24۔ 1 فرعون مصر میں آباد قبط کا بادشاہ تھا بڑا ظالم وجابر اور رب اعلی ہونے کا دعوے دار اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا اور اس پر طرح طرح کی سختیاں کرتا تھا جیسا کہ قرآن کے متعدد مقامات پر اس کی تفصیل ہے ہامان فرعون کا وزیر اور مشیر خاص تھا قارون اپنے وقت کا مال دار ترین آدمی تھا ان سب نے پہلے لوگوں کی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی اور انہیں جادوگر اور کذاب کہا جیسے دوسرے مقام پر فرمایا گیا کذلک ما اتی الذین من قبلھم من رسول الا قالو ساحر او مجنون اتواصوابہ بل ھم قوم طاغون اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ان کے پاس جو بھی نبی آیا انہوں نے کہہ دیا کہ یا تو یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے کیا یہ اس بات کی ایک دوسرے کو وصیت کرتے گئے ہیں ؟ نہیں بلکہ یہ سب کے سب سرکش ہیں۔
[٣٢] ان کے یہ الزام محض زبانی اور دوسرے لوگوں کو مطمئن رکھنے کی غرض سے تھے آپ نے جو لاٹھی کے سانپ بن جانے اور یدبیضاء کے معجزات پیش کئے تھے اس لحاظ سے وہ سیدنا موسیٰ کو جادوگر کہہ دیتے تھے۔ اور آپ کے دعوائے رسالت کے لحاظ سے آپ کو جھوٹا کہتے تھے۔ مگر خود وہ اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ سیدنا موسیٰ نہ جادوگر ہیں اور نہ اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔ کیونکہ جادوگر تو فرعون کے ملک میں بیشمار تھے۔ مگر کسی جادوگر سے یہ تو نہ ہوسکا کہ وہ اپنے جادو کے زور سے ملک بھر میں قحط مسلط کردے اور جب اس سے اس قحط کو دور کرنے کی درخواست کی جائے تو وہ اپنے جادو کے زور سے بارشیں برسا کر قحط ختم کردے۔ بلکہ جادوگروں نے ہی تو بھرے میدان میں سیدنا موسیٰ پر ایمان لاکر فرعون کی مکارانہ سازشوں کی قلعی کھول دی تھی۔
(١) الی فرعون وھامن وق اورن :” فرعون “ اس زمانے میں مصر کے بادشاہ کا لقب ہوا کرتا تھا، ہامان اس کا وزیر تھا اور ق اورن سرمایہ دار منافق تھا، جو موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے ہونے کے باوجود فرعون کا ساتھی بن گیا تھا۔ (دیکھیے قصص : ٧٦ تا ٨٢) موسیٰ (علیہ السلام) مصر کے تمام قبطیوں کی طرف بھیجے گئے تھے، مگر ان تینوں کا ذکر اس لئے فرمایا کہ یہ اپنی قوم کے سردار اور موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف سازشیں کرنے میں پی پیش تھے، بای لوگ ان کے پیروکار تھے۔- (٢) فقالوا سحر کذاب : موسیٰ (علیہ السلام) کے واضح معجزات عصا اور یدبیضا کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے معجزات کے حق ہونے کے یقین کے باوجود ضا اور عناد کی وجہ سے انہوں نے ان کا صاف انکار کردیا (دیکھیے بنی اسرائیل : ١٠٢۔ نمل : ١٣، ١٤) اور پانی قوم کو دھوکا دینے کے لئے معجزوں کو جادو اور موسیٰ علیہ کو جادوگر اور کذاب کہہ دیا۔ ورنہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جادوگر ہیں نہ جھوٹے، کیونکہ فرعون کے ملک میں جادوگر تو بیشمار تھے مگر کسی جادو گر سے یہ تو نہ ہوسکا کہ وہ اپنے جادو کے زور سے ملک بھر میں قحط مسلط کر دے اور جب اس قحط کو دور کرنے کی درخواست کی جائے تو وہ اپنے جادو کے زور سے بارشیں برسا کر قحط ختم کر دے، بلکہ جادوگروں نے تو بھرے میدان میں موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لا کر فرعون کی مکارانہ سازشوں کی قلعی کھول دی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے سورة ذاریات میں جھٹلانے والی تمام اقوام کا یہی رویہ بیان فرمایا ہے :(کذلک ما انی الذین من قبلھم من رسول الا قالوا ساحراً او مجنون اتواصوابہ بل ھم قوم طاعون) (الذاریات : ٥٢، ٥٣)” اسی طرح ان لوگوں کے پاس جو ان سے پہلے تھے، کوئی رسول نہیں آیا مگر انہوں نے کہا یہ جادو گر ہے یا دیوانہ کیا انہوں نے ایک دوسرے کو اس (بات) کی وصیت کی ہے ؟ (نہیں) بلکہ یہ (خود ہی) سرکش لوگ ہیں۔ “
معارف ومسائل - مومن آل فرعون :- اور جا بجا منکرین توحید و رسالت کی وعید و تہدید کے ضمن میں کفار کا خلاف وعناد مذکور ہوا ہے جس سے طبعی طور پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حزن وملال ہوتا تھا۔ آپ کی تسلی کے لئے مذکورہ الصدر تقریباً دو رکوع میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا قصہ ذکر کیا گیا ہے۔ اس قصہ میں ایک طویل مکالمہ فرعون اور قوم فرعون کے ساتھ اس بزرگ شخص کا ہے جو خود آل فرعون میں ہونے کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات دیکھ کر ایمان لے آیا تھا۔ مگر بمصلحت اپنے ایمان کو اس وقت تک چھپا رکھا تھا۔ اس مکالمہ کے وقت اس کے ایمان کا بھی حتمی اعلان ہوگیا۔- ائمہ تفسیر میں سے مقاتل اور سدی اور حضرت حسن نے فرمایا کہ یہ فرعون کا چچا زاد بھائی تھا، اور یہ وہی شخص ہے جس نے اس وقت جبکہ قبطی کے قتل کے واقعہ میں اس کے قصاص کے طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا مشورہ دربار فرعون میں ہو رہا تھا تو یہی شہر کے کنارے سے دوڑ کر آیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو خبر دے کر مشورہ دیا کہ مصر سے چلے جائیں، جس کا واقعہ سورة قصص میں حق تعالیٰ نے بیان فرمایا (آیت) وجاء رجل من اقصی المدینة یسعیٰ ۔- اس مومن آل فرعون کا نام بعض نے حبیب بتلایا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ حبیب اس شخص کا نام ہے جس کا قصہ سورة یٰسین میں آیا ہے، اس کا نام شمعان ہے، سہیلی نے اس نام کو اصح قرار دیا ہے اور دوسرے حضرات نے اس کا نام جزقیل بتلایا ہے۔ ثعلبی نے حضرت ابن عباس سے یہی قول نقل کیا ہے۔- ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ صدیقین چند ہیں ایک حبیب نجار جس کا قصہ سورة یٰسین میں ہے۔ دوسرا مومن آل فرعون تیسرے ابوبکر اور وہ ان سب میں افضل ہیں۔ (قرطبی)
اِلٰى فِرْعَوْنَ وَہَامٰنَ وَقَارُوْنَ فَقَالُوْا سٰحِرٌ كَذَّابٌ ٢٤- فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے
اِلٰی فِرْعَوْنَ وَہَامٰنَ وَقَارُوْنَ ’ فرعون ‘ ہامان اور قارون کی طرف “- فَقَالُوْا سٰحِرٌ کَذَّابٌ۔ ” تو انہوں نے کہا کہ یہ تو ایک جادوگر ہے انتہائی جھوٹا۔ “- یہی الفاظ مشرکین ِمکہ ّنے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کہے تھے جو سورة صٓ کی آیت ٤ میں نقل ہوئے ہیں۔
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :37 ہامان کے متعلق مخالفین کے اعتراضات کا جواب اس سے پہلے سورہ قصص کے حواشی میں دیا جا چکا ہے ( جلد سوم ، صفحہ 615 )