Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 یہ غالبًا فرعون نے ان لوگوں سے کہا جو اسے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے سے منع کرتے تھے۔ 26۔ 2 یہ فرعون کی دیدہ دلیری کا اظہار ہے کہ میں دیکھوں گا، اس کا رب اسے کیسے بچاتا ہے، اسے پکار کر دیکھ لے۔ یا رب ہی کا انکار ہے کہ اس کا کون سا رب ہے جو بچا لے گا، کیونکہ رب تو وہ اپنے آپ کو کہتا تھا۔ 26۔ 3 یعنی غیر اللہ کی عبادت سے ہٹا کر ایک اللہ کی عبادت پر نہ لگا دے یا اس کی وجہ سے فساد نہ پیدا ہوجائے مطلب یہ تھا کہ اس کی دعوت اگر میری قوم کے کچھ لوگوں نے قبول کرلی تو وہ نہ قبول کرنے والوں سے بحث و تکرار کریں گے جس سے ان کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوگا جو فساد کا ذریعہ بنے گا یوں دعوت توحید کو اس نے قساد کا سبب اور اہل توحید کو فسادی قرار دیا درآں حالیکہ فسادی وہ خود تھا اور غیر اللہ کی عبادت ہی فساد کی جڑ ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٤] فرعون کی گیدڑ بھبکی :۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جب سیدنا موسیٰ پر ایمان لانے والوں میں کمی ہونے کے بجائے ان کی تعداد بڑھتی ہی گئی تو فرعون نے سوچا کہ اب اس مصیبت کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ ہے کہ سیدنا موسیٰ ہی کو قتل کردیا جائے۔ لیکن اس کے درباریوں نے جو صحیح صورت حال سے واقف ہوچکے تھے اسے اس کام سے منع کردیا کہ کہیں ملک میں کوئی بڑی بغاوت نہ اٹھ کھڑی ہو، تو ان درباریوں کو فرعون نے یہ جواب دیا ہو کہ اب یہ کام کرنے کے بغیر کوئی چارہ نہیں رہا۔ لہذا مجھے یہ کام کرنے سے مت روکو۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے کسی نے بھی روکا نہ ہو مگر وہ محض اپنی بہادری جتلانے کے لئے یہ بات کہہ رہا ہو۔ مگر چونکہ وہ خود بھی دل میں ڈرا اور سہما ہوا تھا اس لئے وہ اس طرح بات کر رہا تھا۔ ورنہ اگر وہ خود خائف نہ ہوتا اور اس کام کا ارادہ کرلیتا تو اسے کون روکنے والا تھا۔ ؟- [٣٥] دین سے مراد تمدن اور ملکی نظام ہے :۔ یہاں دین سے مرادصرف سورج دیوتا یا ہبل کی پوجا ہی نہیں بلکہ پورے کا پورا نظام سلطنت اور نظام تمدن ہے۔ یعنی فرعون کو اصل خطرہ تو یہ تھا کہ کہیں اس ملک کی فرمانروائی اس سے چھن نہ جائے۔ مگر اس نے اس بات کو مکار سیاسی لیڈروں کے انداز میں پیش کیا کہ تمہارا دین، جس سے تمہیں محبت ہے۔ وہی نہ بدل ڈالے، جیسے ہمارے ہاں سیاسی لیڈر ایسے بیان دیتے رہتے ہیں کہ عوام یہ چاہتے ہیں کہ جلد از جلد نئے انتخابات کرائے جائیں۔ حالانکہ عوام بیچارے آئے دن کے انتخابات سے پہلے ہی بیزار بیٹھے ہوتے ہیں۔- [٣٦] یعنی اگر وہ اس نظام کو بدل نہ سکے تب بھی یہ خطرہ ضرور ہے کہ ملک میں خانہ جنگی شروع ہوجائے گی۔ لہذا تحفظ امن عامہ کی خاطر ضروری ہے کہ جیسے بھی بن پڑے موسیٰ کو قتل کرکے ان آنے والی پریشانیوں کا خاتمہ کردیا جائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) وقال فرعون ذرونی اقتل موسیٰ : یہ کہہ کر ف عون ظاہر یہ کرنا چاہتا تھا کہ ابھی تک اس نے جو موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کیا تو اپنے درباریوں اور سرداروں کے روکنے کی وجہ سے نہیں کیا۔ یہ بات اس نے محض رعب کا گانٹھنے کے لئے یا اپنے آپ کو ہمت دلانے کے لئے کہی، کیونکہ اندر سے وہ شدید خوف زدہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے ” نجعل لکما سلطناً فلا یصلون الیکما “ (ہم تم دونوں کے لئے غلبہ رکھیں گے، سو وہ تم تک نہیں پہنچیں گے۔ قصص : ٣٥) کے فرمان کے ساتھ موسیٰ اور ہ اورن (علیہ السلام) کو جو غلبہ اور رعب عطا فرما رکھا تھا، اس کے ہوتے ہوئے اس کی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ انہیں قتل کرے، یا کوئی اور نقصان پہنچائے۔ رہے درباری، تو وہ نہ تو فرعون کو موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل سے روکتے تھے اور نہ ہی فرعون ان کی رائے کو پرکاہ کی وقعت دیتا تھا۔ (دیکھیے مومن : ٢٩) اس نے اپنی پوری قوم کو اتنا بےوقعت بنادیا تھا کہ وہ ہر بات میں اس کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے، خواہ وہ عقل سے کتنی ہی دور ہو جیسا کہ فرمایا :(فاستخف قومہ فاطعوہ، انھم کانوا قوما فسقین) (الزخرف : ٥٣)” غرض اس نے اپنی قوم کو ہلکا (بےوزن) کردیا تو انہوں نے اس کی اطاعت کرلی، یقیناً وہ فرمان لوگ تھے۔ “- (٢) ولیدع ربہ : یہ بھی اس کی گیدڑ بھبکی تھی، ورنہ اسے اور اس کی قوم کو موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات دیکھ کر یقین ہوچکا تھا کہ وہ اللہ کے سچے پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں بےیارو مددگار نہیں چھوڑے گا۔ اگر اسے یہ یقین نہ ہوچکا ہوتا تو اتنی افواج قاہرہ کا مالک ہونے کے باوجود کس نے اس کا ہاتھ موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل سے روک رکھا تھا۔- (٣) انی اخاف یبدل دینکم : دین سے مراد کا عقیدہ اور اس پر مبین نظام سلطنت ہے، جس میں فرعون کو رب الاعلیٰ اور اس کے حکم کو واجب الاطاعت مانا جاتا تھا۔ یعنی مجھے خطرہ ہے کہ یہ تمہیں تمہارے اس دین اور اعتقاد کا منکر کر دے جس کے تحت تم مجھے اپنا رب سمجھ کر میری محکومی اور فرماں برداری پر مطمئن ہو اور اس طرح ملک میں اقنلاب برپا کر دے، گویا میں اسے تمہاری خاطر ہی قتل کرنا چاہتا ہوں۔- (٤) او ان یظھر فی الارض الفساد : یعنی اگر وہ تمام اہل مصر کو آبائی دین کا منکر نہ کرسکے تو کم از کم یہ خطرہ تو ضرور ہے کہ ان میں سے بعض لوگوں کو توحید کا قائل کرلے اور بعض میری ربوبیت اور حاکمیت کے قائل رہیں، اس سے آئے دن ملک میں ف ساد برپا رہے۔ یہ وہی انداز ہے جسے ہر مطلق العنان حاکم اندرونی یا بیرونی خطرے کا ہوا کھڑا کر کے اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے اختیار کرتا ہے۔ اس ظالم کو تو دیکھیے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو جس سے لوگ راہ راست پر آرہے ہیں، فساد قرار دے رہا ہے، حالانکہ اصل فسادی وہ خود ہے، جیسا کہ سورة بقرہ میں ہے :(الا انھم ھم المفسدون ولکن لایشعرون) (البقرۃ : ١٢)” سن لو یقیناً وہی تو فساد ڈالنے والے ہیں اور لیکن وہ نہیں سمجھتے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِيْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰى وَلْيَدْعُ رَبَّہٗ۝ ٠ ۚ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّبَدِّلَ دِيْنَكُمْ اَوْ اَنْ يُّظْہِرَ فِي الْاَرْضِ الْفَسَادَ۝ ٢٦- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] «1» .- ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - بدل - الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» .- وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] - والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع :- البَئَادِل «2» ، قال الشاعر :- 41-- ولا رهل لبّاته وبآدله - ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال - کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- ظَاهِرِهونا - واستعیر لِظَاهِرِ الأرضِ ، فقیل : ظَهْرُ الأرضِ وبطنها . قال تعالی: ما تَرَكَ عَلى ظَهْرِها مِنْ دَابَّةٍ- [ فاطر 45] ، ورجلٌ مُظَهَّرٌ: شدیدُ الظَّهْرِ ، وظَهِرَ : يشتكي ظَهْرَهُ.- ويعبّر عن المرکوب بِالظَّهْرِ ، ويستعار لمن يتقوّى به، وبعیر ظَهِيرٌ: قويّ بيّن الظَّهَارَةِ ، وظِهْرِيٌّ:- معدّ للرّكوب، والظِّهْرِيُّ أيضا : ما تجعله بِظَهْرِكَ فتنساه . قال تعالی: وَراءَكُمْ ظِهْرِيًّا - [هود 92] ،- اور کبھی ظہر کا لفظ بطور استعارہ روئے زمین کے معنی میں بھی آجاتا ہے ۔ کہاجاتا ہے ظھرالارض زمین کا اوپر کا حصہ اس کے بالمقابل بطن الارض کے معنی ہیں زمین کا اندرونی حصہ قرآن پاک میں ہے : ۔ ما تَرَكَ عَلى ظَهْرِها مِنْ دَابَّةٍ [ فاطر 45] روئے زمین پر ایک چلنے پھرنے والے کو نہ چھوڑتا ۔ رجل مظھر قوی پست مضبوط آدمی ظھر پیٹھ درد کرنا اور ظھر سواری کو کہتے ہیں ۔ نیز ظھر ۔ مددگار پشت پناہ بعیر ظھیرقوی اونٹ ظھری وہ فالتوں سواری جیسے احتیاطا ساتھ رکھ لیا جاتا ہے تاکہ بوقت ضرورت اسے استعمال کیا جاسکے ۔ نیز ظھری ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جسے پس پشت ڈال کر بھولی بسری کردیا جائے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَراءَكُمْ ظِهْرِيًّا[هود 92]- فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور فرعون کہنے لگا کہ مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ کو قتل کر ڈالوں اور اس کو چاہیے کہ اپنے رب کو بلا لے جس کے بارے میں یہ خیال کرتا ہے کہ اس نے اس کو رسول بنا کر بھیجا ہے مجھے ڈر ہے کہ جس دین پر تم ہو کہیں وہ تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں کوئی خرابی نہ پھیلائے کہ تمہاری لڑکیوں کو خادمہ بنائے اور لڑکوں کو قتل کر ڈالے جیسا کہ تم لوگ کر رہے ہو یا یہ کہ تمہارے آباؤ اجداد کے دین کو چھوڑ دے اور تم سب کو اپنے دین میں داخل کرے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِیْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰی وَلْیَدْعُ رَبَّہٗ ” اور فرعون نے کہا : مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کو قتل کر دوں اور وہ (بچائو کے لیے) پکارلے اپنے رب کو۔ “- فرعون کے اس فقرے کے اندر بہت سی اَن کہی تفصیلات کی جھلک بھی نظر آرہی ہے۔ اَوّلاً اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک فرعون بھانپ چکا تھا کہ پانی سر سے گزرنے کو ہے اور یہ کہ اس مرحلے پر اگر موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کو قتل کر کے راستے سے نہ ہٹایا گیا تو یہ طوفان اس کے اقتدار سمیت مصر کی ” عظیم الشان تہذیب “ اور ” مثالی روایات “ کو بھی بہا لے جائے گا۔ ثانیاً اس فقرے سے اس کی بےچارگی بھی عیاں ہو رہی ہے۔ وہ مطلق العنان بادشاہ تھا مگر اس کے باوجود اس نے اپنے وزراء اور امراء سے اس قرارداد کی منظوری کی درخواست کی۔ اس کی ضرورت اسے کیوں محسوس ہوئی ؟ در اصل وہ دیکھ رہا تھا کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کی دعوت سے ہر طبقے کے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ اس لیے اسے اندیشہ تھا کہ اگر اس تجویز پر تمام درباریوں کو اعتماد میں نہ لیا گیا تو رد عمل کے طور پر کہیں سے کوئی بغاوت بھی جنم لے سکتی ہے۔- اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یُّبَدِّلَ دِیْنَکُمْ اَوْ اَنْ یُّظْہِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَ ” مجھے اندیشہ ہے کہ وہ تمہارا دین بدل دے گا یا زمین میں فساد برپا کر دے گا۔ “- ” دین “ سے مراد یہاں نظام حکومت ہے ‘ اور فرعون کو اب سب سے بڑا اندیشہ یہی تھا کہ مصر کا اقتدارِ اعلیٰ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔- فرعون کی مذکورہ قرارداد کی اطلاع حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تک پہنچی تو آپ ( علیہ السلام) نے خود کو اللہ کی پناہ میں دینے کے عزم کا اظہار کیا :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :41 یہاں سے جس واقعہ کا بیان شروع ہو رہا ہے وہ تاریخ بنی اسرائیل کا ایک نہایت اہم واقعہ ہے جسے خود بنی اسرائیل بالکل فراموش کر گئے ہیں ۔ بائیبل اور تَلْمود ، دونوں اس کے ذکر سے خالی ہیں ، اور دوسری اسرائیلی روایات میں بھی اس کا کوئی نام و نشان نہیں پایا جاتا ۔ اس قصے کو جو شخص بھی پڑھے گا ، بشرطیکہ وہ اسلام اور قرآن کے خلاف تعصب میں اندھا نہ ہو چکا ہو ، وہ یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے گا کہ دعوت حق کے نقطۂ نظر سے یہ قصہ بہت بڑی قدر و قیمت رکھتا ہے ، اور بجائے خود یہ بات بعید از عقل و قیاس بھی نہیں ہے کہ حضرت موسیٰ کی شخصیت ، ان کی تبلیغ ، اور ان کے ہاتھوں ظہور پذیر ہونے والے حیرت انگیز معجزات سے متاثر ہوکر خود فرعون کے اعیان سلطنت میں سے کوئی شخص دل ہی دل میں ایمان لے آیا ہو اور فرعون کو ان کے قتل پر آمادہ دیکھ کر وہ ضبط نہ کر سکا ہو ۔ لیکن مغربی مستشرقین ، علم و تحقیق کے لمبے چوڑے دعوؤں کے باوجود ، تعصب میں اندھے ہو کر جس طرح قرآن کی روشن صداقتوں پر خاک ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں مضمون موسیٰ کا مصنف اس قصے کے متعلق لکھتا ہے : قرآن کی یہ کہانی کہ فرعون کے دربار میں ایک مومن موسیٰ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے ، پوری طرح واضح نہیں ہے ( سورہ40 آیت 28 ) ۔ کیا ہمیں اس کا تقابل اس قصے سے کرنا چاہیے جو ہگادا میں بیان ہوا ہے اور جس کا مضمون یہ ہے کہ یتھرو نے فرعون کے دربار میں عفو سے کام لینے کا مشورہ دیا تھا ؟ گویا ان مدعیان تحقیق کے ہاں یہ بات تو طے شدہ ہے کہ قرآن کی ہر بات میں ضرور کیڑے ہی ڈالنے ہیں ۔ اب اگر اس کے کسی بیان پر حرف زنی کی کوئی بنیاد نہیں ملتی تو کم از کم یہی شوشہ چھوڑ دیا جائے کہ یہ قصہ پوری طرح واضح نہیں ہے ، اور چلتے چلتے یہ شک بھی پڑھنے والوں کے دل میں ڈال دیا جائے کہ ہَگّادا میں یتھرو کا جو قصہ حضرت موسیٰ کی پیدائش سے پہلے کا بیان ہوا ہے وہ کہیں سے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے سن لیا ہو گا ، اور اسے لا کر یہاں اس شکل میں بیان کر دیا ہو گا ۔ یہ ہے علمی تحقیق کا وہ انداز جو ان لوگوں نے اسلام اور قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں اختیار کر رکھا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :42 اس فقرے میں فرعون یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ گویا کچھ لوگوں نے اسے روک رکھا ہے جن کی وجہ سے وہ حضرت موسیٰ کو قتل نہیں کر رہا ہے ، ورنہ اگر وہ مانع نہ ہوتے تو وہ کبھی کا انہیں ہلاک کر چکا ہوتا ۔ حالانکہ دراصل باہر کی کوئی طاقت اسے روکنے والی نہ تھی ، اس کے اپنے دل کا خوف ہی اس کو اللہ کے رسول پر ہاتھ ڈالنے سے روکے ہوئے تھا ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :43 یعنی ، مجھے اس سے انقلاب کا خطرہ ہے ، اور اگر یہ انقلاب برپا نہ بھی کرتے تو کم از کم یہ خطرہ تو ہے ہی کہ اس کی کاروائیوں سے ملک میں فساد رونما ہو گا ، لہٰذا بغیر اس کے کہ یہ کوئی مستلزم سزائے موت جرم کرے ، محض تحفظ امن عام ( ) کی خاطر اسے قتل کر دینا چاہیے ۔ رہی یہ بات کہ اس شخص کی ذات سے فی الواقع امن عام کو خطرہ ہے یا نہیں ، تو اس کے لیے صرف ہز میجسٹی کا اطمینان کافی ہے ۔ سرکار عالی اگر مطمئن ہیں کہ یہ خطرناک آدمی ہے تو مان لیا جانا چاہیے کہ واقعی خطرناک اور گردن زدنی ہے ۔ اس مقام پر دین بدل ڈالنے کا مطلب بھی اچھی طرح سمجھ لیجیے جس کے اندیشے سے فرعون حضرت موسیٰ کو قتل کر دینا چاہتا تھا ۔ یہاں دین سے مراد نظام حکومت ہے اور فرعون کے قول کا مطلب یہ ہے کہ انی اخاف ان یغیر سلطانکم ( روح المعانی ، ج 24 ص 56 ) ۔ بالفاظ دیگر ، فرعون اور اس کے خاندان کے اقتدار اعلیٰ کی بنیاد پر مذہب و سیاست اور تمدن و معیشت کا جو نظام مصر میں چل رہا تھا وہ ملک کا دین تھا ، اور فرعون کو حضرت موسیٰ کی دعوت سے اسی دین کے بدل جانے کا خطرہ تھا ۔ لیکن ہر زمانے کے مکار حکمرانوں کی طرح اس نے بھی یہ نہیں کہا کہ مجھے اپنے ہاتھ سے اقتدار نکل جانے کا خوف ہے اس لیے میں موسیٰ کو قتل کرنا چاہتا ہوں ، بلکہ صورت معاملہ کو اس نے اس طرح پیش کیا کہ لوگو ، خطرہ مجھے نہیں ، تمہیں لاحق ہے ، کیونکہ موسیٰ کی تحریک اگر کامیاب ہو گئی تو تمہارا دین بدل جائے گا ۔ مجھے اپنی فکر نہیں ہے ۔ میں تو تمہاری فکر میں گھلا جا رہا ہوں کہ میرے سایہ اقتدار سے محروم ہو کر تمہارا کیا بنے گا ۔ لہٰذا جس ظالم کے ہاتھوں یہ سایہ تمہارے سر سے اٹھ جانے کا اندیشہ ہے اسے قتل کر دینا چاہیے کیونکہ وہ ملک اور قوم کا دشمن ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani