25۔ 1 فرعون یہ کام پہلے بھی کر رہا تھا تاکہ وہ بچہ پیدا نہ ہو جو نجومیوں کی پیش گوئی کے مطابق اس کی بادشاہت کے لیے خطرے کا تھا یہ دوبارہ حکم اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تذلیل واہانت کے لیے دیا نیز تاکہ بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) کے وجود کو اپنے لیے مصبیت اور نحوست کا باعث سمجھیں جیسا کہ فی الواقع انہوں نے کہا (اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا) 7 ۔ الاعراف :129) اے موسیٰ (علیہ السلام) تیرے آنے سے قبل بھی ہم اذیتوں سے دو چار تھے اور تیرے آنے کے بعد بھی ہمارا یہی حال ہے۔ 25۔ 1 یعنی اس سے جو مقصد وہ حاصل کرنا چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل کی قوت میں اضافہ اور اس کی عزت میں کمی نہ ہو۔ یہ اسے حاصل نہیں ہوا، بلکہ اللہ نے فرعون اور اس کی قوم ہی غرق کردیا اور بنی اسرائیل کو بابرکت زمین کا وارث بنادیا۔
[٣٣] بنی اسرائیل کے استیصال کے لئے فرعون کا اقدام :۔ سیدنا موسیٰ پر ایمان لانے والوں کے لئے یہ سزا فرعون نے اس لئے مقرر کی تھی کہ اس طرح وہ لوگوں کو دہشت زدہ کرکے سیدنا موسیٰ کا ساتھ دینے سے روک دے وہ چاہتا یہ تھا کہ اس طریقہ سے بنی اسرائیل کی قوم کا ہی استیصال کردیا جائے مگر اس کی ان دھمکیوں اور سزاؤں کے باوجود سیدنا موسیٰ پر ایمان لانے والوں کی تعداد بڑھتی ہی گئی۔
(١) فلما جآء ھم بالحق من عندناً …فرعون موسیٰ (علیہ السلام) کی آمد سے پہلے بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا تھا۔ (دیکھیے قصص : ٤) موسیٰ (علیہ السلام) کی آمد پر ان کے واضح معجزات دیکھ کر اور جادوگروں کے ساتھ مقابلے میں ناکام ہو کر وہ ایسا مرعوب ہوا کہ اس نے لڑکوں کو قتل کرنے کا سلسلہ روک دیا، مگر دن بدن ایمان لانے والوں میں اضافے کو دیکھ کر اس کے سرداروں نے اسے موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے خلاف کارروائی پر بھڑکایا۔ اس سے پہلے وہ تمام بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کرتے تھے، اب انہوں نے کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں کے بیٹوں کو قتل کرو اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھو۔ یہ بات فرعون نے نہیں بلکہ اس کے درباریوں نے کہی، فرعون نے ان سے ایسا کرنے کا وعدہ کرلیا، جیسا کہ سورة اعراف میں ہے :(سنقتل ابنآء ھم ونستخی نسآئھم ) (الاعراف : ١٢٨) ” ہم ضرور ان کے بیٹوں کو بری طرح قتل کریں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھیں گے۔ “ مگر وہ ایسا نہ کرسکا۔- (٢) وما کید الکفرین الا فی ضلل : اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ظاہر ہے کہ وہ اپنا ارادہ پورا نہ کرسکا اور اپنے منصوبے میں بھی ناکام رہا۔ قحط سالیوں، پیداوار کی کمی اور طوفان، ٹڈیوں، جوؤں، مینڈکوں اور خون کے پے در پے عذابوں نے اسے دم ہی نہیں لینے دیا کہ وہ دوبارہ یہ کام کرسکتا، حتیٰ کہ اسے اس کی قوم سمیت سمندر میں غرق کردیا گیا۔ مزید دیکھیے سورة اعراف (١٣٠ تا ١٣٦)
فَلَمَّا جَاۗءَہُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا اقْتُلُوْٓا اَبْنَاۗءَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ وَاسْتَحْيُوْا نِسَاۗءَہُمْ ٠ ۭ وَمَا كَيْدُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ ٢٥- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- ( ابْنُ )- أصله : بنو، لقولهم في الجمع :- أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر - أولاک بنو خير وشرّ كليهما - وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] - وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ .- الابن ۔- یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - حَياءُ :- انقباض النّفس عن القبائح وترکه، لذلک يقال : حيي فهو حيّ واستحیا فهو مستحي، وقیل :- استحی فهو مستح، قال اللہ تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقال عزّ وجلّ : وَاللَّهُ لا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ [ الأحزاب 53] ، وروي : «إنّ اللہ تعالیٰ يستحي من ذي الشّيبة المسلم أن يعذّبه» فلیس يراد به انقباض النّفس، إذ هو تعالیٰ منزّه عن الوصف بذلک وإنّما المراد به ترک تعذیبه، وعلی هذا ما روي : «إنّ اللہ حَيِيٌّ» أي : تارک للقبائح فاعل للمحاسن .- الحیاۃ کے معنی قبائح سے نفس کے منقبض ہوکر انہیں چھوڑ دینے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے اور بعض نے استحی فھو مستح ( نحیف یاء ) کے ساتھ بھی نقل کیا ہے ۔ قرآن میں ہے إِنَّ اللَّهَ لا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] خدا اس بات سے عار نہیں کرتا کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی مکڑی وغیرہ کی مثال بیان فرمائے وَاللَّهُ لا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ [ الأحزاب 53] لیکن خدا سچی بات کے کہنے سے شرم نہیں کرتا ۔ ایک روایت میں ہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ بوڑھے مسلمان کو عذاب دینے سے شرماتا ہے ۔ پس اللہ کی طرف جب حیا کی نسبت ہو تو اس کے معنی انقباض نفس کے نہیں ہوتے ۔ کیونکہ اس قسم کے اوصاف سے ذات باری تعالیٰ منزہ ہے بلکہ اس سے مراد اسے عذاب نہ کرنا ہے اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ حی کہ اللہ حی ہے تو اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ اللہ قبائح کو چھوڑ نے والا اور محاسن یعنی افعال حسنہ کو سرا انجام دینے والا ہے ۔ - نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] - ما بالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- كيد - الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76]- ( ک ی د ) الکید - ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔
پھر جب موسیٰ ان کے پاس کتاب لے کر آئے تو ان لوگوں نے یہ مشورہ کیا کہ جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کے لڑکوں کو قتل کرنا شروع کردو اور لڑکیوں کو غلام بنا لو ان کو قتل مت کرو مگر فرعون اور اس کی قوم کی تدبیر موثر نہ ہوئی۔
آیت ٢٥ فَلَمَّا جَآئَ ہُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا اقْتُلُوْٓا اَبْنَآئَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ وَاسْتَحْیُوْا نِسَآئَ ہُمْ ” تو جب وہ آیا ان کے پاس ہماری طرف سے حق لے کر تو انہوں نے کہا کہ جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائیں ان کے بیٹوں کو قتل کر دو اور ان کی بیٹیوں کو زندہ رکھو۔ “- وَمَا کَیْدُ الْکٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ ” لیکن کافروں کا دائو بھٹک کر ہی رہ جاتا ہے۔ “- اس سے پہلے ہم سورة الاعراف کے پندرھویں رکوع میں بھی سردارانِ قوم فرعون کے اس مطالبے کے بارے میں پڑھ چکے ہیں کہ آپ موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کو کب تک ڈھیل دیتے رہیں گے ؟ لوگ دھڑا دھڑ اس پر ایمان لا رہے ہیں ‘ روز بروز اس کی طاقت بڑھتی جا رہی ہے اور اس کے نتیجے میں ملک کے اندر فساد پھیل رہا ہے۔ آپ اسے قتل کیوں نہیں کروا دیتے ؟ لیکن جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ فرعون ایک وقت تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف کوئی سخت اقدام کرنے سے کتراتا رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو گویا اپنا بڑا بھائی سمجھتا تھا اور اس تعلق کی وجہ سے وہ دل میں آپ ( علیہ السلام) کے لیے نرم گوشہ رکھتا تھا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کی پیدائش سے لے کر بحیثیت ِرسول (علیہ السلام) فرعون کے سامنے آنے تک کے واقعات کو ایک دفعہ پھر سے ذہن میں تازہ کرلیجیے۔ ان تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت رعمسیس دوم فرعون برسر اقتدار تھا۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کو دریا سے نکال کر جب اس کے محل میں لایا گیا تو اس کی بیوی نے کسی طرح اسے قائل کرلیا کہ اس بچے کو قتل نہ کیا جائے۔ اس موقع پر فرعون کی بیوی کے اپنے شوہر کے ساتھ مکالمے کو سورة القصص میں یوں نقل کیا گیا ہے : وَقَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَلَکَط لَا تَقْتُلُوْہُ ق عَسٰٓی اَنْ یَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا (آیت ٩) ” اور فرعون کی بیوی نے کہا کہ یہ آنکھوں کی ٹھنڈک ہے میرے لیے بھی اور تمہارے لیے بھی۔ تم اسے قتل مت کرو ‘ ممکن ہے کہ یہ ہمیں کوئی فائدہ پہنچائے یا ہم اسے بیٹا ہی بنا لیں “۔ غالب گمان یہی ہے کہ وہ خاتون حضرت آسیہ (رض) ہی تھیں جن کا ذکر سورة التحریم میں آیا ہے۔ اس وقت تک فرعون بےاولاد تھا۔ بعد میں اس کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔ چناچہ فرعون کا حقیقی بیٹا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سگے بھائیوں کی طرح اکٹھے رہے اور ایک ساتھ جوانی کی عمر کو پہنچے۔- اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں ایک قبطی کا قتل ہوگیا تو آپ ( علیہ السلام) مدین چلے گئے۔ مدین سے آپ ( علیہ السلام) کی واپسی کے زمانے میں بڑا فرعون اگرچہ زندہ تھا مگر بڑھاپے کی وجہ سے اس نے تمام امور سلطنت اپنے بیٹے (منفتاح) کو سونپ رکھے تھے۔ اس طرح عملی طور پر اس کا بیٹاہی حکمران تھا جو ایک طرح سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بھائی اور بچپن کا ساتھی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اپنے بڑے بڑے سرداروں کے پر زور مطالبے کے باوجود بھی وہ کئی سال تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف انتہائی اقدام کرنے سے گریز کرتا رہا۔ پھر جب اس نے کسی سخت اقدام کو ناگزیر سمجھا بھی تو آپ ( علیہ السلام) کی ذات کے بجائے آپ ( علیہ السلام) کی قوم کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کے تحت اس نے ایک دفعہ پھر حکم دے دیا کہ بنی اسرائیل کے ہاں پیدا ہونے والے لڑکوں کو قتل کردیا جائے اور صرف ان کی بیٹیوں کو ہی زندہ رہنے دیا جائے۔ اس کا خیال تھا کہ اس طرح وہ اس تحریک کو کچلنے اور بنی اسرائیل کی طاقت کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اس کے اسی منصوبے کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے مخالفین کی کوئی چال بھی اللہ کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :38 یعنی جب پے در پے معجزات اور نشانیاں دکھا کر حضرت موسیٰ نے یہ بات ان پر پوری طرح ثابت کر دی کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں اور مضبوط دلائل سے اپنا برسر حق ہونا پوری طرح واضح کر دیا ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :39 سورہ اعراف ، آیت 128 میں یہ بات گزر چکی ہے کہ فرعون کے درباریوں نے اس سے کہا تھا کہ آخر موسیٰ ( علیہ السلام ) کو کھلی چھٹی کب تک دی جائے گی ، اور اس نے کہا تھا کہ میں عنقریب بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے اور لڑکیوں کو جیتا چھوڑ دینے کا حکم دینے والا ہوں ( تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ ۹۳ ) ۔ اب یہ آیت بتاتی ہے کہ فرعون کے ہاں سے آخر کار یہ حکم جاری کر دیا گیا ۔ اس سے مقصود یہ تھا کہ حضرت موسیٰ کے حامیوں اور پیروؤں کو اتنا خوف زدہ کر دیا جائے کہ وہ ڈر کے مارے ان کا ساتھ چھوڑ دیں ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :40 اصل الفاظ ہیں وَمَا کَیْدُ الْکٰفِرِیْنَ اِلَّا فِی ضَلٰلٍ ۔ اس فقرے کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کافروں کی جو چال بھی تھی ، گمراہی اور ظلم و جور اور مخالفت حق ہی کی راہ میں تھی ، یعنی حق واضح ہو جانے اور دلوں میں قائل ہو جانے کے باوجود وہ اپنی ضد میں بڑھتے ہی چلے گئے اور صداقت کو نیچا دکھانے کے لیے انہوں نے کوئی ذلیل سے ذلیل تدبیر اختیار کرنے میں بھی باک نہ کیا ۔
5: یعنی جب وہ سچے دین کا پیغام عام لوگوں کے پاس لے کر گئے اور بہت سے لوگ ان پر ایمان لانے لگے تو فرعون کے لوگوں نے یہ تجویز دی کہ جو مرد ایمان لائیں، ان کے بیٹوں کو قتل کردو اور عورتوں کو زندہ رکھو تاکہ انہیں غلام بناکر ان سے خدمت لی جائے، یہ حکم ایک تو موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے دیا گیا تھا جس کی تفصیل سورۂ طٰہٰ اور سورۂ قصص میں گزرچکی ہے، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ کسی نجومی نے پیشین گوئی کی تھی کہ بنی اسرائیل کا کوئی شخص فرعون کا تختہ الٹے گا، اور دوسری بار یہ حکم اس وقت دیا گیا جب لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے لگے، اور بیٹوں کو قتل کرنے کا منشاء ایک تو یہ تھا کہ ایمان لانے والوں کی نسل نہ پھیلے، اور دوسرے عام طور سے انسان کو اپنے بیٹوں کے قتل ہونے کا زیادہ صدمہ ہوتا ہے، اس لئے لوگ ایمان لاتے ہوئے ڈریں گے، لیکن اللہ تعالیٰ نے آگے ارشاد فرمایا ہے کہ کافروں کی اس طرح کی تدبیریں آخر کار ناکام ہوتی ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ کیا ہوتا ہے وہی غالب رہتا ہے، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آخر کار فرعون غرق ہوا اور بنی اسرائیل کو فتح حاصل ہوئی۔