے تھے کہ حضرت موسیٰ فی الواقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوئے ہیں ۔ ( تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حواشی ۸٦تا۸۹ ، جلد سوم ، طہ ، حواشی ۲۹تا۵۳ ، الشعراء ، حواشی ۲۲تا٤۱ ، النمل ، حاشیہ ۱٦ ) ۔